• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی فقہ کو طاغوتی نظاموں سے ملانا !

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

امت میں بالعموم ، اور برصغیر میں بالخصوص دینی طبقے کی ذہنی کیفیت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید ایک عرصے تک ابھی فروعات کو اصول سے زیادہ اہمیت دینا جاری ہی رہے گا جس کی جڑیں اہل السنہ والجماعۃ کے ہاں تقلید اور عدم تقلید کے مسئلے سے پھوٹتی ہیں۔ ایک طرف "اتباع رسول" کے بلا شرکت غیرے دعوے ہیں اور دوسری طرف امت کے "صدیوں سے چلے آنے والے" تلقی بالقبول کے نعرے ، اور دن رات گزرتے ہیں اسی بحث و تمحیص میں !

فی الوقت مجھے ان دونوں طبقوں سے کوئی سروکار نہیں ہے جو یا تو اپنے امام سے آگے دیکھنے کے روادار نہیں ہیں ، اور یا پھر عملا ہر کس و ناکس کو چند ترجمہ شدہ کتابیں تھما کر تحقیق کا مرحلہ جانفزا سر کروا دیتے ہیں ، اور ان دونوں انتہاؤں کے درمیان تو تو میں میں سے بھی آگے بڑھ کر طعن و تشنیع بلکہ تفکیر و تفسیق تک کو سلف کے حوالوں سے مزین کر کے پیش کرنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔

فورم ہذا چونکہ دوسری جگہوں کی نسبت کھلا ماحول فراہم کرتا ہے (یا کم از کم کوشش کرتا ہے )، اس لیے بھی مجھے لکھنے کی تحریک ہو رہی ہے اور ساتھ ہی اس کے مقصد اصلی بھی پیش نظر ہے۔ ان شاء اللہ۔

غیر اللہ کی عبادت اسلام میں شرک کا نام ہے ۔بعد کی صدیوں میں بہت سے اسباب کی وجہ سے جب عبادت ک تصور محض پوجا پاٹ تک محدود ہو گیا تو ربانی علماء اور جدید اسلامی مفکرین نے امت کی توجہ زیادہ زوردار طریقے سے ان عبادت ے اس حصے کی طرف مبذول کروائی جو "پوجا پاٹ" کے علاوہ کچھ اور صورتوں میں سامنے آتی ہے۔ ریاست کی موجودہ شکل و صورت کی طرف جیسے جیسے ارتقاء ہوتا گیا ،اسی ضمن میں غیر اسلامی نظاموں اور غیر الٰہی شریعتوں اور قوانین کا معاملہ بھی زیر بحث آنے لگا کیونکہ یہ ایک نئی طرف کے بھیس بدلے ہوئے لات و منات تھے ۔ سو ابن کثیر سے آغاز کر کے شنقیطی تک ، اور حامد الفقی اور محمد بن عبدالوہاب سے لیکر مودودی اور سید قطب رحمھم اللہ تک اس پر اچھا خاصا مواد اور ترکیز دیکھنے کو ملتی ہے۔

اس ساری صورتحال کو وہ مسلکی ذہن بھی ملاحظہ کر رہا ہے ، جو ان بحثوں کے نتیجے میں کہیں پس منظر میں چلا جاتا ہے! چنانچہ فطری طور پر اس کی کوشش بار بار یہی ہوتی ہے کہ بات کو کسی طرح سے پھر وہیں لایا جائے جہان وہ پہلے ہی حق و باطل کی جنگ مین ہمہ وقت کشتوں کے پشتے لگانے میں مصروف ہے، یعنی تقلید و عدم تقلید کا میدان کارزار!! اسی سلسلے کی تازہ مثال وہ نکتہ آفرینی ہے جس پر آج بات کرنے کا ارادہ ہے، اور وہ یہ کہ :

