آلِ رسولﷺ اور اصحابِؓ رسولﷺ کے فضائل اور ان کی باہمی محبت
الحمد ﷲ ربّ العالمین والصلوٰة والسلام علیٰ أفضل الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وأصحابہ الطیّبین الطاہرین وعلیٰ من تبعھم بإحسان إلیٰ یوم الدین وبعد
خانوادۂ رسالتﷺ کے فضائل
قارئین کرام! اس حقیقت پر تمام اہل اسلام متفق ہیں کہ حضرت رسول کریمﷺ اولادِ آدم کے سردار اور تمام کائنات سے افضل انسان ہیں اوریہ اتفاق اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام ہے۔
اگرچہ ملا مجلسی نے بحار الانوار (ج۲؍ ص۸۲) پر
"باب أن الأئمة أعلم من الأنبیاء" لکھ کر کسی پہلو سے آئمہ اہل بیت کو انبیاء سے برتر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن جمہور آئمہ دین نے اس کوشش کو مسترد کردیا ہے یا اس کی تاویل کردی ہے اور شاید اہل تشیع کو بھی اس کوشش سے اتفاق نہ ہو، کیونکہ حضرت رسولِ کریمﷺ کے مقام ومرتبہ کی درخشانی اور آپ کی شان و شوکت کی تابانی اور آپﷺ کا مقامِ محمود پر فائز ہونا اور شفاعت کبریٰ اور حوضِ کوثر کا والی ہونا، ایسے ایسے حقائق ہیں کہ کوئی مسلمان ان کی حقانیت پر ذرّہ برابر شبہ نہیں کرسکتا اور جس طرح آپﷺ اپنی ذات کے اعتبار سے افضل ہیں، اس طرح آپ کا خاندان بھی تمام خاندانوں سے افضل و اعلیٰ ہے اور جس طرح آپﷺ کا خاندان سب خاندانوں سے اعلیٰ و افضل ہے، اس طرح آپﷺ کا گھرانہ بھی تمام گھرانوں سے افضل و اعلیٰ ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
" إنَّ اﷲَ اصْطَفیٰ کَنَانَۃَ مِنْ وُلْدِ إِسْمَاعِیْلَ وَاصْطَفٰی قُرَیْشًا مِّنْ کَنَانَۃَ وَاصْطَفٰی مِنْ قُرَیْشٍ بَنِیْ ہَاشِمٍوَاصْطَفَانِيْ مِنْ بَنِيْ ہَاشِمٍ "( رقم:۲۲۷۶)
’’بے شک اللہ نے اسماعیل کی اولاد سے کنانہ کو چن لیا اورکنانہ سے قریش کوچن لیا اور قریش سے اولادہاشم کو چن لیا اورمجھے اولاد ہاشم سے چن لیا۔‘‘
چنانچہ آپ ﷺ کا خاندان صدق و صفا، جود وسخا، بذل و عطا، سیادت و قیادت اور فہم وفراست جیسے اوصافِ حسنہ میں اعلیٰ مقام پر فائز تھا۔ اس خاندان کے اوصافِ حمیدہ کی و جہ سے قبائل عرب اس کا احترام کرتے تھے اور اس خاندان میں سے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا، وہ سیادت وقیادت اور کشورکشائی کے مرتبے پربھی فائز ہوگئے اور انہوں نے خداداد صلاحیت سے اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیا۔ اس خاندان کے افراد شرافت ونجابت، فہم وفراست،سیادت وقیادت میں ایک سے ایک بڑھ کر تھے۔
اس حقیقت کا اعتراف امیر المؤمنین امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما اُموی قریشی کی زبانی سنیے:
’’ان سے پوچھا گیاکہ بنو امیہ اور بنو ہاشم میں شریف کون تھا؟ انہوں نے فرمایا: کہ ہم میں اشراف زیادہ تھے اور ان میں شریف زیادہ تھے۔ ان میں ایک بزرگ ہاشم تھے جس کے برابر (ہمارے جد امجد) عبد مناف بن قصی کی اولاد میں سے کوئی بھی نہ تھا، جب وہ فوت ہو گئے تو تعداد کے اعتبار سے ہم میں اشراف زیادہ ہو گئے،لیکن ہم میں سے کوئی شخص عبد المطلب بن ہاشم کے برابر نہ تھا۔جب وہ فوت ہوگئے تو ہم تعداد اور اشراف کے اعتبار سے زیادہ ہوگئے،لیکن ان میں ایک ایسا شخص پیدا ہوا جو آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون اور سرور تھا (اور ہم میں بلکہ پوری دنیا میں اس جیسا انسان پیدا ہی نہیں ہوا) اسی بنا پر انہوں نے کہا کہ ہم میں نبی پیدا ہوا ہے اور حقیقت یہ ہے اولین وآخرین میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی اب بتاؤ کہ یہ شرف کن کو نصیب ہوا؟! (ظاہر ہے کہ بنو ہاشم کو نصیب ہوا)‘‘ (1)
