• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی خطبات 6۔ ایمان کی بعض اور شاخوں کا بیان

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
خطبہ ــ 6
ایمان کی بعض ا ور شاخوں کا بیان
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ الذی ھدانا لھذا وما کنا لنھتدی لولا ان ھدانا اللہ و نشھد ان لا ا لہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ اما بعد۔ فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وَاَوْفُوْا بِعَہْدِىْٓ اُوْفِ بِعَہْدِكُمْ۝۰ۚ وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ۝۴۰ (بقرہ:۴۰)
(ترجمہ)تم میرے عہد اور قول کو پورا کرو، میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا، اور صرف مجھ ہی سے ڈرا کرو۔​
(۳۲) ایمان کی بتیسویں شاخ نذر ا ور وعدے کو پورا کرنا ہے، یعنی جب کسی سے وعدہ کرے یا کوئی نذر مانے، تو اس کا پورا کرنا جزو ایمان ہے، ا للہ تعالیٰ فرماتا ہے اوفوا بالعقود (المائدہ) عہد و اقرار کو پورا کرو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ۝۰ۚ اِنَّ الْعَہْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا۝۳۴ (بنی اسرائیل:۳۴)
عہد اور قول و قرار کو پورا کرو، کیونکہ اس کے بارے میں (قیامت کے دن)سوال ہوگا۔
وعدہ خلافی اور بدعہدی کرنا نفاق کی علامت ہے، جیسا کہ حدیثوں میں اس کا بیان آچکا ہے۔
(۳۳) ایمان کی تینتیسویں شاخ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی شکر گزاری کرنا، اور اس کو لوگوں میں بیان کرنا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، واما بنعمۃ ربک فحدث۔ (والضحی) اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرو، اللہ فرماتا ہے:
لَئِنْ شَکَرْ تُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراھیم:۷)
اگر تم نعمتوں کی شکر گزاری کرو گے، تو ہم ضرور زیادہ دیں گے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ۝۱۵۲ۧ (البقرہ:۱۵۲)
تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا، اور میری شکرگزاری کرو اور ناشکری مت کرو۔
ان آیتوں سے معلوم ہوا، کہ شکر گزاری ایمان میں داخل ہے، اور ناشکری کفران نعمت ہے۔
(۳۴) ایمان کی چونتیسویں شاخ زبان کی حفاظت ہے یعنی زبان کو غیبت، چغلی، جھوٹ، فحش اور بدگوئی وغیرہ سے بچانا ایمان کا جزو ہے، اور سچے لوگوں کی بڑی تعریف ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کونوا مع الصادقین۔ (انفال) سچے لوگوں کے ساتھ رہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ۝۱۱۶ۭ (نحل:۱۱۶)
بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں وہ نجات نہیں پائیں گے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نبی ﷺ نے فرمایا: ان ا لصدق یھدی الی البر الحدیث (مشکوۃ) سچائی نیکی کی طرف پہنچاتی ہے(اور نیکی جنت میں پہنچاتی ہے) اور سچا آدمی اللہ کے یہاں سچوں میں لکھا جاتا ہے، اور جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے، اور برائی دوزخ کی طرف لے جاتی ہے، اور جھوٹا آدمی اللہ تعالیٰ کے یہاں جھوٹوں میں لکھا جاتا ہے(بخاری، مسلم) اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من یضمن ما بین لحییہ ومابین فخذیہ اضمن لہ الجنۃ۔ (مسلم)
جو زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کی ذمہ داری لے لے تو میں اس کے لیے جنت کی ذمہ داری لیتا ہوں۔
اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من کان یؤمن باللہ والیوم الاخرفلیقل خیرا اولیصمت۔ (مشکوۃ)
جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے، اس کو بھلی بات کرنی چاہیے، یا خاموش رہنا چاہیے۔
(۳۵) ایمان کی پینتیسویں شاخ، امانتوں کا ادا کرنا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَــتَہٗ۔ (البقرہ:۲۸۳)
جس کے پاس امانت رکھی جائے اس کو چاہیے کہ امانت والے کو امانت دیدے
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۔ (النسا:۵۸)
بے شک اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے، کہ امانت والے کو امانت ادا کرو۔
اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ادالامانۃ الی من ائتمنک ولا تخن من خانک۔ (ترمذی، شعب الایمان، ابوداؤد و صححہ فی الجامع الصغیر)
جو تیرے پاس امانت رکھے اس کی امانت ادا کر، اور خیانت کرنے والے کے ساتھ تم خیانت مت کرو۔
اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عھدلہ۔ (بیہقی، احمد، ابن حبان و صححہ فی الجامع الصغیر)
جوامانت کو ا دا نہیں کرتا، وہ ایماندار نہیں، اور جو عہد کو پورا نہیں کرتا، وہ دیندار نہیں۔
اور فرمایا:''امانت میں خیانت کرنا نفاق ہے۔''
(۳۶)ایمان کی چھتیسویں شاخ مسلمانوں کے قتل کرنے سے بچنا، اور ان کو تکلیف نہ پہنچانا ہے۔ جو بغیر شرعی اجازت کے کسی مسلمان کو قتل کر ڈالے گا، وہ ایمان سے نکل جائے گا، اور ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاۗؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِيْھَا وَغَضِبَ اللہُ عَلَيْہِ۔ (النساء:۹۳)
اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً مار ڈالے گا، تو اس کی جزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا، اور اللہ اس سے ناراض رہے گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قتل المسلم کفروسبابہ فسق۔ (بخاری)
مسلمان کو مار ڈالنا کفر ہے ا ور اس کو گالی دینا فسق ہے۔
یعنی کسی مسلمان کو مار ڈالنے سے مارنے والا کافر ہوجاتاہے، اور گالی دینے والا فاسق ہو جاتا ہے۔
(۳۷)ایمان کی سینتیسویں شاخ، زناکاری سے بچنا ہے اور عصمت و عفت سے رہنا ہے، اللہ فرماتا ہے:
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّہٗ كَانَ فَاحِشَۃً۝۰ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا۝۳۲ (بنی اسرآئیل:۳۲)
زنا کے قریب بھی مت جاؤ، یہ نہایت بے حیائی اور بری راہ ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۔ (النور:۳۱)
مسلمانوں سے کہہ دیجیے، کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔
''ویحفظن فروجھن'' اور عورتیں بھی اپنی شرم گاہوں کی (زناوغیرہ سے )حفاظت کریں۔
اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لایزنی ا لزانی حین یزنی وھومومن۔ (بخاری)
زانی زناکاری کے وقت مومن نہیں رہتا۔
قرآن وحدیث میں زناکاری کی بڑی مذمت ہے، جس سے بچنا ایمان داری کی نشانی ہے اور نہ بچنا بے ایمانی کی دلیل ہے۔
(۳۸)ایمان کی اڑتیسویں شاخ حرام مال سے بچنا ہے، یعنی چوری، لوٹ مار، رشوت اور سود وغیرہ سے بچنا فرض ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ۔ (البقرہ:۱۸۸)
آپس میں ایک دوسرے کا مال حرام طریقے سے مت کھاؤ۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ان دماء کم واموالکم واعراضکم علیکم حرام۔ (بخاری)
تمہارا خون، مال اور عزت و آبرو آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں۔
(۳۹) ایمان کی انتالیسویں شاخ، کھانے پینے میں حلال حرام کی تمیز کرنا،حلال کا استعمال کرنا اور حرام سے بچنا ہے، اللہ تعالیٰ نے حلال روزی کھانے کا حکم دیا ہے، اور حرام سے منع فرمایا ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ۔ (البقرہ:۱۷۲)
اے لوگو! ہماری دی ہوئی پاک و حلال روزی کھاؤ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يٰٓاَيُّہَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا۝۰ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ۝۵۱ۭ (المؤمنون:۵۱)
اے ہمارے رسولو! حلال اور پاکیزہ روزی کھاؤ، اور نیک کام کرتے رہو، میں تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہوں۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا۔ (البقرۃ:۱۶۸)
اے لوگو! زمین کی پیداوار میں سے حلال و پاک روزی کھایا کرو۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، کہ کوئی آدمی اپنے لمبے لمبے سفروں میں نہایت عاجزی اور تواضع سے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول نہیں فرماتا، کیونکہ اس کا کھانا، پینا حرام ہے ، اس کا لباس حرام کمائی کا ہے، اور اس نے حرام مال سے ا پنے جسم کی پرورش کی ہے تو بھلا اس کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے۔ (بخاری)
اوررسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، حلال ظاہر ہے، اور حرام بھی ظاہر ہے، اورحلال و حرام کے بیچ میں کچھ شک و شبہ والی چیزیں بھی ہیں، جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، جو ان شبہ والوں چیزوں سے بچ گیا، اس نے اپنے دین و عزت کو بچا لیا، اور جس نے شبہ والی چیزوں کو استعمال کر لیا، وہ حرام میں پڑ گیا، جس طرح کوئی چرواہا کسی دوسرے کی چراگاہ کے قریب اپنے جانور چرائے ، تو کیاعجب ہے، کہ کوئی جانور اس چراگاہ میں بھی چرلے، دنیا کے سب بادشاہوں کی چراگاہ ضرور ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو حرام کیا ہے یہ اس کی چراگاہ ہے، لہٰذا حرام کے پاس بھی نہیںجانا چاہیے، اور جس میں شک و شبہ ہے اس کے استعمال سے بھی بچنا چاہیے۔ (بخاری شریف)
(۴۰) ایمان کی چالیسویں شاخ، حرام لباس سے بچنا ہے، یعنی اپنی ظاہری شکل و صورت شریعت کے موافق رکھے اور شریعت کے خلاف نہ ہو، ریشم کا استعمال نہ ہو، چاندی سونے کے برتنوںمیں نہ کھایا جائے اور نہ پیا جائے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ولا تلبسوا الحریر ولاالدیباج ولا تشربوا فی انیۃ الذھب والفضۃ۔ (بخاری)
ریشم کا لباس مت پہنو، اور نہ سونے چاندی کے برتنوں میں کھاؤ پیو۔
یہ چیزیں دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور تمہارے لیے آخرت میں، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لاینظراللہ تعالیٰ یوم القیامۃ الی من جرثوبہ خیلاء۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس شخص کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا، جو تکبر سے اپنے کپڑے کو لٹکا کر چلتاہے۔
البتہ عورتوں کے لیے ریشم، سونا، چاندی کا پہننا جائز ہے، ا ور بلا تکبر اتنا کپڑا لٹکا کر چل سکتی ہیں۔ جس سے ٹخنے اچھی طرح ڈھک جائیں، جیسا کہ دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے۔
(۴۱)ایمان کی اکتالیسویں شاخ، کھیل تماشوں اور دیگر حرام لہو ولعب سے بچنا ہے، کیونکہ یہ سب شیطانی کام ہیں، ان حرام کاموں سے اور حرام کھیلوں سے بچنا ایمانداری کا کام ہے
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
قرآن مجید میں ا للہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَہْوَالْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۔ (لقمان:۶)
اور بعض لوگ کھیل کی باتوں کو خریدتے ہیں، تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے گمراہ کریں۔
رسول اللہ ﷺ ہر قسم کے لہوولعب اور گانے بجانے سے روکنے کیلئے دنیا میں تشریف لائے تھے، آپﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
ان اللہ بعثنی رحمۃ و ھدی وامرنی بمحق المعازف والمزامیر والاوثان والصلب وامر الجاھلیۃ۔ (مسند احمد)
اور اللہ تعالیٰ نے مجھے سارے جہان والوں کے لیے رحمت اور ہدایت بنا کر بھیجا ہے، اور مجھے حکم دیا ہے، کہ میں ہر قسم کے ہاتھ سے بجانے کے باجوں اور گانوں کی چیزوں اور بتوں اور صلیبوں اور جاہلیت کے رسم و رواج کو مٹا دوں۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب لوگ گانے والیوں اور باجوں کو لیں گے، تب قیامت آئے گی،
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من لعب بالنردفقد عصی اللہ و رسولہ۔ (احمد)
چو سر کھیلنے والا اللہ ا ور اس کے رسول کانا فرمان ہے۔
ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، جو (نرد شیر)چوسر، شطرنج کھیلے، تو اس نے اپنے ہاتھوں کو گویا سور کے خون سے رنگ دیا۔(مشکوۃ)
(۴۲) ایمان کی بیالیسویں شاخ، اقتصاد ہے، یعنی ہر چیز میں میانہ روی کا طریقہ ا ختیار کرنا، اور افراط و تفریط سے بچنا ہے، فضول خرچی اور ناحق مال خرچ کرنے کو حرام جاننا، نہ حد سے زیادہ بخل ہو، اور نہ سب کو خرچ ہی کر ڈالنا چاہیے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَلاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَۃً إِلٰی عُنُقِکَ وَلاَ تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ ۔ (بنی اسرائیل:۲۹)
