• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی خطبات 7 ۔ ایمان کی باقی شاخوں کا بیان

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
خطبہ ــ 7
ایمان کی باقی شاخوں کا بیان
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ الذی تبارک اسمہ وتقدس شانہ و تعالیٰ جدہ' والصلوٰۃ والسلام علی النبی الامی الذی لا نبی بعدہ وعلی الہ واصحابہ وعلی جمیع الا نبیاء والمرسلین ط وسائر عباد اللہ الصالحین، امابعد! فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ط بسم اللہ ا لرحمن الرحیم ط وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (آل عمران:۱۰۴)

(ترجمہ) اور تم میںسے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے، جو بھلائی کی طرف بلاتی رہے، اور نیک کاموں کا حکم کرتی رہے، اور برے کاموں سے روکتی رہے، اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔​
اس جماعت سے صلحاء ا مراء اور علماء کی جماعت مراد ہے، جن کا یہی کام ہونا چاہیے، کہ اللہ کی طرف لوگوں کو بلاتے رہیں، اور ہر برے کام سے روکنے کی کوشش کرتے رہیں، یہ بھی ایمان کی نشانی ہے، ایمان کی تہتر نشانیوں میں سے اکیاون نشانیوں کا بیان پہلے ہو چکا ہے، آگے باقی نشانیوں کو سنیئے:۔
(۵۲) ایمان کی باونویں شاخ، امربالمعروف ونہی عن المنکر ہے، یعنی اچھی باتوں کا حکم دینا اور بری باتوں سے روکنا ا یمان کا ایک حصہ ہے، اللہ تعالیٰ اسی بات پر امت محمدیہﷺ کی تعریف فرماتا ہے:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ
تم سب امتوں میںسے بہتر امت ہو، کہ لوگوں کے فائدہ کے لیے پیدا کیے گئے ہو، تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو ا ور برائیوں سے منع کرتے ہو، اور خدا پر ایمان رکھتے ہو۔ (آل عمران:۱۱۰)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم برا کام دیکھو، تو اسے ہاتھ سے مٹا دو، اگر ہاتھ سے مٹانے کی طاقت نہیں ہے، تو زبان سے منع کرو، اگر زبان سے بھی منع کرنے کی ہمت نہیں ہے، تو اس برے کام کو دل سے برا جانو، اور یہ نہایت ہی ضعیف درجہ کا ایمان ہے۔(مسلم)
اس کا مفصل بیان امربالمعروف کے خطبہ میں آئے گا۔
(۵۳) ایمان کی تریپنویں شاخ، نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے اور گناہ اور ظلم پر کسی کی مدد نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ (مائدہ:۲)
نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو، اور نافرمانی اور ظلم کے کاموں میں امداد مت کرو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
انصراخاک ظالما اومظلوما۔ (مشکوۃ)
اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔
ایک شخص نے عرض کیا، مظلوم کی امداد تو کرتے ہیں، لیکن ظالم کی امداد کیسے کریں؟ آپﷺ نے فرمایا: اس کو ظلم سے روکو، یہی اس کی امداد ہے۔ (بخاری، مسلم)۔
(۵۴) ایمان کی چونویں شاخ، شرم اور حیا کرنا ہے، رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے سنا، کہ وہ اپنے بھائی کو شرم کرنے سے منع کر رہا تھا تو آپﷺ نے فرمایا:
دعہ فان الحیاء من الایمان۔ (بخاری، مسلم)
اس کو حیا کرنے سے منع نہ کرو، شرم تو ایمان میں سے ہے۔
شرم کرنے والا ایمان دار ہے، بے حیائی کرنے والا پورا مسلمان نہیں ہے، شرم سے بھلائی حاصل ہوتی ہے، اور بے شرمی سے بدبختی۔
(۵۵)ایمان کی پچپنویں شاخ، والدین یعنی ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا اور ان کی خدمت کرنا ہے ۔ قرآن اور حدیث میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وبالوالدین احسانا۔ اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو،اور سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا۝۰ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْ كِلٰـہُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا۔ (بنی اسرائیل:۲۳)
