• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام میں نسب ونسل کا تحفظ (اثباتِ نسب میں قیافہ وقرائن اور DNA ٹیسٹ وغیرہ کی حیثیت)

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
علم القيافة فقہا كى نظر ميں

قيافہ كے علم كے دو پہلو ہيں: ايك تو كهوجى جو قدموں كے نشانات سے كسى وقوعہ كا كهوج لگاتا ہے، اسے قيافة الأثر كہتے ہيں- دوسرا قيافة البشرجس كا مقصد مشابہتوں كى بنا پر آپس ميں نسبى تعلقات كو جوڑنا ہوتا ہے-

جمہور فقہا( مالكى، شافعى اور حنابلہ ) كے نزديك اختلاف كے وقت قيافہ كے ذريعے نسب كا تعین كيا جاسكتا ہے-ان كى دلیل حديث ِقيافہ(اسامہ اور زيدكى مشابہت) اور حضرت اُمّ سليم سے نبى كريم كا مكالمہ ہے- شافعيہ اور حنابلہ كے خيال ميں قيافہ شناس كے ذريعے باندى اور آزاد عورت دونوں كے بچوں كا فيصلہ كيا جاسكتا ہے جبكہ مالكيہ كے نزديك اس سے صرف باندى كے متعلق فيصلہ كيا جانا چاہئے البتہ اگر كبهى بچہ بوقت ولادت گم جائے يااشتباہ واقع ہوجائے تو ايسى صورت ميں قيافہ شناس سے آزاد عورت كے بچے كے فيصلے كاكام ليا جاسكتا ہے۔

احناف كا نقطہ نظر يہ ہے كہ قيافہ بهى كہانت كى طرح مكروہ علم ہے، او رشريعت نے نسب كو ثابت كرنے كا صرف ايك ہى ذريعہ قائم كيا ہے اور وہ ہے جائز بستر، اور جس آدمى كواپنے بچے كے بارے ميں شبہ ہوتو اسے حديث لعان كى رو سے لعان كا حكم ہے نہ كہ قيافہ شناس سے فيصلہ كرانے كا-علاوہ ازيں مجرد شباہت ايك ناقابل اعتبار امر ہے، كبهى بچہ اپنے كسى دور كے رشتہ دار سے بهى مشابہ ہوسكتا ہے، جيساكہ ايك آدمى كے ہاں سياہ رنگ كا بچہ پيدا ہونے كا واقعہ كتب ِاحاديث ميں آيا ہے-حنفيہ كے موقف كا خلاصہ يہ ہے كہ
ومفاد هذا كله أن النسب يثبت للرجل عند الحنفية بثبوت سببه وهو النكاح أو ملك اليمين ولا يرجع عمل القائف إلى شىء من ذلك وإنما يرجع إلى معرفة التخلق من الماء وهو لا يثبت به النسب حتى لو تيقنا من هذا التخلق ولا فراش فإن النسب لا يثبت۔ (48)
"تمام تر بحث كا خلاصہ يہ ہے كہ حنفيہ كے نزديك آدمى كا نسب صرف اس كا سبب ثابت ہونے پر موقوف ہے اور وہ سبب نكاح ہے يا ملك ِيمين- جبكہ قيافہ كا كوئى انحصار ان چيزوں پر نہيں ہے بلكہ اس كا انحصار تو نطفہ كے ذريعے مشابہت كو تلاش كرنا ہے ليكن اس سے نسب ثابت نہيں ہوتا،حتىٰ كہ اگرہميں خلقت ميں مشابہت كا يقين بهى حاصل ہوجائے اوراس كا محل جائز بستر نہ ہو تو نسب كسى طرح ثابت نہيں ہوگا-"
زير نظر مضمون ميں جو موقف ہم نے پيش كيا ہے وہ ان دونوں نقطہ ہائے نظر كے متفقہ نكات پر مبنى ہے- حنفيہ كے اس نكتہ پر ہميں پورا اتفاق ہے كہ نسب نكاح يا ملك يمين كے بغير ثابت ہونا ممكن نہيں، البتہ جب ايك مقام پر غلطى ياكوتاہى سے دو افراد ايك جائز عورت ميں شريك ہوجائيں، گويا نسب كى اصل بنياد قائم ہوجائے تب قيافہ يا قرائن مثلاً ڈى اين اے وغيرہ سے فيصلہ كيا جاسكتا ہے- والله اعلم
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پاكستان ميں ايسے دو واقعات

