• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تندجولاں بھی

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تندجولاں بھی

(دنیا مسلمانوں سےقائم ہے اور مسلمان دینی مدارس سے)

مولانا محمد الیاس ندوی بھٹکلی​


چینی مسلمانوں کے خوش کن حالات:

گذشتہ ماہ راقم الحروف آبادی میں دنیا کے سب سے بڑے ملک چین کی دعوتی دورہ سے واپس ہوا تو اس کے لیے وہاں سے غیر معمولی صنعتی و تجارتی ترقی تو متاثر کن تھی ہی لیکن بحیثیت ایک مسلمان اور مدرسہ کےایک طالب علم کے جس چیز نےسب سے زیادہ متاثر کیا وہ وہاں کے مسلمانوں کی دین پر استقامت تھی جو دین و مذہب کے حوالہ سے گزشتہ پون صدی کے ناگفتہ بہ حالات او ران پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم کےباوجود محض فضل خدا وندی سے ان کے حصہ میں آئی تھی، اکثر چینی مسلمان حتی کہ نوجوان بھی نمازوں کے پابند اور داڑھی و ٹوپی میں نظرآئے، چین کے تجارتی شہر (Yoo) میں جب نماز جمعہ کے لیے پہنچا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ خطبہ سے بہت پہلے اکثر چینی مسلمانوں سے پوری مسجد بھری ہوئی ہے، میں تین چار سال قبل فلسطین کے شہربیت المقدس میں مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ کی سعادت حاصل کرچکا تھا، لیکن وہاں میرے لیے خون کے آنسورونے کا مرحلہ تھا ، یہ دیکھ کر کہ دنیا کی تیسری سب سے بابرکت مسجد اقصیٰ میں ہمارے فلسطینی بھائی خطبہ جمعہ کے شروع ہونے کے بعد بھی بمشکل 3؍2 صف کے برابر نہیں تھے اور عین جماعت کے وقت پوری مسجد بھر گئی تھی۔

ماضی میں چین کی بہت ساری ریاستیں سنکیانگ، لینگ ہسیا اور لانسووغیرہ مسلم اکثریتی صوبوں کی حیثیت سےاسلامی تاریخ میں ہمیں نظر آتےہیں، لیکن بعد کمیونسٹوں کی حکمرانی میں ان کو اپنے دین و مذہب پر عمل پیراہونے کے لیے جن آزمائشوں سے گذ رنا پڑا وہ نہ صرف اسلامی بلکہ انسانی تاریخ کا ناقابل یقین حصہ تھا، بڑے ہی کٹھن مراحل سے وہاں کے مسلمانوں کو گذرنا پڑا، ان لوگوں نے تہہ خانوں میں چھپ چھپ کر اپنے ایمان کی حفاظت کی اور اپنے بچوں کو قرآن مجید سکھایا جبکہ ان کے لیے قرآن مجید کے مصاحف کو اپنے گھروں میں رکھناایسا ناقابل معافی جرم تھا کہ اس کی سزا پھانسی سے کم نہیں تھی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
یہی صورتحال سوویت یونین کی مسلم ریاستوں کی بھی ہے:

مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کی کچھ اسی طرح کی داستان ماضی قریب میں سوویت یونین یعنی روس کی مسلم ریاستوں کی بھی رہی ہے ازبکستان، قزاقستان ، ترکستان ، تاجکستان، آذربائیجان اور کرغیز یا وغیرہ میں مسلم اکثریتی آبادی کے باوجود اسلام پر عمل پیرا ہونا تو درکنار غلطی سے نام لینا بھی اس ملک کے خلاف بغاوت سے بھی بڑا جرم تھا،وہاں کے دینی مدارس پر جو آج برصغیر میں دیوبند وندوہ سے بھی بڑے اور قدیم وتاریخی تھےتالے لگائے گئے، مساجدکو آثار قدیمہ میں بدل دیا گیا، اذان پر پابندی تھی، قرآن مجید کی تلاوت واشاعت ممنوع تھی، شعائراسلام کے اظہار پر امتناع تھا، لیکن چینی مسلمانوں کی طرح ان روسی مسلمانوں نے بھی پہاڑوں کی چوٹیوں میں جاجا کر اور قبرستانوں میں بڑے بڑے گڈھے کھود کر اور اس میں چھپ چھپ کر نہ صرف اپنے بلکہ اپنی نئی نسلوں کے ایمان کو محفوظ رکھا، سابق روسی صدر گورباچیف کے عہد میں مسلمانوں کے لیے مذہبی آزادی کا سلسلہ شروع ہوا تو 1990ء میں تاجکستان میں پہلی دفعہ مسلمانوں کو رمضان میں روزے رکھنے اور مساجد میں جاکر نماز عید ادا کرنے کی اجازت ملی ، تاشقند میں دوبارہ سات کروڑ کی لاگت سے ایک بہت بڑے دینی مدرسہ کا قیام عمل میں آیا اور ازبکستان میں 150مساجد کو دوبارہ کھولا گیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
لیکن اسپین میں ایسا کیوں نہیں ہوا.......؟