سبحان اللہ! آپ ؓ نے کتنے کھلے دل کے ساتھ اپنے عم زاد ہاشمیوں کی فضیلت کا اعتراف کیا ہے۔ بہر حال آپ کے گھرانے میں سے جن لوگوں نے اسلام اور ایمان قبول کرلیا اسے نسبی شرافت کے ساتھ شرفِ صحابیت بھی حاصل ہوگیااور شرفِ صحابیت بذاتِ خود ایک ایسا شرف ہے کہ اس کے برابر اورکوئی شرف نہیں ہوسکتا،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں شرف صحابیت سے مشرف ہونے والوں کو اپنا لشکر قرار دیا ہے۔
چنانچہ قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
" اُوْلئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الِایْمَانَ وَأیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ اُوْلٰئِکَ حِزْبُ اﷲِ اَلَا إنَّ حِزْبَ اﷲِ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ" (المجادلہ:۲۲)
’’یہ وہ (اصحابِ رسولﷺ) ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے (پتھر پر لکیر کی طرح) ایمان لکھ دیا ہے اور نصرتِ غیبی سے ان کی تائید فرمائی اور وہ انہیں ایسے باغات میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔ وہ اللہ کا لشکر ہیں اور سن لو اللہ کا لشکر ہی کامران ہونے والا ہے۔‘‘
غور فرمائیں کہ جن خوش نصیبوں کے دلوں میں اللہ نے ایمان کا ثمربار پودا گاڑ دیا ہو اور اپنے غیبی خزانوں سے اس کی آب یاری کی ہو اور کلمۃ التقویٰ سے اسے غذا فراہم کی ہو اور اُنہوں نے جنگ ِبدر و اُحد اور غزوۂ موتہ و تبوک میں ایمانی جذبات کا مظاہرہ بھی کیا ہو، بھلا بعد والوں میں کوئی شخص ان کے برابر ہوسکتا ہے؟!
حضرت امام عبداللہ بن مبارک مروزیؒ سے کسی نے پوچھا کہ
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ افضل ہیں یا حضرت امیر معاویہؓ؟ تو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم! حضرت امیرمعاویہؓ کے اس گھوڑے کی ناک کا غبار بھی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے عمل سے بہتر ہے جس پر اس نے سوار ہوکر حضرت رسول کریمﷺ کے ہمراہ جہاد کیا تھا، اس کے بعد آپ نے فرمایا:
’’لَایُقَاسُ أَحَدٌ بِأصْحَاب ِمُحَمَّدٍ ﷺ‘‘ (کتاب الشریعۃ از امام آجری)
یعنی ’’کسی امتی کو حضرت محمدﷺ کے صحابہؓ کے برابر تولہ نہیں جا سکتا ۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ
’’لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ فَلَمُقَامُ أَحَدِھِمْ سَاعَةً (یعني مع النبيﷺ) خَیْرٌ مِنْ عِبَادَةِ أَحَدِکُمْ عُمْرَہٗ‘‘ (شرح عقیدہ طحاویہ:ص۵۳۲)
’’ اصحابِ محمدﷺ کو برا نہ کہو ۔ ان کا حضرت نبی کریمﷺکے ساتھ ایک گھڑی ٹھہرنا، تمہاری ساری زندگی کی عبادت سے بہتر ہے۔‘‘
پانچویں صدی ہجری کے نامور فقیہ ومتکلم اور مایہ ناز مورخ ومحقق امام ابو محمد علی بن احمد بن حزم اندلسیؒ،جن کے بارے میں شیخ اکبر ابن عربی حاتمی طائی کو خواب آیا تھا کہ حضرت رسول کریمﷺ ان سے بغل گیر ہوئے تووہ آپﷺ کے بدن میں سما گئے ۔
اپنی گراں قدر تالیف الإحکام في أصول الأحکام:۵؍ ۸۹میں فرماتے ہیں:
’’صحابی رسولﷺ وہ ہوتا ہے جو حضرت رسول کریمﷺکے پاس بیٹھنے کی سعادت حاصل کر چکا ہو، اگرچہ ایک گھڑی ہی سہی اور وہ آپ کا فرمان مبارک سن سکا ہو، اگرچہ ایک جملہ ہی سہی یا اس نے شعور کی حالت میں آپﷺ کے کسی کام کا مشاہدہ کر لیا ہو اور وہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جن کا نفاق، پیہم مشہور ہے اور وہ نفاق کی حالت میں ہی مرے تھے۔‘‘