"""اگر موجودہ نظام غیر اسلامی قوانین یا شریعت بنا کر اللہ رب العالمین کی حاکمیت میں شریک بنتے ہیں تو دوسری طرف فقہی مذاہب (بالخصوص حنفی فقہ)بھی اس کی زد میں آتے ہیں ، دونوں کا جرم ایک ہی ہے۔ اس لیے ایک کا پرزور انکار اور دوسرے سے سراسر غفلت برتنا درست نہیں ۔وغیرہ وغیرہ"""
دلائل کے طور پر کتب فقہ سے خلاف کتاب و سنت عبارتیں پیش کی جاتی ہیں۔ اس طرح مقصد واضح طور پر یہ ہوتا ہے کہ اس "مساوات" کو قبول کیا جائے یا پھر غیر اسلامی نظاموں کے کفر پر اصرار سے ہی پیچھے ہٹ جایا جائے۔ آج کے مضمون میں اسی خلط مبحث یا دانستہ پھیلائی جانے والی کنفیوژن (جو بھی کہہ لیں) پر بات کرنے کی کوشش ہو گی ۔ان شاء اللہ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اسے نافع بنا دیں ۔ آمین۔


سب سے پہلے مختصرا سادہ الفاظ میں "فقہ" اور "غیر اسلامی نظام" دونوں کا تعارف کروانا مناسب معلوم ہوتا ہے ،تاکہ دونوں کا موازنہ کرنے میں آسانی ہو سکے۔

عربی میں "فقہ" کا مطلب سمجھ بوجھ ہوتا ہے ۔جبکہ زندگی کے مختلف شعبوں میں دین اسلام کے احکامات کی عملی تطبیق(Implementation) کے علم کو اصطلاحی طور پر "علم فقہ" کہا جاتا ہے۔ اسلامی فقہ کی بنیادیں قرآن و سنت، اجماع اور قیاس ہیں۔فقہ یعنی اسلامی احکامات کی عملی تطبیق کرنے کے علم کی بنیاد کچھ اصولوں پر ہوتی ہے جنہیں "اصول فقہ" کہتے ہیں۔"اصول فقہ" دو الفاظ سے مل کر بنا ہے۔ اس کا مطلب ہے قوانین اور قواعد و ضوابط کا مجموعہ جس کی بنیاد پر شرعی دلائل سے قانونی احکام اخذ کیے جاتے ہیں۔
موجودہ دور کے غیر اسلامی یا سیکولر نظام بھی زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے احکامات جاری کرتے ہیں ،اور ان پر عمل کرواتے ہیں۔ یہ احکامات فرد واحد، کسی کابینہ یا پارلیمنٹ میں شامل افراد کی خواہشات اور چاہت پر مبنی ہوتے ہیں۔ سیکولر یا لادینی نظریے کے مطابق انسان اپنا برا بھلاخود سوچ سکتے ہیں ، اور درست وہ ہوتا ہے جو ان کی اکثریت کی مرضی ہوتی ہے اور اسے ہی نافذ ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ادارے وجود میں لائے جاتے ہیں جو پہلے آئین اور پھر اس کی روشنی میں قوانین بناتے ہیں۔جائز اور ناجائز قرار دی جانے والی چیزوں کا وہ مجموعہ جسے عوام پر لاگو کیا جاتا ہے، اسے قانون(Law) کہتے ہیں۔ جمہوریت میں پارلیمنٹ اور کمیونزم میں کمیونسٹ پارٹی کی جنرل کونسل یا کانگریس وغیرہ سے منظوری کے بعد کسی بھی قانون کا نفاذ ریاست کے اداروں کا فرض قرار پاتا ہے۔

اب ہم ان دونوں طرح کے نظاموں اور ان کے اوپر بیان کردہ منہج(Methodology) کو سامنے رکھیں تو ہم واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ :

اول: سیکولر نظام میں بنیادی طور پر قانون سازی کی بنیاد کثرت رائے،اور خواہشات وغیرہ ہیں۔ اسلام سے راہنمائی لینے کا تصور ہی نہیں ہے،یعنی مخلوق کے حکم سے جائز ناجائز کا فیصلہ ہوتا ہے۔ جبکہ فقہ اسلامی کا بنیادی ماخذ قرآن و سنت ہے۔ مختلف فقہی مذاہب کے ہاں اصول استنباط (Deriving Principles)مختلف ہونے کے باوجود یہ مصادر (Sources)متفقہ ہیں اور انہی سے مسائل کو اخذ کیا جاتا ہے۔ یہ سب سے بڑا بنیادی فرق ہے۔

دوم: سیکولر نظام میں مرجع اطاعت(Origin of Obedience) کابینہ، پارٹی، اسمبلی وغیرہ ہیں۔۔ جبکہ فقہ اسلامی اللہ اور اس کا رسول مستقل بالذات اطاعت کرنے کے لیے عملی زمین فراہم کرتی ہے۔

