کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تندجولاں بھی
(دنیا مسلمانوں سےقائم ہے اور مسلمان دینی مدارس سے)
مولانا محمد الیاس ندوی بھٹکلی
چینی مسلمانوں کے خوش کن حالات:
گذشتہ ماہ راقم الحروف آبادی میں دنیا کے سب سے بڑے ملک چین کی دعوتی دورہ سے واپس ہوا تو اس کے لیے وہاں سے غیر معمولی صنعتی و تجارتی ترقی تو متاثر کن تھی ہی لیکن بحیثیت ایک مسلمان اور مدرسہ کےایک طالب علم کے جس چیز نےسب سے زیادہ متاثر کیا وہ وہاں کے مسلمانوں کی دین پر استقامت تھی جو دین و مذہب کے حوالہ سے گزشتہ پون صدی کے ناگفتہ بہ حالات او ران پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم کےباوجود محض فضل خدا وندی سے ان کے حصہ میں آئی تھی، اکثر چینی مسلمان حتی کہ نوجوان بھی نمازوں کے پابند اور داڑھی و ٹوپی میں نظرآئے، چین کے تجارتی شہر (Yoo) میں جب نماز جمعہ کے لیے پہنچا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ خطبہ سے بہت پہلے اکثر چینی مسلمانوں سے پوری مسجد بھری ہوئی ہے، میں تین چار سال قبل فلسطین کے شہربیت المقدس میں مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ کی سعادت حاصل کرچکا تھا، لیکن وہاں میرے لیے خون کے آنسورونے کا مرحلہ تھا ، یہ دیکھ کر کہ دنیا کی تیسری سب سے بابرکت مسجد اقصیٰ میں ہمارے فلسطینی بھائی خطبہ جمعہ کے شروع ہونے کے بعد بھی بمشکل 3؍2 صف کے برابر نہیں تھے اور عین جماعت کے وقت پوری مسجد بھر گئی تھی۔
ماضی میں چین کی بہت ساری ریاستیں سنکیانگ، لینگ ہسیا اور لانسووغیرہ مسلم اکثریتی صوبوں کی حیثیت سےاسلامی تاریخ میں ہمیں نظر آتےہیں، لیکن بعد کمیونسٹوں کی حکمرانی میں ان کو اپنے دین و مذہب پر عمل پیراہونے کے لیے جن آزمائشوں سے گذ رنا پڑا وہ نہ صرف اسلامی بلکہ انسانی تاریخ کا ناقابل یقین حصہ تھا، بڑے ہی کٹھن مراحل سے وہاں کے مسلمانوں کو گذرنا پڑا، ان لوگوں نے تہہ خانوں میں چھپ چھپ کر اپنے ایمان کی حفاظت کی اور اپنے بچوں کو قرآن مجید سکھایا جبکہ ان کے لیے قرآن مجید کے مصاحف کو اپنے گھروں میں رکھناایسا ناقابل معافی جرم تھا کہ اس کی سزا پھانسی سے کم نہیں تھی۔