• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی خطبات از فضیلۃ الشیخ عبد السلام بستوی رحمہ اللہ

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اسلامی خطبات
مؤلف​
فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بستوی رحمہ اللہ​
عناوین​
تعارف مصنف​
مقدمۃ الکتاب​
خطبہ 1۔اخلاص
خطبہ 2۔کلمہ طیبہ کا پہلا جز لا الہ الا اللہ
خطبہ 3۔کلمہ طیبہ کا دوسرا جز محمد رسول اللہ
خطبہ 4۔ایمان اور اس کی شاخوں کا بیان
خطبہ 5۔ایمان اور اس کی بعض شاخوں کا بیان
خطبہ 6۔ایمان اور اس کی بعض اور شاخوں کا بیان
خطبہ 7۔ایمان اور اس کی باقی شاخوں کا بیان
خطبہ 8۔ایمان اور علم صالح کا بیان
خطبہ 9۔محاسن اسلام کا بیان
خطبہ 10۔خدا کی ہستی کا بیان
خطبہ 11۔توحید کے بیان میں
خطبہ 12۔توحید اور شرک فی العبادت
خطبہ 13۔توحید اور شرک فی العلم
خطبہ 14۔توحید اور شرک فی التصرف کا بیان
خطبہ 15۔توحید اورشرک فی العادت
خطبہ 16۔شرک کی مذمت
خطبہ 17۔استقامت
خطبہ 18۔اطاعت رسول
خطبہ 19۔اتباع سنت کا بیان
خطبہ 20۔اتباع سنت کی خوبی
خطبہ 21۔محبت رسول اللہ
خطبہ 22۔شفاعت رسول اللہ
خطبہ 23۔معراج رسول اللہ
خطبہ 24۔فضائل درود شریف
خطبہ 25۔فضائل سیدالمرسلین
خطبہ 26۔فضائل حدیث شریف
خطبہ 27۔مذمت بدعت نمبر ۱
خطبہ 28۔مذمت بدعت نمبر ۲
خطبہ 29۔مذمت بدعت نمبر ۳
خطبہ 30۔فضائل قرآن شریف
خطبہ 31۔امربالمعروف و نہی عن المنکر
خطبہ 32۔توبہ و استغفار کا بیان
خطبہ 33۔ تقوی کا بیان
خطبہ 34۔علم و عمل کا بیان
خطبہ 35۔اسلامی اخلاق کا بیان
خطبہ 36۔طہارت و صفائی کا بیان
خطبہ 37۔فضائل صلوٰۃ
خطبہ 38۔فضائل جمعہ و جماعت
خطبہ 39۔خطبہ جمعہ از تالیف مولانا شاہ محمد اسمٰعیل شہید
خطبہ 40۔نماز استسقاء و کسوف کا بیان
خطبہ 41۔فضائل شعبان و شب برات
خطبہ 42۔فضائل رمضان روزہ، سحری، افطار وغیرہ
خطبہ 43۔خطبہ عیدالفطر
خطبہ 44۔زکوٰۃ کا بیان
خطبہ 45۔فضائل صدقات
خطبہ 46۔فضائل سخاوت و فیاضی
خطبہ 47۔مذمت بخل
خطبہ 48۔فضول خرچی و میانہ روی
خطبہ 49۔گداگری کی مذمت
خطبہ 50۔حلال کمائی
خطبہ 51۔مذمت دنیا
خطبہ 52۔زہد و قناعت
خطبہ 53۔فضائل حرمین شریفین
خطبہ 54۔فضائل عشرہ ذی الحجہ
خطبہ 55۔خطبہ عید قربان
خطبہ 56۔فضائل و مسائل حج
خطبہ 57۔فضائل محرم اور بدعات محرم
خطبہ 58۔ماہِ صفر المظفر
خطبہ 59۔ماہِ ربیع الاول اور میلاد شریف
خطبہ 60۔حقوق العباد کا بیان
خطبہ 61۔حقوق الوالدین
خطبہ 62۔حقوق الاولاد
خطبہ 63۔حق القرابت (صلہ رحمی)
خطبہ 64۔حقوق الزوجین (میاں بیوی کے حقوق)
خطبہ 65۔مزدوروں کا حق
خطبہ 66۔خدمت خلق
خطبہ 67۔زبان کی حفاظت
خطبہ 68۔مذمتِ حسد
خطبہ 69۔زنا اور شراب نوشی و قمار بازی کی مذمت
خطبہ 70۔ظلم کی مذمت
خطبہ 71۔چوری کی مذمت
خطبہ 72۔ناپ تول میں کمی بیشی کی مذمت
خطبہ 73۔تکبر اور خودبینی کی مذمت
خطبہ 74۔غصہ کرنے کی مذمت
خطبہ 75۔تواضع و حلم اور نرمی کا بیان
خطبہ 76۔شرم و حیا کی فضیلت
خطبہ 77۔عفت و پاک دامنی کا بیان
خطبہ 78۔صبر کی فضیلت کا بیان
خطبہ 79۔شکر کی فضیلت کا بیان
خطبہ 80۔صلح کی اہمیت و فضیلت
خطبہ 81۔مشورہ کی اہمیت
خطبہ 82۔اسلامی حقوق
خطبہ 83۔ہمسایہ کے حقوق
خطبہ 84۔عدل و انصاف
خطبہ 85 ۔بیوہ اور یتیم کے حقوق
خطبہ 86 ۔مہمانوں کے حقوق
خطبہ 87 ۔اسلامی لباس کا بیان
خطبہ 88۔ اسلامی پردہ کی اہمیت
غض بصر اورپردہ کی حکمت
اظہار زینت کے حدود
خطبہ89۔ اسلامی صورت کا بیان
داڑھی منڈانے کی معاشی اور اقتصادی خرابی
طبی نقطہ نظر سے داڑھی منڈانے کے مضر اثرات
داڑھی بڑھانا فطرت سے ہے
خطبہ 90۔ اتفاق و اتحاد کا بیان
خطبہ 91۔ اسلامی مساوات
خطبہ 92۔ اسلامی رواداری
خطبہ 93۔ اسلامی ہمدردی
خطبہ 94۔ امانت داری کابیان
خطبہ 95۔ خیانت اور بددیانتی کا بیان
خطبہ 96۔ معاہدہ کی پابندی
خطبہ 97۔ حسن معاملہ
سود
دھوکہ سے روزی حاصل کرنا
تجارت کی اہمیت
خطبہ 98۔ معاملہ نکاح
رسومات و بدعات نکاح
خطبہ 99۔ امن و سلامتی کا بیان
خطبہ 100۔ امن کس طرح قائم رہ سکتا ہے؟
زنا کی تہمت
چوری اور شراب خوری کی سزا
خطبہ 101۔ گناہوں کے نقصانات
خطبہ 102۔ دل کی صفائی کے بیان میں
خطبہ 103۔ نیکیوں کے فائدے
خطبہ 104۔ فضائل ذکر الٰہی