1۔ گذشتہ دنوں ہمارے ہاں ايسے دوكيس عدالتوں ميں پيش آئے ہيں جن ميں نسب كا مسئلہ زير بحث آيا- ان دونوں كيسوں ميں ڈى اين اے كے ذريعے نسب كو ثابت كرنے كے مسئلہ پر بهى بحث كى گئى-

پہلے واقعہ كا خلاصہ يوں ہے كہ نشتر ٹاؤن لاہور كے رہائشى طارق مسيح كے مطابق روحيل 2001ء ميں پيدا ہوا اور دو سال تك اس كے گهر ميں اس كى بيوى كے پاس رہا - 2003ء ميں يہ بچہ اغوا ہوگيا- 2005ء ميں جب يہ بچہ محمد على نامى ايك شخص اور اس كى بيوى كے پاس سے برآمد ہوا تو طارق مسيح نے اس كى واپسى كى درخواست تهانے ميں جمع كرادى اور يہ دعوىٰ كيا كہ يہ بچہ ميرا ہے، جيسا كہ اس كى پيدائش پرچى وغيرہ سے ثابت ہوتا ہے، لہٰذا اسے ميرے حوالے كيا جائے- اس موقعہ پر شہزاد مسيح نامى ايك كنوارے لڑكے نے يہ دعوىٰ كيا كہ روحيل تو ميرا بيٹا ہے اور ثمينہ ابراہيم گجر نامى ايك لڑكى سے ناجائز تعلقات كے نتيجے ميں يہ بچہ پيدا ہوا تها- تهانے ميں اس نے ثمينہ سے اپنى شادى كا تذكرہ كيا، البتہ جب يہ معاملہ عدالت ميں چلا گيا تو وہاں عدالت كے رو برو اس نے صرف تعلقات اور شادى كے وعدہ كا ذكر كيا- وہاں شہزاد عرف پپو نے يہ دعوىٰ بهى كيا كہ اپنے اس بچے كو ميں نے محمد على كے پاس اچهى تربيت كے لئے ركهوايا ہوا ہے-اب اس بچے كے باپ ہونے كے دو عيسائى شخص دعويدار ہيں:
1۔ كنوارا شہزاد جو ثمينہ ابراہيم كے ساتھ تعلقات كے نتيجے ميں اسے اپنا بيٹا قرار ديتا ہے۔
2۔ طارق مسيح جو اسے اپنا اور اپنى بيوى كا بچہ قرار ديتا ہے-
عدالت نے اس سلسلہ ميں ثمينہ كا بيان لئے اور واقعہ كى تفصيلات ميں جائے بغير دونوں سے كہا كہ اگر ڈى اين اے ٹيسٹ كرا ليا جائے تو كيا اس كا نتيجہ آپ دونوں مانيں گے؟ دونوں نے اس كا اقرار كرليا- ڈى اين اے ٹيسٹ ميں يہ بچہ شہزاد سے مشابہ نكل آيا، سو عدالت نے 27/اپريل 2005ء كو ايك فيصلہ كے ذريعے اس كے حوالہ كرديا-

اس عدالتى فيصلہ كے بارے ميں روزنامہ پاكستان ميں 10/مئى 2005ء كو ايك مذاكرہ ہوا، جس ميں علما كرام كے علاوہ ماہر ڈاكٹرز كو بهى دعوت دى گئى-

مذاكرہ ميں مدعو مہمان ڈاكٹر امينہ نے ڈى اين اے ٹيسٹ كى حيثيت كے بارے ميں گفتگو كرتے ہوئے كہا كہ "يہ ٹيسٹ اگر صحيح ہوجائے تو اس كے نتائج سو فيصد ہوتے ہيں اورہرآدمى كا ڈى اين اے دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اورممكن ہے كہ ايك كهرب افراد كے بعد كسى ايك كا دوسرے سے ڈى اين اے ملے- اس لئے اس پر اعتماد كيا جاسكتا ہے ، البتہ پاكستان ميں ڈى اين اے ٹيسٹ ہونے كے معيار ى انتظامات موجود نہيں-"

زير بحث مسئلہ كے بارے ميں وہاں مختلف اہل علم نے بهى اپنے اپنے خيالات كا اظہار كياجو روزنامہ پاكستان ميں شائع بهى ہوچكے ہيں-
اس فيصلہ پر ہمارا تبصرہ نكات كى صورت ميں حسب ِذيل ہے :

