• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس سوال کا جواب چاھیے !!! زنا کے متعلق ہے

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اس سوال کا جواب چاھیے !!!
فیس بک پر کسی نے پوچھا ہے​

Bint E Hawwa
humary ghar k sath aik aunty hain unhon ne apni baho ka zikar kiya hai.. matlab un ki baho un k bety se pyar karti thi.. dono aik dosry ko shadi se pehly milty thy or phir aik din unhon ne bhag k cort marrige kar li.. jab nikah kiya adalat main toh larki 2 months pregnant thi... ab woh dono shadi kar chuky thy.. larki k maa baap ne kaha k hum sari zindagi aisi beti ki shakal nai dekhein gy.. ab larki apne susral main hai phir un k ghar jo bacha hony wala tha wo beti paida hoi... or ab shadi ko 8 saal ho gaye or 4 bachy ho gaye hain.. magar unhon ne dobara nikah nai kiyua... wo adalat wala nikah hi hai.. or yad rahy k larki us nikah main pregnant thi.. ab kisi se pocha toh unhon ne kaha nikah wali k bina nai hota ap ko apni baho bety ka nikah dobara karna chahye tha.. ab kuch log keh rahy hain k pehli bachi k sath sath dosry bachy b najaiz hain..
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
بھارت میں شادی سے قبل جنسی تعلقات کو تہذیبی طور پر برا سمجھا جاتا ہے
بھارتی دارالحکومت دہلی میں ایک عدالت نے شادی سے قبل جنسی تعلقات کو 'غیر اخلاقی' اور 'تمام مذاہب کے اصولوں کے منافی' قرار دیا ہے۔
جج ویریندر بھٹ نے یہ باتیں دو لوگوں کے درمیان شادی کے وعدے کے تحت کیے جانے والے سیکس پر فیصلہ سناتے ہوئے کہیں۔
اسی بارے میں
'کیا کرتا جو بچ جاتے''اس مرتبہ مظلوم ہی نادم اور شرمسار نہیں'بھارت میں عورتوں کے لیے غیر محفوظ علاقوں کی نشاندہی
متعلقہ عنوانات
بھارت
تاہم انھوں نے کہا کہ دو بالغوں کے درمیان شادی کے وعدے کے تحت قائم کیے جانے والے تمام جنسی تعلقات ریپ کے زمرے میں نہیں آتے۔
واضح رہے کہ بھارت میں شادی سے پہلے جنسی تعلقات قائم کرنا تہذیبی نقطۂ نظر سے معیوب سمجھا جاتا ہے۔
گذشتہ سال دہلی کی ہی ایک عدالت نے بغیر شادی کے ایک ساتھ رہنے یعنی لیو ان ریلیشنز کو 'غیر اخلاقی' قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ 'مغربی تہذیب کا بدنام پروڈکٹ' ہے۔
جج مسٹر بھٹ خواتین کے خلاف جنسی خلاف ورزیوں کے معاملات کی فاسٹ ٹریک عدالت کی صدارت کر رہے ہیں تاکہ ان معاملات کو جلد سے جلد نمٹایا جا سکے۔
انھوں نے یہ باتیں ایسے معاملات پر فیصلہ سنانے کے دوران کی جس میں ایک خاتون نے ایک کثیر ملکی کمپنی میں ملازم ایک شخص پر ریپ کا الزام لگایا تھا۔
29 سالہ اس شخص پر ایک دوسری کمپنی میں کام کرنے والی ایک خاتون نے سنہ 2011 میں الزام لگایا تھا کہ اس نے ان کا ریپ کیا ہے اور اس کی شکایت پر اس شخص کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
خاتون نے شکایت کی تھی کہ اس شخص نے شادی کا وعدہ کر کے ان کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا۔
"اگر کوئی پڑھی لکھی، بالغ اور دفتر میں کام کرنے والی خاتون اپنے کسی ساتھی یا دوست کے ساتھ شادی کے وعدے کے تحت جنسی تعلق قائم کرتی ہے تو یہ اس کی اپنی ایما پر ہے۔ اسے یہ بات جان لینی چاہیے کہ وہ اس کے لیے خود ذمہ دار ہے۔"
جج