خطبہ 105۔ دعا کی اہمیت و فضیلت
خطبہ 106۔ توکل علی اللہ یعنی خدا پر بھروسہ
خطبہ 107۔ خوف خدا کے بارے میں
خطبہ 108۔ بیمار پرسی کے بارے میں
خطبہ 109۔ یاد موت کے بارے میں
خطبہ 110۔ عالم برزخ عذاب و ثواب قبر
خطبہ 111۔ علامات قیامت
خطبہ 112۔ آغاز قیامت کے بارے میں
خطبہ 113۔ عرش الٰہی کے سایہ میں کون لوگ ہوں گے
خطبہ 114۔ حساب و کتاب کے بارے میں
خطبہ 115۔ حالات جہنم
خطبہ 116۔ حالات جنت
اوصاف مومن
الدین النصیحۃ
بچوں کی دینی تربیت
شکریہ
عبادت الٰہی
والدین کی خدمت
حق قرابت
اسراف و فضول خرچی
بخل اورسخاوت
اولاد کشی
زناکاری و بدکاری
ناحق نفس کشی
ناحق یتیموں کا مال کھانا
ایفائے عہد
ناپ تول میں کمی و بیشی
بے پتے بات کے پیچھے مت پڑو
تکبر
شرک کی مذمت
فضائل آیۃالکرسی و نور الٰہی
دو پسندیدہ کلمے​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ترجمة المؤلف
مختصر حالات حضرت مولانا عبدالسلام صا حب بستوی رحمہ اللہ​
وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا (العنکبوت:69)
یہ دنیا دارالعمل ہے، سعی و کوشش کی جگہ ہے اور ابتلاء و آزمائش کا مقام ہے۔ یہاں وہی شخص کامیاب ہو سکتا ہے جو اعمالِ صالحہ کے ذریعہ سفر آخرت کے لئے زادِ راہ تیار کرے جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ اور کتنی پاکیزہ ہے اُن کی چند روزہ زندگی! جو اس عظیم مقصد زیست کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو خدمت خلق اور اطاعت خدا و رسول کے لئے وقف کر دیتے ہیں، جنہیں غم امروز سے زیادہ فکر فردا کی تڑپ ہوتی ہے جن کے قلوب میں ہمیشہ فلاحِ آخرت کا جذبہ بیدار رہتا ہے۔ اور اس راہ میں وہ زندگی کے ہر نازک موڑ سے گذر کر بھی منزلِ مقصود تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاریخ کے صفحات میں آپ کو ایسے لوگ بہت کم ملیں گے۔ انہیں خوش نصیب موہوب من اللہ لوگوںمیں سے حضرت الاستاذ مولانا عبدالسلام صاحب بستوی سلفی (رحمہ اللہ) ہیں جو عہد پیری میں بھی جواں عزم رکھتے ہیں۔ آپ کی ذات بابرکات عوام و خواص، طلباء و علماء غرض کسی طبقہ میں بھی محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ تاہم میں چاہتا ہوں کہ آپ کی پاکیزہ زندگی کے ان گوشوں پر مختصر روشنی ڈال دی جائے، جو اپنے اندر ہزاروں نصائح و عبر لئے ہوئے ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔​
آپ کا شجرئہ نسب یہ ہے، عبدلسلام بن شیخ یاد علی بن شیخ خدا بخش بن شیخ ظہور احمد (رحمة اللہ علیہم) یوں تو آپ کے اجداد و اکرام فیض آباد کے باشندے تھے لیکن غدر 1857ء؁ کی قیامت خیز ہولناکیوں میں فیض آباد کو خیرباد کہہ کر ضلع بستی کے موضع بشن پور علاقہ سوہانس نوگڑھ میں سکونت پذیر ہوئے۔​
ولادت اور تعلیم وتربیت: مشاہدات و تجربات شاہد ہیں کہ قدرتِ خداوندی جس سے کوئی نمایاں کام لینا چاہتی ہے، اسے اکثر عہد طفلی ہی میں ماں یا باپ کی آغوش شفقت سے جدا کر دیتی ہے۔ شاید اس لئے کہ جو لوگ بچپن ہی سے صدمے اور تکلیفیں اُٹھاتے، سردگرم اور خشک و تر آزما لیتے ہیں۔ ان کے دل دوسروں سے زیادہ نرم گداز، حساس اور دردمند ہو جاتے ہیں۔ آئے دن کے حوصلہ شکن واقعات اور رُوح فرسا حادثات اُن کے سامنے آتے ہیں۔ مگر بمصداق : ع: رنج کا خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
وہ نہایت ضبط و تحمل کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتے ہیں اور ؎
جو طوفان میں پلتے جا رہے ہیں وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں​
کے مطابق زندگی کے ہر نازک موڑ سے ثبات و استقلال کی تصویر بن کر گذر جاتے ہیں۔ اور آنے والی نسلوں کے لئے ایسی شاہراہ متعین کر جاتے ہیں جس پر گامزن ہوتے ہی منزل مقصود کی جھلک مل جاتی ہے۔​