1۔ ہائيكورٹ نے انسانى قوانين كے پيش نظر اس مسئلہ كو زنا كى حيثيت سے عليحدہ كركے غور كيا ہے، جبكہ نسب كا مسئلہ كوئى مجرد سوال نہيں بلكہ يہ نسب ايك فعل كے نتيجے ميں پيدا ہوتا ہے- اگر وہ فعل درست ہے تو اس كى بنا پرنسب كو ثابت كيا جانا چاہئے ، اور اگر وہ فعل درست نہيں تو اس نسب كا اعتبار نہيں ہونا چاہئے- عدالت كا نسب كو مجرد طورپر زير بحث لانا درست نہيں- عدالت كا يہ رويہ جديد سائنس سے مرعوبيت اور اسلامى شريعت سے لاعلمى كا نتيجہ ہے-

2۔ شہزاد كا دعوىٰ ہے كہ وہ ابهى تك كنوارا ہے، اگر وہ كنوارا ہے اوريہ بچہ ثمينہ سے غلط تعلقات كے نتيجے ميں پيدا ہوا ہے، تو يہ زنا ہے اور زنا سے نسب ثابت نہيں ہوتا-

3۔ اگر شہزاد كا ثمينہ سے شادى كا دعوىٰ بهى مان ليا جائے تو اسلام كى رو سے عيسائى مرد سے مسلمان عورت كى شادى نہيں ہوسكتى، تب بهى يہ نكاح باطل ہے جس كى وجہ سے شہزاد كو يہ بچہ نہيں مل سكتا- عدالت كو شہزاد كے اعترافِ زنا كے جرم ميں سزا دينا چاہئے، اگر اسلام كى رو سے نہيں تو كم از كم عيسائيت كى روسے حرام ہے يا پاكستانى قانون ميں زنا ايك قابل سزا جرم !

4۔ بالفرض يہ بچہ شہزاد اور ثمينہ كے تعلقات كے نتيجے ميں تسليم بهى كرليا جائے تو اس بچے كو ثمينہ كو دينا چاہئے تها، جبكہ عدالت نے ثمينہ كے بارے ميں معمولى تحقيق يا اس كا بيان لينے كى زحمت بهى گوارا نہيں كى۔

5۔ عدالت كا بچے كو شہزاد كے حوالے كردينا گويا زنا كا انعام دينے كے زمرے ميں آتا ہے اور اس سے اسلامى معاشرت شديد خطرے ميں پڑ جاتى ہے كہ ايك آدمى غلط كام كا بهى ارتكاب كرے او رساتھ اس زنا كے نتيجے ميں ہونے والے بچے كا وارث بهى بن بیٹھے-

2۔ ايسا ہى ايك واقعہ انہى دنوں عدالت ِعاليہ ميں امريكہ ميں مقیم شخص كا پيش آيا- يہ شخص گاہے بگاہے پاكستان آتا رہتا- اس دوران اس كے ہاں ايك بچى پيدا ہوئى- چند سالوں بعد اس كو اس بچى پر شك گزرا تو وہ اسے امريكہ لے گيا اور وہاں اپنا اور اپنى بچى كا DNA ٹيسٹ كروايا، دونوں كى رپورٹ ميں فرق نكلا- چنانچہ پاكستان آكر اس نے اپنى بيوى اور ايك غير شخص پر زنا كا پرچہ كٹوا ديا- يہ پاكستان كى عدالتى تاريخ كا پہلا واقعہ ہے- دوسرى طرف جس شخص پر الزام لگايا گيا، وہ بهى عدالت ميں اپنے آپ كو اس الزام سے برى قرا رديتا ہے- اس كيس ميں عدالت نے جناب محمد اسمٰعيل قريشى ايڈوكيٹ كو بهى معاونت كے لئے طلب كيا-

گذشتہ دِنوں عدالت نے بهى يہ فيصلہ سنا ديا كہ DNA سے زنا كى حد نہيں لگائى جاسكتى- اس پر جنرل مشرف نے يہ بيان دياكہ ہميں قدامت پسند علما كى تشريحات سے شریعت كو آزاد كرانا ہوگا، DNA زنا كى سزا كے لئے معتبر ہے- جناب صدر كے اس بيان كے ساتھ يہ بهى حقيقت ہے كہ اگر DNA كى بنا پر ملزمان كو زنا كى حد لگائى جاتى تب بهى صدر كو اعتراض ہوتا، صدر كے اس بيان كا مقصد علما كے بہانے سے اسلام كو قديم قرار دينا اور محض مغرب نواز حلقوں كو خوش كرنا ہے- تفصيلات كے لئے اخبارات ملاحظہ فرمائيں-
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ڈى اين اے كى حيثيت ؛ اثباتِ جرم ميں

