• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام میں غلامی کا تصور

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
اسلام میں غلامی کا تصور

بسم الله الرحمن الرحيم

غلام اور باندی کا طریقہ اسلام سے قبل قدیم زمانے سے چلا آرہا تھا اور ہر قوم میں یہ عادت پائی جاتی تھی، خواہ عیسائی ہوں یا یہودی، ہنود ہوں یا دیگر اقوام، اسی طرح عربوں میں بھی یہ دستور رائج تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل غلام یا باندی بنانے کے مختلف طریقے لوگوں میں رائج تھے۔

پہلا: جنگی قیدیوں کو غلام یا باندی بنا لیا کرتے تھے۔

دوسرا : لوگ فقر وفاقہ کے باعث یا قرض کے دباؤ میں آکر اپنے بچوں کو یا خود اپنے آپ کو کسی کے ہاتھ فروخت کر دیتے اور اپنے آپ کو غلام یا باندی بنا لیتے۔

تیسرا :کسی جرم کی پاداش یا قمار بازی میں ہارے جانے کی صورت میں لوگ ہارنے والے یا مجرم کو غلام بنالیے جاتے تھے۔

پانچواں : یوں بھی کسی کو اغوا کر لے آتے اور زبردستی غلام یا باندی بنالیتے وغیرہ۔

اسلام نے غلامی کی ان تمام صورتوں سے روک کر صرف ایک صورت کو باقی رکھا۔ یعنی صرف کافروں کے ان عورتوں کو جو جنگ میں گرفتار کیے جائیں، اور مسلمان حاکم کو اختیار ہے کہ اگر مقتضائے مصلحت و سیاست بہتر سمجھے تو کافروں کے ان قیدیوں کو غلام/باندی بنالے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے کبھی بھی غلام اور لونڈیوں کے ”خاتمہ“ کا اعلان نہیں کیا، اور قرآن و حدیث میں لونڈی اور غلام سے متعلق تمام احکامات آج بھی اسی طرح ”نافذ العمل“ ہیں، جیسے اسلام کے ابتدائی صدیوں میں نافذ تھے ۔

اسلام جس چیز سے روکتا اور منع کرتا ہے وہ ایک آزاد انسان کو پکڑ کر غلام بنانا اور اسے آگے فروخت کرنا ہے، یہ طرز عمل روز اول سے مسلمانوں کے لئے ”جائز“ نہیں رہا اور آج بھی نہیں ہے۔

جب مسلمانوں اور کافروں کے درمیان جنگ واقع ہوجائے اور مسلمانوں کے ہاتھوں کفار قیدی ہوجائیں تو کیا کیا جائے گا ؟

مختصر یہ کہ جب کفار قیدی ہوجائے تو مسلمان امیر/حاکم کے ساتھ قیدیوں کی بابت چار اختیارات ہیں

❍ یا تو قتل کر دیں
❍ یا فدیہ لے لیں
❍ یا احسان کریں
❍ یا اسے غلام بنالیں

اور یہ قول امام مالک، امام شافعی،امام احمد اور جمہور علماء رحمھم اللہ کا ہیں۔

(صاحب کتاب آثار الحرب نے فقھاء رحمھم اللہ کے اقوال تفصیل کے ساتھ نقل کئے ہیں )

جنگ میں اسیر کفار سے غلام اور باندی بنانا کتاب وسنت اور صحابہ کے عمل سے ثابت ہے ۔

اللہ عزوجل فرماتے ہیں : وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّـٰهِ عَلَيْكُمْ ( النسا ٕ 24 )

ترجمہ: ''اور خاوند والی عورتیں (بھی حرام ہیں) مگر جن (لونڈیوں) کے تم مالک بن جاؤ، یہ اللہ کا قانون تم پر لازم ہے''

وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ يَّنْكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ فَـتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ۚ وَاللّـٰهُ اَعْلَمُ بِاِيْمَانِكُمْ ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْ بَعْضٍ ۚ فَانْكِحُوْهُنَّ بِاِذْنِ اَهْلِهِنَّ وَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ بِالْمَعْـرُوْفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْـرَ مُسَافِحَاتٍ وَّلَا مُتَّخِذَاتِ اَخْدَانٍ ۚ فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْـهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ۚ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِىَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ ۚ وَاَنْ تَصْبِـرُوْا خَيْـرٌ لَّكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ (النسا ٕ25)

ترجمہ: اور جو کوئی تم میں سے اس بات کی طاقت نہ رکھے کہ خاندانی مسلمان عورتیں نکاح میں لائے تو تمہاری ان لونڈیوں میں سے کسی سے نکاح کر لے جو تمہارے قبضے میں ہوں اور ایماندار بھی ہوں، اور اللہ تمہارے ایمانوں کا حال خوب جانتا ہے، تم آپس میں ایک ہو، اس لیے ان کے مالکوں کی اجازت سے ان سے نکاح کر لو اور دستور کے موافق ان کے مہر دے دو لیکن یہ کہ وہ نکاح میں آنے والیاں ہوں آزاد شہوت رانیاں کرنے والیاں نہ ہوں اور نہ چھپی یاری کرنے والیاں، پس جب وہ قید نکاح میں آجائیں تو پھر اگر بے حیائی کا کام کریں تو ان پر آدھی سزا ہے جو خاندانی عورتوں پر مقرر کی گئی ہے، یہ سہولت اس کے لیے ہے جو کوئی تم میں سے تکلیف میں پڑنے سے ڈرے، اور اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّـذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّـٰى يُغْنِيَهُـمُ اللّـٰهُ مِنْ فَضْلِـهٖ ۗ وَالَّـذِيْنَ يَبْتَغُوْنَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُـمْ اِنْ عَلِمْتُـمْ فِـيْهِـمْ خَيْـرًا ۖ وَاٰتُوْهُـمْ مِّنْ مَّالِ اللّـٰهِ الَّـذِىٓ اٰتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَـآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا ۚ وَمَنْ يُّكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّـٰهَ مِنْ بَعْدِ اِكْـرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ (النور 33)

ترجمہ: اور چاہیے کہ پاک دامن رہیں وہ جو نکاح کی توفیق نہیں رکھتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے، اور تمہارے غلاموں میں سے جو لوگ مال دے کر آزادی کی تحریر چاہیں تو انہیں لکھ دو بشرطیکہ ان میں بہتری کے آثار پاؤ، اور انہیں اللہ کے مال میں سے دو جو اس نے تمہیں دیا ہے، اور تمہاری لونڈیاں جو پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدہ کی غرض سے زنا پر مجبور نہ کرو، اور جو انہیں مجبور کرے گا تو اللہ ان کے مجبور ہونے کے بعد بخشنے والا مہربان ہے۔

اِلَّا عَلٰٓى اَزْوَاجِهِـمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُـهُـمْ فَاِنَّـهُـمْ غَيْـرُ مَلُوْمِيْنَ (المٶمنون 6)

ترجمہ: اگر اپنی بیویوں یا لونڈیوں پر، اس لیے کہ ان میں کوئی الزام نہیں۔


اسکے علاوہ بھی کئی آیات قرآنیہ میں (ملکت أیمان) کا تذکرہ ہے ہم نے بطور نمونہ یہاں کچھ آیات پیش کٸے ہیں ۔

قرآن سے معلوم ہوا کہ: قیدی ہونے والے کافروں کو لونڈیاں اور غلام بنانا بالکل جائز ہے۔

اگر نہیں تو ان آیات قرآنیہ میں باندیوں کا جو تذکرہ ہے اس کے ساتھ کیا کیا جائے گا ؟ کیا بلا دلایل شرعی ہم انہیں اپنی طرف سے منسوخ ماں لیں؟ حالانکہ شریعت میں کہیں کوئی دلیل موجود نہیں کہ غلام و کنیز کے احکام منسوخ ہوگئے ہیں