آپ کا سن ولادت غالبا 1227ھ ہے۔ ابتدائی تعلیم بڑی مشکلات سے ہو سکی اور مختلف اساتذہ سے فیض حاصل کیا، وہ اس طرح کہ ابھی بغدادی قاعدہ ہی پڑھا تھا کہ تعلیم دینے والا کوئی اور نہ مل سکا۔ اس لئے قرآن مجید کی تعلیم کے لئے ریاست نیپال کے ایک موضع محشٹر کی طرف رخت سفر باندھ دیا۔ وہاں سے کامیاب ہوجانے کے بعد گھر واپس آئے لیکن یہاں کی سکونت راس نہ آسکی اور والدین کے ساتھ کلکتہ مٹبا برج تشریف لے گئے۔ یہاں آکر ایسا غیرمعمولی صبر آزما حادثہ پیش آیا جس کی وجہ سے آپ کی تعلیمی زندگی کی راہمیں رکاوٹوں کے پہاڑ کھڑے ہو گئے۔ یعنی ابھی آپ کی عمر عزیز کی دس بہاریں بھی نہ گزری تھیں کہ قسمت نے والد محترم کا سایہ آپ کے سر سے جدا کر دیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس غیر معمولی حادثے نے آپ کے سکون و اطمینان کو یکسر غارت کر دیا۔ اور بے کاری و بے سروسامانی میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔ اب سوائے والدہ محترمہ کے ایسا کوئی نہ تھا جو آپ کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ مبذول کر سکے۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اپ بچپن ہی سے علم کی تشنگی محسوس کرتے رہے اور اس کے بجھانے کی فکر میں لگے رہے۔ اس لئے بسراوقات کے لئے آپ نے ایک مل میں ملازمت کر لی۔ دن بھر کام کرتے اور رات کو محلہ کے مختلف لوگوں سے اُردو پڑھتے رہتے۔ یہ سلسلہ ڈیڑھ سال کے طویل عرصہ تک جاری رہا۔ اس طرح دینیات کی معمولی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بستی وطن مالوف کی طرف مراجعت کی۔ فارسی کی ابتدائی کتابیں مدرسہ مفتاح العلوم بھٹ پورہ میں میاں عبدالرحمن نیپالی سے پڑھیں۔ ایک سال کے بعد ریاست نیپال کے ایک موضع پڑریا میں حضرت مولانا عبدالمجید صاحب مرحوم کی خدمت میں تشریف لے آئے۔ وہاں رہ کر گلستاں بوستاں اور عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ ایک سال کے بعد باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے دہلی کی طرف رخت سفر باندھ دیا۔ اور مدرسہ حمیدیہ صدر بازار پان منڈی میں داخلہ لے لیا۔ مدرسہ رحمانیہ دہلی کی تاسیس کا یہ پہلا سال تھا۔ اس کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی۔ دہلی میں کل چھ ماہ قیام کر سکے اور مظاہر علوم سہارنپور میں آکر حضرت مولانا خلیل احمد صاحب رحمة اللہ علیہ مؤلف بذل المجہود شرح ابی داؤد کی خدمت میں رہنے لگے۔ حضرت مولانا مرحوم لفظ حضرت سے یاد کئے جاتے تھے۔ حضرت کے دست مبارک پر بیعت کی۔ حضرت بہت محبت و شفقت سے پیش آتے۔ کبھی کبھی صرف کے صیغے بھی دریافت فرماتے۔ ایک سال تک آپ نے اپنے ہی سایہ شفقت میں رکھا۔ اور حضرت مولانا مسعود احمد کے پاس اسباق مقرر فرما دیئے۔ رفقاءِ درس میں مولانا رحمت اللہ خیراوی اور مولانا عبدالرحیم صاحب حسن پوری وغیرہ بھی تھے۔ مولانا مسعود احمد صاحب سے از سرنو عربی کی ابتدائی کتابیں میزان، منشعب، نحو میر، صرف میر، پنج گنج، شرح مائة عامل وغیرہ اور مولانا عبدالمجید صاحب سے گلستان، بوستاں، اخلاق محسنی، احسن القواعد وغیرہ پڑھیں۔ دوسرے سال باقاعدہ مدرسہ مظاہر علوم میں داخلہ ہو گیا۔ اور مدرسہ کے نصاب کے مطابق تعلیم حاصل کرنی شروع کی۔ مولانا محمد صدیق صاحب سے کافیہ، شرح تہذیب وغیرہ اور بعض اساتذہ سے قدوری، نورالایضاح، شرح وقایہ، اصول الشاشی وغیرہ قطبی، میر قطبی اور ملا حسن۔ اور مولانا اخلاق احمد صاحب سے نورالانوار، اور مولانا عبدالشکور صاحب ولایتی سے ہدایہ اولین، مختصر المعانی اور مولانا ظہور الحسن صاحب سے شرح جامی، مولانا زکریا صاحب قدوسی سے کنز الدقائق وغیرہ پڑھیں۔ غرض پانچ سال تک مسلسل مدرسہ مظاہر العلوم میں رہ کر مذکورہ بالا کتابیں پڑھیں۔ نحو و صرف، فقہ، اصولِ فقہ، منطق کی اکثر کتابوں کے پڑھنے کے بعد حدیث پڑھنے کا جب وقت آیا تو غور و فکر کر کے مدرسہ رحمانیہ دہلی آنا مناسب سمجھا۔ چنانچہ رمضان ہی میں دہلی چلے آئے۔ اور رمضان کی تعطیل کلاں کی وجہ سے عارضی طور پر مدرسہ زبیدیہ محلہ نواب گنج میں مقیم ہو گئے۔ رمضان کے بعد داخلہ کا امتحان شروع ہوا۔ حضرت مولانا عبدالغفور صاحب اعظم گڑھی رحمة اللہ علیہ اور دیگر اساتذہ کرام نے امتحان لے کر داخل مدرسہ کیا۔ اور آٹھویں جماعت تک یہاں تعلیم حاصل کی۔ حضرت مولانا احمد اللہ صاحب مرحوم شیخ الحدیث مدرسہ رحمانیہ سے ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، بخاری مسلم اور حضرت مولانا عبدالغفور صاحب اعظم گڑھی سے نسائی، شرح چغمینی، شمس بازغہ، تصریح، ہدیہ سعیدیہ، مولانا عبدالرحمان صاحب سے جلالین حماسہ، مقامات حریری، متنبی، سبعہ معلقہ، مولانا سکندر علی ہزاروی سے حمداللہ، صدرا، اقلیدس، شرح عقائد، اُمور عامہ، میبذی، بیضاوی پڑھیں۔ رحمانیہ سے فارغ ہو کر ندوہ لکھنؤ گئے۔ یہاں طبیعت نہیں لگی۔ پھر تکمیل الطب کالج میں طب پڑھنے کے لئے داخلہ لے لیا اور نفیسی، سدیدی، کامل الصناعہ وغیرہ کتابیں پڑھیں اور مدرسہ فرقانیہ میں فلسفہ کی کتاب شرح اشارات پڑھی۔ اسی اثنا میں دوبارہ دورئہ حدیث پڑھنے کا خیال ہوا۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے دیوبند تشریف لے گئے۔ اور حضرت مولانا مرتضی حسن صاحب نے اُمورِ عامة، صدرا، شمس بازغہ وغیرہ کا امتحان لے کر دورئہ حدیث میں شرکت کی اجازت مرحمت فرمائی۔ چنانچہ وہیں بھی حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی سے بخاری اور ترمذی، حضرت مولانا غلام رسول صاحب سے مسلم، اور حضرت مولانا صغیر حسین میاں صاحب سے ابوداؤد اور حضرت مولانا مرتضی حسن سے طحاوی، ابن ماجہ اور حضرت مولانا محمد شفیع صاحب سے مؤطا امام مالک اور مولانا محمد ابراہیم صاحب سے نسائی اور حضرت مولانا اعزاز علی صاحب سے شمائل ترمذی پڑھیں۔ فالحمد للہ رب العالمین۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
دیوبند سے فارغ ہو کر دہلی آئے۔ اور حضرت میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے مدرسہ پھاٹک حبش خاں میں مقیم ہوئے۔ حضرت مولانا سید عبدالحفیظ صاحب سے شرح اسباب اور قانوں شیخ پڑھا۔ مولوی فاضل پنجاب کا امتحان دیا۔ اور اجازتِ حدیث کی سند حضرت مولانا احمداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمانیہ اور حضرت مولانا شرف الدین صاحب دہلوی شیخ الحدیث مدرسہ سعیدیہ ور حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مدرسہ زبیدیہ اور حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارکپوری مؤلف تحفة الاحوذی شرح ترمذی نے دی۔ ان سب اساتذہ کرام کا سلسلہ روایت حدیث حضرت شاہ ولی اللہ پر ختم ہوتا ہے۔ باقی سندیں المکتوب اللطیف الی المحدث الشریف اور مقدمہ غایة المقصود، عجالہ نافعہ، الارشاد الی مہمات الاسناد، کتاب الامم لایقاظ انہمم اور اتحاف الاکابر وغیرہ میں ملاحظہ فرمائیں۔
حضرة الاستاذ مولانا موصوف انوارالمصابیح ترجمہ مشکوٰة المصابیح کے مقدمہ صفحہ 73 میں فرماتے ہیں کہ ''خاکسار راقم الحروف کو اپنے اسلاف کے سلک مردارید میں منسلک ہونے کا شرف حاصل ہے۔
گرچہ از نیکاں نیم خودرا بہ نیکاں بستہ ام
در ریاض آفرینش رشتہ گلدستہ ام
فی الجملہ نسبتے بتو کافی بود مرا
بلبل ہمیں کہ قافیہ گل شود بس است
اولٰئک اٰبائی فجئنی بمثلھم
اذا جمعتنا یا جریر المجامع

ماہِ شوال ۱۲۴۹ھ؁ میں مدرسہ دارالحدیث و القرآن المشہور بہ مدرسہ حاجی علی جان چاندنی چوک دہلی میں حضرت مولانا احمد اللہ صاحب شیخ الحدیث رحمانیہ، حضرت مولانا ضمیر مرزا صاحب نواب لوہارو، حضرت الحاج حضرت مولانا عبدالغفار صاحب آف حاجی علی جان کے توسل سے درس حدیث کے لئے رونق افروز ہوئے۔ ۱۶ سال تک برابر مدرسہ میں درسِ حدیث دیتے رہے۔
نکاح: ۱۳۵۰؁ھ میں شیخ قربان علی صاحب ساکن بھٹ پرا ڈاکخانہ لوٹن ضلع بستی کی دختر نیک اختر ام سلمہ شاہ بانو سے شادی ہوئی اور ۱۳۵۴؁ھ میں حاجی محمد یعقوب علی صاحب ساکن پڑریا ریاست نیپال کی صاحبزادی اُم محمودہ بتول سے نکاح ہوا۔ دونوں رفیقہ اب تک ۱۳۸۸؁ھ بقید حیات موجود ہیں اور دونوں سے حسب ذیل اولاد ہیں۔
پہلی خاتون سے عبدالرشید جن کی پیدائش ۱۶ رمضان المبارک ۱۹۵۹؁ء بروز سنیچر بعد نماز ظہر موضع بھٹ پرا ضلع بستی میں ہوئی۔ عبدالحلیم ثانی کی پیدائش ۲۱ ذوالقعدہ ۱۳۶۲؁ھ محلہ نواب گنج دہلی میں ہوئی۔ عبدالعزیز کی پیدائش ۶ شوال ۱۳۷۲؁ھ بروز دو شنبہ موضع ششہنیاں میں ہوئی۔ عبدالمنان کی پیدائش ۱۴ جون ۱۹۵۸؁ء مطابق ۲۵ ذی القعدہ ۱۳۷۷؁ھ اتوار کی رات کو ۱۰ بجے محمدی جہاز کے زنانہ ہسپتال میں بمبئی سے دو دن کے فاصلہ پر حج کو جاتے ہوئے سمندر میں ہوئی۔ اٰمنہ کی پیدائش ۲۔رجب ۱۳۵۵؁ھ موضع بھٹ پڑا ضلع بستی میں ہوئی۔ یہ سب بحمد اللہ بقید حیات موجود ہیں۔ اور عبدالحلیم اول ایک ماہ اور عبدالعظیم دو سال زندہ رہ کر داغ مفارقت دے کر خدا کو پیارے ہو گئے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
