مون لائیٹ آفریدی
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 30، 2011
- پیغامات
- 640
- ری ایکشن اسکور
- 409
- پوائنٹ
- 127
ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ اگر نیت صحیح ہوبلکہ ہم تو نیت کو دیکھیں گے اگر سب کی نیت خود کشی کی ہی تھی تو حرام موت ہو گی
ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ اگر نیت صحیح ہوبلکہ ہم تو نیت کو دیکھیں گے اگر سب کی نیت خود کشی کی ہی تھی تو حرام موت ہو گی
بڑی عجیب منطق ہے کہ عامی انسان کو سمجھ نہ آرہا ہو تو شریعت کا حکم ہی تبدیل کردو ؟؟؟؟ اگر قران و حدیث سے کوئی دلیل ہے تو بتا دیںآج عامی لوگوں کے سامنے کچھ جماعت والے انکو مطلقا حرام کہتے نظر آتے ہیں تو اسکی وجہ مصلحت اور ساتھ عامی انسان کی کم علمی ہے اسکو اگر یہ سارے دلائل سمجھانے بیٹھ جائیں گے تو معاملہ بگڑ جائے گا جس طرح بچا پوچھتا ہے کہ اللہ کتنا بڑا ہے یا اس طرح کا کوئی اور سوال پوچھ لیتا ہے تو اسکو سمجھانے کی بجائے اسکا رخ دوسری طرف پھیرا جاتا ہے واللہ اعلم
ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستانی افواج کہ اس جنگ کا مقصد اللہ کے دین کو غالب کرنا ہرگز نہیں ہے ۔ بلکہ یہ تو جمہوریت کو شریعت پر غالب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جس طرح یہ خود یہود و نصارٰی کے پیروکار ہیں دوسروں کو بھی ویسا ہی بنا نا چاہتے ہیں۔ جتنے فوجی طالبان نے قید کیے ہیں کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ وہ اسلام کے غلبے کے لیئے لڑ رہا ہے۔۔۔پس اگر کوئی کسی وطن کے لئے جان دے رہا ہے اور اس سے اسکا مقصد یہ ہو کہ اس وطن کو بچانے سے اللہ کا دین غالب ہو گا اور واقعی وہ خلوص دل سے اللہ کے دین کو غالب دیکھنا چاہتا ہے اور یہ بھی پتا ہے دین کے غلبہ سے کیا مراد ہے تو سمجھیں کہ اسکا عمل قبل العلم نہیں بلکہ العلم قبل العمل ہے پھر شاید اس کو اجر ملے گا اگرچہ پریکٹیکل اسکی سوچ ممکن نہ بھی ہو واللہ علم
محترم اس بات کی کیا دلیل ہے قران و حدیث سے آپ کے پاس کہ۔۔۔۔۔۔ صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب کوئی اور راستہ بھی نہ ہو اور مصلحت بہت ہی زیادہ ہو آج کل کے حملوں کی طرح نہیں جس میں میرے علم کے مطابق فائدہ نہیں ہوتا واللہ اعلم
2-پاکستان کے خلاف خود کش حملہ تو دور کی بات عام جہاد بھی کرنا میرے خیال میں شریعت کے مصلحت کے تقاضے کو دیکھتے ہوئے درست نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ جب مجھے دلائل سے سمجھ آ جائے گا تو میں اللہ کی توفیق سے رجوع کر لوں گا واللہ اعلم
اس مصلحت کا تعلق علاقے سے نہیں بلکہ حالات سے ہے مثلا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اندر کے گستاخ رسول عبد اللہ بن ابی کو (جسکی گستاخی کا گواہ قرآن ہے) کسی مصلحت کے تحت قتل نہیں کروایا مگر ابو رافع (اسکا نام بھی عبد اللہ بن ابی ہی آتا ہے) اور کعب بن اشرف کو قتل کروایا