اب ہم نبی ﷺ کے سنت سے ثابت کرتے ہیں کہ کافروں کے قیدیوں کو غلام اور لونڈیاں بنانا بالکل جائز ہے۔

۔۔۔بنوقریظہ نے جب نبی ﷺ سے درخواست کی کہ ہمارے بارے میں فیصلہ سعد بن معاذ رضی اللہ کریں گے تو سعد رضی اللہ عنہ جو جنگ خندق میں ایک تیر کھا کر شدید طور پر زخمی تھے مگر اسی حالت میں وہ ایک گدھے پر سوار ہو کر بنی قریظہ گئے اور انہوں نے یہودیوں کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا کہ: "لڑنے والے فوجوں کو قتل کر دیا جائے، عورتیں اور بچے قیدی بنا لئے جائیں اور یہودیوں کا مال و اسباب مال غنیمت بنا کر مجاہدوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ “

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زبان سے یہ فیصلہ سن کر ارشاد فرمایا کہ : یقینا بلا شبہ تم نے ان یہودیوں کے بارے میں وہی فیصلہ سنایا ہے جو اللہ کا فیصلہ ہے۔
[ صحیح البخاری , کتاب المغازی , باب : مرجع النبیﷺ من الأحزاب ومخرجہ إلی بنی قریظة ومحاصرتہ إیاھم , حدیث : 4122 _ 4123
وفی الجھاد حدیث 30430

صحیح مسلم , کتاب المغازی, باب : قضا ٕ سعد بن معاذ فی بنی قریضة , حدیث : 4618_ 4619_ 4620 _ 4621 وفی الجھاد حدیث 1768_ 1769 والحاکم 2/123 والبیھقی فی الکبری 18 وابن کثیر فی البدایہ والنھایہ 4/474 والطبری فی تاریخہ 2/855 وابن سعد فی الطبقات 3/426 والسھیلی فی الروض الأنف 3/ 468 وابن اسحق فی السیرة النبویة 2/414 ]

یاد رہے کہ ہم بطور نمونہ و مثال کہہ رہے ہیں ورنہ بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔

دیکھیے : رسول اللہ ﷺ نے بنو قریظہ کے قیدیوں کو غلام اور لونڈیاں بنالیے تھے پس اگر جائز نہ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا کیوں فرماتے ؟

❍ شیخ الاسلام ابن تیمیہ جمہور علماء کا قول کہ: (قیدیوں کے بارے میں چار اختیارات ہیں، قتل کرنا، فدیہ لینا، احسان کرنا یا غلام بنانا)

راجح قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : "جب قیدیوں کے بارے میں امام کو اختیار حاصل ہے کہ: قتل کرے، غلام بنائے ، احسان کرے یا فدیہ لے، اسے اختیار ہے کہ جو مسلمانوں کے لیے زیادہ بہتر ہو وہ اپنائے؛ اگر وہ اللہ تعالی کے حکم سے اپنے اجتہاد میں درست ہوا تو اس کےلیے دو اجر ہے اور اگر اس سے اجتہاد میں غلطی ہوئی تو اسے ایک اجر ملے گا (یہ اجر اپنی استطاعت کے مطابق اجتہاد کرنے کا) اور وہ بہتر مصلحت نہ جاننے پر گناہگار نہیں ہوگا"

(مجموع الفتاوی34/116 )

❍ امام ابن کثیر اپنی تفسیر میں اس آیت کے نیچے لکھتے ہیں کہ: ( فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا)

فرماتے ہیں کہ: امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: (الإمام مخير بين قتله أو المن عليه، أو مفاداته أو استرقاقه)
امام کو اس معاملے میں اختیار حاصل ہے، چاہے تو (قیدی کو) قتل کر دے یا اس پر احسان کرے یا اس سے فدیہ لے یا پھر اسے غلام بنا لے۔

