زنا كى صورت ميں 'نسب' كس كے لئے؟
يہاں بڑا اہم سوال يہ پيدا ہوتاہے كہ نسب كى صحت كے لئے كيا صرف يہ كافى ہے كہ بچہ كسى مرد كے نطفے سے پيدا ہو يا مرد كا عورت كے ساتھ شرعى نكاح ہونا بهى ضرورى ہے؟ اس سلسلے ميں اسلام كا اُصولى موقف يہ ہے كہ بچے كو صرف اسى شخص كے ساتھ ملحق كيا جائے گا جو اس كا جائز والد ہو- اگر وہ بچہ زنا كے نتيجے ميں پيدا ہوا ہے تو ايسى صورت ميں اس كا نسب زانى سے نہيں جوڑا جائے گا اور شرعى طور پر بچہ زانى كا وارث نہيں ہوگا، نہ ہى زانى پر اس بچے كى كفالت فرض ہوگى- حتىٰ كہ اگر كسى بچے كے بارے ميں يہ امر حتمى بهى ہو كہ وہ اس زانى كے زنا كے نتيجے ميں پيدا ہوا ہے، مثلاً زانى نے زنا كا اعتراف بهى كرليا ہو تب بهى امر واقعہ كے باوجود اس زانى كو باپ نہيں بنايا جائے گاگويا يہ بهى زنا كى سزا كا ايك حصہ ہے- اس كى وجہ يہ ہے كہ شرعى طور پر باپ ہونے كے ناطے جو حقوق اسے حاصل ہوتے ہيں، وہ بهى اللہ كے ہى عطا كردہ ہيں- اللہ كى نافرمانى پر مبنى ايك فعل كے ذريعے اسے ديگر شرعى حقوق بهى حاصل نہيں ہوں گے- اس مسئلہ پر تمام فقہاے كرام كا بهى اتفاق پايا جاتا ہے، جيسا كہ اس كا تذكرہ آگے آرہا ہے- اس سلسلے ميں احاديث نبويہ حسب ِذيل ہيں:
1۔ نبى كريم ﷺ فرماتے ہيں :
وإن كان من أَمَة لم يملكها أو من حرة عاهر بها فإنه لا يلحق به ولا يرث وإن كان الذي يدعى له هو ادعاه فهو ولد زِنية من حرة كان أو أمة ... وهو ولد زنا لأهل أمّه من كانوا حرة أو أمة (14)
"اگر كوئى شخص اپنى غير مملوكہ لونڈى سے يا كسى آزاد عورت سے زنا كرے تو بچے كو نہ تو اس كى طرف منسوب كيا جائے گا،نہ ہى وہ اس كا وارث ہوگا- خواہ زانى يہ دعوىٰ بهى كرے كہ وہ اس كا بچہ ہے-وہ بچہ زنا كا نتيجہ ہے چاہے وہ لونڈى سے ہو يا آزاد عورت سے- (اگلى حديث ميں ہے كہ) ولد الزنا اس كى ماں كے خاندان كو دے ديا جائے گا، چاہے ماں آزاد ہو يا لونڈى- (لونڈى كا 'اہل' اس كے مالكان ہيں)-"
ديكهئے!