اس ساری تفصیل کے بعد ایک عام آدمی بھی دیکھ سکتا ہے کہ اسلامی فقہ اور غیر اسلامی نظاموں میں کتنا دور کا فاصلہ پایا جاتا ہے۔

ایک طرف اسلام کے متفقہ اصولوں کی روشنی میں مسلمانوں کی راہنمائی کی جاتی ہے اور دوسری طرف اسلام کو کسی قابل خیال نہ کرتے ہوئے عوامی نمائندوں کی خواہشات کی "روشنی" میں سب کچھ چلایا جاتا ہے۔ چنانچہ ان دونوں کو ہم ایک ہی صف میں کھڑے نہیں کر سکتے ۔ اسی لیے رب العالمین کی حاکمیت کی دعوت دیے جانے پر سلف کی پیروکاری کا دعویٰ کرنے والے کچھ لوگوں کی طرف سے "حنفی تحکیم" یا "مالکی تحکیم" جیسی خود ساختہ اصطلاحات کی صدائیں بلند کرنا ! اور اہل سنت کے ان معتبر فقہی مکاتب کو بھی غیر اسلامی نظاموں کے برابر کھڑا کر کے غیر اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کا مجرم قرار دے کر مطعون کرنا کوئی علمی وزن نہیں رکھتا۔۔۔ ایک دو مزید نکات اس بات کو اور بھی روز روشن کی طرح عیاں کر دیں گے ۔ ان شاء اللہ

اب اس آیت کو دیکھتے ہیں جس کے تحت فقہی مذاہب پر بڑی آسانی سے فتویٰ لگا دیا جاتا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں :

ٱتَّخَذُوۤاْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ ٱللَّه ( التوبہ: ٣١
ترجمہ: انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا۔
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث کے مطابق یہ درویش اور علماء ان کے لیے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرتے تھے اور سارے یہود و نصاری ان کی اطاعت کا دم بھرتے تھے ، یہی ان کی عبادت کرنا تھی۔(ترمذی) اس آیت کی رو سے وہی علماء اور لیڈر اللہ کے ساتھ شریک بننے والے ہیں جو:

جو صرف خواہشات کی بنیاد پرحلال کو حرام یا حرام کو حلال کرنے والے ہوں ، اس میں کسی اجتہادی غلطی کا دخل نہ ہو۔
اور
جن کو مستقل بالذات مرجع اطاعت گردانا جاتا ہو۔
اب فقہی مذاہب میں مسائل میں غلط مواقف اجتہادی خطاؤں میں داخل ہیں جن کی کئی ایک وجوہات ہوتی ہیں۔ (شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے "الانصاف فی بیان سبب الاختلاف" اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے "رفع الملام عن ائمۃ الاعلام" میں ان وجوہات پر بڑی تفصیلی روشنی ڈالی ہے) ان وجوہات کی بنا پر مجتہد سے غلطیاں ہوتی ہیں اور اس کی غلطیوں کی بنا پر غلط موقف کو اس کی جانب سے حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرنا تا، بلکہ حدیث کے مطابق اسے دو میں ایک اجر کا مستحق بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے اپنی محنت پوری کی اگرچہ درست بات تک نہیں پہنچ سکا۔

اسی طرح اطاعت کے معاملے میں دیکھیں تو مذاہب فقہیہ کا میدان اجتہادی مسائل ہیں۔اور سب کے سامنے ہے کہ ہر مذہب کے امام کے درجنوں بلکہ سینکڑوں مسائل کو خود ان مذاہب کے اکابر نے اس بنا پر ترک کر دیا گیا ہے کہ وہ کتاب و سنت سے لگا نہیں کھاتے تھے، کتنے ہی مسائل میں کسی دوسرے مجتہد کی رائے کو اختیار کیا جاتا ہے۔ مستقل بالذات اطاعت میں یہ کبھی نہیں ہوتا جیسے قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غلط ہونے کا ہم خیال بھی نہیں کر سکتے۔ جبکہ فقہاء کو غلطی کرنے والا اور ان کے موقف میں غلطی کا امکان برملا تسلیم کیا جاتا ہے""مذھبنا صواب یحتمل الخطا""۔ اسی طرح فقہی مذاہب کے پیروکار اپنے علاوہ دوسرے مجتہدین کا فہم لینے والوں کو بھی باطل نہیں ٹھہراتے ، صرف اپنے مذہب کے اقرب الی الصواب ہونے کی امید رکھتے ہیں اور اس میں خطا کا امکان بہرحال مانتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ۔ یہ دونوں چیزیں بتاتی ہیں کہ مذاہب فقہیہ کی اطاعت مستقل بالذات نہیں بلکہ اطاعت رسول سے مشروط اور اسی کے تحت ہے۔

