• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کو تدریجاً نافذ کرنا جائز نہیں

ابن حلبی

مبتدی
شمولیت
نومبر 23، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
19
جب مسلمان روحانی زوال، مادی اور فکری پستی اور سیاسی انحطاط کا شکار ہوئے تو ان کے افکار بھی ان کے برے حالات کے مطابق ہوگئے۔ اسلام پر کاربند رہنے والوں کے افکار بھی ایسے ہوگئے جو حقیقتاً اسلام اور زندگی کے بارے میں اسلام کے نقطہ نظر سے پیدا ہونے والے افکار نہیں تھے بلکہ یہ افکار اسلام کے حقائق کے بارے میں غلط فہمی،نا سمجھی اور زندگی کے بارے میں اسلام کے نقطہ نظر کو نہ سمجھنے کی وجہ سے تھے۔ پھر جب استعماری کافر نے مسلمانوں کے امور کنٹرول حاصل کیا ، تو انہوں نے اپنے تصورات اور فکری پیمانے مسلمانوں کے درمیان پھیلادیے۔ استعمار نے مسلمانوں کے اندر اپنے افکار کا ایسا بیج بویا کہ جس کے پھل کا ذائقہ اس سے مختلف تھا جس سے مسلمان واقف تھے ،مگراستعمار نے اسے مسلمانوں کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کیا۔ استعمارنے یہ سب اپنے مفادات کے لیے کیا ۔ کمزوری اسلام میں نہیں تھی بلکہ کمزوری ان اہلِ اسلام کی تھی جو اسلام کی صحیح طرح پابندی نہیں کرسکے اور صحیح فہم کھو بیٹھے تھے ۔ انہوں نے صورت حال سے متاثرہوکر اور مصلحت پر مبنی فہم کے ذریعے استعمار کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن یہ ٹیڑھی کوششیں اورغلط اقدامات جلد ہی مسلمانوں کی ناکامی پر منتج ہوئے ۔ استعماری کفار دندناتے رہے اورانہیں روکنے والا یا دھتکارنے والا کوئی نہیں تھا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ان استعماری کفارنے اسلام پر کس طرح حملہ کیا؟ اور مسلمانوں نے اس کا کیا جواب دیا؟
استعماری کفارنے اسلام پر حملے کرتے ہوئے الزام لگایاکہ اسلام موجودہ زمانے کے ساتھ نہیں چل سکتااور نئے مسائل کا حل نہیں دے سکتا۔ مسلمانوں نے اس کے جواب میں سرمایہ دارانہ نظام کے نقطہ ہائے نظر کی بنیاد پرنئے مسائل کا اسلامی حل دینے کی کوشش کی۔ باوجود یہ کہ سرمایہ داری نظام جس بنیاد پر قائم ہے وہ اسلام کی بنیاد سے بالکل ٹکراتا ہے۔ مسلمانوں نے ان دو بالکل مخالف بنیادوںکے درمیان موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ یوں انہوں نے ایسی غلط تاویلات کرنا شروع کیں جس سے غلط تصورات اور غلط پیمانے پیدا ہوئے۔ اور پھر ان کی اسلامی شریعت کی طرف جھوٹی نسبت کی گئی ۔ مقصد یہ تھا کہ اسلام اور سرمایہ داریت کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جائے، اور یہ ظاہر کیا جائے کہ اسلام موجودہ زمانے کے ساتھ ساتھ چل سکتاہے۔ اس وجہ سے ان افکار ، قواعد اور پیمانوں کو اس بنیادپر اختیار کیا جانے لگا کہ یہ اسلامی افکار، قواعد اور پیمانے ہیں،اور اسلام کو ان کے ذریعے سمجھا جانے لگا۔ حالانکہیانہیں اختیار کرنے کا مطلب اسلام کو چھوڑنا اور سرمایہ داریت کی پیروی کرنا تھا۔ کفر سے موافقت یا ایسی موافقت سے متاثر ہر دعوت اسلام کو چھوڑنے اور کفر کو اختیار کرنے کی دعوت ہے۔ نیز یہ مسلمانوں کو کفریہ افکار کو اختیار کرنے اور سچی اسلامی دعوت کو چھوڑنے کی دعوت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانوں نے انحطاط کے زمانے میں ایسے افکار کے ذریعے امت کو انحطاط سے نکالنے کی کوشش کی تو صورتِ حال بد سے بد تر ہو گئی۔ یہ لوگ امت کو پستی کے اس گڑھے سے نہ نکال سکے بلکہ خود اس گڑھے میں گر گئے۔
یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں نے قصداًیا لاعلمی میں اسلامی شریعت کے خلاف زبان درازی شروع کر دی ۔ ان کا دعویٰ یہ تھا کہ اسلامی شریعت غیر عقلی ہے، رسول اللہ اکی بعثت کو چودہ سو سال گزر گئے ہیںپس ہمیں اس صدیوںپرانی سوچ کے مطابق نہیں سوچنا چاہیے بلکہ ہمیں اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے، اسلام میں جدت لانی چاہئے تاکہ یہ حالات کے مطابق ہو سکے اور اسلام دوبارا قیادت حاصل کر سکے۔ اسلام کو نیا لباس پہنانا چاہیے، اس میں کچھ نئے افکار کو ضم کرنا چاہیے تاکہ دل دوبارااسے قبول کریں، اس کے ابہام کو بھی دور کیا جائے اور اسلام کو دوسروں کی تہمتوں سے بھی بچا جائے۔ یعنی اسلام کی قدیم صورت مقبول نہیں رہی۔
پس بعض مسلمان اٹھے اور انہوں نے ایسے بہت سے افکار کو اپنایا اور انہیں اپنی فکری بنیاد کے طور پر اختیار کر لیا ، اور اپنی لیے ایک راہ متعین کر لی،اور زندگی کے بارے نیا نقطۂ نظر اختیار کیا۔ ہم انہیںدورِ انحطاط کے افکار کہتے ہیں، یہ ہمارے ملکوں میں فاسد مغربی تہذیب کی نشوونما کے ساتھ ظاہر ہوئے۔ ان مسلمانوں نے یہ خیال کیا کہ زمانے کے ساتھ چلنا، مغرب کی بلند فکر سے استفادہ کرنا شریعت کی ضرورت ہے اورزمانے میں اسلام کو باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
اس کے نتیجے میں اس نقطہ نظر سے متاثرہ افکار کی بھر مار ہوگئی جیسے ''دین لچکدار اور ترقی پسندہے''، ''کچھ کو حاصل کراورپھر مزید کا مطالبہ کرو۔''، ''اس چیز کو قبول کیا جائے جو شریعت کے موافق ہے، یا شریعت کے مخالف نہیں ہے''، ''دو برائیوں میں سے چھوٹی برائی کواختیار کیا جا سکتا ہے''، ''اگر تم پورا حاصل نہیں کر سکتے تو اس سے کم کو مت ٹھکرائو''،''اسلام کو تدریجاً اختیار کیا جائے''، ''جمہوریت اسلام سے ہے''، ''زمانے اور جگہ کے بدلنے سے شرعی احکامات بدل جاتے ہیں''اور ''جو لوگوں کی مصلحت ہے وہی شرعی حکم ہے۔'' یہ افکار یااس قسم کے افکار فکری اصول اور فکری قواعد بن گئے جسے اسلام کی تجدیدِ نو کہا جانے لگا ، جس کا سب سے بڑاداعی میسونک (فری میسن تحریک کا رکن)جمال الدین افغانی اور اس کا میسونک شاگرد محمد عبدہ تھا، جو شیخ الاسلام کہلاتا تھا ۔
اس قسم کی باتیں کچھ لوگوں نے توبدنیتی اور خباثت سے کیں تاکہ مسلمانوں کو ان کی طاقت کے منبع سے دور کیا جائے ، ان کو اس قدر کمزور کیا جائے کہ وہ دوبارہ اللہ کے حکم کی اقامت کے لیے اٹھ کھڑے نہ ہوسکیں۔ جبکہ کچھ لوگوں نے یہی باتیں حسن ظن اور نیک نیتی سے یہ سمجھ کر کیں کہ ان میں مسلمانوں کے لیے موجودہ پستی اور زوال سے نکلنے کا سامان موجود ہے۔
ان افکار کوخواہ نیک نیتی سے پھیلایا جائے یا بدنیتی سے، حقیقتاًان کا اثر ایک ہی ہے ۔ اور ان افکار کافسادحقیقت میں ثابت ہوچکاہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دین کے معاملے میںبے نیاز کردیا ہے کیونکہ اسلام میں سب کچھ ہے اور دوسروں سے کچھ لینے کی ضرورت نہیں۔ اسلام طبعی طور پر ہی اپنے طریقے کو بھی لازم کرتا ہے کہ جس طریقے سے ہمیں اس دین کو اخذ کرنا چاہئے ۔ دینِ اسلام اللہ کی طرف سے زندگی کے امور کو حل کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ مسلمان پر فرض ہے کہ وہ صرف شرعی نصوص میں اجتہاد کرکے اللہ کا حکم معلوم کرے، نہ کہ شرعی نصوص کے علاوہ کہیں اور سے۔ زندگی کے لیے فکری قواعد بھی شرعی دلائل سے منضبط ہونے چاہئیں کیونکہ یہ بھی احکامِ شرعیہ ہیں جن کے لیے تفصیلی دلائل موجود ہیں۔ اور یہیں سے ہماری نشاة ثانیہ کی بنیاد کھڑی ہو سکتی ہے بالکل اسی طرح جیسے ماضی میں ہوئی تھی۔
یہاںشریعت کے بعض منضبط قواعد اور افکار کا ذکر کرنا بے محل نہیں ہوگا۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ انہیں اپنی ذہن میں راسخ کریں اوران کے مطابق اپنی سمت کا تعین کر یں اور انہی کے مطابق عمل کریں۔ ان قواعد کی مثالیں یہ ہیں: ''جو شریعت کا حکم ہے وہی مسلمانوں کے لیے مصلحت ہے، اس کے برعکس نہیں'' ، ''اعمال کے لیے بنیاد حکمِ شرعی کی پابندی ہے۔''، ''اشیاء کی اصل ان کا مباح ہونا ہے ،جب تک کوئی شرعی دلیل ان کی حرمت کے متعلق وارد نہ ہوئی ہو۔''، ''حسن وہ ہے جسے شرع حسن قرار دے اور قبیح وہ ہے جسے شرع قبیح قرار دے۔''، ''خیر وہ عمل ہے جس سے اللہ راضی ہو اور شر وہ ہے جس سے اللہ ناراض ہو''، ''شریعت کے نزول سے پہلے کوئی حکم نہیں ہے۔''، ''جو اللہ کے ذکر سے منہ موڑے گا تو اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی۔''، ''امت مسلمہ دوسرے لوگوں سے الگ ایک امتِ واحدہ ہے۔''، ''اسلام وطنیت، قومیت ، اشترکیت یا جمہوریت کو قبول نہیں رکھتا۔''، ''اسلام ایک بالکل منفرد طرزِزندگی ہے جوزندگی کے باقی تمام طریقوںاور نظاموں سے مختلف ہے ۔''
صرف چند شرعی نصوص سے واقفیت ہی ہم پر یہ چیز واضح کر دیتی ہے کہ ہمارے لیے اسی چیز کی پابندی کتنی اہم ہے جس پر سلف صالحین بھی کا ربند تھے اوریہ کہ ہم اس پابندی کو ترک کرنا بدعت کی راہ اختیار نہ کریںہے کیونکہ دین میں بدعت انتہائی مذموم ہے۔
رسول اللہ اکا ارشاد ہے:
(
وقد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم بہ فلن تضلوا أبدا، أمرا بینا کتاب اللہ و سنة نبیہ۔)(سیرت ابن ھشام)
''میں نے تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑی ہے ،جب تک تم اسے مضبوطی سے تھامے رہو گے کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے، وہ ایک واضح چیز ہے یعنی اللہ کی کتاب اوراس کے نبی کی سنت۔''
اور(ابداً)(یعنی کبھی بھی) کے لفظ میں ہم بھی داخل ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے :
(
۔۔۔وتفرق أمتی علی ثلاث و سبعین فرقة کلھا فی النار الا واحدة قالوا: ومن ھی یارسول اللہ ، قال: ماأنا علیہ وأصحابی) (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، احمد)
''...میری امت تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی ،ایک کے سوا سب جہنمی ہوں گے ،عرض کیا گیا :وہ ایک کونسا ہوگا؟ آپ انے فرمایا: جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔''
رسول اللہ انے فرمایا:
(ترکتکم علی المحجة البیضاء لا یزیغ عنھا بعدی الاکل ضال۔)(ابن ماجہ واحمد)
''میں نے تمہیں ایک روشن راستے پر چھوڑا ہے میرے بعد جو بھی اس سے ہٹ جائے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔''
اورفرمایا:
(
خیرالناس قرنی ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم،) (مسلم)
''بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں پھر اس کے بعد والے پھر ان کے بعد والے۔''
مزید فرمایا:
(
انہ من یعش منکم فسیری اختلافا کثیرا، وایا کم ومحدثات الأمور فان کل محد ثہ بدعہ، وکل بدعہ فی النار ۔علیکم، بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھد یین، عضوا علیھا بالنواجذ۔)(ابوداؤد و ترمذی)
''تم میں سے جوزندہ رہا وہ بہت اختلاف دیکھے گا۔ تم دین میں نت نئی باتوں سے بچو کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے، اورہر بدعت جہنم میں پہنچا دیتی ہے۔ تم میری اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کی پیروی کرو، اسی کو داڑھ کے دانتوں سے پکڑے رکھو۔''
اورفرمایا:
(
کل عمل لیس علیہ أمرنا فھو رد) (البخاری و مسلم)
''ہر وہ کام مردود ہے جس کے لیے ہمارا حکم نہیں ۔"
۔ حصہ 1
 

