فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ
شریعت میں دوسری شادی کی پابندی نہیں ہے لیکن دوسری شادی میں پابندی ضرور ہے!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے خیال میں اس موضوع کے متعلق قرآن حکیم کا متعلقہ مقام علماء کی توضیح کے ساتھ دیکھ لینا مفید رہے گا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ
شریعت میں دوسری شادی کی پابندی نہیں ہے لیکن دوسری شادی میں پابندی ضرور ہے!!
یہ فرمان ِ خداوندی جس آیتِ قرآنی سے لیا ہے ،وہ پوری آیت باترجمہ پیش ہے ؛
وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِنْ تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا0
ترجمہ : اگر تم اپنی بیویوں کے درمیان کماحقہ عدل کرنا چاہو بھی تو ایسا ہرگز نہ کرسکو گے ، لہذا یوں نہ کرنا کہ ایک بیوی کی طرف تو پوری طرح مائل ہوجاؤ اور باقی کو لٹکتا چھوڑ دو۔ اور اگر تم اپنا رویہ درست رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو بلاشبہ اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس آیت کریمہ کا مفہوم و مراد اور متعلقات جاننے کیلئے اس سے پہلے والی آیت اور اس کے بعد والی آیات کو بھی دیکھ لینا مفید رہے گا :
سورۃ النساء (آیت 128)میں اللہ رب العزت
زوجین کے حقوق و تعلقات بلکہ معاشرت کی ایک خاص نوعیت و صورت کو بیان فرماتا ہے کہ :
وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ وَإِنْ تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (128)
ترجمہ علامہ عبدالرحمن کیلانیؒ:
اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند سے بدسلوکی یا بے رخی کا اندیشہ ہو تو اگر میاں بیوی آپس میں (کچھ کمی بیشی کرکے) سمجھوتہ کرلیں تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں اور صلح [١٦٨] بہرحال بہتر ہے۔ اور لالچ تو ہر نفس [١٦٩] کو لگا ہوا ہے لیکن اگر تم احسان کرو [١٧٠] اور اللہ سے ڈرتے رہو تو جو کچھ تم کرو گے اللہ یقینا اس سے خوب واقف ہے.
علامہ عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے :
١۔ زوجین کا باہمی سمجھوتہ :۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس آیت کا مطلب یہ بیان فرماتی ہیں کہ مثلاً ایک شخص کے پاس عورت ہو جس سے وہ کوئی میل جول نہ رکھتا ہو اور اسے چھوڑ دینا چاہے اور عورت کہے کہ اچھا میں تجھے اپنی باری یا نان و نفقہ معاف کردیتی ہوں (مگر مجھے طلاق نہ دے) یہ آیت اس باب میں اتری (بخاری، کتاب التفسیر)
٢۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ام المومنین سیدہ سودہ کو اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں طلاق نہ دے دیں، تو انہوں نے آپ سے کہا ''مجھے طلاق نہ دیجیے اپنے پاس ہی رکھیے اور میں اپنی باری ام المومنین سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہا کو دے دیتی ہوں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ گویا میاں بیوی جس شرط پر بھی صلح کرلیں وہ جائز ہے۔'' (ترمذی، ابو اب التفسیر)
[١٦٩] یہاں لالچ سے مراد صرف مال و دولت کا لالچ نہیں بلکہ اس میں تمام مرغوبات نفس شامل ہیں جیسا کہ حدیث نمبر ٢ سے معلوم ہوتا ہے۔ یعنی اگر عورت اپنے خاوند کی پسند کو ملحوظ خاطر رکھے گی تو یقینا مرد کا دل بھی نرم ہوجائے گا اور صلح کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔
[١٧٠] یعنی اگر تم بغیر کسی لالچ کے محض اللہ سے ڈر کر اپنی بیوی سے بہتر سلوک کرو اور اسے طلاق نہ دو تو اللہ سے یقینا تمہیں اس احسان کا بدلہ مل جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ سورۃ النساء (آیت 128) کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
خاوند اگر کسی وجہ سے اپنی بیوی کو ناپسند کرے اور اس سے دور رہنا اور اعراض کرنا معمول بنا لے یا ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی صورت میں کسی کو کم ترخوب صورت بیوی سے اعراض کرے تو عورت اپنا کچھ حق چھوڑ کر (مہر سے یا نان و نفقہ سے یا باری سے) خاوند سے مصالحت کرلے تو اس مصالحت میں خاوند یا بیوی پر کوئی گناہ نہیں کیونکہ صلح بہرحال بہتر ہے۔ حضرت ام المومنیں سودۃ (رض) نے بھی بڑھاپے میں اپنی باری ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے لئے ہبہ کردی تھی جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا۔
(صحیح بخاری) ١٢٨
۔ ٢ شُحّ بخل اور طمع کو کہتے ہیں۔ یہاں مراد اپنا اپنا مفاد ہے جو ہر نفس کو عزیز ہوتا ہے یعنی ہر نفس اپنے مفاد میں بخل اور طمع سے کام لیتا ہے۔
وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِنْ تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا (129)
ترجمہ علامہ عبدالرحمن کیلانیؒ:
اگر تم اپنی بیویوں کے درمیان کماحقہ عدل کرنا چاہو بھی تو ایسا ہرگز نہ [١٧١] کرسکو گے ، لہذا یوں نہ کرنا کہ ایک بیوی کی طرف تو پوری طرح مائل ہوجاؤ [١٧٢] اور باقی کو لٹکتا چھوڑ دو۔ اور اگر تم اپنا رویہ درست رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو بلاشبہ اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے "
علامہ کیلانیؒ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
[١٧١] کسی ایک بیوی کی طرف میلان طبع کی وجوہ :۔ وہ اس لیے کہ مثلاً ایک بیوی جوان ہے، دوسری بوڑھی ہے، ایک خوبصورت ہے دوسری قبول صورت یا بدصورت ہے، ایک کنواری ہے دوسری شوہر دیدہ ہے، ایک خوش مزاج ہے دوسری تلخ مزاج ہے ایک ذہین و فطین ہے تو دوسری غبی اور کند ذہن ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ ایسی صفات ہیں جن میں اگرچہ عورت کا اپنا کچھ عمل دخل نہیں تاہم یہ خاوند کے لیے میلان یا عدم میلان طبع کا باعث ضرور بن جاتی ہیں اور یہ فطری امر ہے۔ اس قسم کے میلان و عدم میلان پر انسان کا چونکہ اپنا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا لہذا ایسے امور پر اللہ کی طرف سے گرفت اور مواخذہ نہیں۔ مواخذہ تو صرف ان باتوں پر ہوگا جو انسان کے اپنے اختیار میں ہوں مثلاً نان و نفقہ اور دیگر ضروریات زندگی کا خیال رکھنا عورتوں کی باری مقرر کرنا وغیرہ۔ اب جو باتیں انسان کے بس میں نہیں ان کے متعلق ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم کما حقہ عدل نہ کرسکو گے۔ [١٧٢] بیویوں کے درمیان عدل کی حقیقت :۔ یعنی جن باتوں میں انسان انصاف کرنے کا اختیار رکھتا ہے ان کا ضرور لحاظ رکھا کرو۔ اس سے خودبخود ہی یہ نتیجہ پیدا ہوجائے گا کہ نہ تو تم ایک ہی بیوی کی طرف پوری طرح جھکو گے اور نہ کسی دوسری سے بالکل بے تعلق رہ سکو گے۔ اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ آپ نے فرمایا ''جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف میلان رکھے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہوگا۔'' (دارمی، کتاب النکاح، باب فی العدل بین النسائ) ٢۔ سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے اپنا باری کا دن (اور ایک روایت میں ہے کہ دن اور رات) ام الومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کردیا تھا۔ اس طرح آپ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں دو دن رہا کرتے، ایک ان کا اپنا باری کا دن اور ایک سودہ کا دن۔
(بخاری، کتاب النکاح باب المراۃ تھب یومھا من زوجہا لضرتھا و کیف یقسم ذلک) ٣۔ ام الومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ کا یہ دستور تھا کہ عصر کے بعد آپ اپنی تمام بیویوں کے ہاں جایا کرتے تھے "
(بخاری، کتاب النکاح، باب دخول الرجل علی نسائہٖ فی الیوم)
٤۔ ام الومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ جب (مرض الموت میں) بیمار ہوئے اور بیماری شدت اختیار کرگئی تو آپ نے باقی بیویوں سے اجازت لی کہ آپ کی تیمار داری میرے گھر میں کی جائے تو تمام بیویوں نے آپ کو اجازت دے دی (بخاری، کتاب الہبہ، باب ھبۃ الرجل لامرأتِہٖ والمراۃ لزوجھا)
٥۔ نظریہ یک زوجگی کا رد :۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، یہ سنت ہے کہ جب کسی کنواری سے نکاح کرے تو اس کے ہاں سات دن رہے پھر باری مقرر کرے۔ اور جب شوہر دیدہ سے نکاح کرے تو اس کے ہاں تین دن رہے پھر باری مقرر کرے۔"
(بخاری کتاب النکاح، باب اذاتزوج البکر علی الثیب و باب اذاتزوج الثیب علی البکر)
بعض مسلمان جو تہذیب مغرب سے مرعوب ہیں اور یک زوجگی کے قائل ہیں، یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام ایک طرف تو تعدد ازواج کی اجازت دیتا ہے لیکن دوسری طرف عدل کو ناممکن قرار دے کر عملاً اس اجازت کو منسوخ کردیتا ہے۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عدل کو ناممکن صرف ان امور میں کہا ہے جو انسان کے بس سے باہر ہیں اور ان پر مواخذہ بھی نہیں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔ اور دوسرا جواب اسی آیت کے اندر موجود ہے جو اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ ''لہٰذا ایک ہی بیوی کی طرف نہ جھک جاؤ۔'' اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ بیویوں کی اللہ نے اجازت دے رکھی ہے۔ اس طرح ان کے شبہ یا اعتراض کی مکمل تردید ہوجاتی ہے۔