چین ہو یاروس کی مسلم ریاستیں، ترکی کی عثمانی خلافت ہو یامشرق بعید کی اسلامی حکومتیں ، سب جگہ اسلام کو دبانے کی کوشش کی گئیں اور کچھ مدت تک ان سب جگہوں پر مسلمان مغلوب و مظلوم بھی رہے ، لیکن اسلام کا سورج پہلے سے زیادہ آن بان اور بہتر شان کے ساتھ وہاں دوبارہ طلوع ہوا اور ان کے خاکستر میں چھپی ہوئی چنگاریوں نے وہاں کےمسلم باشندوں کو اسلام کی طرف لانے میں اہم رول ادا کیا ، چین سے واپسی کے بعد میں کئی دنوں تک یہی سوچتا رہا اور یہ سوال مجھے بے چین کرتا رہا کہ چین روس کی طرح کبھی ماضی میں بحراوقیانوس سے متصل واقع اسپین یعنی اندلس میں بھی ہماری حکمرانی تھی، 711ء سے 1492ء تک 781سال مسلسل مسلمان پوری آزادی سے وہاں حکومت کرتے رہے، اسپین کی ہماری اسی مسلم حکومت نے پہلی دفعہ یوروپ میں موجود جہالت کی تاریکیوں میں علم کی شمعیں روشن کیں اور مغرب کو سائنسی وصنعتی اور طبی و تعمیری میدانوں میں متعارف کرایا، وہاں کے مسلمانوں کے تعمیر کردہ فن تعمیر کے نمونے چودہ سوسال گذرنے کے باوجود آج بھی سراٹھااٹھا کر اپنی عظمت رفتہ کا پتہ دے رہے ہیں ، قرطبہ کا قصر الزہراء اور الحمراء کے تعمیری شاہ کار کے کھنڈرات آج بھی کسی تاج محل سے کم نہیں، اس زمانے میں دینی لحاظ سے بھی اندلسی مسلمان اچھی حالت میں تھے، اس کااندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت صرف قرطبہ شہر میں سات سومساجد تھیں، لیکن افسوس کہ1492ء؁ میں ابوعبداللہ کی آخری حکمرانی کے بعد وہاں باقی رہنےوالے مسلمانوں کی کچھ جماعتوں نے تو اپناایمان بچا کر افریقی ممالک کی طرف ہجرت کی اور جو مسلمان وہاں رہ گئے و ہ کچھ دنوں کےبعد دین سے نکل گئے اور بعد میں ان کی نسلیں بھی ارتداد والحاد کا شکار ہوگئیں اس طرح کہ کچھ دنوں کےبعد خود ان کو پتہ بھی نہیں رہا کہ کبھی ان کے آباء واجداد بھی دین اسلام کے حامل اور دین حق کے پیروکار تھے، میری سمجھ میں بہت دنوں تک یہ بات نہیں آئی کہ روس وچین کے مسلمانوں کی طرح اسپینی مسلمانوں کی طرف سے دین پر استقامت کے وہ نمونے کیوں دیکھنے میں نہیں آرہے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اس کی بنیادی وجہ:

