• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کا قانون طلاق اور اس کا ناجائز استعمال

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
بے انتہاء ملامت اور شدید تنقید
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی بیویوں کی ملامت کرتے رہتے ہیں ، ہر کام پرانھیں شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ہر ہر بات پر انھیں ڈانٹتے رہتے ہیں ۔ اسی طرح بعض خواتین بھی اپنے خاوندوں سے ہمیشہ ناخوش رہتی ہیں اور ہر معاملے میں انھیں غلط تصور کرتی ہیں اور ان کی برائی بیان کرتی رہتی ہیں ۔ زوجین کے مابین جب اس طرح کا طرز عمل ظاہرہو گا تو بالآخر وہ ایک دوسرے سے تنگ آ جائیں گے اور نوبت طلاق تک جا پہنچے گی !
حل : اس کا حل یہ ہے کہ زوجین ایک دوسرے کی خوبیوں کو سامنے رکھیں ۔ اچھائیوں پر ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کریں ۔ غلطیوں پر ایک دوسرے کو درگذر کریں اور اچھے انداز سے سمجھاتے رہیں ۔ ایک دوسرے کے بارے میں مثبت سوچ رکھیں اور منفی سوچ رکھنے سے بچیں۔
اور چونکہ اِس طرح کا طرز عمل اکثر وبیشتر مردوں کی طرف سے اختیار کیا جاتا ہے اس لئے اللہ تعالی نے انھیں مخاطب کر کے ارشاد فرمایا :

﴿فَإِن كَرِ‌هْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَ‌هُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّـهُ فِيهِ خَيْرً‌ا كَثِيرً‌ا﴾ [النساء : ۱۹ ]
’’اگر وہ تمھیں نا پسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز تمھیں تو نا گوار ہو مگر اللہ تعالی نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو ۔ ‘‘
اور رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا :

« لاَ يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِىَ مِنْهَا آخَرَ »
’’ کوئی مومن (اپنی ) مومنہ (بیوی ) سے بغض نہ رکھے۔ اگر اس کی کوئی عادت اسے نا پسند ہو گی تو کوئی عادت اسے پسند بھی تو ہوگی ۔ ‘‘ [مسلم : ۱۴۶۹ ]
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
خرچ کرنے میں بے اعتدالی
بعض لوگ گھریلو اخراجات میں راہِ اعتدال سے ہٹ جاتے ہیں اور وہ یا تو بخل اور کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں یا پھراسراف اور فضول خرچی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ ان دونوں صورتوں میں ان کے اور ان کی بیویوں کے مابین تعلقات متوازن نہیں رہتے ۔ کیونکہ وہ اگر بخل اورکنجوسی کا مظاہرہ کریں اور اپنی بیویوں کی جائز ضروریات کیلئے پیسہ خرچ کرنے سے گریز کریں اور اس کی وجہ سے ان کو اپنی ہم جنس عورتوں کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے تو یہ صورت حال زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی اور آخر کار بیویاں تنگ آ کر اپنے خاوندوں سے کہہ ہی دیتی ہیں کہ اگر آپ خرچ نہیں کر سکتے تو ہمیں ہمارے والدین کے گھر بھیج دیں ۔
اور اگر وہ بے انتہاء خرچ کریں اور دوسروں پر اپنی مالی برتری ثابت کرنے کیلئے جائز وناجائز کاموں میں بے دریغ پیسہ بہا دیں تو گھر سے برکت ختم ہو جاتی ہے ۔ پھر بے برکتی کی وجہ سے پیسہ اڑتا ہی چلا جاتا ہے ۔ جس کے بعد ( ہَلْ مِن مَّزِیْد) کی طمع اور لالچ اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ انسان کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ اپنے اخراجات کو کیسے کنٹرول کرے ۔ اور نا شکری اور عدم قناعت کی وجہ سے گھریلو جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اور زوجین کے درمیان ناچاقی اور منافرت کی ابتداء ہوتی ہے اور بالآخر نوبت ان کے درمیان علیحدگی تک پہنچ جاتی ہے ۔
حل : اس کا حل یہ ہے کہ خاوند جو گھریلو اخراجات کا ذمہ دار اوراپنے بیوی بچوں کا کفیل ہوتا ہے اسے تمام تر اخراجات میں راہِ اعتدال کو اختیار کرنا چاہئے ۔ نہ وہ کنجوسی اور بخل کا مظاہرہ کرے اور نہ ہی اسراف اور فضول خرچی کرے ۔ بلکہ میانہ روی اور توسط سے کام لے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِ‌فُوا وَلَمْ يَقْتُرُ‌وا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا﴾ [الفرقان: ۶۷]
’’ اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں ، بلکہ ان دونوں کے درمیان گذر اوقات کرتے ہیں ۔ ‘‘
اور رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے :

( کَفَی بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَن یُّضَیِّعَ مَن یَّقُوْتُ )
’’ کسی انسان کو یہی گناہ کافی ہے کہ وہ اسے ضائع کردے جس کی غذا وغیرہ کا وہ ذمہ دار ہو ۔ ‘‘
[ ابو داؤد : ۱۶۹۴۔ قال الألبانی : حسن ]
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
فطری ضرورت کا پورا نہ ہونا
مردو عورت دونوں کی ایک فطری ضرورت ہے ۔ اگر یہ ضرورت صحیح طور پر پوری نہ ہو تو آخر کار اس کا نتیجہ بھی طلاق ہی نکلتا ہے ۔
حل : زوجین کو ایک دوسرے کی اِس فطری ضرورت کا احساس کرنا چاہئے ۔ اور دونوں کو یہ مشترکہ حق ادا کرنے کاایک دوسرے کو موقع دینا چاہئے ۔
رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

« إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهِ فَلَمْ تَأْتِهِ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَيْهَا لَعَنَتْهَا الْمَلاَئِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ »
’’ جب ایک خاوند اپنے بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کردے ، پھر وہ اس پر ناراضگی کی حالت میں رات گذار دے تو فرشتے صبح ہونے تک اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں ۔ ‘‘
[ البخاری ۔ بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ : ۳۲۳۷ ، مسلم ۔ النکاح : ۱۷۳۶ ]
اسی طرح آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

إذا دعا الرجل زوجته لحاجته فلتأته وإن كانت على التنور
’’ جب خاوند اپنی بیوی کو اپنی ضرورت کیلئے بلائے تو وہ ضرور اس کے پاس آئے اگرچہ وہ تنور پر کیوں نہ ہو۔‘‘ [ الترمذی ، والنسائی ۔ صحیح الترغیب والترہیب للألبانی : ۱۹۴۶ ]
اسی طرح حدیث پاک میں ہے کہ

إِنَّ لِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا ، وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا ، وَلأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا ، فَأَعْطِ كُلَّ ذِى حَقٍّ حَقَّهُ
’’ تم پر تمھارے رب کا حق بھی ہے ، تمھاری جان کا حق بھی ہے اور تمھاری بیوی کا حق بھی ہے ۔ لہذا تم سب کے حقوق ادا کیا کرو ۔ ‘‘ [ البخاری ۔ الصوم باب من أقسم علی أخیہ … : ۱۹۶۸ ]
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
عورت کی زبان درازی اور بد کلامی
بعض خواتین نہایت بد زبان ہوتی ہیں ۔ حتی کہ اپنے شوہروں کا بھی احترام نہیں کرتیں ۔ ان سے بد کلامی کرتی ہیں ۔ انھیں برابھلا کہتی ہیں اور بے عزت تک کرتی ہیں ! ان میں سے بعض کو جب ان کے خاوند دھمکی دیتے ہیں کہ تم باز آجاؤ ورنہ طلاق دے دونگا ۔ تو وہ جوابا کہتی ہیں : طلاق دینی ہے تو دے دو ۔ یا چیلنج کرتی ہیں کہ تم طلاق دے کر دکھاؤ ! چنانچہ مرد طیش میں آجاتے ہیں اور طلاق دے دیتے ہیں ۔
حل : کسی خاتونِ اسلام کیلئے جائز نہیں کہ وہ زبان درازی کرتے ہوئے بد کلامی کرے ۔ خاص طور پر خاوند کا تواسے دل کی گہرائیوں سے احترام کرنا چاہئے ۔ اس پر لازم ہے کہ وہ ایسا رویہ اختیار کرنے سے پرہیز کرے جس میں اس کے خاوند کی بے عزتی ہو ۔
اور جہاں تک بات بات پہ طلاق کے مطالبے کا تعلق ہے تو یہ خواتین کیلئے نہایت خطرناک ہے کیونکہ بغیر شرعی عذر کے طلاق کا مطالبہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

« أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا الطَّلاَقَ فِى غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ »
’’ جو عورت بغیر کسی معقول عذر کے اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو تک حرام ہو جاتی ہے۔ ‘‘
[ احمد ، ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ۔ صحیح الجامع للألبانی : ۲۷۰۶ ]
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
بعض لوگوں کی بے جا مداخلت اور چغل خوری
بسا اوقات زوجین کے مابین کوئی ایسی بات نہیں ہوتی کہ جو ان کے تعلقات میں بگاڑ کا سبب بنے لیکن بعض لوگ خواہ مخواہ مداخلت کرکے ان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کردیتے ہیں اور ایک کی بات دوسرے تک پہنچا کر چغل خوری کرتے ہیں اور انھیں لڑانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آخر کار ان میں علیحدگی ہو جاتی ہے !
حل : کسی شخص کیلئے جائز نہیں کہ وہ زوجین کے درمیان بے جا مداخلت کریں اور ان دونوں کو لڑانے کیلئے ایک کی بات دوسرے تک پہنچائیں ۔ اگر کوئی شخص ایسی کوشش کرے تو زوجین کو چاہئے کہ وہ عقلمند ی کا مظاہرہ کریں اور اس کی باتوں کو کوئی اہمیت نہ دیں ۔ بلکہ ان میں سے جس کے پاس وہ چغل خوری کرے اسے چاہئے کہ وہ اس کا منہ بند کردے اور آئندہ کیلئے ان کے معاملات میں مداخلت کرنے سے اسے سختی سے منع کردے ۔
چغل خوری کرنے اور زوجین کو لڑانے والا آدمی شیطان ہوتا ہے ۔ اسے اپنے اِس فعل سے توبہ کرنی چاہئے ۔ ورنہ اسے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ رسول اکرمﷺ نے چغل خور کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ

« لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ نَمَّامٌ »
’’ بہت زیادہ چغل خوری کرنے والا شخص جنت میں داخل نہ ہو گا ۔‘‘
[ مسلم : ۱۰۵ ]
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
تعدد ازواج
مرد کو اللہ تعالی نے یہ اجازت دی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ ( چار تک ) شادیاں کر سکتا ہے لیکن جب وہ ان سے ناانصافی کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں بسا اوقات نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے ۔ اور بعض عورتیں اپنی سوکنوں کو بالکل برداشت نہیں کر پاتیں اور وہ اپنے خاوندوں سے سختی سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اپنی دوسری بیوی / بیویوں کو طلاق دیں ۔ اور بعض ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جو خاوند کو صراحتاً کہہ دیتی ہیں کہ اگر اس نے دوسری بیوی کو طلاق نہیں دینی تو اسے طلاق دے دے ۔چنانچہ مرد ان میں سے کسی ایک کو طلاق دے دیتا ہے !
حل : مرد کو اللہ تعالی نے ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت تو دی ہے لیکن اسے اِس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ ان سب کے درمیان انصاف کرے ۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی ناانصافیوں کی وجہ سے اس کی وہ بیوی تنگ آکر اس سے طلاق کا مطالبہ شروع کردے جس کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہو ۔
اور جہاں تک اپنی سوکن کو برداشت نہ کرنے کی بات ہے تو یہ ہرگز درست نہیں ہے ۔ عورت کو مرد کا یہ شرعی حق بخوشی قبول کرنا چاہئے ۔ اور اگر اس کا خاوند دوسری شادی کرنا چاہے تو نہ پہلی بیوی دوسری کی طلاق کا اور نہ ہی دوسری بیوی پہلی کی طلاق کا مطالبہ کرے ۔ کیونکہ رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے :

(« لاَ تَسْأَلِ الْمَرْأَةُ طَلاَقَ أُخْتِهَا لِتَسْتَفْرِغَ صَحْفَتَهَا ، وَلْتَنْكِحْ ، فَإِنَّ لَهَا مَا قُدِّرَ لَهَا »
’’ کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ وہ اس کا رزق اپنے لئے حاصل کر لے بلکہ وہ (بلا شرط ) نکاح کر لے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے جو کچھ لکھ رکھا ہے وہ اسے ضرور ملے گا ۔ ‘‘
[ البخاری : ۵۱۵۲ ، مسلم : ۱۴۰۸ ]
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
زوجین کے مابین نا چاقی کو ختم کرنے کیلئے مرحلہ وار اقدامات سے صرف نظر کرنا
اگر زوجین میں ناچاقی ہو تو اسے ختم کرنے کے لئے شریعت میں مرحلہ وار اقدامات تجویز کئے گئے ہیں ۔ عموما ان اقدامات سے تجاوز کیا جاتا ہے اور فورا طلاق کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے جو کہ غلط ہے ۔
حل : طلاق آخری حل ہے ۔ اس سے پہلے جو مرحلہ وار اقدامات ہیں پہلے ان پر عمل کرنا چاہئے ۔ اگر وہ سب ناکام ہو جائیں تو آخری حل کے طور پر طلاق دی جا سکتی ہے۔
وہ مرحلہ وار اقدامات یہ ہیں :
اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُ‌وهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِ‌بُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا﴾ [ النساء : ۳۴ ]
’’ اور جن بیویوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ ۔ ( اگر نہ سمجھیں ) تو خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو ۔ ( پھر بھی نہ سمجھیں ) تو انھیں مارو ۔ پھر اگر وہ تمھاری بات قبول کر لیں تو خواہ مخواہ ان پر زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو ۔ ‘‘
اس آیت میں اللہ تعالی نے نافرمان یا سرکش بیوی کے متعلق تین ترتیب وار اقدامات تجویز کئے ہیں ۔
٭ پہلا ہے اسے نصیحت اور خیر خواہی کے انداز میں سمجھانا ۔
٭ دوسرا اقدام ہے اس کا اور اپنا بستر الگ الگ کرنا ۔
٭ تیسرا ہے سزا دینا ۔
اس سے ثابت ہوا کہ سزا دیناآخری حربہ ہے نہ کہ پہلا جیسا کہ آج کل بہت سارے لوگ پہلے دونوں اقدامات کو چھوڑ کر آخری حربہ سب سے پہلے استعمال کرتے ہیں ۔
یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ رسول اللہ 1 نے اس سزا کو اس بات سے مشروط کیا ہے کہ اس سے اسے چوٹ نہ آئے اور نہ ہی اس کی ہڈی پسلی ٹوٹے۔ آپﷺنے ارشاد فرمایا :

