حرب بن شداد
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 13، 2012
- پیغامات
- 2,149
- ری ایکشن اسکور
- 6,345
- پوائنٹ
- 437
ازروئے حدیث متعہ کی حرمت۔
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں!۔خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے متعہ کی ممانعت کا اعلان فرما دیا تھا (اخرجہ البخاری ومسلم)۔۔۔
حضرت ربیع بن ثبرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر نکاح متعہ کی ممانعت فرمادی تھی (اخرجہ مسلم)۔۔۔
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے!۔
غزوہ اوطاس کے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن کے لئے ہمیں متعہ کی اجازت مرحمت فرمائی بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ممنوع قرار دے دیا (اخرجہ مسلم)۔۔۔
حضرت ربیع بن ثبرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے!۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لوگو! میں نے تم کو عورتوں سے متعہ کی اجازت دی تھی تو کان کھول کر سُن لو! اللہ تعالٰی نے اب اسے قیامت کے دن تک حرام قرار دیدیا ہے (اخرجہ مسلم)۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا! نوجوانو! تم میں سے جو شادی کی طاقت رکھتا ہے اسے شادی کرلینی چاہئے اور جوشادی کی استطاعت نہیں رکھتا اس کو چاہئے کہ وہ کثرت سے روزے رکھے کیونکہ روزے قوت شہوانی کو قابو میں رکھنے کا مجرب نسخہ ہے (اخرجہ البخاری ومسلم)۔۔۔
جو نوجوان شادی کی استطاعت نہیں رکھتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح متعہ کا حکم نہیں دیا حالانکہ نکاح متعہ آسان ہے جس پر زیادہ خرچہ درکار نہیں۔۔۔
حضرت جعفر صادق سے مروی ہے کہ اُن سے متعہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ متعہ بعینہ زنا ہے (اخرجہ البیھقی جلد ٧ صفحہ ٢٠٧)۔۔۔
حُرمت متعہ ازروئے اجماع!۔۔۔
نکاح متعہ کی حرمت پر بہت سے علماء کرام نے اجماع نقل کیا ہے چنانچہ۔۔۔
١۔ امام نووی رحمہ اللہ۔۔۔
٢۔ امام المازری رحمہ اللہ۔۔۔
٣۔ امام قرطبی رحمہ اللہ۔۔۔
٤۔ امام خطابی رحمہ اللہ۔۔۔
٥۔ امام ابن منذر رحمہ اللہ۔۔۔
٦۔ امام شوکانی رحمہ اللہ۔۔۔
وغیرہ اس کی حرمت کے قائلین میں صف اول کا مقام رکھتے ہیں۔۔۔
مذکورہ تمام آئمہ نے متعہ کے حرام ہونے پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے۔۔۔لیکن دینائے اسلام میں ایک فرقہ نام نہاد فرقہ ایسا بھی ہے جو متعہ کے جواز کا قائل ہے اور اس کی حلت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ متعہ کا حکم ابھی تک بای ہے اور یہ منسوخ ہوا ہے نہ ہی اسے حرام قرار دیا گیا ہے یہ شیعہ رافضی فرقہ اثناعشریہ ہے۔۔۔
آئیے اب شیعہ دلائل کا جائزہ لیتے ہیں!۔۔۔
شیعوں نے نکاح متعہ کے جواب میں چند ایک دلائل پیش کرنے کی گھناونی سازش کی ہے میں ان کے دلائل پیش کرکے ان کا مُسکت جواب بھی دوں گا۔۔۔
شیعہ نے نکاح متعہ کے جواز میں سورہ نساء کی آس آیت سے استدلال کیا ہے۔۔۔
فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً
س لئے جن سے تم فائده اٹھاؤ انہیں ان کا مقرر کیا ہوا مہر دے دو (نساء ٢٤)۔۔۔
شیعہ رافضی نے آیت مذکورہ میں لفظ استمتاع اور کلمہ (َآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ) سے متعہ کی اباحت پر استدلال کیا ہے اور تائید میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراءت (فما استمتعتم بہ منھن الٰی اجل مسمیٰ) بھی پیش کی ہے کہ یہ کلمات متعہ کے جواز کی غمازی کرتے ہیں یہ شیعہ کی پہلی دلیل ہے جو اُن کے بقول متعہ کا جواز فراہم کرتی ہے۔۔۔
ان کی دوسری دلیل اہل بیت رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب احادیث ہیں شیعہ حضرات کا کہنا ہے کہ اہلبیت رضی اللہ عنھم سے بعض ایسی روایات کا ثبوت موجود ہے جس سے متعہ کا جواز ثابت ہوتا ہے۔۔۔
جناب علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ اگر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ متعہ میں ہم سے سبقت نہ کرتے تو ہم میں سے بےوقوف لوگ ہی زنا کا ارتکاب کرتے (اخرجہ صاحب الرسائل وسائل الشیعہ صفحہ ٢١\٥)۔۔۔
ایک روایت میں ہے کہ بدبخت لوگ ہی زنا کا ارتکاب کرتے۔۔۔
امام صادق رحمہ اللہ سے مروی ہے۔۔۔
جو ہمارے اسلاف کی اتباع نہیں کرتا اور متعہ کو حلال نہیں سمجھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے (اخرجہ صاحب الوسائل جزء ٢١ صفحہ ٦)۔۔۔
امام محمد بن مسلم رحمہ اللہ سے مروی ہے۔۔۔
مجھے ابوعبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ تم دنیا سے اس وقت تک نہ جانا تک کے سنت متعہ کو زندہ نہ کرلو (اخرجہ ایضا صاحب الوسائل ٢١\١٥)۔۔۔
شیعہ کا کہنا ہے کہ متعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اس کو تو عمر رضی اللہ عنہ نے حرام قرار دیا ہے حالانکہ یہ محض ان کا خیال ہے۔۔۔
اہلسنت والجماعت کا کہنا ہے کہ آیت متعہ منسوخ ہوچکی ہے اور سورہ المعارج اور سورہ المومنون کی آیات ناسخہ ہیں۔۔۔
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ۔۔۔
اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ہاں اُن کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جن کے وہ مالک ہیں انہیں کوئی ملامت نہیں اب جو کوئی اس کے علاوہ (راہ) ڈھونڈے گا تو ایسے لوگ حد سے گذر جانے والے ہونگے (المومنون٥-٧)۔۔۔
شیعہ رافضی کہتے ہیں کہ سورہ المعارج اور سورہ المومنون کی آیات مکیہ ہیں جب کے سورہ نساء کی آیت متعہ مدنیہ ہے لہذا مکی آیت مدنی آیت کو منسوخ نہیں کرسکتی یعنی وہ کہتے ہیں کہ آیت متعہ، آیت نہی سے نزول میں متاخر ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ناسخ منسوخ سے تقدیم ہو۔۔۔
شیعہ رافضی کا یہ بھی دعوٰی ہے کہ حرمت متعہ کے دلائل میں اضطراب پایا جاتا ہے کہ کسی حدیث میں نکاح متعہ یوم خیبر کو حرام قرار دے دیا گیا تھا اور کہیں وارد ہوا ہے کہ نکاح متعہ کو عام اوطاس میں ممنوع قرار دیا گیا اور کسی حدیث میں آتا ہے کہ متعہ کے عدم جواز کا حکم فتح مکہ میں ہوا اور کہیں یہ بات باور کرائی جاتی ہے کہ نکاح متعہ کی ممانعت حجہ الوداع میں وارد ہوئی اور کبھی صلح حدیبیہ کے موقع پر اس کے عدم جواز کے حکم کے نزول کی بات کی جاتی ہے کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی حرمت کا حکم دو مرتبہ نازل ہوا کبھی کہا جاتا ہے کہ اس کی حرمت کا حکم ایک مرتبہ نازل ہوا اور کبھی کہا جاتا ہے کہ اس کی حرمت کا حکم تین مرتبہ نازل ہوا۔۔۔۔
شیعہ رافضی کا کہنا ہے کہ متعہ کے جواز یا عدم جواز میں اس طرح کا اضطراب اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی مستند اور قوی حدیث کا ثبوت موجود نہیں۔۔۔
علاوہ ازیں شیعہ رافضی کا موقف ہے کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ صلی اللہ وسلم کے روبرو نکاح متعہ کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تردید نہیں فرمائی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی ابتداء میں متعہ پر عمل درآمد ہوتا رہا یہاں تک کے حضرت حضرت عمر رضی اللہ نے اپنے عہد خلافت میں نکاح متعہ کی ممانعت کا حکم صادر فرمایا۔۔۔
