ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
حضرت زبید فرماتے ہیں، کہ میں تو چاہتا ہوں کہ ہر کام میں انسان کی نیت خداوند کریم کی خوشنودی ہو، یہاں تک کہ کھانے پینے، سونے جاگنے میں بھی۔
آیت قرآنی کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّاوَجْھَہٗ کی تفسیر میں حضرت سفیان فرماتے ہیں مَا اُرِیْدَ بِہٖ وَجْھُہٗ یعنی تمام چیزیں ہلاک اور فنا ہوجاتی ہیں لیکن مرضی مولیٰ کیلئے جو کام کیے جاتے ہیں، وہ باقی رہ جاتے ہیں، اور قیامت کے دن وہی کام آئیں گے۔
نبی خدا حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ روزے کے دن داڑھی پر تیل ملو، اور ہونٹوں پر بھی تاکہ تمہارا روزہ دار ہونا لوگوں پر ظاہر نہ ہو، اپنے داہنے ہاتھ سے راہ خدا میں جو خرچ کرواسے مخفی رکھو، یہاں تک کہ تمہارے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو، اورنفل نماز گھر کے دروازے بند کر کے پڑھو، ان کاموں میں دنیا طلبی کی نیت نہ رکھو، روزیاں خدا کے ہاتھ میں ہیں، وہیں سے تقسیم ہوتی ہیں۔
ولی اللہ ذوالنون مصری فرماتے ہیں: علماء کا مقولہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی محبت رکھنے والا ہر گز اس کا ظاہر ہونا پسند نہیں کرتا، عارف باللہ حضرت فضیل بن عیاض کا قول ہے، کہ دین کے کام دنیا کمانے کے لیے کرنے اس سے بھی بدتر ہیں، کہ انسان طبلے اور باجے سے دنیا کمائے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ مجھ سے میرے استاذ ربیعة الراءی نے سوال کیا کہ سفلہ اور کمینہ آدمی کون ہے؟ میں نے جواب دیا، جو شخص دنیا کو دین کے بدلے میں کمائے، پوچھا اس سے بھی بدتر اور کمینوں کا کمین کون ہے؟ میں نے کہا جو شخص اپنا دین بگاڑ کر دوسرے کا دین سنوارے، میرے استاذ نے کہا تم نے صحیح اور سچا جواب دیا۔
ابن عربی نے کیا زریں مقولہ ارشاد فرمایا ہے:
اخسرالخاسرین من ابدی صالح اعمالہ و بارز بالقبیح من ھواقرب الیہ من حبل الورید۔
بے حد ریاکار اور گھاٹے والا وہ ہے، جولوگوں کے سامنے تو بھلے اور نیک کام کرے، لیکن خدا کے سامنے جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، بدکام کرے۔
حضرت سفیان فرمایا کرتے تھے، اے عالمو! اور اے قاریو! خیال کرو، اور سوچو، خوف خداوندی جو تمہارے دل میں ہے، اس سے زیادہ ریا کاری کے لیے ظاہر نہ کرو۔ خدا کے دین کا راستہ کھلا ہے، اللہ کا خوف دل میں رکھو، اور دنیا کو طلب کرنے میں دین کو نہ بھولو، بعض علماء کا قول ہے کہ مومن تو صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اور منافق ظاہری اختیار والوں، بادشاہ وغیرہ سے ڈرتا ہے، اور ریاکار شخص ہر انسان سے ڈرتا ہے۔ (بیہقی مختصر شعب الایمان)
ریا، نمود کی برائی کے متعلق مشکوۃ اور ترغیب وغیرہ میں بہت سی حدیثیں ہیں،ان چند حدیثوں کو نمونے کے طور پر نقل کیا ہے، ان سے ریا کی بڑی مذمت نکلتی ہے، لہٰذا تم ریا، نمود سے بہت بچو، اور جو کام کرو، خالص اللہ کے واسطے کرو، جو تم اخلاص سے کرو گے، تو اللہ تعالیٰ اس عمل کو قبول کرتا ہے۔
نبی ﷺ حدیث قدسی میں فرماتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،کہ میں حکیم اور عالم کی ہر ایک بات قبول نہیں کرتا ہوں ’’ولکنی اتقبل ھمہ وھواہ‘‘لیکن میں اس کی نیت ا ور قصد کو قبول کرتا ہوں، اگر اس کی نیت اور اس کا قصد میری اطاعت میں ہو، تو اس کے سکوت کو اپنے لیے حمد وقار سمجھتا ہوں، اگرچہ وہ نہیں نہیںکرتا ہے (دارمی، مشکوٰۃ)
حضرت سالم بن عبداللہ بن عمرؓ نے عمر بن عبدالعزیز کو لکھا، کہ اللہ تعالیٰ کی مدد بندہ کی نیت کے موافق ہوتی ہے، جس کی نیت کامل ہوگی، اس کی مدد بھی کامل ہوگی، اور جس کی نیت میں نقصان ہوگا تو مدد میں بھی نقصان ہوگا۔ (احیاء العلوم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’یبعثون یوم القیمۃ علی قدرنیاتھم‘‘۔ (احیاء العلوم)
لوگ قیامت کے دن اپنی نیتوں کے اندازے کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں:
’’انما خلد اھل الجنۃ فی الجنۃ واھل النار فی النار بالنیات‘‘۔ (احیاء العلوم)
جنتی ہمیشہ جنت میں اور دوزخی ہمیشہ دوزخ میں نیتوں ہی کی وجہ سے رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّہٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا۱۱۰ۧ (کہف:۱۱۰)
جو اللہ تعالیٰ سے ملنے کی توقع رکھتا ہو، اسے نیک عمل کرنا چاہیے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شرک نہیں کرنا چاہیے۔ خالص اللہ تعالیٰ ہی کے لیے عبادت ہونی چاہیے۔
خلاصہ یہ کہ سارے عملوں کا دارومدار نیت ہی پر ہے، اگر نیت اچھی ہے، تو عمل کا ثمرہ بھی اچھا ہوگا، اور اگر نیت میں ہی کھوٹ ہے، تو اس کا اجر بھی ویسا ہی ہوگا، اللہ تعالیٰ ہم کو اخلاص عطافرمائے، اورریا و نمود سے بچائے (آمین) بارک اللہ لنا و لکم فی القران العظیم ط ونفعنا وایاکم بالایات والذکرالحکیم۔
آیت قرآنی کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّاوَجْھَہٗ کی تفسیر میں حضرت سفیان فرماتے ہیں مَا اُرِیْدَ بِہٖ وَجْھُہٗ یعنی تمام چیزیں ہلاک اور فنا ہوجاتی ہیں لیکن مرضی مولیٰ کیلئے جو کام کیے جاتے ہیں، وہ باقی رہ جاتے ہیں، اور قیامت کے دن وہی کام آئیں گے۔
نبی خدا حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ روزے کے دن داڑھی پر تیل ملو، اور ہونٹوں پر بھی تاکہ تمہارا روزہ دار ہونا لوگوں پر ظاہر نہ ہو، اپنے داہنے ہاتھ سے راہ خدا میں جو خرچ کرواسے مخفی رکھو، یہاں تک کہ تمہارے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو، اورنفل نماز گھر کے دروازے بند کر کے پڑھو، ان کاموں میں دنیا طلبی کی نیت نہ رکھو، روزیاں خدا کے ہاتھ میں ہیں، وہیں سے تقسیم ہوتی ہیں۔
ولی اللہ ذوالنون مصری فرماتے ہیں: علماء کا مقولہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی محبت رکھنے والا ہر گز اس کا ظاہر ہونا پسند نہیں کرتا، عارف باللہ حضرت فضیل بن عیاض کا قول ہے، کہ دین کے کام دنیا کمانے کے لیے کرنے اس سے بھی بدتر ہیں، کہ انسان طبلے اور باجے سے دنیا کمائے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ مجھ سے میرے استاذ ربیعة الراءی نے سوال کیا کہ سفلہ اور کمینہ آدمی کون ہے؟ میں نے جواب دیا، جو شخص دنیا کو دین کے بدلے میں کمائے، پوچھا اس سے بھی بدتر اور کمینوں کا کمین کون ہے؟ میں نے کہا جو شخص اپنا دین بگاڑ کر دوسرے کا دین سنوارے، میرے استاذ نے کہا تم نے صحیح اور سچا جواب دیا۔
ابن عربی نے کیا زریں مقولہ ارشاد فرمایا ہے:
اخسرالخاسرین من ابدی صالح اعمالہ و بارز بالقبیح من ھواقرب الیہ من حبل الورید۔
بے حد ریاکار اور گھاٹے والا وہ ہے، جولوگوں کے سامنے تو بھلے اور نیک کام کرے، لیکن خدا کے سامنے جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، بدکام کرے۔
حضرت سفیان فرمایا کرتے تھے، اے عالمو! اور اے قاریو! خیال کرو، اور سوچو، خوف خداوندی جو تمہارے دل میں ہے، اس سے زیادہ ریا کاری کے لیے ظاہر نہ کرو۔ خدا کے دین کا راستہ کھلا ہے، اللہ کا خوف دل میں رکھو، اور دنیا کو طلب کرنے میں دین کو نہ بھولو، بعض علماء کا قول ہے کہ مومن تو صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اور منافق ظاہری اختیار والوں، بادشاہ وغیرہ سے ڈرتا ہے، اور ریاکار شخص ہر انسان سے ڈرتا ہے۔ (بیہقی مختصر شعب الایمان)
ریا، نمود کی برائی کے متعلق مشکوۃ اور ترغیب وغیرہ میں بہت سی حدیثیں ہیں،ان چند حدیثوں کو نمونے کے طور پر نقل کیا ہے، ان سے ریا کی بڑی مذمت نکلتی ہے، لہٰذا تم ریا، نمود سے بہت بچو، اور جو کام کرو، خالص اللہ کے واسطے کرو، جو تم اخلاص سے کرو گے، تو اللہ تعالیٰ اس عمل کو قبول کرتا ہے۔
نبی ﷺ حدیث قدسی میں فرماتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،کہ میں حکیم اور عالم کی ہر ایک بات قبول نہیں کرتا ہوں ’’ولکنی اتقبل ھمہ وھواہ‘‘لیکن میں اس کی نیت ا ور قصد کو قبول کرتا ہوں، اگر اس کی نیت اور اس کا قصد میری اطاعت میں ہو، تو اس کے سکوت کو اپنے لیے حمد وقار سمجھتا ہوں، اگرچہ وہ نہیں نہیںکرتا ہے (دارمی، مشکوٰۃ)
حضرت سالم بن عبداللہ بن عمرؓ نے عمر بن عبدالعزیز کو لکھا، کہ اللہ تعالیٰ کی مدد بندہ کی نیت کے موافق ہوتی ہے، جس کی نیت کامل ہوگی، اس کی مدد بھی کامل ہوگی، اور جس کی نیت میں نقصان ہوگا تو مدد میں بھی نقصان ہوگا۔ (احیاء العلوم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’یبعثون یوم القیمۃ علی قدرنیاتھم‘‘۔ (احیاء العلوم)
لوگ قیامت کے دن اپنی نیتوں کے اندازے کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں:
’’انما خلد اھل الجنۃ فی الجنۃ واھل النار فی النار بالنیات‘‘۔ (احیاء العلوم)
جنتی ہمیشہ جنت میں اور دوزخی ہمیشہ دوزخ میں نیتوں ہی کی وجہ سے رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّہٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا۱۱۰ۧ (کہف:۱۱۰)
جو اللہ تعالیٰ سے ملنے کی توقع رکھتا ہو، اسے نیک عمل کرنا چاہیے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شرک نہیں کرنا چاہیے۔ خالص اللہ تعالیٰ ہی کے لیے عبادت ہونی چاہیے۔
خلاصہ یہ کہ سارے عملوں کا دارومدار نیت ہی پر ہے، اگر نیت اچھی ہے، تو عمل کا ثمرہ بھی اچھا ہوگا، اور اگر نیت میں ہی کھوٹ ہے، تو اس کا اجر بھی ویسا ہی ہوگا، اللہ تعالیٰ ہم کو اخلاص عطافرمائے، اورریا و نمود سے بچائے (آمین) بارک اللہ لنا و لکم فی القران العظیم ط ونفعنا وایاکم بالایات والذکرالحکیم۔