• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کا نظامِ اخلاق

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
بسم اللہ الرحمان الرحیم

اسلام کا نظامِ اخلاق
اخلاق کی تعریف:
لغت میں خلق کا لفظ عادت اور طبیعت پر بولا جاتا ہے اور علماء کی اصطلاح میں اس سے مراد؛ جیسا کہ امام غزالیؒ وغیرہنے اس کی تعریف کی ہے کہ اخلاق نفس میں راسخ ہو جانے والی اس ہیئت سے عبارت ہے کہ جس کے باعث انسان سے بلامشقت اور بغیر کسی غوروفکر کے بڑی سہولت اور آسانی کے ساتھ افعال صادر ہوتے ہیں۔
گویا اخلاق کی تعریف اس طرح کی جا سکتی ہے کہ انسانی نفس میں مستقل طور پر پائی جانے والی صفات وعادات کا وہ مجموعہ کہ جس کی روشنی میں انسان سے اچھے یا برے افعال صادر ہوتے ہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اخلاق کی اہمیت:
اخلاق کو بڑی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ اس کے باعث انسان کے سلوک اور افعال میں ایک ایسا اثر پیدا ہوتا ہے جو اس کی شناخت بن جاتا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انسان کا سلوک اس کے نفس میں مستقلاً پائی جانے والی عادات وصفات کے موافق ہوجاتا ہے۔ امام غزالیؒ نے اسے بہت خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے کہ ہر وہ صفت جو انسان کے دِل میں جنم لیتی ہے؛ اس کے اثرات اس کے اعضائے جسمانی میں نمودار ہونے لگتے ہیں، یہاں تک کہ وہ کوئی بھی حرکت کرتا ہے تو اسی کے مطابق کرنے لگتا ہے۔ یعنی اس وقت انسان کے تمام تر افعال ان باطنی عادات کے مطابق سرزد ہونے لگتے ہیں جو اس میں ہمیشہ سے پائی جاتی ہوتی ہیں، جیسے ایک درخت کے اوپر دکھائی دینے والی شاخیں اورتنے انہی جڑوں کے مطابق پیدا ہوتے اور شکل وصورت اختیار کرتے ہیں جو زمین میں غائب ہوتی ہیں اور دکھائی نہیں دے رہی ہوتیں، لیکن درخت کے پتوں کو دیکھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں کونسا بیج اور جڑ لگائی گئی تھی تو یہ درخت پیدا ہوا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ انسان کے جملہ افعال واعمال کی درستگی اس کا اخلاق درست ہونے پر منحصر ہے، کیونکہ جب اصل درست ہو گی تو فرع بھی درست رہے گی اور جب اصل میں ہی بگاڑ ہو تو فرع کیسے درست رہ سکتی ہے؟!
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتهٗ بِاِذْنِ رَبّهٖ وَالَّذِیْ خَبُثَ لَا یَخْرُجُ اِلَّا نَکِدًا} [الأعراف:۵۸]
''جو صاف ستھری امین ہوتی ہے اس کی پیداوار اللہ کے حکم سے خوب نکلتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے اس کی پیداوار بہت کم نکلتی ہے۔''
لہٰذا لوگوں کے سلوک اور ان کی زندگیوں کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ مصلح سب سے پہلے نفوس کی اصلاح اور تزکیے کا اہتمام کرے اور ان میں اچھے اخلاق کا بیج بوئے تاکہ وہ من حیث الجمیع کامل شخصیت کو پیدا کرسکے۔ اسی طرح انسان انسان کی زندگی میں سعادت وشقاوت، آسانی وسختی، نرمی ودرشتی اور قلق وطمانیت وخیرہ جیسے تغیرات بھی تبھی وقوع پذیر ہوتے ہیں جب انسان کے اندر موجود عادات وصفات تبدیل ہوں، اور اگر وہی نہ بدلیں تو انسان کی زندگی میں بھی چنداں تبدیلی واقع نہیں ہو پاتی۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
{اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِأَنْفُسِھِمْ}
''بلاشبہ اللہ تعالیٰ تب تک کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدلیں۔''
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اسلام میں اخلاق کا مقام:
اسلام میں اخلاق کو بہت ہی عظیم رتبہ ومقام اور حیثیت حاصل ہے، جو متعدد وجوہ سے نمایاں ہوتا ہے، ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
(۱) رسول اللہﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد اخلاقِ حسنہ کی تکمیل بتلایا ہے۔ آپﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
((اِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأَخْلَاقِ))
''مجھے تو اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔''