(دیکھیئے تفسیر القرآن العظیم ; تفسیر ابن کثیر تحت ھذہ الایة ج 4 ص 174)

❍ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ المغنی ج 9 ص 179 میں فرماتے ہیں: جب امام انہیں قید کر لے تو اسے اختیار ہے اگر چاہے تو اسے قتل کرے، یا اس پر احسان کرتے ہوئے اسے بغیر کیس چیز کے عوض کے چھوڑ دے، یا پھر حاصل ہونے والے مال لے کر اسے آزاد کر دے، یا پھر اس سے فدیہ لے لے یا اسے غلام بنادے۔

❍ امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر "الجامع لأحکام القرآن " میں اس آیت کے تحت علماء کے کچھ اقوال لاتے ہوئے راجح قول نقل کرکے فرماتے ہیں: فإذا كان الأسر جاز القتل والاسترقاق والمفاداة والمن , على ما فيه الصلاح للمسلمين؛ وهذا القول يروى عن أهل المدينة والشافعي وأبي عبيد , وحكاه الطحاوي مذهبا عن أبي حنيفة , والمشهور عنه ما قدمناه , وبالله عز وجل التوفيق۔ [ تفسیر قرطبی تحت ھذہ الایة]

اس کے علاوہ بھی بہت زیادہ اقوال ہیں جو اس مسئلے پر دلالت کرتے ہیں ۔

لہذا معلوم ہوا کہ اسلام میں اس جیسے لوگوں کو قیدی بنانا جائز ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کرتے ہوئے پکڑے جائیں۔

اس پوری صورت حال میں ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اوپر مذکورہ لوگ مجرم ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی اور اگر وہ جیت جاتے تو اس بات کو پورا امکان تھا کہ مسلمان قیدیوں کو قتل کرتے یا خود انہیں غلام بناتے۔

مسلمانوں کی شوری ان تمام امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرسکتی ہے کہ مذکورہ چار صورتوں میں جو بھی چاہے صورت اختیار کریں۔ یعنی یا تو قتل کردیں یا فدیہ لے لیں یا احسان کردیں اور یا غلام بنادیں ۔

اب ان مذکورہ امکانات کو دیکھ کر کوئی ہمیں بتائے کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنانا کیوں غلط ہے؟

ویسے اس میں ایک انتہائی حیرت انگیز چیز یہ بھی ہے، کہ جن لوگوں کو غلامی پر اعتراض ہے ان لوگوں کو عمر قید پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ گویا کہ ان کو لگتا ہے کہ کسی کو چار بائی چار کے کمرے میں پوری زندگی باندھ کے رکھنا غلامی نہیں بلکہ آزادی ہی ہے۔
ہے نا حیرت کی بات؟ حالانکہ اسلامی معاشرہ ایک غلام کو باقاعدہ فیملی لائف گزارنے کا ماحول فراہم کرتا ہے۔

ایک ضروری بات :

اگر کفار کے قیدیوں کو غلام اور لونڈیاں بنانا جائز نہیں تو سوال یہ ہے کہ ! پھر مذاہب اربعہ احناف، شوافع، موالک اور حنابلہ کے فقہاء رحمھم اللہ نے اپنے کتب میں جو غلاموں اور لونڈیوں کے بےشمار مسائل اور احکام ذکر کئے ہیں، اسی طرح فقہاء رحمھم اللہ کے کتب میں غلاموں اور لونڈیوں کی بابت جو سینکڑوں مسائل ہیں اور وہ مسائل جو فقہاء رحمھم اللہ نے اجتہادات کر کے مسائل نکالے ہیں، اگر یہ جائز نہیں تو ان سارے مسائل اور احکام کے ساتھ کیا کیا جائے گا ؟

بلکہ فقہاء تو کیا احادیث میں غلاموں اور لونڈیوں کے جتنے احکام ہیں اس کے ساتھ کیا کریں گے؟

والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام۔
 
Last edited:
Top