ابن حلبی
مبتدی
- شمولیت
- نومبر 23، 2013
- پیغامات
- 38
- ری ایکشن اسکور
- 23
- پوائنٹ
- 19
جب مسلمان روحانی زوال، مادی اور فکری پستی اور سیاسی انحطاط کا شکار ہوئے تو ان کے افکار بھی ان کے برے حالات کے مطابق ہوگئے۔ اسلام پر کاربند رہنے والوں کے افکار بھی ایسے ہوگئے جو حقیقتاً اسلام اور زندگی کے بارے میں اسلام کے نقطہ نظر سے پیدا ہونے والے افکار نہیں تھے بلکہ یہ افکار اسلام کے حقائق کے بارے میں غلط فہمی،نا سمجھی اور زندگی کے بارے میں اسلام کے نقطہ نظر کو نہ سمجھنے کی وجہ سے تھے۔ پھر جب استعماری کافر نے مسلمانوں کے امور کنٹرول حاصل کیا ، تو انہوں نے اپنے تصورات اور فکری پیمانے مسلمانوں کے درمیان پھیلادیے۔ استعمار نے مسلمانوں کے اندر اپنے افکار کا ایسا بیج بویا کہ جس کے پھل کا ذائقہ اس سے مختلف تھا جس سے مسلمان واقف تھے ،مگراستعمار نے اسے مسلمانوں کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کیا۔ استعمارنے یہ سب اپنے مفادات کے لیے کیا ۔ کمزوری اسلام میں نہیں تھی بلکہ کمزوری ان اہلِ اسلام کی تھی جو اسلام کی صحیح طرح پابندی نہیں کرسکے اور صحیح فہم کھو بیٹھے تھے ۔ انہوں نے صورت حال سے متاثرہوکر اور مصلحت پر مبنی فہم کے ذریعے استعمار کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن یہ ٹیڑھی کوششیں اورغلط اقدامات جلد ہی مسلمانوں کی ناکامی پر منتج ہوئے ۔ استعماری کفار دندناتے رہے اورانہیں روکنے والا یا دھتکارنے والا کوئی نہیں تھا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ان استعماری کفارنے اسلام پر کس طرح حملہ کیا؟ اور مسلمانوں نے اس کا کیا جواب دیا؟
استعماری کفارنے اسلام پر حملے کرتے ہوئے الزام لگایاکہ اسلام موجودہ زمانے کے ساتھ نہیں چل سکتااور نئے مسائل کا حل نہیں دے سکتا۔ مسلمانوں نے اس کے جواب میں سرمایہ دارانہ نظام کے نقطہ ہائے نظر کی بنیاد پرنئے مسائل کا اسلامی حل دینے کی کوشش کی۔ باوجود یہ کہ سرمایہ داری نظام جس بنیاد پر قائم ہے وہ اسلام کی بنیاد سے بالکل ٹکراتا ہے۔ مسلمانوں نے ان دو بالکل مخالف بنیادوںکے درمیان موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ یوں انہوں نے ایسی غلط تاویلات کرنا شروع کیں جس سے غلط تصورات اور غلط پیمانے پیدا ہوئے۔ اور پھر ان کی اسلامی شریعت کی طرف جھوٹی نسبت کی گئی ۔ مقصد یہ تھا کہ اسلام اور سرمایہ داریت کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جائے، اور یہ ظاہر کیا جائے کہ اسلام موجودہ زمانے کے ساتھ ساتھ چل سکتاہے۔ اس وجہ سے ان افکار ، قواعد اور پیمانوں کو اس بنیادپر اختیار کیا جانے لگا کہ یہ اسلامی افکار، قواعد اور پیمانے ہیں،اور اسلام کو ان کے ذریعے سمجھا جانے لگا۔ حالانکہیانہیں اختیار کرنے کا مطلب اسلام کو چھوڑنا اور سرمایہ داریت کی پیروی کرنا تھا۔ کفر سے موافقت یا ایسی موافقت سے متاثر ہر دعوت اسلام کو چھوڑنے اور کفر کو اختیار کرنے کی دعوت ہے۔ نیز یہ مسلمانوں کو کفریہ افکار کو اختیار کرنے اور سچی اسلامی دعوت کو چھوڑنے کی دعوت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانوں نے انحطاط کے زمانے میں ایسے افکار کے ذریعے امت کو انحطاط سے نکالنے کی کوشش کی تو صورتِ حال بد سے بد تر ہو گئی۔ یہ لوگ امت کو پستی کے اس گڑھے سے نہ نکال سکے بلکہ خود اس گڑھے میں گر گئے۔
یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں نے قصداًیا لاعلمی میں اسلامی شریعت کے خلاف زبان درازی شروع کر دی ۔ ان کا دعویٰ یہ تھا کہ اسلامی شریعت غیر عقلی ہے، رسول اللہ اکی بعثت کو چودہ سو سال گزر گئے ہیںپس ہمیں اس صدیوںپرانی سوچ کے مطابق نہیں سوچنا چاہیے بلکہ ہمیں اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے، اسلام میں جدت لانی چاہئے تاکہ یہ حالات کے مطابق ہو سکے اور اسلام دوبارا قیادت حاصل کر سکے۔ اسلام کو نیا لباس پہنانا چاہیے، اس میں کچھ نئے افکار کو ضم کرنا چاہیے تاکہ دل دوبارااسے قبول کریں، اس کے ابہام کو بھی دور کیا جائے اور اسلام کو دوسروں کی تہمتوں سے بھی بچا جائے۔ یعنی اسلام کی قدیم صورت مقبول نہیں رہی۔
پس بعض مسلمان اٹھے اور انہوں نے ایسے بہت سے افکار کو اپنایا اور انہیں اپنی فکری بنیاد کے طور پر اختیار کر لیا ، اور اپنی لیے ایک راہ متعین کر لی،اور زندگی کے بارے نیا نقطۂ نظر اختیار کیا۔ ہم انہیںدورِ انحطاط کے افکار کہتے ہیں، یہ ہمارے ملکوں میں فاسد مغربی تہذیب کی نشوونما کے ساتھ ظاہر ہوئے۔ ان مسلمانوں نے یہ خیال کیا کہ زمانے کے ساتھ چلنا، مغرب کی بلند فکر سے استفادہ کرنا شریعت کی ضرورت ہے اورزمانے میں اسلام کو باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
اس کے نتیجے میں اس نقطہ نظر سے متاثرہ افکار کی بھر مار ہوگئی جیسے ''دین لچکدار اور ترقی پسندہے''، ''کچھ کو حاصل کراورپھر مزید کا مطالبہ کرو۔''، ''اس چیز کو قبول کیا جائے جو شریعت کے موافق ہے، یا شریعت کے مخالف نہیں ہے''، ''دو برائیوں میں سے چھوٹی برائی کواختیار کیا جا سکتا ہے''، ''اگر تم پورا حاصل نہیں کر سکتے تو اس سے کم کو مت ٹھکرائو''،''اسلام کو تدریجاً اختیار کیا جائے''، ''جمہوریت اسلام سے ہے''، ''زمانے اور جگہ کے بدلنے سے شرعی احکامات بدل جاتے ہیں''اور ''جو لوگوں کی مصلحت ہے وہی شرعی حکم ہے۔'' یہ افکار یااس قسم کے افکار فکری اصول اور فکری قواعد بن گئے جسے اسلام کی تجدیدِ نو کہا جانے لگا ، جس کا سب سے بڑاداعی میسونک (فری میسن تحریک کا رکن)جمال الدین افغانی اور اس کا میسونک شاگرد محمد عبدہ تھا، جو شیخ الاسلام کہلاتا تھا ۔
اس قسم کی باتیں کچھ لوگوں نے توبدنیتی اور خباثت سے کیں تاکہ مسلمانوں کو ان کی طاقت کے منبع سے دور کیا جائے ، ان کو اس قدر کمزور کیا جائے کہ وہ دوبارہ اللہ کے حکم کی اقامت کے لیے اٹھ کھڑے نہ ہوسکیں۔ جبکہ کچھ لوگوں نے یہی باتیں حسن ظن اور نیک نیتی سے یہ سمجھ کر کیں کہ ان میں مسلمانوں کے لیے موجودہ پستی اور زوال سے نکلنے کا سامان موجود ہے۔
ان افکار کوخواہ نیک نیتی سے پھیلایا جائے یا بدنیتی سے، حقیقتاًان کا اثر ایک ہی ہے ۔ اور ان افکار کافسادحقیقت میں ثابت ہوچکاہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دین کے معاملے میںبے نیاز کردیا ہے کیونکہ اسلام میں سب کچھ ہے اور دوسروں سے کچھ لینے کی ضرورت نہیں۔ اسلام طبعی طور پر ہی اپنے طریقے کو بھی لازم کرتا ہے کہ جس طریقے سے ہمیں اس دین کو اخذ کرنا چاہئے ۔ دینِ اسلام اللہ کی طرف سے زندگی کے امور کو حل کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ مسلمان پر فرض ہے کہ وہ صرف شرعی نصوص میں اجتہاد کرکے اللہ کا حکم معلوم کرے، نہ کہ شرعی نصوص کے علاوہ کہیں اور سے۔ زندگی کے لیے فکری قواعد بھی شرعی دلائل سے منضبط ہونے چاہئیں کیونکہ یہ بھی احکامِ شرعیہ ہیں جن کے لیے تفصیلی دلائل موجود ہیں۔ اور یہیں سے ہماری نشاة ثانیہ کی بنیاد کھڑی ہو سکتی ہے بالکل اسی طرح جیسے ماضی میں ہوئی تھی۔
یہاںشریعت کے بعض منضبط قواعد اور افکار کا ذکر کرنا بے محل نہیں ہوگا۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ انہیں اپنی ذہن میں راسخ کریں اوران کے مطابق اپنی سمت کا تعین کر یں اور انہی کے مطابق عمل کریں۔ ان قواعد کی مثالیں یہ ہیں: ''جو شریعت کا حکم ہے وہی مسلمانوں کے لیے مصلحت ہے، اس کے برعکس نہیں'' ، ''اعمال کے لیے بنیاد حکمِ شرعی کی پابندی ہے۔''، ''اشیاء کی اصل ان کا مباح ہونا ہے ،جب تک کوئی شرعی دلیل ان کی حرمت کے متعلق وارد نہ ہوئی ہو۔''، ''حسن وہ ہے جسے شرع حسن قرار دے اور قبیح وہ ہے جسے شرع قبیح قرار دے۔''، ''خیر وہ عمل ہے جس سے اللہ راضی ہو اور شر وہ ہے جس سے اللہ ناراض ہو''، ''شریعت کے نزول سے پہلے کوئی حکم نہیں ہے۔''، ''جو اللہ کے ذکر سے منہ موڑے گا تو اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی۔''، ''امت مسلمہ دوسرے لوگوں سے الگ ایک امتِ واحدہ ہے۔''، ''اسلام وطنیت، قومیت ، اشترکیت یا جمہوریت کو قبول نہیں رکھتا۔''، ''اسلام ایک بالکل منفرد طرزِزندگی ہے جوزندگی کے باقی تمام طریقوںاور نظاموں سے مختلف ہے ۔''
صرف چند شرعی نصوص سے واقفیت ہی ہم پر یہ چیز واضح کر دیتی ہے کہ ہمارے لیے اسی چیز کی پابندی کتنی اہم ہے جس پر سلف صالحین بھی کا ربند تھے اوریہ کہ ہم اس پابندی کو ترک کرنا بدعت کی راہ اختیار نہ کریںہے کیونکہ دین میں بدعت انتہائی مذموم ہے۔
رسول اللہ اکا ارشاد ہے:
(وقد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم بہ فلن تضلوا أبدا، أمرا بینا کتاب اللہ و سنة نبیہ۔)(سیرت ابن ھشام)
''میں نے تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑی ہے ،جب تک تم اسے مضبوطی سے تھامے رہو گے کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے، وہ ایک واضح چیز ہے یعنی اللہ کی کتاب اوراس کے نبی کی سنت۔''
اور(ابداً)(یعنی کبھی بھی) کے لفظ میں ہم بھی داخل ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے :
(۔۔۔وتفرق أمتی علی ثلاث و سبعین فرقة کلھا فی النار الا واحدة قالوا: ومن ھی یارسول اللہ ، قال: ماأنا علیہ وأصحابی) (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، احمد)
''...میری امت تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی ،ایک کے سوا سب جہنمی ہوں گے ،عرض کیا گیا :وہ ایک کونسا ہوگا؟ آپ انے فرمایا: جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔''
رسول اللہ انے فرمایا:
(ترکتکم علی المحجة البیضاء لا یزیغ عنھا بعدی الاکل ضال۔)(ابن ماجہ واحمد)
''میں نے تمہیں ایک روشن راستے پر چھوڑا ہے میرے بعد جو بھی اس سے ہٹ جائے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔''
اورفرمایا:
(خیرالناس قرنی ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم،) (مسلم)
''بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں پھر اس کے بعد والے پھر ان کے بعد والے۔''
مزید فرمایا:
(انہ من یعش منکم فسیری اختلافا کثیرا، وایا کم ومحدثات الأمور فان کل محد ثہ بدعہ، وکل بدعہ فی النار ۔علیکم، بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھد یین، عضوا علیھا بالنواجذ۔)(ابوداؤد و ترمذی)
''تم میں سے جوزندہ رہا وہ بہت اختلاف دیکھے گا۔ تم دین میں نت نئی باتوں سے بچو کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے، اورہر بدعت جہنم میں پہنچا دیتی ہے۔ تم میری اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کی پیروی کرو، اسی کو داڑھ کے دانتوں سے پکڑے رکھو۔''
اورفرمایا:
(کل عمل لیس علیہ أمرنا فھو رد) (البخاری و مسلم)
''ہر وہ کام مردود ہے جس کے لیے ہمارا حکم نہیں ۔"
۔ حصہ 1
استعماری کفارنے اسلام پر حملے کرتے ہوئے الزام لگایاکہ اسلام موجودہ زمانے کے ساتھ نہیں چل سکتااور نئے مسائل کا حل نہیں دے سکتا۔ مسلمانوں نے اس کے جواب میں سرمایہ دارانہ نظام کے نقطہ ہائے نظر کی بنیاد پرنئے مسائل کا اسلامی حل دینے کی کوشش کی۔ باوجود یہ کہ سرمایہ داری نظام جس بنیاد پر قائم ہے وہ اسلام کی بنیاد سے بالکل ٹکراتا ہے۔ مسلمانوں نے ان دو بالکل مخالف بنیادوںکے درمیان موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ یوں انہوں نے ایسی غلط تاویلات کرنا شروع کیں جس سے غلط تصورات اور غلط پیمانے پیدا ہوئے۔ اور پھر ان کی اسلامی شریعت کی طرف جھوٹی نسبت کی گئی ۔ مقصد یہ تھا کہ اسلام اور سرمایہ داریت کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جائے، اور یہ ظاہر کیا جائے کہ اسلام موجودہ زمانے کے ساتھ ساتھ چل سکتاہے۔ اس وجہ سے ان افکار ، قواعد اور پیمانوں کو اس بنیادپر اختیار کیا جانے لگا کہ یہ اسلامی افکار، قواعد اور پیمانے ہیں،اور اسلام کو ان کے ذریعے سمجھا جانے لگا۔ حالانکہیانہیں اختیار کرنے کا مطلب اسلام کو چھوڑنا اور سرمایہ داریت کی پیروی کرنا تھا۔ کفر سے موافقت یا ایسی موافقت سے متاثر ہر دعوت اسلام کو چھوڑنے اور کفر کو اختیار کرنے کی دعوت ہے۔ نیز یہ مسلمانوں کو کفریہ افکار کو اختیار کرنے اور سچی اسلامی دعوت کو چھوڑنے کی دعوت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانوں نے انحطاط کے زمانے میں ایسے افکار کے ذریعے امت کو انحطاط سے نکالنے کی کوشش کی تو صورتِ حال بد سے بد تر ہو گئی۔ یہ لوگ امت کو پستی کے اس گڑھے سے نہ نکال سکے بلکہ خود اس گڑھے میں گر گئے۔
یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں نے قصداًیا لاعلمی میں اسلامی شریعت کے خلاف زبان درازی شروع کر دی ۔ ان کا دعویٰ یہ تھا کہ اسلامی شریعت غیر عقلی ہے، رسول اللہ اکی بعثت کو چودہ سو سال گزر گئے ہیںپس ہمیں اس صدیوںپرانی سوچ کے مطابق نہیں سوچنا چاہیے بلکہ ہمیں اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے، اسلام میں جدت لانی چاہئے تاکہ یہ حالات کے مطابق ہو سکے اور اسلام دوبارا قیادت حاصل کر سکے۔ اسلام کو نیا لباس پہنانا چاہیے، اس میں کچھ نئے افکار کو ضم کرنا چاہیے تاکہ دل دوبارااسے قبول کریں، اس کے ابہام کو بھی دور کیا جائے اور اسلام کو دوسروں کی تہمتوں سے بھی بچا جائے۔ یعنی اسلام کی قدیم صورت مقبول نہیں رہی۔
پس بعض مسلمان اٹھے اور انہوں نے ایسے بہت سے افکار کو اپنایا اور انہیں اپنی فکری بنیاد کے طور پر اختیار کر لیا ، اور اپنی لیے ایک راہ متعین کر لی،اور زندگی کے بارے نیا نقطۂ نظر اختیار کیا۔ ہم انہیںدورِ انحطاط کے افکار کہتے ہیں، یہ ہمارے ملکوں میں فاسد مغربی تہذیب کی نشوونما کے ساتھ ظاہر ہوئے۔ ان مسلمانوں نے یہ خیال کیا کہ زمانے کے ساتھ چلنا، مغرب کی بلند فکر سے استفادہ کرنا شریعت کی ضرورت ہے اورزمانے میں اسلام کو باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
اس کے نتیجے میں اس نقطہ نظر سے متاثرہ افکار کی بھر مار ہوگئی جیسے ''دین لچکدار اور ترقی پسندہے''، ''کچھ کو حاصل کراورپھر مزید کا مطالبہ کرو۔''، ''اس چیز کو قبول کیا جائے جو شریعت کے موافق ہے، یا شریعت کے مخالف نہیں ہے''، ''دو برائیوں میں سے چھوٹی برائی کواختیار کیا جا سکتا ہے''، ''اگر تم پورا حاصل نہیں کر سکتے تو اس سے کم کو مت ٹھکرائو''،''اسلام کو تدریجاً اختیار کیا جائے''، ''جمہوریت اسلام سے ہے''، ''زمانے اور جگہ کے بدلنے سے شرعی احکامات بدل جاتے ہیں''اور ''جو لوگوں کی مصلحت ہے وہی شرعی حکم ہے۔'' یہ افکار یااس قسم کے افکار فکری اصول اور فکری قواعد بن گئے جسے اسلام کی تجدیدِ نو کہا جانے لگا ، جس کا سب سے بڑاداعی میسونک (فری میسن تحریک کا رکن)جمال الدین افغانی اور اس کا میسونک شاگرد محمد عبدہ تھا، جو شیخ الاسلام کہلاتا تھا ۔
اس قسم کی باتیں کچھ لوگوں نے توبدنیتی اور خباثت سے کیں تاکہ مسلمانوں کو ان کی طاقت کے منبع سے دور کیا جائے ، ان کو اس قدر کمزور کیا جائے کہ وہ دوبارہ اللہ کے حکم کی اقامت کے لیے اٹھ کھڑے نہ ہوسکیں۔ جبکہ کچھ لوگوں نے یہی باتیں حسن ظن اور نیک نیتی سے یہ سمجھ کر کیں کہ ان میں مسلمانوں کے لیے موجودہ پستی اور زوال سے نکلنے کا سامان موجود ہے۔
ان افکار کوخواہ نیک نیتی سے پھیلایا جائے یا بدنیتی سے، حقیقتاًان کا اثر ایک ہی ہے ۔ اور ان افکار کافسادحقیقت میں ثابت ہوچکاہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دین کے معاملے میںبے نیاز کردیا ہے کیونکہ اسلام میں سب کچھ ہے اور دوسروں سے کچھ لینے کی ضرورت نہیں۔ اسلام طبعی طور پر ہی اپنے طریقے کو بھی لازم کرتا ہے کہ جس طریقے سے ہمیں اس دین کو اخذ کرنا چاہئے ۔ دینِ اسلام اللہ کی طرف سے زندگی کے امور کو حل کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ مسلمان پر فرض ہے کہ وہ صرف شرعی نصوص میں اجتہاد کرکے اللہ کا حکم معلوم کرے، نہ کہ شرعی نصوص کے علاوہ کہیں اور سے۔ زندگی کے لیے فکری قواعد بھی شرعی دلائل سے منضبط ہونے چاہئیں کیونکہ یہ بھی احکامِ شرعیہ ہیں جن کے لیے تفصیلی دلائل موجود ہیں۔ اور یہیں سے ہماری نشاة ثانیہ کی بنیاد کھڑی ہو سکتی ہے بالکل اسی طرح جیسے ماضی میں ہوئی تھی۔