1995ء میں مفکر اسلام حضرت مولانا سیدابوالحسن علی ندوی ﷫ اور ندوۃ العلماء کے موجودہ ناظم حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب حسنی ندوی دامت برکاتہم نے مسلم روسی ریاستوں کادعوتی دورہ کیا تھا، واپسی پر حضرت مولانا سیدمحمدرابع صاحب حسنی ندوی نے جواپنی بے پناہ دینی بصیرت و فراست کے ساتھ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم پر بھی گہری نگاہ رکھتے ہیں اس کا دلچسپ سفرنامہ'' سمر قندوبخارا کی باز یافت'' کے نام سے تحریر کیا تھا، جب میں نے اس سفرنامہ کو دوبارہ پڑھا تو مجھے اسپین میں مسلمانوں کے دین پر قائم نہ رہنے کی وجہ کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی اور اس کا سراہاتھ لگ گیا، مولانا نےاس میں مسلم ریاستوں میں پیدا ہونے والی اسلامی بیداری کےپس منظر کو دعوتی تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ماوراء النہر کے یہ تمام علاقے اسلامی نقطہ نظرسے اپنا شاندار ماضی رکھتے تھے اور اس وقت یہاں کے مسلمانوں نے دینی تعلیم کے مدارس ومراکز کے قیام پر پوری توجہ دی تھی، اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس زمانہ میں صرف بخاراشہر میں ڈھائی سو دینی مدارس تھے، گویا اس وقت روسی مسلمانوں کو واپس اسلام کی طرف لانے میں ماضی کے انہیں دینی مدارس نے اہم رول ادا کیا تھا،جب میں نے اسپین کے مسلمانوں کی تاریخ کا ازسر نو مطالعہ کیا تو مجھے وہاں سوائے ان دینی مدارس کے ہر چیز نظر آئی پھر بات سمجھ میں آئی کہ اسی بنیادی چیز کی کمی ہی نےنہ صرف ان کو الحاد و اتداد تک پہنچایا بلکہ ان کی نسلوں کو بھی دین کی طرف دوبارہ لوٹنے پر آمادہ نہیں کیا، اس خیال کی تائید اس سے بھی ہوئی کہ علامہ اقبال جب اسپین کےدورہ سے واپس آئے تو انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں سے صاف کہا کہ یہاں سے اگر ہمارے دینی مدارس و مکاتب کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا تو صاف سن لو کہ ہمارے ملک کی بھی وہی حالت ہوجائے گی جو میں اسپین میں دیکھ کر آیاہوں کہ دینی مدارس نہ ہونے کی وجہ سے آج وہاں مسلمانوں کا نام و نشان بھی نہیں رہ گیا، اس لیے اے مسلمانو! ان مدارس و مکاتب کو اسی حالت میں رہنے دو، حالانکہ اسپین کے دورہ سے قبل علامہ اقبال مرحوم ہمارے ان مدارس کے تعلق سے کچھ اچھے خیالات نہیں رکھتے تھے لیکن اسپین کے دورہ نے ان دینی مدارس کی اہمیت ان کےدل میں بٹھا دی۔''

مذکورہ بالادعوتی تجزیوں سےیہ بات صاف ہوتی ہے کہ اسلام کی عظمت رفتہ کی باز یا فت میں ہمارے ان مدارس و مکاتب کا کس قدر بنیادی اوراہم رول ہے ، اور عالم اسلام میں ہمیں اس وقت نظر آنے والے غیر متزلزل اور قابل رشک ایمان کی جھلکیاں ہمارے ان مدارس ہی کی بدولت نظر آرہی ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
دنیا مسلمانوں سے قائم ہے اورمسلمان دینی مدارس سے:

حدیث شریف میں آتاہے کہ جب تک اس روئے زمین پر اللہ اللہ کہنے والا رہیگا یہ دنیا قائم رہے گی اور جس دن یہ لوگ اٹھ جائیں گے، دنیا کی بساط لپیٹ دی جائے گی یعنی قیامت آجائے گی، بالفاظ دیگر اللہ تعالی نے اس دنیا کو صرف مسلمانوں کی وجہ سے قائم رکھا ہے اور اللہ کے پاس ایک ادنی مسلمان بھی اس پورے دنیاوی نظام پر بھاری ہے ، عالم اسلام کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات پر جب ہم بصارت کے بجائے بصیرت کی نگاہ دوڑاتے ہیں توصاف محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت خالص دین اور حقیقی اسلام صرف ہمارے ان مدارس اسلامیہ و مکاتب دینیہ ہی کی بدولت قائم ہے، تھوڑی دیر کے لیے ہم یہ تصور کر لیں اگر اس وقت روئے زمین پر مدارس اسلامیہ کی شکل میں دین کے یہ قلعے نہ ہوتے اور علمائے حق یہاں سے فارغ ہو کر امت کی رہنمائی نہیں کرتے توملت اسلامیہ کا اس وقت کیا حال ہوتا، ظاہر بات ہے کہ حق باطل کے ساتھ خلط ملط ہوجاتا، حلال کے نام پر حرام کی ترویج ہوتی، روشن خیالی اور ترقی پسندی کے نام سے غیر اسلامی وغیرشرعی چیزوں کو بھی اسلام اور شریعت کانام دیا جاتا، احکام و مسائل کی تحقیق صحیح قرآنی و نبوی ہدایات کے مطابق نہیں ہوتی ، شریعت کی تشریح ایک مذاق بن کر رہ جاتی اور ان سب کے نتیجہ میں دین سے عامۃ المسلمین کی وابستگی برائے نام رہ جاتی، اللہ تعالی جزائے خیر دے ہمارے اسلاف بالخصوص برصغیر کےعلماء کو کہ انگریزوں کی غلامی سے ملک کو آزاد کرنے کی تحریک کے پس منظر میں انہوں نے دینی مدارس قائم کرکے اور بعد میں ان کے جانشینوں نے جگہ جگہ اس کا جال بچھا کر نہ صرف مغربی تہذیب و ثقافت سے ملت اسلامیہ کو دور رکھا بلکہ شرک و کفر کی آلودگیوں سے ان کی حفاظت کا سامان فراہم کیا اور توحید اور عقیدہ سے ان کو وابستہ رکھنے کے لیے مدارس کی شکل میں ایک قیمتی واسطہ فراہم کیا،مسلم اقلیت میں ہونے اور یہاں اسلامی حکومت کےنہ ہونے کے باوجود ہمارے ان دینی مدارس کی وجہ سے آج پوری عالم اسلام میں ہمارے ملک ہندوستان کو تمام بڑی دینی تحریکات اور دینی قیادت کا مرکز تصور کیا جارہا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اب تو دینی تعلیم کے فوائد دنیا ہی میں نظر آرہے ہیں:

دینی تعلیم کاحصول دراصل اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے ہوتا ہے اور اس پر جو بے پناہ نوازشات خداوندی کا وعدہ ہے اس کا تو مشاہدہ مرنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے لیکن اس زمانے میں ہمارے کمزور ایمان کو دیکھتے ہوئے اللہ رب العزت نے دینی تعلیم کے فوائد کچھ دنیا میں بھی ظاہر کرنے شروع کردئیے ہیں ، اس لیے اب ان مدارس کےبھولے بھالے خیرخواہوں کی جو مدارس کے فارغین کی مادی ترقی کی آڑ میں اس کے نظام و نصاب میں عصری علوم کی شمولیت کے داعی و وکیل بن کر اس کی اصل روح سے ان مدارس کو محروم کرنے کی کوشش کررہے ہیں کچھ کہنے کا موقع نہیں رہ جاتا ہے، ذیل کےکچھ واقعات سے آپ اس کا اندازہ کرسکتے ہیں۔

دوسال قبل میرا علی گڑھ جانا ہوا تھا، مسلم یونیورسٹی میں اکیڈمک کالج (u.g.c) کے ڈائرکٹر ڈاکٹر عبدالرحیم قدوائی صاحب نے اپنے چھوٹے سے بچہ سے ملاقات کراتے ہوئے بتایا کہ وہ عصری تعلیم کے ساتھ الحمدللہ حفظ قرآن مجید کی سعادت سے مالا ما ل ہورہا ہے، اسی طرح برطانیہ میں زیر تعلیم اپنے بڑے لڑکے کے متعلق بھی بتایا کہ وہ بھی وہاں برطانوی یونیورسٹی میں دن بھر پڑھائی میں مشغول رہنے کے باوجود رات کو اپنے کمرہ میں آکر ایک دو رکوع روزانہ حفظ کرکے یہاں ہندوستان میں علی گڑھ میں اپنی والدہ کو یادکیا ہوا وہ حصہ سناتاہے ، اس طرح اس نے قرآن کا بڑا حصہ عصری علوم کے ساتھ حفظ کر لیا ہے اور جلد اس کے حافظ قرآن بننے کی امید ہے ، ڈاکٹر صاحب کے خاندانی دینی پس منظر اور مولانا عبدالمالک صاحب دریابادی کے نواسے ہونے کی وجہ سے مجھے اس پر حیرت نہیں ہوئی لیکن مجھے یہ معلوم ہوا کہ یونیورسٹی کے بہت سارے پروفیسر صاحبان ادھر دو تین سال سے اپنے بچوں کو اسکولوں وکالجس کی تعلیم کے ساتھ پارٹ ٹائم حفظ کرارہے ہیں تو مجھے تعجب ہوا کہ ان میں سے بعض لوگوں کے لیے تو پانچ وقت کی نماز کا پابندی سے اہتمام بھی دشوار ہے تو اس کے باوجود ان میں کلام اللہ سےاس قدر محبت و تعلق کا پس منظر کیا ہے؟ میرے اس استعجاب پر میرے میزبان نے بتایا کہ ادھر چندسالوں سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی میڈیکل انجینرنگ کی محدود سیٹوں کےلیے ہزاروں طلباء کے درمیان جو مسابقتی امتحانات ہورہے ہیں تو ان میں عصری تعلیم کے ساتھ حفظ کرنےوالے حفاظ طلباء ہی امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوکر فری سیٹوں سے مستحق بن رہے ہیں، دوسرے الفاظ میں حفظ کلام اللہ کی برکت سے ان کی ذہانت میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے اور اسی لالچ میں لوگ ڈھڑا ڈھڑ اپنےبچوں کو اب حافظ قرآن بنارہےہیں، میرے زبان سے بےساختہ نکلا کہ وہ دن دور نہیں کہ اگر غیر مسلموں کو بھی معلوم ہوجائے تو وہ بھی اس فارمولہ کو اپنانے کے لیےاپنے بچوں کو حافظ قرآن بنائیں گے اور اسی بہانےان شاء اللہ ان کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت کے فیصلے بھی ہوں گے۔

دوسرا واقعہ بھی سنئے: پولس سے نچلی سطح پر نظم ونسق سنبھالنے والے تین ہزار ہوم گارڈ کی بھر تی کےلیے جب حکومت کی طرف سے سرکلر نکلا تو ایک اخبارمیں اطلاع آئی کہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگوں نے اس کےلیے انٹرویو دیا ہے اور اس میں گریجویٹ ہی نہیں بلکہ پوسٹ گریجویٹ انجینئروں وغیرہ کی بھی ایک بڑی تعداد ہے ، حالانکہ ہوم گارڈ کےلیے صرف بارہویں پاس کی تعلیمی صلاحیت کافی تھی، اس خبر کے بین السطور جو پیغام تھا وہ یہ کہ دنیا کے خاطر دنیاوی تعلیم حاصل کرنےکے لیے 60فیصد لوگ اب بھی بے روزگار ہیں جبکہ اسی اخبار کے نیچے ایک اور اشتہار تھا کہ فلاں ادارہ کے لیے دو حافظ اور تین عالم دین کی ضرورت ہے اور ان کے لیے مفت رہائش کے ساتھ تنخواہ کم از کم 10؍ہزار سے 12؍ ہزار دی جائے گی، مطلب یہ ہوا کہ حافظ قرآن اور عالم دین تلاش بسیار کے بعد بھی کہیں خالی نہیں مل رہے ہیں اور اخبارات میں اشتہارات دینا پڑھ رہا ہے اور عصری تعلیم یافتہ لوگ بے روزگاری سے تنگ آکر اپنی تعلیم و صلاحیت سے بھی کم حیثیت کی ملازمت کے لیے تیار ہیں، بارہویں پاس ہوم گارڈ کی ملازمت کے لیے پوسٹ گریجویٹ لوگوں کی درخواستوں کا انبار اس کا واضح ثبوت ہے۔