(۲) دِین کی تعریف حسنِ اخلاق کرنا۔ جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ ایک آدمی نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! دِین کیا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: دِین اچھا اخلاق ہے۔ یعنی اچھا اخلاق دِینِ اسلام کا وہ عظیم رُکن ہے کہ جس کے بغیر دِین مکمل نہیں ہوتا۔
(۳) روزِقیامت انسان کے میزانِ حسنات کو بوجھل کرنے والا عمل اچھا اخلاق ہی ہو گا۔ جیسا کہ نبیﷺ نے فرمایا:
((أَثْقَلُ مَا یُوْضَعُ فِی الْمِیْزَانِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ: تَقْوْی اللّٰہِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ))
''روزِقیامت میزانِ حسنات میں رکھے جانے والے اعمال میں سب سے وزنی عمل اللہ کا ڈر اور حسنِ اخلاق ہو گا۔''
(۴) مسلمان اخلاق کے باعث ہی ایک دوسرے پر فضیلت ودرجہ پاتے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ فضیلت اور عالی درجے کا حامل وہ شخص ہوتا ہے جو بہ لحاظِ اخلاق ان سب سے اچھا ہوتا ہے۔ نبی مکرمﷺ سے کسی نے سوال کیا کہ مومنین میں سے افضل کون ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: جو ان میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والا ہے۔
(۵) لوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ محبت رکھنے کے باعث روزِقیامت کامیابی اور حضورؐ کے قرب کے حصول میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی جستجو میں ہوں گے اور بہت سے مسلمان آپ کے ساتھ عقیدت ونیازمندی کے صدقے ہی کامیابیاں اور آپ کا تقرب پا لیں گے، یہ وہ لوگ ہوں گے کہ اخلاقِ حسنہ جن کا وصف ہو گا، کیونکہ نبی مکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
((اِنَّ أَحَبَّکُمْ اِلَیَّ وَأَقْرَبَکُمْ مِنِّیْ مَجْلِسًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَحَاسَنُکُمْ أَخْلَاقًا))
''یقینا مجھے تم سب سے زیادہ محبوب اور روزِقیامت بااعتبادِ مجلس میرے سب سے زیادہ قریب تم میں سے وہ شخص ہو گا جو تم سب سے زیادہ اچھے اخلاق کا مالک ہو گا۔''
(۶) اچھا اخلاق اسلام کا ایک امرِلازم ہے اور حصولِ جنت اور نجاتِ نار کے لیے حتمی شرط ہے۔ اس شرط کے عدمِ وجود سے مسلمان کی نماز وروزہ بھی قبولیت سے ہمکنار نہیں ہوتے۔ جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں مذکور ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبیﷺ سے ایک ایسی عورت کا ذِکر کیا کہ جو نماز وروزے کی تو بہت پابند تھی لیکن اس کی بدزبانی سے اس کے ہمسائے بہت تنگ تھے، تو نبیﷺ نے اس عورت کے بارے میں فرمایا:
((لَا خَیْرَ فِیْھَا، ھِیَ فِی النَّارِ))
''اس میں خیروبھلائی نہیں ہے، وہ جہنمی عورت ہے۔''
(۷) نبیﷺ اخلاق کی اصلاح کی اللہ تعالیٰ سے دعا فرمایا کرتے تھے، حالانکہ آپﷺ اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔ نبیﷺ ان الفاظ میں دعا کیا کرتے تھے:
((اَللّٰھُمَّ کَمَا حَسَّنْتَ خَلْقِی فَحَسِّنْ خُلُقِیْ))
''اے اللہ! جس طرح تو نے مجھے خوش شکل بنایا ہے اسی طرح میرے اخلاق کو بھی اچھا کر دے۔''
((اَللّٰھُمَّ اھْدِنِی لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ فَاِنَّہٗ لَا یَھْدِیْ لِأَحْسَنِھَا اِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّی سَیِّئَھَا فَاِنَّہٗ لَا یَصْرِفُ عَنِّی سَیِّئَھَا اِلَّا أَنْتَ))
''اے اللہ! میری احسن اخلاق کی جانب راہنمائی فرما؛ کیونکہ اچھے اخلاق کی جانب تیرے سوا کوئی راہنمائی نہیں کر سکتا، اور برے اخلاق کو مجھ سے دُور رکھ؛ کیونکہ مجھ کو صرف تو ہی برے اخلاق سے دُور رکھ سکتا ہے۔''
احادیث سے یہ بات بھی احاطۂ علم میں آتی ہے کہ نبی کریمﷺ ہمیشہ اسی چیز اور عمل کی دعا فرمایا کرتے تھے جسے آپ پسند کرتے تھے، گویا اخلاقِ حسنہ سے متصف ہونا اور اخلاقِ سیئہ سے اجتناب کرنا آپﷺ کو بہت پسند تھا۔
(۸) اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کا اچھے اخلاق سے متصف ہونے پر تعریف فرمائی ہے، جیسا کہ فرمایا:
{وَاِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ} [القلم:۴]
''اور بلاشبہ آپ اخلاق کے عظیم درجے پر فائز ہیں۔''