شیعہ رافضیوں کے دلائل کا تنقیدی جائزہ بھی ملاحظہ کیجئے۔۔۔
جہاں تک سورہ نساء کی آیت سے شیعہ رافضی حضرات کا متعہ کے جواز کا استدلال فراہم کا مسئلہ ہے تو ہمیں علماء تفسیر کی آراء اور اُن کے اقوال کے طرف رجوع کرنا چاہئے۔۔۔
اس کے بعد ہمیں آیت کے محل وقوع کو دیکھنا چاہئے اور اس کے سیاق وسباق کا خیال رکھنا چاہئے۔۔۔
اب اسی قاعدے کی رو سے ہم اس آیت کا مطالعہ کرتے ہیں۔۔۔
فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً
س لئے جن سے تم فائده اٹھاؤ انہیں ان کا مقرر کیا ہوا مہر دے دو (نساء ٢٤)۔۔۔
اگر اس آیت کے سیاق وسباق پر غور کیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ آیت کا نکاح متعہ سے دور دور کا تعلق نہیں ہے۔۔۔
کیونکہ اللہ تعالٰی نے سورہ نساء کی اس سے گزشتہ آیت میں اُن عورتوں کی فہرست بیان کردی ہے جن سے ابدی طور پر نکاح حرام ہے
چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے۔۔۔
وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۚ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا
اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے مگر جو گزر چکا ہے، یہ بے حیائی کا کام اور بغض کا سبب ہے اور بڑی بری راہ ہے (نساء ٢٢)۔۔۔
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ
حرام کی گئیں تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری لڑکیاں اور تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خاﻻئیں اور بھائی کی لڑکیاں اور بہن کی لڑکیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری ساس اور تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کر چکے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں اور تمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا ہاں جو گزر چکا سو گزر چکا، یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے ور (حرام کی گئیں) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آجائیں، اللہ تعالیٰ نے یہ احکام تم پر فرض کر دیئے ہیں، اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئیں کہ اپنے مال کے مہر سے تم ان سے نکاح کرنا چاہو برے کام سے بچنے کے لئے نہ کہ شہوت رانی کرنے کے لئے، اس لئے جن سے تم فائدہ اٹھاؤ انہیں ان کا مقرر کیا ہوا مہر دے دو، (نساء ٢٣-٢٤)۔۔۔
اس آیت کے سیاق وسباق سے پتہ چل رہا ہے کہ مذکورہ آیت اپنے منطوق کے اعتبار سے نکاح شرعیہ پر دلالت کررہی ہے نہ کے نکاح متعہ کو حلال قرار دینے کے لئے اس کا ورود ہوا ہے اسی لئے اللہ مشکل کشاء وحدہ لاشریک نے سب سے پہلے اس آیت میں اُن عورتوں کا تذکرہ کیا ہے جن سے شرعی طور پر نکاح کرنا حرام ہے جیسے ماں، اپنی بیٹی، حقیقی بہن، پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی، رضاعی ماں، رضائی بہن، ساس، مدخولہ بیوی کے پہلے خاوند سے لڑکیاں اور وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہوں تمہاری مدخولہ بیوی کے ساتھ (اور اگر تم ان عورتوں سے جماع نہ کیا ہو تو کوئی حرج نہیں اور بہوویں جو کہ تمہاری اپنی اولاد کی عصمت میں ہوں اللہ تعالٰی نے دو بہنوں کو ایک ساتھ جمع کرنے کی ممانعت فرمائی ہے اور اس کے بعد شوہر والی عورتوں سے شادی کی حرمت بیان کی گئی ہے کہ ان سے تمہارے لئے شادی کرنا جائز نہیں اس کے بعد اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ ان مذکورہ عورتوں کے علاوہ دیگر تمام عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں جن سے تم نکاح کرسکتے ہو۔۔۔