تیسرا واقعہ بھی سننے سے تعلق رکھتاہے ، ندوۃ العلماءکے سابق مہتمم مولانا عمران خان صاحب ندوی کے بھائی مولانا سلمان صاحب ندوی کے گیارہ بیٹے تھے، انہوں نے ارادہ کیا کہ سب کو حافظ قرآن اور عالم دین بنانا ہے، ان کے بعض افراد خاندان کا ان سے اصرار تھا کہ ایک دو کو تو کم از کم عصری تعلیم میں لگائیں تاکہ ان کے ان کے لیے عمرکے آخری مراحل میں معاشی مسائل نہ ہوں لیکن انہوں نے نہیں مانا بلکہ تمام گیارہ بیٹوں کو الحمدللہ حافظ قرآن اور عالم بنایا اور سب کے سب ندوت العلماء سے فارغ ہوئے، اللہ نے ان کے اس توکل اور اپنی ذات پر اعتماد کی لاج یوں رکھی کہ ان کے سب یہ گیارہ بیٹے آج الحمدللہ دنیاکے مختلف امریکی ویورپی ممالک میں دعوت دین سے جڑے رہ کر بھی بڑے بڑے کاروبار کے مالک بن گئے ہیں، ایک امریکہ میں ہے تو دوسرا برطانیہ میں ، تیسرا نیوزی لینڈ میں تو چوتھا امارات میں،دوسال قبل میں جاپان کے دعوتی دورے پر گیا ہوا تھا تو ان کے ایک صاحبزادے مولانا سلیم الرحمان ندوی صاحب کو دیکھا کہ ٹوکیو کے مہنگے ترین علاقہ میں خود کے اپنے خوبصورت کاشانہ کے مالک ہیں اور پورے جاپان میں اس وقت دعوتی و مذہبی اعتبار سے مرجع کی حیثیت رکھتےہیں جس نےکہا سچ کہا کہ''جو اللہ کے لیے ہوجاتا ہے اللہ اس کے لیے ہوجاتا ہے۔'' دین کی خاطر قربانی دینے والوں کو اللہ تعالی دنیا سے بھی محروم نہیں رکھتا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مدارس کا کوئی متبادل نہیں:

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ دین کی باتوں سے واقفیت اور احکام شریعت پر عمل کے لیے مطلوبہ ضروری معلومات کانام ہی دینی تعلیم ہے لیکن حقیقت میں وہ دینی تعلیم جس کے لیے مدارس کا قیام عمل میں آتا ہے صرف اسی کا نام نہیں، دین کی اس ابتدائی و بنیادی ضرورت کے لیے شبینہ و صباحی مکاتب ، برزگوں کی صحبت ، اسلامی تحریکات و تنظیمات سے وابستگی اور دینی لٹریچر کا مطالعہ وغیرہ کافی ہےجس سے اسلام پر قائم رہنےمیں ایک مسلمان کو مددملتی ہے، دراصل دینی مدارس اس سے بھی بڑھ کر ایک عظیم مقصد کو حاصل کرنے کےلیے قائم کیے جاتے ہیں، جہاں شریعت پر گہری نگاہ اور قرآن وحدیث کے اسرار ورموز سے وافقیت رکھنےوالے اور سب سے بڑھ کر امت مسلمہ ہی کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی زندگی کے ہر میدان میں رہنمائی کرنے والے رجال کا ر اور علماء پیدا کئےجاتے ہیں، جب جب بھی اسلام کےنام سے اس کی غلط ترجمانی کرنے والے میدان میں آتےہیں تو مدارس کے بھی یہی علماء اس کا مقابلہ کرتےہوئے قبلہ نما بن کر سامنے آتے ہیں اور اسلام کی صحیح منشاء وروح کی ترجمانی کرتے ہیں، وہ اس خلائی سٹیلائٹ کی طرح ہوتے ہیں جو خلاء میں رہ کر پوری دنیا کی ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھتا ہے، ہمارے علماء بھی دینی سٹیلائٹ بن کرامت کی ایک ایک حرکت پر وہ مؤمنانہ فراست کے ساتھ دوربیں نگاہ رکھتے ہیں کہ کہیں امت بہک نہ جائے اور راہ راست سے نہ ہٹ جائے، اس پر ان کو وہ فوراً متنبہ کرتے ہیں، بسااوقات جب غلط افکار و نظریات کی اسلام کے نام سے تشریح کرتے ہوئے پانی سر سے اونچا ہو جاتاہے تو یہی علماء خود میدان میں آکر الحاد ی افکار وغلط نظریات کے طوفان بلاخیز کے دھارے کو موڑ دیتے ہیں اور وہ مادی منافع اور عامۃ الناس کی تعریف و توصیف سے بے پرواہ ہو کر صر ف اللہ تعالی کی خوشنودی کےلیے حقیقت دین سے بندگان خدا کو واقف کرانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
خالص اسلامی اسکول بھی مدارس کی جگہ نہیں لے سکتے:

ادھر25؍20سال سے ملت کے نو نہالوں کو الحادی وتشلیکی افکار و نظریات سے محفوظ رکھنے اور مشنری تعلیمی اداروں سے بچانےاورایمان پر باقی رکھنے کے نیک جذبہ کے تحت مسلم تعلیمی درسگاہوں کا قیام تیزی سے عمل میں آرہا ہے جو بڑی خوش آئند بات ہے اور ملت کی ایک بڑی اہم ضرورت کی تکمیل ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس میں سے بہت سارے اسکولوں وکالجس کو آپ مسلم تعلیمی ادارے تے کہہ سکتے ہیں اسلامی ادارے نہیں،اس لیے کہ ان میں سوائے اس کے کہ اس کو چلانے والے مسلمان ہیں اس کے علاوہ اس کی کوئی امتیازی مذہبی شان نہیں ، ان میں سوائے کچھ کو مستثنیٰ کرکے وہ سب غیر دینی نصابی و ثقافتی سرگرمیاں ہوتی ہیں جن کا اسلام سے دوردور تک تعلق نہیں ہوتا، لیکن اگر بالفرض تھوڑی دیر کے لیے ہم مان بھی لیں کہ ہمارے بچے خالص اسلامی بنیادوں پر قائم اسلامی اسکولوں و کالجس میں ہی پڑھ رہے ہیں اور اس طرح کے اداروں کی ایک بڑی تعداد الحمدللہ ملک و بیرون ملک میں بھی پائی جارہی ہے تب بھی یہ اسلامی عصری تعلیمی ادارے ہمارے دینی مدارس کا متبادل نہیں بن سکتے، عام طور پر عامۃ المسلمین کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ اس طرح کے اسلامی اسکولوں میں اپنے نونہالوں کو انہوں نے داخل کرکے ان کو دینی تعلیم سے بھی آراستہ کرلیا، حالانکہ یہ تو بقدر ضرورت صرف ایمان پر باقی رکھنے والی اسلامی تعلیم دی جاتی ہے،قرآن وحدیث میں ایک عالم دین کے لیے جو فضائل اور ان کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں اس سعادت کوآپ ان اسلامی اسکولوں سے بھی حاصل نہیں کرسکتے اگرچہ آپ کا بچہ ان اسکولوں سے فارغ ہو کر اچھی عربی بولنےلگے اور قرآن کی کچھ سورتوں کے اس کو تراجم بھی یاد ہوجائیں ، وہ نماز روزے کا پابند ہوجائے اور دیکھنے میں ایک عالم کی طرح نظر بھی آئے لیکن وہ 12؍13 سال تک مسلسل مدرسہ میں وقت لگا کر فارغ ہونے والے کسی عالم دین کے برابر نہیں ہوسکتا، چاہے وہ خود اپنے کو اور دنیا والے اس کو شریعت کا ماہر اور عالم سمجھیں، لیکن وہ زیادہ سے زیادہ ایک اچھا مسلم اسکالر کہلا سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اسی حالت میں مدارس کی قیامت تک ضرورت ہے:

عام طور پر اس وقت بڑے زور و شور سے یہ آوازیں اٹھ دیں رہی ہیں کہ مدارس کے موجودہ نصاب و نظام میں وقت کے بدلتے حالات کے مطابق تبدیلی ہونی چاہیے اور ان میں عصری علوم کی بھی اس طرح آمیزش ہونی چاہیے کہ ہمارے مدارس کے فارغین دنیاوی میدان میں کسی کے دست نگر یا محتاج نہ ہوں اور معاشی اعتبار سے بھی خود کفیل ہوں، ہمارے اپنے لوگوں کی طرف سے اٹھنے والی یہ آوازیں زیادہ تران لوگوں کی طرف سے ہوتی ہیں جن کے بچے مشنری اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں اور ان کی اولاد تو درکنار ان کے رشتہ دار بھی مدارس میں نہیں پڑھتے، ان کی یہ آراء مخلصانہ و ہمدردانہ تو ہو سکتی ہیں لیکن جب حکومت اور مغربی طاقتوں اور اسلام دشمن طبقات کی طرف سے یہ آوازیں سننے میں آتی ہیں تو یقیناً اس کے پس پشت علما ء وفارغین کی ہمدردی وخیر خواہی نہیں ہوتی بلکہ مدارس کی خالص دینی تعلیم کو عصری علوم کے اختلاط سے آلودہ کرکے مدارس کو اس کے اصل روح سے ہٹانے اور اس کے بنیادی مقاصد سے ان کو دور رکھنےکی ایک منصوبہ بندکوشش ہوتی ہے جس کو ہم اپنی سادہ لوحی سے سمجھ نہیں پاتے ، مدارس کا کام ملک کا نظم و نسق چلانے والے I.A.S افسران پیدا کرنا ، اچھے دیندار ڈاکٹر یا انجینئر بنا کر ان کو معاشرے کی خدمت میں لگانا، اچھے تاجر و سماجی کارکن یا سیاسی لیڈر بناکر میدان عمل میں لاکر پیش کرنا نہیں، اس کےلیے ملتے کے دوسرے ادارے وتنظیمیں ہیں جنہوں نے اپنے ذمہ یہ کام لیا ہے ، ہمارے مدارس کا قیام شریعت کے ماہرین اور دین کے متخصصین پیدا کرنے کے لیے ہوا ہے، دینی مدارس تو در اصل ملت اسلامیہ کی اس ضرورت کی تکمیل کا سامان فراہم کرتے ہیں جس کا حکم اللہ رب العزت نےسورہ توبہ کے اخیر میں پوری امت کو مخاطب کرکے دیا ہے کہ تم میں سے ہر قوم میں ایک ایسی جماعت ضرور ہونی چاہیے جودین کی گہری سمجھ حاصل کرے اور دعوت کا فریضہ انجام دے: ﴿ فَلَولا نَفَرَ‌ مِن كُلِّ فِر‌قَةٍ مِنهُم طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهوا فِى الدّينِ وَلِيُنذِر‌وا قَومَهُم إِذا رَ‌جَعوا إِلَيهِم لَعَلَّهُم يَحذَر‌ونَ ﴾ قرآن حکیم کے مطابق ہر زمانے میں علماء کی اس جماعت کی ضرورت رہے گی اور قیامت تک اسلام پر بقاء کے لیے ایسے علماء کا وجود ملت کے لیے ناگزیر ہوگا، ہمارے دینی مدارس الحمدللہ اپنے اسی فریضہ کو پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ہزار اپنی انتظامی و تربیتی کمزوریوں کے باوجود جس کا خود انہیں احساس ہے اس کی اصلاح کی بھی کوشش کررہے ہیں، الحمدللہ ذمہ داران مدارس بھی اپنی بصیرت و فراست کے ذریعہ دشمنوں کی ان چالوں کو سمجھنے کے باوجود عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات و حالات کے پس منظر میں دینی تعلیم کی روح کو باقی رکھتے ہوئے اس دینی تعلیم نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کی بھی کوشش کررہے ہیں جس سے فارغین مدارس دعوتی میدان میں اور بہتر طریقہ پر اپنے فرائض کو انجام دے سکیں لیکن اسی کے ساتھ ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ قرآن مجید میں بیان کئے گئے ایسے علماء جو ملت کی ناگزیر ضرورت ہیں دینی مدارس کےبجائے کیا مسلم اسکولوں واسلامی کالجس یا یونیورسٹیوں سے پیدا ہونے کی ہم امیدرکھیں یا پھر ایسے مدارس سے جوحدسے زیادہ عصری علوم کی شمولیت کے ساتھ نہ گھر کے نہ گھاٹ کے مصداق بن کر سامنے آرہے ہیں ، یادر کھیئے ایسے علماء خالص دینی تعلیم کے ان مدارس ہی سے پیدا ہوئے ہیں اور پیدا ہوں گے، غرض یہ کہ ہمارے یہ دینی مدارس ہی ہیں جو آج ہندوستان کو اندلس بننے سے اور یہاں اس کی تاریخ دہرانے کی دشمنوں کی شاطرانہ چالوں کو کامیاب ہونے سے روکے ہوئے ہیں، اس لیے ان مدارس کی حفاظت و وکالت ہم سب کا ملّی فریضہ ہے۔
 
Top