اور تیرے رب نے یہ حکم دے رکھا ہے کہ صرف اللہ ہی کی عبادت کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، تو ان کو اف بھی نہ کہو، اور نہ ان کو جھڑکو، اور ان سے ادب سے بات چیت کرو، اچھی اور نرم بات کرو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا، اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی باپ کی رضامندی میں ہے، اور اللہ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔
(۵۶) ایمان کی چھپنویں شاخ، صلہ رحمی کرنا ہے، یعنی خویش و اقارب کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، اور ان کے حقوق کو ادا کرنا فرض ہے، صلہ رحمی نہ کرنے والے ملعون ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَہَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَعَنَہُمُ اللہُ۔ (محمد:۲۲۔۲۳)
پھر کیا تم لوگوں سے یہ بھی توقع ہے، کہ اگر تم کو حکومت ملے، تو زمین میں فساد کرو، اور رشتے ناطے کو کا ٹ ڈالو، ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنی روزی میں کشائش چاہتا ہے، اور اپنی عمر میں زیادتی چاہتا ہے، تو اس کو صلہ رحمی کرنا چاہیے۔
(۵۷) ایمان کی ستاونویں شاخ، حسن خلق ہے، یعنی اچھے اخلاق سے پیش آنا، تواضع اور انکساری کرنا، کسی کو گالی نہ دینا، غصہ کو دبالینا، حرام اور گناہ کی باتوں سے بچنا، خدا کی مخلوق کی خدمت کرنا وغیرہ وغیرہ، سب ا چھے کام کرنا حسن خلق ہے، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق فرمایا ہے:
اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔ (نٓ:۴)
بےشک آپ(ﷺ) بڑے اخلاق والے ہیں۔
حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے اچھا وہ ہے، جس کے اخلاق اچھے ہیں اور ایک روایت میں ہے، حسن خلق والا میرا بڑا دوست ہے(مسلم) اور بھی بہت سی احادیث ہیں، جس میں حسن خلق کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے، اس کا مفصل بیان حسن خلق کے خطبہ میں آئے گا انشاء اللہ۔
(۵۸) ایمان کی اٹھاونویں شاخ، نوکروں اور غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ (النساء:۳۶)
اور اپنے غلاموں اور باندیوں کے ساتھ احسان کرو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان غلاموں کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری ماتحتی میں دے دیا ہے، فمن کان اخوہ تحت یدہ فلیطعمہ مما یاکل جو تمہارا دینی بھائی تمہاری ماتحتی میں ہو، تو تم کو چاہیے کہ جو خود کھاؤ وہی اس کو کھلاؤ، اورجو خود پہنو، وہی اس کو پہناؤ، اور ان سے ا تنا کام نہ لو کہ وہ پریشان ہو کر ہار جائیں، اگر کوئی ایسا سخت، بڑا مشکل کام آجائے، تو تم خود بھی ان کی مدد کرو۔(بخاری)
(۵۹) ایمان کی انسٹھویں شاخ، آقا و مالک کا حق ، نوکر و ملازم اور غلام کو ادا کرنا، یعنی غلام پر لازم ہے کہ اپنے آقا کی خدمت کرے، اس کے حکم پر چلے، اس کی فرمانبرداری کرے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
ان العبداذا نصح لسیدہ واحسن عبادۃ اللہ فلہ اجرہ مرتین۔ (بخاری)
جو غلام اپنے آقا کی خیر خواہی کرے، اور اللہ تعالیٰ کی بھی اچھی طرح عبادت کرے، تو اس کو دوگنا ثواب ملے گا۔
یعنی ایک دنیاوی آقاکی خدمت گزاری کا، دوسرے ا للہ تعالیٰ کی عبادت کا، اور فرمایا جو ا پنے آقا کی خدمت سے بھاگ جاتا ہے، تو جب تک واپس نہ آجائے، اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ (مسلم، ابوداؤد)