لہذا مذکورہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ شیعہ رافضی حضرات کا اس آیت کو متعہ کے جواز کے لئے بطور استدلال پیش کرنا کسی صورت میں درست اور جائز نہیں کیونہک یہ آیت نکاھ صحیح کے اثبات کے لئے وارد ہوئی ہے تاکہ ایک مسلمان کو معلوم ہوجائے کہ کن کن عورتوں سے نکاح جائز ہے اس آیت کے بارے میں متعہ کے جواز کی بات کرنا تو دور کی بات ہے بلکہ اس سلسلے میں سوچنا بھی محال ہے کیونکہ اسی آیت کا ذرہ برابر بھی متعہ سے تعلق نہیں ہے۔۔۔
اب ذرا اس آیت کے سیاق پر غور کیجئے ارشاد باری تعالٰی ہے۔۔۔
فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اس لئے جن سے تم فائدہ اٹھاؤ انہیں ان کا مقرر کیا ہوا مہر دے دو، اور مہر مقرر ہو جانے کے بعد تم آپس کی رضامندی سے جو طے کرلو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں، بے شک اللہ تعالیٰ علم واﻻ حکمت واﻻ ہے(النساء ٢٤)۔۔۔
اس کے بعد اللہ تعالٰی کے اس فرمان کو پڑھیں۔۔۔
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ
اور (حرام کی گئیں) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آجائیں، اللہ تعالیٰ نے یہ احکام تم پر فرض کر دیئے ہیں، اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئیں کہ اپنے مال کے مہر سے تم ان سے نکاح کرنا چاہو برے کام سے بچنے کے لئے نہ کہ شہوت رانی کرنے کے لئے (النساء ٢٤)۔۔۔
آیت کریمہ کے کلمہ مُّحْصِنِينَ پر غور کریں کہ اس آیت کریمہ سے عموما اور اس کلمہ (مُّحْصِنِينَ) سے خصوصا یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس سے مراد نکاح شرعی ہے نہ کہ متعہ کیونکہ متعہ سے پاک دامی وآبرو اور نسل کی حفاظت کیوں کر ہوسکتی ہے چنانچہ اللہ تعالٰی نے (مُّحْصِنِينَ) کہہ کر پاک دامنی اور عفت کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ چیز نکاح سے ہی بروئے کار آسکتی ہے متعہ سے نہیں حتی کے شیعہ رافضی بھی اس بات کے قائل ہیں کہ پاک دامنی صرف نکاح شرعی سے ہی حاصل ہوتی ہے۔۔۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر آیت کریمہ سے متعہ مراد ہوتا تو (مُّحْصِنِينَ) کا جملہ استعمال نہ کیا جاتا متعہ اور چیز ہے اور احصان وپاک دامی یا عفت وعصمت اور چیز ہے لہذا اس آیت سے مقصود نکاح شرعی ہے نہ کہ نکاح متعہ۔۔۔
شیعہ کے نزدیک شیخ اسحاق بن عمار سے یہ روایت مروی ہے کہ انہوں نے شیخ موسٰی کاظم سے دریافت فرمایا کہ کوئی شخص زنا کاری کا ارتکاب کرتا ہے حالانکہ اس کے پاس باندھی موجود ہے جس سے وہ ازدواجی تعلقات رکھتا ہے تو کیا اس باندی سے ازدواجی تعلقات کی بناء پر اس کو شادہ شدہ کہا جائے گا انہوں نے جواب دیا کہ ہاں وہ شادی شدہ ہے اور اس پر محض والی حدجاری کی جائے گی پوچھا گیا اور اگر اس کے پاس عقد متعہ کے طور پر عورت ہے تو کیا اس کو شادی شدہ گردانا جائے گا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نہیں کیونکہ باندی تو اس کی ملک یمین میں دائمی طور پر ہے جب کے نکاح متعہ والی عورت کی ملکیت دائمی نہیں ہوئی ( ملاحظہ ہو وسائل الشیعہ جلد ٢٧ صفحہ ٦٨)۔۔۔
دوستو! مذکورہ دلائل سے پتہ چلا کہ آیت کریمہ سے متعہ مراد نہیں بلکہ اس سے مراد نکاح شرعی ہے کہ کیونکہ اس کے سیاق وسباق اسی طرف غمازی کررہا ہے آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالٰی نے سب سے پہلے ان عورتوں کی فہرست جاری کی جن سے نکاح حرام ہے اس کے بعد اللہ تعالٰی نے ان عورتوں کے بارے میں بیان فرمایا جن سے نکاح حلال ہے۔۔۔