درج بالا تحریر سے تو صرف یہ دلیل ملتی ہے کہ مصلحت کا فیصلہ تو مسلمانوں کے لشکر کے امیر نے کرنا ہے ۔۔ نیز جو آپ نے کہا ہے کہ ’’ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا کہ لوگ یہ کہیں گے کہ یہ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے‘‘ تو اس بارے میں علما نے لکھا ہے کہ یہ حکم قرآن کی آیت ـ یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھ سے منسوخ ہے اور اس کا ثبوت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا مانعین زکوٰۃ سے قتال کرنا ہے یاد رہے ان میں بعض ایسے بھی تھے جو زکوٰۃ کے مطلقاََ منکر نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کا اصرار تھا کہ پچھلے سال کی نسبت کم زکوٰۃ دیں گے اور بعض ایسے تھے جو کہتے تھے کہ اس سال ہم سے زکوٰۃ نہ لی جائے اگلے سال ادا کر ینگے ۔۔۔ مگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اُن سے قتال فرمایا اور اونٹ کی رسی برابر بھی زکوٰۃ میں کمی برداشت نہ فرمائی ۔ یہ تھی مصلحت ۔اب کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ ابو رافع (عبد اللہ بن ابی) دوسرے عبد اللہ بن ابی سے زیادہ خطرناک تھا بلکہ مصلحت کو دیکھتے ہوئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا کہ لوگ یہ کہیں گے کہ یہ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے کیونکہ عام لوگوں تک ہر تفصیل نہیں پہنچ سکتی تو آج کل تو میڈیا دجالی ہے تو بات کو کس طرح بگاڑ کر آگے پیش کرے گا تو نقصان اسلام کا ہی ہو گا۔۔۔ جلدی میں اتنا ہی لکھ سکا اگر بات سمجھ نہ آئی ہو یا میرے سمجھانے کے لئے آپ کے پاس کوئی دلیل ہو تو الدین نصیحۃ کے تحت لازمی بتائیں جزاک اللہ خیرا
جزاک اللہ خیرا محترم بھائی بالکل ٹھیک بات کی ہے البتہ کسی عمل کے لئے نیت ہی شرط نہیں ہوتی نیت بھی شرط ہوتی ہے یعنی نیت کے ساتھ درست اجتہاد بھی ضروری ہوتا ہے جس پر دوہرا ثواب ملتا ہے واللہ اعلمہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ اگر نیت صحیح ہو
محترم بھائی پہلی بات تو یہ میرا موقف نہیں بلکہ میں نے انکے موقف کی دلیل دی ہے انکے پاس کچھ دلائل ہیں اگرچہ آپکو یا مجھے کمزور ہی لگیں لیکن جب جائز تاویل کی گنجائش ہو تو ہمیں نیت پر شک نہیں کرنا چاہئے معاملہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہئے واللہ اعلم مثال: کلمہ پڑھنے پر جنت میں جانے والی حدیث بیان کرنے پر عمر رضی اللہ عنہ کا ابو ہریرہ کو روکنا وغیرہعبدہ نے کہا ہے: ↑
آج عامی لوگوں کے سامنے کچھ جماعت والے انکو مطلقا حرام کہتے نظر آتے ہیں تو اسکی وجہ مصلحت اور ساتھ عامی انسان کی کم علمی ہے اسکو اگر یہ سارے دلائل سمجھانے بیٹھ جائیں گے تو معاملہ بگڑ جائے گا جس طرح بچا پوچھتا ہے کہ اللہ کتنا بڑا ہے یا اس طرح کا کوئی اور سوال پوچھ لیتا ہے تو اسکو سمجھانے کی بجائے اسکا رخ دوسری طرف پھیرا جاتا ہے واللہ اعلم
بڑی عجیب منطق ہے کہ عامی انسان کو سمجھ نہ آرہا ہو تو شریعت کا حکم ہی تبدیل کردو ؟؟؟؟ اگر قران و حدیث سے کوئی دلیل ہے تو بتا دیں
تو محترم بھائی میں نے اس بات کا انکار کب کیا ہے میں ان باتوں کے لئے لڑنے والوں کو شہید نہیں کہتا البتہ میرے خیال میں (آپ اختلاف بھی کر سکتے ہیں) یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی فوجی یا سپاہی ایسا بھی ہو جو اوپر کے سارے کام میں معاونت بھی نہ کرتا ہو اور دین کے غلبے کے لئے نہیں بلکہ پیٹ کے لئے ملازمت کرتا ہو تو پھر اگر وہ کسی وجہ سے مارا جاتا ہے تو اسکی نیت کے مطابق اسکو اٹھایا جائے گا جیسا کہ مکہ پر حملہ آور لشکر والی حدیث میں آتا ہے واللہ اعلمعبدہ نے کہا ہے: ↑
پس اگر کوئی کسی وطن کے لئے جان دے رہا ہے اور اس سے اسکا مقصد یہ ہو کہ اس وطن کو بچانے سے اللہ کا دین غالب ہو گا اور واقعی وہ خلوص دل سے اللہ کے دین کو غالب دیکھنا چاہتا ہے اور یہ بھی پتا ہے دین کے غلبہ سے کیا مراد ہے تو سمجھیں کہ اسکا عمل قبل العلم نہیں بلکہ العلم قبل العمل ہے پھر شاید اس کو اجر ملے گا اگرچہ پریکٹیکل اسکی سوچ ممکن نہ بھی ہو واللہ علم
ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستانی افواج کہ اس جنگ کا مقصد اللہ کے دین کو غالب کرنا ہرگز نہیں ہے ۔ بلکہ یہ تو جمہوریت کو شریعت پر غالب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جس طرح یہ خود یہود و نصارٰی کے پیروکار ہیں دوسروں کو بھی ویسا ہی بنا نا چاہتے ہیں۔ جتنے فوجی طالبان نے قید کیے ہیں کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ وہ اسلام کے غلبے کے لیئے لڑ رہا ہے۔۔۔
محترم بھائی میں پہلے بتا دوں کہ خود کش حملہ کے بارے میں مخلص علماء میں اختلاف رہا ہے کچھ اسکے مطلقا قائل نہیں کچھ کچھ شرائط کے ساتھ قائل ہیں اور کچھ انتہائی سخت شرائط کے ساتھ قائل ہیں آپ مجھے آخری والوں کے ساتھ سمجھیں اگر آپ دوسرے گروہ کے ساتھ بھی ہیں تو پھر مسئلہ تو وہاں اجتہاد کا آ جاتا ہے کہ کم شرط بھی کیا ہو گی وہ فیصلہ ہم نہیں کر سکتے اور کر بھی سکتے ہیں تو ہمارے درمیان اختلاف بھی ہو سکتا ہےعبدہ نے کہا ہے: ↑
۔۔۔۔۔۔ صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب کوئی اور راستہ بھی نہ ہو اور مصلحت بہت ہی زیادہ ہو آج کل کے حملوں کی طرح نہیں جس میں میرے علم کے مطابق فائدہ نہیں ہوتا واللہ اعلم
2-پاکستان کے خلاف خود کش حملہ تو دور کی بات عام جہاد بھی کرنا میرے خیال میں شریعت کے مصلحت کے تقاضے کو دیکھتے ہوئے درست نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ جب مجھے دلائل سے سمجھ آ جائے گا تو میں اللہ کی توفیق سے رجوع کر لوں گا واللہ اعلم
محترم اس بات کی کیا دلیل ہے قران و حدیث سے آپ کے پاس کہ
'' (فدائی حملہ) صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب کوئی اور راستہ بھی نہ ہو اور مصلحت بہت ہی زیادہ ہو''
آپ کے بارے میں حسن ظن تو یہی ہے آپ نے اہل حدیث ہونے کے ناطے قرآن یا حدیث سے ہی اس بات کے لئے دلیل لی ہوگی۔ یہاں بھی شیئر کردیں تاکہ ہمارے جیسے بھی استفادہ کرسکیں۔
محترم بھائی جو لوگ اسکے فوائد سے واقف ہیں وہ انکے علم کے مطابق ہے میرا جو علم ہے یا جتنا میں نے مشاہدہ کیا ہے یا میری عقل ہے میں تو اسکے مطابق فیصلہ کروں گا ہاں انکو اپنے علم کے مطابق غلطی پر سمجھوں گا مگر ہو سکتا ہے کہ اللہ کے ہاں وہ درست ہوں میں غلط ہوں مگر میرا اللہ تو مجھے میری طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بناتانیز معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ فیصلہ کرنا گھر بیٹھ کر میرا یا آپ کا کام نہیں کہ فدائی حملے سے فائدہ ہوتا ہے یا نہیں ۔۔ جو لوگ اس جنگ کو میدان میں لڑ رہے ہیں وہ اس کے فوائد سے واقف ہیں اور اگر فائدہ نہ ہوتا تو ایسے حملے دوبارہ نہ کیے جاتے ۔۔۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ آپ ہی کی تحریر کے مطابق 'دجالی میڈیا' اس بات پر پورا زور لگا رہا ہے کسی طرح سے فدائی حملے کو حرام قرار دے کر ان حملوں کو روکا جاسکے ۔ اس مقصد کے لیئے طاہر القادری جیسوں کی خدمات لی جاتی ہیں اور ایک ٹی وی پروگرام میں حافظ سعید بھی یہ کہہ چکے ہیں ' ہم نے خود کش کو کبھی جائز نہیں کہا ۔ ہم نے الحمد للہ اس کے خلاف کام کیا ہے ۔ اس پر برملا لیکچر دیئے ہیں '' فیا للعجب ۔۔