اور نہ تم اپنے ہاتھ کو گردن میں باندھ لو، اور نہ بالکل ان کو کھول دو۔
یعنی خرچ میں میانہ روی اختیار کرو، افراط و تفریط سے بچو، چنانچہ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا۔ (الفرقان:۶۷)
رحمان کے بندے وہ ہیں، جو خرچ کرتے وقت فضول خرچی نہیں کرتے، اور نہ تنگی اور بخیلی کرتے ہیں، بلکہ اس کے درمیان کی روش اختیار کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ان الھدی الصالح والسمت الصالح والاقتصادجزء من خمس وعشرین جزء من النبوة۔

اچھی عادت اور حسن اخلاق اور میانہ روی نبوت کے پچیس حصوں میںسے ایک حصہ ہے۔(ابو داؤد)
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الاقتصاد فی النفقۃ نصف المعیشۃ۔ (بیہقی)
خرچ میں میانہ روی آدھی زندگی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۴۳) ایمان کی تینتالیسویں شاخ کینہ، حسد و بغض، مکر و فریب، جھوٹ کو حرام جاننا، اور ان برے کاموں سے اپنے آپ کو بچانا ہے، ان باتوں کی برائی کتاب و سنت میں کثرت سے آئی ہے، حسد کی برائی سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۝۵ۧ (الفلق:۵)
الٰہی میں حاسدوں کے حسد سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: کہ سب سے پہلے آسمان پر یہی گناہ ہوا ہے، یعنی شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ حسد ہی کیا تھا۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں لوگو! تم آپس میں حسد نہ کرو، اور بغض نہ رکھو، اور نہ رشتے ناطے کو توڑو، بلکہ اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کے رہو(مسلم) حسد کرنے والے کی نیکی برباد ہوجاتی ہے اور مسلمان کینہ پرورنہیں ہوتا ہے، جو بلا وجہ شرعی کے کینہ کپٹ رکھے گا، وہ کامل مسلمان نہ ہوگا۔
(۴۴) ایمان کی چوالیسویں شاخ، لوگوں کی بے عزتی کرنے ا ور ان کی آبروریزی کرنے سے بچنا ہے کسی انسان پر نہ توتہمت لگاؤ، اور نہ اس کی توہین کرو، اور نہ اس کے ساتھ بدگوئی سے پیش آؤ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰۠ (النور:۲۳)
جو لوگ پاک دامن اور بھولی بھالی ایماندار عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ، ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے۔
یہی حال مردوں پر تہمت لگانے اور بہتان باندھنے کا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَۃُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۰ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۭ (النور:۲۳)
جو لوگ ایماندار لوگوں میں فحش اور برائی پھیلانا چاہتے ہیں ان کے لیے دونوں جہاں میں بڑی مار و سزا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان: مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اس پر ظلم کرے، اور نہ اسے دشمن کے حوالے کرے ، اور نہ اسے ذلیل و خوار کرے، اور تقویٰ سینے میں ہے، انسان کے لیے اتنی برائی کافی ہے، کہ وہ دوسرے مسلمان کو حقیر و ذلیل جانے۔
کل المسلم علی المسلم حرام دمہ و مالہ وعرضہ۔ (مسلم)
ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر خون و مال اور عزت و آبرو حرام ہے۔
(۴۵) ایمان کی پینتالیسویں شاخ، اخلاص ہے، یعنی ہر ایک کام کو اللہ کی رضا جوئی کے لیے کیا جائے ، اس میں ریا و نمود نہ ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ۔ (البینۃ:۵)
سب کو یہی حکم دیا گیا ہے، کہ خالص اللہ کی عبادت کریں، ایک طرف ہو کر۔
اخلاص کا پورا بیان اسی کتاب کے پہلے خطبہ میں آچکاہے، اس سے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۴۶) ایمان کی چھیالیسویں شاخ نیکی سے خوش ہونا، اور بدی سے ناخوش ہونا ہے، یہی ایمانداری کی نشانی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من سرتہ حسنتہ وساء تہ سیئتہ فھو مومن۔
جسے نیکی اچھی لگے اور بدی بری معلوم ہو، تو وہ مومن ہے۔
(۴۷) ایمان کی سنتالیسویں شاخ، ہر گناہ کا علاج توبہ سے کرنا، کیونکہ ہر ایک سے کچھ نہ کچھ قصور ہو جاتا ہے، اس قصور سے معافی چاہنا ایمانداری کی نشانی ہے۔
بندہ ہما بہ کہ ز تقصیر خویش
عذر بدرگاہ خدا آور
د
