• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصلی اہل حدیث کون

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اہل تشیع کے دائرہ اسلام سے خارج ہونے پر کیا آپ کا اتفاق نہیں ہے اگر نہیں ہے تو کیا وہ لوگ جو اسلام کی باتیں کرتے ہیں اور خفیہ مجلسوں میں اصحاب رسولﷺ پر تبرہ کرتے ہیں ان کی بات پر یقین کیا جاسکتا ہے
محترم بھائی اگرآپ شیعہ کی غیر معین تکفیر کی بات کر رہے ہیں تو میرے علم کے مطابق شاید انکی تکفیر پر کچھ عرصہ پہلے اللجنۃ الدائمۃ کا فتوی آیا تھا کوئی بھائی تصحیح کر دے مگر پھر بھی یہاں ہر کسی کو پابند نہیں کیا جا سکتا

مسخرہ عامر لیاقت حسین کی شخصیت سے کون واقف نہیں کچھ دن پہلے کیپیٹل ٹاک میں اس نے ٹی ٹی پی کو خوارج کہا اس لعنتی کی اپنے بارے میں اور یہاں موجود افراد کی اس شخص کے بارے میں کیا رائے کیا ایسے لوگ مسلمان ہیں؟ اگر ہیں تو ثابت کیسے ہوگا اور اگر نہیں ہیں تو یہ تیر جو چلا رہے ہیں کس طرف گررہے ہیں؟
معین یا غیر معین تکفیر میں میں کچھ اصول غالبا دہشت گرد خارجیوں کی علامات میں بیان کی ہیں کہ جو متفق علیہ کافر ہیں ان پر تو آپ زبردستی کر سکتے ہیں مگر دوسرے پر زبردستی نہ کرنے کے لئے ہی تو یہ شروع کیا ہے ابھی کہیں جا رہا ہوں بعد میں تفصیل لکھ دوں گا معذرت
ہاں جہاں تک تیروں کو سکیل بنانے کی بات ہے تو وہ کچھ حدود و شرائط کے کی جائے تو ٹھیک ہو سکتی ہو مطلقا نہیں ہو سکتی- کیونکہ ذرا انصاف سے سوچیں پھر سلالہ والوں پر تو تیروں کی بجائے میزائل گرے تھے وہ میزائل کن کے تھے کیا امریکہ باطل ہے کہ نہیں
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
چلیں آپ اپنا کام نپٹا آئیں اس کے بعد دو لفظوں کی تشریح کی ضرورت پڑے گی تکفیر معین اور غیرتکفیر معین تاکہ بات جو جتنا آسان بنایا جائے تو اتنا ہی سمجھنے میں آسانی رہتی ہے ہم جیسے طالبعلموں کے لئے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
چلیں آپ اپنا کام نپٹا آئیں اس کے بعد دو لفظوں کی تشریح کی ضرورت پڑے گی تکفیر معین اور غیرتکفیر معین تاکہ بات جو جتنا آسان بنایا جائے تو اتنا ہی سمجھنے میں آسانی رہتی ہے ہم جیسے طالبعلموں کے لئے
محترم بھائی آپکی بات سو فیصد درست ہے کہ بات کو جتنا واضح کر دیا جائے باطل اتنا ہی نقصان اٹھاتا ہے چنانچہ اہل سنت کے ایک طرف خارجی تھے تو دوسری طرف مرجیئہ دونوں کا فائدہ اسی میں ہے کہ کچھ بنیادی اصلاحات گڈمڈ رہیں تاکہ ہم اپنی راہ نکالتے رہیں پس جو معتدل اہل سنت ہیں ان کا فائدہ اور اسلام کا فائدہ اسی میں ہوتا ہے کہ ان اصطلاحات کو کھول کر بیان کر دیا جائے اس سے اہل سنت کے آپس کے اختلاف کو آسانی سے ختم کیا جا سکتا ہے
پس اسکے لئے ایک علیحدہ تھریڈ شروع کرنے کا پروگرام ہے آپ سب بھائیوں کو ان شاء اللہ اطلاع دوں گا
میرے متعلق کوئی بھی بات مجھے ٹیگ لازمی کیا کریں میں نے یہ کافی دنوں بعد دیکھی ہیں
ضدی
 

naveed

رکن
شمولیت
مارچ 08، 2014
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
44
اسلام علیکم ب
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
63
ہاں جہاں تک تیروں کو سکیل بنانے کی بات ہے تو وہ کچھ حدود و شرائط کے کی جائے تو ٹھیک ہو سکتی ہو مطلقا نہیں ہو سکتی- کیونکہ ذرا انصاف سے سوچیں پھر سلالہ والوں پر تو تیروں کی بجائے میزائل گرے تھے وہ میزائل کن کے تھے کیا امریکہ باطل ہے کہ نہیں
محترم عبدہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں تیر بطور مثال استعمال ہوا ہے ۔ اس لئے میزائل اور تیر کا تقابل درست معلوم نہیں ہوتا۔
باقی آپ کی یہ بات درست ہے کہ تیروں کو سکیل بناتے وقت شرائط کا لحاظ رکھا جائے گا۔
مثلاََ سلالہ صرف ایک واقعہ ہے اس کو مجموعی صورتحال سے علیحٰدہ کر کے نہیں دیکھا جائے گا۔ مجموعی طور پر صورت حال کچھ یوں ہے۔

