• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصحاب ِ رسولﷺ اور اہل بیت کرام رض کے درمیان محبت و یگانگت

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
امیرالمومنین سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے جس قدر محبت تھی اس کا اندازہ درج ذیل روایت سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ امام ابن ابی شیبہ اپنی مصنف میں اور امام محب طبری اپنی ریاض النضرۃ میں او رامام ابن قدامہ مقدسی اپنی الرقۃ والبکاء میں حضرت ابومریم سے روایت کرتے ہیں
کہ میں نے امیرالمومنین سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے جسم پر پرانا کمبل دیکھاجس کے کنارے گھس چکے تھے۔
میں نے کہا: اے امیرالمومنین! مجھے آپ سے ایک کام ہے۔
آپ نے فرمایا:بولو، کیا کام ہے؟
میں نے عرض کیا کہ آپ اس کمبل کواُتار پھینکیں او رکوئی دوسرا کمبل اوڑھ لیں۔ یہ سنتے ہی آپ نے وہ کمبل اپنے منہ پر ڈال لیا اور رونے لگے۔
میں نے عرض کیا: اے امیرالمومنین! اگر مجھے معلوم ہوجاتاکہ میری اس بات کا آپ پر اس قدر ناگوار اثر ہونا ہے تو میں یہ بات کبھی نہ کہتا۔
آپ نے فرمایا:یہ کمبل مجھے میرے خلیل نے پہنایا تھا۔
میں نے عرض کیا: آپ کا خلیل کون ہے؟
آپ نے فرمایا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اُنہوں نے اللہ سے خلوص کا معاملہ کیاتواللہ نے ان سے خیرخواہی کی۔'' مصنف ابن ابی شیبہ: ج۱۲؍ص۲۹ رقم ۱۲۰۴۶)

امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین سے یگانگت اور موافقت کا آفتاب نصف النھار سے بڑھ کر آشکار ثبوت یہ ہے کہ آپ نے فدک کی جاگیر کے متعلق خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم "لانورث،ما ترکناہ صدقة" کو صدق دل سے قبول کیا اور اپنے دورِ خلافت میں فدک کی اسی حیثیت کوبحال رکھا جو خلیفہ اوّل کے دور میں تھی اور اس میں ذرّہ برابر تغیر نہ کیا۔ اگر خدانخواستہ آپ کے دل میں خلیفہ اوّل کے بارے میں ذرہ برابر کدورت ہوتی تو آپ نے ان کے حکم کو کالعدم قرار دے کر فدک کی جاگیر پر قبضہ کرکے اسے اپنے اور بیٹوں اور بیٹیوں میں وراثتی قانون کے مطابق تقسیم کردینا تھا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا، کیوں؟ اس لئے کہ آپ کو خلیفہ اوّل کی صداقت کا یقین تھا اور آپ ان کی فہم و فراست کو اپنی فہم پر فوقیت دیتے تھے اور ان کی خلافت کو درست سمجھتے تھے۔ اس طرح آپ خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو درست سمجھتے تھے اور ان کے اقدامات کا احترام کرتے تھے۔ چنانچہ امام احمد بن حنبلؒ کی کتاب فضائل الصحابہ اور امام ابوبکر بن ابی شیبہؒ کی مصنف اور امام آجری کی کتاب الشریعۃ کی روایات کا ماحصل یہ ہے کہ نجران کے نصرانی آپ کی خدمت میں آپ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر لے کر پیش ہوئے جب آپ نے وہ تحریر دیکھی تو آبدیدہ ہوکر فرمایا اللہ کی قسم یہ میرا رسم الخط ہے اور میں نے ہی اسے اپنے ہاتھ سے لکھا تھااوروہی کچھ لکھا تھاجو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایاتھا۔انہوں نے کہا:اے امیر المؤمنین، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں ہمیں ہماری زمینوں سے بے دخل کردیا تھا اور آپ اس تحریر کی روشنی میں ہماری زمینیں ہمیں واپس دے دیجئے۔ آپ نے فرمایا :افسوس تم پر۔حضرت عمر رضی اللہ عنہرشید الامر اوردور اندیش حکمران تھے میں ان کے کسی حکم کو منسوخ نہیں کروں گا۔ امام عبد خیر اور سلیمان بن مہران فرماتے ہیں کہ اگر آپ کے دل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق ذرہ برابر کدورت ہوتی توآپ کے لئے یہ موقعہ غنیمت تھا اور آپ بآسانی ان کے حکم کوردّ کرسکتے تھے لیکن آپ نے ایسانہیں کیا کیوں؟ اس لئے کہ آپ دل و جان سے ان کا احترام کرتے تھے ۔ اس طرح آپ نے مصحف شریف کو قریش کے لہجے پر مرتب کرنے کے بارے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اقدام کی تعریف کی اور ساری زندگی اسی مصحف کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے مشورہ سے مرتب کروایا تھا اور اس کی نقول تمام صوبوں میں بھجوائی تھیں اور یہ ایسی صداقتیں ہیں جنہیں تمام اہل علم نے تسلیم کیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
امام ابوبکر بن ابی شیبہ اپنی مصنف میں اور امام ابوبکر محمد حسین آجری اپنی کتاب الشریعۃ میں اپنی سند کے ساتھ محمد بن حاطب سے روایت کرتے ہیں کہ چند لوگوں نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بن علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے متعلق تاثرات لینے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا۔ چند لمحوں میں حضرت امیرالمؤمنین تشریف لانے والے ہیں اس لئے تم نے حضرت عثمان کے متعلق ان سے پوچھنا۔ چنانچہ چند لمحوں کے دوران امیرالمؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو حاضرین نے ان سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان کے متعلق پوچھا تو آپ نے سورہ مائدہ کی آیت ’’ لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَآمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّأَحْسَنُوْا وَاﷲُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ‘‘ پڑھنا شروع کردی، چنانچہ جب آپ نے اس آیت کریمہ کا لفظ :
إذا ما اتقوا پڑھا تو فرمایا: کان عثمان من الذین اتقوا اور جب وآمنوا پڑھا تو فرمایا: کان عثمان من الذین آمنوا اورجب وعملوا الصٰلحٰت پڑھاتوفرمایا:کان عثمان من الذین عملوا الصٰلحٰت اور جب ثمّ اتقوا پڑھا تو فرمایا: کان عثمان من الذین اتقوا اور جب وآمنوا پڑھا تو فرمایا : کان عثمان من الذین آمنوا اور جب ثم اتقوا پڑھا تو فرمایا:کان عثمان من الذین اتقوا اور جب وأحسنوا پڑھا تو فرمایا: کان عثمان من الذین أحسنوا اور واﷲ یحب المحسنین پرآیت ختم کردی۔
اس آیت کے ہر ہر لفظ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہکانام لینا کس بات پر دلالت کرتا ہے؟! اس بات پر کہ آپ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ایمانی اور نسبی محبت تھی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۱۲۱۰۹- مستدرک ج۳)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اب امیرالمومنین سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے متعلق حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کا نظریہ بھی پڑھ لیجئے جو اللہ تعالیٰ کے فرمان رحماء بینھم کا آئینہ دار ہے۔

نہج البلاغۃص۳۷۴) اورحلیۃ الأولیاء ۱؍۸۴) میں ہے کہ حضرت ضرار بن حمزہ ضبائی، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لائے تو آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : میرے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اوصاف بیان کیجئے،اُنہوں نے عرض کیا:
اے امیرالمومنین !اس معاملے میں آپ معذرت قبول نہیں کرتے؟
آپ نے فرمایا: میں معذرت قبول نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا : اگر ضرور ہی سننے ہیں تو سنیے ...
اللہ کی قسم! وہ بلند خیال اور مضبوط اعصاب والے تھے، دو ٹوک بات کہتے اور حق کے ساتھ فیصلہ کرتے تھے،ان کے پہلوؤں سے علم کے چشمے پھوٹتے تھے اور چاروں طرف حکمت ودانائی بولتی تھی۔ وہ دنیا اور اس کی رنگینیوں سے اُچاٹ اور رات اور اس کے اندھیروں سے مانوس تھے۔
اللہ کی قسم! وہ بڑے متحمل اور گہری سوچ رکھنے والے انسان تھے۔
اس دوران اپنی ہتھیلی کو پلٹتے اور اپنے آپ سے مخاطب ہوتے تھے ۔
آپ سستا لباس اور سادہ خوراک پسند کرتے تھے۔
اللہ کی قسم! وہ ہم میں عام آدمی کی طرح رہتے تھے۔ جب ہم ان کے پاس آتے تو وہ ہمیں اپنے قریب بٹھاتے اور جب ہم سوال کرتے تو وہ ہمیں جواب دیتے تھے اور اتنے تقرب کے باوجود ہم ان کی ہیبت کی وجہ سے ان سے گفتگو کی ہمت نہ پاتے۔ جب وہ مسکراتے تو دندانِ مبارک پروئے ہوئے موتیوں کی لڑی نظر آتے تھے۔ وہ اہل دین کی عزت کرتے اور مساکین سے محبت کرتے تھے۔ کوئی طاقتور شخص اپنی طاقت کے بل بوتے پر ان سے ناحق فیصلہ کروانے کی طمع نہ کرسکتا تھا اور نہ کمزور انسان ان کے عدل سے مایوس ہوتا تھا۔

میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے انہیں بعض مواقع پر ستاروں کے ڈھلنے کے بعد اندھیری راتوں میں دیکھا کہ وہ اپنے محراب میں اپنی داڑھی پکڑ کر سانپ کے ڈسے ہوئے کی طرح تڑپ رہے تھے اور غمگین کی طرح رو رہے تھے اور گویا کہ میں اب بھی اُنہیں سن رہا ہوں کہ وہ کہہ رہے ہیں: یَا رَبَّنَا یَا رَبَّنَا اور اس کے سامنے گریہ زاری کررہے ہیں۔ پھر دنیا سے کہہ رہے ہیں کہ تو مجھے دھوکہ دیتی ہے اور میری طرف لپکتی ہے؟ مجھ سے دور رہ، کسی اور کو دھوکہ دے، میں تو تجھے تین طلاقیں دے چکا ہوں، تیری عمر چھوٹی ہے اور محفل حقیر ہے اور مرتبہ معمولی ہے۔

آہ! سفر لمبا ہے، سفر خرچ کم ہے اور راستہ پُرخطر ہے...!!
یہ سن کر حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے اور ان کی داڑھی پر بہنے لگے۔ انہوں نے آنسوؤں کو آستین سے خشک کرنا شروع کردیا اور ہم نشین بلک بلک کر رونے لگے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ابوالحسن پر اللہ رحم فرمائے۔ یقینا وہ ایسے ہی تھے۔ اے ضرار! ان کی شہادت پر تیرا غم کیسا ہے؟

اُنہوں نے کہا: جیسے کسی عورت کے اکلوتے بیٹے کو اس کی گود میں ہی ذبح کردیا گیا، نہ تو اس کے آنسو تھمتے ہیں، نہ غم ختم ہوتا ہے۔
اس روایت سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے کتنے اشتیاق اور اصرار کے ساتھ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے اوصاف سنے اورکس قدر وسعت ِظرفی سے ان کے فضل و کمال کا اعتراف کیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اب ہم آپ کے سامنے ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتاہے کہ اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم اجمعین باوجود اپنے مرتبہ و مقام کے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی دل وجان سے قدر کرتے تھے اور ان کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہ کرتے تھے۔

ساتویں صدی کے مشہور شیعہ محدث بہاؤالدین ابوالحسن علی بن حسین اربلی اپنی کتاب کشف الغمةفي معرفة الآئمة میں بیان کرتے ہیں کہ عراقیوں کا ایک گروہ سبط رسول سیدنا علی بن حسین زین العابدین کے پاس آیا اور حضر ت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ و عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق نامناسب باتیں کرنے لگا۔ جب وہ اپنی باتوں سے فارغ ہوا، تو آپ نے فرمایا:میں تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا تم ان اوّلین مہاجروں میں سے ہو؟
’’ اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَاَمْوَالِھِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اﷲِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اﷲَ وَرَسُوْلَہُ اُوْلٰئِکَ ھُمُ الصَّادِقُوْنَ ‘‘۔(1)
اُنہوں نے کہا: نہیں!
آپ نے فرمایا: کیا تم وہ لوگ ہو جنہوں نے ’’ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالِایْمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُوْثِرُوْنَ عَلٰی أنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ‘‘ ۔(2)
اُنہوں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: تم بذاتِ خود اس بات کے اقراری ہوگئے کہ تم ان دونوں فریقوں میں سے نہیں ہو اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے بھی نہیں ہو، جن کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ’’ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالِایْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ الحشر:۸ تا ۱۰)۔(3)
میرے پاس سے نکل جاو، اللہ تمہارا برا) کرے۔
یہ ہے سبط ِرسول حضرت زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہ کا مبارک نکتہ نظر ان لوگوں کے متعلق جو صحابہ کرام کی حسن سیرت وسلوک میں عیوب تلاش کرتے ہیں۔

........................................................................................................
(1). ’’ جو اپنے گھروں اور مالوں سے بے دخل کردیے گئے، وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی کے طلب گار ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی نصرت کرتے ہیں وہی لوگ سچے ہیں۔‘‘
(2). ’’ جو دارِہجرت (مدینہ) اور ایمان کو ان سے پہلے ٹھکانہ بنا چکے تھے۔ وہ اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور ان (مہاجرین) کو جو کچھ دیا جائے، اس سے اپنے سینوں میں تنگی محسوس نہیں کرتے اور وہ انہیں اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ انہیں خود بھی اس کی شدید ضرورت ہو۔‘‘
(3). ’’ اے ہمارے ربّ! ہمیں بخش اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ایمان قبول کرنے میں ہم سے سبقت لے گئے اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے متعلق کینہ و کدورت پیدا نہ کر۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین کی باہمی محبت پر دوسرا استدلال

صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھنا

قارئین کرام!مہذب اور متمدن معاشرے میں نام کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور بچے کی پیدائش پر اس کا نام رکھنے سے اس کے والدین کی نفسیات اور چاہتوں کا اندازہ لگایا جاتا ہے، اگر وہ جنگ وجدال کے خوگر ہیں تو وہ اپنے بچوں کے نام مشہور جنگجوؤں کے ناموں پر رکھیں گے اور اگر وہ جود و سخا اور بذل و عطا کو اچھا سمجھتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کے نام جواد اور فیاض انسانوں کے ناموں پر رکھیں گے۔

قدیم دور میں کہا جاتا تھا: ما اِسمک اَعرفُ ابَاک کہ مجھے بتاؤ تمہارا نام کیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعے تیرے باپ کا تعارف حاصل کروں۔) الغرض نام کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے ہی والدین اور گھر کے افراد اپنے بچے کو دوسروں سے ممتاز اور نمایاں کرتے ہیں اور وہ اسے اس نام سے پکارتے ہیں جو اُنہوں نے پسند کیا ہوتا ہے اور یہی عمل اس کے باپ سے اس کے ربط کا پتہ دیتا ہے اور نام سے ہی بچے کے باپ کی عقل اور اس کے دین کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

علمائے اُصول و لغت کے ہاں یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ناموں میں واضح اشارات اور معانی ہوتے ہیں جو موسوم کی شخصیت میں پنہاں خصلتوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس لئے علمائے کرام رحمہم اللہ علیہم نے لغت اور اصول فقہ کی کتابوں میں اس مسئلہ کی تحقیق کی ہے اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل پر طویل گفتگو کی ہے۔

نام کی اہمیت کے پیش نظر اسلام نے اچھے نام رکھنے کی ترغیب دی ہے اور برے ناموں کو ناپسند کیا ہے۔ حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أَحَبُّ الاَسْمَائِ إلَی اﷲِ عَبْدُ اﷲِ وَعَبْدُالرَّحْمٰنِ (صحیح ابوداود:۴۱۳۹)
'' اللہ کے ہاں پسندیدہ نام عبداللہ و عبدالرحمن ہیں۔''
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھا نام پسند ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے نیک فال لیتے تھے اور بُرے نام سے آپ کو نفرت تھی، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اَخْنٰی الاَسْمَائِ یَوْمَ الْقِیَامَة عِنْدَ اﷲِ رَجُلٌ تُسَمّٰی مَلِکُ الامْلَاکِصحیح بخاری:۶۲۰۵)
''قیامت کے دن اللہ کے ہاں سب سے برے نام والا وہ شخص ہے جس کا نام شہنشاہ رکھا جائے۔''
اور آپ برے معنی و مفہوم والے ناموں کو بدل دیتے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرب،مرہ اور حزن جیسے ناموں کو بدل دیا تھا اور ان کی بجائے اچھے معنی و مفہوم والے نام تجویز فرمائے تھے مثلاً حارث،ہمام اور سھل وغیرہ

بہر حال اُمت کے شرفاء و نجباء اور عقلاء و فضلاء اپنی اولاد کے ایسے نام نہیں رکھتے جن کا کوئی معنی و مفہوم نہ ہو اور وہ اپنے اندرکوئی دلالت بھی نہ رکھتے ہوںبلکہ وہ اپنے عزیز از جان بیٹوں اور بیٹیوں کے نام انبیاء و شہداء اور صالحین کے ناموں پر رکھتے ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ کریم نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا :

"" مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُوْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیٰوۃً طَیِّبَة‘‘ النحل:۹۲)
''جو کوئی نیک عمل کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور وہ مؤمن بھی ہو تو ہم اس کو حیاتِ جاوداں نصیب کریں گے۔''
چنانچہ اللہ کی حکمت نے تقاضا کیا کہ وہ اپنے نیک بندوں کے تذکرے ، ان کے ناموں کے ذریعے،قیامت تک زندہ رکھے۔ اس لئے اس نے اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت و اُلفت ڈال دی ہے اور وہ ان ہستیوں سے محبت اور وابستگی کے لئے اپنی اولاد کے نام ، ان کے ناموں پر رکھتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
1. اس تمہید کے بعد ہم اصل مدعا بیان کرتے ہیں کہ امیرالمومنین سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے خلفائے ثلاثہ رضوان اﷲ علیہم سے شدید محبت کی بنا پر اپنے بچوں کے نام، ان کے ناموں پر رکھے اور وہ بھی عداوت مٹ جانے کے صدیوں بعد نہیں بلکہ بقول شیعہ صاحبان : عداوت کے عروج کے دور میں اور ہم اہل السنہ کے بقول: محبت و پیار کے عروج کے دور میں رکھے اور وہ یہ ہیں :