يوں تو ہمارا موضوع اثباتِ نسب ميں قرائن كى حيثيت تك محدود تها، ليكن اس كے ايك اور پہلو پر مختصر بحث بهى تتمہ كے طور پر ملاحظہ فرمائيے- جہاں تك اثباتِ نسب كا تعلق ہے تو وہ صرف نكاح سے ثابت ہوتا ہے اورنكاح كے بعد بعض شبہات كى موجودگى ميں قرائن يا ڈى اين اے كے ذريعے صرف 'نسب كى ترجيح' كا فيصلہ كيا جاسكتا ہے-

دوسرى طرف رفع نسب كا اسلامى شریعت ميں ايك ہى طریقہ ہے اور وہ ہے 'لعان' - گويا منكوحہ كے بارے ميں شوہر كو ديگر لوگوں سے ايك خصوصيت حاصل ہے كہ وہ قسموں كى بنياد پراپنى بيوى كے بچے سے اپنے نسب كو رفع كرسكتا ہے، لعان صرف مياں بيوى كے مابين ہے- دوسرے كيس ميں امريكہ ميں مقيم شخص كوبيٹى سے اپنا تعلق منقطع كرنے كيلئے لعان ہى كرنا ہوگا-

قرائن كى ايك تيسرى حيثيت بهى ہے اور وہ ہے اثباتِ جرم كى-اثبات جرم كے بهى دو پہلو ہيں: آيا وہ جرم حدود ميں سے ہے ... يا اس كا تعلق ديگر جرائم سے ہے-

اگر اس كا تعلق حدود سے ہے تو حدود كى تفصيلات اللہ تعالىٰ نے انسانوں كے بجائے اپنے ذمے لى ہيں، كوئى حاكم نہ تو حد كى سزا ميں كمى بيشى كرسكتا ہے اور نہ ہى حد كو لازمى كرنے والے جرم كى تفصيلات ميں اپنى طرف سے ترميم كرسكتا ہے- حدزنا ميں يوں بهى مقصد صرف جرم كا ثبوت نہيں بلكہ شارع كے پيش نظر مزيد حكمتیں بهى ہيں، يہى وجہ ہے كہ وقوعہ كا ثبوت تو دو گواہوں سے بهى ہوجاتا ہے ليكن اس بنا پر اس پر حد ِزنا جارى نہيں كى جاتى-
ڈى اين اے وغيرہ قرائن كى حدود ميں غير موٴثرہونے كى بڑى و جہ نبى ﷺ كا يہ فرمان بهى ہے كہ

إدرء وا الحدود ما وجدتم لها مدفعا۔ (49)
"جہاں حدود ترك كرنے كى كوئى گنجائش ہو، وہاں حدود كو دو ركرو-"
يہى وجہ ہے كہ جمہور فقہا (احناف، شافعيہ اور حنابلہ)كا موقف يہى ہے كہ حدزنا ميں قرائن كااعتبار نہ كيا جائے بلكہ اس كے عائد ہونے كا جو نصاب نصوص ميں آيا ہے (يعنى چار گواہ يااعتراف) اسى پر اكتفا كيا جائے- البتہ فقہا مالكيہ نے حضرت عمر  كے اس واقعہ كى بنا پر قرائن كو اثباتِ زنا ميں بهى معتبرخيال كيا ہے، جس ميں اُنہوں نے ايك كنوارى كے حمل كو زنا كے ثبوت كے لئے معتبر قرار ديا-(بخارى:6829) اسلام ميں زنا كا مسئلہ بطورِ خاص اہميت كا حامل ہے- اس كى سنگينى اس قدر ہے كہ زنا كى جهوٹى تہمت لگانے والے كوبہتان كى سزا كا سامناكرنا پڑتا ہے-

