• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

استاد محترم عبد الرشید خلیق صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کی عیادت اور میری معروضات(از قلم: ظفر اقبال ظفر )

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
ازقلم: ظفر اقبال ظفر
استاد محترم عبد الرشید خلیق صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کی عیادت
مشہور کہاوت ہے : اُس شخص کو کبھی موت نہیں آتی جو علم کو زندگی بخشتا ہے۔​
استاد کی اصل زندگی اس کے پڑھائے ہوئے علم کو زندہ رکھنے میں ہوتی ہے ۔اور جو استاد اپنے شاگروں میں یہ مقام حاصل کر لیتا ہے کہ اس کے شاگر د کثیر تعداد میں علم کے چراغ کو جلائے بیٹھے ہوں اور پھر ان کے شاگرد اور آگے ان کے شاگرد علم کی مسند پر بیٹھ کر لوگوں کی زندگیوں میں جہالت کے اندھیرے دور کر کے علم کی شمع سے ان کے اندر اور باہر کے باطل کو روشن کر کے حق کی راہ پر چلا دیں تو وہ استاد چاہے اس دنیا فانی کو چھوڑ ہی کیوں نہ جائے اس کے پھلائے ہوئے علم کی صورت میں وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔میں اگر یہ کہوں کہ استاد ہی وہ راہ نما ہے جس نے انسان کو آج سمندروں کے سینے چیر کر اس میں سفر کرنے کے قابل بنایا ہے اور استاد ہی وہ راہ نما ہے جس نے آسمانوں کی بلندیوں کو چھونے اور ثریہ تک پہنچنے میں انسان کی راہ نمائی کی اور آج انسان اس قابل ہوا ہے کہ شرق و غرب اور شمال و جنوب ‘ زمین و آسمان اور فضائوں پر قدم رکھنے کے قابل ہوا ۔ آج کے ترقی یافتہ انسان کی ترقی سے استاد کی ہستی کو نکال دو تو انسان آسمانوں کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں میں منہ کے بل گر پڑھے اور اس کی ساری ترقی اپنی موت آپ مر جائے ۔ انسان چاہیے جتنا مرضی بڑا بن جائے اور جتنی مرضی ترقی کا دعویٰ کرے اور اس کی فکر میں استاد کی راہ نمائی شامل نہ ہو تو وہ اپنے تمام دعووں اور ترقی کے جھوٹے سپنوں کے علاوہ اس کی کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔والدین انسان کو دنیا میں لانے کا سبب بنتے ہیں اور استاد انسان کے دنیا اور آخرت میں آگے بڑھنے کا سبب بنتے ہیں ۔ جس قدر استاد عظیم سوچ کا مالک ہوگا اس قدر ہی اس کی عظمت اس کے پھیلائے ہوئے علم میں موجود اور زندہ ہو گی ۔ایک عظیم استاد قوم کو عظیم بنا دیتا ہے‘ جس قوم کو عظیم استاد کی صحبت مل جائے اس کا مقابلہ دنیا میں کوئی قوم نہیں کر سکتی ۔ اللہ تعالیٰ کے بعد انسان اپنے اوپر استاد کے احسانات شمار کرنا شروع ہو جائے (جو کہ حقیقت میں اللہ کا ہی احسان ہے ) تو انسان کے پورے جسم میں سوائے استاد کے کچھ نظر نہ ہے ۔ در حقیقت ایک عظیم استاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور بہت بڑا احسان ہوتا ہے ۔کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے ۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں ۔ ایک معمولی سے نوخیز بچے سے لے کر ایک کامیاب فرد تک سارا سفر اسا تذہ کا مرہون منت ہے ۔ وہ ایک طالب علم میں جس طرح کا رنگ بھرنا چاہیں بھر سکتے ہیں۔استاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ اُستاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن وسلامتی اور محبت و دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ اُستاد ایک ایسا راہ نما ہے جو طالب علم کو زندگی کی گمراہیوں سے نکال کر کامیابی کی طرف گامزن کرتا ہے۔استاد مینار نور ہے جو اندھیرے میں راہ دکھلاتا ہے۔ استاد ایک سیڑھی ہے جو ہمیں بلندی پر پہنچادیتی ہے۔ استا دایک انمول تحفہ ہے جس کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ استاد قوموں کی تعمیر میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ اچھے لوگوں کی وجہ سے اچھا معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور اچھے معاشرے سے ایک بہترین قوم تیار کی جا سکتی ہے ۔ اساتذہ اپنے آج کو قربان کر کے بچوں کے کل کی بہتری کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ استاد کی عزت کیوں نہ کی جائے استاد کی محنت کی وجہ سے انسان بلندیوں تک پہنچتا ہے اور حکمرانی کی گدی پر جلوہ نشین ہوتا ہے۔ استاد ہی کی محنت کی وجہ سے وہ آسمانوں کی سیر کرتا ہے۔ بغیر استاد کے انسان اس اندھے کی مانند ہے جو بغیر سہارے کے سفر میں نکل جاتا ہے۔
قارئین کرام :میں آج اپنے ایسے ہی ایک مشفق استاد کی عظمت کو سلام اور ان کی جناب میں ہدیہ تشکر پیش کرنے اور ان کی سوچ اور فکر کو سیلوٹ کرنے کے لیے قلم جیسی عظیم نعمت کو حرکت دینے لگا ہو ں‘ یہ وہی قلم ہے جس کا میں صحیح نام اور پھر اس قلم کے ’’ق‘‘ سے بھی واقف نہیں تھا ۔ یہ میرے اللہ کا اور اس کے بعد میرے استاد کا ہی مجھ پر احسان ہے میں اس قلم کی ’’ق‘‘ سے واقف ہوا ۔ پھر اس قلم کی نوک سے کیوں کر اس استاد کی عظمت کا تذکرہ نہ کرو جس استاد نے مجھے قلم پکڑنے اور پھر اس قلم کے استعمال کے قابل بنایا ۔ میں جس وقت اس قلم کو حرکت دیتے چند حروف لکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو اس استاد سے صحیح طرح مستفید نہ ہو نے کی وجہ سے جو کمی رہ گئی تھی اس کا احساس اندر ہی اندر سے مجھے کوسنے لگتا ہے کہ وقت تھا استاد جیسی عظیم نعمت آپ کو میسر تھی مگر عدم توجہ اور عدم احساس کی وجہ سے استاد جیسی عظیم نعمت سے صحیح طرح مستفید کیوں نہ ہو سکا ۔ میں جس ہستی اور اللہ کی عظیم نعمت کا تذکرہ کرنے لگا ہوں میری مراد استاد الاساتذہ ‘ استاد العلماء‘ علم کے باد شاہ ‘ میری آنکھوں کی تھنڈک‘ میرے سر کے تاج‘ میری ذات کو زندگی اور علم جیسی نعمت بخشنے والے‘ ایک عہد ساز شخصیت ‘ اپنی ہی ذات میں ایک تحریک اور انجمن ‘ طلبہ سے اتنہائی زیادہ شفقت و محبت سے پیش آنے والے ‘ طلبہ کی بہتری اور تربیت میں آرام بھول جانے والے ‘ گھر بار چھوڑ کر آنے والے طلبہ کو ماں اور باپ کا پیار دینے والے ‘ میر ے مربی استاد گرامی عبد الرشید خلیق صاحب حافظہ اللہ تعالی ‘مد ظلہ‘جو سیرت و کردار کے اعلیٰ معیار پر فائز ‘ طلبہ کا خیال کرنے والے ‘ ہمیشہ بچوں کو نصیحت کرتے بیٹا محنت کر کے پڑھیں‘ زندگی میں کسی کے مختاج نہیں رہیں گے سوائے ایک اللہ کی مختاجگی کے ۔ بیٹا ہمیشہ اچھا کرنے کی کوشش کرنا اور برائیوں سے دور رہنا ‘ کسی کے سامنے ہاتھ مت پھلانا اور کمتر اور گھٹیا شخص کو حد سے زیادہ عزت مت دینا‘ نہیں تو وہ آپ کو ذلیل کر دے گا ۔ہمیشہ لوگوں سے محبت اور شفقت سے پیش آنا ‘ اپنے تمام اساتذہ سے احترام سے پیش آنا اور ان سے تعلق کو باقی رکھنا ۔ استاد سے تعلق کو باقی رکھنے والا زندگی کے کسی موڑ پر تنہائی محسوس نہیں کرتا ‘ استاد سے کبھی بھی مستغنی نہیں ہونا بلکہ استاد کی زندگی تک استاد کا مختاج رہنا علم اور دعا کی صورت میں ۔کبھی خود کو بڑا مت سمجھنا اور نہ خود کو کبھی حقیر سمجھنا ۔ ہزراوں بچے جو مالی مشکلات کے باعث علم کے حصول کے مشتاق تو تھے مگر مالی کمزوری کی وجہ سے خود کو مدرسے اور اسکول کی تعلیم سے محرومی کے خدشات سے دوچار کر لیتے اور چھوڑ جاتے اور اپنی بے بسی کے آگے قوت ارادی کو تسلسل نہ بخش سکتے مگر استاد گرامی کو پتہ چلتا تو ان کی تعلیم کے اخراجات خود برداشت کرتے اور ان کو تعلیم کے حصول کا موقع فراہم کرتے۔ عاجزی اور انکساری کا یہ عالم تھا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی اور وہ بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کسی بڑے عہدے پر فائز ہو جاتا ۔ جب جامعہ سے چھٹیاں ہوتیں بچوں کو گھر تک کا کرایہ اس طرح دیدتے کے دائیاں ہاتھ اگر خرچ کر رہا ہوتا تو بائیں کو خبر تک نہ ہوتی ۔ہزاروں کی تعداد میں طلبہ ایسے ہیں جن کے تعلیمی اخراجات استاد گرامی خود برداشت کرتے کسی کو خبر تک نہ ہوتی اور ہزاروں کی تعداد میں فارسی اور فاضل عربی کی تعلیم سے مستفید ہونے والے طلبہ جو آج دنیا کے ہر شعبے میں کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں وہ میرے استاد گرامی کی شفقت اور محنت کے ساتھ ساتھ اللہ کی رحمت کے سبب ملک و ملت کو زندگی بخشنے میں پیش پیش ہیں ۔اگر چھٹی کی وجہ سے استاد جی کسی بچے سے ناراض ہوتے تو پریڈ کے بعد خود آگے بڑھتے اور اس بچے کو اپنی شفقت والی چادر میں لپیٹ لیتے اور بچے کو احساس ہونے سے پہلے خود معافی مانگ لیتے اور معافی مانگتے وقت میرے بیٹے جیسے الفاظ استعمال کرتے جاتے اور محبت کے آنسوں آنکھوں سے ٹپکنے لگتے۔مہمان نواز ایسے کے جو بھی استاد جی کو ملنے کے لیے آتا خود اپنے ہاتھوں سے چائے بناتے اور دودھ گرم کر کے مہمان کے سامنے خود پیش کرتے اور مہمان نوازی میں تکلف ایسا کہ مہمان کا چہرہ جب تک یہ ظاہر نہ کرتا کہ مجھے مزید حاجت نہیں رہی تب تک کچھ نہ کچھ پیش کرتے رہتے ۔ ملاقات کے لیے آنے والے مہمان جو زیادہ تر طلبہ ہی ہوتے تھے استاد محترم واپسی کا کرایہ اور قیمتی تحائف سے نوازنے کے ساتھ ساتھ سینکڑوں دعائیں دیتے اور بیسیوں دفعہ ملاقات کے لیے آنے پر شکریہ ادا کرتے ۔ استاد گرامی کی ملاقات کے لیے آنے والا طالب علم جب تک خود جانے کا ارادہ نہ کرتا تب تک استاد گرامی کا پاس بیٹھے رہنا اور ملاقات کی طوالت سے کبھی پریشان نہ ہونا استاد محترم کی عاجزی اور انکساری کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
سچی بات ہے مجھ جیسے نالائق بچے اگر کبھی ملاقات کے لیے جاتے تو جو پیار اور محبت ‘ شفقت اور اپنائیت استاد گرامی سے ملتی بیان کریں تو قلم و قرطاس اپنی کم ہمتی اور بے بسی کی شکایت کرنے لگیں اور کلام کی طوالت کے سامنے اپنے آپ کو برقرار نہ رکھ پائیں ۔ خوبیوں اور اچھائیوں کا عظیم سمندر اور علم کا عظیم باد شاہ اور شہنشاہ جو عرصہ دراز سے بیماری اور اللہ کی طرف سے آزمائش میں مبتلا ہے ۔ بیماری کی شدت اور ہیبت اس قدر ک کبھی کبھی بولنا اور چلنا مشکل ہو جاتا ہے ۔مگر پھر بھی اللہ کی توفیق خاص سے ایک طرف 71 برس کی عمر میں اور بیماری کی شدت میں علم سے محبت اس قدر کے گیارہ اسباق کا مطالعہ اور تدریس بڑی محنت سے کرتے اور بچوں کو علم کی دولت سے مستفید کرتے مگر بیماری اور اڈھیر عمری رکاوٹ نہ بنتی اور کسی تندرست اور جوان آدمی کی طرح قرآن و سنت کا علم پڑھانے میں ہمیشہ مشغول رہے۔ حالیہ دنوں میں بیماری کی شدت نے پھر سے زور آزمائی کرنے کی کوشش کی مگر اللہ کی توفیق خاص سے ایسے جیسے اللہ نے ایک بار پھر زندگی بخش دی ہو۔
