• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس سوال کا جواب چاھیے !!! زنا کے متعلق ہے

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگرچہ امام، حاکم یا قاضی تک نہیں تو واجب نہیں ہوئی اس لئے صورت مسئولہ میں شرعی حد سائل پر واجب نہیں ہے جب تک وہ حاکم تک نہیں پہنچتی اس کا معاملہ اس کے ساتھ ہے اور زانی کا ھد لگنے کے بغیر زانیہ سے نکاح ہو سکتا ہے جب دونوں توبہ صادقہ کر لیں۔ تفسیر ابنِ کثیر میں عبداللہ بن عباس سے صحیح سند سے مروی ہے۔ کسی نے پوچھا :
''ابن عباس سے کسی نے پوچھا میں ایک عورت سے حرام کا ارتکاب کرتارہاہوں مجھے اللہ نے اس فعل سے توبہ کی توفیق دی۔ میں نے توبہ کر لی میں نے اس عورت سے شادی کا ارادہ کر لیا تو لوگوں نے کہا زانی مرد صرف زانیہ عورت اور مشرقہ عورت سے نکاح کر سکتاہے۔ ابنِ عباس نے کہا یہ اس بارے میں نہیں ہے تو اس سے نکاح کر لے اگر اس کا گناہ ہوا تو وہ مجھ پر ہے۔''(تفسیر ابن کثیر عربی،ج ۳' ص۲۲۴)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرد اور عورت جنہوں نے بدکاری کا فعل کیا ہے اگر توبہ کر لیتے ہیں تو بغیر شرعی حد کے ان کا نکاح ہو سکتاہے کیونکہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے نہیں کہا کہ پہلے حد لگوائو پھر نکاح کرو۔
یہ بات درست ہے ۔
اگر بات حاکم تک نہیں پہنچی تو حد لگنا ضروری نہیں ۔ بلکہ سچے دل سے توبہ کرلینا کافی ہے ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
اصولی طور پر عورت کے نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے ۔ اور ولایت کا حق اس کے عصبہ ( باپ اور اس کی طرف سے دیگر مرد رشتہ دار ) کو ہی ہے ۔ سب سے قریب ترین حق باپ کا ہے اگر باپ نہ ہو تو بھائی ۔۔اسی طرح أقرب فالأقرب کی بنیاد پر آخر تک ۔
ولایت کا حق لڑکی کے ہاتھ میں نہیں کہ جس کو چاہے ولی بنالے ۔ یہ بات بالکل عجیب ہے کہ لڑکی کے اولیاء اس کے ولی بننے سے انکار کردیں ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ لڑکی پسند کی شادی کے لیے ان کو اولیاء نہ مانے یہ تو سنا گیا ہے ۔

مسکراہٹ ۔
لڑکی کسی اور کو ولی بناکر خود کو دھوکہ دینے کی بجائے اپنے حقیقی اولیاء مثلا باپ ، بھائی وغیرہ کو راضی کرنے کی کوشش کرے ۔ ورنہ پھر اپنی پسند پر نظرثانی کرے ۔
ایک صورت ہوسکتی ہے کہ جب عورت کے اولیاء میں سے کوئی اصلا موجود ہی نہ ہو یا پھر وہ غیر مسلم ہوں تو ایسی صورت میں مسلمان حکمران یا اس کا قائم مقام اس عورت کا ولی ہوگا ۔
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتاوی ملاحظہ فرمائیں :
http://islamqa.info/ur/389
http://islamqa.info/ur/2127
لڑکی اپنی پسند پر نظر ثانی کرے اس کی دلیل کیا ہے؟لڑکی ہی قربانی کا بکر اکیوں بنے؟کیا لڑکی کسی جج یا قاضی کو اپنا ولی نہیں بنا سکتی؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
یہ بات درست ہے ۔
اگر بات حاکم تک نہیں پہنچی تو حد لگنا ضروری نہیں ۔ بلکہ سچے دل سے توبہ کرلینا کافی ہے ۔
میں نے تو اس ذمہ داری کی بات کی ہے جسے ابن عباس نے اپنے سر لیا ہے
 
Top