۱۔ہر خاص و عام کو معلوم ہے کہ سلالہ والے باطل کے فرنٹ لائن اتحادی تھے۔
۲۔ایک تو یہ کہ امریکیوں نے اس حملے کو غلطی سے ہونے والے حملہ قرار دیا۔
۳۔ پھر حملے کے بعد پہلے افسوس کا اظہار کیا اور پھر معافی مانگی۔
۴۔اور پاکستان کی فرنٹ لائن اتحادی والی حیثیت بھی برقرار رکھی۔
اب اگر کوئی سلالہ واقعے کی بنیاد پر کہے کہ باطل کے تیروں کا رخ پاکستانی فوج کی جانب ہے تو پھر اس کے جاہل ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
63
اصلی اہل حدیث یا سلفی تو وہی کہلائے گا:
۱۔ جو قرآن وسنت سے دلائل لے۔ اور اس ضمن میں من پسند تشریحات کے بجائے سلف صالحین کی تشریحات پر اعتماد کرے۔
۲۔ جو بات قرآن و سنت سے نہ ملے اس پر سلف صالحین کے راستے پر رہے اور اس سے ہٹ کر نئی ڈگر پر نہ ہو۔
۳۔ بلا دلیل کسی قول کی تقلید نہ کرے۔
۴۔بلا دلیل کسی قول کو رد نہ کرے۔
۵۔اگر دوسرے مسلک سے اختلاف واقع ہو اور طرفین کا پاس قرآن و حدیث سے دلائل ہوں۔ (تو اپنے دلائل کو قوی سمجھتے ہوئے دوسرے کا باطل نہ قرار دے۔
( جیسا کہ عموماََ ہمارے یہاں فاتح خلف الام، آمین بالجہر رفع بالیدین وغیرہ کے معاملے پر کیا جاتا ہے۔ )
۶۔ کسی قول کو محض اس لیے رد نہ کرے کہ یہ دوسرے مسلک کے شیخ کا ہے یا اس سےدوسرے مسلک کی تائید ہوتی ہے۔
۷۔ کسی قول محض اس لیے تسلیم نہ کرے کہ یہ میرے مسلک کی شیخ کا ہے۔

درج بالا باتوں میں موخر الذکر کی ایک مثال اسی تھریڈ میں موجود ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
کیا درج ذیل سوال کے جواب میں مذکورہ شیخ نے کہیں قرآن و حدیث سے دلیل دی ہے ؟ یا ان کا موقف قرآن و حدیث سے یا سلف صالحین کے موقف سے ہم آہنگ ہے؟ یہ بات جاننے کی کسی نے شاید کوئی کوشش نہیں کی۔ دوسرے مسالک کی طرح بس یہ جاننا کافی سمجھا کہ مذکورہ شیخ سلفی ہیں۔ لہٰذا بلا چوں چراں کے بات مان لی ۔ کوئی دلیل بھی نہ طلب کی نہ ہی یہ دیکھا کہ:
کیا مذکورہ شیخ کا موقف قرآن و سنت سے ہم آہنگ ہے کہ نہیں۔
کیا یہ موقف قرآن و سنت کے خلاف تو نہیں؟
نوٹ:
بہت ممکن ہے کہ میں شیخ موصوف کی مراد مکمل طور پر نہ سمجھا ہوں اس لیئے میں ان کی بات کی کلی طور پر نفی نہیں کرتا۔ یہاں صرف نقطہ نمبر ۷ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ بلا دلیلِ قرآن و سنت ایک شیخ کی بات تسلیم کی گئی ہے جبکہ دوسروں کو اسی بات پر مطعون کیا جاتا ہے۔
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ہمارے ساتھ شيعہ ملازمين بھى ہيں كيا ہم ان كے سلام كا جواب ديں، اور اسى طرح ہم انہيں مسجد ميں كاغذ پر نماز ادا كرتے ديكھتے ہيں تو كيا انہيں مسجد سے نكال ديں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" آپ ان كے ساتھ وہى معاملہ كريں جو وہ آپ كے ساتھ كرتے ہيں، جب وہ سلام كريں تو آپ سلام كا جواب ديں، اور انہيں مسجد نكالنا اچھا نہيں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور لوگوں ميں سختى والا معاملہ كرنا صحيح نہيں.كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى ہر معاملہ ميں نرمى و شفقت پسند فرماتا ہے،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ إِنْ شَاءَ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ. [التوبة:28]
مومنو! مشرک تو نجس ہیں تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں اور اگر تم کو مفلسی کا خوف ہو تو خدا چاہے گا تو تم کو اپنے فضل سے غنی کردے گا۔ بیشک خدا سب کچھ جانتا (اور) حکمت والا ہے۔
تفیسر احسن البیان میں اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ:۔
ممانعت بعض کے نزدیک صرف مسجد حرام کے لئے ہے۔ ورنہ حسب ضرورت مشرکین دیگر مساجد میں داخل ہو سکتے ہیں جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ بن اثال کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھے رکھا تھا۔۔
تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے :۔
خلیفتہ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے فرمان جاری کر دیا تھا کہ یہود و نصرانی کو مسلمانوں کی مسجدوں میں نہ آنے دو ان کا یہ امتناعی حکم اسی آیت کے تحت تھا۔