جیسا کہ میں یہ بات بیان کرچکا ہوں کہ عقد متعہ سے پاک دامنی
÷حاصل نہیں ہوسکتی۔۔۔ دراصل جس چیز سے پاک دامنی کا حصول ہوتا ہے کہ اور عزت وآبرو کی حفاظت ہوتی ہے وہ نکاح شرعی ہے (اس بات کی شہادت کے لئے شیعہ رافضیوں کے اقوال ہی ہمارے لئے کافی وشافی ہیں) زیادہ چھان بین کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔
ہم دیکھتے ہیں کہ شیعہ رافضی دلائل دینے سے عاجز ہیں اور انہیں راہ فرار بھی نہیں مل پاتی ہے لہٰذا وہ اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ متعہ قابل احصان نہیں ہے لیکن وہ اپنی ڈھٹائی پر اڑ کر یہ بات کہنے سے گریز نہیں کرتے کہ آیت کریمہ نکاح متعہ کے بارے میں ہے یہ شیعہ رافضی کا عناد ہے اور ڈھٹائی کا کوئی علاج نہیں ہے۔۔۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب بھی میرا کسی عقلمند سے مناظرہ ہوا تو میں کامیاب رہا اور جب بھی کسی جاہل سے مجھے بحث ومباحثہ کرنا پڑا تو میں مغلوب ہوکر ہی واپس آیا کیونکہ جاہل کو سمجھانا ایک عقل مند کے بس کی بات نہیں۔۔
۔اس کے بعد قرآن کی حکمت بیانی پر توجہ دیں کہ کیسا عجیب وغریب اور پیارا اسلوب بیان ہے کہ اللہ تعالٰی بڑے حکیمانہ انداز میں فرمارہا ہے۔
وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم
اور تم میں سے جس کسی کو آزاد مسلمان عورتوں سے شادی کرنے کی طاقت نہ ہو تو وہ مسلمان لونڈیوں سے جن کے تم مالک ہو (اپنا نکاح کرلے) اللہ تمہارے اعمال کو بخوبی جاننے والا ہے (النساء ٢٥)۔۔۔
آیت مذکورہ میں اللہ تعالٰی مسلمانوں کو نکاح کا حکم دے رہا ہے اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اگر اس آیت سے نکاح کے علاوہ کوئی اور چیز مقصود ہوتی تو اس کی ترغیب دی جاتی جیسا کہ ایسا قطعا نہیں ہے آخر متعہ کا جواز کہاں سے نکل آیا؟؟؟۔۔۔
اور جہاں تک (الی اجل مسمٰی) والی قراءت کا تعلق ہے تو ہمارا یہ کہنا ہے کہ وہ قراءت درست نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت قراءت شاذہ کی ہے اور قراءت متواترہ میں اس کا شمار نہیں ہے۔۔۔
اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ شیعہ رافضی قراءت سبعہ کے قائل ہی نہیں ہیں ان کی قراءت سبعہ سے استدلال کا کیا حق پہنچتا ہے؟؟؟۔۔۔ (ذرا سوچئے)۔۔۔ لہذا ان کا یہ استدلال کسی صورت میں درست نہیں اور نہ ہی ان کو اس صورت میں مذکورہ طریقہ پر استدلال کا حق حاصل ہے۔۔۔
حضرت فصیل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ابوعبداللہ سے دریافت کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے تو انہوں نے جواب دیا اللہ کی قسم! لوگ جھوٹ کہتے ہیں قرآن تو صرف ایک حرف پر واحد الاحد کے پاس سے نازل ہوا ہے (الکافی جلد ٢ صفحہ ٦٩)۔۔۔
بے شمار علمائے تفسیر جن میں امام طبری، امام قرطبی، امام ابن العربی، امام ابن جوزی، امام ابن عطیہ، امام نسفی، امام نیسابوری، امام زجاج، امام آلوسی، امام شنقیطی، امام شوکانی، رحمہم اللہ اجمعین وغیرہ سرفہرست ہیں کا یہ کہنا ہے کہ آیت مذکورہ نکاح شرعی کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کا عقد متعہ سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔۔۔
امام جوزی فرماتے ہیں مفسرین کرام نے کھینچ تان کر کے اس آیت سے عقد متعہ مراد لیا ہے اور بعد میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس روایت کی وجہ سے اس حکم کو منسوخ قرار دیا ہے جس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کو حرام قرار دیا ہے۔۔۔
