@خضر حیات
محترم! نماز میں ہاتھ باندھنے کا مسئلہ ہو یا بیس تراویح کا یہ عملاً متواتر ہیں۔ یہ اختلاف کہ ہاتھ ناف کے اوپر باندھے جائیں یا نیچے حقیقتاً یہ اختلاف ہے ہی نہیں۔ ناف چونکہ مستور ہوتی ہے اور یہ ایک مختصر سی جگہ ہے اس لئے دیکھنے والوں کو اس کے اندازہ میں اشتباہ ہوسکتا ہے۔البتہ چند علما ۔۔شیخ ابن بازؒ وغیرہ نے سینے پر کو ترجیح دی ہے ۔
آپ کی بات صحیح ہے ۔ لیکن اس میں جو بھی مسلک ہیں سارے حدیث سے ہی استدلال کرتے ہیں ۔محترم! نماز میں ہاتھ باندھنے کا مسئلہ ہو یا بیس تراویح کا یہ عملاً متواتر ہیں۔ یہ اختلاف کہ ہاتھ ناف کے اوپر باندھے جائیں یا نیچے حقیقتاً یہ اختلاف ہے ہی نہیں۔ ناف چونکہ مستور ہوتی ہے اور یہ ایک مختصر سی جگہ ہے اس لئے دیکھنے والوں کو اس کے اندازہ میں اشتباہ ہوسکتا ہے۔
محترم! اس میں راویوں کی بجائے محدثین کرام کے مشاہدات پر نظر کریں۔ نماز ایک ایسا عمل ہے جو ہر عاقل بالغ شخص دن میں پانچ مرتبہ مسجد میں ایک کثیر مجمع میں کرتا ہے۔ یہ عمل قولی حدیث سے نہیں بلکہ فعلی حدیث سے اخذ شدہ ہے۔ اس فعلی حدیث پر متواتر عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک متواتر ہے۔ اس عمل کو کرنے والے صرف راوی حضرات ہی نہ تھے بلکہ تمام امتِ مسلمہ اس پر عمل پیرا تھی اور ہے۔ اس میں کسی فقیہ یا محدث کا اختلاف نہیں تھا یہ تو بارہ سو سال بعد چھوڑا گیا شوشہ ہے۔ایک جانب سے مؤمل بن اسماعیل کو ثقہ یا ضعیف ثابت کیا جاتا ہے تو دوسری جانب سے عبد الرحمن بن اسحاق کو ۔
چلیں علمی حوالے سے ترجیح دے لیں ۔ لیکن دوسرے کے بارے میں سینہ کو کشادہ رکھیں ۔ جزاک اللہ
محترم! احادیث کی اقسام میں سے ایک قسم ”فعلی“ حدیث کی ہے کہ صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا۔ اس عمل کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد مروی نہیں۔آپ جس کو فعلی حدیث کہہ رہے ہیں ۔ مراد غالباََ تعامل امت ہے ۔
محترم! چونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کا مشاہدہ ہے اور مشاہدہ میں فرق ہونا لازم ہے الا ماشاء اللہ۔ ناف ایک مختصر سی جگہ ہے اور اس پر ستر کی وجہ سے کپڑا بھی ہوتا ہے۔ اس لئے مشاہدہ کرنے والے کو غلطی لگنے کا قوی امکان ہے کہ ہاتھ ناف کے اوپر ہیں یا نیچے۔البتہ آپ کی بات سے جو یہ سمجھ آ رہا ہے کہ ناف سے اوپر اور نیچے میں کوئی اختلاف نہیں تو یہ مناسب نہیں ۔