کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
امیرالمومنین سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے جس قدر محبت تھی اس کا اندازہ درج ذیل روایت سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ امام ابن ابی شیبہ اپنی مصنف میں اور امام محب طبری اپنی ریاض النضرۃ میں او رامام ابن قدامہ مقدسی اپنی الرقۃ والبکاء میں حضرت ابومریم سے روایت کرتے ہیں
امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین سے یگانگت اور موافقت کا آفتاب نصف النھار سے بڑھ کر آشکار ثبوت یہ ہے کہ آپ نے فدک کی جاگیر کے متعلق خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم "لانورث،ما ترکناہ صدقة" کو صدق دل سے قبول کیا اور اپنے دورِ خلافت میں فدک کی اسی حیثیت کوبحال رکھا جو خلیفہ اوّل کے دور میں تھی اور اس میں ذرّہ برابر تغیر نہ کیا۔ اگر خدانخواستہ آپ کے دل میں خلیفہ اوّل کے بارے میں ذرہ برابر کدورت ہوتی تو آپ نے ان کے حکم کو کالعدم قرار دے کر فدک کی جاگیر پر قبضہ کرکے اسے اپنے اور بیٹوں اور بیٹیوں میں وراثتی قانون کے مطابق تقسیم کردینا تھا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا، کیوں؟ اس لئے کہ آپ کو خلیفہ اوّل کی صداقت کا یقین تھا اور آپ ان کی فہم و فراست کو اپنی فہم پر فوقیت دیتے تھے اور ان کی خلافت کو درست سمجھتے تھے۔ اس طرح آپ خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو درست سمجھتے تھے اور ان کے اقدامات کا احترام کرتے تھے۔ چنانچہ امام احمد بن حنبلؒ کی کتاب فضائل الصحابہ اور امام ابوبکر بن ابی شیبہؒ کی مصنف اور امام آجری کی کتاب الشریعۃ کی روایات کا ماحصل یہ ہے کہ نجران کے نصرانی آپ کی خدمت میں آپ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر لے کر پیش ہوئے جب آپ نے وہ تحریر دیکھی تو آبدیدہ ہوکر فرمایا اللہ کی قسم یہ میرا رسم الخط ہے اور میں نے ہی اسے اپنے ہاتھ سے لکھا تھااوروہی کچھ لکھا تھاجو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایاتھا۔انہوں نے کہا:اے امیر المؤمنین، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں ہمیں ہماری زمینوں سے بے دخل کردیا تھا اور آپ اس تحریر کی روشنی میں ہماری زمینیں ہمیں واپس دے دیجئے۔ آپ نے فرمایا :افسوس تم پر۔حضرت عمر رضی اللہ عنہرشید الامر اوردور اندیش حکمران تھے میں ان کے کسی حکم کو منسوخ نہیں کروں گا۔ امام عبد خیر اور سلیمان بن مہران فرماتے ہیں کہ اگر آپ کے دل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق ذرہ برابر کدورت ہوتی توآپ کے لئے یہ موقعہ غنیمت تھا اور آپ بآسانی ان کے حکم کوردّ کرسکتے تھے لیکن آپ نے ایسانہیں کیا کیوں؟ اس لئے کہ آپ دل و جان سے ان کا احترام کرتے تھے ۔ اس طرح آپ نے مصحف شریف کو قریش کے لہجے پر مرتب کرنے کے بارے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اقدام کی تعریف کی اور ساری زندگی اسی مصحف کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے مشورہ سے مرتب کروایا تھا اور اس کی نقول تمام صوبوں میں بھجوائی تھیں اور یہ ایسی صداقتیں ہیں جنہیں تمام اہل علم نے تسلیم کیا ہے۔
کہ میں نے امیرالمومنین سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے جسم پر پرانا کمبل دیکھاجس کے کنارے گھس چکے تھے۔
میں نے کہا: اے امیرالمومنین! مجھے آپ سے ایک کام ہے۔
