- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
جمعہ ٢٣دسمبر ٢٠١١ کو تقریبا عشاء کےبعد موبائل پر پیغام آیا تھا جس میں استاد محترم مولانا رحمت اللہ صاحب کے وصال پر ملال کی خبر ملی ۔ ۔ میں اس وقت مکہ عمرہ کرنے کے لیے گیا ہوا تھا ، عمرہ میں الحمد للہ اپنے تمام اساتذہ کے لیے دعا بھی کی تھی ۔ جن میں استاد محترم کی صحت کی دعا بھی شامل تھی ۔۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ ۔ ۔ سفر میں ہونے کی وجہ سے بروقت ان کے لیے دعا کی گزارش نہ کرسکا ۔۔ لیکن اب تمام قارئین سے گزارش ہے کہ ان کے لیے آخرت کی کامیابی اور قبر میں آسانی کے لیے دعا فرمائیں ۔۔
اسی طرح یہاں ان کے کئی شاگرد بھی موجود ہیں وہ ان کے بارے میں اپنے تأثرات کا اظہار کریں ۔۔ تاکہ اس طرح ہم استاد محترم کی یاد کا سامان اکٹھا کر سکیں ۔
استاد محترم کی چند خوبیاں یہ تھیں :
انتہائی متواضع تھے ۔۔ تکبر و غرور کبھی ان کے پاس سے بھی نہیں گزرا تھا ۔
قوی الحافظہ تھے ۔۔ یہی وجہ ہے کہ تدریس کے آخری چند سالوں میں نظر کی کمزوری کے باعث اگرچہ ہر روز مطالعہ نہیں کرسکتے تھے لیکن پڑہاتے پھر بھی ایسا تھے کہ طلباء مطمئن ہو جاتے تھے اور ہر اشکال کا مُسکت جواب پاتے تھے ۔
اکابر علماء کے بارے میں بڑے محتاط انداز میں گفتگو فرماتے تھے ۔۔ کسی کو غلط قرار دینے میں جلد بازی سے کام نہیں لیتے تھے ۔
بہت کم گو تھے ۔۔۔۔ مطلوب و مقصود سے زیادہ گفتگو نہیں کیا کرتے تھے ۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء کی تربیت پر بھی بڑی توجہ فرماتے تھے ۔
طلباء سے خدمت کروانے میں بڑے حساس تھے ۔۔۔ پاؤں وغیرہ دبانے کی خاطر کسی کو پاس بھی نہیں پھڑکنے دیتے تھے ۔۔۔
مجھے ان سے ابواب الصرف ، نخبۃ الاحادیث ، علم الصیغہ اور شرح ابن عقیل جزء ثالث وغیرہ پڑہنے کا شرف حاصل ہے ۔
استاد محترم کا ایک میزہ یہ بھی تھا کہ وہ قواعد کی تطبیق پر بہت زیادہ زور دیتے تھے ۔۔۔
تنبیہ : چند سال پہلے ماہنامہ رشد میں ان کا تفصیلی انٹرویو شائع ہوا تھا ۔۔۔ اگر اس کو فورم پر لگا دیا جائے تو کافی فائدہ مند ہو گا ۔۔ متعلقہ حضرات توجہ فرمائیں ۔۔
اللہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ و أکرم نزلہ و وسع مدخلہ و اغسلہ بالماء والثلج البرد ۔۔۔
سقی اللہ ثراہ وجعل الجنۃ مثواہ ۔
اسی طرح یہاں ان کے کئی شاگرد بھی موجود ہیں وہ ان کے بارے میں اپنے تأثرات کا اظہار کریں ۔۔ تاکہ اس طرح ہم استاد محترم کی یاد کا سامان اکٹھا کر سکیں ۔
استاد محترم کی چند خوبیاں یہ تھیں :
انتہائی متواضع تھے ۔۔ تکبر و غرور کبھی ان کے پاس سے بھی نہیں گزرا تھا ۔
قوی الحافظہ تھے ۔۔ یہی وجہ ہے کہ تدریس کے آخری چند سالوں میں نظر کی کمزوری کے باعث اگرچہ ہر روز مطالعہ نہیں کرسکتے تھے لیکن پڑہاتے پھر بھی ایسا تھے کہ طلباء مطمئن ہو جاتے تھے اور ہر اشکال کا مُسکت جواب پاتے تھے ۔
اکابر علماء کے بارے میں بڑے محتاط انداز میں گفتگو فرماتے تھے ۔۔ کسی کو غلط قرار دینے میں جلد بازی سے کام نہیں لیتے تھے ۔
بہت کم گو تھے ۔۔۔۔ مطلوب و مقصود سے زیادہ گفتگو نہیں کیا کرتے تھے ۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء کی تربیت پر بھی بڑی توجہ فرماتے تھے ۔
طلباء سے خدمت کروانے میں بڑے حساس تھے ۔۔۔ پاؤں وغیرہ دبانے کی خاطر کسی کو پاس بھی نہیں پھڑکنے دیتے تھے ۔۔۔
مجھے ان سے ابواب الصرف ، نخبۃ الاحادیث ، علم الصیغہ اور شرح ابن عقیل جزء ثالث وغیرہ پڑہنے کا شرف حاصل ہے ۔
استاد محترم کا ایک میزہ یہ بھی تھا کہ وہ قواعد کی تطبیق پر بہت زیادہ زور دیتے تھے ۔۔۔
تنبیہ : چند سال پہلے ماہنامہ رشد میں ان کا تفصیلی انٹرویو شائع ہوا تھا ۔۔۔ اگر اس کو فورم پر لگا دیا جائے تو کافی فائدہ مند ہو گا ۔۔ متعلقہ حضرات توجہ فرمائیں ۔۔
اللہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ و أکرم نزلہ و وسع مدخلہ و اغسلہ بالماء والثلج البرد ۔۔۔
سقی اللہ ثراہ وجعل الجنۃ مثواہ ۔