امام مالک رحمہ اللہ کے قول کا صحیح مفہوم
امام مالک رحمہ اللہ کا عقیدہ یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور اس استواء کی کیفیت مجہول ہے۔ یہ قول تقریباً تمام عقیدہ کی مشہور کتب میں موجود ہے۔
اس بنیادی وضاحت کے بعد آتے ہیں، اس قول کی طرف آتے ہیں جو بھائی سلفی کی طرف سے پیش کیا گیا ہے:
امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ رحمن عرش پر کیسے استوا کیا ہوا ہے.
تو امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا"استوا مجہول ولفعل من هو غیر معقول".
(تمہید جلد:7، صفحہ:151)
عرض یہ ہے کہ واقعتاً اس صفحہ پر یہ بات موجود ہے ، لیکن اس کا صحیح مفہوم کیا ہے اس کی وضاحت کے لئے ہم پورے پیرائے کو بیان کرتے ہیں بلکہ تھوڑا مزید پیچھے چلے جاتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ اپنی مؤطا میں ایک حدیث لائے جو تقریباً حدیث کی ہر بڑی کتاب میں موجود ہے جسے حدیث النزول کہا جاتا ہے جس میں ہر رات اللہ تعالیٰ کے نزول کا ذکر ہے۔
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے عقیدہ استواء علی العرش کو بیان کیا یہ بحث شروع ہورہی ہے صفحہ نمبر 128 سے ، علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل کے ساتھ استواء علی العرش کے دلائل پیش کئے نہ کہ صرف دلائل بلکہ تمام دلائل کو ذکرکرنے کے بعد جو اعتراض اس عقیدہ پر پیش کئے جاتے ہیں ان کا بھی رد کرتے جارہے ہیں، اور سلف سے اس مؤقف کا اثبات کرتے جارہے ہیں حتی کہ صفحہ نمبر 138 پر امام مالک رحمہ اللہ سے قول ذکر کرتے ہیں :
استواؤه معقول وكيفيته مجهولة وسؤالك عن هذا بدعة وأراك رجل سوء
یہ وہی مؤقف ہے جو امام مالک رحمہ اللہ کا مشہور مؤقف ہے۔ یہاں واضح طور پر علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کا مؤقف بیان کردیا۔
جیساکہ میں نے پوراپس منظر ذکر کیا اس کے ساتھ تسلسل جوڑتے ہوئے بات تشبیہ اور کیفیت پر چلی اس حوالے علامہ ابن عبدالبررحمہ اللہ سلف میں سے مختلف اہل علم سے عدم تشبیہ اور کیفیت نہ بیان کرنے کو مؤقف بیان کررہے ہیں ، حتی کہ امام مالک رحمہ اللہ سے یہ نقل کیا کہ امام مالک رحمہ اللہ کے سامنے جب ایسی احادیث پیش کی جاتیں جن میں اللہ کی صفات کا ذکرہ ہوتا تو وہ روکتے کہ کہیں عام آدمی اس میں تشبیہ نہ سمجھ بیٹھے چنانچہ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فأنكر ذلك إنكارا شديدا ونهى أن يحدث به أحدا وإنما كره ذلك ملك خشية الخوض في التشبيه بكيف هاهنا امام مالک نے ایسی احادیث بیان کرنے والے کو روکا کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ نے یہ ناپسند کیا کہ کوئی تشبیہ اور کیفیت کے حوالے سے غورو خوض نہ کرے۔
یہ صفحہ ہے150۔ اس سے ایک دو صفحات پہلے سے یہی کیفیت اور تشبیہ سے بچنے سے متعلقہ آثار کا بیان چل رہا ہے، حتی کہ اب وہ صفحہ آگیا جو اصل مدعیٰ ہے۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ابن معین سے نقل کیا انہوں نے عدم کیفیت کو بیان کیا اور اس کے بعد امام مالک رحمہ اللہ کا قول پیش کیا کہ جب ان سے یہ سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا:
استواؤه مجهول والفعل منه غير معقول والمسألة عن هذا بدعة
پورے پیرائے سے واضح ہے کہ یہاں استواؤہ سے مراد کیفیۃ استوائہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے متصل بعد ہی نقل کیا کہ جب ان سے سوال کیا گیا اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کے حوالے سے تو انہوں نے کہا:
سألت عن غير مجهول وتكلمت في غير معقول إنك امرؤ سوء أخرجوه فأخذوا بضبعيه فأخرجوه
اور پھر مزید یہ کہ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے یہ اقوال پیش کرکے نقل کیا:
قال يحيى بن إبرهيم بن مزين إنما كره ملك أن يتحدث بتلك الأحاديث لأن فيها حدا وصفة وتشبيها والنجاة في هذا الانتهاء
یعنی : یحی بن ابراہیم بن مزین نے فرمایا کہ امام مالک نے اس کو ناپسند اس لئے کیا کہ اس میں حد بندی اور تشبیہ کا اندیشہ ہے اور نجات یہیں رک جانے میں ہے۔ (جہاں شریعت نے روک دیا۔ )
خلاصہ :
اس پوری تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ امام مالک یہاں مراد صفت استواء کو مجہول کہنا نہیں بلکہ کیفیت استواء کو مجہول کہنا ہے جس کے دلائل یہ ہیں :
۱۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ ان کاصراحت کے ساتھ مؤقف بیان کرچکے ہیں جلد 7 صفحہ 138 اور یہ دیگر کتب سے بھی ثابت ہے۔
2۔ امام مالک رحمہ اللہ کا مؤطا میں حدیث النزول ذکر کرنا جس سے اہل علم استواء علی العرش کا استدلال کیا ہے۔
۳۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا کیفیت اور تشبیہ کی نفی کے پیرائے میں ان کے اس قول کو پیش کرنا۔
۴۔ اس کے متصل بعد ہی ان کا صریح قول پیش کرنا۔
۵۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کاخود وضاحت پیش کرنا کما مر دیکھئے: جلد 7 صفحہ 150
۶۔ یحی بن ابراہیم سے وضاحت نقل کرنا۔ دیکھئے : جلد 7 صفحہ 151
ان تمام دلائل و قرائن سے امام مالک رحمہ اللہ کے قول کا صحیح مفہوم واضح ہوا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب