• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس حدیث کا کیا مفہوم ہے

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اس حدیث کا کیا مفہوم ہے
إِنَّ اللَّه يَأْمُر بِالْعَبْدِ إِلَى الْجَنَّة فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَيَعْدِل بِهِ إِلَى النَّار
یہ حدیث تفسیر ابن کثیر میں سورہ النساء کا آیت نمبر 142 کی تشریح میں مذکور ہے نیز یہ حدیث کس حدیث کی کتاب میں ہے . جزاکم اللہ خیرا
@اشماریہ بھائی
@اسحاق سلفی بھائی
@خضر حیات بھائی
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
تلمیذ بھائی!
ایک پوسٹ میں بیک وقت تین اراکین کو ٹیگ کرنے سے کسی ایک کو بھی اس کی اطلاع نہیں ملتی، وہ علیحدہ بات ہے کہ فورم کا گشت کرتے ہوئے تینوں اراکین یہاں تشریف لے آئیں..
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اس حدیث کا کیا مفہوم ہے
إِنَّ اللَّه يَأْمُر بِالْعَبْدِ إِلَى الْجَنَّة فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَيَعْدِل بِهِ إِلَى النَّار
یہ حدیث تفسیر ابن کثیر میں سورہ النساء کا آیت نمبر 142 کی تشریح میں مذکور ہے نیز یہ حدیث کس حدیث کی کتاب میں ہے . جزاکم اللہ خیرا
امام ابن کثیر فرماتے ہیں :
ايک اور حديث ميں ہے :(إِنَّ اللَّه يَأْمُر بِالْعَبْدِ إِلَى الْجَنَّة فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَيَعْدِل بِهِ إِلَى النَّار )
’’( ان منافقوں ميں وہ بھي ہوں گے )کہ لوگوں کے خيال سے اسکي نسبت فرمائے گا کہ اسے جنت ميں لے جاؤ، ليکن اسے (اسکے باطن کي خباثت کي وجہ سے ) جنت کي بجائے جہنم ميں لےجايا جائے گا ‘‘
شام کے مشہور عالم علی بن حسن الحلبی اپنی سائیٹ پر لکھتے ہیں :
(( إن الله يأمر بالعبد إلى الجنة فيما يبدو للناس، ويعدل به إلى النار )) .
( ذكره في تفسير سورة النساء، الآية 142 ).
قال الشيخ علي بن حسن الحلبي
أظنه رواية بالمعنى لحديث مشهور

یعنی : میرے خیال میں اس مشہور حدیث کی بالمعنی روایت ہے (جو ہم آگے بیان کریں گے )
-----------------------------------
فقد وجدت في حاشية تفسير ابن كثير طبعة دار الأثر و هي طبعة فيها تعليقات أصحاب الفضيلة : ( الشيخ السعدي و الشيخ أحمد شاكر و الشيخ الألباني و الشيخ ابن عثيمين و الشيخ مقبل رحم الله الجميع و الشيخ صالح آل الشيخ حفظه الله )
فقيل في الحاشية : قال الشيخ مقبل بن هادي الوادعي رحمه الله (253/2) :
الطاهر أنه رواه بالمعنى وأراد حديث سهل بن سعد الذى رواه البخاري (90/6):
إن الرجل ليعمل عمل أهل الجنة فيما يبدو للناس وهو من أهل النار وإن الرجل ليعمل عمل أهل النار فيما يبدو للناس و هو من أهل الجنة )

و قال الشيخ عادل بن يوسف العزازي في كتابه هداية المستنير في تخريج أحاديث ابن كثير و هو كتاب مستقل :
إن الله يأمر بالعبد إلى الجنة فيما يبدو للناس
فعلق بقوله : لم أقف عليه بهذا اللفظ ، لكن ثبت عن ابن عباس نحوه رواه البيهقي في الأسماء و الصفات (ص 617) وإسناده ضعيف


