اصلی اہل حدیث یا سلفی تو وہی کہلائے گا:
۱۔ جو قرآن وسنت سے دلائل لے۔ اور اس ضمن میں من پسند تشریحات کے بجائے سلف صالحین کی تشریحات پر اعتماد کرے۔
۲۔ جو بات قرآن و سنت سے نہ ملے اس پر سلف صالحین کے راستے پر رہے اور اس سے ہٹ کر نئی ڈگر پر نہ ہو۔
۳۔ بلا دلیل کسی قول کی تقلید نہ کرے۔
۴۔بلا دلیل کسی قول کو رد نہ کرے۔
۵۔اگر دوسرے مسلک سے اختلاف واقع ہو اور طرفین کا پاس قرآن و حدیث سے دلائل ہوں۔ (تو اپنے دلائل کو قوی سمجھتے ہوئے دوسرے کا باطل نہ قرار دے۔
( جیسا کہ عموماََ ہمارے یہاں فاتح خلف الام، آمین بالجہر رفع بالیدین وغیرہ کے معاملے پر کیا جاتا ہے۔ )
۶۔ کسی قول کو محض اس لیے رد نہ کرے کہ یہ دوسرے مسلک کے شیخ کا ہے یا اس سےدوسرے مسلک کی تائید ہوتی ہے۔
۷۔ کسی قول محض اس لیے تسلیم نہ کرے کہ یہ میرے مسلک کی شیخ کا ہے۔
درج بالا باتوں میں موخر الذکر کی ایک مثال اسی تھریڈ میں موجود ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
کیا درج ذیل سوال کے جواب میں مذکورہ شیخ نے کہیں قرآن و حدیث سے دلیل دی ہے ؟ یا ان کا موقف قرآن و حدیث سے یا سلف صالحین کے موقف سے ہم آہنگ ہے؟ یہ بات جاننے کی کسی نے شاید کوئی کوشش نہیں کی۔ دوسرے مسالک کی طرح بس یہ جاننا کافی سمجھا کہ مذکورہ شیخ سلفی ہیں۔ لہٰذا بلا چوں چراں کے بات مان لی ۔ کوئی دلیل بھی نہ طلب کی نہ ہی یہ دیکھا کہ:
کیا مذکورہ شیخ کا موقف قرآن و سنت سے ہم آہنگ ہے کہ نہیں۔
کیا یہ موقف قرآن و سنت کے خلاف تو نہیں؟
نوٹ:
بہت ممکن ہے کہ میں شیخ موصوف کی مراد مکمل طور پر نہ سمجھا ہوں اس لیئے میں ان کی بات کی کلی طور پر نفی نہیں کرتا۔ یہاں صرف نقطہ نمبر ۷ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ بلا دلیلِ قرآن و سنت ایک شیخ کی بات تسلیم کی گئی ہے جبکہ دوسروں کو اسی بات پر مطعون کیا جاتا ہے۔
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ہمارے ساتھ شيعہ ملازمين بھى ہيں كيا ہم ان كے سلام كا جواب ديں، اور اسى طرح ہم انہيں مسجد ميں كاغذ پر نماز ادا كرتے ديكھتے ہيں تو كيا انہيں مسجد سے نكال ديں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" آپ ان كے ساتھ وہى معاملہ كريں جو وہ آپ كے ساتھ كرتے ہيں، جب وہ سلام كريں تو آپ سلام كا جواب ديں، اور انہيں مسجد نكالنا اچھا نہيں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور لوگوں ميں سختى والا معاملہ كرنا صحيح نہيں.كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى ہر معاملہ ميں نرمى و شفقت پسند فرماتا ہے،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ إِنْ شَاءَ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ. [التوبة:28]
مومنو! مشرک تو نجس ہیں تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں اور اگر تم کو مفلسی کا خوف ہو تو خدا چاہے گا تو تم کو اپنے فضل سے غنی کردے گا۔ بیشک خدا سب کچھ جانتا (اور) حکمت والا ہے۔
تفیسر احسن البیان میں اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ:۔
ممانعت بعض کے نزدیک صرف مسجد حرام کے لئے ہے۔ ورنہ حسب ضرورت مشرکین دیگر مساجد میں داخل ہو سکتے ہیں جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ بن اثال کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھے رکھا تھا۔۔
تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے :۔
خلیفتہ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے فرمان جاری کر دیا تھا کہ یہود و نصرانی کو مسلمانوں کی مسجدوں میں نہ آنے دو ان کا یہ امتناعی حکم اسی آیت کے تحت تھا۔
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ ۭاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ښ وَفِي النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ التوبۃ17
مشرکوں کو زیبا نہیں کہ خدا کی مسجدوں کو آباد کریں (جبکہ) وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہوں ۔ ان لوگوں کے سب اعمال بیکار ہیں اور یہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔
جہاں تک سلام کا تعلق ہے تو اس بارے میں فرمانِ رسول ہے:
صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یہود و نصاریٰ سے سلام کی ابتداء نہ کرو اور جب ان سے کوئی راستے میں مل جائے تو اسے تنگی سے مجبور کرو ۔ ( صحیح مسلم بحوالہ تفسیر ابن کثیر)
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے یہود و نصاریٰ کی نسبت دیگر کفار کا کفر زیادہ سخت ہے۔ جہاں تک بات شیعہ روافض کی ہے (بالخصوص آج کے اثنا عشری) تو ان کے کفر میں اہل علم کو کوئی شبہ نہیں۔
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:۔۔۔۔۔۔ليكن وہ اور زيادہ كرينگے اور پھر تمہارى آپس ميں عداوت و دشمنى اور زيادہ ہو گى، اس ليے ميرى رائے تو يہ ہے كہ پہلے ان كو نصيحت كرنا ضرورى ہے،
قَدۡ کَانَتۡ لَکُمۡ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗ ۚ اِذۡ قَالُوۡا لِقَوۡمِہِمۡ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنۡکُمۡ وَ مِمَّا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ۫ کَفَرۡنَا بِکُمۡ وَ بَدَا بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمُ الۡعَدَاوَۃُ وَ الۡبَغۡضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَحۡدَہٗۤ
الممتحنہ ۔ ۴
مسلمانو تمہیں ابراہیم اور انکے رفقاء کی نیک سیرت کو اپنانا ضروری ہے۔ جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور ان بتوں سے جنکو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو بے تعلق ہیں ہم تمہارے معبودوں کے کبھی قائل نہیں ہو سکتے اور جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کھلم کھلا عداوت اور دشمنی رہے گی۔
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ليكن انہيں مسجد سے نكالنے كا آپ كو حق حاصل نہيں "
یہاں شیخ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ مسجد سے نکالنے کا حق کس کو حاصل ہے ؟