حافظ اختر علی
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 10، 2011
- پیغامات
- 768
- ری ایکشن اسکور
- 732
- پوائنٹ
- 317
[JUSTIFY]
الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام علی اشرف الانبیاءوالمرسلین
آج کل کے دور میں تکفیر کا فتنہ مسلمانوں کیلئے بہت نقصان کا باعث ثابت ہوا ہے۔ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ ان حضرات کے پاس کون کون سے دلائل ہیں جن سے یہ اہل حق کو گمراہ کرنے کی جسارت کرتے ہیں ۔ جب بھی ایسا کوئی شخص آپ کو ملے گا تو جو فتنہ تکفیر کا شکار ہو چکا ہو وہ سب سے پہلے آپ سے الولا والبراءپر گفتگو کرے گا۔
(۱) الولاءو البراء:
ان حضرات کے ہاں امام کعبہ اور عبداللہ بن باز رحمۃ اللہ علیہ کافر ہیں کیوں کہ وہ ایک ایسی حکومت کے تحت ہیں جو کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کی حکومتوں کے ساتھ دوستی رکھتی ہیں ۔ اور وہ دلیل قران کی اس آیت سے دیں گے
ومن یتولھم منکم فانہ منھم
کہ جو کوئی تم مسلمانوں میں سے ان (کافروں ) سے دوستی لگائے گا وہ انہی میں سے ہے۔ تو سعودی حکمران کافر ہیں لہذا انکی حکمرانی میں رھنے والے علماءبھی کافر ہیں ۔
محترم بھائیو یہ انتہائی گمراہ کن بات ہے ۔ قران مجید میں اللہ تبارک و تعالی نے واضح کافر ہونے کے لئے جو شرط رکھی ہے وہ سورة النحل کی آیت نمبر 106ہے۔ ترجمہ “جو کوئی ایمان لانے کے بعد کفر کرے، لیکن (وہ نہیں ) جس کواس پر مجبور کیا جائے اور اسکا دل (اسلام ) ایمان پر مطمئن ہو، اور اسکو کفر پر شرح صدر حاصل ہو تو اسکے لئے اللہ تبارک و تعالی کا غضب ہے اور اس کے لئے عذاب عظیم ہے ۔ “
محترم بھائیو اس آیت کی رو سے کافر وہ ہے جو کفر پر شرح صدر کے ساتھ قائم ہو اور یہ بندہ نہ تو کوئی عذر پیش کرے نہ ہی تاویل کرے نہ ہی مجبو کیا گیا ہو۔
مثال ایک شراب پینے والا آپکی اصلاح پر اعتراف جرم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کام غلط ہے تو ایسا شخص شرح صدر کے ساتھ شراب کو جائز قرار نہیں دے رہا۔ بلکہ وہ شخص جو کہ شراب پئےاور شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہے کہ شراب پینا جائز ہے ان دونوں میں فرق ہے۔
لہذا کسی شخص کی بھی تکفیر کے لئے اس شخص کا شرح صدر کے ساتھ اس کفر پر عمل کرنا ضروری ہے۔ جب تک ایسے شخص کا موقف خو د سے دریافت نہ کیا جائے گا اور توبہ کروا لینے کے باوجود وہ کفر پر قائم رہے اس سے پہلے ہم اسکے بارے میں کوئی بات نہیں کہ سکتے اور نہ ہی کسی قسم کا حکم جاری کر سکتے ہیں ۔
اسلام میں کافروں کی دو اقسام ہیں
(1) کلمہ گو مشرک (2 ) واضح کافر (عیسائی، یہودی، ہندو وغیرہ)
لہذا دو قسمیں ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ رویہ بھی مختلف ہو گا جیسا کہ حضور ﷺنے منافقین (کلمہ گو کافر ) اور دوسرے کافروں کے ساتھ رکھا ۔
تکفیری حضرات ان دو گروہوں کے قائل نہیں وہ سب کو ایک ہی Catagory میں رکھتے ہیں تو چلیں ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا قران پاک میں اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا ” کیا تم نے ایسے شخص کو دیکھا ہے کہ جس نے اپنی نفسانی خواہشات کو اپنا معبود بنایا ہوا ہے ۔ “ اس آیت کی رو سے تو سارے مسلمان ہی کافر ہو سکتے ہیں اور تو اور اکثر اوقات تو یہ لوگ خود اس آیت کی رو سے کافر ٹھہرتے ہیں کیوں کہ بندہ کئی باتیں اپنے نفس کی مان کر ان پر عمل کرتا ہے۔ اور جب آپ یہ آیت ان حضرات کے سامنے پیش کریں گے تو ان کا جواب یہ ہو گا کہ اس آیت کی رو سے دو قسم کے لوگ ہیں۔
(1) ایک وہ جو نفس کی پیروی ہو جانے پر اس سے توبہ کرلیتے ہیں ۔
(2) دوسرے وہ جو کہ نفس کی پیروی پر مصر ہوتے ہیں اور اصلاح کے باوجود ہٹ دھرمی سے اللہ کے احکامات کی بجائے نفس کی مانتے ہیں۔
ان حضرات سے پوچھا جاسکتا ہے کہ آپ ہمیں تو Catagories بنانے سے منع کر رھے ہیں اور خود دو قسمیں بنا رہے ہیں جب آپ پر آئی تو آنے کیوں راہ فرار کی روش اختیارکر لی ہے۔ان لوگوں کا اعتراض ہے کہ صرف کلمہ پڑھ لینا انسان کو کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے ۔ لیکن ان حضرات کی یہ بات بھی صریحا غلط ہے کیوں کہ یہ کلمہ ہی کی برکات ہیں کہ اللہ تعالی نے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال قرار دیاہے اور ان کی عورتوں سے نکاح کی بھی اجازت دی ہے۔مسلمان حکمرانوں کی مثال جنہون نے کفار کے ساتھ دوستی لگا رکھی ہے ان منافقین کی سی ہے نہ کہ حربی کافروں کی طرح مثال کے طور پر اللہ تعالی فرماتے ہیں سورة الحشر آیت نمبر 11 میں ترجمہ : ” کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو کہ منافق ہیں وہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم لوگ نکالے گئے ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے اور تمہارے معاملے میں کسی کا کوئی کہنا نہ مانیں گے اور اگر تمہاری کسی سے لڑائی ہوئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے اور اگر (بفرض محال ) انکی مدد بھی کی تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے ۔ “