محترم بھائی میری معلومات کے مطابق اس پر اجماع میں نے نہیں پڑھا کہ جو اللہ کے نبی صلی اللہ علہ وسلم کو ڈر تھا کہ لوگ کہیں گے کہ یہ اپنے لوگوں کو قتل کرتا ہے وہ ڈر اب تا قیامت اس آیت کی وجہ سے ختم ہو گیا ہے میرے خیال میں تو وہ ڈر اسلام کی ابتداء میں اسلامی نظریے کی شہرت نہ ہونے کی وجہ سے تھا جس طرح خآنہ کعبہ کے حطیم کا معاملہ تھا تو ایسے حالات کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں اگر آپ کہیں کہ کچھ مفسرین اسکو منسوخ مانتے ہیں تو میں کہوں گا کہ کچھ تو کم از کم ایسے ہیں منسوخ نہیں مانتے تو انکا کیا حکم ہو گا واللہ اعلمعبدہ نے کہا ہے: ↑
اس مصلحت کا تعلق علاقے سے نہیں بلکہ حالات سے ہے مثلا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اندر کے گستاخ رسول عبد اللہ بن ابی کو (جسکی گستاخی کا گواہ قرآن ہے) کسی مصلحت کے تحت قتل نہیں کروایا مگر ابو رافع (اسکا نام بھی عبد اللہ بن ابی ہی آتا ہے) اور کعب بن اشرف کو قتل کروایا
عبدہ نے کہا ہے: ↑
اب کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ ابو رافع (عبد اللہ بن ابی) دوسرے عبد اللہ بن ابی سے زیادہ خطرناک تھا بلکہ مصلحت کو دیکھتے ہوئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا کہ لوگ یہ کہیں گے کہ یہ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے کیونکہ عام لوگوں تک ہر تفصیل نہیں پہنچ سکتی تو آج کل تو میڈیا دجالی ہے تو بات کو کس طرح بگاڑ کر آگے پیش کرے گا تو نقصان اسلام کا ہی ہو گا۔۔۔ جلدی میں اتنا ہی لکھ سکا اگر بات سمجھ نہ آئی ہو یا میرے سمجھانے کے لئے آپ کے پاس کوئی دلیل ہو تو الدین نصیحۃ کے تحت لازمی بتائیں جزاک اللہ خیرا
درج بالا تحریر سے تو صرف یہ دلیل ملتی ہے کہ مصلحت کا فیصلہ تو مسلمانوں کے لشکر کے امیر نے کرنا ہے ۔۔ نیز جو آپ نے کہا ہے کہ '' اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا کہ لوگ یہ کہیں گے کہ یہ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے'' تو اس بارے میں علما نے لکھا ہے کہ یہ حکم قرآن کی آیت ـ یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھ ولیجدو فیکم غلظۃ سے منسوخ ہے اور اس کا ثبوت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا مانعین زکوٰۃ سے قتال کرنا ہے یاد رہے ان میں بعض ایسے بھی تھے جو زکوٰۃ کے مطلقاََ منکر نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کا اصرار تھا کہ پچھلے سال کی نسبت کم زکوٰۃ دیں گے اور بعض ایسے تھے جو کہتے تھے کہ اس سال ہم سے زکوٰۃ نہ لی جائے اگلے سال ادا کر ینگے ۔۔۔ مگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اُن سے قتال فرمایا اور اونٹ کی رسی برابر بھی زکوٰۃ میں کمی برداشت نہ فرمائی ۔ یہ تھی مصلحت ۔
محترم بھائی میں نے جو مصلحت بیان کی ہے اس پر اوپر جنگ خندق سے مثال بھی دی ہے پس آپ نے اوپر جو صورتیں گنوائی ہیں ان سے کچھ بھائیوں کے نزدیک پاکستان اسلام کا محارب ٹھہرتا ہے تو اسی کے لئے محارب یہودیوں کی مثال دی تھی جن کے خلاف اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرب موخر کر دی تھی تاکہ باہر والوں سے نمٹا جا سکے تو اگر آپ کو یہ سمجھ نہیں آتا تو دوسروں کو تو اسکا حق دیا جانا چاہئے واللہ اعلماب آپ فرماتے ہیں ایسے لوگوں سے بھی نہ لڑا جائے جو سرے سے شریعت ہی کے منکر ہیں ۔ سُودی نظام کے محافظ ہیں اور صرف جمہوریت کی خاطر اور امریکہ کے اتحادی بن کر مسلمانوں سے لڑ رہے ہیں مسلمانوں کے مردوں ، عورتوں اور بچوں تک کو کفار کے حوالے کر چکے ہیں ۔۔
