- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,747
- پوائنٹ
- 1,207
بد دعا کی بجائے دعا کرنا:
قبیلہ دوس کے سردار طفیل بن عمرورضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ دوس کے لوگوں نے اللہ کی نا فرمانی کی اور مسلمان ہونے سے انکار کیا پس ان کے لیے بددعا فرمایئے۔ صحابہ سمجھے کہ اب آپ ان کے لیے بدد عا فرمائیں گے ۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے اللہ قبیلہ دوس کو ہدایت عطا فرما اور انہیں میرے پاس لے آ۔"
(بخاری کتاب الدعوات باب الدعا للمشکرین۔ ح ۷۹۳۶مسلم۴۲۵۲.)
دعا میں اللہ تعالیٰ کی صفات اور اسمِ اعظم کا وسیلہ:
۱: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی رنج یامصیبت پیش آتی تو آپ کہتے۔
’’یَا حَیُّ یَا قَیُّوْم بِرَحْمَتِکَ اسْتَغِیْث‘‘
(ترمذی کتاب الدعوات باب قول ’’یاحی یاقیوم ۔ح۔۴۲۵۳۔بخاری‘ کتاب الدعوات باب الدعا علی المشرکین ح۷۹۳۶.)
’’اے زندہ اور قائم رہنے والے اللہ میں تیری رحمت کے وسیلہ سے تیرے آگے فریاد کر تا ہوں۔‘‘
۲: نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاسے پہلے فرماتے تھے:
’’اَسْاَلُکَ بِکُلِّ اِسْمٍ ہُوَ لَکَ‘‘
(ترمذی.)
’’میں تجھ سے تیرے ہر نام کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں۔‘‘
۳: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو یوں دعا کرتے ہوئے سنا:
’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْٓ اَسْاَلُکَ بِاَنِّیْٓ اَشْہَدُ اَنَّکَ اَنْتَ اللّٰہُ لَٓااِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ الْاحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ.‘‘
’’ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس بات کے وسیلہ سے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک تو ہی اللہ ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘ تو اکیلا ہے‘ بے نیاز ہے‘ تیری کوئی اولاد نہیں اور نہ تو کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی تیرے برابر ہے۔‘‘
یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس نے اسم اعظم کے وسیلہ سے دعا مانگی ہے ۔اسم اعظم کے وسیلہ سے جب بھی دعا مانگی جائے قبول کی جاتی ہے اور جب اللہ سے کوئی سوال کیا جائے تو پورا کیا جاتاہے۔
(ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء فی جامع الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ ح۔ ۵۷۴۳.)
قبیلہ دوس کے سردار طفیل بن عمرورضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ دوس کے لوگوں نے اللہ کی نا فرمانی کی اور مسلمان ہونے سے انکار کیا پس ان کے لیے بددعا فرمایئے۔ صحابہ سمجھے کہ اب آپ ان کے لیے بدد عا فرمائیں گے ۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے اللہ قبیلہ دوس کو ہدایت عطا فرما اور انہیں میرے پاس لے آ۔"
(بخاری کتاب الدعوات باب الدعا للمشکرین۔ ح ۷۹۳۶مسلم۴۲۵۲.)
دعا میں اللہ تعالیٰ کی صفات اور اسمِ اعظم کا وسیلہ:
۱: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی رنج یامصیبت پیش آتی تو آپ کہتے۔
’’یَا حَیُّ یَا قَیُّوْم بِرَحْمَتِکَ اسْتَغِیْث‘‘
(ترمذی کتاب الدعوات باب قول ’’یاحی یاقیوم ۔ح۔۴۲۵۳۔بخاری‘ کتاب الدعوات باب الدعا علی المشرکین ح۷۹۳۶.)
’’اے زندہ اور قائم رہنے والے اللہ میں تیری رحمت کے وسیلہ سے تیرے آگے فریاد کر تا ہوں۔‘‘
۲: نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاسے پہلے فرماتے تھے:
’’اَسْاَلُکَ بِکُلِّ اِسْمٍ ہُوَ لَکَ‘‘
(ترمذی.)
’’میں تجھ سے تیرے ہر نام کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں۔‘‘
۳: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو یوں دعا کرتے ہوئے سنا:
’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْٓ اَسْاَلُکَ بِاَنِّیْٓ اَشْہَدُ اَنَّکَ اَنْتَ اللّٰہُ لَٓااِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ الْاحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ.‘‘
’’ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس بات کے وسیلہ سے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک تو ہی اللہ ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘ تو اکیلا ہے‘ بے نیاز ہے‘ تیری کوئی اولاد نہیں اور نہ تو کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی تیرے برابر ہے۔‘‘
یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس نے اسم اعظم کے وسیلہ سے دعا مانگی ہے ۔اسم اعظم کے وسیلہ سے جب بھی دعا مانگی جائے قبول کی جاتی ہے اور جب اللہ سے کوئی سوال کیا جائے تو پورا کیا جاتاہے۔
(ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء فی جامع الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ ح۔ ۵۷۴۳.)