http://kulalsalafiyeen.com/vb/showthread.php?t=54550
-------------------------------
اس ساری عربی عبارت کا مفہوم یہ کہ :
تفسیر ابن کثیر کا جو نسخہ دار الاثر سے شائع ہے ، جس پر متعدد جید اور محقق علماء کے حواشی و تعلیقات ہیں ، جن میں شیخ سعدی ، احمد شاکر ،علامہ البانی ؒ، ابن عثیمین ؒ ،اور شیخؒ مقبل ؒ رحمہم اللہ شامل ہیں ، اس نسخہ میں اس روایت پر حاشیہ میں امام مقبل ؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :
’’ ظاہر تو یہی ہے کہ ابن کثیر ؒ نے صحیح بخاری میں مروی سیدنا سہل بن سعد ؓ کی روایت کو یہاں بالمعنی نقل فرمایا ہے ، جس میں ارشاد نبوی ہے کہ :
(ايک آدمي زندگي بھر بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ ميں سے ہوتا ہے اور ايک آدمي بظاہر اہل دوزخ کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل جنت ميں سے ہوتا ہے ) انتہی ؛

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سہل بن سعد کی مکمل روایت یہ ہے
عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، التقى هو والمشركون، فاقتتلوا، فلما مال رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عسكره، ومال الآخرون إلى عسكرهم، وفي أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل، لا يدع لهم شاذة ولا فاذة إلا اتبعها يضربها بسيفه، فقال: ما أجزأ منا اليوم أحد كما أجزأ فلان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أما إنه من أهل النار» ، فقال رجل من القوم: أنا صاحبه، قال: فخرج معه كلما وقف وقف معه، وإذا أسرع أسرع معه، قال: فجرح الرجل جرحا شديدا، فاستعجل الموت، فوضع نصل سيفه بالأرض، وذبابه بين ثدييه، ثم تحامل على سيفه، فقتل نفسه، فخرج الرجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: أشهد أنك رسول الله، قال: «وما ذاك؟» قال: الرجل الذي ذكرت آنفا أنه من أهل النار، فأعظم الناس ذلك، فقلت: أنا لكم به، فخرجت في طلبه، ثم جرح جرحا شديدا، فاستعجل الموت، فوضع نصل سيفه في الأرض وذبابه بين ثدييه ثم تحامل عليه فقتل نفسه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك: «إن الرجل ليعمل عمل أهل الجنة، فيما يبدو للناس، وهو من أهل النار، وإن الرجل ليعمل عمل أهل النار، فيما يبدو للناس، وهو من أهل الجنة»
(صحیح بخاری و صحیح مسلم و دیگر کتب حدیث )


سیدنا سہل بن سعد ساعدي رضی اللہ عنہ نے بيان کيا کہ رسول اللہ ﷺ کي (اپنے اصحاب کےہمراہ احد يا خيبر کي لڑائي ميں) مشرکين سے مڈبھيڑ ہوئي اور جنگ چھڑ گئي، پھر جب آپ ﷺ (اس دن لڑائي سے فارغ ہو کر) اپنے پڑاؤ کي طرف واپس
ہوئے اور مشرکين اپنے پڑاؤ کي طرف تو آپ ﷺ کي فوج کے ساتھ ايک شخصتھا ، لڑائي لڑنے ميں ان کا يہ حال تھا کہ مشرکين کا کوئي آدمي بھي اگرکسي طرف نظر آ جاتا تو اس کا پيچھا کر کے وہ شخص اپني تلوار سےاسے قتل کر ديتا ، سہل رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق کہا کہ آج جتني سرگرمي کےساتھ فلاں شخص لڑا ہے ، ہم ميں سے کوئي بھي شخص اس طرح نہ لڑ سکا، آپ ﷺ نے اس پر فرمايا کہ ليکن وہ شخص دوزخي ہے ،
مسلمانوں ميںسے ايک شخص نے (اپنے دل ميں کہا اچھا ميں اس کا پيچھا کروں گا (ديکھوں) نبي کريم ﷺنے اسے کيوں دوزخي فرمايا ہے) بيان کيا کہ وہ اسکے ساتھ ساتھ دوسرے دن لڑائي ميں موجود رہا ، جب کبھي وہ کھڑا ہو جاتاتو يہ بھي کھڑا ہو جاتا اور جب وہ تيز چلتا تو يہ بھي اس کے ساتھ تيز چلتا
بيان کيا کہ آخر وہ شخص زخمي ہو گيا زخم بڑا گہرا تھا ? اس ليے انے چاہا کہ موت جلدي آ جائے اور اپني تلوار کا پھل زمين پر رکھ کر اس کيدھار کو سينے کے مقابلہ ميں کر ليا اور تلوار پر گر کر اپني جان دے دي ،اب وہ صاحب رسول اللہ ﷺ کي خدمت ميں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہميں گواہي ديتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہيں ، آپ ﷺ نے دريافتفرمايا کہ کيا بات ہوئي ؟
انہوں نے بيان کيا کہ وہي شخص جس کے متعلقآپ نے فرمايا تھا کہ وہ دوزخي ہے ، صحابہ کرام پر يہ آپ کا فرمان بڑاشاق گزرا تھا ، ميں نے ان سے کہا کہ تم سب لوگوں کي طرف سے ميںاس کے متعلق تحقيق کرتا ہوں ۔چنانچہ ميں اس کے پيچھے ہو ليا ، اس کےبعد وہ شخص سخت زخمي ہوا اور چاہا کہ جلدي موت آ جائے ۔ اس ليے اسنے اپني تلوار کا پھل زمين پر رکھ کر اس کي دھار کو اپنے سينے کے مقابل
کر ليا اور اس پر گر کر خود جان دے دي ، اس وقت آپ ﷺ نے فرمايا کہ
کہ ايک آدمي زندگي بھر بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ ميں سے ہوتا ہے اور ايک آدمي بظاہر اہل دوزخ کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل جنت ميں سے ہوتا ہے »انتہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
امام ابن کثیر فرماتے ہیں :
ايک اور حديث ميں ہے :(إِنَّ اللَّه يَأْمُر بِالْعَبْدِ إِلَى الْجَنَّة فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَيَعْدِل بِهِ إِلَى النَّار )
’’( ان منافقوں ميں وہ بھي ہوں گے )کہ لوگوں کے خيال سے اسکي نسبت فرمائے گا کہ اسے جنت ميں لے جاؤ، ليکن اسے (اسکے باطن کي خباثت کي وجہ سے ) جنت کي بجائے جہنم ميں لےجايا جائے گا ‘‘
شام کے مشہور عالم علی بن حسن الحلبی اپنی سائیٹ پر لکھتے ہیں :
(( إن الله يأمر بالعبد إلى الجنة فيما يبدو للناس، ويعدل به إلى النار )) .
( ذكره في تفسير سورة النساء، الآية 142 ).
قال الشيخ علي بن حسن الحلبي
أظنه رواية بالمعنى لحديث مشهور

یعنی : میرے خیال میں اس مشہور حدیث کی بالمعنی روایت ہے (جو ہم آگے بیان کریں گے )
-----------------------------------
فقد وجدت في حاشية تفسير ابن كثير طبعة دار الأثر و هي طبعة فيها تعليقات أصحاب الفضيلة : ( الشيخ السعدي و الشيخ أحمد شاكر و الشيخ الألباني و الشيخ ابن عثيمين و الشيخ مقبل رحم الله الجميع و الشيخ صالح آل الشيخ حفظه الله )
فقيل في الحاشية : قال الشيخ مقبل بن هادي الوادعي رحمه الله (253/2) :
الطاهر أنه رواه بالمعنى وأراد حديث سهل بن سعد الذى رواه البخاري (90/6):
إن الرجل ليعمل عمل أهل الجنة فيما يبدو للناس وهو من أهل النار وإن الرجل ليعمل عمل أهل النار فيما يبدو للناس و هو من أهل الجنة )

و قال الشيخ عادل بن يوسف العزازي في كتابه هداية المستنير في تخريج أحاديث ابن كثير و هو كتاب مستقل :
إن الله يأمر بالعبد إلى الجنة فيما يبدو للناس
فعلق بقوله : لم أقف عليه بهذا اللفظ ، لكن ثبت عن ابن عباس نحوه رواه البيهقي في الأسماء و الصفات (ص 617) وإسناده ضعيف


http://kulalsalafiyeen.com/vb/showthread.php?t=54550
-------------------------------
اس ساری عربی عبارت کا مفہوم یہ کہ :
تفسیر ابن کثیر کا جو نسخہ دار الاثر سے شائع ہے ، جس پر متعدد جید اور محقق علماء کے حواشی و تعلیقات ہیں ، جن میں شیخ سعدی ، احمد شاکر ،علامہ البانی ؒ، ابن عثیمین ؒ ،اور شیخؒ مقبل ؒ رحمہم اللہ شامل ہیں ، اس نسخہ میں اس روایت پر حاشیہ میں امام مقبل ؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :
’’ ظاہر تو یہی ہے کہ ابن کثیر ؒ نے صحیح بخاری میں مروی سیدنا سہل بن سعد ؓ کی روایت کو یہاں بالمعنی نقل فرمایا ہے ، جس میں ارشاد نبوی ہے کہ :
(ايک آدمي زندگي بھر بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ ميں سے ہوتا ہے اور ايک آدمي بظاہر اہل دوزخ کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل جنت ميں سے ہوتا ہے ) انتہی ؛

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سہل بن سعد کی مکمل روایت یہ ہے
عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، التقى هو والمشركون، فاقتتلوا، فلما مال رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عسكره، ومال الآخرون إلى عسكرهم، وفي أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل، لا يدع لهم شاذة ولا فاذة إلا اتبعها يضربها بسيفه، فقال: ما أجزأ منا اليوم أحد كما أجزأ فلان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أما إنه من أهل النار» ، فقال رجل من القوم: أنا صاحبه، قال: فخرج معه كلما وقف وقف معه، وإذا أسرع أسرع معه، قال: فجرح الرجل جرحا شديدا، فاستعجل الموت، فوضع نصل سيفه بالأرض، وذبابه بين ثدييه، ثم تحامل على سيفه، فقتل نفسه، فخرج الرجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: أشهد أنك رسول الله، قال: «وما ذاك؟» قال: الرجل الذي ذكرت آنفا أنه من أهل النار، فأعظم الناس ذلك، فقلت: أنا لكم به، فخرجت في طلبه، ثم جرح جرحا شديدا، فاستعجل الموت، فوضع نصل سيفه في الأرض وذبابه بين ثدييه ثم تحامل عليه فقتل نفسه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك: «إن الرجل ليعمل عمل أهل الجنة، فيما يبدو للناس، وهو من أهل النار، وإن الرجل ليعمل عمل أهل النار، فيما يبدو للناس، وهو من أهل الجنة»
(صحیح بخاری و صحیح مسلم و دیگر کتب حدیث )


سیدنا سہل بن سعد ساعدي رضی اللہ عنہ نے بيان کيا کہ رسول اللہ ﷺ کي (اپنے اصحاب کےہمراہ احد يا خيبر کي لڑائي ميں) مشرکين سے مڈبھيڑ ہوئي اور جنگ چھڑ گئي، پھر جب آپ ﷺ (اس دن لڑائي سے فارغ ہو کر) اپنے پڑاؤ کي طرف واپس
ہوئے اور مشرکين اپنے پڑاؤ کي طرف تو آپ ﷺ کي فوج کے ساتھ ايک شخصتھا ، لڑائي لڑنے ميں ان کا يہ حال تھا کہ مشرکين کا کوئي آدمي بھي اگرکسي طرف نظر آ جاتا تو اس کا پيچھا کر کے وہ شخص اپني تلوار سےاسے قتل کر ديتا ، سہل رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق کہا کہ آج جتني سرگرمي کےساتھ فلاں شخص لڑا ہے ، ہم ميں سے کوئي بھي شخص اس طرح نہ لڑ سکا، آپ ﷺ نے اس پر فرمايا کہ ليکن وہ شخص دوزخي ہے ،
مسلمانوں ميںسے ايک شخص نے (اپنے دل ميں کہا اچھا ميں اس کا پيچھا کروں گا (ديکھوں) نبي کريم ﷺنے اسے کيوں دوزخي فرمايا ہے) بيان کيا کہ وہ اسکے ساتھ ساتھ دوسرے دن لڑائي ميں موجود رہا ، جب کبھي وہ کھڑا ہو جاتاتو يہ بھي کھڑا ہو جاتا اور جب وہ تيز چلتا تو يہ بھي اس کے ساتھ تيز چلتا
بيان کيا کہ آخر وہ شخص زخمي ہو گيا زخم بڑا گہرا تھا ? اس ليے انے چاہا کہ موت جلدي آ جائے اور اپني تلوار کا پھل زمين پر رکھ کر اس کيدھار کو سينے کے مقابلہ ميں کر ليا اور تلوار پر گر کر اپني جان دے دي ،اب وہ صاحب رسول اللہ ﷺ کي خدمت ميں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہميں گواہي ديتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہيں ، آپ ﷺ نے دريافتفرمايا کہ کيا بات ہوئي ؟
انہوں نے بيان کيا کہ وہي شخص جس کے متعلقآپ نے فرمايا تھا کہ وہ دوزخي ہے ، صحابہ کرام پر يہ آپ کا فرمان بڑاشاق گزرا تھا ، ميں نے ان سے کہا کہ تم سب لوگوں کي طرف سے ميںاس کے متعلق تحقيق کرتا ہوں ۔چنانچہ ميں اس کے پيچھے ہو ليا ، اس کےبعد وہ شخص سخت زخمي ہوا اور چاہا کہ جلدي موت آ جائے ۔ اس ليے اسنے اپني تلوار کا پھل زمين پر رکھ کر اس کي دھار کو اپنے سينے کے مقابل
کر ليا اور اس پر گر کر خود جان دے دي ، اس وقت آپ ﷺ نے فرمايا کہ
کہ ايک آدمي زندگي بھر بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ ميں سے ہوتا ہے اور ايک آدمي بظاہر اہل دوزخ کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل جنت ميں سے ہوتا ہے »انتہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم @اسحاق سلفی بھائی
اس کا مطلب ہے جو حدیث تفسیر ابن کثیر میں ہے یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ تو ذخیرہ احادیث میں موجود نہیں لیکن اس مفہوم والی حدیث بالکل موجود ہے.
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ایسی حدیث اصطلاح میں کیا کہلاتی ہیں. کیا ہم ایسی حدیث کو موضوع کہ سکتے ہیں؟ کیا ایک مبلغ اپنے بیان یا تحریر میں ایسی حدیث بیان کر سکتا ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
محترم @اسحاق سلفی بھائی
اس کا مطلب ہے جو حدیث تفسیر ابن کثیر میں ہے یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ تو ذخیرہ احادیث میں موجود نہیں لیکن اس مفہوم والی حدیث بالکل موجود ہے.
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ایسی حدیث اصطلاح میں کیا کہلاتی ہیں. کیا ہم ایسی حدیث کو موضوع کہ سکتے ہیں؟ کیا ایک مبلغ اپنے بیان یا تحریر میں ایسی حدیث بیان کر سکتا ہے
اسے موضوع تو نہیں کہا جاسکتا ، کیونکہ موضوع وہ ہوتی ہے ، جو اپنی طرف سے گھڑ لی جائے ۔ ایسی روایات تو معنی حدیث کو ہی ادا کرنے کی ایک کوشش ہوتی ہے ، البتہ بیان کرنے والا کسی وجہ سے اصل الفاظ بیان نہیں کر پاتا ۔
روایت کے الفاظ کی بجائے ، اس کے مفہوم پر اکتفا کی اجازت ہے ، لیکن کچھ شروط کے ساتھ :
1۔ اصل روایت کے الفاظ یاد نہ آرہے ہوں ۔
2۔ مفہوم بیان کرتے ہوئے اصل پیغام متاثر نہ ہو ۔
3۔ روایت بالمعنی پر روایت باللفظ کو راجح سمجھا جائے ۔
 
Top