حالانکہ یہ خامخواہ کا تکلف ہے جس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ سیدھی سی بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے متعہ کی اجازت دی تھی اس کے بعد اس کی ممانعت کا حکم صادر فرمادیا لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے منسوخ ہے اس میں آیت کریمہ کا کوئی دخل نہیں اور نہ ہی آیت کریمہ سے متعہ کے جواز کی دلیل فراہم ہوتی ہے اگر کوئی ایسی تاویل کرتا ہے تو اس کو اس کا ہرگز ہرگز حق نہیں پہنچتا کیونکہ اللہ تعالٰی نے آیت کریمہ میں فرما دیا ہے کہ ( أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ) اپنے مال کے ذریعہ مہر ادا کرکے تم ان سے نکاح کرسکتے ہو برے کام سے بچنے کے لئے نہ کہ شہوت رانی کے لئے یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے مراد نکاح صحیح شرعی ہے (ذاد المسیر جلد ١ صفحہ ٥٣)۔۔۔
امام شنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ آیت نکاح شرعی کے بارے میں وارد ہوئی ہے مگر بعض جاہل قسم کے لوگوں نے اس کے نزول کو متعہ کے ثبوت کی دلیل قرار دیا ہے یہ ان کی جہالت کی دلیل ہے ( اضواء البیان للعلامہ الشنقیطی)۔۔۔
امام زجاج لغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں بہت سے لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ اس آیت میں شیعہ رافضی ایسی صریح غلطی پر مصر ہیں جو ناقابل تلافی ہے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ادب لغت کی ہوا تک نہیں لگی ہے اس لئے تو ان لوگوں نے فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ سے مراد عقد متعہ سمجھا ہے یہ ان کی کج فہمی نہیں تو اور کیا ہے؟؟؟۔۔۔
کیونکہ وہ اپنے قول میں اہل علم کے اجماع کی مخالفت کرکے شذوذ کا شکار ہوگئے ہیں کیونکہ اہل علم کا اجماع ہے کہ اس آیت سے متعہ کی حرمت مراد ہے لہذا فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ سے یہ چیز سمجھ آتی ہے کہ تم ان عورتوں سے اس شرط کے لحاظ رکھتے ہوئے جب نکاح کروگے جس کا تذکرہ مذکورہ آیت میں آیا ہے تو وہ نکاح شرعی یا عقد صحیح کہلائے گا جس کو (احصان) کہا جاتا ہے اس کے بعد اس آیت کے سیاق پر تدبرنہ نگاہ ڈالیں تو پتہ چل جائے گا کہ اس عقد صحیح میں کیا مصلحت پنہاں ہے چنانچہ ارشاد باریٰ تعالی ہے أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ یعنی تم مہر ادا کرکے برے کاموں سے بچنے کے لئے عقد نکاح صحیح منعقد کرنا چاہتے ہو لہذا فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ان کا مہر ادا کرکے ان سے شادی کرلو (لسان العرب جلد ٨ صفحہ ٣٢٩)۔۔۔
اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں بہت سی جگہوں پر لفظ (تمتع) کا ذکر فرمایا ہے کہ مگر ہرجگہ اس سے نکاح مراد نہیں ہے بلکہ مختلف جگہوں پر اس کے مختلف معنی مراد ہیں۔۔۔
١۔ ارشاد باری تعالٰی ہے۔۔۔
أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُم بِهَا
اس دن کافروں سے کہا جائے گا تم نے اپنی نیکیاں دنیا کی زندگی میں ہی برباد کر دیں اور ان سے فائدے اٹھا چکے، (الاحقاف ٢٤)۔۔۔
یہاں (استمتاع) سے مراد یہ ہے کہ تم نے دنیاوی زندگی میں دنیاوی مال ومتاع سے خوف فائدہ اٹھالیا ہے معلوم ہوا کہ اس جگہ (استمتاع) سے مراد دنیاوی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا ہے اس سے نکاح شرعی مراد نہیں ہے۔۔۔