اللہ نے ایسے لوگوں کو منافق کہا ہے بھائیو منافق بھی کافر ہے لیکن اسکا دنیا میں کلمہ پڑھ لینا اس کو حربی کافر یا واجب القتل کافر بننے سے بچادیتا ہے۔
ہاں ایک بات یاد رہے کہ جب میدان جہاد گرم ہو اور پھر کوئی مسلمان کہلانے والا شخص کافروں کی صفوں سے نکل کر اہل اسلام پر حملہ کرے تو ایسا مسلمان کہلانے والا شخص بھی حربی کافر ہے اور اس کو قتل کیا جائے گا۔
اب چند مثالوں کے ساتھ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضور ﷺکے زمانے میں منافقین کی (یعنی کلمہ گو ) جماعت کےساتھ کیسا سلوک کیا گیا۔عبداللہ بن ابی ایسا منافق تھا جس کے نفاق کو اللہ تبارک و تعالی نے قرآن مجید میں بیان کیا بڑی بڑی اور اہم باتیں یہ تھیں کہ اس نے بنو نضیر قبیلے کے ساتھ حضور ﷺکو نعوذ باللہ شہید کرنے کی سازش کی۔ اللہ نے آپ کو عین اس وقت وحی کے ذریعے مطلع کر دیا جب وہ یہ کام کرنے ہی والے تھے ، دوسرا غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر عبداللہ بن ابی نے حضور ﷺکو نعوذباللہ ذلیل آدمی سے تشبیہ دی ، اور مہاجرین صحابہ کرام کو نعوذباللہ کتوں سے تشبیہ دی ، اور امہات المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا پر تہمت لگائی۔ یہ اتنے بڑے بڑے کفر ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے تلوار نکال لی اور حضور ﷺسے کہا کہ مجھے اجازت دیں میں اس کو قتل کردوں،اور عبداللہ بن ابی کا اپنا بیٹاجو کہ صحابی رسول ﷺ تھا انہوں نے آپ ﷺسے کہا کہ جب آپ ﷺ میرے باپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنائیں تو یہ کام مجھے سونپ دیں ۔ محتم بھائیو اس موقع پر حضور ﷺکا جواب یہ تھا
” نہیں لوگ یہ کہیں گے کہ محمد ﷺاپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے ۔ “
اب میرے بھائیو غور طلب بات یہ ہے کہ عبداللہ بن ابی کے اتنے بڑے بڑے کفریہ کاموں کا ارتکاب کرنے کے باوجود حضور ﷺ نے اسے اپنا ساتھی کہا اور اس کو قتل نہ کرنا وقت کی مصلحت تھی۔اور اسی بات کا اسلام کو فائدہ تھا ، لہذا اگر اج اسلام کے فائدے کیلئے مصلحت کے تحت مسلمانوں کے گمراہ فرقوں کو اپنے ساتھ چلانا تاکہ ان کے عقائد اور معاملات کی اصلاح ہو جائز ہے۔ اور اس کے نتائج بھی ہمارے سامنے آئے ہیں الحمدللہ لوگ صحیح عقیدے کو اپنا رہے ہیں ۔ اور کافروں کی مسلمانوں کو فرقہ بازی کی بھینٹ چڑھا کر آپس میں اپنی صلاحیتوں کو ضائع کروانے کی سازش ناکام ہو رہی ہے۔
دوسرا نقطہ جس پر یہ بات کرتے ہیں وہ ہے توحید فی الحکم۔
(2) توحید فی الحکم :
” ومن لم یحکم بماانزل اللہ فاولئک ھم الکافرون “
اس آیت کی رو سے وہ سب لوگ کافر ہیں جو کہ اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کیخلاف فیصلے کرتے ہیں اسی آیت کے ساتھ ملحقہ آیات میں اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں کہ ” ومن لم یحکم بماانزل اللہ فاولئک ھم الظالمون “ کہ وہ لوگ ظالم (گناہ گار ) ہیں جو کہ اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے ان سے پوچھا جائے کہ” گناہ گار“ کون ہے اور” کافر یا مشرک“ کون ہے۔
اسکے علاوہ سورہ النساء آیت نمبر 60 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ
” الم ترالی الذین یزعمون انھم امنو بما انزل الیک و ما انزل من قبلک یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت و قد امروا ان یکفروا بہ و یرید الشیطن ان یظلھم ضللا بعیدا “
”کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا؟ جن کا دعوی تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا اس پر ان کا ایمان ہے لیکن اوہ اپنے فیصلے طاغوت کی طرف لے کر جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور ڈال دے۔
اسکے بعد اللہ تبارک و تعالی آیت نمبر 63سورة النساءمیں ان لوگوں کے ساتھ سلوک کا ذکر کرتے ہیں کہ
” اولئک الذین یعلم اللہ مافی قلوبھم فاعرض عنھم و عظھم و فل لہم فی انفسہم قولا بلیغا “
”یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ ان کے دلوںکا بھیدخوب جانتا ہے پس آپ ان سے اعراض کریں اور ان کو نصیحت کرتے رہیں اور انہیں وہ بات کہیں جو ان کے دلوں میں گھر کرنے والی ہو۔ “
ان آیات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ ہمیں سمجھانے کا حکم دے رہا ہے اور ان سے منہ موڑنے کا نہ کہ ان کے قتل کرنے کا۔لہذا یہ لوگ (حکمران وغیرہ) منافقین کی صف میں شامل کئے جائیں گے نہ کہ کافروں کی صف میں اور ان کی اصلاح کی جائے گی افسوس آج قرآن پاک کی اس آیت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اور اللہ کے اس حکم کو پس پشت ڈالنے کی وجہ سے یہ گمراہ کن گروہ اپنے ہی وضع کردہ اصولوں کے تحت خود بھی تکفیر کا شکار ہو رہا ہے۔یعنی کیا یہ اللہ کے ہر حکم پر عمل کرتے ہیں کیا ان سے کبھی اللہ سے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی تو اس طرح یہ بھی اللہ کے حکم کی صریحا خلاف ورزی ہے اور اسی طرح نبی کریم جس بات سے منع کرگئے یہ لوگ اسی بات کو سر انجام دینے کے باوجود اپنے آپ کو حق پر ثابت کریں یہ کیسا انصاف ہے اللہ ہمیں حق بات سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
اور منافقین کو قتل نہ کرنے کی ایک دلیل مسند احمد کی حدیث ہے جس میں صحابہ کرام نے اللہ کے نبی ﷺسے کہا کہ منافق لوگ کفریہ کام کر رہے ہیں ہمیں اجازت دیں کہ ہم ان کاصفایا کر دیں آپ ﷺنے فرمایا ” اولئک نھانی اللہ عنھم “ کہ یہ (منافقین) وہ لوگ ہیں جن کو قتل کرنے سے اللہ تبارک وتعالی نے مجھے منع کیا ہے۔
محترم بھائیو اس گمراہ کن فرقہ نے جو سب سے بڑی غلطی کھائی وہ یہ ہے کہ ان میں اصلاحی پہلو منقود ہے قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالی فرماتے ہیں ۔ ” اے نبی ﷺلوگوں کو اللہ کے رستے کی طرف دانائی اور بہترین حکمت عملی کے ذریعے بلاؤ اور ان کے ساتھ احسن انداز میں گفتگو کرو۔ “ سورة الاعراف آیت نمبر 138
حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوم کے ساتھ ایک میدان سے گزرے تو قوم نے دیکھا کہ لوگ بت کی عبادت کر رہے ہیں تو انہوں نے آپ سے علیہ السلام سے کہا کہ اے موسی ہمارے لئے بھی کوئی بت معبود مقرر کردیں جس طرح ان لوگوں کا بت ہے تو حضرت موسی علیہ السلام نے ان سے جو بات کہی قرآن نے اس کو یوں نقل کیا ہے ” انکم قوم تجھلون “بے شک تم جاہل قوم ہوحضرت موسی علیہ السلام نے تکفیر کرنے کی بجائے ان کو جاہل کہا ۔ آج بھی لوگ جہالت کی وجہ سے درباروں ، قبور اور فوت شدہ لوگوں سے ہر قسم کی مدد مانگتے ہیں ہمارا فرض انکی اصلاح ہے نہ ان کی تکفیر کرکے ان کے لئے فتنہ بنیں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللھم لا تجعل فتنة للقوم الظلمین
اسی طرح ایک دفعہ آنحضرت ﷺکے ساتھ نئے ایمان لانے والے صحابہ موجود تھے انہوں نے حضور ﷺسے کہا کہ ” اجعل لنا ذات الانواط “ تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے موسی علیہ السلام کی قوم والی بات کہی ہے۔ حضور ﷺ نے اصلاحی انداز اختیار کیا۔ اسی طرح طائف کے لوگ جب فتح مکہ کے بعد حضور ﷺکے پاس ایمان لانے اور بیعت کرنے کیلئے آئے تو انہوں نے جملہ عبادات پر عمل نہ کرنے کا اظہار کیا حضور ﷺنے نماز کے علاوہ مصلحت کے تحت وقتی طور پر تمام فرائض چھوڑنے کی اجازت دے دی کہ وہ لوگ آہستہ آہستہ خود اسلام میں اگے بڑھنے پر ان کو اختیار کر لیں گے اور جب انھوں نے کہا کہ ہم نماز ادا نہیں کریں گے تو آپ ﷺنے ان کی اصلاح اس طرح کی کہ ” لاخیر فی دین لاصلاة فیھا “ اس دین میں کوئی خیر نہیں جس میں نماز نہیں۔
محترم بھائیو ان واقعات میں غور طلب بات یہ ہے کہ موسی علیہ السلام کی قوم ان سے اللہ کی جگہ ایک اور الہ مقرر کرنے کا کہ رہی ہے یہ واضح شرک ہے اسی طرح نبی ﷺکے نئے ایمان لانے والے صحابہ بھی اسی چیز کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن مسلمان کی تکفیر کی بجائے اصلاح کی جا رہی ہے۔
ان بھائیوں کا ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ آپ لوگ اپنے ملک میں ان درباروں کو کیوں نہیں توڑتے یہ اللہ کی بغاوت کے اڈے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ اللہ کی بغاوت کے اڈے ہیں لیکن قرآن مصلحت اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ایسے واقعات پاکستان میں ہوئے ہیں کہ درباروں کو ڈھایا گیا لیکن اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ اھل شرک و بدعت نے ان مقامات کو پہلے سے زیادہ بھرپور انداز میں آباد کیا۔
اللہ تبارک وتعالی نے ہمارے لئے حضرت ابراہیم کی زندگی کو قرآن میں نمونہ قرار دیا ہے۔آپ امام الموحدین تھے، انکی زندگی کا ایک اہم واقعہ جب کہ انکی قوم میلے پر گئی ہوئی تھی آپ نے جا کر تمام بت توڑے اور ایک سب سے بڑے بت کو چھوڑ کر اس کے کندھے پر کلہاڑا رکھ دیا ۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اس بت کو بھی توڑ دیتے لیکن انہوں نے مصلحت اور قوم کو سمجھانے کی خاطر ایسا نہ کیا اور جب قوم واپس آئی تو انھوں نے ابراھیم علیہ السلام سے دریافت کیا اور کہا کہ یہ آپ کا کام ہو سکتا ہے۔تو آپ نے جواب دیا کہ اس بڑے بت سے پوچھو جس کے کندھے پر کلہاڑا ہے۔ قوم والے کہنے لگے کہ یہ نہ تو بولتے ہیں نہ تو سنتے ہیں اور نہ ہی حرکت کر سکتے ہیں۔ یہی چیز حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنی قوم کو سمجھانا چاہتے تھے کہ بت ہمارے کسی طرح سے بھی ہمارے معبود نہیں ہو سکتے لہذا بات سمجھ میں آئی کہ کبھی کبھی بت نہ توڑنے میں بھی اللہ کے دین کا فائدہ ہو سکتا ہے۔