ابن حلبی

مبتدی
شمولیت
نومبر 23، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
19
یہ احادیث ہمیں خیر کی پیروی اور بدعات سے اجتناب کی دعوت دی رہی ہیں ، خیر کی بیان کر دہ ترتیب اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ جوں جوں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے دور ہوتے چلے جائیں گے ،احکامات کا التزام ضعیف تر ہوتا جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ خیر کوزیادہ مضبوطی سے تھامیں اور حق کے لیے زیادہ چھان پھٹک کریںاوراخلاص کے لیے زیادہ کوشش کریں۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم رسول اللہ ااور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو زیادہ مضبوطی سے تھامیں ،ہم اسی راستے پر چلیں جس پر رسول اللہ ا اور صحابہ چلے۔ ہمارے لیے دین میں بدعت پیدا کرنا یا نئی باتوں کو اختیار کرنا جائز نہیں کیونکہ ایسا کرنے والا مردود ہے۔ توآج ہمارے زمانے میں اِن باتوں کویقینی بنانے کاکیا طریقہ ہوگا؟
٠ ہم اس بات کے محافظ ہوں کہ ہمارے اندر ہمارا عقیدہ واضح اور خالص شکل میں موجود ہو اورہم اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ ہونے دیں۔
٠ ہم اسلام کے واضح اور خالص مصادر ہی کو اختیار کریں۔
٠ ہم استدلال کے اس ثابت شدہ طریقے کی حفاظت کریں جس میں لوگوں کی ذاتی رائے اور نفسانی خواہشات حکمِ شرعی پر اثر انداز نہ ہونے پائیں۔
٠ ہم اپنی زندگی میں اسلام ہی کو اہم ترین چیز سمجھیں: اسے اپنی جان ، اپنی اولاد، اپنے مفادات اور خواہشات سے زیادہ اہم سمجھیں تاکہ ہمارے دلوں میں بھی اللہ کا کلمہ بلند ہواور ہم کسی چیز کو اللہ اور اس کے رسول اسے زیادہ اہم نہ سمجھیںِ یعنی ہم ایسے ہی بن جائیں جو سلف صالحین کے زمانے کے مسلمانوں کا حال تھا۔
٠ اپنے دل اور عقل سے کفریہ افکار اوران کی گندگی کو کھرچ کر صاف کریں،اسکی دلفریبی اور چمک دمک سے دور رہیں۔ جیسا کہ صحابہ کرام نے جاہلیت کی گندگی کو اُکھاڑپھینکا تھااور اسلام میں خالص ہو کرداخل ہوئے تھے۔
ان سب باتوں کا تقاضا ہے کہ ہم بالکل ابتداء کی طرف جائیں۔ کیونکہ اس امت کے بعد کے ادوار کی بھی اسی خیرسے اصلاح ہوگی جس سے پہلے دور کی ہوئی تھی۔ یہ ایسی لازمی چیز ہے کہ کوئی بھی مسلمان اپنی زندگی کے مراحل میں سے کسی بھی مرحلے میں اس سے مستثنیٰ نہیں ۔ اسی سے قربت یا دوری کے لحاظ سے مسلمان طاقتور یا کمزور ہوں گے۔
اس تمہید کے بعد اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ تدرّج(Gradualism)کیا ہے؟ اسکے قائلین کی نظر میں اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کے لیے پیش کردہ جوازکیا ہیں؟ اوراس کے بارے میں شریعت کا موقف کیا ہے؟
 

ابن حلبی

مبتدی
شمولیت
نومبر 23، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
19
تدرّج کا مطلب ایک دم کی بجائے مراحل سے گزر کر مطلوبہ شرعی حکم کے نفاذتک پہنچنا ۔ اس قسم کی رائے رکھنے والوں کے نزدیک اسے شریعت کامرحلہ وار نفاذکہا جاتا ہے۔ ان لوگوںکے نزدیک مسلمان پہلے ایسے حکم کو نافذ کرے گا یا اس کی طرف دعوت دے جو کہ غیر شرعی ہے لیکن اپنے سے پہلے حکم کے لحاظ سے شرع سے زیادہ قریب ہے، پھر آہستہ آہستہ ایک اور ایسے غیر شرعی حکم کو نافذ کرے گا یا اس کی طرف دعوت دے گا جواس کی نظر میں اپنے سے پہلے کے لحاظ سے شرعی حکم کے زیادہ قریب ہے، پھر ایک اور ایسے غیر شرعی حکم کو نافذ کرے گا یا اس کی طرف دعوت دے گا جواس کی نظر میں پہلے حکم کے مقابلے میں شرعی حکم کے زیادہ قریب ہو، یوں آہستہ آہستہ وہ شرعی حکومت تک پہنچے گا۔
یعنی اس طرح احکام شرعیہ کو نافذ کیا جائے اور غیر شرعی احکامات کے بارے میں سکوت اختیار کیاجائے یہاں تک کہ شرع کو مکمل طور پر نافذ کردیا جائے۔
لیکن یہ تدرّج کتنے مراحل پر مشتمل ہوگا، اس کی کوئی تعداد مقرر نہیں۔ اس رائے والوں کے ہاں اس کے لیے کوئی قاعدہ بھی نہیں،یوں اس کے لیے ایک یا دو یا تین یا اس سے بھی زیادہ مراحل ہوسکتے ہیں ۔ اس تدرج کے مراحل کے تعین میں حالات وظروف کا بڑا اثر ہے ۔ حالات کے لحاظ سے یہ مراحل کم یا زیادہ ہوسکتے ہیں اور اسی طرح اسکی مدت تھوڑی یا زیادہ ہوسکتی ہے۔
تدرج کو کبھی عقیدہ سے متعلق افکار کے بارے میں قبول کیا جاتا ہے جیسا کہ اس قول کو قبول کرنا کہ''اشتراکیت اسلام ہی سے نکلی ہے'' یا ''جمہوریت اسلام ہی ہے۔'' اسی طرح تدرج کو احکامِ شرعیہ کے بارے میں اختیار کیا جاتاہے جیسے مسلمان عورت ایسا لباس پہنے جس میں اس کا کپڑا گھٹنوں سے ذرا نیچے ہو، یہ پہلا مرحلہ ہے ۔ اور پھر دوسرے مرحلے میں اصل حکمِ شرعی کو اختیار کیا جائے گا۔ کبھی اس کا تعلق نظام سے ہوتا ہے جیسے حکومت میں شرکت کرنا۔ لیکن وہ اس شرکت کو مقصود بالذات نہیں کہتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ یہ اسلامی حکومت تک پہنچنے کے لیے ہے۔ یا یہ تدرج بعض اسلامی احکامات پر عمل اور بعض کے بارے میں سکوت اختیار کرنے پر مشتمل ہے کہ اس امید پر کہ حالات سازگار ہوجائیں تو اسلام کے تمام احکامات پر عمل کیاجائے گا۔ اسی طرح وہ بعض دفعہ وہ اسلام کی طرف دعوت میں بھی تدرج کی بات کرتے ہیں۔ یعنی تدرج پر اکتفا کیاجائے اوراسی اسلوب کی طرف دوسروں کو بھی دعوت دی جائے۔ اس قسم کی دعوت دینا بعض دفعہ تقویٰ کی وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ خود تو وہ شخص دین کے التزام کا خیال رکھتا ہے لیکن دوسروں کے بارے میں فکر مند ہے کہ کہیں وہ اسلام کے تمام احکامات پر عمل کی دعوت دینے کے نتیجے میں اسلام کی دعوت کو بالکل ہی ٹھکرا نہ دیں ،چنانچہ بالکل کچھ نہ ہونے سے لوگوں کا تھوڑے پر عمل کرنا بہتر ہے۔

تدرج اور مرحلہ وار کام کے قائلین کے پیش کردہ جواز اور ان کا رد:
اس رائے کے حامل افراد نے ان جوازوںپر انحصار کیا جوفکر اور اسلامی دعوت کے متعلق ان کے فہم کی تائید کرتے ہیں۔ اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے مختلف جوازوں کو دلیل کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے نص اور اس میں موجود دلالتوںکی پیروی نہیں کی بلکہ نص کو اپنی خواہشات کی سان پر چڑھایا، جیساکہ ہم ابھی بیان کریں گے۔ ان کے کچھ جوازیہ ہیں:
1۔ اللہ نے سود کو ایک ہی مرتبہ حرام قرار نہیں دیابلکہ اس کی حرمت مرحلہ وار ہوئی۔ ارشادہے:
(
وَمَا آتَیْْتُم مِّنْ رِّباً لِّیَرْبُوَ فِیْ أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْ عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا آتَیْْتُمْ مِّنْ زَکَاةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ )
''تم جو سود دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے اموال میں مزید بڑھ جائے، تو یہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا اور جو زکوٰة تم اللہ کے لیے دیتے ہوتو انہی لوگوں کو دوہرا اجر ملے گا۔'' (الرُّوم:39)
ارشاد باری ہے:
(
لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَةً )
''تم دوگنا تگنا سودمت کھایا کرو۔'' (آل عِمرَان:130)
مزید فرمایا:
(
یٰا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُوْا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا )
''اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور باقی ماندہ سود چھوڑ دو۔'' (البَقَرَة:278)
مزید فرمایا:
(
وَأَخْذِہِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُہُوْا عَنْہُ )
''اور ان کا سود لینا حالانکہ ان کو منع کردیا گیا ہے۔'' (النِّسَائ:161)
مزید فرمایا:
(
وَأَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا )
''اور اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قراردیا۔'' (البَقَرَة:275)
ان آیات کے مجموعے کو دلیل بنا کر تدرّج کے دعوے داریہ کہتے ہیں کہ پہلی آیات کی وجہ سے سود مباح تھا۔ پھر دوسری آیت میں دوچند سود کھانے کی حرمت نازل ہوئی جب کہ کم مقدار کورہنے دیا گیا۔ پھر تیسری آیت میں یہ کہہ کر
(
وَذَرُواْ مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا )
''اور جو سود باقی رہ گیا ہے اُس کو چھوڑ دو۔'' (البَقَرَة:278)
تھوڑی مقدار کو بھی حرام قرار دیاگیا ۔ پھر کہتے ہیںکہ سودکی حرمت صراحت سے نہیں بلکہ اشارة ً ہے جیسا کہ چوتھی آیت میں یہود کی حکایت بیان کی گئی ہے۔ پھر ان مراحل کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے آخر میں اللہ گ نے یہ کہہ کر سود کومطلقاًحرام قرار دیا کہ
(
وَأَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا )
''اور اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قراردیا۔'' (البَقَرَة:275)
ان آیات میں موجود فقہ کو صحیح شرعی نقطہ نظر سے دیکھنے سے یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ تدرج کے لیے ان آیات کودلیل بنانا سراسر غلط ہے۔
پہلی آیت کا اس ربا سے جو کہ حرام ہے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ اس کا موضوع ھبہ اورہدیہ ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ جو شخص ھبہ یا ہدیہ دے کر اس کے دو چند کا طلب گار ہوتاہے یا لوگوں سے اس کو واپس مانگتا ہے، تو یہ اللہ گ کے نزدیک نہیں بڑھتا یعنی اس پر ثواب نہیں ملے گا جیسا کہ صدقہ کے بارے میں رسول اللہ اکا ارشاد ہے کہ:
((من تصدّق بعدل تمرة من کسب طیّب، ولال یقبل اللّٰہ الا الطیّب ۔ وان اللّٰہ یتقبلھا بیمینہ ثم یربّیھا لصاحبھا کما یربّی أحدکم فلوہ حتی تکون مثل الجبل))
''جو شخص پاک کمائی سے ایک کجھور کے برابر صدقہ کرے گا، اوراللہ صرف پاک چیز کو ہی قبول کرتا ہے۔ اللہ اس صدقہ کو دائیں ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھراس مالک کے لیے اس صدقہ کے اجرکو بڑھاتاہے۔ یہاں تک کہ وہ پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔'' (البخاری)
اسی طرح ابن عباس ص نے اس آیت کے متعلق فرمایا کہ
(
وَمَا آتَیْْتُمْ مِّنْ رِّباً )
''اور جو سود تم دیتے ہو۔'' (الرُّوم:39)
یعنی جب کوئی شخص ہدیہ دیتاہے اور امید رکھتاہے کہ اس سے بہتر اسے واپس ملے گا تو یہ اللہ گ کے نزدیک بڑھتا نہیں، اس کے مالک کو اجر نہیں ملتا، لیکن وہ گنہگار نہیں ہوتا۔ آیت اس معنی میں نازل ہوئی ہے(امام قرطبی نے اس کو نقل کیا ہے) ۔ اورابنِ کثیر نے فرمایا جو شخص لوگوں کو یہ سوچ کر عطیہ دیتاہے کہ یہ زیادہ ہوکر واپس ملے گا تو اللہ گ کے نزدیک اس کا کوئی ثواب نہیں، اس آیت کی یہ تفسیر ابنِ عباس ص ، مجاہد، ضحاک، قتادة، عکرمہ ، محمد بن کعب اور شعبی نے بھی کی ہے۔ اور اس طرح کرنا مباح ہے۔
ابنِ عباس ص نے کہا کہ ''رِبا کی دو قسمیں ہیں ،ایک تجارت کی ربا جو کہ صحیح نہیں۔ دوسری رِبا ایک آدمی کا ہدیہ دینا جو کہ زیادہ یا دوچند کا طلب گار ہے''۔
دوسری آیت یعنی
(
لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَةً )
''ربا کو دوچند کرکے مت کھایا کرو۔'' (آل عِمرَان:130)
اس میں دو چند سود کھانے کو منع کیا کیا گیا ہے جو کہ زمانۂ جاہلیت میں کھایا جاتا تھا۔ اس میں ربا کی حرمت کو دوچند تک مقید کرنے کی کوئی دلیل نہیں کہ پہلے صرف دوگنا تکنا سود کھانے سے منع کیا گیا تھا۔
مفسرین نے کہاکہ سورة بقرة جس میں ربا کی حرمت بیان کی گئی ہے، پہلی سورة ہے جو مدینے میں نازل کی گئی۔ جبکہ سورة آل عمران جس میں دوچند سود سے منع کیا گیا ہے اس کے بعد نازل ہوئی۔ اس لیے یہ بات بالکل غلط ہے کہ اللہ گ نے ابتدا میں تھوڑے سود کو کھانے کو مباح رکھا۔ چنانچہ سورة آل عمران میں جو ذکر کیا گیا ہے اس کا تدرج سے کوئی تعلق نہیں اس میں ربا کے بارے میں کفار کی عادت کو بیان کیا گیاہے۔ ربا کی حرمت کا حکم تو پہلے ہی نازل ہوچکا تھا۔
جہاں تک تیسری آیت کا تعلق ہے کہ :
(
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّٰہَ وَذَرُواْ مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا )
''اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور باقی ماندہ سود چھوڑ دو۔'' (البَقَرَة:278)
اس کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے مسلمانوں کو تھوڑے سود کی اجازت دی گئی پھر اس سے منع کیا گیا۔ بلکہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جوایمان لائے اور ان کے دوسرے لوگوں پر سود کے اموال تھے۔ انہوں نے سود کا کچھ حصہ لے لیاتھااور کچھ باقی تھا۔ اللہ گ نے اس سود کو معاف فرمایا جس کو انہوں نے لیا تھا اور اس حصے کو حرام قراردیا جو باقی تھا۔
اس کی تائید اللہ گ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے:
(
وَِن تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وسُ أَمْوَالِکُمْ لاَ تَظْلِمُوْنَ وَلاَ تُظْلَمُوْنَ )
''اگر تم توبہ کرو تو تمہارا رأس المال (اصل مال) تمہیں ملے گا ،تم ظلم نہ کرو اور تم پر بھی ظلم نہیں ہوگا۔''(البَقَرَة:279)
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول کہ :
((
ألا ان ربا الجاھلیة موضوع کلہ ۔ وأول ربا أبتدیٔ بہ رباالعباس بن عبدالمطلب))
''سنوجاہلیت کا سارا سود ختم ہے اور پہلا سود جس سے میں شروع کرتا ہوں عباس بن عبدالمطلب ص کا سود ہے۔''(سیرت ابن ھشام)
چوتھی آیت کہ :
(
وَأَخْذِہِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُہُواْ عَنْہُ وَأَکْلِہِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ )
''اور ان کا سود لینا حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا ہے اور ان کا لوگوں کے اموال باطل طریقے سے کھانا۔'' (النِّسَائ:161)
اس آیت میں رِبا سے مقصود حرام مال ہے جیسے رشوت وغیرہ جو یہود ی کھاتے تھے ۔ ارشاد باری ہے:
(
أَکَّالُوْنَ لِلسُّحْتِ )
''یہ حرام کھانے والے ہیں۔'' (المَائدة:42)
یہاں مراد وہ ربا نہیں جسے شرعاً ربا کہا جاتا ہے۔ لہٰذا سود شروع ہی سے حرام ہے۔ اس کے مرحلہ وارحرام ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں اس موضوع کے بارے میں وارد ہونے والی نصوص مختلف حقیقتوں کے لیے ہیں۔ اس میں کوئی ایسی دلیل نہیں جو تدرج پر دلالت کرے۔
 

ابن حلبی

مبتدی
شمولیت
نومبر 23، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
19
۔ تدرّج کے قائلین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اللہ نے شراب کو یکبارگی نہیں بلکہ مرحلہ وار حرام کیا: جیسا کہ ارشاد ہوا:
(
یَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا ِثْم کَبِیْر وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَِثْمُہُمَا أَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا)
''یہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے پوچھتے ہیں، کہہ دیجئے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں۔ لیکن ان دونوں کے گناہ ان کے فوائد سے بہت زیادہ ہیں۔'' (البَقَرَة:219)
مزید ارشاد ہے کہ:
(
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُکَارَی )
''مومنو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جائو''(النِّسَائ:43)
مزید فرمایا:
(
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ ِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْس مِّنْ عَمَلِ الشَّیْْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ O ِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْْطَانُ أَنْ یُوْقِعَ بَیْْنَکُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَائَ فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلاَةِ فَہَلْ أَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ)
''یقینا شراب ، جوا، انصاب اور تیر کے ذریعے فال نکالنا، گندے شیطانی اعمال ہیںان سے بچو، تاکہ تم کامیاب ہوجائو۔بیشک شیطان شراب وجوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور بغض پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس کے ذریعے وہ تمہیں نماز اور اللہ کے ذکر سے روکتا ہے۔''(المَائدة:90-91)
ان آیتوں کے اجمال کی وجہ سے تدرج کے قائل لوگوں نے یہ سمجھا کہ شراب شروع میں مباح تھی جس کی دلیل پہلی آیت ہے، پھر اس اباحت کو محدود کرنے کے لیے اللہ گ کا یہ قول نازل ہوا:
(
لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُکَارَی )
''جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جائو۔''(النِّسَائ:43)
اس ابتدائی تحدید کے بعد پھر شراب سے مکمل طور پرمنع کر دیا گیا۔
ان آیات میں شرعی طور پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شراب کی حرمت میں کوئی تدریج نہیں، حرمت سے قبل شراب کے بارے میں کوئی حکم نہیں تھا۔ یعنی اس کو اباحت ہی پر چھوڑا گیا تھا، یعنی لوگوں کے شراب پینے کے باوجود شرع شراب کے بارے میں خاموش تھی ۔ یہاں تک کہ تیسری آیت نازل ہوئی۔ سیدنا عمربن الخطاب ص کے اس واقعہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جب آپ نے فرمایا: ''اے اللہ شراب کے بارے میں شافی اورکافی بیان نازل فرما کیونکہ اس سے مال اور عقل دونوں جاتے ہیں۔'' چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی:
(
یَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْْسِرِ ۔۔۔)
''یہ تم سے شراب اور جوئے کے بارے پوچھتے ہیں ...''(البَقَرَة:219)
تب عمر ص کو بلاکر یہ آیت انکو سنائی گئی توعمر نے پھر فرمایا: اے اللہ شراب کے بارے میں شافی اور کافی بیان نازل فرما پھر یہ آیت نازل ہوئی :
(
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُکَارَی )
''مومنو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک (ان الفاظ کو ) جو منہ سے کہو سمجھنے (نہ) لگو نماز کے قریب بھی نہ جائو۔''(النِّسَائ:43)
پھر عمر ص کو بلا کر یہ آیت ان کو سنائی گئی تو آپ نے پھرفرمایا: اے اللہ شراب کے بارے میں شافی اور کافی بیان نازل فرماپھر یہ آیت نازل ہوئی:
(
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ ِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْس مِّنْ عَمَلِ الشَّیْْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ)
''یقینا شراب ، جوا، انصاب اور تیر کے ذریعے فال نکالنا گندے شیطانی اعمال ہیںان سے بچو تاکہ تم کامیاب ہوجائو۔''(المَائدة:90-91)
پھر عمر ص کو بلا کر یہ آیت سنائی گئی اوریہاں تک :
(
فَہَلْ أَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ)
''پس تو کیا تم ان سے رکتے ہو؟'' تو آپ نے فرمایا: ''ہم رک گئے ،ہم رک گئے۔'' (احمد،ترمذی، نسائی، ابودائود)
سیدنا عمر شراب کے بارے میں شافی بیان کے نزول کی دعا کرتے رہے لیکن پہلی اور دوسری آیت کے نزول کے بعد بھی شراب مباح ہی تھی ، ان دوآیتوں کے نزول کے باوجود آپ دعا کرتے رہے یہاں تک کہ تیسری آیت نازل ہوئی جس میں شراب کی حرمت بیان کی گئی۔
دوسری آیت کا تعلق نماز سے ہے شراب سے نہیں۔ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی۔ اسی آیت کو باریک بینی سے دیکھنے والا یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس میں مسلمانوںکو نماز کے وقت شراب پینے سے منع نہیں کیا گیا، بلکہ نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے تاکہ ان کو معلوم ہو کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس آیت کے نزول کے بعد اگر کسی مسلمان نے اس حال میں نماز پڑھی ہو کہ شراب کی بو اس کے منہ سے آرہی ہو، یا اس کے پاس شراب کی بوتل ہو یا اس نے اتنی شراب پی ہو جو عقل کو نقصان نہ پہنچاتی ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں تھا۔
پہلی آیت میں اللہ گ نے نقصان دہ ہونے کی وجہ سے شراب کی مذمت کی۔ دوسری آیت میں نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا۔ تیسری آیت میں شراب کوحرام قرار دیا گیا۔ اس کو تدرج نہیں کہا جا سکتا۔ کبھی کسی نے شراب کی حرمت کے بعد اس کو حلال نہیں سمجھا یعنی سورة مائدہ کی آیت90-91 کے نزول کے بعد رسول اللہ ا کے عہد میں صحابہ کرام ث کے عہد میں، تابعین اور نہ ہی تبع تابعین کے عہد میں کسی نے اس کو حلال سمجھا، نہ ہی امت کے آئمہ مجتہدین کی فقہی کتابوں میں شراب کی حرمت کی تدریج کا کوئی ذکر ہے۔ بے شمار اسلامی فتوحات ہوئیں، کئی ممالک کو فتح کیا گیا، لوگ جوق درجوق اللہ گ کے دین میں داخل ہوتے رہے۔ مسلمان فاتحین کے اسلام میں نئے داخل ہونے والوں کے ساتھ ایسی کوئی رعایت نہیں کی اور شراب کو ان پر یکدم کی بجائے مرحلہ وارحرام نہیں کیا گیا۔ اگر یہ بات ٹھیک ہوتی تو اسلام میں نئے داخل ہونے والوں کو اس کی زیادہ ضرورت تھی۔ سابقہ فاضل علماء کرام نے تدرّج پر کوئی بحث نہیں کی ، بلکہ یہ ایک نئی بحث ہے جس کو حالات وواقعات کے سامنے گھٹنے ٹیکنے والے بعض لوگوں نے شروع کیا،جو اپنے آپ کو علما کہلواتے ہیں، اوراس تدرج کویہ لوگ تفکیر کے لیے منہج بنانا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ صرف چند احکامات کے بارے میںیہ بات نہیں کہتے بلکہ پورے دین کے بارے میں کہتے ہیں۔ رسول اللہ ا کی ایک صحیح حدیث ہے کہ:
((
انہ من یعش منکم فسیری اختلافاً کثیراً۔ وایاکم ومحدثات الأ مور فان کل محدثة بدعة ، وکل بدعة فی النار۔۔۔)
''تم میں جو زندہ رہا وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا ۔ تم دین میں نئی باتوں سے بچتے رہو کیوں کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت جہنم میں ہے...''(الترمذی، ابودائود)
تدرج کے علمبرداروں سے یہ سوال ہے کہ کیا احکام میں تدرج کی وجہ سے بعد کے حکم سے پہلے والے حکم پر عمل کرنا ہمارے لیے جائز ہے؟ ہرگزنہیں! کیونکہ شراب کی حرمت کا حکم قطعی ہے۔ اور پہلے حکم کی طرف رجوع بالکل جائز نہیں۔ خلف وسلف اسی پر قائم ہیں۔ آج شراب کا ایک ہی حکم ہے جو کسی بھی صورت حال میں تبدیل نہیں ہوتا۔ نہ ہی شراب خور سے گناہ ساقط ہوگا۔
 

ابن حلبی

مبتدی
شمولیت
نومبر 23، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
19
4) ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ قرآن بھی الگ اور تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوا،اور ایسا یک مشت نہیں ہوا ،یہ بھی تدرج کی دلیل ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ حالات وواقعات کے مطابق آیتیں نازل فرماتے تھے تاکہ مسلمانوں کے دلوں کو مضبوط کیا جائے۔ اس لیے سب سے پہلے ایمان جنت اور جہنم کے بارے آیتیں نازل ہوئیں پھر حلال وحرام کے بارے آیتیں نازل ہوئیں۔ اس طرح ہونا اسلام کے ایک حصے کو اختیار کرنا اوردوسرے حصے کو ترک کرنا نہیں۔ مسلمان اسی حد تک ذمہ دار ہوتے تھے جتنے احکام نازل ہو چکے ہوتے تھے۔ ان کی ذمہ داری اس سے آگے نہیں ہوتی تھی۔ لہٰذاجس وقت ایمان نازل ہوا تھا اور احکامات نازل نہیں ہوئے تھے تو اس وقت بھی مسلمان پورے اسلام ہی کے بارے میں ذمہ دار تھے ،تاہم انہی شرعی نصوص کی تفصیل کے مطابق جو اس وقت تک نازل ہو چکی تھیں۔ اس لیے انفرادی شرعی احکامات کے بارے میں مسلمان ہر حال میں ذمہ دار ہیں خواہ اسلامی ریاست موجود ہو یا نہ ہو۔ ہاں وہ شرعی احکامات کہ جن کی ادائیگی ریاست کے سپرد ہے ،ان کا تعلق ریاست کی موجودگی سے ہے۔ یہی تقسیم مسلمانوں کے لیے لازم ہے اس کے سوا کوئی نہیں۔ چنانچہ سابقہ احکامات کی طرف نہیں دیکھا جائے گا۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ ایک حکم نازل ہوا اور رسول اللہ نے اسے کسی مصلحت کی بنا پر معطل رکھا ہو؟
تدرج کی مذکورہ فکر شریعت سے ہے ہی نہیں اور اسے شریعت سے منسوب کرنا بھی جائز نہیں۔ اوریہ ایسا طریقہ فکر ہے جسے شریعت کسی حالت میں بھی جائز قرار نہیں دیتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی فطرت دوسروں سے بالکل مختلف ہے۔ اسلامی نظام طبعی طورپر صرف وحی کی پیروی پر قائم ہے۔ جبکہ موجودہ نظام انسان کی ایجادات اور تجربات پر قائم ہے ،یہ جتنا بھی مضبوط ہو انسان کی تمام مشکلات کا صحیح حل نہیں دے سکتا۔
مسلمان جب شرع کی پابندی کرتا ہے تواس پابندی کی اساس ایمان باِللہ ہونی چاہیے۔ ورنہ یہ پابندی مقبول نہیں۔ اسی طرح جب دوسروں کو اسلام کی طرف دعوت دے تو اس دعوت کی بنیادبھی ایمان باللہ ہونا چاہیے، ورنہ وہ دعوت قابلِ قبول نہیں۔ اس مسئلے میں اول چیز ایمان ہے اوردوم صحیح طریقے سے شرع کی پابندی کرنا۔
مسلمان کے لیے خودکو بدلنے اورنظاموں کو صحیح طرح تبدیل کرنے کے لیے مندرجہ بالا روحانی اساس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ پہلے وہ اس اساس کو پیدا کرے پھر اسکی نشوونما کرے، یوں شرع کی پابندی آسان ہوجائے گی، قطع نظر یہ کہ شرع کی پابندی لوگوں کی حقیقت یا ان کی طبیعت یا ان کی خواہشات کے مطابق ہویا نہ ہو۔ مسلمان کی طرف سے اس روحانی بنیاد پر اعتماد نہ کرنا اسے بڑے گناہوں میں مبتلا کردے گا۔
سخت ترین مجبوری کے باوجود رسول اللہ نے مکہ یا مدینہ میں تدرج کی فکر کو کیوں اختیار نہیں کیا؟
کیا طلب نصرہ کے وقت رسول اللہ ا نے بنو عامر بن صعصعہ سے نہیں فرمایا کہ