فقہی مذاہب :سلف کا موقف


اول: فقہی مذاہب آج کا نیا پیش آنے والا کوئی فنامنا نہیں ہے ، اور نہ ہی ایسا ہے کہ سلف نے اس بارے میں ہمیں لاوارث چھوڑا ہو !سلف صالحین کے ہاں فقہی مذاہب اہل سنت کے دائرے کا سب سے بڑ حصہ ہیں ، ان کے ہاں فقہی مکاتب کو تقلید کرنے کی بنیاد پر کفر و شرک کے سرٹیفیکیٹ دینے کا ہمیں کہیں نشان بھی نہیں ملتا۔ اور وہ انہیں کس طرح کفر و شرک کے مرتکب ٹھہرا سکتے ہیں جبکہ ان کی ایک غالب تعداد خود ان فقہی مذاہب کے سائے میں اسلام کی خدمت کرتی رہی ہے!! ابن حجر العسقلانی جیسے محدث سے لیکر شاطبی جیسے اصولی تک ، اور قرطبی و ابن عربی رحمھم اللہ جیسے مفسر ۔۔ اور زمانہ ما بعد میں محمد بن عبدالوہاب جیسے قاطع شرک و بدعت اور سید احمد بریلوی رحمھم اللہ جیسے مجاہد فی سبیل اللہ ۔۔۔۔ہزاروں میں سے چند نام ہیں ۔

دوم:سلف سے ہمیں کسی بھی ایسی مالکی یا شافعی "تحکیم" کو حاکمیت الٰہی کے تحت زیر بحث لانے کا سراغ نہیں ملتا ، نہ ہی علماء مقلدین کو "طاغوت" اور "طاغوت کے پجاری " ایسے القابات ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اگر سلف کا طرز عمل ہمارا مشعل راہ ہے تو ان کا یہی مجموعی طرز عمل لائق اتباع ہے ، اس کے خلاف نہیں جانا چاہیے! یہی اتباع سلف کا تقاضا ہے۔ واضح رہے بات چند مخصوص صورتوں یا افراد کی نہیں، پورے پورے فقہی دبستانوں پر حکم لگانے کی ہو رہی ہے۔

سوم:اسی طرح ایک عرصہ دراز تک فقہی مذاہب سے وابستہ قاضی مسلمانوں کے فیصلے اپنے اپنے مزاہب کے فہم کے مطابق کرتے رہے ہیں ۔۔۔۔ اگر کسی کی نظر سے ان فیصلوں کو "غیر اسلامی فیصلے" یا " تحکیم بغیر ما انزل اللہ" قرار دینا گزرا ہو تو احقر کے علم میں بھی اضافہ فرمائے۔ یا ان عدالتوں میں اپنے مقدمات لے جانے والوں کو ہی "تحاکم الی الطاغوت" کا مجرم ٹھہرایا ہو؟؟


خلاصہ کلام یہ ہوا کہ بنیادی مصادر، اصولوں اور مرجع اطاعت سے لیکر طریق کار تک میں غیر اسلامی نظاموں اور فقہی مذاہب میں کلیدی فرق اور بعد المشرقین پایاجاتا ہے۔ اس لیے غیر سلامی نظاموں کے برابر قرار دے کر حاکمیت الٰہی کو غصب کرنے کا مجرم ٹھہرانا درست نہیں ہے ۔ شرع، عقل اور طریق سلف تینوں کی رو سے اس کی کوئی سند نہیں ملتی۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

والحمد للہ رب العالمین
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
جزاک اللہ بھائی جان۔۔۔۔
اس فورم میں’’کچھ حضرات‘‘کئی دنوں سے’’مذہبی تحکیم‘‘کا راگ آلاپ رہے تھے۔۔۔ان افراد کے لیے یہ تحریر’’افاقہ‘‘ثابت ہوگی۔
میں اس کی پی ڈی ایف فائل بناتا ہوں۔
 
Top