راقم الحروف ! واٹس ایپ پر استاد محترم قاری حمزہ مدنی صاحب کی طرف سے استاد گرامی کی بیماری کی شدت کا سن کر پریشان ہو گیا۔اور فوری اللہ تعالیٰ سے استاد گرامی کی صحتیابی کے لیے دست دعا دراز کیے اور فوری استاد گرامی کی خیریت دریافت کرنے کےلیے استاد گرامی کے پاس جامعہ فتحیہ اچھرہ بازار لاہور بروز منگل بعد از نماز مغرب بمطابق 2021۔05۔04 کو حاضری لگوانے پہنچ گئے۔ بیماری کی شدت تھی چلنا پھرنا اور دیر تک بیٹھنا محال تھا مگر جیسے ہی راقم الحروف استاد گرامی کے کمرے میں داخل ہوا استاد گرامی دیکھتے ہی بولے ظفر بیٹا آپ ؟میں نے کہا جی سر جی ! استاد گرامی نے پاس پڑی کرسی کے طرف اشارہ کرتے فرمایا بیٹھیں میرا بیٹا ۔ میں بیٹھ گیا اور استاد جی فرمانے لگے بیٹا ناراض نہ ہونا میں نے وضو کیا ہے اور باتوں میں لگ جانے سے وضو ٹو ٹنے کا خطرہ ہے جو اس بیماری کی حالت میں دوبارہ کرنا میرے لیے مشکل ہے نماز عشاء کا ٹائم ہے آپ بھی مسجد میں نماز ادا کر آئیں میں بھی نماز ادا کر لیتا ہوں ‘ نماز کے بعد ان شاء اللہ ملاقات ہو گی ۔
راقم الحروف مسجد میں نماز ادا کرنے کے بعد کچھ دیر مسجد میں ہی بیٹھ گئے کہ کہیں استاد گرامی کی نماز میں خلل واقع نہ ہو مگر ساتھ ہی ساتھ یہ احساس بھی مسلسل کھائے جا رہا تھا کہ استاد گرامی کی عادت مبارکہ ہے وہ آنے والے مہمان کا انتظار کرتے رہتے ہیں تو کہیں یہ نہ ہو میں استاد گرامی کو انتظار کرنے کی تکلیف دوں اور یوں کہیں بے ادبی نہ کر پاؤں ۔لہذا چند منٹ انتظار کرنے کے بعد استاد جی کے کمرے میں داخل ہونے کےلیے اجازت چاہی تو اندر سے آواز آئی آئیے ظفر بیٹا ۔ کمرے میں داخل ہوا استاد جی نے بڑے طپاق سے گلے لگایا اور سر کا بوسہ لیتے دعائیں دینے اور عیادت کے لیے جانے پر شکریہ ادا کرنے لگے ۔میں ایک حقیر سا طالب علم اور میرے سامنے علم و عرفاں کا باد شاہ وہ میرا شکریہ ادا کرتا میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔نا ہی میں یہ دل میں خیال کرنا پسند کرتا کیونکہ یہ میں نے کوئی احسان نہیں کیا تھا شکریہ تو احسان پر ادا کیا جاتا ہے ‘ میں نے تو اپنا فرض ادا کیا ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ میرے فرض کی ادائیگی میں جو مجھ سے تاخیر ہوئی سچی بات ہے میں اس پر انتہائی شرمندہ تھا ۔ حقیقت بات تو یہ ہے کے ظاہری طورپر تو نہیں مگر باطنی طورپر میرا دل ندامت اور شرمندگی کے آنسوں بہائے جا رہا تھا ۔خیر استاد جی کی خاص شفقت تھی کہ ملاقات ڈیڑھ گھنٹے تک طویل ہو گئی اور استاد گرامی تھے کے طوالت ملاقات کا شکوہ کیے بغیر دعائیں دئیے جا رہے تھے ‘مگر راقم الحروف کو طوالت کا احساس نہ ہونے دیا ۔ راقم الحروف نے یہ سوچا کہ شاید ملاقات کی طولات سے استاد گرامی کو تکلیف نہ پہنچے اور یوں کہیں بے ادبوں کی فہرست میں شامل نہ کر لیا جاؤں ۔استاد گرامی سے واپسی کی اجازت چاہی اور استاد گرامی نے دو عدد قیمتی خوشبو کے تحائف سے نوازہ اور سر پر شفقت بھرا بوسہ دیا اور ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ استاد گرامی فرمانے لگے ظفر بیٹا اللہ کرے جگ تیرا مختاج رہے اور تو صرف رب دا مختاج رہے ۔اچھا ظفر بیٹا فی امان اللہ۔
میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اے باری تعالی استاد گرامی کو صحت و تدرستی اور ایمان والی زندگی عطاء فرما۔ استاد گرامی کا سایہ تادیر ہمارے اوپر قائم رکھ ۔ استاد گرامی کو سوائے اپنی جناب کے کسی کا مختاج نہ رکھنا ‘ حتی کہ اپنے جسم کے اعضاء میں سے کسی اعضاء کا بھی مختاج نہ رکھنا ۔ اے اللہ استاد گرامی پر اپنا خاص کرم فرما اور احسان اور محبت والا معاملہ فرما....آمین یا رب العالمین

راقم الحروف: ظفر اقبال ظفر
 
Top