آپ نے فرمایا:بولو، کیا کام ہے؟
میں نے عرض کیا کہ آپ اس کمبل کواُتار پھینکیں او رکوئی دوسرا کمبل اوڑھ لیں۔ یہ سنتے ہی آپ نے وہ کمبل اپنے منہ پر ڈال لیا اور رونے لگے۔
میں نے عرض کیا: اے امیرالمومنین! اگر مجھے معلوم ہوجاتاکہ میری اس بات کا آپ پر اس قدر ناگوار اثر ہونا ہے تو میں یہ بات کبھی نہ کہتا۔
آپ نے فرمایا:یہ کمبل مجھے میرے خلیل نے پہنایا تھا۔
میں نے عرض کیا: آپ کا خلیل کون ہے؟
آپ نے فرمایا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اُنہوں نے اللہ سے خلوص کا معاملہ کیاتواللہ نے ان سے خیرخواہی کی۔'' مصنف ابن ابی شیبہ: ج۱۲؍ص۲۹ رقم ۱۲۰۴۶)
امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین سے یگانگت اور موافقت کا آفتاب نصف النھار سے بڑھ کر آشکار ثبوت یہ ہے کہ آپ نے فدک کی جاگیر کے متعلق خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم "لانورث،ما ترکناہ صدقة" کو صدق دل سے قبول کیا اور اپنے دورِ خلافت میں فدک کی اسی حیثیت کوبحال رکھا جو خلیفہ اوّل کے دور میں تھی اور اس میں ذرّہ برابر تغیر نہ کیا۔ اگر خدانخواستہ آپ کے دل میں خلیفہ اوّل کے بارے میں ذرہ برابر کدورت ہوتی تو آپ نے ان کے حکم کو کالعدم قرار دے کر فدک کی جاگیر پر قبضہ کرکے اسے اپنے اور بیٹوں اور بیٹیوں میں وراثتی قانون کے مطابق تقسیم کردینا تھا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا، کیوں؟ اس لئے کہ آپ کو خلیفہ اوّل کی صداقت کا یقین تھا اور آپ ان کی فہم و فراست کو اپنی فہم پر فوقیت دیتے تھے اور ان کی خلافت کو درست سمجھتے تھے۔ اس طرح آپ خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو درست سمجھتے تھے اور ان کے اقدامات کا احترام کرتے تھے۔ چنانچہ امام احمد بن حنبلؒ کی کتاب فضائل الصحابہ اور امام ابوبکر بن ابی شیبہؒ کی مصنف اور امام آجری کی کتاب الشریعۃ کی روایات کا ماحصل یہ ہے کہ نجران کے نصرانی آپ کی خدمت میں آپ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر لے کر پیش ہوئے جب آپ نے وہ تحریر دیکھی تو آبدیدہ ہوکر فرمایا اللہ کی قسم یہ میرا رسم الخط ہے اور میں نے ہی اسے اپنے ہاتھ سے لکھا تھااوروہی کچھ لکھا تھاجو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایاتھا۔انہوں نے کہا:اے امیر المؤمنین، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں ہمیں ہماری زمینوں سے بے دخل کردیا تھا اور آپ اس تحریر کی روشنی میں ہماری زمینیں ہمیں واپس دے دیجئے۔ آپ نے فرمایا :افسوس تم پر۔حضرت عمر رضی اللہ عنہرشید الامر اوردور اندیش حکمران تھے میں ان کے کسی حکم کو منسوخ نہیں کروں گا۔ امام عبد خیر اور سلیمان بن مہران فرماتے ہیں کہ اگر آپ کے دل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق ذرہ برابر کدورت ہوتی توآپ کے لئے یہ موقعہ غنیمت تھا اور آپ بآسانی ان کے حکم کوردّ کرسکتے تھے لیکن آپ نے ایسانہیں کیا کیوں؟ اس لئے کہ آپ دل و جان سے ان کا احترام کرتے تھے ۔ اس طرح آپ نے مصحف شریف کو قریش کے لہجے پر مرتب کرنے کے بارے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اقدام کی تعریف کی اور ساری زندگی اسی مصحف کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے مشورہ سے مرتب کروایا تھا اور اس کی نقول تمام صوبوں میں بھجوائی تھیں اور یہ ایسی صداقتیں ہیں جنہیں تمام اہل علم نے تسلیم کیا ہے۔