بسم اللہ الرحمٰن الرحیماسلامی مملکت میں حکومت کا حق
اسلامی مملکت میں حکومت کا حق
ابوجابر عبداللہ دامانوی
أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُدوستو!۔
قرآن مجید کا طرز استدلال یہ ہے چونکہ کائنات کو عدم سے وجود میں لانے والا وہ اللہ ہے جو کائنتا کا خالق بھی ہے اور مالک بھی لہذا امر کا حق (Right of Rurel) بھی اُسی کو پہنچتا ہے اس کے ملک (Dominion) میں اس کی مخلوق پر اس کے سوا کسی دوسرے کا حکم نافذ ہونا صریحا غلط ہے جیسا کے ارشاد ہوا!۔
یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا (ربط)
وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًانیز ارشاد فرمایا!۔
اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا (ربط)
يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِن شَيْءٍ ۗ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّـهِ ۗمزید ارشاد ہوا!۔
اور کہتے تھے کیا ہمیں بھی کسی چیز کا اختیار ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ کام کل کا کل اللہ کے اختیار میں ہے،(ربط)
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ ﴿٤٤﴾انسانوں کو صرف اس قانون کی پیروی کرنی ہے جو مالک الُملک نے بنایا ہے اس کے قانون کو پش پست پھینک کر جو شخص یا ریاست خود قانون بناتی ہے یا اللہ سے ہٹ کر کسی اور کے بنائے ہوئے قانون کو تسلیم کرتی ہے اور اس کے مطابق فیصلے کرتی ہے قرآن مجید اسے طاغوت اور باغی قرار دیتا ہے اور اس فیصلے پر عمل کرنے والا بھی بغاوت کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔۔۔
جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ (پورے اور پختہ) کافر ہیں (ربط)
۔۔۔قانون کا لفظ نظام کے معنوں میں ہے، ورنہ اللہ کے قانون کے لئے محتاط لفظ حکم واحکام کے ہیں۔۔۔ دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
قریب ہے کے دوسری (غیرمسلم) قومیں تم سے لڑنے اور تمہیں مٹانے کے لئے اس طرح ایک دوسرے کو بلائیں کہ جیسے کھانا کھانے والے دوسرے (بھوکے) لوگوں کو دسترخوان پر بلاتے ہیں یہ سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے کسی نے پوچھا۔۔۔ وہ لوگ ہم پر اس لئے غلبہ حاصل کرلیں گے کہ اس وقت ہم تعداد میں کم ہونگے؟۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔۔ بلکہ تم اُن دنوں بہت زیادہ تعداد میں ہوگے لیکن ایسے جیسے کہ دریا یا نالوں کے کنارے پانی کے جھا ہوتے ہیں (یعنی تم نہایت کمزور اور ضعیف ہوگے) تمہارا رعب اور ہیبت دشمنوں کے دل سے نکل جائےگی اور تمہارے دلوں میں دھن کی بیماری پیدا ہوجائے گی کسی نے عرض کیا۔ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دھن (ضغف وسستی) کیا چیز ہے۔۔۔
حب الدنیا وکراھیہ الموت
دنیا کی محبت اور موت سے نفرت
یعنی اس دور میں مسلمان مادیت کی دوڑ میں اتنے آگے ہوں گے کہ دنیا کی محبت ان کے رگ وریشہ میں سراہت کر جائے گی جس کے نتیجہ میں وہ موت سے ڈرنے لگیں گے اور اس طرح جہاد فی سبیل اللہ کو وہ ترک کردیں گے۔۔۔
”اِذَاتَبَایَعتُم بِالعِینَةِ وَاَخَذتُم اَذنَابَ البَقَرِ وَرَضِیتُم بِالزَّرعِ وَتَرَکُم الجِھَادَ سَلَّطَ اللّٰہُ عَلَیکُم ذُلاًّ لاَ یَنزِعُہُ حَتَّی تَرجَعُو اَلَی دَیَنکُم “عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا!۔
جب تم بیع عینہ (سود کی ایک قسم) کو اختیار کرو گے اور گائے بیل کی دُمیں تھام لوگے اور کھیتی سے خوش رہو گے اور جہاد کو چھوڑ دو گے تو اس وقت اللہ تعالٰی تم پر ذلت مسلط کردے گا اور تم سے ذلت دور نہ کرے گا یہاں تک کے تم اپنے دین کی طرف پلٹ آؤ۔
اس حدیث میں جہاد کو دین قرار دیا گیا ہے پس ثابت ہوا کے جہاد سے دین کی بقاء ہے اور جب جہاد ختم ہوگیا تو دین ختم ہوجائےگا۔۔۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا!۔
یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا اور (اس کی بقا کے لئے) مسلمانوں کی ایک جماعت (کہیں نہ کہیں) ہمیشہ جہاد کرتی رہے گی یہاں تک کے قیامت قائم ہو۔
خایک دوسری حدیث میں بھی اسی طرح کا مضمون بیان ہوا ہے اور اس کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں اس امت کے آخری لوگ حضرت عیٰسی سے مل کر مسیح دجال کے خلاف جنگ کریں گے۔۔۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أُوْلَـئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللّهِ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌلاصہ کلام!۔
ثابت ہوا کے صالحین کی ایک جماعت کو دین کے قیام کے لئے قربانیاں دینی ہونگی اور صحیح ایمان وعقیدہ کو اختیار کرکے اور طاغوت کا انکار کرکے قوم کو ایک اللہ کی توحید کی طرف دعوت دینا ہوگی اور شرک کا سختی سے رد کرنا ہوگا اور اللہ تعالٰی کی حاکمیت کا تصور بھی اجاگر کرنا ہوگا اور ہر اس دعوت حق کے نتیجے میں ہجرت اور پھر جہاد ایسی راہوں سے بھی گزرنا پڑے گا۔۔۔
ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصوابالبتہ ایمان ﻻنے والے، ہجرت کرنے والے، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہی رحمت الٰہی کے امیدوار ہیں، اللہ تعالیٰ بہت بخشنے واﻻ اور بہت مہربانی کرنے واﻻ ہے (ربط)
والسلام علیکم۔
لنک