مسلمان حکمرانوں کی تکفیر :
رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں
” من قاتل لتکون کلمة اللہ ھی العلیاءفھو فی سبیل اللہ “ جو شخص اس وجہ سے لڑے کہ اللہ کا دین دنیا میں سربلند ہو تو وہ شخص اللہ کے راستے میں (جہاد کر رہا) ہے۔
لہذا محترم بھائیو ہمیشہ جب بھی کوئی قدم اٹھانا جائے تو اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ہمارے ایسے اقدام سے اسلام کو فائدہ ہو رہا ہے یا کفر کو۔۔
مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج کرنے سے اسلامی جماعتوں نے تاریخ میں نقصان اٹھایا ہے ۔ مصر میں اخوان المسلمون جو کہ ایک دینی جماعت تھی اس نے عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے تھے لیکن جب وہ تکفیریت کا شکار ہوئے اور حکومت سے ٹکر لی تو نتیجہ یہ ہوا کہ تنظیم کے تمام افراد حکومت کی قید میں چلے گئے کئی حکومتی بندے مرے اور کئی اخوانی مارے گئے۔ اور مصر میں اسلامی جماعتوں پر سخت پابندی لگ گئی اور ان پر کڑی نظر رکھی جانے لگی حتی کہ داڑھی پر پابندی لگا دی گئی ، نتیجہ حاصل یہ کہ اسلام کا سخت نقصان ہوا اور آج تک اسکی تلافی نہ کی جاسکی ۔
یہی تاریخ الجزائر میں اسلامی جماعتوں نے دہرائی نتائج اسی پر منتج ہوا کہ مجاھدین پر پابندیاں لگ گئیں اور اسکے بعد اب تک کوئی دینی جماعت اب تک کھڑی نہ ہو سکی۔ سعودیہ کے اندر مجاھدین پر جملہ سختیاں بھی اسی وجہ سے آئیں۔ حکومت کی تکفیر کی گئی اور ان کو قتل کرنے کا فتوی دیا گیا ۔ نتیجہ حکومت نے اپنے تحفظ کے طور پر جہاد اور مجاھدین کا Setup ختم کردیا۔ نتیجہ یہی کہ اسلام کا نقصان اور کافروں (امریکہ ، اسرائیل ) کو فائدہ حاصل ہوا۔
آج حکومتیں مسلمان مجاھدین کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کر رہی ہیں ۔ یقینا یہ بڑا جرم ہے اور حرام کام ہے۔ کسی بھی مسلمان کو کسی طرح بھی غیر مسلم کے ہاتھ نہیں دیا جا سکتا۔ اب یہاں دیکھنا یہ ہے کہ آیا ایسے واقعات پہلے تاریخ میں بھی ہوئے اور اگر ہوئے تو سلف صالحین نے ایسے مواقع پر حکومت وقت کے خلاف کیا موقف اختیار کیا ، کیا ان پر کفر کا فتوی لگایا ان کے خلاف خروج کیا یا حکمت عملی اپنا کر حکومت وقت سے ساتھ ٹکر نہ لی اور یوں ملت اسلامیہ کو بڑی ٹکر اور اور پھوٹ سے بچالیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری ایام میں خوارج نے انکے گھر کا گھیراو ¾ کر لیااور یہ معلوم تھا کہ وہ آپ کو قتل کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔ آپ کے پاس کئی صحابہ آئے اور آپ سے اجازت چاہی کہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم ان کے خلاف لڑیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ صاحبِ بصیرت تھے وہ جانتے تھے کہ اجازت دینے سے مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں گےاسلام کمزور ہو گا اور کافر قوتیں طاقت پکڑیں گی۔ لہذا انہوں نے لڑائی سے منع کر دیا اور اپنی شہادت پیش کرکے امت مسلم کو ایک بڑے تصادم سے بچالیا۔
اسی طرح خلیفہ سلیمان بن الملک نے قتیبہ بن مسلم کو قتل کیا اسکے بعد محمد بن قاسم کو برصغیر سے واپس بلایا محمد بن قاسم کو قتل کی خبر پہنچ چکی تھی اور وہ یہ جانتے تھے کہ خلیفہ ان کے خلاف کیا کرنے والا ہے۔ کئی لوگوں نے ان سے کہا کہ ہم آپ کےساتھ مل کر خلیفہ کے خلاف لڑیں گے لیکن محمد ابن قاسم نے اجازت نہ دی اور آپ بھی قید میں ڈال دئیے گئے ۔ اسلام کے ان عظیم سپہ سالاروں کو شہید کرنے کے باوجود سلف صالحین نے سلمان بن الملک کو کافر قرار نہیں دیا۔
اسی طرح حجاج بن یوسف نے صحابی رسول ﷺعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کروایا لیکن تاریخ میں کبھی اسکی تکفیر نہیں کی گئی۔ اور امام مالک جو امام مدینہ کے نام سے مشہور تھے اور مسجد نبوی میں منبر رسول ﷺپردرس حدیث دیا کرتے تھے ۔ جبری طلاق کے مسئلے پر خلیفہ سے اختلاف ہوا تو خلیفہ نے انکے صحیح موقف کو نہ صرف قبول نہ کیا بلکہ اپنے موقف کی تائید کیلئے آپ پر ظلم و ستم ڈھایا حتی کہ آپ کے دونوں بازو توڑ دئے گئے ،لیکن آپ اس اذیت کے باوجود صحیح موقف پر قائم رہے اور خلیفہ کو سمجھاتے رہے۔ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بھی خلق قرآن کے مسئلے پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور خلیفہ وقت کو مسئلہ سمجھاتے رہے اور اسکی اصلاح کی کوشش میں لگے رہے، لہذا ہمیں بھی امام مالک کی طرح حاکم وقت کی اصلاح کرنی چاہیے اسے احساس جرم دلانا چاہیے اور تصادم کے ذریعے اسلام کو نقصان پہنچانے سے بچنا چاہیے۔یہ چند ایک واقعات ہیں ہمےںسلف صالحین کا جابر اور ظالم حکمرانوں کے ساتھ اپنائے گئے طرزعمل کا علم ہوتا ہے ۔لہذا پاکستان جو دنیا بھر میں مجاہدین کا آخری مسکن ہے اگر وہاں بھی اصلاح کے نام پر غلط روش اختیار کی گئی تو یہ آخری پناہ گاہ بھی ختم ہو جائے گی ۔[/JUSTIFY]
فتنہ تکفیر
الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام علی اشرف الانبیاءوالمرسلین
آج کل کے دور میں تکفیر کا فتنہ مسلمانوں کیلئے بہت نقصان کا باعث ثابت ہوا ہے۔ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ ان حضرات کے پاس کون کون سے دلائل ہیں جن سے یہ اہل حق کو گمراہ کرنے کی جسارت کرتے ہیں ۔ جب بھی ایسا کوئی شخص آپ کو ملے گا تو جو فتنہ تکفیر کا شکار ہو چکا ہو وہ سب سے پہلے آپ سے الولا والبراءپر گفتگو کرے گا۔
(۱) الولاءو البراء:
ان حضرات کے ہاں امام کعبہ اور عبداللہ بن باز رحمۃ اللہ علیہ کافر ہیں کیوں کہ وہ ایک ایسی حکومت کے تحت ہیں جو کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کی حکومتوں کے ساتھ دوستی رکھتی ہیں ۔ اور وہ دلیل قران کی اس آیت سے دیں گے
ومن یتولھم منکم فانہ منھم
کہ جو کوئی تم مسلمانوں میں سے ان (کافروں ) سے دوستی لگائے گا وہ انہی میں سے ہے۔ تو سعودی حکمران کافر ہیں لہذا انکی حکمرانی میں رھنے والے علماءبھی کافر ہیں ۔
محترم بھائیو یہ انتہائی گمراہ کن بات ہے ۔ قران مجید میں اللہ تبارک و تعالی نے واضح کافر ہونے کے لئے جو شرط رکھی ہے وہ سورة النحل کی آیت نمبر 106ہے۔ ترجمہ “جو کوئی ایمان لانے کے بعد کفر کرے، لیکن (وہ نہیں ) جس کواس پر مجبور کیا جائے اور اسکا دل (اسلام ) ایمان پر مطمئن ہو، اور اسکو کفر پر شرح صدر حاصل ہو تو اسکے لئے اللہ تبارک و تعالی کا غضب ہے اور اس کے لئے عذاب عظیم ہے ۔ “
محترم بھائیو اس آیت کی رو سے کافر وہ ہے جو کفر پر شرح صدر کے ساتھ قائم ہو اور یہ بندہ نہ تو کوئی عذر پیش کرے نہ ہی تاویل کرے نہ ہی مجبو کیا گیا ہو۔
مثال ایک شراب پینے والا آپکی اصلاح پر اعتراف جرم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کام غلط ہے تو ایسا شخص شرح صدر کے ساتھ شراب کو جائز قرار نہیں دے رہا۔ بلکہ وہ شخص جو کہ شراب پئےاور شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہے کہ شراب پینا جائز ہے ان دونوں میں فرق ہے۔
لہذا کسی شخص کی بھی تکفیر کے لئے اس شخص کا شرح صدر کے ساتھ اس کفر پر عمل کرنا ضروری ہے۔ جب تک ایسے شخص کا موقف خو د سے دریافت نہ کیا جائے گا اور توبہ کروا لینے کے باوجود وہ کفر پر قائم رہے اس سے پہلے ہم اسکے بارے میں کوئی بات نہیں کہ سکتے اور نہ ہی کسی قسم کا حکم جاری کر سکتے ہیں ۔
اسلام میں کافروں کی دو اقسام ہیں
(1) کلمہ گو مشرک (2 ) واضح کافر (عیسائی، یہودی، ہندو وغیرہ)
لہذا دو قسمیں ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ رویہ بھی مختلف ہو گا جیسا کہ حضور ﷺنے منافقین (کلمہ گو کافر ) اور دوسرے کافروں کے ساتھ رکھا ۔
تکفیری حضرات ان دو گروہوں کے قائل نہیں وہ سب کو ایک ہی Catagory میں رکھتے ہیں تو چلیں ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا قران پاک میں اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا ” کیا تم نے ایسے شخص کو دیکھا ہے کہ جس نے اپنی نفسانی خواہشات کو اپنا معبود بنایا ہوا ہے ۔ “ اس آیت کی رو سے تو سارے مسلمان ہی کافر ہو سکتے ہیں اور تو اور اکثر اوقات تو یہ لوگ خود اس آیت کی رو سے کافر ٹھہرتے ہیں کیوں کہ بندہ کئی باتیں اپنے نفس کی مان کر ان پر عمل کرتا ہے۔ اور جب آپ یہ آیت ان حضرات کے سامنے پیش کریں گے تو ان کا جواب یہ ہو گا کہ اس آیت کی رو سے دو قسم کے لوگ ہیں۔
(1) ایک وہ جو نفس کی پیروی ہو جانے پر اس سے توبہ کرلیتے ہیں ۔
(2) دوسرے وہ جو کہ نفس کی پیروی پر مصر ہوتے ہیں اور اصلاح کے باوجود ہٹ دھرمی سے اللہ کے احکامات کی بجائے نفس کی مانتے ہیں۔
ان حضرات سے پوچھا جاسکتا ہے کہ آپ ہمیں تو Catagories بنانے سے منع کر رھے ہیں اور خود دو قسمیں بنا رہے ہیں جب آپ پر آئی تو آنے کیوں راہ فرار کی روش اختیارکر لی ہے۔ان لوگوں کا اعتراض ہے کہ صرف کلمہ پڑھ لینا انسان کو کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے ۔ لیکن ان حضرات کی یہ بات بھی صریحا غلط ہے کیوں کہ یہ کلمہ ہی کی برکات ہیں کہ اللہ تعالی نے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال قرار دیاہے اور ان کی عورتوں سے نکاح کی بھی اجازت دی ہے۔مسلمان حکمرانوں کی مثال جنہون نے کفار کے ساتھ دوستی لگا رکھی ہے ان منافقین کی سی ہے نہ کہ حربی کافروں کی طرح مثال کے طور پر اللہ تعالی فرماتے ہیں سورة الحشر آیت نمبر 11 میں ترجمہ : ” کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو کہ منافق ہیں وہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم لوگ نکالے گئے ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے اور تمہارے معاملے میں کسی کا کوئی کہنا نہ مانیں گے اور اگر تمہاری کسی سے لڑائی ہوئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے اور اگر (بفرض محال ) انکی مدد بھی کی تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے ۔ “
