امریکہ میں اظہار رائے کی آزادی
کوئی انہیں یا ان کے ماں باپ یا حکومت کے سربراہ (جن کی حیثیت نبی کریمﷺ کے مقابلے میں مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں) کو گالیاں نکالے تو معلوم ہو کہ اظہارِ رائے کی آزادی کسے کہتے ہیں؟ لیکن یہ بیچارے بھی سچے ہیں جنہیں اپنے ماں باپ کا علم ہی نہ ہو انہیں کیا معلوم کہ غیرت کس چڑیا کا نام ہے؟؟؟
کچھ مبصرين نے امريکی حکومت کو ناحق تنقيد کا نشانہ بنايا ہے اور کہتے ہيں کہ امريکہ ميں مختلف مذاہب اور عقائد کے حوالے سے امريکی حکومت مبينہ دوہرے معيار کے پاليسی پر عمل پيرا ہے۔ جہاں تک اس عمومی تاثر کا تعلق ہے کہ امريکہ ميں يہوديوں سميت کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف کچھ کہنے کی اجازت نہيں ہے تو حقائق اس کے بالکل منافی ہيں۔
مسلمانوں کے بارے میں امریکہ کا دُہرا معیار سورج سے زیادہ واضح ہے، جس کیلئے الگ دلائل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
امريکی آئين کے مطابق امريکہ ميں رہنے والے ہر شہری کوکسی بھی سياسی يا مذہبی معاملے پر سوالات اٹھانے يا راۓ زنی کرنے کی قانونی اجازت ہے۔ ليکن ذکر کرنا نہايت ضروری ہے کہ يورپ کے کچھ ممالک ايسے ضرور ہيں جہاں مروجہ قوانين کے تحت ہالوکاسٹ يا دوسرے مذہبی معاملوں کے حوالے سے راۓ کا اظہار کرنے پر پابندی پر ہے۔ ليکن ميں واضح کر دوں کہ ان قوانين کا اطلاق امريکہ ميں بالکل نہيں ہوتا۔
آپ کی بات کی صحت سے قطع نظر
(سوالات اٹھانے، رائے زنی) اور (ننگی گالیوں اور کردار کشی) میں زمین وآسمان کا فرق ہے جو کسی تھوڑی سے عقل رکھنے والے سے بھی مخفی نہیں۔
توہینِ عدالت یا توہین حکمران پر کڑی سزا دینے والے کس اصول وضابطے اور عقل ومنطق کی بناء پر انبیاء کی توہین کو گوارا کرتے ہیں؟؟؟
يہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہيے کہ امريکی حکومت نہ تو مغربی ممالک ميں رائج قوانين کے لیے ذمہ دار ہے اور نہ اس ضمن میں امريکہ کو مورد الزام ٹھہرايا جا سکتا ہے۔ ايسے بہت سے مغربی اور غير مسلم ممالک ہيں جہاں پر قانونی فريم ورک، آئينی اصول اور آزادی راۓ کے حوالے سے قوانين امريکی معاشرے ميں متعين کردہ بنيادی جمہوری اصولوں سے متصادم ہيں۔
بنیادی جمہوری اصول آپ کو مبارک، ہمارے نزدیک اسلام کے الوہی اصولوں کے بالمقابل ان کی حیثیت پرکاہ کی بھی نہیں۔
ميں معزز ممبران کو ياددلانا چاہتاہوں کہ ايک فلم 1988ء ميں "مسیح کا آخری فتنہ" کے نام سے فلمايا کیا گیا تھا جس ميں حضرت عيسی عليہ السلام کی زندگی ميں شک، ڈپریشن،ہوس اور ہچکچاہٹ سمیت مختلف اقسام کے ساتھ ان کی خوف کے ساتھ ذاتی جدوجہد کو دکھايا گيا ہے۔ فلم کی حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں متنازعہ مواد کی وجہ سے دنیا بھر کے عیسائیوں نے اس پر زیادہ تنقید کيں۔ دنيا کےچند ممالک میں کئی سالوں تک اس فلم کو سنسر یا اس پر پابندی عائد کی گئی تھی ۔ جولائی 2010 تک، دنیا میں کئی ممالک میں اس فلم پر پابندی عائد ہے۔
تاہم اس بات پر غور کرنا نہايت ہی اہم ہے کہ اس فلم کی ريليز کے وقت اسےتمام امریکی تھیٹر میں دکھایا گیا تھا- اس وقت،يہ فلم رینٹل جگہوں پرکرایہ کيلۓ دستیاب ہے اورساتھ ہی امریکہ میں گاہےبگاہے کیبل ٹی وی پربھی دکھایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ امريکہ کے اندر ايسے کئ افراد اور تنظيميں موجود ہيں جو عوامی سطح پر ہالوکاسٹ کی حقيقت کے حوالے سے کھلم کھلا سوالات بھی اٹھاتے رہتے ہيں اور اس بات پر بھی بضد ہيں کہ اس قسم کا کوئ واقعہ سرے سے ہوا ہی نہيں تھا، جو امریکی میں رہنے والے یہودیوں کيلۓ بہت جارحانہ ہے-
یہی فرق تو مسلمانوں اور دیگر لوگوں کے درمیان ہے۔
ایک غلط چیز کا وجود دلیل نہیں بن سکتا
کہ چونکہ ہم بھی اپنی ماں بہن کو ننگی گالیاں نکالتے ہیں، لہٰذا ہمیں دوسروں کی ماں بہن کو ننگی گالیاں دینے کی اجازت ہے۔
غیرت مند لوگ ایسے لوگوں کی زبان گُدی سے کھینچ لیتے ہیں۔
اگر یہ لوگ جلیل القدر پیغمبر سیدنا عیسیٰ (جو در اصل ان کے نہیں بلکہ ہمارے پیغمبر ہیں، ہم ان سے زیادہ ان کے قریب ہیں) کے گستاخ ہیں تو ہم اپنے بچوں، ماں باپ بلکہ اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نبی کریمﷺ اور دیگر تمام انبیائے کرام کے ادنیٰ غلام ہیں۔ ہمارے نزدیک پیغمبروں کے گستاخوں کی سزا صرف اور صرف یہی ہے کہ دنیا کو ان کے منحوس اور لعنتی وجود سے پاک کر دیا جائے۔