امن و آمان کیسے قائم ہو گا :
امن و امان قائم کرنے کیلئے حکمران اور عوام تمام ایک دوسرے سے نیکی اور تقوی کے کاموں پر تعاون کریں، اور ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کو مکمل دیانتداری اور اچھے انداز سے نبھائے، اور سب اللہ کے احکامات کی تعمیل کرنے والے معاشرے کی تعمیر و ترقی کیلئے فرامینِ الہیہ اور احکامِ نبویہ پر عمل کریں، اور تمام اسلامی احکامات کو اپنی تمام تر روزمرہ سرگرمیوں کیلئے مشعلِ راہ بنائیں۔
تب ہی خوشیاں عام ہونگی، امن و امان پھیلے گا، اور آپس میں محبت، الفت اور پوری امت اسلامیہ کا فائدہ ہوگا، صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
(بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم انکے لئے دعائیں کرو، اور وہ تمہارے لئے دعائیں کریں، اور بدترین حکمران وہ ہیں جنہیں تم ناگوار سمجھو، اور وہ تمہیں ناگوار سمجھیں، تم انہیں لعن طعن کا نشانہ بناؤ اور وہ تمہیں لعن طعن کریں) صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم انہیں منصب سے معزول نہ کردیں؟ آپ نے فرمایا: (نہیں، جب تک وہ نماز قائم کرتے رہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کئی بات دہرائی، پھر آپ نے فرمایا: (خبر دار! جو شخص اپنے حکمران میں کوئی گناہ دیکھے تو اس گناہ کو برا جانے، اور خود اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند نہ کرے)
ایک مسلمان حکمران کا فرض بنتا ہے کہ وہ امت اسلامیہ کیلئے ایسے تمام اقدامات کرے جن سے امن و امان قائم ہو، اس کیلئے سب سے اہم اقدام یہ ہے کہ ہر قیمت پر معاشرے کے تمام افراد کیلئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے، اور جہاں کہیں بھی ظلم ہو اسے بغیر کسی تمیز کے جڑ سے اکھاڑ پھینکے، ایسے حکمران کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا:
(یا اللہ! جس شخص نے میری امت کے کسی معاملے کی باگ ڈرر سنبھالنے کے بعد ان پر سختی کی، یا اللہ! تو اس پر سختی فرما، اور جس نے نرمی کی اس پر نرمی فرما) مسلم
جسے اللہ تعالی نے کسی بھی رعایا کا حکمران بنایا اسے چاہئے کہ لوگوں کی شکایات سنے اور اسکا حل کرے، انکی زندگی کے تمام پہلؤوں کی دیکھ بھال رکھے، اور ان کے حالات کی خبرگیری کرتا رہے، ان باتوں پر عمل نہ کرنے والے حکمران کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
(اللہ تعالیٰ جس شخص کو مسلمانوں کے امور کا ذمہ دار بنائے اور پھر وہ ان کی ضرورت اور مشکل وقت میں کام میں نہ آئے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضرورت کو پورا نہ فرمائے گا اور نہ ہی مشکل وقت میں اس کی مدد کرے گا)
امت کو درپیش مسائل کے اسباب میں یہ بھی شامل ہے کہ رعایا کے متعلق حکمران طبقہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سنجیدہ نہیں ہے، جسکی وجہ سے بڑے بڑے مسائل پیدا ہوئے ہیں، ہم اللہ تعالی سے اپنے مسلمان بھائیوں کیلئے ہر جگہ پر سلامتی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم حکمرانوں کو متنبہ کردیا تھا، اور فرمایا:
(جس بندے کو اللہ نے رعایا پر ذمہ دار بنایا اور مرتے دم تک اپنی رعایا کے ساتھ خیانت کرتا رہا تو اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے)
اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے۔
پھر قیامِ امن کیلئے مضبوط ترین اقدام یہ ہے کہ رعایا بھی اپنے حکمرانوں کی اللہ کی اطاعت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اطاعت کریں، اور آپس میں اتحاد کیلئے کوشش کریں اور اختلافات سے بچیں، اسی بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ
اے ایمان والو! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان حاکموں کی بھی جو تم میں سے ہوں [النساء: 59]
صحیح مسلم میں ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے کہا:
"مجھے میرے خلیل نے وصیت کی تھی کہ میں سربراہ کی اطاعت کرونگا چاہے کسی ناک کان کٹے حبشی کو ہی سربراہ کیوں نہ بنا دیا جائے"
امن برقرار رکھنے کیلئے ہمیں اپنے سماجی تعلقات پر زور دینا ہوگا، اس کیلئے معنوی اور مادی تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے آپس میں محبت، رحمت، ایمانی بھائی چارہ پیدا کرنے والے تعلقات جوڑنے ہونگے، اللہ تعالی نے مسلم سماج کی تصویر ان لفظوں میں بیان کی ہے:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ
بے شک تمام مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں[الحجرات: 10]
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث میں فرماتے ہیں جسکی صحت پر سب علماء کا اتفاق ہے،
(مؤمنوں کی آپس میں محبت اور اتحاد اور شفقت کیلئے مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضاء میں سے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتو اس کے سارے جسم کو نیند نہیں آتی اور بخار کی وجہ سے اسکا سارا جسم بے چینی میں مبتلا ہوجاتا ہے)
سماجی تعلقات مضبوط کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پورے معاشرے کے افراد اختلاف کا باعث بننے والے تمام اسباب سے یکسر دور ہوجائیں، اس کیلئے اللہ تعالی نے فرمایا:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُو
اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ بازی میں مت پڑو۔ [آل عمران: 103]
اس لئے تمام امت اسلامیہ کے افراد پر ضروری ہے کہ اپنے بارے میں اللہ تعالی سے ڈریں، امت کے بارے میں اللہ کا خوف اپنے ذہنوں میں رکھیں، دین کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈریں، اور متحد ہوکر نیکی اور تقوی کے کاموں کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کریں، ایک ایسی جماعت بن جائیں جو قرآن کریم کو اپنے لئے دستور جانتی ہو، سنت نبوی کو اپنے مشعلِ راہ سمجھتی ہو، اور سلف صالحین کے منہج کوبطورِ نگران جانے، اس لئے کہ دنیا آخرت کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔
مندرجہ بالا اقدامات کے بغیر ہر کوشش ناکام ہوگی، اور پوری کی پوری قوم کو فتنے اور مسائل اپنی لپیٹ میں لے لیں گے، اسی کا بیان اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کیا ہے:
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ اور صبر سے کام لو۔ اللہ تعالیٰ یقینا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے [الأنفال: 46]