یہ بھی آپ کو معلوم ہوگا کہ اس جنگ کی ابتدا فوج کی جانب سے ہوئی ہے طالبان کی طرف سے نہیں ۔ تو کس طرح طالبان سے یہ مطالبہ کیا جاسکتا ہے جو آپ سے لڑ رہا ہے اس سے مت لڑیں ۔۔ یہ درس اسلام نے تو ہرگز نہیں دیا حتٰی کہ اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر ظلم کرتے ہوئے اس سے لڑے تو اس مسلمان کو جوابا لڑنے کا حکم ہے ۔ یہاں تو اس فوج اور حکومت سے لڑائی کی بات ہورہی ہے جو :
۱۔ عالمی صلیبی جنگ میں کفار کی فرنٹ لائن اتحادی ہے ۔
۲۔ جمہوریت کی محافظ ہے ۔
۳۔ شریعت کو نافذ کرنے سے انکاری ہے ۔
۴۔ معاشرے میں بے حیائی بدکاری کو فروغ دے رہی ہے۔
۵۔ لاکھوں مسلمانوں کے قتل میں بالواسطہ اور بلا واسطہ شریک ہے۔
اور ایک طویل فہرست ہے ان کے جرائم کی جس کی تفصیل کے لئے پاکستان کے قیام سے لے کر موجودہ دور تک کے واقعات کو درج کرنا پڑے گا۔ عقلمندوں کے لئے درج بالا پانچ نکات ہی کافی ہیں۔
مجبوریاں تو افغانستان عراق ودیگر ممالک کی افواج کی بھی ہیں جس کی وجہ سے وہ حربی کافر امریکہ سے نہیں لڑتے ۔مگر کچھ مجبوریوں کی وجہ سے اسکا اقرار نہ کر سکتے ہوں
اب اگر ہر ملک میں یہ شرط لاگو کیا جائے کہ پہلے باہر والوں سے نمٹا جائے تو اپنے گھر والوں کی اصلاح کون کرے گا ؟جن کے خلاف اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرب موخر کر دی تھی تاکہ باہر والوں سے نمٹا جا سکے
محترم بھائی اس طرح سے قیاس مع الفارق ہو جائے گا درست قیاس یہ ہو سکتے ہیں
مگر کچھ مجبوریوں کی وجہ سے اسکا اقرار نہ کر سکتے ہوں(عبدہ)
مجبوریاں تو افغانستان عراق ودیگر ممالک کی افواج کی بھی ہیں جس کی وجہ سے وہ حربی کافر امریکہ سے نہیں لڑتے ۔
محترم بھائی اگر اصلاح سے آپ کی مراد بلسانہ والی ہے تو اس سے تو کوئی منع نہیں کرتا اور اگر آپکی اصلاح سے مراد بیدہ والی ہے تو اسی کی تو آپ کے نظریے کے مطابو مثال بیان کی تھی کہ جب زیادہ قوتیں محارب ہو جائیں تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطابق کبھی بہتری اس میں بھی ہو سکتی ہے کہ سب سے لڑیں اور کبھی اس میں بھی ہو سکتی ہے کہ کسی ایک محارب سے کچھ شرائط پر (کمزور ہی سہی) صلح کر لی جائے جیسے جنگ خندق میں کچھ قبائل کو کچھ دے کر صلح کا کہا گیا تھا اور یہودیوں سے جنگ چھیڑنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی پس کیا آپ یہ سوال محمد صلی اللی علیہ وسلم سے کر سکتے ہیںجن کے خلاف اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرب موخر کر دی تھی تاکہ باہر والوں سے نمٹا جا سکے (عبدہ)
اب اگر ہر ملک میں یہ شرط لاگو کیا جائے کہ پہلے باہر والوں سے نمٹا جائے تو اپنے گھر والوں کی اصلاح کون کرے گا ؟
جزاک اللہ محترم بھائی مگر مجھے لگتا ہے کہ شاید آپ نے واقعی دوسرا رخ پیش کر دیااس بات کا ایک رُخ یہ بھی ہے کہ
اگر عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین کو مصلحت و مفسدہ کے تقابل کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے قتل نہیں کروایا
تو
-----
آج کل کی حکومت کا معاملہ ایسا نہیں ہے
لہٰذا ایسی حکومت و فوج وغیرہ کو نبی اکرم ﷺ کی وہ رعایت فائدہ دیتی دکھائی نہیں دیتی جس کے تحت رسول اللہ ﷺ نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو قتل نہیں کروایا۔
خالی خالی باتوں پر ہر قسم کی رعایت اُن لوگوں سے حاصل کرنا جو دین نافذ کرنے میں مخلص ہیں،
کیا مناسب ہے؟؟؟