نبى كريمﷺ نے اپنے فرمان ميں اسے باپ قرار دينے سے احتراز كرتے ہوئے صرف دعوىٰ كرنے والا قرار ديا ہے، الفاظ كا ايسا محتاط استعمال شانِ رسالت كے ہى لائق ہے-
2۔ حضرت ابن عباس سے مروى ہے كہ نبى كريم ﷺ نے فرمايا:
من ادّعى ولدًا من غير رِشدة فلا يَرِث ولايورث (15)
" جو كوئى نكاح كے بغير كسى بچے كا دعوىٰ كرے تو نہ تو وہ بچہ اس زانى كا وارث بن سكتا ہے اور نہ وہ زانى اس بچے كا وارث قرار پائے گا-"
3۔ ايك آدمى نے نبى كريمﷺ كے سامنے كهڑے ہو كر اس بات كا دعوىٰ كيا كہ فلاں لڑكا ميرا بيٹا ہے كيونكہ اس كى ماں سے ميں نے جاہليت ميں زنا كيا تها- تو آپﷺ نے فرمايا :
لا دَعوة في الإسلام،ذهب أمر الجاهلية،الولد للفراش وللعاهر الحجر ( 16)
"اسلام ميں نسب دعووں سے ثابت نہيں ہوتا- جاہليت كا دور لد گيا، بچہ تو فراش (بستر كے جائز مالك) كا ہے- اور زانى كے لئے پتهروں كى سزا ہے-"
4۔ نبى كريمﷺ كا اُصولى فرمان متعدد كتب ِحديث ميں بيان ہوا ہے :
الولد للفراش وللعاهر الحَجَر ( 17)
"بچہ اس كا ہوگا جس كى بيوى ہے اور زانى كے لئے پتهر ہيں-"
الحَجَركا مطلب محرومى بهى آتا ہے يعنى زانى كيلئے محرومى ہے۔ (18)
يہاں ايك بنيادى اُصول بيان كيا گيا ہے كہ بچہ اس آدمى كا ہے جس كے فراش (بيوى يا باندى) كے ہاں پيد ا ہوا ہے- یعنى بچے كے درست نسب كے لئے ضرورى يہ ہے كہ وہ آدمى كى بيوى يا اس كى اپنى باندى كے ہاں پيدا ہو، اگر وہ عورت زانى كے لئے جائز نہيں توگويا وہ اس كى فراش بهى نہيں- 'فراش' عربى زبان ميں بستر كوكہتے ہيں-فقہى انسا ئيكلوپيڈيا ميں ہے:
فاقتضٰى ألا يكون الولد لمن لا فراش له كما لا يكون الحجر لمن لازنا له إذ القسمة تنفي الشركة (19)
"تقاضا يہ ہے كہ جس كا بستر نہيں، اس كا بچہ بهى نہ ہو، جيسا كہ اس كو پتهر كى سزا بهى نہ ہو جس نے زنا نہيں كيا- زانى اور والد ميں يہ تقسيم كردينا ان كا بچے ميں شركت كى نفى كرتا ہے-"
جب كسى عورت سے اس كے شوہر (يا مالك) كے سوا كوئى اور مرد زنا كرے اوربچے كے متعلق ان ميں اختلاف پيدا ہو جائے، ہر كوئى دعوىٰ كرے كہ يہ بچہ اس كا ہے تو تب يہ بچہ شوہر (يا باندى كے مالك)كى طرف ہى منسوب ہوگا- گويا فراش سے مراد صاحب ِفراش ہے، جيساكہ ايك حديث ميں يہ الفاظ بهى آئے ہيں:
الولد لصاحب الفراش (20)