٭ سیدنا ابوبکرؒ بن علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب ہاشمی قریشی، جو اپنے بھائی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کربلا میں شہید ہوئے۔ ان پر اور ان کے باپ پر افضل و اعلیٰ درود و سلام ہو۔
٭ سیدنا عمرؒ بن علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب ہاشمی قریشی، جو اپنے بھائی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ معرکہ کربلا میں شہید ہوئے۔ ان پر اور انکے باپ پر اعلیٰ و افضل درود و سلام ہو۔
٭ سیدنا عثمانؒ بن علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب ہاشمی قریشی، جو اپنے بھائی سید حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ حادثہ کربلا میں شہید ہوئے۔

2. امیر المومنین سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ فرشتہ رحمت) نے بھی اپنے بیٹوں کے نام، خلفاے راشدین اور صحابہ کرام کے ناموں پر رکھے۔ اور وہ یہ ہیں:
٭ سیدنا ابوبکرؒ بن حسن رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ، جو اپنے چچا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کربلا میں شہید ہوئے۔
٭ سیدنا عمرؒ بن حسن رضی اللہ عنہ بن علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ، یہ بھی اپنے چچا کے ساتھ کربلا میں شہید ہوئے۔
٭ سیدنا طلحہؒ بن حسن رضی اللہ عنہ بن علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ یہ بھی اپنے چچا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کربلا میں شہید ہوئے۔

3. ریاضِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مشکبار پھول سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے نورِ چشم کا نام خلیفہ ثانی کے نام پر رکھا، ان کا نام تھا۔
٭ سیدنا عمرؒ بن حسین رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ ہاشمی قریشی

4. مدعیانِ حب ِاہل بیت کے چوتھے امام سیدنا علی بن حسین رضی اللہ عنہ زین العابدین نے بھی اپنے نور چشم کا نام خلیفہ ثانی کے نام پراور اپنی لخت جگر کا نام اُمّ المومنین کے نام پر رکھا۔ ان کے نام یہ ہیں :
٭ سیدنا عمر ؒبن علی بن حسین بن علی المرتضیٰ ہاشمی قریشی
٭ سیدہ عائشہؒ بنت علی بن حسین ہاشمیہ قرشیہ

5. مدعیانِ حب اہل بیت کے چھٹے امام سیدنا موسیٰ بن جعفر صادق نے بھی اپنے نورِ نظر کا نام سیدنا )عمرؒ اور لخت ِجگر کا نام سیدہ) عائشہ بنت موسیٰ رکھا۔(1)

علاوہ ازیں آپ کو حضرت عباس بن عبدالمطلب ہاشمی قریشی اور سیدنا جعفر بن ابی طالب بن عبدالمطلب ہاشمی اور حضرت مسلم بن عقیل کی اولاد میں بھی یہ نام ملیں گے۔ لیکن یہاں ایسے ناموں کی گنتی مقصود نہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا یہ عمل ہمارے مدعا پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے دلوں میں اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کرام کا بڑا مقام تھا۔ خدانخواستہ اگر ان کے دلوں میں ان کا احترام نہ ہوتا تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے۔ بھلا آج کل کے شیعہ ان پاکبازوں کے نام پر اپنی اولاد کا نام رکھتے ہیں،ہرگز نہیں کیونکہ انہیں ان سے کینہ وبغض ہے۔ جبکہ اُنہیں صحابہ کرام سے محبت تھی اس لئے انہوں نے ایسا کیا اور ان کا ایسا کرنا آیت ِقرآنی کا مصداق ہے :

’’ إنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا‘‘(مریم:۹۶)
جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے۔ عنقریب رحمن ان کو مودّت ہردل عزیزی) عطا فرمائے گا۔
........................................................................................................................
(1). کشف الغمۃ ۳؍۲۹،۳۱، إعلام الوریٰ للطبرسی۳۰۳، تاریخ یعقوبی ۲؍۲۱۲
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اس استدلال کے منکرین کے خیالات کا تجزیہ


شیعہ برادران میں سے بعض حضرات اس حقیقت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سیدنا علی المرتضیٰ اور ان کے صاحبزادوں نے اپنی اولاد کے نام، خلفاے ثلاثہ کے نام پر نہیں رکھے۔ لیکن ان حضرات کا یہ انکار ان کے علم الأنساب والأسماء سے ناواقفیت کاثبوت ہے اور اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ انہیں تحقیقی کتابوں کے مطالعہ کا وقت نہیں ملا اور پھر ان حضرات کی تعداد بہت تھوڑی ہے اور کبار علماے شیعہ نے ان کا ردّ بھی کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اہل بیت کرام کے یہ مبارک نام شیعہ کی معتمد اور معتبر کتابوں میں موجود ہیں، حتیٰ کہ روح فرسا حادثہ کربلا کی روایات میں بھی ہیں اور اس آزمائش میں حضرت عمر ؒبن علی اور حضرت عمر ؒبن حسن رضی اللہ عنہم اجمعین سبط ِرسول کی جواں مردی ثابت شدہ حقیقت ہے، کیونکہ یہ دونوں شہزادے بھی اپنے دوسرے بھائیوں ابوبکر بن علی بن ابی طالب اور ابوبکر بن حسن بن علی وغیرہم کے ہمراہ حضرت حسین کے سامنے بہادری سے شہید ہوئے تھے۔

اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا،کیونکہ اس کے دلائل آفتاب نیم روز کی طرح آشکارا ہیں۔ البتہ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حسینیات پر مشتمل کتابوں اور مرثیوں میں ان ناموں کا تذکرہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی ماتم کے دنوں میں ان کا تذکرہ ہوتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا عدمِ ذکر ان کے عدم وجود پر دلالت نہیں کرتا اور پھر اگر حسینیات کے مؤلفین اور مرثیہ نگار ان ناموں کا تذکرہ کردیں تو انکے افسانوں سے ہوا نکل جائے گی اور لوگ پوچھنا شروع کردیں گے کہ تمہارے بقول اگر خلفاے ثلاثہ ظالم اور غاصب تھے تو اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین نے ان کے ناموں کو زندہ رکھنے کی برکت کیوں حاصل کی۔

بعض شیعہ مجتہدین جب اس حقیقت کے سامنے لاجواب ہوجاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کبار صحابہ کے ناموں پر ان کے نام رکھنے کا مقصد تقیہ کے طور پر انہیں سب و شتم کرنا ہے۔یہ کیسا عجیب و غریب اور بیک وقت ہنسانے اور رُلا دینے والا جواب ہے کہ انہیں رنج اور دکھ تو خلفاے ثلاثہ سے ہو اور وہ اس کی سزا اپنی اولاد کو دیتے ہوں اور ان کے ناموں پر سب و شتم کرکے اُنہیں خون کے گھونٹ پلاتے ہوں۔

المختصر ہم اہل السنہ تو اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے ایمانی اور نسبی بھائیوں کو دھوکہ دیتے ہوں اور آپ کو تقیہ کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیا آپ شجاع اور دلیر نہ تھے؟ ہم اس بات پر یقین کرنے کے لئے قطعاً تیار نہیں کہ آپ بنوتیم یا بنوعدی یا بنواُمیہ کے خوف کی وجہ سے تقیہ کرتے ہوں اور ا ن کی نفرت کی سزا اپنی اولاد کو دیتے ہوں۔

ہم ان مکذوبہ روایات کو بھی قطعاً تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں جو آپ کو ایسا بزدل ثابت کرتی ہیں کہ آپ اپنی عزت و تکریم کی پامالی پر چپ سادھ لیتے تھے۔ ہمارا مدعا یہ ہے کہ ائمہ اطہار کا اپنی اولاد کے نام، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت عائشہ صدیقہ ﷢وغیرہم صحابہ و صحابیات﷢ کے نام پر رکھنا، بلا وجہ اور بلا معنی نہیں ہے بلکہ یہ عمل ان سے اُخوت و محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور کوئی شیعہ عالم اس کاتسلی بخش جواب بھی نہیں دے سکتا اور نہ ہی اسے اہل السنہ کی شیعہ کتب میں دسیسہ کاری قرار دے سکتا ہے ،کیونکہ جن کتابوں سے اس حقیقت کے حوالے پیش کئے گئے ہیں، وہ اہل السنہ نے شائع نہیں کیں بلکہ صدیوں پہلے شیعہ ہی انہیں شائع کرچکے ہیں۔

لہٰذا ہمیں مان لینا چاہئے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور آپ کے صاحبزادوں جیسے ائمہ اطہار سچے دل سے خلفاے راشدین اور تما م اصحابِ رسول سے اُلفت و محبت رکھتے تھے اور ان سے خمس کے علاوہ خصوصی عطیات بھی قبول کرتے تھے اور ان کا یہ طرزِ عمل ، عقل اور نفسیاتی اور حقیقی طور پر اللہ کے اس فرمان کے مطابق ہے :

’’ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَھُمْ تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اﷲِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ‘‘ ( الفتح :۲۹)
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اﺛر سے ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اہل بیت عظام رضی اللہ عنہم اجمعین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی محبت پر تیسرا استدلال

آپس میں رشتہ داریاں

قارئین کرام!اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوسرے انسانوں کے ساتھ مصاہرت کے ذریعے تعلق مضبوط کرنے والا بنایا ہے اور اسے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمت ِبالغہ کی نشانی قرار دیا ہے۔ قرآنِ کریم میں اس کا ارشاد ہے :
’’ وَھُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَائِ بَشَرًا فَجَعَلَہُ نَسَبًا وَصِھْرًا وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا ‘‘ (الفرقان:۵۴)
'' اللہ وہ ذات ہے جس نے بشر کو پانی سے پیدا فرمایا اور اسے نسب اور صِھر سے رشتہ استوار کرنے) والا بنایا اور تیرا رب قدرت والا ہے۔''
مصاہرت کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ دوسروں سے ازدواجی رشتہ کرنا یعنی ان کا داماد یا بہنوئی بننا یا انہیں اپنا داماد اور بہنوئی بنانا۔ مصاہرت ایک شرعی تعلق ہے اور اللہ نے اسے نسب کے ہم پلہ قرار دیا ہے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ ابنُ اختِ القَوْم منھُم‘‘ ( صحیح بخاری:۶۷۶۲)
'' قوم کی بہن کا بیٹا انہی میں سے ہے۔''
عربوں کے ہاں مصاہرت کا بڑ ا مرتبہ و مقام تھا۔ وہ اس پر فخر کے قائل تھے۔ وہ لوگ اپنی بیٹیاں اور بہنیں اُن لوگوں سے نہیں بیاہتے تھے جنہیں وہ حسب و نسب کے اعتبار سے کمتر سمجھتے تھے، وہ کہا کرتے تھے :
وَھَـلْ یَنْـتِجُ الْحَظِيُّ إلَّا وَشِـیْجَة

وَیَغْـرِسُ إلَّا فِيْ مَنَابِتِـہِ النَّخْـلُ​
''شریف النسل ہی نجیب اولاد پیدا کرسکتا ہے اور کھجور سے اچھا پھل حاصل کرنے کے لئے اس کی موزوں جگہ پر ہی بویا جاتا ہے۔''​

وہ اپنی عورتوں پر غیرت کھاتے تھے اور ان کی طرف بری نگاہ سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نکال دیا کرتے تھے اور اس سے بڑی بڑی لڑائیاں اور جنگیں برپا ہوجاتی تھیں اور خون کی ندیاں بہہ پڑتی تھیں اور یہ بات عربوں تک ہی محدود نہ تھی بلکہ بہت سے عجمیوں میں بھی پائی جاتی ہے۔افغان قوم آج بھی عورتوں پر اتنی غیرت کھاتی ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ بعض عرب اسی غیرت اور خوف عار کی وجہ سے اپنی ننھی ننھی بچیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔

اسلام آیا تو اس نے اس طرح کی سنگ دلی کو حرام ٹھہرایا اور گھٹیا نظریات اور گندی عادات سے منع کردیا اور عمدہ اوصاف اور بلند اخلاق کو برقرار رکھا۔ جہاں تک عورتوں پر غیرت کھانے اور ان کی عزت و آبرو بچانے کا مسئلہ ہے تو اس کی خاطر مر جانے والے کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہید قرار دیا ہے، بلکہ آپ نے ایک مسلمان عورت کے چہرے کو ازراہِ شرارت ننگا کرنے اور اس سے فساد کا باعث بننے والے یہودیوں سے معاہدہ ختم کردیا تھا اور ان سے جنگ کی تھی۔غزوہ بنو قینقاع کے اسباب کی طرف اشارہ ہے- ( سیرۃ ابن ہشام:۳؍۴۸)
اسلام نے مصاہرت قائم کرنے کے سلسلے میں حسب و نسب اور حسن و جمال کو لغو قرار نہیں دیا بلکہ اسے برقرار رکھ کر اس میں دین اور تقویٰ کو شامل کردیا اور اسے اولیت دے دی ہے اور اس پر بہت سے احکام مرتب کئے ہیں۔

فقہائے اسلام نے اس میں کفاء ت برابری) پر خامہ فرسائی کی ہے کہ آیا عقد زواج یا اس کے لوازمات میں کفاء ت شرط ہے؟ اگر ہے تو کس اعتبار سے شرط ہے؟ اور کیا اس میں بیوی بننے والی عورت کا ہی حق ہے یا اس میں اس کے ورثا بھی شریک ہیں؟ اور اس میں گواہوں کی شرط ہے یا کہ نہیں؟ اگر شرط ہے تو وہ گواہ کیسے ہوں؟

ا لمختصر اسلام میں مصاہرت قائم کرنے کے لئے دور اندیشی سے کام لیا جاتا ہے۔ ایک مسلمان اپنے لئے کسی سے رشتہ طلب کرتا ہے، اگر اس میں کامیابی نہ ہو تو دوستوں سے معاونت طلب کی جاتی ہے اور عورت کے سرپرست آپس میں صلاح مشورہ کرتے ہیں۔ اگر عورت اور اس کے ورثا آمادہ ہوجاتے ہیں تو پھر حق مہر متعین ہوتا ہے اور وہ بسا اوقات پہلے بھی دے دیاجاتا ہے اور پھر آپس میں تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے اور بعد ازاں عقد نکاح کی محفل منعقد ہوتی ہے۔ اس میں گواہوں کا ہونا اور اس کی تشہیر کرنا ضروری ہوتا ہے اور اس رشتے کے ذریعے دور والے قریب ہوجاتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کی جائیدادوں کے وارث بن جاتے ہیں۔

اسلام سے قبل قبائل عرب رشتہ ناطہ کرتے وقت نسبی کفاء ت کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ اس معاملہ میں قریش پیش پیش تھے۔ وہ اپنے آپ کو سب سے برتر سمجھ کر دوسرے قبائل میں اپنی بیٹیاں بیاہنے کو اپنی توہین خیال کرتے تھے اور یہ چیز سب سے زیادہ بنوعبدمناف میں پائی جاتی تھی، یہ زیادہ تراپنی بیٹیوں کی شادیاں آپس میں ہی کرتے تھے، یعنی اُموی سردار اپنی بیٹیاں ہاشمی سرداروں سے بیاہتے اور ہاشمی سردار اپنی بیٹیاں اُموی سرداروں سے بیاہتے تھے کیونکہ یہ دونوں ایک ہی دادا عبد مناف کی اولاد تھے۔

چنانچہ سردار عبدالمطلب بن ہاشم نے اپنی لخت ِجگر اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی بیضا بنت عبدالمطلب ہاشمیہ قرشیہ کی شادی اپنے اُموی بھتیجے کریز بن حبیب بن عبدشمس سے کردی تھی اوران کی اس بیٹی کی لخت جگر اروٰی رضی اللہ عنہا کے بطن سے ہی حضرت عثمان بن عفان پیدا ہوئے۔

اور حرب بن امیہ ابو سفیا ن کے باپ نے اپنی بیٹی اُمّ جمیل ارویٰ بنت حرب کی شادی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابولہب بن عبدالمطلب بن ہاشم سے کردی تھی اور جناب عبد المطلب بن ہاشم نے اپنی لخت جگر اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی صفیہ کو حارث بن حرب اموی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے چچا سے بیاہ دیا تھا جب وہ فوت ہو گیا تو پھر ان کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عوام بن خویلد سے بیاہ دیا جن سے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ۔ اس طرح ابوسفیان اُموی کی صاحبزادی ہند بنت ابی سفیان، سیدنا حارث بن نوفل بن حارث بن عبدالمطلب کے نکاح میں تھی۔

یہاں ان کی آپس میں شادیوں کو مکمل طور پر شمار کرنا مقصود نہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کے درمیان عداوتیں اور نفرتیں ہرگز نہ تھیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ ان مصاہرتوں کے ذریعے اپنا رشتہ مضبوط نہ کرتے۔ جب اللہ نے اس قبیلے کے افراد کو دولت ایمان نصیب فرمائی تو یہ حسب و نسب کی برتری کے بت کو توڑ کر ایمانی بھائی بن گئے اور ایمان و تقویٰ کی بنیاد پر رشتے ناتے کرنے لگے۔ چنانچہ اہل بیت عظام رضی اللہ عنہم اجمعین نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ مودّت و اُخوت کو مستحکم کرنے کے لئے ان کے کمالات تسلیم کرنے اور ان کے ناموں پر اپنی اولاد کے نام رکھنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان سے رشتہ مصاہرت بھی کیا اور بڑے فخر سے ان کے داماد بنے اور اُنہیں اپنا داماد بنایا۔ چنانچہ جب حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان اُموی رضی اللہ عنہ کے داماد بنے تو اس نے از راہِ فخریہ جملہ کہا :

’’ ذلک الفحل لا یقدع أنفه‘‘
’’ وہ اعلیٰ نسل کا عظیم الشان فرد ہے، اسے کسی رشتے سے جواب نہیں دیا جاسکتا ۔‘‘ ( المنتقی من منہاج الاعتدال بتحقیق محب الدین الخطیب،ص۲۶۶)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اس طویل تمہید کے بعد ہم اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔

1. اہل بیت عظام کی صدیقی گھرانے سے مصاہرت
اس کے ثبوت کے لئے حضرت الامام جعفر بن محمد ہاشمی قریشی کا یہ قول ہی کافی ہے کہ ولدني أبوبکر مرتین '' مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہنے دو مرتبہ جنا ہے۔''
آپ جانتے ہیں کہ حضرت امام جعفر الصادق کی والدہ کون ہے؟
وہ ہے اُمّ فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کی والدہ کا نام تھا۔ أسماء بنت عبد الرحمٰن بن أبي بکر الصدیق

دانش مند برادران! ذرا سوچئے اور غور فرمائیے کہ امام جعفر ؒالصادق نے محمد بن ابوبکر کا نام نہیں لیا بلکہ ابوبکر صدیق کا نام لیا ہے ،کیونکہ انہیں کے نام پر ہی فخر کیا جاسکتا ہے جو بڑے رتبہ کے انسان ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بعض مفتون لوگ حب ِاہل بیت کا نقاب اوڑھ کر حضرت ابوبکر صدیق کی بدگوئی کرتے ہوں اور آپ نے ان کے منہ بند کرنے کی خاطر اس فضیلت کو بیان فرمایا ہو اور اشارہ کیا ہو کہ ان کی بدگوئی کرنے والا درحقیقت ہماری بدگوئی کرتا ہے۔

2. سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اُموی گھرانے سے مصاہرت
اس کے ثبوت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ حضرت امیرالمومنین رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کی بھانجی اُمامہ بنت العاص بن ربیع اُمویہ سے نکاح کیا تھا۔

3. سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی ہاشمی گھرانے سے مصاہرت
اس مصاہرت کے ثبوت کے لئے بہتر ہے کہ اہل السنہ کی کتب کی بجائے شیعہ کی کتب سے حوالے پیش کردیے جائیں اور ان کتابوں کے حوالے دیے جائیں جو معتبر شیعہ علما کی لکھی ہوئی ہیں اور ان کے ہاں معتبربھی ہیں۔
چنانچہ ابن طقطقی جن کا اصل نام صفی الدین محمد بن تاج الدین ہے اور یہ نامور شیعی مؤرخ اور نساب ہے،اپنی اُس کتاب میں لکھتا ہے جو اس نے عباسی ہاشمی سادات کرام کے قاتل ہلاکو خاں کے مشیر نصیر طوسی کے صاحبزادے اصیل الدین حسن کی نذر کی تھی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
ذکر بنات أمیرالمومنین علي رضی اللہ عنہ

’’ واُمّ کلثوم أمھا فاطمۃ بنت رسول اﷲ تزوجھا عمر بن الخطاب فولدت لہ زیدا ثم خلف علیھا عبداﷲ بن جعفر( ص:۵۸)​
''اور اُم کلثوم، ان کی ماں حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھی۔ ان سے عمر بن خطاب نے شادی کی تھی۔ چنانچہ اس نے ان کے بیٹے زید کو جنم دیا، پھر ان کی وفات کے بعد حضرت عبداللہ بن جعفر نے ان سے شادی کی۔''

اس سلسلے میں سید مہدی رجائی کا کلام بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اُنہوں نے اس کے متعلق بہت سے حوالے ذکر کئے ہیں۔ ان میں سے ایک تحقیق حضرت عمر بن علی بن حسین ہاشمی قریشی کی طرف نسبت کی وجہ سے عمری کہلانے والے علامہ ابوالحسن عمری کی ہے، وہ اپنی کتاب المجدي میں لکھتے ہیں :

’’ وَالْمُعَوَّلُ عَلَیْہِ مِنْ ھَذِہِ الرِّوَایَاتِ مَا رَأَیْنَاہٗ آنِفًا مِنْ أَنَّ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ زَوَّجَھَا عُمَرَ بِرِضیٰ أَبِیْھَا عَلَیْہِ السَّلَامِ وَإِذْنِہَا وَأَوْلَدَھَا عُمَرُ زَیْدًا ... إلی آخرہ)
''ان روایات میں سے معتمد بات جو ہم نے ابھی دیکھی ہے، وہ یہ کہ حضرت عباس بن عبدالمطلب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رضامندی اور اجازت سے ان کی شادی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کردی اور اس نے ان کے بیٹے زید کو جنم دیا۔''
محقق مہدی رجائی نے بہت سے دیگر اقوال بھی بیان کئے ہیں،
ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عورت جس سے عمرفاروق نے شادی کی تھی وہ نعوذ باللہ شیطانہ تھی یا اس نے ان سے خلوت نہ کی تھی یا اس نے بزورِ طاقت شادی کرلی تھی۔ الیٰ آخرہ)
ملا باقر مجلسی کہتے ہیں کہ
''اس طرح مفید کا اصل واقعہ سے انکار بھی منقول ہے لیکن وہ اس چیز کے بیان کی غرض سے ہے کہ یہ واقعہ ان کے طرقِ اسناد سے ثابت نہیں، ورنہ جن روایات میں اس کا ذکر ہے اور عنقریب ان کی اسناد بھی بیان ہونے والی ہیں، ان سے ماننا پڑے گا کہ جب حضرت عمر فوت شہید ہوئے تو حضرت علی علیہ السلام اپنی لخت ِجگر اُم کلثوم کے پاس آئے اور انہیں لے کر اپنے گھر چلے گئے۔''
اس کے علاوہ دیگر روایات بھی ہیں جو میں نے بحار الأنوار میں بیان کی ہیں لہٰذا اس واقعہ کا انکار عجیب بات ہے۔ اس کا اصل جواب یہ ہے کہ یہ نکا ح تقیہ اور مجبوری کے تحت ہوا تھا۔الخ '' (مراۃ العقول :ج۲؍ص۴۵)
میں کہتا ہوں کہ الکافي کے مصنف نے اپنی اس کتاب میں بہت سی احادیث بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک حدیث درج ذیل باب میں موجود ہے :

