• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی شادی اور جہیز ۔ شیخ سلیم ساجد مدنی حفظہ اللہ (ویڈیو)

اعجاز علی شاہ

ناظم شعبہ گرافکس
شمولیت
جولائی 31، 2011
پیغامات
222
ری ایکشن اسکور
1,461
پوائنٹ
26
السلام علیکم
ریاض سعودی عرب میں غرب دیرہ کے معروف و مشہور داعی و مترجم شیخ سلیم ساجد مدنی (نیپالی) حفظہ اللہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اللہ نے انہیں حکمت و بصیرت کی نعمت سے نوازا ہے۔ خوش اخلاق اور صاف لہجہ میں بات کرتے ہیں۔ ماشاء اللہ عربی ، اردو ، انگریزی اور نیپالی زبانوں پر ان کو عبور حاصل ہے۔

بیان: اسلامی شادی اور جہیز
بمقام: استراحہ طیبہ ، الریاض ، سعودی عرب
بتاریخ 12 جون 2009

Complete Playlist
Islami Shaadi aur Jahaiz - YouTube

پارٹ ۱
[video=youtube_share;lnOyenpXti0]http://youtu.be/lnOyenpXti0[/video]
Islami Shaadi aur Jahaiz (Part 1 of 5) - YouTube

پارٹ ۲
[video=youtube_share;E24dHR5c4G0]http://youtu.be/E24dHR5c4G0[/video]
Islami Shaadi aur Jahaiz (Part 2 of 5) - YouTube

پارٹ ۳
[video=youtube_share;MemWIIXwxfw]http://youtu.be/MemWIIXwxfw[/video]
Islami Shaadi aur Jahaiz (Part 3 of 5) - YouTube

پارٹ ۴
[video=youtube_share;oYXrieCxkXs]http://youtu.be/oYXrieCxkXs[/video]
Islami Shaadi aur Jahaiz (Part 4 of 5) - YouTube

پارٹ ۵
[video=youtube_share;xi2h9oFw_do]http://youtu.be/xi2h9oFw_do[/video]
Islami Shaadi aur Jahaiz (Part 5 of 5) - YouTube
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم
جزاک اللہ خیرا اعجاز بھائی۔
جہیز کا مطالبہ واقعی غلط بات ہے لیکن انسان اپنی خوشی سے بہن یا بیٹی کو ضروریات زندگی کی اشیاء خرید کر دے تو اس بات کی ممانعت میں ابھی تک کتاب و سنت کی رو سے کوئی دلیل سامنے نہیں آئی۔
کسی کی ذاتی رائے حجت نہیں بلکہ قرآن و سنت سے دلیل حجت ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
ارسلان بھائی،
شرعی موقف بیان کرنا مقصود نہیں۔ اس کے لئے علمائے کرام موجود ہیں۔ لیکن صراط الہدیٰ پر ایک تحریر نظروں سے گزری جو اس سوال کے جواب میں کم سے کم پاکستان کے حالات کی روشنی میں تلخ حقائق کو پیش کرتی ہے، ایک اقتباس ملاحظہ کریں::


خوشی سے دینے اور لینے میں بُرائی کیا ہے ؟

وہ کچھ اور شئے ہے محبت نہیں ہے
سکھاتی ہے جو غزنوی کو ایازی

فرار کا یہ تیسرا فلسفہ انتہائی موثر اور منطقی Effective & Logical ہوتا ہے۔ جس کے آگے بڑے بڑے متشرع ، باریشBearded دیندار بزرگ بھی ہتھیار ڈال دیتے ہیں ۔جواز یہ ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تحفے دینے اور تحفے خوش دلی سے قبول کرنے کی تاکید فرمائی ہے ۔
( تهادوا تحابوا . حديث)

اس لیے اگر کوئی ماں باپ اپنی بچی کی رخصتی پر تحفتاً کچھ دیتے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے ؟ برائی اس وقت ہوتی جب لڑکے والے مانگتے ۔ زمانے کے رواج کے مطابق لڑکے کے معیار کو سامنے رکھتے ہوئے لڑکی والے اگر اپنی خوشی سے کچھ دے دیں تو نہ لڑکے والوں کے ضمیر پر بوجھ رہتا ہے نہ گناہ کا احساس ۔

کتنا بڑا دھوکہ ہے جو ہم ایک دوسرے کو دے رہے ہیں ؟ ہر شخص جانتا ہے کہ اس دور میں کماتے کماتے آدمی ٹوٹ جاتا ہے ۔ایک بیٹی یا بہن کی شادی کر کے کئی سال پیچھے ہوجاتا ہے۔کیا واقعی یہ سب ’ خوشی ‘ سے ہوتا ہے ؟ ایک بھائی جو اپنے خون پسینے کی کمائی جو کہ اس کے اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے کام آسکتی ہے ۔ جوڑے ، جہیز ، منگنی ، باراتیوں کی ضیافت وغیرہ میں ہر گز نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوراً خرچ کرتا ہے اور پھر سے صفر پر آجاتا ہے۔ لیکن یہی شخص اپنی باری میں کسی دوسرے باپ یا بھائی کو وہی حالات سے دوچار کرنا اپنا جائزحق سمجھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اُسے بھی ’ خوشی ‘ سے ہی دیا جارہا ہے اس طرح معاشرہ کا ہر فرد خود فریبی Self Deception میں مبتلا ہے ۔دونوں فریق ایک دوسرے کو ”خوشی “سے دینے کے نام پرپوری دانستگی کے ساتھ ایک دوسرے کو دھوکے میں رکھتے ہیں۔

لطیفہ یہ ہیکہ سارا کاروبار ”خوشی “ سے دینے لینے کے نام پر ہوتا ہے اسکے باوجود جب دونوں فریق شادی کی بات چیت کے لئے مل بیٹھتے ہیں سامانِ جہیز ، نقد رقم ، باراتیوں کی تعداد وغیرہ پر خوب بحث ہوتی ہے۔لڑکے والے ایک طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ جو بھی دینا ہے اپنی خوشی سے دیجیئے دوسری طرف پلنگ، بستر، زیور وغیرہ کی فہرست پر تکرار بھی کرتے ہیں۔ اور لڑکی والوں کا حال وہی ہوتا ہے جو کسی بچے کے اغوا ہوجانے پر اُس کے ماں باپ کا ہوتا ہے ۔ اغوا کنندگان Kidnappers کے ہر مطالبے کو خوشی سے ماننے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ یہ اس دور کی مہذب بلیک میلنگ ہے۔ ان ”خوشی“ سے جو چاہے دیجیئے کہہ کر لینے والوں کو دیکھ کر وہ بے شمار لوگ یاد آتے ہیں جو معاملے کے شروع ہونے سے پہلے تو کہتے ہیں”جو چاہے خوشی سے دے دیجیئے“۔ لیکن بعد اپنی اصلیت پر اتر آتے ہیں اور آخر میں دینے والے کی خوشی نہیں چلتی بلکہ لینے والا اپنی خوشی منوا کر رہتاہے۔

جیسے آپ نے دیکھا ہوگا کہ کسطرح آٹو رکشا والے، اسٹیشن پر سامان اٹھانے والے قُلی، اڈّے کے مزدور ، پیشہ ور عورتیں، رشوت کھانے والے تمام حضرات چاہے وہ پولیس والے ہوں کہ کوئی بھی ڈپارٹمنٹ والے جہاں آپ کا معاملہ اٹکا ہو۔ یہ تمام لوگ پہلے تو انتہائی خودداری اور خوش اخلاقی سے یہی کہتے ہیں کہ ”آپس کا معاملہ ہے آپ جو چاہے خوشی سے دے دیجیئے“۔

بعض تو یہ تک کہتے ہیں کہ ”آپ نہ بھی دیں تو کوئی بات نہیں اللہ کا دیا بہت کچھ ہے“۔ لیکن ایک بار جب ڈیل ہوجائے پھر یہ اپنی حرص اور بے غیرتی کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے بالکل نہیں شرماتے۔لڑکے والے بھی بالکل اسی طرح پیش آتے ہیں۔۔

مزید پڑھئے ۔۔۔۔۔ یہاں
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
بھائی تحریر پیش کرنے سے مراد یہ تھی کہ خوشی سے لینے دینے میں ، خوشی کا عنصر عموماً ہمارے معاشرے میں مفقود ہوتا ہے۔ خوشی سے کہیں بڑھ کر معاشرتی دباؤ ہوتا ہے جو زیادہ سے زیادہ جہیز دینے پر لڑکی کے والدین کو اکساتا ہے۔ واللہ اعلم۔!
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
خوشی سے دینے کے بارے میں آپ کا کیا موقف ہے؟
میرے موقف کی کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن میرے خیال میں اگر ہم خوشی والا لین دین بھی ختم کر سکیں تو یہ معاشرے کو ایک بہت بڑی برائی سے بچانے کی ایک اچھی کاوش ہوگی۔ واللہ اعلم!
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
فرض کریں ایک آدمی اپنی بیٹی کی شادی کرتا ہے اس کے پاس دولت بھی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میری بیٹی کے پاس ضرورت کی چیزیں ہوں،مثلا
کپڑوں کے لیے الماری،
گرمیوں میں استعمال کے لیے فریج،
اور دیگر ضروریات زندگی تو اس میں کیا حرج ہے؟
اور اگر لڑکی کے اپنے پیسے ہوں مثلا اس کے باپ کے مرنے کے بعد اس کی وراثت سے جو حصہ اسے حاصل ہوا ان پیسوں سے اگر وہ اپنی شادی پر اپنی ضروریات کی چیزیں خرید لے تو اس میں کیا حرج ہے؟
میرا یہی سوال ہے کہ کتاب و سنت کی رو سے اس کی ممانعت کی کوئی دلیل ہے تو دکھائیں۔
 

اعجاز علی شاہ

ناظم شعبہ گرافکس
شمولیت
جولائی 31، 2011
پیغامات
222
ری ایکشن اسکور
1,461
پوائنٹ
26
ارسلان بھائی ہمیں اچھی طرح پتہ ہے کہ آج کل یہ جہیز کی برائی ہر جگہ پھیل رہی ہے۔ یہ رسم و رواج عام ہو چکے ہیں۔میرے خیال میں اس برائی کی حوصلہ شکنی کیلئے کسی امیر یا صاحب استطاعت شخص کو قدوہ اور نمونہ بننا چاہیے تاکہ جس معاشرے میں جہیز کی لعنت عام ہو وہاں پر کوئی صاحب استطاعت مثال قائم کرے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ عام آدمی اس کی مثال پیش کرے گا کہ فلاں دولت مند آدمی نے بھی تو جہیز نہیں دیا تھا حالانکہ وہ دے سکتا تھا۔
بھائی کسی برائی کو ختم کرنے کیلئے ہمیں اصلاحی پہلو کو مد نظر رکھنا چاہیے ۔ اگربالفرض موجودہ رسم و رواج سے ہٹ کر بھی کوئی اپنی خوشی سے سامان تحفے میں دے گا تو عام لوگوں کا نقطہ نظر یہی ہوگا کہ یہ فلاں نے جہیز دیا ہے۔
تحفہ ضروری نہیں کہ شادی کے عین موقع پر دیا جائے۔
خیر یہ میرا اپنا نقطہ نظر ہے اور اس سے اختلاف رکھنا ہر کسی کا حق ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اسی خوشی ہی خوشی میں بہنیں اپنے وراثت کے حق سے بھی بھائیوں کیلئے دستبردار ہوجاتی ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ معاشرتی مجبوریوں کو خوشی کا نام دے دیا گیا ہے۔

بیٹیوں کو معلوم ہے کہ اگر انہوں نے اپنا حصہ نہیں چھوڑا تو بھائی ہم سے آئندہ کیلئے قطع تعلقی کر لیں گے۔ ہمارا میکہ ختم ہوجائے گا، اگر طلاق ہوگئی تو ہمارا ذمہ دار کون ہوگا؟؟ وغیرہ وغیرہ۔ اسی ڈر اور خوف میں اپنا حصہ ان کے نام خوشی سے لگا دیتی ہیں۔

نہ جانے ہمیشہ خواتین ہی اپنی خوشی سے اپنا حصہ کیوں چھوڑتی ہیں؟ مرد کیوں خوشی خوشی میں اپنا حصہ عورتوں کے حوالے کیوں نہیں کر دیتے؟؟؟

مرد حضرات اکثر اوقات شادی بیاہ کے موقع پر زیادہ حق مہر مؤجل لکھوا دیتے ہیں۔ کہ دینا کس نے ہے؟ بیوی سے خوشی سے معاف کرا لیں گے۔ اور بیوی کو پتہ ہے کہ اگر معاف نہ کیا تو ازدواجی زندگی میں مسائل ہوں گے، صرف ہندوانہ معاشرتی دباؤ کے تحت بیویاں خوشی سے اپنا حق مہر معاف کر دیتی ہیں۔

تو معاشرتی جبر کو خوشی کہنا کسی طور پر صحیح نہیں۔

البتہ کوئی واقعی ہی کسی پر کوئی دباؤ اور جبر نہ ہو اور یہ معاملات واقعی ہی دلی خوشی سے سر انجام دئیے جائیں تو الگ بات ہے۔

فرمانِ باری ہے:

﴿ وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِ‌يئًا ﴾ ... النساء: 4
کہ ’’اور عوتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو، ہاں اگر وه خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھا لو۔‘‘

طبن کا معنیٰ ’خوشی سے دیں‘ اور نفسا کہہ کر تاکید مزید فرمائی، کہ واقعی ہی دلی خوشی سے یہ معاملہ ہو تو جائز ہے۔

ویسے قرآن کریم کا مطالعہ کرنے سے علم ہوتا ہے کہ چونکہ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے صاحب فضل بنایا ہے کہ وہ پیسے خرچ والے ہوتے ہیں۔ تو مالی معاملات میں مردوں کو ہی زیادہ اہتمام کرنا چاہئے نہ کہ عورتوں میں بوجھ ڈالنا چاہئے۔ اسی لئے طلاق جیسے معاملات میں بھی حق مہر ادا کر دینے کے باوجود بھی مردوں کو عورتوں کو کچھ نہ کچھ دینا چاہئے۔

فرمانِ باری ہے:
﴿ وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُ‌وفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴾ ... البقرة

کہ ’’مطلقہ عورتوں کیلئے متاع ( فائدہ) ہے معروف طریقے سے۔ اور یہ بات (معروف طریقے سے کچھ نہ کچھ دینا) پرہیزگاروں پر لازم ہے۔‘‘

اسی طرح اگر رخصتی کے بغیر (یعنی تعلق قائم کیے بغیر) طلاق ہوجائے اور حق مہر مقرر ہو تو آدھا حق مہر ادا ضروری ہوتا ہے۔ اِلا یہ کہ مرد معاف کر دے (یعنی پورا حق مہر دے دے) یا عورت معاف کر دے (یعنی عورت والے آدھا حق مہر بھی نہ لیں۔) یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے مردوں کو ہی حکم دیا کہ بہتر یہی ہے کہ تم ہی پورا حق مہر دے دو اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان معاملات میں جو فضیلت دی ہے، اسے نہ بھولو۔

فرمانِ باری ہے:
﴿ وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَ‌ضْتُمْ لَهُنَّ فَرِ‌يضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَ‌ضْتُمْ إِلَّا أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۚ وَأَن تَعْفُوا أَقْرَ‌بُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ﴾ ... البقرة
کہ ’’اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کردیا ہو تو مقرره مہر کا آدھا مہر دے دو، یہ اور بات ہے کہ وه خود معاف کردیں یا وه شخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گره ہے۔ (یعنی شوہر!) تمہارا (یعنی شوہروں کا) معاف کردینا تقویٰ سے بہت نزدیک ہے اور آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموش نہ کرو (یعنی اللہ تعالیٰ نے نکاح وطلاق کے معاملات میں مردوں کو درجہ عطا کیا ہے، لہٰذا انہیں ہی اس کا پاس کرتے ہوئے پورا حق مہر دے دینا چاہئے۔)

واللہ تعالیٰ اعلم!
 
Top