يہ اُصول نبى كريم ﷺ نے ايك لمبے واقعہ كے ضمن ميں بيان فرمايا ہے جس سے اس كى مراد مزيد واضح ہوجاتى ہے- حضرت عائشہ صدیقہ سے مروى ہے كہ عتبہ بن ابى وقاص (كافر) نے اپنے بهائى سعد بن ابى وقاص كو وصیت كى تهى كہ 'زمعہ'كى باندى كا بچہ ميرے نطفہ سے ہے، اس لئے تم اسے اپنے قبضہ ميں كرلينا- حضرت عائشہ فرماتى ہيں كہ جس سال مكہ فتح ہوا، سعد بن ابى وقاص نے اس بچے كو اُٹهاليا اور كہا كہ يہ ميرے بهائى (عتبہ) كا بچہ ہے اور انہوں نے اس كے متعلق مجهے وصيت كى تهى- جبكہ عبدبن زمعہ كهڑا ہوا اور كہنے لگا كہ يہ ميرے باپ كى لونڈى كا لڑكا ہے اور ميرے باپ كے بستر پر پيدا ہوا ہے-گويا يہ اختلاف دو آدميوں (زمعہ اور عتبہ)كے عمل كا نتيجہ ہے جنہوں نے جاہليت ميں ايك لونڈى سے ہم بسترى كى تهى اور زانى بچے كو اپنى طرف منسوب كرنا چاہتا تها- بالآخر دونوں كے نمائندے مقدمہ لے كرنبى كريم كے پاس چلے آئے-
حضرت سعد نے عرض كيا :اے اللہ كے رسول ﷺ! "يہ ميرے بهائى كابيٹاہے اوراس نے مجهے اس كے بارے ميں وصيت كى تهى-" پهرعبد بن زمعہ نے كہا كہ "يہ لڑكا ميرا بهائى ہے اور ميرے باپ كى باندى كا لڑكا ہے اور ميرے باپ ہى كے بستر پر پيدا ہوا ہے-" اللہ كے رسول نے دونوں طرف سے بيان سننے كے بعد فرمايا: كہ "اے عبد بن زمعہ! يہ لڑكا تمہارے پاس رہے گا، پهر آپ نے فرمايا كہ
(الولد للفراش وللعاهر الحجر) "بچہ اس كا ہوگاجس كے بستر پر پيدا ہوا اور زانى كے لئے پتهروں كى سزا (رجم) ہے- "
پهر آپ نے حضرت سودہ (جو حضور كى بيوى، عبد كى بہن اور اب اس لڑكے كى بهى بہن بنتى تهيں) سے فرمايا كہ اس لڑكے (یعنى قانونى بهائى) سے پردہ كرنا كيونكہ آنحضرت اس لڑكے ميں (زمعہ كى بجائے) عتبہ كى مشابہت محسوس كرتے تهے- (چنانچہ حضرت سودہ كے پردہ كرنے كى وجہ سے) اس لڑكے نے اُنہيں مرتے دم تك نہيں ديكها-"(21)
اس واقعہ ميں سعد بن ابى وقاص كے دعوىٰ كو آپ نے اس بنياد پر غلط قرار ديا كہ وہ لونڈى اس كے بهائى كا 'فراش' نہيں تهى- اور اس بچے كو زمعہ كے خاندان كے حوالے كرديا كيونكہ اس لونڈى كا مالك وہ تها- البتہ ساتھ ہى اس بچے كى قانونى بہن اُمّ المومنين كو اس سے پردہ كا حكم اس لئے ديا كيونكہ اس بچے ميں عتبہ بن ابى وقاص كى مشابہت پائى جارہى تهى- گويا مشابہت پائے جانے كے باوجود قانونى اور شرعى پہلو كو ہى يہاں ترجيح دى گئى ہے۔
5۔ رباح ذكر كرتے ہيں كہ ميرى ايك لونڈى تهى، اس سے ميرے دو بيٹے عبد الله اور عبيدالله پيدا ہوئے جو بالكل ميرے جيسے سياہ رنگت والے تهے- اسى دوران ميرى لونڈى كو يوحنا نامى ايك رومى غلام ورغلانے ميں كامياب ہوگيا، بعد ميں اس كے ہاں سفيد رنگت كا بچہ پيدا ہوا، ميں نے جب اپنى باندى سے باز پرس كى تو اس نے اعتراف كرليا كہ يہ اسى رومى غلام سے زنا كے نتيجے ميں پيدا ہوا ہے- يہ معاملہ حضرت على كى عدالت ميں لے جايا گيا تو آپ نے كہاكہ ميں تمہارے درميان نبى ﷺ والا فيصلہ كروں گا- (الولد للفراش وللعاهر الحجر) بچہ اسى كا ہوگاجس كے بستر پر پيدا ہوا اور زانى كے لئے پتهروں كى سزا (رجم) ہے-"ا ور اس غلام اور باندى كو آپ نے كوڑوں كى سزا لگوائى-(22)