دوسری خاتون سے عبدالحئی جن کی پیدائش ۱۳ جمادی الاولیٰ ۱۳۶۲؁ھ محلہ نواب گنج دہلی میں ہوئی۔ عبدالحنان کی ولادت ۱۱۔ذی قعدہ ۱۳۷۶؁ھ ششہنیاں ضلع بستی میں۔ محمودہ کی پیدائش ۲۱ذی الحجہ ۱۳۵۸؁ھ بروز جمعرات محلہ نواب گنج دہلی میں ہوئی۔ مسعودہ کی پیدائش ۳صفر ۱۳۷۳؁ھ اتوار کے دن ششہنیاں میں ہوئی۔ سعیدہ عرف مقصودہ ۶محرم الحرام ۱۳۸۰؁ھ کو ششہنیاں میں پیدا ہوئی۔ یہ سب بقید حیات موجود ہیں۔ اور عبدالصمد ۲۵ روز اور حمیدہ دو سال زندہ رہ کر ذخیرئہ آخرت ہو گئے۔
تقسیم ملک کی ناگہانی آفت: ۱۳۶۶؁ھ تک مدرسہ حاجی علی جان میں درسِ حدیث کا سلسلہ جاری رہا۔ مگر اسی سال قیامت خیز حادثہ سے وطن مالوف جانا پڑا۔ یہ وہ تاریخی زمانہ تھا جب ۱۵۔ اگست ۱۹۴۷؁ء کو ہمارا ملک ہندوستان غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہوا۔ تقریباً سو سال کے بعد جب طوق غلامی سے آزاد ہوئے تو اس کی خوشی میں اپنے بھائیوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ اور آزادی کی شراب پی کر ایسے بدمست ہوئے کہ آنکھوں پر پردہ پڑگیا۔ اپنے بیگانے میں امتیاز ختم ہو گیا، چنانچہ دشمنوں کے لئے تیار کئے گئے حربے اپنے ہی بھائیوں پر آزمانے لگے۔ اور ایسی تباہی و بربادی مچی جس کی وجہ سے خاندان کے خاندان اُجڑ گئے۔
دہلی چونکہ ملک کا دارالحکومت ہے اس وجہ سے یہ وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ یہاں بھی فتنہ و فساد کے بازار گرم ہوں گے اور ہلاکو و چنگیز خان کی سیاہ تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں گے۔ اس لئے یہاں کے باشندےمطمئن اور خوش تھے۔ جشن آزادی کے موقع پر دونوں بھائی برابر شریک رہے۔ تاہم شہر کو دوشیزہ کی طرح سنوارا گیا۔ چاندنی چوک اور کمپنی باغ تو بقع نور بنے ہوئے تھے۔ مولانا کا کتب خانہ اسی چاندنی چوک متصل گھنٹہ گھر کوچہ خان چندکی مسجد حاجی علی جان مرحوم کے شمالی کمرے میں تھا۔ اس سولہ سالہ زندگی میں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تألیف کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اور مختلف موضوع پر بہت سی مفید اور نفع بخش کتابیں لکھیں جن میں بہت سی چھپ کر مقبول عام و خاص ہو گئیں۔ اور کچھ کتابیں اب تک بھی نہیں چھپ سکیں۔ ان غیر مطبوعہ ہی میں سے بعض خاص طور پر قابل ذکر ہیں جن کے ضائع ہو جانے کا مولانا کو بڑا صدمہ ہے۔
(۱) ابن ماجہ کی عربی مطول شرح۔ (۲) الصمصام الباری علی عنق جارح البخاری۔ (۳) خیر المتاع فی مسائل الرضاع۔ (۴)اللعب بالشطرنج۔ (۵) حقوق الزوجین۔ (۶) متفرق مضامین۔ یہ سب کتابیں اسی کتب خانے میں تھیں۔ ان کے علاوہ مولانا کے پاس اور دیگر مصنفین کی مطبوعات ہزاروں کی تعداد میں تھیں۔ جن کی لاگت تقریباً اسی ہزار روپے تھی۔ یہ بیش بہا ذخیرہ شوال ۱۳۶۶؁ھ مطابق ۱۹۴۷ کے قیامت خیز حادثہ میں برباد کر دیا گیا۔ اس ناقابل تلافی نقصان سے مولانا کے دل و دماغ دونوں ماؤف ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مراجعت وطن بستی: ان آفات و مصائب کے بعد مراجعت وطن کے وقت راستہ میں بہت سا سامان ضائع ہو گیا۔ اس میں بھی بڑی بڑی بیش بہا اور قیمتی چیزیں تھیں۔ الغرض بہت سی تکلیفیں اُٹھانے کے بعد اپنے وطن بستی پہنچے۔
۲۷ سال کے طویل عرصہ تک دہلی میں قیام کرنے کی وجہ سے وطن کے جدی مکان پر اغیار کا قبضہ ہو چکا تھا۔ اس لئے مجبوراً عزیزوں میں ٹھہرے لیکن ان لوگوں کے غیر شریفانہ سلوک نے زخم پر نمک پاشی کا کام کیا۔ سچ ہے:
بوقت تنگ دستی آشنا بے گانہ می گردد
صراحی چوں شود خالی جدا پیمانہ می گردد
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بے زر کو اپنے پاس بٹھاتا نہیں کوئی
روتے ہوؤں سے آنکھ ملاتا نہیں کیوئی
دریائے بے کنار جوانی اتر گیا
موتی کی قدر کیا ہو جو پانی اتر گیا
المرء فی زمن الاقبال کالشجرة والناس من حولھا ما دامت الثمر حتی اذا راح عنھا حملھا وانصرفوا و خلفوا تقاسی الحر والقبر