یقینی طور پر اللہ تعالیٰ اپنے محبوب پیغمیبر کی تعریف ایسے عمل پر ہی کر سکتا ہے جو اس کے ہاں عظیم تر ہوتا ہے اور اسلام میں بھی نہایت اعلیٰ درجے کا حامل عمل ہوتا ہے۔
(۹) قرآنِ کریم کی بہت سی آیات اخلاق کے موضوع سے متعلق ہیں، جن میں سے بعض میں اس کے اہتمام کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے اور بعض میں اس سے متصف لوگوں کی مدح وستائش اور خداتعالیٰ کی جانب سے ان پر انعامات وعنایات کا ذِکر ہے۔ اسی طرح بعض آیات میں اخلاقِ سیئہ کے ارتکاب کی ممانعت اور مذمت بیان ہوئی ہے اور بعض میں اس کے مرتکبین کی سزا کا ذِکر ہوا ہے۔ چنانچہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن میں اس موضوع پر اس کثرت سے آیات کا ورود اس کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اسلام اخلاق کی ہمہ گیر دعوت دیتا ہے:
اسلام اخلاقِ کریمہ کی عام دعوت دیتا ہے، اس میں صرف اپنے والوں کو ہی خاص نہیں کرتا، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے:
{وَقُلْ لِعِبَادِی یَقُوْلُ الَّتِیْ ھِیَ أَحْسَنُ اِنَّ الشَّیْطَانَ یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ اِنَّ الشَّیْطَانَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُبِیْنًا} [الاسرائ:۵۳]
''اور میرے بندوں سے کہہ دیجیے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالا کریں، کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے اور بلاشبہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔''
اس آیت میں جو ''اچھی بات'' کا لفظ بولا گیا ہے اس سے مراد ہر وہ اچھی اور پاکیزہ بات ہے جو جو انسان سے اس کی ہرگفتگو اور ہر کلام میں مطلوب ہوتی ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ}
''اور وہ (اللہ) بے حیائی، برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، تمہیں نصیحت کرتا ہے؛ شاید کہ تم نصیحت پکڑو۔''
اس آیت میں بھی سبھی لوگوں کو مخاطب کر کے اخلاقِ رزیلہ سے دُور رہنے کی عام دعوت دی گئی ہے۔ اس ضمن میں سنتِ نبویہ میں بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
جیسا کہ نبی کریمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
((اِتَّقِ اللّٰہَ حَیْثُمَا کُنْتَ، وَاتْبَعِ السَّیِّئَۃَ الْحَسَنَۃَ تَمْحُھَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ))
''تو جہاں بھی ہو اللہ سے ڈرتا رہ، برائی ہو جانے کے بعد نیکی کر لیا کر؛ وہ اس (کے گناہ) کو زائل کر دے گی اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آ۔''
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اخلاق کی ہمہ گیر دعوت کی قرآنی مثالیں:

(۱) ایفائے عہد کا حکم:
{وَأَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْؤُوْلًا} [الاسرائ:۳۴]
''اور وعدے کو پورا کرو کیونکہ وعدے کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔''
(۲) ایسی بات کرنے کی ممانعت کہ جس کے بارے میں علم نہ ہو:
{وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا} [الاسرائ:۳۶]
''جس بات کا تجھے علم ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ' کیونکہ کان؛ آنکھ اور دل' ان میں سے ہر ایک کے بارے میں باز پُرس ہوگی۔''
(۳) اکڑ اکڑ کر چلنے کی ممانعت، جس طرح متکبر لوگ چلتے ہیں:
{وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا} [لقمان:۱۸]
''اورزمین پر اترا کرنہ چل، یقینا تو نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ ہی تو پہاڑ کی لمبائی تک پہنچ سکتا ہے۔''
(۴) اسراف وتبذیر اور بخل وکنجوسی سے ممانعت:
{وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا۔ اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا} [الاسرائ:۲۶' ۲۷]
''رشتہ داروں' مسکینوں اور مسافروں کا حق اداکرتے رہواور اسراف وفضول خرچی سے بچو۔یقینا فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اورشیطان اپنے رب کا بڑاناشکرا ہے۔''
اور فرمایا:
{وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا} [الاسرائ:۲۹' ۳۰]
''نہ ہی اپنے ہاتھ کو کھینچ کر گردن سے باندھ لے اورنہ ہی اسے کھلاچھوڑ دے کہ پھر ملامت کیا ہوادرماندہ بیٹھ جائے۔''
(۵) تمام احوال میں تمام لوگوں کے ساتھ عدل کرنے حکم، خواہ کوئی کافر ہی کیوں نہ ہو:
{وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی} [الانعام: ۱۵۲]
''اور جب بھی تم بات کرو تو عدل کی کرو، خواہ کوئی قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو۔''
اور فرمایا:
{وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلیٰ أَنْ لَا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی} [المائدۃ:۸]
''اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات کا مجرم نہ بنا دے کہ تم عدل ہی نہ کرو، عدل کرو؛ یہی تقوٰی کے قریب تر ہے۔''
(۶) نیکی، اچھائی اور لوگوں کے لیے فائدہ مند کاموں میں تعاون کا حکم اور برائی وزیادتی کے کاموں میں تعاون کی ممانعت:
{وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ} [المائدۃ: ۲]
''اور تم نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور ظلم اور زیادتی میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو' یقینا اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔''
(۷) ظلم کو روزِقیامت اندھیروں کا باعث گناہ قرار دیا گیاہے۔ پھر ظلم کی مختلف صورتیں ہیں، جن میں سے قبیح ترین صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کی جائے اور اس کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کیا جائے۔ ایسا ظالم دربارِایزدی سے دھتکار دیا جاتا ہے، اس پر سے اللہ کا ہاتھ اٹھ جاتا ہے اور وہ رُسوا ہو کر رہ جاتا ہے۔
{وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اُولٰٓئِکَ یُعْرَضُوْنَ عَلٰی رَبِّھِمْ وَیَقُوْلُ الْاَشْھَادُ ھٰٓؤْلَآئِ الَّذِیْنَ کَذَبُوْا عَلٰی رَبِّھِمْ اَلَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ} [ہود:۱۸]
''اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جواللہ تعالیٰ پرجھوٹ باندھے؟یہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے پیش کیے جائیںگے اورسارے گواہ کہیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پرجھوٹ باندھا' خبردار! ظالموں پراللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔''
{وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ہٗ اَلَیْسَ فِیْ جَھَنَّمَ مَثْوًی لِّلْکٰفِرِیْنَ} [العنکبوت:۶۸]
''اوراس سے بڑاظالم کون ہوگا جواللہ تعالیٰ پرجھوٹ باندھے؟ یاجب حق اس کے پاس آجائے توووہ اسے جھٹلائے' کیا ایسے کافروںکاٹھکانہ جہنم میںنہ ہوگا؟''
{تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ} [البقرۃ: ۲؍۲۲۹]
''یہ اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں سوتم ان سے تجاوز نہ کرو اورجو اللہ تعالیٰ کی حدود سے متجاوز ہوتاہے وہی ظالم ہے۔''
{وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ أَنْصَارٍ} [البقرۃ: ۲۷۰]
''اور ظلم کرنے والوں کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔''
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
(۸) صبر ایمان کا جزوِلازم ہے، اس کا اسی طرح مقام ہے جیسے جسم میں سر کی حیثیت ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے فیصلوں پر صبر کرنا ہر شخص کے لیے حتمی اور ضروری امر ہے، اسی کے صلے میں اس کا شمار نیکوکار لوگوں میں ہوگا اور اللہ کی رحمت کے مستحق بھی نیکوکار لوگ ہی ہوتے ہیں۔ اسی لیے اسلام نے اس کا حکم دیا ہے:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} [آل عمران: ۲۰۰]
''اے ایمان والو! تم ثابت قدم رہو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور جہاد کے لیے تیار رہواور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جائو۔''
{وَاصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ} [ھود:۱۱۵]
''اور صبر کرو، کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نیکوکار لوگوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔''
{فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّلَا یَسْتَخِفَّنَّکَ الَّذِیْنَ لَا یُوْقِنُوْنَ} [الروم:۶۰]
''پس آپ صبر کیجیے، یقینا اللہ کا وعدہ حق ہے اور آپ کو وہ لوگ ہلکا (بے صبرا) نہ کریں جو یقین نہیں رکھتے۔''
{وَاصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ} [الأنفال:۴۶]
''اور صبر سے کام لو' یقینا اللہ تعالیٰ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔''
(۹) سچائی ایمان کی علامات میں سے ہے، اسی لیے اسلام نے اس کا حکم دیا ہے:
{یَآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُو اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ} [التوبۃ:۱۱۰]
''اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔''
(۱۰) جھوٹ نہایت بری خصلت ہے بلکہ نفاق کی ایک شاخ ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی مذمت فرمائی ہے:
{اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ} [المومن:۲۸]
''یقینا اللہ تعالیٰ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو زیادتی کرنے والا اور جھوٹ بولنے والا ہو۔''
{فَاَعْقَبَھُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِھِمْ اِلٰی یَوْمِ یَلْقَوْنَہٗ بِمَآ اَخْلَفُوا اللّٰہَ مَا وَعَدُوْہُ وَ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ} [التوبۃ:۷۷]
''پس اس کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے نفاق ان کے دِلوں میں ڈال دیا اللہ سے ملاقات کے دِن تک، کیونکہ انہوں نے اللہ سے کیے ہوئے وعدے کی خلاف ورزی کی اور جھوٹ بولتے رہے۔''
(۱۱) تکبر، خودپسندی، فخر، بخل، ریاکاری اور نمودونمائش وغیرہ تمام اخلاقِ رزیلہ کی صورتیں ہیں جو اگر کسی دِل میں گھس جائیں تو اسے مردہ اور بے نور کردیتی ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے منع فرمایا ہے:
{وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ} [لقمان: ۱۸]
''لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اورزمین پر اتراکرنہ چل' کسی تکبرکرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔''
{اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا۔ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَیَکْتُمُوْنَ مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَاَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا۔ وَالَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ رِئَآئَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَنْ یَّکُنِ الشَّیْطٰنُ لَہٗ قَرِیْنًا فَسَآئَ قَرِیْنًا} [النسائ: ۳۶۔۳۷۔۳۸]
''یقینا اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔ جو لوگ خود کنجوسی کرتے ہیں اور کنجوسی کی ہی دوسر وں کو تلقین کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو اپنا فضل انہیں د ے رکھا ہے اسے چھپا لیتے ہیں' ہم نے ان کافروں کے لیے ذلت کی مارتیارکررکھی ہے۔ اور جو لوگ اپنے مال لوگوں کے دکھلاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں، حالانکہ نہ تو ان کا اللہ پر ایمان ہوتا ہے اور نہ ہی یومِ آخرت پر، اور شیطان جس شخص کا ساتھی بن جاتا ہے تو وہ بہت ہی برا ساتھی ہے۔''
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
(۱۲) چلتے ہوئے اعتدال سے چلنا اور بات کرتے ہوئے دھیمی آواز سے بولنا اسلام کے مطلوب امور میں سے ہے، اسی لیے فرمایا:
{وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ} [لقمان: ۱۹]
''اپنی آواز میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز کوپست رکھ یقینا آوازوں میں سے سب سے بدتر آواز گدھے کی ہے۔''
(۱۳) حق پر ثابت قدمی اور عبادت واطاعت پر دوام بھی اسلام کا مطلوب ہے، کیونکہ اعمال کا دارومدار خاتموں پر ہوتا ہے، اور بغیر استقامت وثابت قدمی کے اجروثواب کا حصول بھی ممکن نہیں ہوتا:
{اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ} [حٰم السجدۃ:۳۰]
''بلاشبہ وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر وہ ڈٹ گئے، تو ایسے لوگوں پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے، یہ کہ نہ تم خوف کھاؤ اور نہ ہی غمزدہ ہو، اور اس جنت کی بشارت سے خوش ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔''