اللہ نے ایسے لوگوں کو منافق کہا ہے بھائیو منافق بھی کافر ہے لیکن اسکا دنیا میں کلمہ پڑھ لینا اس کو حربی کافر یا واجب القتل کافر بننے سے بچادیتا ہے۔
ہاں ایک بات یاد رہے کہ جب میدان جہاد گرم ہو اور پھر کوئی مسلمان کہلانے والا شخص کافروں کی صفوں سے نکل کر اہل اسلام پر حملہ کرے تو ایسا مسلمان کہلانے والا شخص بھی حربی کافر ہے اور اس کو قتل کیا جائے گا۔
اب چند مثالوں کے ساتھ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضور ﷺکے زمانے میں منافقین کی (یعنی کلمہ گو ) جماعت کےساتھ کیسا سلوک کیا گیا۔عبداللہ بن ابی ایسا منافق تھا جس کے نفاق کو اللہ تبارک و تعالی نے قرآن مجید میں بیان کیا بڑی بڑی اور اہم باتیں یہ تھیں کہ اس نے بنو نضیر قبیلے کے ساتھ حضور ﷺکو نعوذ باللہ شہید کرنے کی سازش کی۔ اللہ نے آپ کو عین اس وقت وحی کے ذریعے مطلع کر دیا جب وہ یہ کام کرنے ہی والے تھے ، دوسرا غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر عبداللہ بن ابی نے حضور ﷺکو نعوذباللہ ذلیل آدمی سے تشبیہ دی ، اور مہاجرین صحابہ کرام کو نعوذباللہ کتوں سے تشبیہ دی ، اور امہات المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا پر تہمت لگائی۔ یہ اتنے بڑے بڑے کفر ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے تلوار نکال لی اور حضور ﷺسے کہا کہ مجھے اجازت دیں میں اس کو قتل کردوں،اور عبداللہ بن ابی کا اپنا بیٹاجو کہ صحابی رسول ﷺ تھا انہوں نے آپ ﷺسے کہا کہ جب آپ ﷺ میرے باپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنائیں تو یہ کام مجھے سونپ دیں ۔ محتم بھائیو اس موقع پر حضور ﷺکا جواب یہ تھا
” نہیں لوگ یہ کہیں گے کہ محمد ﷺاپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے ۔ “
اب میرے بھائیو غور طلب بات یہ ہے کہ عبداللہ بن ابی کے اتنے بڑے بڑے کفریہ کاموں کا ارتکاب کرنے کے باوجود حضور ﷺ نے اسے اپنا ساتھی کہا اور اس کو قتل نہ کرنا وقت کی مصلحت تھی۔اور اسی بات کا اسلام کو فائدہ تھا ، لہذا اگر اج اسلام کے فائدے کیلئے مصلحت کے تحت مسلمانوں کے گمراہ فرقوں کو اپنے ساتھ چلانا تاکہ ان کے عقائد اور معاملات کی اصلاح ہو جائز ہے۔ اور اس کے نتائج بھی ہمارے سامنے آئے ہیں الحمدللہ لوگ صحیح عقیدے کو اپنا رہے ہیں ۔ اور کافروں کی مسلمانوں کو فرقہ بازی کی بھینٹ چڑھا کر آپس میں اپنی صلاحیتوں کو ضائع کروانے کی سازش ناکام ہو رہی ہے۔
دوسرا نقطہ جس پر یہ بات کرتے ہیں وہ ہے توحید فی الحکم۔
(2) توحید فی الحکم :
” ومن لم یحکم بماانزل اللہ فاولئک ھم الکافرون “
اس آیت کی رو سے وہ سب لوگ کافر ہیں جو کہ اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کیخلاف فیصلے کرتے ہیں اسی آیت کے ساتھ ملحقہ آیات میں اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں کہ ” ومن لم یحکم بماانزل اللہ فاولئک ھم الظالمون “ کہ وہ لوگ ظالم (گناہ گار ) ہیں جو کہ اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے ان سے پوچھا جائے کہ” گناہ گار“ کون ہے اور” کافر یا مشرک“ کون ہے۔
اسکے علاوہ سورہ النساء آیت نمبر 60 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ
” الم ترالی الذین یزعمون انھم امنو بما انزل الیک و ما انزل من قبلک یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت و قد امروا ان یکفروا بہ و یرید الشیطن ان یظلھم ضللا بعیدا “
”کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا؟ جن کا دعوی تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا اس پر ان کا ایمان ہے لیکن اوہ اپنے فیصلے طاغوت کی طرف لے کر جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور ڈال دے۔
اسکے بعد اللہ تبارک و تعالی آیت نمبر 63سورة النساءمیں ان لوگوں کے ساتھ سلوک کا ذکر کرتے ہیں کہ
” اولئک الذین یعلم اللہ مافی قلوبھم فاعرض عنھم و عظھم و فل لہم فی انفسہم قولا بلیغا “
”یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ ان کے دلوںکا بھیدخوب جانتا ہے پس آپ ان سے اعراض کریں اور ان کو نصیحت کرتے رہیں اور انہیں وہ بات کہیں جو ان کے دلوں میں گھر کرنے والی ہو۔ “
ان آیات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ ہمیں سمجھانے کا حکم دے رہا ہے اور ان سے منہ موڑنے کا نہ کہ ان کے قتل کرنے کا۔لہذا یہ لوگ (حکمران وغیرہ) منافقین کی صف میں شامل کئے جائیں گے نہ کہ کافروں کی صف میں اور ان کی اصلاح کی جائے گی افسوس آج قرآن پاک کی اس آیت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اور اللہ کے اس حکم کو پس پشت ڈالنے کی وجہ سے یہ گمراہ کن گروہ اپنے ہی وضع کردہ اصولوں کے تحت خود بھی تکفیر کا شکار ہو رہا ہے۔یعنی کیا یہ اللہ کے ہر حکم پر عمل کرتے ہیں کیا ان سے کبھی اللہ سے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی تو اس طرح یہ بھی اللہ کے حکم کی صریحا خلاف ورزی ہے اور اسی طرح نبی کریم جس بات سے منع کرگئے یہ لوگ اسی بات کو سر انجام دینے کے باوجود اپنے آپ کو حق پر ثابت کریں یہ کیسا انصاف ہے اللہ ہمیں حق بات سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