چونكہ رباح اس بچے سے انكارى تها، اس ليے يہ بچہ اس كى طرف تومنسوب نہ ہو گا بلكہ وہ اپنى ماں كے زير كفالت رہے گا اور يہ جملہ فرما كر حضرت على نے اس كے مفہوم مخالف كى طرف اشارہ كيا ہے كہ جس كا فراش نہيں، اس كا بچہ بهى نہيں-
6۔ اسلامى تاريخ ميں زياد بن أبيہ (م53 ھ )كا بهى ايك مشہور واقعہ ملتاہے- حضرت معاويہ نے اُنہيں اپنا بهائى قرار ديا تها- اس واقعہ كى تفصيلات يہ ہيں كہ
يقال: إن أبا سفيان أتى الطائف فسَكِر فطلب بغيًّا فواقع سميةَ وكانت مزوَّجةً بعُبَيد فولدتْ من جِماعه زيادًا فلما رآه معاوية من أفراد الدهر استعطفه وادّعاه وقال نزل من ظهر أبي ولما مات علي كان زياد نائبا له على إقليم فارس قال ابن سيرين : قال زياد لأبي بكرة : ألم تر أمير الموٴمنين يريدني على كذا وكذا وقد وُلِدتُ على فراش عُبيد وأشبهتُه وقد علمتُ أن رسول الله ﷺ قال: من ادعى إلى غير أبيه فليتبوأ مقعده من النار ۔(23)
"ابو سفيان اسلام لانے سے قبل طائف آئے ، شراب پى اور فاحشہ عورت كا تقاضا كيا اور سميہ نامى عورت سے زنا كيا جو عبيد كى بيوى تهى- اس زنا كے نتيجے ميں زياد تولد ہوا- جب حضرت معاويہ نے زياد كو ديكها كہ وہ بڑا اثر ورسوخ والاشخص ہے تو اس كو قريب كرنے كى كوشش كى او راس كے بارے ميں دعوى كيا كہ يہ تو ميرے باپ كى پشت سے پيدا ہوا ہے (گويا ميرا بهائى ہے)- جب حضرت على كى وفات ہوئى تو زياد فارس كے صوبہ پران كا نائب تها- ابن سيرين كہتے ہيں كہ زياد نے ابو بكرہ سے ذكر كيا كہ تم ديكهتے نہيں كہ اميرالمومنين (معاويہ ) مجھ سے يہ يہ توقعات ركهتے ہيں حالانكہ ميں عبيد كے بستر پر پيدا ہوا ہوں، اُسى سے ميرى مشابہت ہے (يہ زياد كا اپنا خيال ہے) اوريہ بات بهى ميرے علم ميں ہے كہ نبى كريم ﷺ نے فرمايا ہے كہ جو اپنے باپ كے علاوہ اپنے آپ كو منسوب كرے تو وہ اپنا ٹهكانہ جہنم ميں سمجھ لے-"
چونكہ زياد ابو سفيان كا ناجائز بيٹا تهاكيونكہ سميہ ابو سفيان كى باندى نہيں تهى- ايسى صورت ميں زيادكى نسبت ابو سفيان سے نہيں ہونى چاہئے اور نہ ہى عبيد سے كيونكہ عبيد اس ہم بسترى سے ويسے ہى برى ہے، يہ اس كى بيوى كى جاہليت ميں غلط كارى تهى- يہى وجہ ہے كہ كتب ِتاريخ ميں زياد كانام زياد بن أبيہ (اپنے باپ كا بيٹا ) آيا ہے يا زياد بن سميةيعنى وہ اپنى ماں سے منسوب ہوا- اس سے پتہ چلا كہ زيادكو زياد بن ابى سفيان كہنا درست نہيں اور حضرت معاويہ نے صرف سياسى مصلحت كے پيش نظر ايسا كرنے كى خواہش كى تهى-