(۶۰) ایمان کی ساٹھویں شاخ، بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا ہے، کیونکہ ہر ایک انسان پر لازم ہے کہ بیوی کو نان نفقہ دے، اور بچوں کی تعلیم وغیرہ کی نگرانی کرتا رہے، اور برے کاموں سے روکتا رہے یعنی امر بالمعروف اور نہی عن ا لمنکر کرتا رہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَ اَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ۔ (التحریم:۶)
اپنی اور اپنے بچوں کی جانوں کو آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من عال جاریتین حتی تبلغا جاء یوم القیامة انا وھو ھکذا وضم اصبعیہ۔ (مسلم)
جو شخص دو لڑکیوں کی پرورش کرتا ہے، یہاںتک کہ وہ دونوں بالغ ہو جائیں، تو میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح ساتھ آئیں گے (آپﷺ نے اپنی انگلیوں میں انگلیاں ملا کر بتایا، یعنی دونوں ملے ہوں گے)۔
(۶۱) ایمان کی ا کسٹھویں شاخ، اللہ والوں سے میل جول رکھنا، اور ان سے محبت کرنا، اور ان سے سلام و مصافحہ کرنا ا ور سلام پھیلانا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَاتَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَہْلِہَا۝۰ۭ (النور:۲۷)
جب تم دوسروں کے گھر جاؤ تو سلام کے بغیر مت داخل ہو، اور گھر والوں کو سلام کرو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لا تدخلوا الجنۃ حتی تومنوا ۔(مسلم) تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ، اور ایماندار نہیں ہوسکتے ، جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو، میں تمہیں ایسا کام بتائے دیتا ہوں ، کہ تم اسے کرو گے، تو محبت کرنے لگوگے، وہ یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کرنا پھیلاؤ، تو گویا ا فشاء اسلام ا یمان میںسے ہے، آپﷺ نے فرمایا کہ جو دینداروں اور اللہ والوں سے فی سبیل اللہ محبت رکھے، وہ قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سایہ کے تلے ہوگا۔
(۶۲) ایمان کی باسٹھویں شاخ، سلام کا جواب دینا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّۃٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا۝۸۶
جب تم دعا دیئے جاؤ اور سلام کیے جاؤ، تو تم بھی اس کو دعا دو، اور سلام کا بہترین جواب دو یا اسی کو لوٹا دو۔ (النساء:۸۶)
رسول اللہ ﷺ نے راستہ میں بیٹھنے والوں کو فرمایا: راستے کا حق ادا کرو، اور راستہ کا حق یہ ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھو، اور تکلیف دہ چیز کو راستہ سے ہٹادیا کرو، اور سلام کا جواب دے دیا کرو، اور اچھی باتوں کا حکم دو، اور بری باتوں سے منع کرو۔ (بخاری)
(۶۳) ایمان کی تریسٹھویں شاخ، بیماروں کی بیمار پرسی کرنا ہے، مسلمانوں کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں (۱)جب وہ بیمار پڑے، تو اس کی بیمار پرسی کرے (۲)جب وہ مرے تو جنازہ میں شریک ہو (۳)جب ملاقات ہو، تو سلام کرے (۴)جب چھینکے تو اس کا جواب دے (۵) اس کی عدم موجودگی میں اس کی خیر خواہی کرے (۶) جب وہ دعوت دے ، تو قبول کرے۔ (بخاری)
(۶۴) ایمان کی چونسٹھویںشاخ،مسلمانوں کے جنازے کی نماز پڑھنا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں، ان میںسے ایک یہ ہے، کہ مسلمان کے جنازے کی نماز پڑھے، اور جو اس کی نماز پڑھ لیتا ہے، اسے دو پہاڑ کے برابر ثواب ملتا ہے۔ (بخاری)
(۶۵) ایما ن کی پینسٹھویں شاخ، چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینا جب کہ وہ الحمد کہے،حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اذاعطس احد کم فحمد اللہ فشمتوہ واذا لم یحمد اللہ فلا تشمتوہ۔ (مسلم)
جب تم میں سے کوئی چھینکے اور الحمد کہے تو تم اس کا جواب دو، اور جو الحمد نہ کہے، تو اس کو جواب مت دو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۶۶) ایمان کی چھیاسٹھویں شاخ، کافروں اور مشرکوں سے علیحدگی اختیار کرنا، اور ان سے دوستی نہ کرنا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۰ۚ (آل عمران:۲۸)