چنانچہ صحابہ کرامؓ سب کے سب بلند اخلاق،باکمال اور پسندیدہ انسان تھے اور ہم پر ان سب کی تکریم وتعظیم کرنا واجب ہے اور ہم پر ان کے لیے استغفار کرنا اور ان سب سے محبت کرنا فرض ہے۔ ان کی صدقہ کی ہوئی ایک کھجور کا ثواب، ہماری صدقہ کی ہوئی ساری دولت کے ثواب سے کہیں زیادہ ہے اور حضرت رسول کریمﷺ کے پاس ان کا ایک گھڑی بھر بیٹھنا ،ہماری ساری زندگی کی عبادت الٰہی سے افضل ہے، اگر ہم میں سے کوئی انسان، اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کرنے میں اپنی ساری زندگی بھی صرف کر دے تو اس کی یہ اطاعت،صحابیؓ رسولﷺکے گھڑی بھر کے عمل کے برابر نہیں ہوسکتی۔
حضرت رسول کریمﷺنے فرمایا:
’’ میرے صحابہ کو میرے لیے چھوڑ دو اگر تم میں سے کسی کی ملکیت میں اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اسے فی سبیل اللہ صدقہ کر دے تو وہ پھر بھی ان کی فی سبیل اللہ صدقہ کردہ لپ بھرجَوکے ثواب کونہیں پہنچ سکتا۔(جب انہیں اس قدر رفعت شان حاصل ہے) توکوئی ہوش مندانسان کسی صحابی کی گردپا تک پہنچنے کاتصورکس طرح کرسکتاہے ؟ کیونکہ کسی آدمی کے پاس اُحد پہاڑ کی مقدار برابر سونے کا ہونا ناممکن اور پھر اس کا اسے خرچ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔‘‘
چنانچہ خوش نصیب ہیں وہ حضرات جواَصحابؓ رسولؐ بھی ہیں اور خانوادہ رسولؐ بھی ہیں۔خانوادۂ رسولؐ کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا مرتبہ و مقام ہے۔
خلیفہ رسولؐ سیدنا ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما جب عمِ رسولؐ سیدناعباسؓ بن عبدالمطلب ہاشمی کو دیکھتے تو احتراماً اپنی سواریوں سے نیچے اُتر پڑتے تھے،بلکہ حضرت عمر فاروقؓ اپنے دورِ خلافت میں سیدنا عباسؓ بن عبدالمطلب سے بارش کی دعا کی درخواست کرتے تھے اور اُن کی دعا قبول بھی ہوتی تھی۔جب آپؓ نے اپنے دورِ خلافت میں صحابہ کرام ؓکے عطیات مقرر کئے تو اپنے سیکرٹری سے فرمایاکہ سب سے پہلے حضرت رسول کریمﷺکے خاندان کے افراد کے نام لکھو اور ان میں آپ کی بیویوں کے بعد بنی عبدمناف کے نام لکھو اور ان میں سے پہلے حضرت علیؓ اور پھر حسنؓ و حسینؓ کے نام لکھو۔
چنانچہ آپؓ نے سیدنا علی المرتضیٰ ؓکے لئے پانچ ہزار(۵۰۰۰)،سیدنا حسنؓ کے لئے چار ہزار(۴۰۰۰) اور سیدنا حسینؓ کے لئے تین ہزار(۳۰۰۰) دینار مقرر کئے۔ آپ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ ہاشمی کو کم سنی کے باوجود کبار صحابہ کرامؓ کی مجلس میں جگہ دیا کرتے تھے اور ان کے علم وفضل سے مستفید ہوا کرتے تھے۔
تاریخ یعقوبی میں ہے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ،سبط ِ رسولؐ سیدنا حسن بن علی ؓ کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر ان سے خوش طبعی کرتے اور فرماتے:
’’بأبِيْ، شَبِیْہٌ بِالنَّبِيِّ، غَیْرُ شَبِیْہٍ بِعَلِيٍّ‘‘ (ج۲ ؍ص۱۱۷)
’’میرا باپ فدا ہو، یہ تو حضرت نبی کریمﷺ کے مشابہ ہے، حضرت علی کے مشابہ نہیں ہیں۔‘‘
چنانچہ سیدہ فاطمہؓ بنت ِرسولؐ بھی انہی الفاظ سے اپنے پھول حسنؓ بن علیؓ کو لوری دیا کرتی تھیں اور جب آپ بیمار ہوئیں تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیوی حضرت اسما بنت عمیس ہی آپؓ کی تیمارداری کرتی رہیں حتیٰ کہ انہوں نے ہی سیدہ فاطمہؓ کو غسل دیا اور آپ کے جنازے کے ساتھ گئیں اور جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ فوت ہوئے تو سیدنا علی مرتضیٰؓ نے آپ کی اسی بیوہ سے شادی کی اور ان کے بیٹے محمد بن ابی بکر صدیق کی کفالت کی اور اسے مصر کا گورنر مقرر کیا اور بعد ازاں صدیقی گھرانے کی لخت ِجگر اُم فروہ بنت قاسم بن محمدبن ابوبکر صدیقؓ کا نکاح ہاشمی گھرانے کے نورِ چشم سیدنا محمد بن علیؒ بن حسینؓ سے ہوا۔
ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ اصحاب النبی رضوان اﷲ علیہم أجمعین اہل بیتؓ کی عظمت کے پیش نظر، دل و جان سے ان کا احترام کرتے تھے اور ان کا حق پہچانتے تھے اور ان سے تعلق جوڑنے میں فخر محسوس کرتے تھے اور انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔
لہٰذا متاخرین اور آخرین مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ بھی متقدمین کی طرح اہل بیتؓ کا احترام کریں اور برصغیر کے مصنوعی سادات کی بد اعمالیوں کو اصلی سادات کے استخفاف کا ذریعہ نہ بنائیں اور اس بات پر یقین رکھیں کہ حقیقی ساداتِ کرام واقعی اشراف، صبر مند اور عزت دار اور طہارتِ قلبی کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ وہ اُمت میں فساد نہیں ڈالتے بلکہ اسے پُرامن رکھنے کی تگ و دو کرتے ہیں۔
محترم قارئین کرام!
جب یہ بات ثابت ہے کہ اہل بیت اور صحابہ کرامؓ رحماء بینھم تھے تو
پھر ان کی محبت کے پردے میں آج کل اتنا بڑا فساد کیوں ہورہا ہے؟ اور مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کیوں کٹ رہے ہیں؟ اور عبادت خانوں اور جلسہ گاہوں میں بے گناہ شیعہ سنی کیوں مارے جارہے ہیں؟ اس بات پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اصل خرابی اور بیماری کا پتہ لگے اور اس کا علاج کیا جاسکے۔ ہم ان شاء اللہ اپنے اس کتابچے میں اسی چیز کا پتہ لگائیں گے اوراس کے لیے شافی نسخہ بھی بتائیں گے،کیونکہ اُمت میں افتراق وانتشار کے طاعون کی وجوہات تلاش کرنا اور اس کا علاج کرنا شرعی فریضہ ہے ۔
برادرانِ ملت!
ہمیں ایسے محققین اورمصنّفین پر تعجب آتا ہے جویہودیت زدہ مؤرخین کی من گھڑت اوربے سروپا روایات پر اعتماد کرکے اُمت میں افتراق کو فروغ دے رہے ہیں اور ان میں سے بعض مفکرین یہ سمجھتے ہیں کہ وہ علمی حقائق تک رسائی حاصل کرچکے ہیں حالانکہ جس چیز پر انہوں نے اعتمادکیا ہے، اس کی علمی بنیاد، سرے سے موجود ہی نہیں، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نیک کام کررہے ہیں جبکہ ان کے اس ’نیک کام‘ کا نتیجہ سوائے افتراق و اختلاف کے اور کچھ نہیں ہے اور جب ہم ان سے ان کے سعی و عمل کے نتیجے کے متعلق پوچھیں گے تو ان کی طرف سے اچھے خیالات رکھنے والا صرف یہی جواب دے گا کہ فقط علم اور معلومات کے لئے اوربس۔ حالانکہ اگر ان معلومات کی کوئی بنیاد ہوتی بھی تو پھر بھی فتنے کے خوف کے پیش نظر انہیں دفن ہی رہنے دینا چاہئے تھا۔
چنانچہ ہم اس قسم کے محققین اور تاریخ نگاروں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ خدارا اُمت ِمحمدیہ پر ترس کھائیں اور ان تاریخی مسائل اور مشاجرات کو اُچھالنے سے گریز کریں جن کے منفی نتائج برآمدہوتے ہیں اور وہ زخم خوردہ اُمت ِمحمدیہ کو خاک و خون میں تڑپا دیتے ہیں اور ان کی بجائے اُن حقائق کو بیان کریں جو امت کو آپس میں جوڑ دیں تاکہ وہ کفار کے سامنے بنیانِ مرصوص بن کر کھڑی ہوسکے۔
ہم بفضل اللہ تعالیٰ آپ کے سامنے وہ حقائق بیان کریں گے جو اُمت ِمحمدیہ کو باہم مل بیٹھنے اور سابقہ غلطیوں کی تلافی کرنے پر مجبور کردیں گے۔ ان شاء اللہ!
(1). a امیرمعاویہؓ بن ابی سفیانؓ مؤلفہ منیر احمد الغضبان