((الأمر للّٰہ یضعہ حیث یشائ))
''حکومت اللہ کی ہے وہ جس کو چاہے دے۔'' (سیرة ابن ہشام)
بنو عامر نے اس شرط پر نصرة دینے کا مطالبہ کیا تھا کہ آپ کے بعد حکومت ہماری ہوگی حالانکہ اس وقت نصرة کی کتنی اشد ضرورت تھی۔ کیا یہ ممکن نہ تھا کہ رسول اللہ ا کی طرف سے بنو عامر کو ہاں میں جواب دیا جاتا، پھر جب وہ ایمان لاآتے تو رسول اللہ کا مطالبہ بدل جاتا؟ یا یہ ایسی سچی دعوت اور ربانی حکم ہے کہ جس کی وجہ سے آپ
ۖ نے بغیر کسی چاپلوسی اور جھجک کے مندرجہ بالا جواب دیا۔ تاکہ جو بھی زندہ رہے دلیل کی بنیاد پر زندہ رہے اور جو بھی ہلاک ہو وہ دلیل سے ہلاک ہو۔
کیا رسول اللہ ا نے اپنے چچا ابوطالب سے یہ نہیں فرمایا، جب انہوں نے تھوڑی نرمی کرنے کا مطالبہ کیا اور ایسے کام نہ کرنے پر زور دیا تھاجس کی طاقت نہ ہو ،:
((
واللّٰہ یا عماہ لو وضعو الشمس فی یمینی والقمر فی یساری علی أن أترک ھذا الأمر ما ترکتہ حتی یطھر ہ اللّٰہ أوأھلک دونہ))
''اے چچا ،اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ (مشرکینِ مکہ) سورج کو میرے داہنے ہاتھ میں رکھ دیں اور چاند کو بائیں ہاتھ میں،پھر یہ کہیں کہ اس کام کو چھوڑدو، تب بھی میں اس کام کو نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ اللہ اسے غالب کرے گا یا میں ہلاک کیا جائوں گا۔''(سیرت ابنِ ہشام)
اس نص میں رسول اللہ ا کی جانب سے معمولی سودا بازی کو بھی قبول نہ کرنے کی دلیل موجودہے۔ اورآپ ادعوت کے لیے بہترین مثال عطا فرمائی۔ آپ انے خوشامد، چشم پوشی یا زمانے کے ساتھ چلنے کی کوشش نہیںکی، ان لوگوں کو چاپلوسی بھی نہیں کی جو اہلِ اقتدار تھے، بلکہ آپ کی دعوت صریح اور جرأت مندانہ تھی، جو صحیح فکر پیدا کرتی ہے جو باطل کا بھیجا نکال دیتی ہے۔
کیا اللہ گ نے مسلمانوں کو اس جگہ سے ہجرت کرجانے کا حکم نہیں دیا جہاں وہ فرائض کو ادا نہیں کرسکتے کہ وہ ایسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ فرائض کو ادا کرسکتے ہیں؟ اور ایسی جگہ رہنے کو حرام قرار دیا جیسا کہ ارشاد ہے کہ:

(ِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفَّاہُمُ الْمَلآئِکَةُ ظَالِمِیْ أَنْفُسِہِمْ قَالُواْ فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُواْ کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِیْ الأَرْضِ قَالُوْ أَلَمْ تَکُنْ أَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَةً فَتُہَاجِرُواْ فِیْہَا ۔۔۔)
''بے شک جو لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کررہے تھے ، ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس ملک میں بے بس تھے۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے...'' (النِّسَائ:97)
ابنِ کثیر نے کہا ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ جہاں مسلمان اسلام پر عمل نہیں کرسکتا وہاںاقامت اختیار کرنا اس کے لیے حرام ہے۔
کیا رسول اللہ نے اپنی دعوت کا آغازلاالہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ،سے نہیں کیا اور یہ بھی اپنی ہی قوم سے شروع کیا؟ اور آپ اآخر تک بغیر کسی تبدیلی کے اسی دعوت پر قائم رہے۔ کیا شروع میں آپ نے اس سے کم کی دعوت دی اور کیاپھرآپ ابتدریج یہاں تک پہنچے؟ یا اول سے آخر تک آپ اکی یہی دعوت تھی۔
کیا ابوبکر نے زکوٰة کا انکار کرنے والوں سے قتال نہیں کیا؟ نہ ان کو کوئی مہلت نہیں دی اور نہ ہی ان کے دل شکنی کا خیال رکھابلکہ آپ نے اس موقع پر یہ مشہور جملہ کہا:''اللہ کی قسم اگر یہ لوگ اونٹ کی ایک رسی پر زکوٰة دینے سے بھی انکار کریں جووہ رسول اللہ ا کے زمانے میں دیتے تھے تو میں اس وجہ سے ان کے ساتھ قتال کروں گا۔'' حالانکہ اس وقت لوگ مرتد ہورہے تھے اور سرکشی عام ہورہی تھی، یعنی حالات انتہائی ناسازگار تھے۔
کیا اول دور کے مسلمانوں نے دعوت میں اس طریقے کو اختیار کیاتھا؟ کیا علاقوں کو فتح کرتے ہوئے دارلکفر کو دارالاسلام میں تبدیل کرنے اور اسلام کو نافذ کرنے میں تدریج سے کام لیا گیا تھا؟ ہم نہیں دیکھتے کہ اولین مسلمانوں نے اس وقت کے نومسلموں کے ساتھ تدریج کا معاملہ کیا ہو،یہ کہہ کر کہ پہلے ان کے دل موہ لیے جائیں۔ پس انہوںنے نو مسلموں کو شراب پینے کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی سود اور بے پردگی کی اجازت دی بلکہ وہ اسلام میں پورا داخل ہوتے تھے اس لیے وہ سود ، زنا، شراب اور تمام حرام کاموں سے اجتناب کرتے تھے۔ وہ اپنے سے متعلق احکامِ شرعیہ خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی ،فرضِ عین ہوں یا فرضِ کفایہ سب کو ادا کرتے تھے۔
کیا فقہ کی بنیادی کتابوں میں یہ موضوع موجودہے؟ کیا ہمارے اولین اورقابلِ اعتماد مجتہد فقہانے تدریج کی طرف ادنیٰ سا بھی اشارہ کیا ہے ؟ حالانکہ انہوں نے شرعی کلیات اور جزیات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
پوری شریعت دعوت میں سچائی اور طریقے پر استقامت کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے
(
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَنْزَلَ عَلَی عَبْدِہِ الْکِتَابَ وَلَمْ یَجْعَل لَّہُ عِوَجًا o قَےِّمًا)
''تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کجی اور پیچیدگی نہیں رکھی ۔ بلکہ سیدھی..'' (الکھف:1)
اللہ گ نے ہمیں خبر دی کہ کفار چاہتے ہیں کہ ان سے نرمی کریں اور ان کے ساتھ چلیں، حق سے دستبردار ہوجائیں اور ان کے جزوی اور وقتی حل کو قبول کرکے کفر کی ابتداء کریں ۔ ارشاد ہے:
(
وَدَّ کَثِیْر مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّن بَعْدِ ِیْمَانِکُمْ کُفَّاراً حَسَداً مِّنْ عِندِ أَنْفُسِہِم )
''اکثراہلِ کتاب تمہارے ایمان لانے کے بعد پھر تمہیں کفر کی طرف لوٹانا چاہتے ہیں ،اپنے حسد کے سبب۔''(البَقَرَة:109)
اس طرح کفار اسلام کے احکامات میں نرمی چاہتے ہیں ارشاد ہے:
(
وَدُّوا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُوْنَ )
''یہ چاہتے ہیں کہ تم نرمی اختیار کرو تووہ بھی نرم ہو جائیں۔'' (القَلَم:9)
(
فَلَا تُطِعِ الْمُکَذِّبِیْنَ )
''پس آپ جھوٹوں کی اطاعت مت کریں'' (القَلَم:8)
ہمارے رب نے ہمیں ظالموں کی طرف جھکنے سے ڈرایا ہے:
(
وَلاَ تَرْکَنُوْا ِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ أَوْلِیَائَ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْنَ)
''تم ان لوگوں کی طرف نہ جھکو جنہوں نے ظلم کیا، ورنہ تمہیں آگ چھولے گی پھر تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا اورنہ تمہیں کہیں سے مددملے گی۔'' (ھُود:113)
لوگوں کو اسلام کے قریب لانے کے بہانے سے اسلام میں تدریج کی فکر داخل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انسانوں کی کمزوری یا حالات کے سامنے جھکنے کی کوئی ضرورت نہیں، اللہ گ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم لوگوں کو اور حالات کو اسلام کے مطابق تبدیل کریں، نہ ان کے لیے اسلام سے دستبردار ہوں۔
قرآن کی طرف رجوع کرنے اور اس کی آیات پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بیان کردہ امورقطعی ہیں اورتدرّج کی فکر مغرب سے درآمد شدہ فکر ہے جسے جھوٹ اور بہتان کے ذریعے علم کے طور پر اسلام میں داخل کیا جارہاہے۔
رسول اللہ ا اور مسلمان جیسے ہی کوئی آیت نازل ہوتی بغیر کسی مہلت اور تاخیرکے اسے نافذ کرنے کی کوشش کرتے ۔ جیسے ہی کوئی حکم نازل ہوتا تو حکم کے نازل ہوتے ہی اس کا نفاذواجب ہوجاتا اورمندرجہ ذیل آیت کے نزول کے بعد مسلمانوں کو پورے اسلام کی تطبیق کا حکم دے دیا گیاہے :
(
اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا )
''آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور اسلام کو تمہارے لیے بطور دین پسند کیا۔'' (المَائدة:3)
خواہ ان احکامات کا تعلق عقائد سے ہو یا عبادات سے ، اخلاق سے ہویا معاملات سے اور خواہ یہ احکامات حکومت ، اقتصاد، معاشرت، خارجہ سیاست سے متعلقہ ہوں اور خواہ حالت امن ہو یا حالت جنگ۔
اللہ گ کا یہ ارشادکہ:
(
وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا وَاتَّقُوا اللّٰہَ ِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ )
''سو جو پیغمبر ادیں وہ لے لو اور جس سے بھی منع کریں اُس سے باز رہو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔'' (الحَشر:7)
یہاں ہر اس چیز کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو رسول اللہ ا لے کر آئے ہیں اور ہر اس چیز کی ممانعت کی گئی ہے جس سے آپ ا نے منع کیا ہے۔ کیونکہ اس آیت میں لفظ 'ما' عمومی انداز میں آیا ہے ۔ پس اس آیت میں تمام ترفرائض کو پورا کرنے اور تمام ترحرام امورسے رک جانے کو لازمی (فرض)قرار دیا گیا ہے۔ یہ فرضیت آیت کے آخر میں موجود قرینے کی وجہ سے ہے، کیونکہ آیت کے آخر میں اس حکم کو تقویٰ کے ساتھ منسلک کیا گیا اور اس حکم پر عمل نہ کرنے پر شدید عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
(
وَأَنِ احْکُم بَیْْنَہُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَہْوَائَ ہُمْ وَاحْذَرْہُمْ أَنْ یَفْتِنُوْکَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللّٰہُ ِلَیْْکَ )
''اور ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ(احکامات) کے مطابق فیصلہ کیجئے ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور ان سے محتاط رہیے کہ کہیں یہ تمہیں اللہ کے نازل کردہ بعض احکامات کے بارے میں فتنے میں نہ ڈالیں۔'' (المَائدة:49)
اس آیت میں بھی رسول اللہ ا اور مسلمانوں کو اللہ گ نے نازل کردہ تمام احکامات خواہ وہ اوامر ہوں یا نواہی، کے مطابق فیصلے کرنے کا قطعی حکم دیا ہے۔ اس آیت میں رسول اللہ ا اور مسلمانوں کو انسانوںکی اتباع کرنے اور ان کی خواہشات کے پیچھے چلنے سے منع کیا گیا ہے، رسول اللہ ا اور مسلمانوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے کہ کہیں لوگ انہیں بعض احکامات کے بارے میں فتنے میں نہ ڈال دیں۔ اللہ گ کا یہ ارشاد :
(
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ)
''اور جو اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلے نہ کریں وہ لوگ کافر ہیں۔'' (المَائدة:44)
(
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا أنْزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ)
''اور جو اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلے نہ کریں وہ لوگ ظالم ہیں۔'' (المَائدة:45)
(
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ)
''اور جو اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلے نہ کریں وہ لوگ فاسق ہیں۔'' (المَائدة:47)
ان آیات میں اللہ گ نے اللہ گ کے نازل کردہ تمام احکامات کے مطابق فیصلے نہ کرنے والوں کو کافر ، ظالم یا فاسق قرار دیا۔ کیونکہ ان آیات میںلفظ (ما) عمومیت پر دلالت کرتا ہے، پس یہ اللہ گ کے نازل کردہ تمام احکامات پر مشتمل ہے ،خواہ وہ اوامر ہوں یا نواہی۔
مسلمانوں پر فرد ، جماعت اور ریاست کے طور پر بغیر کسی تاخیر ، انتظار اور تدرج کے اسلام کے احکامات کا انطباق فرض ہے ۔ اور کسی فرد، جماعت یا ریاست کے لیے عدم نفاذ کی کوئی چھوٹ نہیں۔
اسلام کے احکامات کو تدریجاً نفاذ اسلام کے احکامات سے یکسرمتصادم ہے۔ بعض احکامات کو نافذ کرکے بعض کو چھوڑنے والا اللہ گ کے ہاں گنہگار ہے خواہ وہ فرد ہو یا جماعت یا حکمران۔
فرض فرض ہی رہتا ہے اور اس پر عمل کرنا فرض ہوتاہے ، حرام حرام ہی رہتاہے اوراس سے اجتناب فرض ہوتاہے ۔ رسول اللہ ا نے بنوثقیف کے وفد کی اس درخواست کو مسترد کیا کہ ان کے بت 'لات 'کو تین سال تک باقی رہنے دیا جائے، یا اسلام میں داخل ہونے پر انہیں نمازمعاف کر دی جائے۔ رسول اللہ ا نے اسے قبول نہیں کیا اور اس کا بالکل انکار کیا، بغیر تاخیر کے بت کو توڑنے پر اصرار کیا، اسی طرح بغیر کسی تاخیر کے نماز کی پابندی پر اصرار کیا۔
رسول اللہ ا نے اس حکمران کو قتل کرنے اوراس کے خلاف تلوار استعمال کرنے کو فرض قراردیا جس سے واضح کفر ظاہر ہو جائے جس کی ہمارے پاس اللہ گ کی طرف سے دلیل موجودہو، یعنی وہ ایسے احکامات نافذ کرے جس کے کفر ہونے میں کوئی شبہ نہ ہو، یہ احکامات تھوڑے ہوں یا زیادہ ، عبادہ بن صامت سے مروی ہے کہ :
((...
وأن لاتنازع الأمر أھلہ قال :الا أن تروا کفراً بواحاً عندکم من اللّٰہ فیہ برھان))
''...اور یہ کہ ہم حکمرانوں کے ساتھ تنازعہ نہیں کریں گے۔ آپ ا نے فرمایا:ماسوائے جب تم کفر بواح دیکھو ،جس کے متعلق تمہارے پاس اللہ کی طرف سے قطعی دلیل موجود ہو۔'' (مسلم)
یہی وجہ ہے کہ اسلامی احکامات کے نفاذمیں کوئی سستی یا تدریج نہیں۔ کیونکہ ایک فرض اور دوسرے فرض یا ایک حرام اور دوسرے حرام کے درمیان کوئی فرق نہیں، نہ ہی ایک حکم اور دوسرے حکم کے درمیان کوئی فرق ہے ۔ اللہ گ کے سارے احکامات برابر ہیں۔ اس لیے ان کو بلا تاخیر اور بغیر انتظار وتدریج کے نافذ کرنا فرض ہے۔ ورنہ اللہ گ کا یہ ارشاد ہم پر بھی صادق آئے گا کہ :
(
أَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَائُ مَنْ یَفْعَلُ ذَلِکَ مِنْکُمْ ِلاَّ خِزْی فِیْ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ یُرَدُّوْنَ ِلَی أَشَدِّ الْعَذَابِ )
''کیا تم کتاب کے بعض حصے پر ایمان لاکر بعض کا انکار کرتے ہو۔ تو جو اس طرح کرے اس کی اس کے سوا کیا سزا ہو سکتی ہے کہ دنیادی زندگی میں بھی رسوا ہو اور قیامت کے دن یہ سخت ترین عذاب میں ڈال دئیے جائیں گے۔'' (البَقَرَة:85)
کسی مسلمان خواہ حکمران ہو یا ایک عام فرد ،کے لیے کسی بھی حکم شرعی کو نافذ نہ کرنے کاکوئی عذر نہیں سوائے اس کے کہ کوئی ایسی شرعی رخصت موجودہو جو شرعی نصوص میں بیان کی گئی ہو۔ وہ عاجزی جسے شرعی نصوص رخصت قرار دیتی ہیں ایسی عاجزی ہے جو کہ حقیقی اور محسوس ہو یعنی حقیقی حالتِ اضطراب مثلاًجان جانے کا یقینی خطرہ(اکراھاً ملجئاً)، یا مثلا وہ حالات جب رسول اللہ ا نے غزوہ خندق کے موقع پر قبیلہ غطفان کو مدینہ کی پیداوار کے تیسرے حصے کی پیش کش کی تھی، یا خلیفہ کا باغیوں کے ساتھ ثالثی کو قبول کرنا، یا جان جانے کے ڈر سے مردارکا گوشت کھانا۔
اس موضوع پر غور سے معلوم ہوگیا کہ تدرج کی یہ فکر ایسے لوگوں کی نمایاں شخصیات میں حالات کے دبائو کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ اس دبائوسے نجات حاصل کرنے کے لیے انہوں نے ایسے شرعی دلائل ڈھونڈ ے کہ وہ اس انداز سے دعوت کرنے کے لیے جواز پیش کر سکیں۔ یعنی انہوں نے پہلے ایک فکر کو اختیار کیا پھر تاویل کے ذریعے اس کے لیے شرعی دلائل ڈھونڈ ے اور ان دلائل کی ایسی تشریح کی کہ وہ ان کی فکر کے مطابق ہو جائیں۔ یہ طریقہ ہمیشہ انحراف کی ابتداء ہوتا ہے۔
تدرج کی طرف دعوت دینا غیر اسلامی چیز کی طرف دعوت دینا ہے، جو کہ حرام ہے ۔ اس بنیاد پر دعوت دینے کی وجہ سے ایک غیر مسلم یا ناقص مسلمان اسلام کو فوراً اختیار کرنے میں تردد کا مظاہرہ کرے گا۔ اوراس تردد کی ذمہ داری تدرّج کی دعوت دینے والے شخص پر عائد ہوگی۔ کیونکہ وہ شخص اسے اسلام پیش ہی نہیں کر رہا۔ یہ اس روحانی اساس سے بھی بعید ہے جو کہ اللہ خالق و مدبر کے وجود پر ایمان پر قائم ہے، حالانکہ اسی روحانی اساس کی بنا پر حکم شرعی کو اختیار یا ترک کیا جاتاہے۔ یہ خود دعوت دینے والوں کے خلاف ہی حجت ہے نہ کہ جن کو دعوت دی جارہی ہے ان پر حجت قائم کی جائے ۔
تدرج کی طرف دعوت دراصل شرع میں دخل دینا اور اپنی من مانی کرناہے ۔ جس کے ذریعے لوگوں کو اس بات کی چھوٹ دے دی جاتی ہے کہ وہ اسلام کا جزوی نفاذ کریں، اس بات کو جواز بنا کر کہ ہم فوراً مکمل طور پر اسلام کو نافذ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ حالانکہ ہمیں حکم ہے کہ ہم اللہ گ اور اس کے رسول ا کے حکم میں کمی بیشی نہ کریں۔ انسان کی مشکلات کے حل کو اس کا علیم وخبیر رب ہی بہتر جانتاہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ توپھر کس طرح ایک مسلمان کو اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ تدرج کی دعوت دے کر شریعت کے عمل میں دخل اندازی کرے۔ جبکہ صحیح یہ ہے کہ داعی کا کام صرف تنفیذ اور شرعی احکامات کی تبلیغ ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
تدرج کی طرف دعوت داعی کو غلط طریقہ فکر دیتی ہے جس کی بنیاد پر وہ دوسرے انسانوں کوبھی غلط دعوت دیتاہے۔ نتیجتاًدوسرے لوگ بھی اس کو اختیار کریں گے جس کی وجہ سے اس کا طرزِ فکر بھی فاسد ہوجائے گا۔ پس اس
طرزِ فکر کو تبدیل کرنا بھی لازمی ہے بالکل اسی طرح جیسے غلط افکار کو تبدیل کرنا ضروری ہے ۔ طرزِ فکر کا تبدیل ہونا افکار کی تبدیلی سے زیادہ اہم ہے ، کیونکہ طرزِ فکر کی تبدیلی ،تبدیلی کے عمل کا پیش خیمہ ہے۔ ہم اس وقت تک امت میں قابل اعتماد تبدیلی نہیں لاسکتے جب تک ہم اس کے طرزِ فکر کو تبدیل نہ کریں، خواہ یہ عمومی طور پر ہی ہو۔ اور ایسا نہ ہو کہ فکر و دعوت کا یہ فاسد طریقہ صحیح فکر کی جگہ لے لے۔
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
ابن حلبی بھائی۔اگر قرآنی آیات کو آپ عربی ٹیگ لگاتے تو آیات بہت خوبصورت اور واضح نظر آتیں؟
 

ابن حلبی

مبتدی
شمولیت
نومبر 23، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
19
میں نے ٹیگ لگائے تھے، لیکن لگتا ہے کہ مجھے صحیح طرح لگانے نہیں آئے۔ انشاء اللہ آئندہ اس معاملے پر زیادہ دھیان دوں گا
 
شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
میں نے ٹیگ لگائے تھے، لیکن لگتا ہے کہ مجھے صحیح طرح لگانے نہیں آئے۔ انشاء اللہ آئندہ اس معاملے پر زیادہ دھیان دوں گا
کافی عمدہ موضوع ہے سرسری دیکھا ہے ان شاء اللہ محبت سے فرصت سے بیٹھ کر پڑھوں گا۔ بارک اللہ فیکم یہ ابھی جاری ہے یا مکمل کر لیا ہے ؟
اور یہ اپنی ان شاء اللہ بھی ٹھیک کرلیں۔۔ابتسامہ۔
محبت سے کہا ہے اسلئے غصہ نہیں کرنا
اللہ جزائے خیر دیں،
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
Graphic1.jpg
میں نے ٹیگ لگائے تھے، لیکن لگتا ہے کہ مجھے صحیح طرح لگانے نہیں آئے۔ انشاء اللہ آئندہ اس معاملے پر زیادہ دھیان دوں گا
جی بھائی آپ میری اس دی گئی تصویر کو دیکھیں ان شاء اللہ اس کا طریقہ آجائے گا۔اگر آپ آیات کو سلیکٹ کرکے تصویر میں دیئے گئے عربی بٹن پر کلک کریں گے جو کہ ر پلائی باکس کے اوپر موجود ہے۔تو ان شاء اللہ تحریر بہت ہی خوبصورت عربی میں آئے گی۔ان شاء اللہ
 

ابن حلبی

مبتدی
شمولیت
نومبر 23، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
19
نصر اللہ اور زاہد، دونوں بھائیوں کی نشاندہی پر ان کا مشکور ہوں
یہ موضوع میری طرف سے مکمل ہے۔ کوئی بھائی کچھ اور شامل کرنا چاہیں تو بصد شوق۔
 
Top