اللہ تعالیٰ توبہ سے بہت خوش ہوتا ہے، حضرت آدم علیہ السلام سے قصور ہوگیا تھا، اور شیطان سے بھی،حضرت آدم علیہ السلام نے توبہ کی، اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، اور اس سے خوش ہوگیا، اور شیطان نے توبہ نہیں کی، تو اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوگیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَى اللہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا۝۰ۭ (التحریم:۸)
اےایمان والو! اللہ تعالیٰ کے سامنے سچی توبہ کرو۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاَنِيْبُوْٓا اِلٰى رَبِّكُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہٗ۔ (الزمر:۵۴)
اپنے رب کی طرف جھک جاؤ، اور اس کے فرمانبردار بن جاؤ۔
قرآن و حدیث میں توبہ کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کثرت سے توبہ و استغفار کیا کرتے تھے۔
(۴۸) ایمان کی اڑتالیسویں شاخ، قربانیاں کرنا ہے، جیسے حج کے موقع پر اور بقر عید میں اللہ کے واسطے کوئی جانور ذبح کیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ o (الکوثر:۲)
اللہ کے لیے نماز پڑھو، اور اس کے لیے قربانی کرو۔
یہ قربانی شعائر اللہ میں سے ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰہَا لَكُمْ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللہِ۔ (الحج:۳۶)
قربانی کا اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کے دین کی نشانیوں میںسے ٹھہرایا ہے۔
یعنی جو ان کی تعظیم کرے، وہ متقی ، پرہیز گار اور دیندار ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ۝۳۲ (الحج:۳۲)
اور جو اللہ کے شعائر کی عزت کرے، تو یہ دلوں کی پرہیز گاری میں سے ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۴۹) ایمان کی انچاسویں شاخ، مسلمان حاکموں کی فرمانبرداری کرنا، جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے مطابق حکم دیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ (النساء:۵۹)
اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو، اور اپنے (مسلم) حاکموں کا کہا مانو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من یطع الامیر فقد اطاعنی و من یعصی الامیر فقد عصانی۔ (بخاری)
جس نے مسلمان حاکم کی اطاعت کی اس نے میری فرمانبرداری کی اور جس نے مسلمان حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
آپﷺ نے فرمایا: مسلم سردار کی اطاعت کرو، اگرچہ بدشکل ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری ، مسلم)
(۵۰) ایمان کی پچاسویں شاخ، جماعت مسلمین کے ساتھ رہنا، اور اسلامی اتحاد و اتفاق کو مضبوطی سے تھامے رہنا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران:۱۰۳)
اور اللہ کی رسی (شریعت اسلام)کو مضبوطی سے تھام لو، اور پھوٹ نہ ڈالو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو مسلمانوں کی جماعت سے نکل جائے، اور اسی پر مرجائے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا (مسلم)
(۵۱) ایمان کی اکیاونویں شاخ،لوگوں کے ساتھ انصاف کرنا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۝۰ۭ (نساء:۵۸)
جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاَقْسِطُوْا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۔ (الحجرات:۹)
عدل کرو، عدل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے۔
کتاب و سنت میں عدل و انصاف کرنے کی بڑی تاکید اور بہت فضیلت آئی ہے ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق و انصاف کی راہ پر چلائے، اور ایمان و عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
باقی شاخوں کا بیان انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں آپ سنیں گے۔
اللّٰھم حبب الینا الایمان وزینہ فی قلوبنا و کرہ الینا الکفروالفسوق والعصیان واجعلنا من الراشدین۔ اللّٰھم توفنا مسلمین والحقنا بالصالحین غیر خزایا ولا مفتونین، اللّٰھم قاتل الکفرۃ الذین یکذبون رسلک ویصدون عن سبیلک واجعل علیھم رجزک وعذابک الہ الحق۔ (آمین)
 
Top