جہاں تك حدود كے علاوہ ديگر جرائم كے لئے قرائن كے معتبر ہونے كا تعلق ہے تواس ميں بهى فقہا قرينہ قطعيہ اور قرينہ ظنيہ كا فرق كرتے ہيں- روزنامہ پاكستان ميں اس مسئلے پر گزشتہ دِنوں علما كا فورم ہوا جس كى رپورٹ ہفت روزہ 'اہلحديث'(شمارہ 36/7/ 4 مارچ2005ء) ميں شائع ہوئى- اس فورم ميں اكثر علما نے ڈى اين اے ٹيسٹ كو ظنى قرينہ قرار ديا ہے، راقم كى نظر ميں اگر اسے قطعى حيثيت بهى دى جائے تو حد ِزنا ميں اس كو معتبر نہيں قرار دياجاسكتا، البتہ حدود كے سوا ديگر سزاوٴں ميں اس پر بنياد ركهى جاسكتى ہے- يوں بهى ڈى اين اے ٹيسٹ كى رپورٹ ميں دورانِ تجزيہ كوتاہيوں يا مختلف مفادات كو بهى بالخصوص پاكستان جيسے ملك ميں نظر انداز نہيں كيا جاسكتا-

مزيد تفصيلات كے لئے درج ذيل مضامين كا مطالعہ مفيد ہوگا :

  • قانون ميں قرائن كى حجيت مجلہ 'منہاج' لاہور اكتوبر 1990ء ص73 تا 106
  • قيافہ و فراست ميں قرائن كى حجيت مجلہ 'منہاج' لاہور اكتوبر 2001ء ص 169 تا 184
  • قيافہ اور قرائن كى حيثيت مجلہ فكر ونظر،اسلام آباد اور الطرق الحكمية از ابن قيم الجوزيہ

اسى مضمون كا اختصار روزنامہ جنگ كے كلر ايڈيشن موٴرخہ 10/جون 2005ء اور ہفت روزہ 'الاعتصام ' ميں دیكھیں
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
وضاحتیں


i. مفسر قرآن حضرت قتادہ کا قول یہ ہے کہ اگر اصل باپ معروف ہو تب غیر سے نسبت کی گنجائش نکل سکتی ہے، ان کی دلیل حضرت مقداد بن اسود کی نسبت ہے، جن کے والد کا نام توعمرو تھا لیکن اس کے باوجود اُنہیں کتب ِحدیث وغیرہ میں مقداد بن اسود ہی لکھا جاتا ہے اور وہ ابن اسود سے ہی مشہور ہیں۔(الاصابہ: 4343)

ii. موطا امام مالک میں ایک واقعہ توآتا ہے جس میں عمر بن عبد العزیز نے ایک ایسے شخص کو عقیق مقام پر امامت سے روک دیا تھا جس کے باپ کا علم نہ تھا ۔( رقم: 305) لیکن آپ کا ایسا کرنا کراہت کی بنا پر ہوسکتا ہے، راجح قول کے مطابق ایسے شخص کی امامت درست ہے۔

iii. نسب کے ساتھ حاصل ہونے والے حقوق یہ ہیں:کفالت، وراثت اور رشتہ داری وغیرہ

iv. شریعت ِاسلامیہ میں ماں کے اپنی اولاد سے تعلق کے بارے میں نطفے کے تعلق کی بجائے حمل اور وضع حمل کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ہے (ِنْ أُمَّہٰتُہُمْ اِلاَّ الّٰئِ َولَدْنَہُمْ) اور(حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْ‌هًا وَوَضَعَتْهُ كُرْ‌هًا) یہی وجہ ہے کہ زنا کی صورت میں مرد کا تعلق تو اپنی اولاد سے منقطع ہوتا ہے، البتہ عورت کا اپنی اولاد سے تعلق برقرار رہتا ہے۔