« لاَ يَجْلِدُ أَحَدُكُمُ امْرَأَتَهُ جَلْدَ الْعَبْدِ ، ثُمَّ يُجَامِعُهَا فِى آخِرِ الْيَوْمِ »
’’ تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو ایسے نہ مارے جیسے وہ اپنے غلام کو مارتا ہے ، پھر وہ دن کے آخر میں اس سے ہم بستری بھی کرے ۔ ‘‘ [ البخاری ۔ النکاح باب ما یکرہ من ضرب النساء : ۵۲۰۴ ، مسلم ۔ الجنۃ باب النار یدخلہا الجبارون : ۲۸۵۵ ]
اگر سزا دینے کے باوجود مسئلہ حل نہ ہو تو پھر دونوں کی طرف سے ثالث مقرر کئے جائیں جو ان کے ما بین مصالحت کی کوشش کریں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِ‌يدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّـهُ بَيْنَهُمَا ﴾ [ النساء : ۳۵]
’’ اور اگر تمھیں ان دونوں ( میاں بیوی ) کے درمیان ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد کے گھروالوں کی طرف سے اور ایک عورت کے گھر والوں کی طرف سے مقرر کرو ۔ اگریہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو اللہ تعالی دونوں میں ملاپ کرادے گا ۔ ‘‘
لہذا ان مرحلہ وار اقدامات پر عمل کرنا چاہئے تاکہ طلاق تک نوبت ہی نہ پہنچے ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
ساس اور بہو کی لڑائی
ساس اور بہو کی لڑائی ویسے تو بہت مشہور ہے لیکن اگر یہ لڑائی شدت اختیار کر لے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ساس اپنے بیٹے کو اپنی بہو کے خلاف بھڑکاتی ہے اور مسلسل اس کے خلاف بیان بازی کرتی رہتی ہے ۔ آخر کار بیٹا تنگ آکر بیوی کو اس کے گھر بھیج دیتا ہے !
حل : بہو اپنی ساس کو والدہ کے برابر سمجھے اور اس کا اسی طرح احترام کرے جس طرح وہ اپنی ماں کا احترام کرتی ہے ۔ اور اگر اس کی بیٹیوں میں سے کوئی بھی اس کی خدمت کرنے کیلئے موجود نہ ہو تو وہ اس کی خدمت کا فریضہ بھی سرانجام دے ۔ کیونکہ وہ اس کے خاوند کی ماں ہے تو اس کی بھی ماں ہے ۔
اسی طرح ساس بھی اپنی بہو کو اپنی بیٹی سمجھے اور اس سے اسی طرح سلوک کرے جس طرح وہ اپنی سگی بیٹیوں سے کرتی ہے ۔ پھر بات بات پہ اس کے خاوند کو اس کے خلاف نہ بھڑکائے بلکہ اچھے انداز سے اسے سمجھائے اور خوش اسلوبی سے گھریلو امور کی نگرانی کرے اور خواہ مخواہ اپنے بیٹے کو پریشان کرنے کا سبب نہ بنے ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
ماں باپ کی بے جا ضد
ماں باپ کوبعض اوقات بہو پسند نہیں آتی یا ان کا بیٹا جب اپنی بیوی سے زیادہ محبت وپیار کا اظہار کرتا ہے تو وہ اسے برداشت نہیں کر پاتے اور بیٹے سے مطالبہ شروع کردیتے ہیں کہ اسے طلاق دے دو ۔ پھر بلا وجہ ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیٹے کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ اسے طلاق دو یا ہم سے الگ ہو جاؤ ۔ بالآخر بیٹا اپنے والدین کی نافرمانی سے بچنے کیلئے بیوی کو طلاق دے ہی دیتا ہے !
حل : والدین کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کوئی بھی عورت کامل نہیں ہوتی ۔ ہر عورت میں نقائص ہوتے ہیں جس طرح کہ ہرمرد میں بھی عیوب ہوتے ہیں ۔ لہذا اگر ان کی بہو میں کوئی عیب ہے بھی تو اس کی اصلاح کریں نہ یہ کہ اس کے خلاف محاذ کھڑا کردیں۔
والدین کو اپنی بہو سے وہی سلوک رکھنا چاہئے جس سلوک کی وہ اپنی بیٹی کیلئے توقع کرتے ہیں ۔ اور جس طرح وہ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کی بیٹی اپنے گھر میں خاوند کی نورِ نظر ہو اسی طرح اگر ان کا بیٹا اپنی بیوی سے محبت کرتا ہو توانھیں اس پر خوش ہوناچاہئے ۔ اورجس طرح وہ اپنی بیٹی کے متعلق یہ نہیں چاہیں گے کہ وہ طلاق کا پروانہ لے کر ان کے ہاں پہنچ جائے تو اسی طرح انھیں یہ بھی نا پسند ہونا چاہئے کہ ان کی بہو کو ان کا بیٹا طلاق دے ۔
ویسے بھی اگر والدین بلا شرعی عذر کے اپنے بیٹے کو طلاق کا حکم دیں تو بیٹے پر لازم نہیں ہے کہ وہ اس سلسلے میں ان کی فرمانبرداری کرے ۔ اگر ان کا حکم کسی معقول شرعی عذر پر مبنی نہیں ہے اور بیٹاان کے اس حکم پر عمل نہیں کرتا تو یہ ان کی نافرمانی نہیں ہوگی ۔ ہاں اگر اس کا کوئی شرعی سبب ہو اور بہو سمجھانے کے باوجود اپنی اصلاح نہ کر رہی ہو ، مثلا بے نماز ہو ، کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہو ، اپنے ساس اور سسر کو گالی گلوچ کرتی ہو ، اپنے گھر اور اولاد کی باکل کوئی پروا نہ کرتی ہو وغیرہ ۔ اس صورت میں اس کے والدین اسے طلاق دینے کا حکم دیں تو اس پر لازم ہو گا کہ وہ ان کی اطاعت کرے ۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے تو انھوں نے اسے طلاق دینے سے انکار کردیا تھا ۔ پھر جب یہ معاملہ رسول اکرم ﷺ کے پاس پہنچا تو آپﷺ نے بھی انھیں یہی حکم دیا کہ وہ اسے طلاق دے دیں ۔ چنانچہ انھوں نے اسے طلاق دے دی ۔ [ رواہ الترمذی ، وابو داؤد ، وابن ماجۃ وصححہ الألبانی ]
قارئین کرام ! یہ تھے طلاق کے اسباب جنھیں ہم نے تفصیل سے بیان کیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بھی ذکر کیا کہ ان اسباب کا حل کیا ہے ۔ مقصد یہ تھا کہ ایسے اسباب نہ اختیار کئے جائیں جن کے نتیجے میں زوجین کے مابین تعلقات نا خوشگوار ہوں اور نوبت طلاق تک جا پہنچے ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
طلاق کے برے اثرات اور خطرناک نتائج