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ ۭاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ښ وَفِي النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ التوبۃ17؀

مشرکوں کو زیبا نہیں کہ خدا کی مسجدوں کو آباد کریں (جبکہ) وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہوں ۔ ان لوگوں کے سب اعمال بیکار ہیں اور یہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔

جہاں تک سلام کا تعلق ہے تو اس بارے میں فرمانِ رسول ہے:
صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یہود و نصاریٰ سے سلام کی ابتداء نہ کرو اور جب ان سے کوئی راستے میں مل جائے تو اسے تنگی سے مجبور کرو ۔ ( صحیح مسلم بحوالہ تفسیر ابن کثیر)

یہاں یہ بات ذہن نشین رہے یہود و نصاریٰ کی نسبت دیگر کفار کا کفر زیادہ سخت ہے۔ جہاں تک بات شیعہ روافض کی ہے (بالخصوص آج کے اثنا عشری) تو ان کے کفر میں اہل علم کو کوئی شبہ نہیں۔


شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:۔۔۔۔۔۔ليكن وہ اور زيادہ كرينگے اور پھر تمہارى آپس ميں عداوت و دشمنى اور زيادہ ہو گى، اس ليے ميرى رائے تو يہ ہے كہ پہلے ان كو نصيحت كرنا ضرورى ہے،
قَدۡ کَانَتۡ لَکُمۡ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗ ۚ اِذۡ قَالُوۡا لِقَوۡمِہِمۡ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنۡکُمۡ وَ مِمَّا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ۫ کَفَرۡنَا بِکُمۡ وَ بَدَا بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمُ الۡعَدَاوَۃُ وَ الۡبَغۡضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَحۡدَہٗۤ
الممتحنہ ۔ ۴
مسلمانو تمہیں ابراہیم اور انکے رفقاء کی نیک سیرت کو اپنانا ضروری ہے۔ جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور ان بتوں سے جنکو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو بے تعلق ہیں ہم تمہارے معبودوں کے کبھی قائل نہیں ہو سکتے اور جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کھلم کھلا عداوت اور دشمنی رہے گی۔

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ليكن انہيں مسجد سے نكالنے كا آپ كو حق حاصل نہيں "
یہاں شیخ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ مسجد سے نکالنے کا حق کس کو حاصل ہے ؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
۱۔ جو قرآن وسنت سے دلائل لے۔ اور اس ضمن میں من پسند تشریحات کے بجائے سلف صالحین کی تشریحات پر اعتماد کرے۔
۲۔ جو بات قرآن و سنت سے نہ ملے اس پر سلف صالحین کے راستے پر رہے اور اس سے ہٹ کر نئی ڈگر پر نہ ہو۔
۳۔ بلا دلیل کسی قول کی تقلید نہ کرے۔
۴۔بلا دلیل کسی قول کو رد نہ کرے۔
۵۔اگر دوسرے مسلک سے اختلاف واقع ہو اور طرفین کا پاس قرآن و حدیث سے دلائل ہوں۔ (تو اپنے دلائل کو قوی سمجھتے ہوئے دوسرے کا باطل نہ قرار دے۔
( جیسا کہ عموماََ ہمارے یہاں فاتح خلف الام، آمین بالجہر رفع بالیدین وغیرہ کے معاملے پر کیا جاتا ہے۔ )
۶۔ کسی قول کو محض اس لیے رد نہ کرے کہ یہ دوسرے مسلک کے شیخ کا ہے یا اس سےدوسرے مسلک کی تائید ہوتی ہے۔
۷۔ کسی قول محض اس لیے تسلیم نہ کرے کہ یہ میرے مسلک کی شیخ کا ہے۔
وجا دلھم بالتی ھی احسن
 
Top