یہاںشریعت کے بعض منضبط قواعد اور افکار کا ذکر کرنا بے محل نہیں ہوگا۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ انہیں اپنی ذہن میں راسخ کریں اوران کے مطابق اپنی سمت کا تعین کر یں اور انہی کے مطابق عمل کریں۔ ان قواعد کی مثالیں یہ ہیں: ''جو شریعت کا حکم ہے وہی مسلمانوں کے لیے مصلحت ہے، اس کے برعکس نہیں'' ، ''اعمال کے لیے بنیاد حکمِ شرعی کی پابندی ہے۔''، ''اشیاء کی اصل ان کا مباح ہونا ہے ،جب تک کوئی شرعی دلیل ان کی حرمت کے متعلق وارد نہ ہوئی ہو۔''، ''حسن وہ ہے جسے شرع حسن قرار دے اور قبیح وہ ہے جسے شرع قبیح قرار دے۔''، ''خیر وہ عمل ہے جس سے اللہ راضی ہو اور شر وہ ہے جس سے اللہ ناراض ہو''، ''شریعت کے نزول سے پہلے کوئی حکم نہیں ہے۔''، ''جو اللہ کے ذکر سے منہ موڑے گا تو اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی۔''، ''امت مسلمہ دوسرے لوگوں سے الگ ایک امتِ واحدہ ہے۔''، ''اسلام وطنیت، قومیت ، اشترکیت یا جمہوریت کو قبول نہیں رکھتا۔''، ''اسلام ایک بالکل منفرد طرزِزندگی ہے جوزندگی کے باقی تمام طریقوںاور نظاموں سے مختلف ہے ۔''
صرف چند شرعی نصوص سے واقفیت ہی ہم پر یہ چیز واضح کر دیتی ہے کہ ہمارے لیے اسی چیز کی پابندی کتنی اہم ہے جس پر سلف صالحین بھی کا ربند تھے اوریہ کہ ہم اس پابندی کو ترک کرنا بدعت کی راہ اختیار نہ کریںہے کیونکہ دین میں بدعت انتہائی مذموم ہے۔
رسول اللہ اکا ارشاد ہے:
(وقد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم بہ فلن تضلوا أبدا، أمرا بینا کتاب اللہ و سنة نبیہ۔)(سیرت ابن ھشام)
''میں نے تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑی ہے ،جب تک تم اسے مضبوطی سے تھامے رہو گے کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے، وہ ایک واضح چیز ہے یعنی اللہ کی کتاب اوراس کے نبی کی سنت۔''
اور(ابداً)(یعنی کبھی بھی) کے لفظ میں ہم بھی داخل ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے :
(۔۔۔وتفرق أمتی علی ثلاث و سبعین فرقة کلھا فی النار الا واحدة قالوا: ومن ھی یارسول اللہ ، قال: ماأنا علیہ وأصحابی) (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، احمد)
''...میری امت تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی ،ایک کے سوا سب جہنمی ہوں گے ،عرض کیا گیا :وہ ایک کونسا ہوگا؟ آپ انے فرمایا: جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔''
رسول اللہ انے فرمایا:
(ترکتکم علی المحجة البیضاء لا یزیغ عنھا بعدی الاکل ضال۔)(ابن ماجہ واحمد)
''میں نے تمہیں ایک روشن راستے پر چھوڑا ہے میرے بعد جو بھی اس سے ہٹ جائے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔''
اورفرمایا:
(خیرالناس قرنی ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم،) (مسلم)
''بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں پھر اس کے بعد والے پھر ان کے بعد والے۔''
مزید فرمایا:
(انہ من یعش منکم فسیری اختلافا کثیرا، وایا کم ومحدثات الأمور فان کل محد ثہ بدعہ، وکل بدعہ فی النار ۔علیکم، بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھد یین، عضوا علیھا بالنواجذ۔)(ابوداؤد و ترمذی)
''تم میں سے جوزندہ رہا وہ بہت اختلاف دیکھے گا۔ تم دین میں نت نئی باتوں سے بچو کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے، اورہر بدعت جہنم میں پہنچا دیتی ہے۔ تم میری اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کی پیروی کرو، اسی کو داڑھ کے دانتوں سے پکڑے رکھو۔''
اورفرمایا:
(کل عمل لیس علیہ أمرنا فھو رد) (البخاری و مسلم)
''ہر وہ کام مردود ہے جس کے لیے ہمارا حکم نہیں ۔"
۔ حصہ 1