اس شکایت پر فیصلہ سناتے ہوئے بھارتی خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق جج بھٹ نے کہا: 'میرے خیال میں شادی کے وعدے کے تحت دو بالغوں کے درمیان قائم کیے جانے والے تمام جنسی تعلقات ریپ نہیں ہوتے، چاہے بعد میں لڑکا اپنا وعدہ پورے نہیں کر پاتا۔
'اگر کوئی پڑھی لکھی، بالغ اور دفتر میں کام کرنے والی خاتون اپنے کسی ساتھی یا دوست کے ساتھ شادی کے وعدے کے تحت جنسی تعلق قائم کرتی ہے تو یہ اس کی اپنی ایما پر ہے۔ اسے یہ بات جان لینی چاہیے کہ وہ اس کے لیے خود ذمہ دار ہے کیونکہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ لڑکا اپنا وعدہ پورا ہی کرے گا۔'
جج نے مزید کہا: 'وہ اپنا وعدہ پورا کر سکتا ہے اور نہیں بھی۔ لیکن خاتون کو یہ باور ہونا چاہیے کہ وہ جس جنسی عمل میں شامل ہو رہی ہے وہ غیر اخلاقی ہے اور دنیا کے تمام مذاہب کے اصولوں کے منافی ہے کیونکہ دنیا کا کوئی مذہب شادی سے پہلے سیکس کی اجازت نہیں دیتا۔'
یاد رہے کہ سنہ 2010 میں بھارت کی سپریم کورٹ نے ایک تمل اداکارہ کے خلاف کئی معاملات کو خارج کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ اداکارہ خوشبو نے خواتین کو شادی سے پہلے سیکس کرنے کی اجازت کی بات کہی تھی۔داکارہ خوشبو پر 'عوام کی غیرت کو ٹھیس پہنچانے' کے لیے سنہ 2005 میں 22 معاملات درج کیے گئے تھے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
لندن (بی بی سی ڈاٹ کام) دہلی میں ایک عدالت نے شادی سے قبل جنسی تعلقات کو 'غیر اخلاقی' اور 'تمام مذاہب کے اصولوں کے منافی' قرار دے دیا۔ جج ویریندر بھٹ نے یہ باتیں دو لوگوں کے درمیان شادی کے وعدے کے تحت کئے جانے والے سیکس پر فیصلہ سناتے ہوئے کہیں۔تاہم انہوں نے کہا کہ دو بالغوں کے درمیان شادی کے وعدے کے تحت قائم کئے جانے والے تمام جنسی تعلقات ریپ کے زمرے میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ بھارت میں شادی سے پہلے جنسی تعلقات قائم کرنا تہذیبی نقطہ نظر سے معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ایک خاتون نے ایک کثیر ملکی کمپنی میں ملازم ایک شخص پر ریپ کا الزام لگایا تھا۔ خاتون نے شکایت کی تھی کہ اس شخص نے شادی کا وعدہ کر کے ان کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا۔

بھائی کیا آپ اس کا جواب دے سکتے ہے تفصیل کے ساتھ کسی نے پوچھا ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
بھائی کیا آپ اس کا جواب دے سکتے ہے تفصیل کے ساتھ کسی نے پوچھا ہے
ابھی میں اس کے بارے کوئی فیصلہ نہیں کر سکا ، غور وفکر جاری ہے
شادی سے قبل زنا کے مرتکب افراد کا نکاح

سوال: کچھ عرصہ قبل کسی آدمی کی منگنی ہوئی پھر نکاح ہو گیا۔ اب جبکہ نکاح کو دو سال ہو چکے سائل کے بتانے پر پتہ چلا ہے کہ نکاح سے قبل اس کے لڑکی سے مراسم تھے جس سے وہ گناہ کے مرتکب ہو گئے اور نکاح سے قبل لڑکی حاملہ ہو گئی جس سے ان کا نکاح فاسد ہے لڑکا اور لڑکی دونوں صاحبِ علم ہیں اور اپنے اس فعل سے انتہائی شرمندہ ہیں، حمل بھی ضائع کروا کر خدا کے مجرم بنے اور دو سال گزر جانے کے بعد بقول ان کے انہوں نے خوف خدا کے تحت جماع نہیں کیا، پوچھنا یہ چاہتے ہیں کہ کیا ان کا نکاح دوبارہ ہو سکتا ہے؟ جبکہ ایک صاحب نے ان کو کہا ہے کہ آپ نے نکاح سے قبل جماع کیا ہے آپ زنا کے مرتکب ہوئے ہیں۔ لہٰذا جب تک آپ پر شرعی حد نہ لگے آپ کا نکاح دوبارہ نہیں ہو سکتا۔ انتہائی پریشان کن مراحل کا سامنا ہے کہ دو سال سے ایک گھر میں زندگی گزار رہے ہیں یہ بات بھی پردہ میں ہے گھر والے بھی پریشان ہیں کہ دو سال تک ناامیدی کیوں ہے۔ لہٰذا آپ سے التماس ہے کہ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا بہترین حل نکال کر بتائیں کہ کیا واقعی ان کا نکاح دوبارہ ہو سکتا اور کیا لازمی ان پر حد آتی ہے؟ جواب دے کر پریشانی کا ازالہ کیجئے اور شکریہ کا موقع دیجئے۔
جواب :اس میں کوئی شک نہیں کہ زنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے کسی انسان سے اگر یہ گناہ سر زد ہو جائے تو وہ اس پر شرمندہ ہو کر اللہ تعالیٰ سے توبہ کر لیتا ہے تو قرآن میں اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے بارے میں فرماتے ہیں:
''اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ ہی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جس کے قتل سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرتا ہے وہ اپنے کئے کی سزا بھگتے گا۔ قیامت کے دن اس کے لئے عذاب دوگنا کیا جائے گا اور وہ اس میں ذلیل ہو کر رہے گا مگر جن لوگوں نے ایسے گناہوں سے توبہ کر لی اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کئے اللہ تعالیٰ ان کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دے گا اور اللہ بخشنے والا بڑا مہربان ہے''۔(الفرقان : ۶۸ ۔۷۰)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ آدمی اگر زنا سے توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتے ہیں اور جب اس نے توبہ کر لی اور اس کا معاملہ حاکم تک نہ پہنچا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈال دیا تو پھر اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے دنیا میں اس پر حد لازم نہیں ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث ہے عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ رضی اللہ عنہ سے بعض محرمات سے اجتناب کے لئے بیعت لی۔ ان میں ایک زنا بھی تھا۔ آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جس نے بیعت پوری کی اس کا اجر اللہ پر ہے اور جو ان میں سے کسی چیز میں مبتلا ہو گیا اور اسے اس کی سزا دی گئی تو وہ اس کے لئے کفارہ بن جائے گی اور اگر وہ کسی گناہ کو پہنچا تو اللہ نے اس پر پردہ ڈال دیا پس وہ اللہ کی طرف ہے۔ اگر چاہے اسے عذاب دے دے اور اگر چاہے تو اسے بخش دے'' (بخاری مع الفتح ۷/۲۶۰،۱۲/۷۵ یہ حدیث ترمذی ، نسائی اور دارمی میں بھی موجود ہے)
اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر آدمی سے زنا وغیرہ سرزد ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے اس کے اقرار اور اصرار کے بغیر دنیا میں اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی ۔ اس سے بڑھ کر اگر کسی کو کسی دوسرے مسلمان کے بارے میں کوئی ایسی چیز معلوم ہوتی ہے جس سے اس پر حد لازم آتی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو آپس میں معاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا:
''آپس میںحدود معاف کرو جو مجھ تک پہنچ گئی وہ واجب ہو گئی'' (صحیح سنن ابی دائود البانی ج۳٣، ص۸۲۸، صحیح سنن نسائی ج۳،ص۸۷۷۸)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگرچہ امام، حاکم یا قاضی تک نہیں تو واجب نہیں ہوئی اس لئے صورت مسئولہ میں شرعی حد سائل پر واجب نہیں ہے جب تک وہ حاکم تک نہیں پہنچتی اس کا معاملہ اس کے ساتھ ہے اور زانی کا ھد لگنے کے بغیر زانیہ سے نکاح ہو سکتا ہے جب دونوں توبہ صادقہ کر لیں۔ تفسیر ابنِ کثیر میں عبداللہ بن عباس سے صحیح سند سے مروی ہے۔ کسی نے پوچھا :
''ابن عباس سے کسی نے پوچھا میں ایک عورت سے حرام کا ارتکاب کرتارہاہوں مجھے اللہ نے اس فعل سے توبہ کی توفیق دی۔ میں نے توبہ کر لی میں نے اس عورت سے شادی کا ارادہ کر لیا تو لوگوں نے کہا زانی مرد صرف زانیہ عورت اور مشرقہ عورت سے نکاح کر سکتاہے۔ ابنِ عباس نے کہا یہ اس بارے میں نہیں ہے تو اس سے نکاح کر لے اگر اس کا گناہ ہوا تو وہ مجھ پر ہے۔''(تفسیر ابن کثیر عربی،ج ۳' ص۲۲۴)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرد اور عورت جنہوں نے بدکاری کا فعل کیا ہے اگر توبہ کر لیتے ہیں تو بغیر شرعی حد کے ان کا نکاح ہو سکتاہے کیونکہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے نہیں کہا کہ پہلے حد لگوائو پھر نکاح کرو۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ حم کے وقت جو ان دونوں کا نکاح ہوا تو اوہ نکاح صحیح نہیں ہو گا کیونکہ اس نے عدت میں نکاح کیا اور عدت میں نکاح صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
''حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے''(الطلاق)
دوسری جگہ فرمایا:
''اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک عدت ختم نہیں ہو جاتی۔''(بقرہ : ۲۳۵)
حافظ ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ
''کہ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ عدت کے اندر نکاح صحیح نہیں ہے''
اس لئے سائل نکاح جدید کروائے۔ کوئی حرج نہیں یہ نکاح ہو جائے گا ۔ جیسا کہ دلائل سے واضح ہو چکا ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
س:کیا زانی کے زانیہ سے شادی کر لینے سے حد معاف ہو جاتی ہے

شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 10 February 2014 11:47 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا زانی کی اس زانیہ سے شادی' جس سے اس نے زنا کیا ہو' ان کے گناہوں کا کفارہ شمار ہوگی؟ کیا شادی کر لینے سے حد معاف ہو جائے گی؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زانی کے زانیہ سے شادی کفارہ شمار نہیں ہوگی کیونکہ زنا کا کفارہ دو ہی باتیں ہیں تو اس پر حد قائم کی جائے' جبکہ بات حاکم وقت کے پاس پہنچ گئی ہو یا وہ اس جرم (زنا) سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرے اپنے عمل کی اصلاح کرے اور فتنہ و فحاشی کے مقامات سے دور رہے۔ جہاں تک شادی کا تعلق ہے تو اس زانی مرد و عورت کی آپس میں شادی حرام ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿الزّانى لا يَنكِحُ إِلّا زانِيَةً أَو مُشرِ‌كَةً وَالزّانِيَةُ لا يَنكِحُها إِلّا زانٍ أَو مُشرِ‌كٌ ۚ وَحُرِّ‌مَ ذ‌ٰلِكَ عَلَى المُؤمِنينَ ﴿٣﴾... سورة النور
''بدکار مرد سوائے زانیہ یا مشرکہ عورت کے کسی (پاک باز عورت) سے نکاح نہیں کر سکتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا اور یہ (بدکار عورت سے نکاح کرنا) مومنوں پر حرام ہے''۔
ہاں البتہ اگر وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی جناب میں خالص توبہ کر لیں' جو کچھ ہوا' اس پر ندامت کا اظہار کریں اور نیک عمل کریں تو پھر آپس میں شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں' جس طرح دوسرے مرد کیلئے اس عورت سے شادی کرنا جائز ہوگا اسی طرح اس کیلئے بھی اس صورت میں جائز ہوگا۔ زنا کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اولاد اپنی ماں کی طرف منسوب ہو گی۔ یہ اپنے باپ کی طرف منسوب نہیں ہوتی کیونکہ نبی ﷺ کے حسب ذیل ارشاد کے عموم کا یہی تقاضا ہے:
«الولد للفراش وللهاهر الحجر»(صحيح البخاري)
''بچہ صاحب بستر کیلئے اور زانی کیلئے پتھر ہے''۔
''عاہر'' کے معنی زانی کے ہیں اور حدیث کے معنی یہ ہیں کہ یہ بچہ اس کا نہیں ہوگا خواہ وہ توبہ کے بعد اس عورت سے شادی بھی کر لے کیونکہ شادی سے پہلے زنا کے پانی سے پیدا ہونے والا بچہ اس کا نہیں ہوگا اور نہ وہ اس کا وارث ہوگا خواہ وہ یہ دعویٰ ہی کیوں نہ کرے کہ وہ اس کا بیٹا ہے کیونکہ یہ اس کا شرعی بیٹا نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج3ص404
محدث فتویٰ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس مسئلہ کے دو پہلو ہیں :
1۔ ایک ہے زانی مرد اور عورت کا آپس میں نکاح ۔
اس حوالے سے محترم ثانی صاحب نے اوپر فتوی نقل کردیا ہے ۔
2۔ عدالتی نکاح (یعنی بغیر ولی کے ) ۔
اس حوالے سے فتوی ملاحظہ فرمالیں جس میں دونوں مسئلے ہی زیر بحث ہیں :
کورٹ میرج کی شرعی حیثیت
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 29 August 2012 04:23 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تین چار سال قبل ایک لڑکے اور لڑکی کے آپس میں تعلقات ہو گئے اب اسی دوران لڑکی نے اپنی والدہ کو کہا تو وہ یہاں رشتہ کرنے پر رضا مند ہو گئی۔ بات طے ہو گئی۔ نکاح کی تاریخ بھی طے ہو گئی ۔ عین نکاح کے دن (چونکہ لڑکی کا والد سادہ آدمی تھا اس لیے اسے اس کے بھائیوں نے مجبور کیا کہ وہاں رشتہ نہیں دینا)۔پیغام ملا کہ آپ نکاح نہ لینےآئیں۔ لڑکی کی والدہ بھی جواب دے کر چلی گئی ۔ چند دنوں کے بعد لڑکی وہاں سے لڑکے کے پاس آ گئی۔ اور انہوں نے عدالت میں رجوع کر کے نکاح کر لیا۔ اس نکاح سے قبل دونوں زنا کے مرتکب بھی ہوئے ۔ اور عین نکاح کے وقت (بقول لڑکے کے) لڑکی کو حمل بھی تھا۔
کچھ عرصہ کے بعد لڑکی کی والدہ رات اس لڑکی کو واپس لے کے چلی گئی ۔ اور پھر عدالت میں کیس چلتا رہا آخر فیصلہ لڑکے کے حق میں ہو گیا ۔ اور وہ لڑکی کو اپنے گھر لے آیا ۔ چند ہی دنوں بعد اس لڑکے کو احساس ہوا کہ نکاح کے وقت تو حمل تھا لہٰذا نکاح نہیں ہوا ۔ اب اس نے ایک مولوی صاحب سے رجوع کیا اور اس مولوی صاحب نے مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر کچھ حق مہر کے تحت اس لڑکے کا نکاح پڑھ دیا ۔ جبکہ وہ گواہوں والے معاملے سے لاعلم تھا ۔ اور اب اسے اس بات کا بڑا افسوس ہے۔
لڑکی کی والدہ فوت ہو چکی ہے اور لڑکی کا والد اس اہل نہیں کہ وہ ولی بن سکے (وہ لائی لگ ہے) ان دونوں کی اولاد بھی ہو چکی ہے۔ لڑکی کا کوئی بھائی نہیں ہے۔ کتاب وسنت کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔لڑکا اور لڑکی کہتے ہیں کہ اب ہم نے سچے دل سے توبہ بھی کر لی ہے۔ باوضاحت جواب لکھیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسئولہ میں نکاح درست نہیں کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَآءَ ذَٰلِكُمۡ أَن تَبۡتَغُواْ بِأَمۡوَٰلِكُم مُّحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَۚ﴾--النساء24

’’اور حلال کیا گیا واسطے تمہارے جو کچھ سوائے اسی کے ہے یہ کہ طلب کرو تم بدلے مالوں اپنے کے قید میں رکھنے والے نہ پانی ڈالنے والے یعنی بدکار‘‘ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے مرد کا محصن عفیف اور غیر زانی ہونا ضروری ہے اللہ تعالیٰ کا ہی فرمان ہے :
﴿ٱلۡيَوۡمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ حِلّٞ لَّكُمۡ وَطَعَامُكُمۡ حِلّٞ لَّهُمۡۖ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنَٰتِ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ مِن قَبۡلِكُمۡ إِذَآ ءَاتَيۡتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِيٓ أَخۡدَانٖۗ﴾--مائدة5

’’آج کے دن حلال کی گئیں واسطے تمہارے پاکیزہ چیزیں اور کھانا ان لوگوں کا کہ دیئے گئے ہیں کتاب حلال ہے واسطے تمہارے اور کھاناتمہارا حلال ہے واسطے ان کے اور پاکدامنیں مسلمانوں میں سے اور پاک دامنیں ان لوگوں میں کہ دئیے گئے ہیں کتاب پہلے تم سے جب دو تم ان کو مہر ان کے نکاح میں لانے والے نہ بدکاری کرنے والے اور نہ پکڑنے والے چھپے آشنا‘‘ اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے عورت کا محصنہ عفیفہ غیر زانیہ ہونا ضروری ہے پھر یہ آیت کریمہ حلت نکاح میں مرد کے محصن عفیف غیر زانی ہونے پر بھی دلالت کر رہی ہے تو ان آیتوں کو ملانے سے ثابت ہوا کہ جس جوڑے کا آپس میں نکاح ہونا طے پایا ہے دونوں محصن عفیف ہیں تو نکاح حلال ورنہ نکاح حلال نہیں خواہ دونوں ہی غیر محصن وغیر عفیف ہوں خواہ ایک غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ مرد غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ عورت غیر محصنہ وغیر عفیفہ ہو ۔ تو ان تینوں صورتوں میں نکاح حلال نہیں۔
پھر صورت مسئولہ میں نکاح اذن ولی کے بغیر ہے اور اذن ولی کے بغیر نکاح درست نہیں قبل از اسلام زمانہ جاہلیت میں لوگ اذن ولی کے بغیر نکاح کر لیا کرتے تھے اسلام نے اسلامی نکاح کے علاوہ جاہلیت کے تمام نکاح ختم کر دئیے صحیح بخاری میں ہے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
«فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ ﷺ بِالْحَقِّ هَدَمَ نِکَاحَ الْجَاهِلِيَّةِ کُلَّهُ إِلاَّ نِکَاحَ النَّاسِ الْيَوْمَ»

’’پس جب نبیﷺکو بھیجا گیا ساتھ حق کے تو آپ نے جاہلیت کے تمام نکاح ختم کر دئیے مگر وہ نکاح جو آج لوگ کرتے ہیں‘‘ اور ’’نِکَاحُ النَّاسِ الْیَوْمَ‘‘ کی وضاحت اسی حدیث میں پہلے آ چکی ہے چنانچہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں :
«فَنِکَاحٌ مِنْهَا نِکَاحُ النَّاسِ الْيَوْمَ يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَی الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ أَوِ ابْنَتَهُ ، فَيُصْدِقُهَا ، ثُمَّ يَنْکِحُهَا»جلد دوم كتاب النكاح باب من قال لا نكاح الا بولى ص769 و ص770

’’پس ان نکاحوں میں سے ایک نکاح وہ ہے جو آج لوگ کرتے ہیں کہ آدمی دوسرے آدمی کو پیغام دیتا اس لڑکی کے متعلق جو اسکی سرپرستی میں ہوتی یا اس کی بیٹی کے متعلق پس وہ اس لڑکی کا حق مہر مقرر کرتا پھر اس سے نکاح کرتا‘‘
عدالت نے صرف لڑکی کے بیان پرکاروائی کی ہے اس لیے اس کا کوئی اعتبار نہیں فریقین کے بیان سنے بغیر فیصلہ کرنے سے شریعت نے منع فرمایا ہے چنانچہ ملاحظہ فرمائیں۔ ارواء الغليل حديث نمبر2600
ہاں اگر دونوں تائب ہو جائیں اور توبہ واقعتا درست ہو حقیقت پر مبنی ہو اور گواہوں کی موجودگی میں ولی کے اذن سے اسلامی اصولوں کے مطابق شروط نکاح کی پابندی میں ان کا نیا نکاح ہو تو آئندہ گناہ سے محفوظ ہو جائیں گے۔
وباللہ التوفیق