بَابٌالْمُتَوَفّٰی عَنْھَا زَوْجُھَا الْمَدْخُوْلُ بِھَا أَیْنَ تَعْتَدُّ وَمَا یَجِبُ عَلَیْھَا؟ حُمَیْدُ بْنُ زِیَادٍ عَنِ ابْنِ سَمَاعَة عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ سِنَانٍ وَمُعَاوِیَة بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِيْ عَبْدِ اﷲِ عَلَیْہِ السَّلَامِ،قَالَ: سَألْتُہٗ عَنِ الْمَرْأَ ۃِ الْمُتَوَفّٰی عَنْھَا زَوْجُھَا أَتَعْتَدُّ فِيْ بَیْتِھَا أَوْ حَیْثُ شَائَ تْ؟ قَالَ بَلْ حَیْثُ شَائَ تْ إنَّ عَلِیًّا عَلَیْہِ السَّلامُ لَمَّا تُوُفِّيَ عُمَرُ أَتٰی اُمَّ کَلْثُوْمٍ فَانْطَلَقَ بِھَا إلـٰی بَیْتِہِ - (الفروع من الکافی: ج۶؍ ص۱۵۵)
''باب اس مسئلہ کے متعلق کہ جس مدخول بھا عورت کا خاوند فوت ہوگیا ہو، وہ کہاں عدت گزارے اور اس پر کیاکچھ واجب ہے؟
حمید بن زیاد، ابن سماعہ سے بیان کرتے ہیں اور وہ محمد بن زیاد سے اور وہ عبداللہ بن سنان اور معاویہ بن عمار سے اور وہ دونوں ابو عبداللہ علیہ السلام سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا: جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے وہ عدت کے ایام اپنے گھر میں گزارے یا جہاں کہیں وہ چاہے؟ آپ ؑ نے فرمایا: بلکہ جہاں وہ چاہے، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہم اجمعین فوت ہوئے تو حضرت علی علیہ السلام، اُمّ کلثوم کے پاس آئے اور اسے لے کر اپنے گھر چلے گئے۔''
شیخ صالح بن عبداللہ درویش سیشن جج قطیف سیشن کورٹ سعودی عرب فرماتے ہیں کہ میں نے بعض معاصر شیعہ علما سے اس شادی کے متعلق خط و کتابت کی تو اس کا سب سے شاندار جواب، محکمہ اوقاف و مواریث کے قاضی شیخ عبدالحمید الخطی نے لکھا، ان کے الفاظ یہ تھے :
وَأمَّا تَزْوِیْجُ الِامَامِ عَلِـيّ فَارِسِ الِاسْلَامِ اِبْنَتَہُ اُمَّ کَلْثُوْمٍ فَلَا نُشَازُ فِیْه وَلَہٗ بِرَسُوْلِ اﷲِ ﷺ أُسْوَۃٌ حَسَنَة،وَرَسُوْلُ اﷲِﷺ أُسْوَۃٌ حَسَنَة لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَقَدْ تَزَوَّجَ رَسُوْلُ اﷲِﷺ اُمَّ حَبِیْبَة بِنْتَ أَبِيْ سُفْیَانَ،وَمَا کَانَ أَبُوْ سُفْیَانَ بِمَنْزِلَة عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَمَا یُشَارُ حَوْلَ الزَّوَاجِ مِنْ غُبَارٍ فَلَا مُبَرِّرَ لَہٗ عَلَی الاِطْلَاقِ-
''باقی رہا شہسوار اسلام حضرت امام علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم اجمعین کا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہم اجمعین سے اپنی لخت کی شادی کامعاملہ تو ہم اس سے نفرت نہیں کرتے اور آپ کے سامنے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ حسنہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کے لئے اُسوئہ حسنہ ہیں اور آپ نے اُم حبیبہ بنت ابی سفیان سے نکاح کیا تھا اور ابوسفیان، حضرت عمر بن خطاب کے مرتبہ و مقام کا نہ تھا۔ اس نکاح کے سلسلے میں جو غبار اُڑایا جاتا ہے اس کا مطلق جواز نہیں ہے۔'' -(دیکھئے : رحمآء بینہم،مطبوعہ دار ابن جوزی)
لہٰذا بعض شیعہ صاحبان کا یہ کہنا کہ حضرت عمر بن خطاب نے یہ شادی زبردستی کی تھی یا یہ کہنا کہ جب ہم بستری کا وقت ہوتا تو ان کی جگہ ایک شیطانہ پیش ہوجاتی تھی یا یہ کہنا کہ وہ ان سے ہم بستری نہ کرسکے تھے۔ یہ بیک وقت ہنسا اور رُلا دینے والے اقوال ہیں اور اس قدر لامتناہی سوالات کو جنم دینے والے ہیں کہ اُن کا جواب نہیں بن پڑتا۔ مثلاً یہ کہ اگر انہوں نے ڈر کر یا مرعوب ہوکر اپنی صاحبزادی کا رشتہ دیا تھا تو
1. شیر خدا کی شجاعت کہاں چلی گئی تھی؟
2. اللہ کے دین اور اپنی آبرو کے معاملے میں ان کی غیرت کہاں چلی گئی؟
3. کیا انہیں اپنی اس بیٹی سے محبت نہ تھی؟
4. اگر تھی اور ضرور تھی تو پھر انہوں نے اسے نعوذ باللہ 'ظالم 'کے سپرد کیوں کیا؟
5. جس خاندان کے شیردل جوانانِ رعنا میدانِ کربلا میں کوفی دغابازوں پر شیروں کی طرح حملہ آور ہوکر شہادت قبول کرسکتے ہیں، کیا وہ اتنے بزدل ہوگئے تھے کہ حضرت عمر سے اپنی آبرو نہ بچا سکے۔

جاری ہے
 
Top