ياد رہے كہ صحيح بخارى اورموطأ ميں روايت ہونے والى ايك حديث كى سند ميں اس كو زياد بن ابوسفيان كے نام سے ذكر كيا گيا ہے ليكن بخارى كے شارح حافظ ابن حجر اور مسلم كے شارح امام نووى نے اس كى وجہ بهى حضرت معاويہ كے فيصلہ كو قرار ديا ہے اور چونكہ حاكم كا فيصلہ بظاہر جارى ہوجاتا ہے، ليكن اس سے حقيقت تو نہيں بدل جاتى- مزيد تفصيل كے لئے دیكھیں : فتح البارى: 3/545 اورشرح نووى:2/52 وغيرہ
ايك شبہ اور اس كى وضاحت :
عتبہ اور زمعہ كے بچے كے بارے ميں نبى كريم ﷺ كا فرمان يہ ہے كہ يہ بچہ زمعہ كو دے ديا جائے، كيونكہ اس كے بستر پر پيد اہوا گويا كہ اس كا نسب زمعہ سے جوڑا گيا ہے جبكہ زياد كے واقعے ميں زياد كا نسب بستر كے جائز مالك عبيد سے جوڑنے كى بجائے اسے زياد بن ابيہ كہا جاتا رہا- ايسا فرق كيوں ہے ؟
اس سے پتہ چلتا ہے كہ نسب ميں دعوىٰ كا بهى عمل دخل ہے- زمعہ كے كيس ميں دونوں فريق بچے كے نسب اور حقوق لينے كے دعويدار تهے، جبكہ زياد كے نسب ميں عبيد اس كے نسب كا سرے سے داعى نہ تها- دوسرى طرف ابوسفيان كے ورثا وغيرہ داعى تو تهے ليكن وہ ان سے ناجائز بستر كى بنا پر منسوب نہ ہوسكتا تها- اس سے يہ پتہ چلتا ہے كہ (الولد للفراش وللعاهر الحجر) والا اصول اس صورت ميں ہے جب بچے كے دعويدار ايك سے زيادہ ہوں-اگر شوہر اس بچے كا داعى ہى نہيں ہے تواس كى طرف منسوب نہيں كيا جائے گا-چنانچہ كسى بچے كو باپ سے منسوب كرنے كے لئے يہ بهى ضرورى ہے كہ وہ اس كا اقرار كرتا ہو۔
البتہ نسب كو رفع كرنے كا اسلام ميں ايك ہى طريقہ ہے اور وہ ہے 'لعان'- اگر كوئى باپ بچے كا اقرارى نہ ہو تو اس بچے كى اپنے سے نسبت كوختم كرنے كے لئے وہ لعان كا راستہ اختيار كرسكتا ہے ليكن لعان كى صورت ميں اس كى بيوى كا بعد ميں بيوى رہنا ممكن نہيں رہتا۔
كيونكہ اگر ايك شوہر اپنى بيوى پر بدكردارى كا الزام عائد كرے تو ايسى صورت ميں يا وہ تہمت كى سزا پائے گا يا اسے زنا كے چار گواہ پيش كرنا ہوں گے اور اگر وہ گواہى ثابت كرديتا ہے تو اس كى بيوى شادى شدہ عورت ہونے كى و جہ سے رجم ہوكر موت سے ہم كنار ہوجائے گى- يا لعان كى صورت ميں چار قسميں كہا كر اس عورت سے جدائى كركے وہ اس بچہ سے اپنے نسب كو رفع كرلے گا اور اس ولد الزنا كا نسب اپنى ماں كى طرف ملحق ہوجائے گا، جيسا كہ آگے آرہا ہے- گويا اپنى بيوى پر زنا كا الزام لگانے كے بعد وہ عورت آخر كار اس شوہر كى بيوى نہيں رہ سكتى، الا يہ كہ اس عورت پر زنا ميں جبر كيا گيا ہو۔