iv.ڈی این اے(DNA) کیا ہے؟ ہر خلیے (Cell) میں ایک مکمل کارخانے کی طرح نظام چلتا ہے،جس میں بے شمار چیزیں کیمیائی عمل سے گزر کر زندگی کو جاری و ساری رکھتی ہیں۔ ہر خلیے میں ایک چھوٹی سی چوکور یا گول گیند ہوتی ہے جسے مرکزہ Nucleus کہا جاتا ہے اور یہی مرکزہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتاہے جو پورے خلیہ کے کیمیائی عمل کو کنٹرول کرتا ہے۔ اگر اسے نکال دیا جائے تو باقی خلیہ ضائع ہوجاتا ہے۔ اس مرکزہ میں دھاگہ نما ساختیں ہوتی ہیں جنہیں کروموسوم Chromosome کہا جاتا ہے اور ان کے اندر جاندار کی نشوونما، رنگ و شکل اور عادات و خصوصیات وغیرہ سے متعلق تمام تفاصیل و معلومات درج ہوتی ہیں۔ ہر جاندار خلیہ کے اندر کروموسوم کی اپنی مخصوص تعداد طے ہوتی ہے، مثلاً انسان میں 46، مکھی میں 8، بلی میں 38، مرغی میں 78 کروموسوم موجود ہوتے ہیں۔ جس طرح ہمارا جسم گوشت اور ہڈیوں سے مل کر بنا ہوتا ہے، اسی طرح یہ کروموسوم DNA نامی ایک مادّے سے بنے ہوتے ہیں جسے جینیاتی مادہ بھی کہا جاتا ہے۔ ا س مادے کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ ضرورت پڑنے پریہ اپنے جیسے ٹکڑوں کو بنا سکتا ہے۔ یعنی دو سے چار، چار سے آٹھ اور آٹھ سے سولہ ... DNA کے ہر متفرق ٹکڑے یا حصے کو جین (Gene) کہا جاتا ہے اور ہر جاندار میں جس خصلت، شکل یا فعل کے جین ہوں گے وہ جاندار اسی خصلت، شکل اور فعل کی عکاسی کرے گا، مثلاً کسی کا قد چھوٹا یا لمبا ہے توا س لئے کہ اس کے جینز میں ایسی ہی خصوصیت تھی۔ کسی کے بال سرخ یا بھورے ہیں یا رنگت، سرخ و سفید، گندمی یا انتہائی سیاہ ہے تو اس لئے کہ اس کے جینز کی خصوصیت ویسی تھی۔

v. حدیث ِقیافہ زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کے بارے میں ہے۔امام ابو داود فرماتے ہیں کہ اسامہ کا رنگ تارکول کی طرح سیاہ تھا اور ان کے والد زید کا رنگ روئی کی طرف سفید۔اور لوگ ان کے بارے میں مختلف چہ میگوئیاںکرتے تھے۔ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آئے اور آپ کے چہرے پر مسرت نمایاں تھی، آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
ألم تر أن مجززا المدلج رأی زیدا وأسامة قد غطیا رء وسہما بقطیفة وبدت أقدامہما فقال ن ہذہ الأقدام بعضہا من بعض۔ (صحیح ابو داود: 1984 )
''کیا تم نے (قیافہ دان) مجزز مدلجی کی بات نہیں سنی، اس نے زید اور اسامہ کو لیٹے دیکھا، دونوں نے سر پر چادر اوڑھی ہوئی تھی اور پائوں نظر آرہے تھے۔ تو کہنے لگا کہ یہ پائوں آپس میں ایک دوسرے سے ہیں۔''
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات


1. ترجمہ بنام 'الوجيز':ص 620
2. صحيح بخارى: 3635
3. بخارى: 1044
4. اسلام كا فوجدارى قانون،مترجم:ساجد الرحمن كاندہلوى: ج1/ص 14
5. مغني المحتاج: 3/4،نيل المآرب: 2/55،التفريع: 2/338
6. ج2/ص100
7. رقم:4782
8. رقم:4000
9. صحيح بخارى:6830 اور 6768
10. صحيح بخارى: 6766
11. صحيح بخارى: 3850 اور صحيح مسلم:67
12. صحيح سنن ابو داود:4268
13. سنن ابو داود:2263
14. صحيح سنن ابو داود:1982
15. سنن ابو داود: 2264
16. صحيح سنن ابو داود:1990
17. صحيح بخارى: 2053
18. لسان العرب: 4/166
19. الموسوعة الفقهية: 34/97
20. بخارى: 6750
21. صحيح بخارى :2053
22. سنن ابو داود: 2275
23. سير أعلام النبلاء: 3/495
24. (2/190)
25. (3/338)
26. 17/155، مسئلہ 2009
27. 10/142، مسئلہ 2009
28. (40/237)
29. صحيح مسلم: 311
30. صحيح بخارى: 3938
31. صحيح مسلم: 314
32. صحيح بخارى : 4747
33. صحيح بخارى: 5305
34. مسند احمد: 7433
35. الطرق الحكمية: 69
36. صحيح ابو داؤد: 1983
37. صحيح مسلم: 1695
38. صحيح بخارى: 4745
39. مسند احمد: 2132
40. بخارى: 4746
41. مسند احمد:2200
42. بدائع الصنائع : 6/243
43. بخارى: 5127
44. موطأ مالك: 1451
45. موطأ: 1450
46. صحيح ابو داود: 1987
47. ج2/ص345، رقم: 785
48. المبسوط 17/70، شرح معاني الآثار للطحاوي: 3/116، 180 و 4/161 والموسوعة الفقهية: 34/ 98
49. سنن ابن ماجہ :2545
 
Top