یہ زخم ابھی مندمل نہیں ہونے پایا تھا کہ یکے بادیگرےدو بچوں حمیدہ و عبدالعظیم کے انتقال پرملال سے رہی سہی عقل بھی جاتی رہی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
بیکاری و بیماری اور بعض رشتہ داروں کی بدسلوکی نے پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا۔ کیفیت یہ رہی کہ آپ کے بچے کسمپرسی کے عالم میں کچھ ضلع بستی میں اور کچھ نیپال کے علاقہ میں تھے۔ کیونکہ اپنا کوئی مکان تھا نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کرایہ کا مکان بھی نہ ملتا تھا۔ چنانچہ علالت طبع کے باوجود مکان تلاش کرنے نکل پڑے۔ علاقہ نیپال و ضلع بستی کے دَورے میں طبیعت کو ایک طرف متوجہ کرنے کے لئے اسلامی تعلیم کا ضائع شدہ حصہ دوبارہ قلمبند کرنا شروع کر دیا۔ لیکن کسی جگہ مستقل قیام ہی نہ ہو سکا۔ چہ جائے کہ سکون و اطمینان اور فارغ البالی نصیب ہو۔ اس وجہ سے دو ایک صفحہ کسی جگہ اور دو چار ورق کہیں لکھ لیا کرتے تھے۔ مہینوں یہی حالت رہی کہ صبح کہیں اور شام کہیں۔
ایک جا رہتے نہیں عاشق بدنام کہیں دن کہیں رات کہیں صبح کہیں شام کہیں
مکان کی جستجو میں اسٹیٹ الیدہ پور کے موضع ششہنیاں پہنچے۔ وہاں جناب مولانا عبدالجلیل صاحب رحمانی ناظم دارالعلوم سے گرا پڑا مکان خریدا۔ اس کو دوبارہ تیار کر کے بچوں کو بسایا۔ اسی دوران میں حضرت امین القوم حاجی محمد صالح آف حاجی علی جان صاحب دہلوی مدظلہ کے بغرض طلبی بہت سے خطوط موصول ہو چکے تھے۔ لیکن مولانا ان مذکورہ بالا مجبوریوں کی وجہ سے حاضر خدمت ہونے سے مجبور تھے۔ بالآخر ایک گونہ سکون ہونے کے بعد اگست ۱۹۴۸؁ء میں دہلی آئے۔ اور ایک ماہ کی بیکاری کے بعد جناب مولانا سید تقریظ احمد صاحب سہسوانی ادام اللہ فیوضہ کی سعی مشکور سے مدرسہ ریاض العلوم مچھلی دالان میں درس حدیث کے مسند پر پھر جلوہ افروز ہوئے۔ خدا کے فضل و کرم سے ۱۳۴۹؁ھ سے اب تک ۱۳۸۸؁ھ اس درس و تدریس تالیف و تصنیف اور فتوی نویسی کے اشرف المشاغل میں مصروف ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ان اہم تصنیفات کے علاوہ اور بھی متعدد تصانیف ہیں جن میں سے چند قابل قدر مطبوعات ہیں: فضائل قرآن، فضائل حدیث، کلمہ طیبہ کی فضیلت، کتاب الجمعہ، زبان کی حفاظت، مذمت حسد، ایمان مفصل، رسالہ اصول حدیث، چہل حدیث، مصباح المؤمنین ترجمہ بلاغ المبین۔ ماہنامہ الاسلام۔ جوہرماہ پابندی سے شائع ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں مختلف مضامین زیر تالیف ہیں۔
زیارتِ حرمین شریفین: حضرت مولانا محترم نے اب تک تین حج کئے۔ ایک ۱۳۶۸؁ھ میں۔ دوسرا ۱۳۷۸؁ھ میں اور تیسرا ۱۳۸۴؁ھ میں۔ ان کی تفصیل انوار المصابیح اور دیگر کتب میں ملتی ہے۔
اخلاق و عادات: آپ نہایت ہی حلیم الطبع، خلیق، ملنسار، سادہ مزاج اور کم سخن ہیں۔ خلوص و سادگی اور متانت و سنجیدگی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ لہو و لعب اور دیگر لایعنی باتوں سے بہت دُور اور متنفر رہتے ہیں۔ نام و نمود، تکلف و تصنع اور تعصب و تنگ نظری نام کو نہیں ہے۔ حسن اخلاق کے نمونہ اور پیکر اخلاص و مروت ہیں۔ خاکساری اور فروتنی تو گویان ان کے خمیر ہی میں ہے۔ آپ بہت مہمان نواز اور غرباء و طلباء کے خدمت گزار ہیں۔ نہایت محنتی اور جفاکش ہیں۔ آپ بزرگوں کا بہت عزت و احترام کرتے ہیں۔ اثناءِ درس و تقریر میں بہت عزت سے نام لیتے ہیں۔ مسائل کی تحقیق مدلل طریقہ سے بیان فرماتے ہیں۔ افراط و تفریط اور اسراف و تبذیر سے کوسوں دُور رہتے ہیں۔ بہت ہی معمولی اور سادہ لباس پہننے کے عادی ہیں۔ فخر و غرور بالکل نہیں ہے۔ درس و تدریس تالیف و تصنیف، کتب بینی تحریر وتقریر اور فتوی نویسی آپ کا محبوب شغل ہے۔
مسلک: آپ سلفی العقیدہ ہیں، کتاب و سنت کے عامل اور انہیں کو اصل اور متبوع سمجھتے ہیں۔ اور فقہائے کرام کے اقوال کو تابع جانتے ہیں۔ جو اقوال کتاب و سنت کے مطابق ہوتے ہیں لے لیتے ہیں اور مخالف کو چھوڑ دیتے ہیں۔ چنانچہ آپ اپنے مسلک کی توضیح فرماتے ہیں کہ:
''میں اصولی حیثیت سے ائمہ اربعہ کو حق سمجھتا ہوں اور اُن کا احترام کرتا ہوں۔ اُن میں سے جس کا قول زیادہ صحیح و قوی اور کتاب و سنت کے موافق پاتا ہوں اُسے بسرو چشم قبول کرتا ہوں اور اسی پر فتوے دیتا ہوں......''