(تفسیر تیسیر القرآن )
اور اس سے اگلی آیت (129)
وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
ترجمہ :
تم سے یہ کبھی نہیں ہو سکے گا کہ اپنی تمام بیویوں میں ہر طرح عدل کرو گو تم اس کی کتنی ہی خواہش و کوشش کرلو اس لئے بالکل ہی ایک کی طرف مائل ہو کر دوسری کو ادھڑ لٹکتی نہ چھوڑو (١) اور اگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو بیشک اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والا ہے۔"
اس کی تفسیر میں علامہ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب لکھتے ہیں :
١٢٩۔ ١ یہ ایک دوسری صورت ہے کہ ایک شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو دلی تعلق اور محبت میں وہ سب کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کرسکتا۔ کیونکہ محبت، فعل قلب ہے جس پر کسی کو اختیار نہیں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنی بیویوں میں سے زیادہ محبت ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے تھی۔ خواہش کے باوجود انصاف نہ کرنے سے مطلب یہی قلبی میلان اور محبت میں عدم مساوات ہے اگر یہ قلبی محبت ظاہری حقوق کی مساوات میں مانع نہ بنے تو عند اللہ قابل مؤاخذہ نہیں۔ جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نہایت عمدہ نمونہ پیش فرمایا۔ لیکن اکثر لوگ اس قلبی محبت کی وجہ سے دوسری بیویوں کے حقوق کی ادائیگی میں بہت کوتاہی کرتے ہیں اور ظاہری طور پر بھی محبوب بیوی کی طرح دوسری بیویوں کے حقوق ادا نہیں کرتے اور انہیں معلقہ (درمیان میں لٹکی ہوئی) بناکر رکھ چھوڑتے ہیں، نہ انہیں طلاق دیتے ہیں نہ حقوق زوجیت ادا کرتے ہیں۔ یہ انتہائی ظلم ہے جس سے یہاں روکا گیا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے"جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف ہی مائل ہو (یعنی دوسری کو نظر انداز کئے رکھے) تو قیامت کے دن وہ اس طرح آئے گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ (یعنی نصف) ساقط ہوگا۔ (ترمذی، کتاب النکاح)
(تفسیر احسن البیان )
وَإِنْ يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلًّا مِنْ سَعَتِهِ وَكَانَ اللَّهُ وَاسِعًا حَكِيمًا (130)
اور اگر دونوں میاں بیوی (میں صلح نہ ہوسکے اور وہ) ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں تو اللہ اپنی مہربانی سے ہر ایک کو (دوسرے کی محتاجی سے)[١٧٣] بے نیاز کردے گا اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا اور حکمت والا ہے۔
علامہ کیلانیؒ فرماتے ہیں :
اور اگر ان میں نباہ اور حسن معاشرت کی کوئی صورت نظر نہ آ رہی ہو تو اسلام اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ایک گھرانہ میں ہر وقت کشیدگی کی فضا قائم رہے اور جہنم زار بنا رہے۔ اس سے بہتر ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں۔ خواہ مرد طلاق دے دے یا عورت خلع لے لے۔ پھر دونوں کا اللہ مالک ہے وہ ان کے لیے بہت سامان پیدا فرما دے گا۔ اور یہ بات کئی بار تجربہ میں آ چکی ہے کہ جن دو میاں بیوی کا آپس میں نباہ ہونا ناممکن نظر آ رہا تھا اور وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے نالاں اور ایک دوسرے پر الزام دھرتے تھے جب دونوں الگ ہوگئے تو ان دونوں کو اللہ نے اپنے اپنے گھروں میں سکھ چین سے آباد کردیا اور پھر زندگی بھر ان نئے جوڑوں میں موافقت و موانست کی فضا برقرار رہی اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بسا اوقات میاں اور بیوی دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے ذہن میں دوسرے کے متعلق ایسی بدظنیاں اور بدگمانیاں پیدا ہوجاتی ہیں کہ وہ ہر سیدھی بات سے بھی غلط نتیجہ ہی اخذ کرتے ہیں۔ پھر جب انہیں نیا ماحول میسر آ جاتا ہے جس میں ذہن ایک دوسرے کی طرف سے بالکل صاف ہوتے ہیں تو ایسی کوئی کشیدگی پیدا نہیں ہوتی اور ان دونوں کی خوش باش زندگی کا نیا دور شروع ہوجاتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