اور منافقین کو قتل نہ کرنے کی ایک دلیل مسند احمد کی حدیث ہے جس میں صحابہ کرام نے اللہ کے نبی ﷺسے کہا کہ منافق لوگ کفریہ کام کر رہے ہیں ہمیں اجازت دیں کہ ہم ان کاصفایا کر دیں آپ ﷺنے فرمایا ” اولئک نھانی اللہ عنھم “ کہ یہ (منافقین) وہ لوگ ہیں جن کو قتل کرنے سے اللہ تبارک وتعالی نے مجھے منع کیا ہے۔
محترم بھائیو اس گمراہ کن فرقہ نے جو سب سے بڑی غلطی کھائی وہ یہ ہے کہ ان میں اصلاحی پہلو منقود ہے قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالی فرماتے ہیں ۔ ” اے نبی ﷺلوگوں کو اللہ کے رستے کی طرف دانائی اور بہترین حکمت عملی کے ذریعے بلاؤ اور ان کے ساتھ احسن انداز میں گفتگو کرو۔ “ سورة الاعراف آیت نمبر 138
حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوم کے ساتھ ایک میدان سے گزرے تو قوم نے دیکھا کہ لوگ بت کی عبادت کر رہے ہیں تو انہوں نے آپ سے علیہ السلام سے کہا کہ اے موسی ہمارے لئے بھی کوئی بت معبود مقرر کردیں جس طرح ان لوگوں کا بت ہے تو حضرت موسی علیہ السلام نے ان سے جو بات کہی قرآن نے اس کو یوں نقل کیا ہے ” انکم قوم تجھلون “بے شک تم جاہل قوم ہوحضرت موسی علیہ السلام نے تکفیر کرنے کی بجائے ان کو جاہل کہا ۔ آج بھی لوگ جہالت کی وجہ سے درباروں ، قبور اور فوت شدہ لوگوں سے ہر قسم کی مدد مانگتے ہیں ہمارا فرض انکی اصلاح ہے نہ ان کی تکفیر کرکے ان کے لئے فتنہ بنیں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللھم لا تجعل فتنة للقوم الظلمین
اسی طرح ایک دفعہ آنحضرت ﷺکے ساتھ نئے ایمان لانے والے صحابہ موجود تھے انہوں نے حضور ﷺسے کہا کہ ” اجعل لنا ذات الانواط “ تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے موسی علیہ السلام کی قوم والی بات کہی ہے۔ حضور ﷺ نے اصلاحی انداز اختیار کیا۔ اسی طرح طائف کے لوگ جب فتح مکہ کے بعد حضور ﷺکے پاس ایمان لانے اور بیعت کرنے کیلئے آئے تو انہوں نے جملہ عبادات پر عمل نہ کرنے کا اظہار کیا حضور ﷺنے نماز کے علاوہ مصلحت کے تحت وقتی طور پر تمام فرائض چھوڑنے کی اجازت دے دی کہ وہ لوگ آہستہ آہستہ خود اسلام میں اگے بڑھنے پر ان کو اختیار کر لیں گے اور جب انھوں نے کہا کہ ہم نماز ادا نہیں کریں گے تو آپ ﷺنے ان کی اصلاح اس طرح کی کہ ” لاخیر فی دین لاصلاة فیھا “ اس دین میں کوئی خیر نہیں جس میں نماز نہیں۔
محترم بھائیو ان واقعات میں غور طلب بات یہ ہے کہ موسی علیہ السلام کی قوم ان سے اللہ کی جگہ ایک اور الہ مقرر کرنے کا کہ رہی ہے یہ واضح شرک ہے اسی طرح نبی ﷺکے نئے ایمان لانے والے صحابہ بھی اسی چیز کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن مسلمان کی تکفیر کی بجائے اصلاح کی جا رہی ہے۔
ان بھائیوں کا ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ آپ لوگ اپنے ملک میں ان درباروں کو کیوں نہیں توڑتے یہ اللہ کی بغاوت کے اڈے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ اللہ کی بغاوت کے اڈے ہیں لیکن قرآن مصلحت اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ایسے واقعات پاکستان میں ہوئے ہیں کہ درباروں کو ڈھایا گیا لیکن اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ اھل شرک و بدعت نے ان مقامات کو پہلے سے زیادہ بھرپور انداز میں آباد کیا۔
اللہ تبارک وتعالی نے ہمارے لئے حضرت ابراہیم کی زندگی کو قرآن میں نمونہ قرار دیا ہے۔آپ امام الموحدین تھے، انکی زندگی کا ایک اہم واقعہ جب کہ انکی قوم میلے پر گئی ہوئی تھی آپ نے جا کر تمام بت توڑے اور ایک سب سے بڑے بت کو چھوڑ کر اس کے کندھے پر کلہاڑا رکھ دیا ۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اس بت کو بھی توڑ دیتے لیکن انہوں نے مصلحت اور قوم کو سمجھانے کی خاطر ایسا نہ کیا اور جب قوم واپس آئی تو انھوں نے ابراھیم علیہ السلام سے دریافت کیا اور کہا کہ یہ آپ کا کام ہو سکتا ہے۔تو آپ نے جواب دیا کہ اس بڑے بت سے پوچھو جس کے کندھے پر کلہاڑا ہے۔ قوم والے کہنے لگے کہ یہ نہ تو بولتے ہیں نہ تو سنتے ہیں اور نہ ہی حرکت کر سکتے ہیں۔ یہی چیز حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنی قوم کو سمجھانا چاہتے تھے کہ بت ہمارے کسی طرح سے بھی ہمارے معبود نہیں ہو سکتے لہذا بات سمجھ میں آئی کہ کبھی کبھی بت نہ توڑنے میں بھی اللہ کے دین کا فائدہ ہو سکتا ہے۔
مسلمان حکمرانوں کی تکفیر :
رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں
” من قاتل لتکون کلمة اللہ ھی العلیاءفھو فی سبیل اللہ “ جو شخص اس وجہ سے لڑے کہ اللہ کا دین دنیا میں سربلند ہو تو وہ شخص اللہ کے راستے میں (جہاد کر رہا) ہے۔
لہذا محترم بھائیو ہمیشہ جب بھی کوئی قدم اٹھانا جائے تو اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ہمارے ایسے اقدام سے اسلام کو فائدہ ہو رہا ہے یا کفر کو۔۔
مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج کرنے سے اسلامی جماعتوں نے تاریخ میں نقصان اٹھایا ہے ۔ مصر میں اخوان المسلمون جو کہ ایک دینی جماعت تھی اس نے عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے تھے لیکن جب وہ تکفیریت کا شکار ہوئے اور حکومت سے ٹکر لی تو نتیجہ یہ ہوا کہ تنظیم کے تمام افراد حکومت کی قید میں چلے گئے کئی حکومتی بندے مرے اور کئی اخوانی مارے گئے۔ اور مصر میں اسلامی جماعتوں پر سخت پابندی لگ گئی اور ان پر کڑی نظر رکھی جانے لگی حتی کہ داڑھی پر پابندی لگا دی گئی ، نتیجہ حاصل یہ کہ اسلام کا سخت نقصان ہوا اور آج تک اسکی تلافی نہ کی جاسکی ۔
یہی تاریخ الجزائر میں اسلامی جماعتوں نے دہرائی نتائج اسی پر منتج ہوا کہ مجاھدین پر پابندیاں لگ گئیں اور اسکے بعد اب تک کوئی دینی جماعت اب تک کھڑی نہ ہو سکی۔ سعودیہ کے اندر مجاھدین پر جملہ سختیاں بھی اسی وجہ سے آئیں۔ حکومت کی تکفیر کی گئی اور ان کو قتل کرنے کا فتوی دیا گیا ۔ نتیجہ حکومت نے اپنے تحفظ کے طور پر جہاد اور مجاھدین کا Setup ختم کردیا۔ نتیجہ یہی کہ اسلام کا نقصان اور کافروں (امریکہ ، اسرائیل ) کو فائدہ حاصل ہوا۔
آج حکومتیں مسلمان مجاھدین کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کر رہی ہیں ۔ یقینا یہ بڑا جرم ہے اور حرام کام ہے۔ کسی بھی مسلمان کو کسی طرح بھی غیر مسلم کے ہاتھ نہیں دیا جا سکتا۔ اب یہاں دیکھنا یہ ہے کہ آیا ایسے واقعات پہلے تاریخ میں بھی ہوئے اور اگر ہوئے تو سلف صالحین نے ایسے مواقع پر حکومت وقت کے خلاف کیا موقف اختیار کیا ، کیا ان پر کفر کا فتوی لگایا ان کے خلاف خروج کیا یا حکمت عملی اپنا کر حکومت وقت سے ساتھ ٹکر نہ لی اور یوں ملت اسلامیہ کو بڑی ٹکر اور اور پھوٹ سے بچالیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری ایام میں خوارج نے انکے گھر کا گھیراو ¾ کر لیااور یہ معلوم تھا کہ وہ آپ کو قتل کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔ آپ کے پاس کئی صحابہ آئے اور آپ سے اجازت چاہی کہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم ان کے خلاف لڑیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ صاحبِ بصیرت تھے وہ جانتے تھے کہ اجازت دینے سے مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں گےاسلام کمزور ہو گا اور کافر قوتیں طاقت پکڑیں گی۔ لہذا انہوں نے لڑائی سے منع کر دیا اور اپنی شہادت پیش کرکے امت مسلم کو ایک بڑے تصادم سے بچالیا۔
اسی طرح خلیفہ سلیمان بن الملک نے قتیبہ بن مسلم کو قتل کیا اسکے بعد محمد بن قاسم کو برصغیر سے واپس بلایا محمد بن قاسم کو قتل کی خبر پہنچ چکی تھی اور وہ یہ جانتے تھے کہ خلیفہ ان کے خلاف کیا کرنے والا ہے۔ کئی لوگوں نے ان سے کہا کہ ہم آپ کےساتھ مل کر خلیفہ کے خلاف لڑیں گے لیکن محمد ابن قاسم نے اجازت نہ دی اور آپ بھی قید میں ڈال دئیے گئے ۔ اسلام کے ان عظیم سپہ سالاروں کو شہید کرنے کے باوجود سلف صالحین نے سلمان بن الملک کو کافر قرار نہیں دیا۔
اسی طرح حجاج بن یوسف نے صحابی رسول ﷺعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کروایا لیکن تاریخ میں کبھی اسکی تکفیر نہیں کی گئی۔ اور امام مالک جو امام مدینہ کے نام سے مشہور تھے اور مسجد نبوی میں منبر رسول ﷺپردرس حدیث دیا کرتے تھے ۔ جبری طلاق کے مسئلے پر خلیفہ سے اختلاف ہوا تو خلیفہ نے انکے صحیح موقف کو نہ صرف قبول نہ کیا بلکہ اپنے موقف کی تائید کیلئے آپ پر ظلم و ستم ڈھایا حتی کہ آپ کے دونوں بازو توڑ دئے گئے ،لیکن آپ اس اذیت کے باوجود صحیح موقف پر قائم رہے اور خلیفہ کو سمجھاتے رہے۔ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بھی خلق قرآن کے مسئلے پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور خلیفہ وقت کو مسئلہ سمجھاتے رہے اور اسکی اصلاح کی کوشش میں لگے رہے، لہذا ہمیں بھی امام مالک کی طرح حاکم وقت کی اصلاح کرنی چاہیے اسے احساس جرم دلانا چاہیے اور تصادم کے ذریعے اسلام کو نقصان پہنچانے سے بچنا چاہیے۔یہ چند ایک واقعات ہیں ہمےںسلف صالحین کا جابر اور ظالم حکمرانوں کے ساتھ اپنائے گئے طرزعمل کا علم ہوتا ہے ۔لہذا پاکستان جو دنیا بھر میں مجاہدین کا آخری مسکن ہے اگر وہاں بھی اصلاح کے نام پر غلط روش اختیار کی گئی تو یہ آخری پناہ گاہ بھی ختم ہو جائے گی ۔[/JUSTIFY]