غرض آپ عملی اور اعتقادی حیثیت سے سلف صالحین کے ہم مشرب و ہم مسلک ہیں۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آ پ کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ اور آپ کی دینی و اسلامی خدمات کو قبول فرمائے۔
ایں دُعا از من واز جملہ جہاں آمین باد۔ تغمدہ اللہ برحمتہ (ماخوذ الاعتصام مجریہ ۲۲ محرم ۱۳۹۴؁ھ ۱۵ فروری ۱۹۷۴؁ء)
وفات: آہ! علم و عمل کی یہ روشن شمع یکم محرم الحرام ۱۳۹۴؁ھ مطابق ۷۔فروری ۱۹۷۴؁ء ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی۔
محمد یونس ارشد بلرام پوری
دہلی ... جنوری ۱۹۶۹۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مقدمۃ الکتاب
امابعد ! خاکسار عبدالسلام بستوی سلفی سلمہ اللہ تعالیٰ تمام اسلامی بھائیوں سے عرض گزار ہے، کہ موجودہ دور نہایت ہی نازک اور پُرازفتن ہے، چاروں طرف الحادودہریت کا سیلاب ہی سیلاب نظر آرہا ہے، مسلمان بھی اسی سیلاب کی نذر ہوتے جا رہے ہیں، ان سیلاب زدہ مسلمانوں کو بچانے کی ضرورت ہے، کہ ان کو ا چھی باتیں بتائی جائیں اوربری باتوں سے روکاجائے کیونکہ اکثر لوگ ناواقفی کی وجہ سے اسلام کے احکام کو چھوڑتے جا رہے ہیں، نہ نماز روزے کے پابند ہیں ا ور نہ حج و زکوٰۃ کے خوگر ہیں، ا گر کچھ خیال آگیا، تو جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں شریک ہو جاتے ہیں، مگر عربی میں خطبہ ہونے کی وجہ سے کچھ ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔ حالانکہ وعظ و نصیحت کا بہترین موقع جمعہ کا دن ہے، کہ اس کے خطبے میں اسلامی احکام سے مسلمانوں کو آگاہ کیا جائے، رسول ا للہﷺ اپنے مبارک زمانے میں اپنے خطبات سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دلوں میں اسلامی جوش پیدا کر دیتے تھے، جس سے ان کے ایمان تازہ ہو جاتے اور وعیدو ترہیب سن کر وہ زارو قطار رونے لگتے۔ یہی حال ہر نبی اور رسول کا تھا کہ اپنی اپنی اُمت کو اُن ہی کی زبان میں خطبہ دیا کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِۦ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ(ابراہیم:۴)
'' اور ہم نے تمام رسولوں کو ان کی قوم کی زبان میں رسول بنا کر بھیجا، تاکہ وہ اللہ کے حکموں کو ان کے سامنے کھول کھول کر بیان کریں''۔
موجودہ زمانے میں اگر خطیب صاحبان قوم کی زبان میں خطبہ دیں، تو ان نبیوں کی سنت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دلوں میں بھی کچھ اثر پیدا ہو، لیکن ہمارے بعض بھائی جمعہ کا خطبہ صرف عربی زبان میں دیتے ہیں، حالانکہ سننے والے عربی زبان بہت کم سمجھتے ہیں، یا پھر سمجھتے ہی نہیں، کیونکہ خطبہ اور وعظ کے معنٰی نصیحت کے ہیں، اور نصیحت اُسی وقت مفید ہوسکتی ہے، جب کہ مخاطب اور سننے والا سمجھ سکے، یعنی اس کی زبان میں سمجھایا جائے، اگر اس کی زبان میں نہ سمجھایا جائے تو کچھ فائدہ نہیں ہوگا، جیسے غیر انگریزی دان کے سامنے انگریزی میں تقریر کر ے، یا عربی نہ جاننے والے اندھے کو کنویں میں گرنے سے بچانے کے لیے ایاک والبئر کہے، اور بار بار ہمدردی اور خیر خواہی کے طور پر عربی ہی میں ایاک والبیر کہتا رہے، اس کا ترجمہ اور مطلب نہ سمجھائے، تو ظاہر ہے کہ نابینا کنویں میں گر کر ہلاک ہو جائے گا، ایاک والبیر کہنے والے کو کچھ ثواب نہیں، بلکہ الٹا عذاب ہوگا، اور اس کی زبان میں اگر وہ کہے، کہ بھائی تیرے راستے میں آگے کنواں ہے، اس سے بچنا، تو وہ اندھا بچنے کی کو شش کر کے ہلاکت سے بچ جائے گا،اور بچانے والے (کہنے والے)کو بھی خیر خواہی کا ثواب ملے گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اسی طرح خطیب صاحبان منبر پر کھڑے ہو کر نہایت خوش الحانی سے عربی زبان میں خطبہ دیں تو ہندوستانی عربی نہ جاننے والے مخاطبین اور حاضرین کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، جیسے خالی ہاتھ آئے تھے، ویسے ہی خالی چلے جاتے ہیں، رسول اللہ ﷺ ہر جمعہ کے خطبہ میں وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے صحیح مسلم شریف میں ہے۔
''کَانَ یَقْرَاُالْقُرْاٰنَ وَیُذَکِّرُالنَّاسَ''
''آپ خطبہ میں قرآن مجید تلاوت فرما کر لوگوں کو نصیحت کیا کرتے تھے''۔
ابن ماجہ میں ہے۔
''یُذَکِّرُھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ''
''خطبہ میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کو بیان فرماتے اور لوگوں کو قرآن مجید کا مطلب سمجھاتے تھے''۔
اور فقہ کی کتابوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے، کہ حسب ضرورت خطیب خطبہ میں وعظ و نصیحت کرے اور سمجھائے، چنانچہ کتاب مبسوط میں ہے۔
''وَالْخُطْبَۃُ کُلُّھَا وَعْظٌ وَّ اَمْرٌ بِمَعْرُوْفٍ''