٢۔ ارشاد باری تعالٰی ہے۔۔۔
فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَاقِكُمْ (التوبہ ٦٩)۔۔۔
یہاں خلاق کا ترجمہ دنیوی حصہ بھی کیا گیا ہے یعنی تمہاری تقدیر میں دنیا کا جتنا حصہ لکھ دیا ہے وہ استعمال کر لو جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے اپنا حصہ استعمال کیا اور پھر موت یا عذاب سے ہم کنار ہوئے یہاں استمتاع سے مراد نکاح نہیں بلکہ نفع اندوزی یا فائدہ مندی ہے۔۔۔
٣۔ ارشاد باری تعالٰی ہے۔۔۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ
اور جو لوگ کافر ہیں وہ دنیا کا ہی فائدہ اٹھارہے ہیں اور مثل چوپایوں کے کھا رہے ہیں (محمد ١٢)۔۔۔
یہاں بھی تمتع سے مراد مجرد فائدہ دنیاوہ ہے۔۔۔
اس سے معلوم ہوا کہ مجرد لفظ متع کے اشتقاق اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس سے مراد نکاح متعہ ہی ہو جیسا کے شیعہ رافضیوں کا خیال ہے بلکہ لفظ متعہ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔۔۔
بہرحال اس بارے میں بہت سی آیات قرآنیہ موجود ہیں یہاں ایک ایک آیات گنوانا مقصود نہیں ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہم کو یہ بات واضع طور پر معلوم ہوجائے کہ لفظ (متع) سے قرآن کریم میں ہمیشہ نکاح متعہ ہی مراد نہیں لیا گیا ہے بلکہ اس تعبیر کو قرآن کریم نے مختلف جگہوں پر مختلف پیرایہ بیان میں مختلف معانی کے لئے استعمال کیا ہے۔۔۔
اسی طرح قرآن کریم میں لفظ اجر کا تذکرہ آیا ہے شیعہ رافضیوں کا خیال ہے کہ اس سے مراد نکاح متعہ ہے کہ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ کیونکہ قرآن کریم مختلف جگہوں پر لفظ اجر سے مراد مہر ہے۔۔۔
١۔ ارشاد باری تعالٰی ہے۔۔۔
فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً
اس لئے تم جن عورتوں سے نکاح شرعی کے ذریعہ فائدہ اٹھاؤ انہیں ان کا مقرر کردہ مہر ضرور دے دو۔۔۔
٢۔ ارشاد باری تعالٰی ہے۔۔۔
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ
اور پاک دامن مسلمان عورتوں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جب کہ تم اُن کا مہر ادا کردو (المائدہ ٥)۔۔۔
اس آیت سے بھی لفظ اجر وارد ہوا ہے اور اس سے مراد مہر ہے۔۔۔
٣۔ ارشاد باری تعالٰی ہے۔۔۔
انكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ
تو ان کے مالکوں کی اجازت سے ان سے نکاھ کرلو اور قاعدہ کے مطابق ان کو ان کے مہر دے دو (النساء ٢٥)۔۔۔
اس آیت سے بھی لفظ (ارجوھن) وارد ہوا ہے اور اس سے مراد مہر شرعی ہے جس سے قطعی طور پر متعہ کی نفی ہوتی ہے کیونکہ اس میں مالکوں کی اجازت کی شرط لگائی گئی ہے جب کہ متعہ میں والدین یامالکوں کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔۔
٤۔ ارشاد باری تعالٰی ہے۔۔۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کے لئے وہ بیویاں حلال کردی ہیں جنہیں آپ مہر ادا کرچکے ہیں۔۔۔
ایت مذکورہ میں بھی (اجورھن) سے مراد حق مہر ہے۔۔۔
٥۔ ارشاد باری تعالٰی ہے۔۔۔
وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۚ
ان عورتوں کو ان کے مہر دے کر اُن سے نکاح کرلینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں (الممتحنہ ١٠)۔۔۔
اس آیت میں بھی (اجورھن) سے مراد مہر شرعی ہے لہذا معلوم ہوا کہ قرآن پاک میں جہاں بھی لفظ اجر اور اس کے مشتقات کا ذکر آئے تو اس سے مراد مہر ہوتا ہے کہ اور مہر نکاح شرعی کے انعقاد کا ثبوت ہوا کرتا ہے۔۔۔ رافضی عقیدہ متعہ نہیں۔۔۔
واللہ اعلم۔۔۔
والسلام علیکم۔۔۔