طلاق کی وجہ سے بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کے خطرناک نتائج نکلتے ہیں ۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں :
  1. خاندان میں فساد بپا ہوتا ہے اور باہمی تعلقات خطرناک حد تک بگڑ جاتے ہیں ۔
  2. طلاق کے نتیجے میں اولاد ضائع ہو جاتی ہے ۔ وہ باپ کے پاس ہو یا ماں کے پاس دونوں صورتوں میں وہ محروم ہی رہتی ہے ۔ باپ کے پاس ہو تو ماں کی محبت سے محروم اور ماں کے پاس ہو تو باپ کے سایۂ شفقت سے محروم ۔
  3. طلاق کی وجہ سے ماں اور اس کی اولاد کے درمیان جدائی ہو جاتی ہے جو ماں کیلئے تو ناقابل برداشت ہوتی ہی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ اولاد بھی ماں سے دور ہوکر کئی طرح کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی ہے ۔ اور رسول اکرمﷺکا ارشاد ہے :
    «مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الْوَالِدَةِ وَوَلَدِهَا فَرَّقَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَحِبَّتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ » ’’ جو شخص کسی ماں اور اس کی اولاد میں جدائی ڈال دے اللہ تعالی قیامت کے روز اس کے اور اس کے احباب کے ما بین جدائی ڈال دے گا ۔‘‘ [ ترمذی : ۱۲۸۳ ۔ الألبانی : حسن]
  4. طلاق کی وجہ سے مطلقہ عور ت کو بہت برا جانا جاتا ہے اور خواہ اس معاملہ میں زیادتی مرد نے کی ہو ہمیشہ عورت کو ہی مطعون ٹھہرایا جاتا ہے ۔ پھر اس عورت کا مستقبل برباد ہو جاتاہے کیونکہ اسے قبول کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ اِس طرح بغیر خاوندوں کے طلاق یافتہ عورتوں کا وجود اسلامی معاشرے کیلئے ایک بد نما داغ بن جاتا ہے ۔
  5. مطلقہ عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کئی خرابیوں کو جنم دیتی ہے ۔ ایسی خواتین اپنے والدین یا اپنے بھائیوں کے گھروں میں رہ رہ کر خود بھی بیمار پڑ جاتی ہیں اور والدین یا بھائیوں کیلئے بھی مستقل پریشانی کا باعث بنتی ہیں ۔ جن خواتین کے والدین وفات پا چکے ہوتے ہیں اور ان کے بھائی بھی نہیں ہوتے یا ہوتے ہیں لیکن انھیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے تو ایسی خواتین در در کی ٹھوکریں کھاتی رہتی ہیں اور انھیں سکون نصیب نہیں ہوتا ۔
  6. جس معاشرے میں مطلقہ عورتیں کثرت کے ساتھ ہوں اور اس میں طلاق یافتہ عورتوں کے ساتھ نکاح کو معیوب سمجھا جاتا ہو ( حالانکہ ایسا قطعا درست نہیں ہے ) تو وہاں وہ خواتین بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہیں اور بدکاری کے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں ۔ پھر عفت وعصمت کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں اور شرم وحیا نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ۔
 
Top