اخلاق کی ہمہ گیر دعوت کی قرآنی مثالیں:
(۱) ایفائے عہد کا حکم:
{وَأَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْؤُوْلًا} [الاسرائ:۳۴]
''اور وعدے کو پورا کرو کیونکہ وعدے کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔''
(۲) ایسی بات کرنے کی ممانعت کہ جس کے بارے میں علم نہ ہو:
{وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا} [الاسرائ:۳۶]
''جس بات کا تجھے علم ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ' کیونکہ کان؛ آنکھ اور دل' ان میں سے ہر ایک کے بارے میں باز پُرس ہوگی۔''
(۳) اکڑ اکڑ کر چلنے کی ممانعت، جس طرح متکبر لوگ چلتے ہیں:
{وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا} [لقمان:۱۸]
''اورزمین پر اترا کرنہ چل، یقینا تو نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ ہی تو پہاڑ کی لمبائی تک پہنچ سکتا ہے۔''
(۴) اسراف وتبذیر اور بخل وکنجوسی سے ممانعت:
{وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا۔ اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا} [الاسرائ:۲۶' ۲۷]
''رشتہ داروں' مسکینوں اور مسافروں کا حق اداکرتے رہواور اسراف وفضول خرچی سے بچو۔یقینا فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اورشیطان اپنے رب کا بڑاناشکرا ہے۔''
اور فرمایا:
{وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا} [الاسرائ:۲۹' ۳۰]
''نہ ہی اپنے ہاتھ کو کھینچ کر گردن سے باندھ لے اورنہ ہی اسے کھلاچھوڑ دے کہ پھر ملامت کیا ہوادرماندہ بیٹھ جائے۔''
(۵) تمام احوال میں تمام لوگوں کے ساتھ عدل کرنے حکم، خواہ کوئی کافر ہی کیوں نہ ہو:
{وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی} [الانعام: ۱۵۲]
''اور جب بھی تم بات کرو تو عدل کی کرو، خواہ کوئی قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو۔''
اور فرمایا:
{وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلیٰ أَنْ لَا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی} [المائدۃ:۸]
''اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات کا مجرم نہ بنا دے کہ تم عدل ہی نہ کرو، عدل کرو؛ یہی تقوٰی کے قریب تر ہے۔''
(۶) نیکی، اچھائی اور لوگوں کے لیے فائدہ مند کاموں میں تعاون کا حکم اور برائی وزیادتی کے کاموں میں تعاون کی ممانعت:
{وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ} [المائدۃ: ۲]
''اور تم نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور ظلم اور زیادتی میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو' یقینا اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔''
(۷) ظلم کو روزِقیامت اندھیروں کا باعث گناہ قرار دیا گیاہے۔ پھر ظلم کی مختلف صورتیں ہیں، جن میں سے قبیح ترین صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کی جائے اور اس کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کیا جائے۔ ایسا ظالم دربارِایزدی سے دھتکار دیا جاتا ہے، اس پر سے اللہ کا ہاتھ اٹھ جاتا ہے اور وہ رُسوا ہو کر رہ جاتا ہے۔
{وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اُولٰٓئِکَ یُعْرَضُوْنَ عَلٰی رَبِّھِمْ وَیَقُوْلُ الْاَشْھَادُ ھٰٓؤْلَآئِ الَّذِیْنَ کَذَبُوْا عَلٰی رَبِّھِمْ اَلَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ} [ہود:۱۸]
''اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جواللہ تعالیٰ پرجھوٹ باندھے؟یہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے پیش کیے جائیںگے اورسارے گواہ کہیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پرجھوٹ باندھا' خبردار! ظالموں پراللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔''
{وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ہٗ اَلَیْسَ فِیْ جَھَنَّمَ مَثْوًی لِّلْکٰفِرِیْنَ} [العنکبوت:۶۸]
''اوراس سے بڑاظالم کون ہوگا جواللہ تعالیٰ پرجھوٹ باندھے؟ یاجب حق اس کے پاس آجائے توووہ اسے جھٹلائے' کیا ایسے کافروںکاٹھکانہ جہنم میںنہ ہوگا؟''
{تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ} [البقرۃ: ۲؍۲۲۹]
''یہ اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں سوتم ان سے تجاوز نہ کرو اورجو اللہ تعالیٰ کی حدود سے متجاوز ہوتاہے وہی ظالم ہے۔''
{وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ أَنْصَارٍ} [البقرۃ: ۲۷۰]
''اور ظلم کرنے والوں کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔''