• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس دعوے کی حقیقت کیا ہے ؟

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,911
پوائنٹ
225
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا ‘ ان سے ابن ابی نعم یا ابو نعم نے۔۔۔ قبیصہ کو شک تھا۔۔۔ اور ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ سونا بھیجا گیا تو آپ نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا۔ اور مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ انہیں سفیان نے خبر دی ‘انہیں ان کے والد نے ‘ انہیں ابن ابی نعم نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچھ سونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس حنظی ‘ عیینہ بن بدری فزاری ‘ علقمہ بن علاثہ العامری اور زید الخیل الطائی میں تقسیم کر دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو غصہ آ گیا اور انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نجد کے رئیسوں کو تو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک مصلحت کے لئے ان کا دل بہلا تا ہوں۔ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں ‘ پیشانی ابھری ہوئی تھی ‘ داڑھی گھنی تھی ‘ دونوں کلے پھولے ہوئے تھے اور سر گٹھا ہوا تھا اس مردود نے کہا اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ڈر۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں بھی اس کی نافرمانی کروں گا تو پھر کون اس کی اطاعت کرے گا؟ اس نے مجھے زمین پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے۔ پھر حاضرین میں سے ایک صحابی حضرت خالد رضی اللہ عنہ یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کی اجازت چاہی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ پھر جب وہ جانے لگا تو آپ نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کے صرف لفظ پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ‘ وہ اسلام سے اس طرح نکال کر پھینک دئیے جائیں گے جس طرح تیر شکار ی جانور میں سے پار نکل جاتا ہے ‘ وہ اہل اسلام کو (کافر کہہ کر قتل کریں اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے اگر میں نے ان کا دور پایا تو انہیں قوم عاد کی طرح نیست و نابود کر دوں گا۔[/CENTER]
ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی عبد الوہاب صاحب اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ؟
اور کیا
عبداللہ بن ذی الخویصر کے بعد بنوتمیم کے تمام افراد پر یہ بات لا گو ہوتی ہے ؟آپ علما سے گزارش ہے اس مسلے کو کھول کر بیان فرمائیں تا کہ عام مسلم پر بات کھل جائے جزاک اللہ
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی عبد الوہاب صاحب اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ؟
اور کیا
عبداللہ بن ذی الخویصر کے بعد بنوتمیم کے تمام افراد پر یہ بات لا گو ہوتی ہے ؟آپ علما سے گزارش ہے اس مسلے کو کھول کر بیان فرمائیں تا کہ عام مسلم پر بات کھل جائے جزاک اللہ
جی ہاں محمد بن عبدالواھاب صاحب قبیلہ بنو تمیم سے تعلق رکھتے ہیں کونکہ ان کا پورا نام محمد بن عبدالواھاب نجدی التیمی کتابوں درج ہے صرف میں نے مثال کے طور سے ان کا ذکر کیا ہے تاکہ سمجھنے میں آسانی رہے
 

ابن قاسم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 07، 2011
پیغامات
253
ری ایکشن اسکور
1,081
پوائنٹ
120
ہابیل صاحب اپنی پوسٹ میں ترمیم کر کے صرف متعلقہ حدیث کا اقتباس لیں تو عام مسلم ذہن سازی سے محفوظ رہہ سکتے ہیں اور علما کو سمجھانے میں بھی آسانی ہوگی
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی عبد الوہاب صاحب اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ؟
اور کیا
عبداللہ بن ذی الخویصر کے بعد بنوتمیم کے تمام افراد پر یہ بات لا گو ہوتی ہے ؟آپ علما سے گزارش ہے اس مسلے کو کھول کر بیان فرمائیں تا کہ عام مسلم پر بات کھل جائے جزاک اللہ
فصل: 13 ـ باب مَنْ مَلَكَ مِنَ الْعَرَبِ رَقِيقًا فَوَهَبَ وَبَاعَ وَجَامَعَ وَفَدَى وَسَبَى الذُّرِّيَّةَ|نداء الإيمان

2583 ـ حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لاَ أَزَالُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ‏.‏ وَحَدَّثَنِي ابْنُ سَلاَمٍ أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنِ الْمُغِيرَةِ عَنِ الْحَارِثِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ‏.‏ وَعَنْ عُمَارَةَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ مَا زِلْتُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ مُنْذُ ثَلاَثٍ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ فِيهِمْ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ ‏"‏ هُمْ أَشَدُّ أُمَّتِي عَلَى الدَّجَّالِ ‏"‏‏.‏ قَالَ وَجَاءَتْ صَدَقَاتُهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هَذِهِ صَدَقَاتُ قَوْمِنَا ‏"‏‏.‏ وَكَانَتْ سَبِيَّةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ عَائِشَةَ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ أَعْتِقِيهَا فَإِنَّهَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ ‏"‏‏.‏

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ فرماتے ہیں کہ :
"تین باتوں کی وجہ سے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنی ہیں، میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا ہوں۔ نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا : کہ یہ لوگ دجال کے مقابلے میں امت میں سے سب سے زیادہ سخت مخالف ثابت ہوں گے۔
پھر ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ بنو تمیم کے ہاں سے زکوٰۃ کا مال آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کہ یہ ہماری قوم کی زکوٰۃ ہے۔ بنو تمیم کی ایک عورت قید ہو کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس (غلام) تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان سے فرمایا : اسے آزاد کردو یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ّکی اولاد میں سے ہے۔
بخاری: کتاب العتق: باب من ملک من العرب

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح ہم بنو تمیم سے محبت رکھتے ہیں

اور یہ بات درست ہے کہ محمد بن عبدالوہاب بنو تمیم سے تعلق رکھتے تھے ، بحوالہ دین الحق بجواب جاء الحق جلد دوم

مزید وضاحت علمائے کرام فرما دیں گے، ان شاء اللہ!
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
صحیح بخاری
کتاب المغازی
باب: بنی تمیم کے وفد کا بیان
حدیث نمبر : 4365
حدثنا أبو نعيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي صخرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن صفوان بن محرز المازني،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عمران بن حصين ـ رضى الله عنهما ـ قال أتى نفر من بني تميم النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ اقبلوا البشرى يا بني تميم ‏"‏‏.‏ قالوا يا رسول الله قد بشرتنا فأعطنا‏.‏ فريء ذلك في وجهه فجاء نفر من اليمن فقال ‏"‏ اقبلوا البشرى إذ لم يقبلها بنو تميم ‏"‏‏.‏ قالوا قد قبلنا يا رسول الله‏.‏
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ان سے ابو صخرہ نے ، ان سے صفوان بن محرز مازنی نے اور ان سے عمران بن حصین نے بیان کیاکہبنوتمیم کے چند لوگوں کا (ایک وفد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان سے فرمایااے بنوتمیم! بشارت قبول کرو۔ وہ کہنے لگے کہ بشارت تو آپ ہمیں دے چکے، کچھ مال بھی دیجئیے۔ ان کے اس جواب پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پرناگواری کا اثر دیکھا گیا، پھر یمن کے چند لوگوں کا ایک (وفد) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا کہ بنو تمیم نے بشارت نہیں قبول کی، تم قبول کر لو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم کو بشارت قبول ہے۔​
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
صحیح بخاری
کتاب التفسیر
باب: آیت ((والمؤلفۃ قلوبھم)) کی تفسیر
حدیث نمبر : 4667
حدثنا محمد بن كثير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن أبي نعم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي سعيد ـ رضى الله عنه ـ قال بعث إلى النبي صلى الله عليه وسلم بشىء،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقسمه بين أربعة وقال ‏"‏ أتألفهم ‏"‏‏.‏ فقال رجل ما عدلت‏.‏ فقال ‏"‏ يخرج من ضئضئ هذا قوم يمرقون من الدين ‏"‏‏.‏

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی ، انہیں ان کے والد سعید بن مسروق نے ، انہیں ابن ابی نعم نے اور ان سے ابو سعید خدری نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال آیا تو آپ نے چار آدمیوں میں اسے تقسیم کر دیا۔ (جو نومسلم تھے) اور فرمایا کہ میں یہ مال دے کر ان کی دلجوئی کرنا چاہتا ہوں اس پر (بنو تمیم کا) ایک شخص بولا کہ آپ نے انصاف نہیں کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دین سے باہر ہو جائیں گے۔​
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَO

بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (آپ کے بلند مقام و مرتبہ اور آدابِ تعظیم کی) سمجھ نہیں رکھتےo

سُورة الْحُجُرَات آیت ٤ پارہ ٢٦

قرآن میجد کی اس آیت مبارک کے بارے مفسرین اکرام بیان کرتے ہیں کہ یہ قبیلہ بنوتمیم کے وفد کے لئے نازل ہوئی ۔
اَﷲُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
صحیح بخاری
کتاب التفسیر
باب: آیت ((والمؤلفۃ قلوبھم)) کی تفسیر
حدیث نمبر : 4667
حدثنا محمد بن كثير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن أبي نعم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي سعيد ـ رضى الله عنه ـ قال بعث إلى النبي صلى الله عليه وسلم بشىء،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقسمه بين أربعة وقال ‏"‏ أتألفهم ‏"‏‏.‏ فقال رجل ما عدلت‏.‏ فقال ‏"‏ يخرج من ضئضئ هذا قوم يمرقون من الدين ‏"‏‏.‏

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی ، انہیں ان کے والد سعید بن مسروق نے ، انہیں ابن ابی نعم نے اور ان سے ابو سعید خدری نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال آیا تو آپ نے چار آدمیوں میں اسے تقسیم کر دیا۔ (جو نومسلم تھے) اور فرمایا کہ میں یہ مال دے کر ان کی دلجوئی کرنا چاہتا ہوں اس پر (بنو تمیم کا) ایک شخص بولا کہ آپ نے انصاف نہیں کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دین سے باہر ہو جائیں گے۔​
محترم آپ سے سوال ہے کہ اوپر جو حدیث مذکور ہے کیا آپ اس کو مانتے ہیں جو کہ بنی تمیم کی فضیلت میں وارد ہوئی ہے

کیا بنوتمیم انہی چار افراد پر مشتمل تھی ؟ دوسرے الفاظ میں کیا قبیلے میں اور بھی مرد موجود تھے جن سے بنوتمیم کی نسل آگے چلی

کیا اس شخص کے ساتھیوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ نہ کی تھی اور خارجی نہ کہلائے تھے؟؟؟

کیا یہ انصاف کا تقاضا ہے کہ کسی قبیلے کے ایک فرد یا گروہ کی وجہ سے پورے قبیلے کو مطعون کیا جائے

کیا ابو لہب کی وجہ سے پورے قبیلہ قریش کو مطعون کیا جا سکتا ہے حالانکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بہت بڑا گستاخ تھا اور نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جسمانی و ذہنی اذیت دینے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا تھا

دو مثالیں لیتے ہیں


صیح بخاری، کتاب المغازی: باب : قبیلہ دوس اور طفیل بن عمر و دوسی رضی اللہ عنہ کا بیان

4392
حدثنا أبو نعيم، حدثنا سفيان، عن ابن ذكوان، عن عبد الرحمن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال جاء الطفيل بن عمرو إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال إن دوسا قد هلكت، عصت وأبت، فادع الله عليهم‏.‏ فقال ‏"‏ اللهم اهد دوسا وأت بهم ‏"‏‏.‏
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے عبد اللہ بن ذکوان نے بیان کیا ، ان سے عبد الرحمن اعرج نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ طفیل بن عمرورضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ قبیلہ دوس تو تباہ ہوا ۔ اس نے نافرمانی اور انکا ر کیا ( اسلام قبول نہیں کیا ) آپ اللہ سے ان کے لیے دعا کیجئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ ! قبیلہ دوس کو ہدایت دے اور انہیں میرے یہاں لے آ ۔

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قبیلہ دوس کے لیے ہدایت کی دعا کی
اب بخاری کتاب الفتن: باب تفیرالزمان حتی تعبدالاوثان میں سے ایک حدیث دیکھتے ہیں
7116
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال قال سعيد بن المسيب أخبرني أبو هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا تقوم الساعة حتى تضطرب أليات نساء دوس على ذي الخلصة ‏"‏‏.‏ وذو الخلصة طاغية دوس التي كانوا يعبدون في الجاهلية‏.‏
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اور انہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ قبیلہ دوس کی عورتوں کے سرین ذوالخلصہ پرحرکت کریں گے اور ذو الخلصہ قبیلہ دوس کا بت تھا جس کو وہ زمانہ جاہلیت میں پوجا کرتے تھے ۔

آپ دیکھ چکے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دوس قبیلہ کے لیے ہدایت کی دعا کی مگرقیامت کے پاس اس قبیلے کی عورتیں ذوالخلصہ نامی بت کا طواف شروع کر دیں گی،
کیا محمد بن عبدالوہاب کی دشمنی میں ہم نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صیح احادیث کو بھی ignore کر دیں گے؟؟؟؟
اپنے دل سے پوچھیں۔
 
Top