مومن( مسلمانوں کو چھوڑ کر) کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا، اس کاخدا سے کوئی تعلق نہیںہے۔
(۶۷)ایمان کی سٹرسٹھویں شاخ، پڑوسی کی عزت کرنا ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ۔ (النساء:۳۶)
ماں باپ اور رشتہ داروں، اور قریبی پڑوسی ا ور اجنبی پڑوسی، اور ساتھی کے ساتھ احسان کرو۔
حدیث شریف میں ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من کان یؤمن باللہ والیوم الاخر فلیکرم جارہ۔ (مشکوۃ، بیہقی)
جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔
پڑوسی کا بڑا حق ہے، حدیث میں ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ حضرت جبریل علیہ السلام مجھے ہمیشہ نصیحت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے خیال کیا، کہ شاید پڑوسی بھی ورا ثت کا حق دار ہو جائے گا۔(بخاری شریف)۔
(۶۸)ایمان کی اڑسٹھویں شاخ، مہمانوں کی مہمانداری کرنا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من کان یؤمن باللہ والیوم الاخر فلیکرم ضیفہ۔ (بخاری)
جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے، تو اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔
یعنی ایک دن رات تک اچھے سے اچھا کھانا کھلانے کی کوشش کرے، اور مہمانی کا حق تین روز تک ہے، اس کے بعد مہمان کو بلاضرورت نہیں ٹھہرنا چاہیے، اگر ٹھہرے گا، تو مہمان نواز کو اس کے کھلانے پلانے پر صدقہ خیرات کا ثواب ملے گا۔ (بیہقی)۔
(۶۹)ایمان کی انہترویں شاخ، مسلمان گناہ گاروں کی پردہ پوشی کرنا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَۃُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۰ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۭ (نور:۱۹)
جو لوگ مسلمانوں میں برائی پھیلانے کو پسند کرتے ہیں، ان کے لیے دونوں جہان میں درد ناک عذاب ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیمۃ۔ (بخاری شریف)
جو مسلمانوں کی پردہ پوشی کرے گا ، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔
(۷۰)ایمان کی سترویں شاخ، مصیبتوں پر صبر کرنا اور نا جائز خواہشوں سے نفس کو روکنا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ۔ (البقرة:۱۵۳)
اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۵ۙ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِيْبَۃٌ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝۱۵۶ۭ
اور ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیجیے کہ جب ان پر مصیبت پڑتی ہے، تو وہ لوگ کہتے ہیں، کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف جانے والے ہیں۔ (البقرۃ:۱۵۶)
ایسے لوگوں پر خدا کی رحمت ہے، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ومن یتصبر یصبرہ اللہ ولن یعطوا عطاء اوسع من الصبر۔ (بخاری)
اور جو صبر اختیار کرے گا،اللہ اسے صبر کی توفیق عطا فرمائیگا اور صبر سے زیادہ وسیع بخشش کسی کو نہیں ملی ہے۔
(۷۱) ایمان کی اکہترویں شاخ، دنیا سے بے رغبتی کرنا، اور امیدوں کو کم کرنا ہے، کیونکہ دنیا ختم ہونے والی ہے اور آخرت ہمیشہ باقی رہے گی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
من احب دنیاہ اضر بآخرتہ ومن احب آخرتہ اضر بدنیاہ فاثروا ما یبقی علی مایفنی (احمد)
جو دنیا سے محبت کرتا ہے تو وہ اپنی آخرت کو خراب کرتا ہے اور جو آخرت کو چاہتا ہے وہ اپنی دنیا کو خراب کرتا ہے ، لہٰذا تم باقی رہنے والی آخرت کو فنا ہونے والی دنیا پر تر جیح دو۔