یعنی خطبہ وعظ و نصیحت اور امر بالمعروف اور نہی عن ا لمنکر کا نام ہے ۔
یہ مانی ہوئی بات ہے، کہ تعلیم کا اثر اسی وقت ہو سکتا ہے، جب کہ ان کی زبان میں ہو، درمختار میں ہے، کہ:
''یُعَلِّمُ النَّاسَ فِیْھَا اَحْکَامَ صَدَقَۃِ الْفِطْرِوَ ھٰکَذَا کُلَّ حُکْمٍ احْتِیْجَ اِلَیْہِ لِاَنَّ الْخُطْبَۃَ شُرِعَتْ لِلتَّعْلِیْمِ''۔
یعنی امام و خطیب کو چاہیے کہ رمضان المبارک کے آخری خطبہ میں صدقہ فطر کے حکموں کو سکھائے اور سمجھائے اسی طرح ان تمام مسئلوں کو سمجھاتا رہے، جن کی ضرورت پیش آئے، کیونکہ خطبہ کا مقصد تعلیم اور سمجھانا ہی ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں، کہ فارسی زبان میں اگر خطبہ دے تو جائز ہے، چنا نچہ نہایہ میں ہے:
''فعندہ یجوز بالفارسیۃ''
یعنی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فارسی زبان میں خطبہ دینا جائز ہے۔
جامع المضمرات و مجتبیٰ ا ور فتاویٰ سراجیہ اور فتاویٰ شامی میں بھی اس طرح سے ہے، جب فارسی میں خطبہ دینا جائز ہے، تو ا ردو میں اور عربی کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی جائز ہی ہو سکتا ہے، ہم نے اس مسئلہ کی پوری تفصیل و تحقیق ''البرھان القاطع لا ثبات الخطبۃ بلسان السامع'' اور ''کتاب الجمعۃ '' میں کی ہے۔
خطبہ کو نماز پر قیاس کرنا درست نہیں ہے، نماز میں قرآن شریف کا پڑھنا فرض ہے، اور خطبہ میں قرآن مجید کا پڑھنا ضروری نہیں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ (مزمل)قرآن مجید میں سے جو آسان ہو پڑھ لیا کرو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
لفظ فَاقْرَءُوْا امر کا صیغہ ہے، جو وجوب کے لیے ہے، اور لفظ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا تَیَسَّرَ کا بیان ہے لہٰذا نماز میں قرآن مجید کا پڑھنا فرض ہے اور قرآن اس مخصوص علم عربی کا نام ہے، جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا اور متواتر نقل سے ہم تک پہنچا ہے، اگر نماز میں فارسی، اردو وغیرہ ترجمہ کر کے پڑھا جائے تو جائز نہیں ہوگا، کیونکہ وہ عربی نہیں ہے، اور خطبہ میں یہ شرط نہیں ہے، بلکہ قرآن مجید، حدیث شریف اور اس کے موافق جو ہو پڑھ سکتے ہیں۔
خاکسار راقم الحروف نے اسلامی خطبات کے نام سے چند خطبات کی ترتیب دی ہے تاکہ عربی نہ جاننے والے اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور ان کو اختیار ہے کہ عربی خطبوں کو مع اردو کے پڑھ کر سنا دیں یا صرف عربی خطبہ پر اکتفا کریں، اسی لیے شروع میں عربی خطبہ کے ساتھ قرآن مجید کی آیتیں اور حدیثیں مضمون کے مطابق لکھ کر ان کا ترجمہ اور عام فہم مطلب سمجھا یا ہے، اور کہیں کہیں مضمون کی تائید میں حدیث کا سچا واقعہ بھی بیان کر دیا ہے، اور بس
ما قصہ سکندر و دارا نہ خواندہ ایم
از ما بجز حکایت مہر و وفا مپرس
جمعہ کے علاوہ وعظ و نصیحت کے طور پر ان خطبوں کو جلسوں میں بھی بیان کیا جاسکتا ہے، کچھ خطبے لمبے اور کچھ مختصر ہیں۔ اگر جمعہ میں پڑھنا ہے، تو خطیب کو سامعین کا لحاظ اور وقت کی پابندی کرکے پڑھنا چاہیے، یہ ضروری نہیں ہے، کہ ایک ہی جمعہ میں پورا خطبہ پڑھا جائے بلکہ آدھا آدھا یا وقت کے لحاظ سے جتنا بھی پڑھا جائے پڑھ سکتے ہیں، پہلے خطبے''اخلاص'' کے بعد خطبہ دوم بھی عربی میں لکھ دیا گیا ہے، تاکہ خطبہ اول کے ختم کرنے کے بعد ا ور قعدہ کر کے دوسراخطبہ مختصر عربی میں پڑھ لے، رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن جمعہ کی نماز سے پہلے دو خطبے دیا کرتے تھے، اور دونوں کے درمیان تھوڑی سی دیر کے لیے بیٹھ جایا کرتے تھے، حتی الامکان آپﷺ مختصر خطبہ دیا کرتے تھے، اور مختصر خطبہ دینے کی تاکید بھی فرمایا کرتے تھے جیسا کہ مسلم شریف میں ہے:
ان طول صلوۃ الرجل و قصر خطبۃ مئِنَّۃٌ من فقھہ فاطیلوا الصلوۃ واقصروا الخطبۃ۔
یعنی نماز کا لمبا کرنا اور خطبہ کا مختصر کرنا آدمی کی دانائی کی علامت ہے، پس نماز لمبی کرو اورخطبہ مختصر۔
اگر خطبہ سننے والے دیر تک خطبہ سننے کے مشتاق ہیں، تو لمبا خطبہ بھی دیا جاسکتا ہے، خطبائے عظام سے گزارش ہے، کہ سب مسلمانوں کے لیے دعاؤں کے ساتھ ساتھ خاکسار راقم ا لحروف کو بھی دعائے خیر میں یاد فرمالیں تو بڑا احسان ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اس دینی خدمت کو قبول فرما کر سعادت دارین کا ذریعہ بنائے (آمین)
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّكَ۝۰۠ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا۝۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ
امید وار قبولیت
عبدالسلام بستوی سلفی
مدیر ماہنامہ''اسلام'' مچھلی دالان اردو بازار، دہلی
مورخہ۲۷ رجب ۱۳۸۷ ھ مطابق یکم نومبر ۱۹۶۷ء
 
Top