مزید تفصیل کے لیے حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کی اس کتاب کا مطالعہ کریں :
مفرور لڑکیوں کا نکاح اور ہماری عدالتیں
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر لڑکی کے عزیزوں میں سے کو ئی بھی اس بات پر را ضی نہین ہے کہ وہ لڑکی کا ولی بنے ، دوسرے لفظوں میں جہاں لڑکی اپنی شادی کروانہ چاہتی ہے وہاں اس کے ولی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں تو ایسی صورت میں لڑکی کس کو ولی بناے گی؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگرچہ امام، حاکم یا قاضی تک نہیں تو واجب نہیں ہوئی اس لئے صورت مسئولہ میں شرعی حد سائل پر واجب نہیں ہے جب تک وہ حاکم تک نہیں پہنچتی اس کا معاملہ اس کے ساتھ ہے اور زانی کا ھد لگنے کے بغیر زانیہ سے نکاح ہو سکتا ہے جب دونوں توبہ صادقہ کر لیں۔ تفسیر ابنِ کثیر میں عبداللہ بن عباس سے صحیح سند سے مروی ہے۔ کسی نے پوچھا :
''ابن عباس سے کسی نے پوچھا میں ایک عورت سے حرام کا ارتکاب کرتارہاہوں مجھے اللہ نے اس فعل سے توبہ کی توفیق دی۔ میں نے توبہ کر لی میں نے اس عورت سے شادی کا ارادہ کر لیا تو لوگوں نے کہا زانی مرد صرف زانیہ عورت اور مشرقہ عورت سے نکاح کر سکتاہے۔ ابنِ عباس نے کہا یہ اس بارے میں نہیں ہے تو اس سے نکاح کر لے اگر اس کا گناہ ہوا تو وہ مجھ پر ہے۔''(تفسیر ابن کثیر عربی،ج ۳' ص۲۲۴)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرد اور عورت جنہوں نے بدکاری کا فعل کیا ہے اگر توبہ کر لیتے ہیں تو بغیر شرعی حد کے ان کا نکاح ہو سکتاہے کیونکہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے نہیں کہا کہ پہلے حد لگوائو پھر نکاح کرو۔
اس چیز کے بارے علما کیا فرماتے ہیں؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر لڑکی کے عزیزوں میں سے کو ئی بھی اس بات پر را ضی نہین ہے کہ وہ لڑکی کا ولی بنے ، دوسرے لفظوں میں جہاں لڑکی اپنی شادی کروانہ چاہتی ہے وہاں اس کے ولی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں تو ایسی صورت میں لڑکی کس کو ولی بناے گی؟
اصولی طور پر عورت کے نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے ۔ اور ولایت کا حق اس کے عصبہ ( باپ اور اس کی طرف سے دیگر مرد رشتہ دار ) کو ہی ہے ۔ سب سے قریب ترین حق باپ کا ہے اگر باپ نہ ہو تو بھائی ۔۔اسی طرح أقرب فالأقرب کی بنیاد پر آخر تک ۔
ولایت کا حق لڑکی کے ہاتھ میں نہیں کہ جس کو چاہے ولی بنالے ۔ یہ بات بالکل عجیب ہے کہ لڑکی کے اولیاء اس کے ولی بننے سے انکار کردیں ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ لڑکی پسند کی شادی کے لیے ان کو اولیاء نہ مانے یہ تو سنا گیا ہے ۔
دوسرے لفظوں میں جہاں لڑکی اپنی شادی کروانہ چاہتی ہے وہاں اس کے ولی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں تو ایسی صورت میں لڑکی کس کو ولی بناے گی؟
مسکراہٹ ۔
لڑکی کسی اور کو ولی بناکر خود کو دھوکہ دینے کی بجائے اپنے حقیقی اولیاء مثلا باپ ، بھائی وغیرہ کو راضی کرنے کی کوشش کرے ۔ ورنہ پھر اپنی پسند پر نظرثانی کرے ۔
ایک صورت ہوسکتی ہے کہ جب عورت کے اولیاء میں سے کوئی اصلا موجود ہی نہ ہو یا پھر وہ غیر مسلم ہوں تو ایسی صورت میں مسلمان حکمران یا اس کا قائم مقام اس عورت کا ولی ہوگا ۔
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتاوی ملاحظہ فرمائیں :
http://islamqa.info/ur/389
http://islamqa.info/ur/2127
 
Top