اور ایک حدیث میں فرمایا: کہ دنیا آخرت کے مقابلہ میں ایک قطرے کی طرح ہے، اور آخرت دنیا کے مقابلہ میں ایک سمندر کی طرح ہے ۔ (مسلم شریف)
اور دنیا مسلمانوں کے حق میں جیل خانہ ہے، اور کافروں کے لیے جنت ہے۔(مسلم شریف)
اور دنیا کی ہر چیز ملعون ہے، مگر ذکر الٰہی اور دیگر نیک عمل اور عالم و متعلم۔ (ترمذی شریف)۔ دنیا سے مراد ہر وہ اشیاء ہیں جو یاد الٰہی واعمال صالحہ سے روکیں اور غافل کریں۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ضرورت سے زیادہ زمین و شغل دنیا وی مت رکھو، اس لیے کہ اس سے تم دنیا میں رغبت کرو گے، اور آخرت سے نفرت کرنے لگو گے، ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور عرض کیا، کہ یا رسول اللہ! مجھے ایسا کام بتائیے کہ اس کے کرنے سے میں ا للہ اور مخلوق کے نزدیک محبوب بن جاؤں، آپﷺ نے فرمایا: کہ دنیا سے بےرغبتی کرو، تو اللہ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنا لے گا، اور لوگوں کے مال وغیرہ سے بے نیاز ہو جاؤ، تو سب لوگ تم کو اپنا لیں گے۔
(۷۲)ایمان کی بہترویں شاخ، غیرت دار ہونا ہے، یعنی حرام و ممنوعات سے نفرت کرنا، سخت ناراض ہونا، اور بے شرمی اور دیوثی کو چھوڑنا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ (النور:۳۱)
آپ مسلمان عورتوں سے فرما دیجیے ، کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ غیرت کرتا ہے، اور مسلمان بھی غیرت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی غیرت یہ ہے، کہ مومن آدمی ان کاموں کو نہ کرے، جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔ (بخاری)۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الغیرۃ من ا لایمان والمذاء من النفاق۔ (مختصر شعب الایمان)
غیرت کرنا ایمان سے ہے، اور دیوثی کرنا نفاق سے ہے۔
علامہ حلیمی فرماتے ہیں: کہ ''مذا''(دیوثی) یہ ہے، کہ آدمی مردوں عورتوں کو جمع کر کے چھوڑ دے، کہ وہ آپس میں ملیں جلیں۔ (مختصرشعب الایمان)
(۷۳) ایمان کی تہترویں شاخ، فضول اور لغو باتوں سے الگ تھلگ رہنا، اور بے کار باتوں اور کاموں میں حصہ نہ لینا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع کرتے ہیں، اور گڑگڑاتے ہیں، اور لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں، اور منہ موڑتے ہیں (مومنون) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مومن اور اللہ کے وہی لوگ ہیں، جو جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے، اور جب لغو کام پر ان کا گذر ہو جاتا ہے، تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں(الفرقان) اور ایک جگہ فرمایا: اور جب لغو بات سنتے ہیں، تو منہ موڑ لیتے ہیں۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من حسن اسلام المرٔ ترکہ ما لا یعنیہ۔ (مشکوۃ)
آدمی کے اسلام کی خوبی میں یہ ہے کہ وہ بے کار باتوں کو چھوڑ دے۔
(۷۴) ایمان کی چوہترویں شاخ، سخاوت ہے، قرآن و حدیث میں سخاوت کی بڑی تعریف آئی ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۝۰ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ (آل عمران:۱۳۴۔۱۳۵)
تم جلدی کرو، اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کا صرف عرض زمین و آسمان کے برابر ہے، جو ان پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی جو خوشحالی اور تنگدستی دونوں حالتوں میں اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سخی آدمی اللہ سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے اور لوگوں سے بھی قریب ہے، اور بخیل اللہ سے دور، جنت سے دور اور لوگوں سے بھی دور ہے، اور نادان سخی اللہ کے نزدیک زیادہ پیارا ہے اس عابد سے جو بخیل ہے۔(مشکوۃ) اور آپﷺ نے فرمایا:
خصلتان لا یجتمعان فی مؤمن البخل وسوء الخلق۔ (ترمذی)
یہ دو باتیں مومن کامل کے اندر جمع نہیں ہو سکتی ہیں! بخل اور بدخلقی۔
اس سے معلوم ہوا کہ بخیل پورا مومن نہیں رہتا ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سخاوت جنت میں ایک درخت ہے، جو سخی ہوگا، اس درخت کی شاخ پکڑ کر جنت میں داخل ہو جائے گا اور بخل دوزخ میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہوگا، اس درخت کی شاخ اس کو دوزخ میں پہنچا دے گی۔ (مشکوٰۃ)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۷۵) ایمان کی پچھترویں شاخ، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کرنا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من لا یرحم الناس لا یرحمہ اللہ۔ (مشکوۃ)
جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم نہیں کرے گا۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لیس منا من لم یرحم صغیرنا ولم یوقر کبیرنا۔ (ترمذی)
جو چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا، اور بڑوں کی عزت نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:بڑوں کو پہلے کلام کرنے دو(بخاری) اور فرمایا: تم میں سے بڑا آدمی تمہاری امامت کرے، بڑوں کی عزت کرنے سے اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے، حدیث میں ہے کہ مسلمان بوڑھے آدمی کی عزت کرنا، گویا خدا کی عزت کرنا ہے۔ (ابو داؤد)
(۷۶)ایمان کی چھہترویں شاخ، آپس میں اصلاح کرنا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَا خَيْرَ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىھُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍؚ بَيْنَ النَّاسِ۝۰ۭ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ فَسَوْفَ نُؤْتِيْہِ اَجْرًا عَظِيْمًا۔ (النساء:۱۱۴)
زیادہ سرگوشیوں میں بھلائی نہیں ہے، البتہ جو صدقہ کا حکم کرے اور بھلی باتوں کا ، یا لوگوں میں اصلاح کرنے کا حکم کرے، اور جو ان کاموں کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کرے گا تو ہم اس کو عن قریب بہت زیادہ اجر دیں گے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ۔ (الحجرات:۱۰)
مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لیس الکذاب الذی یصلح بین الناس۔ (بخاری)
لوگوں میں صلح کروانے والا جھوٹا نہیں ہے۔
(۷۷)ستترویں شاخ، تکلیف دہ چیز کو راستہ سے دور کرنا، اور کسی کو تکلیف نہ دینا ہے، اور اپنے بھائی کے لیے وہ پسند کرنا جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا یؤمن احدکم حتی یحب لا خیہ ما یحب لنفسہ۔ (بخاری)
تم میں سے کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا، جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی چیز نہ چاہے، جو اپنے لیے چاہتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الایمان بضع وستون اوبضع وسبعون شعبۃ افضلھا لاالہ الا اللہ وادناھا اماطۃ الاذی عن الطریق والحیاء شعبۃ من الایمان۔ (بخاری شریف)
ایمان کی ساٹھ یا ستر سے زیادہ شاخیں ہیں، سب سے بہتر شاخ کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور سب سے معمولی شاخ تکلیف دینے والی چیز کو راستے سے ہٹا دینا ہے اور شرم بھی ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔
نوٹ: ایمان کی یہ ۷۷ شاخیں مدلل اور مکمل شعب الایمان بیہقی سے اخذ کی گئی ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ایمان پر ہمارا خاتمہ فرمائے آمین۔ثم آمین۔
بارک اللہ لی ولکم فی القران العظیم۔ اقول قولی ھذا استغفر اللہ لی و لکم من کل ذنب فاستغفروہ انہ ھو الغفور الرحیم ط
 
Top