(۱۴) خیانت اور کینہ وبغض سے پاک رہنے کا نسخہ اسلام نے یہ دعا بتلائی ہے:
{رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلاَ تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِِنَّکَ رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌ} [الحشر: ۵۹؍۱۰]
''اے ہمارے رب!ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ہم پرایمان سے سبقت لے چکے ہیں بخش دے' اورہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لیے بغض پیدانہ فرما' یقینا تو ہی شفقت ورحم کرنے والا ہے۔''
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
(۱۵) جاہل شخص سے الجھنے سے بچاؤ کا طریقہ اسلام نے اس سے اعراض بتلایا ہے:
{خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ} [الأعراف:۱۹۹]
''آپ درگزر اختیار کریں اور نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کش ہوجائیں۔''
(۱۶) اخلاق کے باب میں اسلام کی جامع تعلیمات ان آیات میں ملاحظہ کیجیے:
{ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ یَسْخَرْ قَومٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ وَلاَ نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ وَلاَ تَلْمِزُوٓا اَنفُسَکُمْ وَلاَ تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔ یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِِثْمٌ وَّلاَ تَجَسَّسُوا وَلاَ یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ۔} [الحجرات: ۱۱۔۱۲]
''اے ایمان والو!مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں' ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اورنہ ہی عورتیں' عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں اورآپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگائو، اور ایک دوسرے کو برے القابات مت دو' ایمان کے بعد فسق برانام ہے اورجو (اپنے اس برے فعل سے)توبہ نہ کریں وہی لوگ ظالم ہیں۔ اے ایمان والے لوگو!بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو' یقینا بعض گمان گناہ ہیں اورجاسوسی بھی مت کیا کرو، اورتم میں سے کوئی بھی کسی کی غیبت نہ کرے' کیاتم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟تم اسے تو ناپسند کرتے ہو' اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یقینا اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والارحم کرنے والاہے۔ ''
{قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلاَتِہِمْ خَاشِعُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ۔ اِِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ۔ فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْعَادُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمَانٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوَاتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ۔ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْوَارِثُوْنَ۔ الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ۔} [المومنون: ۱ تا۱۱]
''ایمان والے کامیاب ہوگئے ہیں جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں' لغویات سے اعراض کرتے ہیں' زکوۃ ادا کرنے والے ہیں' اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں مگر اپنی بیویوں اور لونڈیوں پر کیونکہ یہ ملامت کی جانے والی نہیں ہیں۔جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہ حد سے تجاوز کرجانے والے ہیں' جو (مومنین) اپنی امانتوں اور وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں اور اپنی نمازوں کا خیال رکھنے والے ہیں' یہی لوگ تو وارث ہیں جو(جنت)فردوس کے وارث ہوں گے' جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔''
{وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔ وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا۔ وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ اِِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا۔ اِِنَّہَا سَآئَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا۔ وَالَّذِیْنَ اِِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا۔ وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا اٰخَرَ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِِلَّا بِالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا۔ یُّضٰعَفْ لَہٗ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہٖ مُہَانًا۔ اِِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۔ وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِِنَّہٗ یَتُوْبُ اِِلَی اللّٰہِ مَتَابًا۔ وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ وَاِِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا۔ وَالَّذِیْنَ اِِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْہَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا۔ وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِِمَامًا۔ اُوْلٰٓئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّۃً وَّسَلٰمًا۔ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا۔} [الفرقان: ۶۳ تا ۷۶]
''اور رحمان کے بندے وہ ہیں جوزمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اورجب بے علم لوگ ان سے باتیں کرتے ہیں تو وہ(ان سے الجھتے نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں)سلام ہو۔ اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزار دیتے ہیں۔ اور جو یہ دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم سے دوزخ کا عذاب دُور ہی رکھ، کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔ یقینا وہ ٹھہرنے اور رہنے کے لحاظ سے بدترین جگہ ہے۔ اور جو لوگ خرچ کرتے وقت بھی نہ تو اسراف کرتے ہیں اور نہ ہی بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں۔ اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو کہ جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے اور نہ ہی وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں، جو کوئی یہ کام کرے گا وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا۔ اسے قیامت کے دِن دوہرا عذاب کیا جائے گا اور وہ ذِلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا، سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔ جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وہ (حقیقتاً) اللہ تعالیٰ کی طرف سچا رجوع کرتا ہے۔ اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں۔ اور جب انہیں ان کے رب کے کلام کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ اندھے بہرے ہو کر ان پر نہیں گرتے۔ اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند وبالا خانے دیے جائیں گے؛ جہاں انہیں دعاسلام پہنچایا جائے گا۔ اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے، وہ بہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے۔''
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اخلاق کی ہمہ گیر دعوت کی احادیث سے مثالیں:

(۱) غصے سے ممانعت:
ایک آدمی نے نبیﷺ سے عرض کیا کہ مجھے وصیت فرمائیے، تو آپﷺ نے یہ وصیت فرمائی:
((لَا تَغْضَبْ))
''غصہ مت کر۔''
(۲) حیاء کے بارے میں بہت سی احادیچ مروی ہیں، جن مین سے چند ایک یہ ہیں:
((اَلْحَیَائُ مِنَ الْاِیْمَانِ))
''حیاء ایمان کا حصہ ہے۔''
((اَلْحَیَائُ لَا یَأْتِی اِلَّا بِخَیْرٍ))
''حیاء خیروبھلائی ہی کا باعث ہے۔''
((اَلْحَیَائُ خَیْرٌ کُلُّہٗ))
''حیاء سارے کا سارا خیروبھلائی ہے۔''
((اِذَا لَمْ تَسْتَحِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ))
''جب تجھ میں شرم ہی نہ رہے تو جو چاہے کر۔''
(۳) ایک دوسرے کی مدد کرنا:
((اَللّٰہُ فِیْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَاکَانَ الْعَبْدُ فِیْ عَوْنِ أَخِیْہِ))
''اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کی مدد میں لگے رہتے ہیں جب تک بندہ اپنے (مسلمان)بھائی کی مدد میں رہتاہے۔''
(۴) حقوق وفرائض اور بعض برے اخلاقیات سے ممانعت:
((اَلْمُسْلِمُ أَخُوالْمُسْلِمِ لَایَظْلِمُہٗ وَلَایُسْلِمُہٗ))
''مسلمان مسلمان کا بھائی ہے' وہ نہ تو اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے مصیبت میں ڈالتا ہے۔''
((لَاتَحَسَُّسوْا' وَلَاتَجَسَّسُوْا' وَلَاتَنَافَسُوْا' وَلَاتَحَاسَدُوْا' وَلَا تَبَاغَضُوْا))
''نہ تم ٹوہ لگائو' نہ ہی جاسوسی کرو' نہ دنیوی امور میں بہت زیادہ رغبت رکھو' نہ آپس میں حسدکرو اورنہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھو۔''
((کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُہٗ وَمَالُہٗ وَعِرْضُہٗ))
''ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔''
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
(۵) منافقوں کی خصلتیں اپنانے سے ممانعت:
((أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقاًخَالِصاً' وَمَنْ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنْھُنَّ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتّٰی یَدَعَھَا: اِذَا ؤْتُمِنَ خَانَ' وَاِذَا حَدَّثَ کَذَبَ' وَاِذَا عَاھَدَ غَدَرَ' وَاِذَا خَاصَمَ فَجَرَ))
''چار خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اورجس میں ان میں سے ایک خصلت پائی جاتی ہوگی تواس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی' جب تک کہ وہ اسے چھوڑنہیں دیتا: (۱)جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرے' (۲)جب بات کرے توجھوٹ بولے' (۳)جب کسی سے وعدہ کرے توخلاف ورزی کرے اور(۴)جب کسی سے جھگڑے توگالیاں دے۔''
(۶) بردباری اور وقار:
نبیﷺ نے اشج بن عبدالقیس سے فرمایا تھا:
((إِنَّ فِیکَ خَصْلَتَیْنِ یُحِبُّہُمَا اللّٰہُ وَرَسُولُہُ: الْحِلْمُ وَالْأَنَاۃُ))
تم میں دوخصلتیں ایسی ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ اوراس کارسول پسندفرماتے ہیں:بردباری اوروقار۔
(۷) نرمی:
((اِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ))
''یقینا اللہ تعالیٰ بہت نرم ہے (اور) نرمی کو ہی پسند فرماتا ہے۔''
((مَنْ حُرِمَ الرِّفْقَ حُرِمَ الْخَیْرَ))
جو شخص نرمی سے محروم کردیاگیا' وہ بھلا ئی سے محروم کردیا گیا۔
(۸) اخلاص کا حکم اور ریاکاری سے ممانعت:
((اِنَّمَاالْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِامْرِیئٍ مَانَوٰی'فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَہِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ'وَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہٗ اِلیٰ دُنْیَا یُصِیْبُہَاأَوِامْرَأَۃٍ یَتَزَوَّجُہَافَہِجْرَتُہٗ اِلیٰ مَاہَاجَرَاِلَیْہِ))۔
''اعمال کا دارومدارنیتوںپرہیـــ، اورہرشخص کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے نیت کی'سوجس شخص کی ہجرت اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی خاطرہوتواس کی ہجرت اللہ اوراس کے رسولﷺکی خاطرہی(شمار)ہوگی'لیکن جس کی ہجرت دنیاکوحاصل کرنے یاکسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہوتواس کی ہجرت اسی میںشمار کی جائے گی جس کی طرف اس نے ہجرت کی۔''
(۹) لڑائی جھگڑے سے ممانعت:
((َٔنَا زَعِیمٌ بِبَیْتٍ فِی رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ یَتْرُکِ الْمِرَاء َ وَإِنْ کَانَ مُحِقًّا، وَبَیْتٍ فِی وَسَطِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْکَذِبَ وَإِنْ کَانَ مَازِحًا، وَبِبَیْتٍ فِی أَعْلَی الْجَنَّۃِ لِمَنْ حَسُنَ خُلُقُہٗ))
''میں اس شخص کے لیے جنّت کے ایک گوشے میں بنے گھرکاضامن ہوں جوحق پرہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے، اور درمیانِ جنّت(میں قائم گھر)کی اس کے لیے ضمانت دیتا ہوں جومزاح میں بھی جھوٹ بولناچھوڑ دے اورجنّت کے اعلٰی درجے میں تعمیرگھرکااس کے لیے ضامن ہوں جس کااخلاق اچھاہو۔''
(۱۰) بدزبانی سے ممانعت:
((لَیْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلَااللَّعَّانِ وَلَاالْفَاحِشِ ولَاالْبَذِیْئَ))
''مومن نہ تو طعن زنی کرتا ہے اور نہ ہی لعنت کرتا ہے' نہ فحش گفتگو کرتا ہے اور نہ ہی زبان درازی کرتا ہے۔''
 
Top