- شمولیت
- مارچ 07، 2012
- پیغامات
- 679
- ری ایکشن اسکور
- 743
- پوائنٹ
- 301
اسلام سے خارج کر دينے والے امور
اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں پر اسلام میں داخل ہونا،اس کو مضبوطی سے تھام لینا،اور اس کے منافی امور سے بچنا واجب کر دیا ہے۔اور یہی دعوت دے کر نبی کریم ﷺ کو مبعوث فرمایا۔اور اعلان کر دیا کہ جس نے اس دعوت کو قبول کر لیا وہ ہدایت یافتہ ہے اور جس نے اس دعوت سے منہ موڑا وہ گمراہ ہے۔اور قرآن مجید کے اندر بہت ساری آیات میں ارتداد کے اسباب اور کفر وشرک کی تمام انواع سے خبردار کیا ہے۔ اہل علم نے بہت سارے ایسے امور (نواقض اسلام )کا تذکرہ کیا ہے جن سے مسلمان مرتد ہو جاتا ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے،اور اس کا خون ومال حلال ہو جاتا ہے۔ان نواقض اسلام میں سے سب سے زیادہ خطرناک ،اور کثرت سے وقوع پذیر ہونے والے دس ہیں ۔جن کو شیخ الاسلام امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللّٰہ اور دیگر علماء کرام نے بیا ن کیا ہے۔ہم ان دس نواقض اسلام کو اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں تا کہ آپ اور دیگر لوگ اس سے اپنے آپ کو بچا سکیں اور گمراہی کی راہ پر چلنے کی بجائے صراط مستقیم کو اختیار کریں۔
(۱)اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ أَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ)) [النسائ:۴۸]
دوسری جگہ فرمایا:’’یقینا اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا ہے،اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے‘‘
((اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَوَمَأْوٰیہُ النَّارُ وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ أَنْصَارٍ)) [المائدۃ:۷۲]
مُردوں کو پکارنا،ان سے مدد طلب کرنا،ان کے لئے نذر ماننااور ذبح کرنابھی شرک ہے۔’’یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالی نے اس پر جنت حرام کر دی ہے،اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گناہ گاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا‘‘
(۲)وسیلہ بنانا:
جس نے اپنے اور اللہ کے درمیان کچھ شخصیات کو واسطہ بناکر ان سے دعائیں مانگیں،ان سے سفارش کا طلب گا رہوااور ان پر بھروسہ کیاتو ایساشخص بالاتفاق کافر ہے۔
(۳)کافروں ومشرکوں کے کفر میں شک کرنا:
جو شخص مشرکوں و کافروں کے کفر میں شک کرے اور ان کو کافر نہ سمجھے یاان کے مذہب کو صحیح سمجھے تو ایسا شخص خود بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
(۴)اسلام کو ناقص خیال کرنا:
جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ نبی کریمﷺ کے لائے ہوئے دین سے بڑھ کر کسی اورکا طریقہ زیادہ کامل واکمل ہے یا کسی کا نظام دستور نبی کریم ﷺ کے لائے ہوئے نظام سے بہتر ہے جیسے طاغوت کے فیصلے کو شریعت کے فیصلے پر ترجیح دینا۔تو ایسا کرنے والاشخص کافر ہے۔
اس چوتھی قسم میں یہ بات بھی داخل ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ انسانوں کے بنائے ہوئے دستور وقوانین شریعت اسلامیہ سے افضل واعلی ہیں یا شریعت اسلامیہ کے ہم پلہ اور برابر ہیں۔یا یہ عقیدہ رکھے کہ ان دستور وقوانین کے مطابق فیصلہ کرنا جائز ہے۔(اگرچہ شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلہ کرنے کو افضل ہی قرار دیتا ہو)کیونکہ اس نے ان قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے کو جائز کہہ کر اللہ کی حرام کردہ چیزوں کا حلال کر لیا۔اور ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں ’’جیسے زنا،چوری،ڈاکہ ،سودخوری اور رشوت وغیرہ‘‘کو حلال جانے تو وہ شخص تمام مسلمانوں کے نزدیک بالاتفاق کافر ہے۔
اسی طرح جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ اسلامی نظام بیسویں صدی کے تقاضوں اور چیلنجوں پر پورا نہیں اترتااور مسلمانوں کے زوال اور پیچھے رہ جانے کا سبب ہے۔یا یہ عقیدہ رکھے کہ اسلام بندے کو اللہ کے قریب کرنے میں مدد دیتا ہے لیکن دنیا کے معاملات میں اس کو کوئی دخل نہیں ہے۔ایسے عقائد رکھنے والا شخص کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
اسی طرح یہ عقیدہ رکھنا کہ عصر حاضر میں اسلامی حدود کا نفاذ’’جیسے چور کا ہاتھ کاٹنا،شادی شدہ زانی کو رجم کرنا‘‘غیر منسب ہے،کفر ہے اور ایسے عقیدے کا حامل شخص کافر ہے۔
(۵)دینی احکام سے بغض رکھنا:
جس شخص نے رسول اللہ ﷺکی لائی ہوئی کسی بات کو ناپسند کیا خواہ وہ اس پر عمل بھی کرتا ہو تو اس نے کفر کیا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((ذٰلِکَ بِأَنَّھُمْ کَرِھُوْا مَآأَنْزَلَ اللّٰہُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَھُمْ))[محمد : ۹ ]
(۶)دین کا مذاق اڑانا:’ ’یہ اس لئے کہ وہ اللہ کی نازل کردہ چیز سے ناخوش ہوئے پس اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے اعمال ضائع کر دئیے‘‘
جو شخص نبی کریم ﷺ کے لائے ہوئے دین یا اس دین میں موجود ثواب وعقاب کا مذاق اڑائے ۔ تواس نے کفر کیا ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((وَلَئِنْ سَأَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللّٰہِ وَآیٰاتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَھْزِؤُنَ٭لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ))[التوبۃ:۶۵،۶۶]
(۷)’’اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔کہہ دیجئے!کہ اللہ ،اس کی آیتیںاور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں؟تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہو گئے۔‘‘
جادو کرنا یا کرانا:
جادو یا اس سے ملتی جلتی دوسری دو قسمیں’’صرف وعطف‘‘کرنا یا کرانا،یا اس عمل سے خوش ہونا کفر ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((وَمَا یُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَا اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْ))[البقرۃ:۱۰۲]
(۸)’’وہ دو نو ں کسی شخص کو اس وقت تک جادو نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں ،پس تو کفر نہ کر‘‘
اہل اسلام کے خلاف اہل کفر کی مدد کرنا:
مسلمانوں کے خلاف مشرکوں وکافروں کی مدد کرنا بھی اسلام سے خارج کر دینے والا عمل ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَمَنْ یَتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ )) [المائدۃ:۵۱]
شرعی احکام سے آزادی’’تم میں سے جو ان مشرکوں کو اپنا دوست بنائے گا وہ انہی میں سے ہے،اللہ ظالم قوم کو کبھی ہدایت نہیں دیتا‘‘
جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ بعض لوگوں کو شریعت محمدی کی پابندی سے نکلنے کی اجازت ہے جیسا کہ حضرت خضر کو شریعت موسی ٰسے خروج کی اجازت تھی،تو ایسا عقیدہ رکھنے والا شخص کافر ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ اْلِاسْلَامِ دِیْناً فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْآٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ))[آل عمران:۸۵]
’’جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے ،اس کا دین قبول نہ کیا جائے گااور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا‘‘
(۱۰)دین سے منہ موڑنا:
اللہ کے دین سے منہ موڑ لینا کہ نہ اس کو سیکھنا،اور نہ اس پر عمل کرنا(یہ بھی کفر ہے)اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِآیٰاتِ رَبِّہٖ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْھَا اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ)) [السجدۃ :۲۲]
مذکورہ نواقض اسلام(یعنی اسلام کی روح کو ختم کر دینے والے امور)کا مرتکب شخص بالاتفاق کافر ہے ،خواہ وہ سنجیدہ ہو کریہ کام کرے یا مذاق کرنے والا ہو یا خائف ہو۔البتہ مضطر اس سے مستثنیٰ ہے۔’’اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ذریعے سمجھایا گیا پھر بھی اس نے ان سے منہ موڑ لیا (یقین مانو) کہ ہم گناہ گاروںسے انتقام لینے والے ہیں۔‘‘