• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصلی اہل سنت (مکمل رسالہ)

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
حنفی۔
آپ تقلید کسی کی بھی نہیں کرتے ؟
محمدی۔
جب تقلید ہے ہی جانوروں کے لئے ، انسانوں کا یہ فعل ہی نہیں تو ہم تقلید کسی کی بھی کیوں کریں ؟
حنفی۔
سنا ہے تقلید کے بغیر تو گزارہ ہی نہیں، تقلید تو ہر کوئی کرتا ہے۔ تقلید تو آپ بھی کرتے ہیں ماں باپ کی بھی اور استاد کی بھی۔
محمدی۔
اگر اسی کا نام تقلید ہے اور وہ ہم بھی کرتے ہیں تو آپ ہمیں غیر مقلد کیوں کہتے ہیں ؟ اگر ماں باپ یا استاد کی بات ماننا بھی تقلید ہے تو آپ اپنے امام کو مقلد کیوں نہیں کہتے ۔ آپ کیوں کہتے ہیں کہ مجتہد مقلد نہیں ہوتا۔ کیا اس کے ماں باپ نہیں ہوتے یا وہ اپنے ماں باپ کا فرمانبردار نہیں ہوتا۔ یہ سب مقلدین کے مولویوں کی تلبیس ابلیس ہے ورنہ جو تقلید مابہ النزاع ہے یہ نہیں ۔
حنفی۔
آپ لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تقلید نہیں کرتے؟
محمدی۔
جب اللہ کے رسول ﷺ نے تقلید کے لیے کہا ہی نہیں تو رسول کی تقلید کیسے ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی تقلید اس آدمی کی بات ماننے کو کہتے ہیں جس کی بات شرعی دلیل نہ ہو۔ جب رسولﷺ کا ہر قول و فعل شریعت ہے تو رسول ﷺ کی تقلید نہیں ہوسکتی۔ تقلید سے تو اللہ ہر انسان کو بچائے یہ تو بہت بڑی لعنت ہے۔ اس سے بڑی ذلالت اور کیا ہو سکتی کہ آدمی اپنے گلے میں کسی ایسے کا رسہ ڈالے جو جانے نہ پہچانے، نہ کسی کام آئے ، نہ پکڑانے میں نہ چھڑانے میں ۔
حنفی۔
ہم اپنے امام کو نہیں جانتے؟
محمدی۔
آپ کو یہ کس نے بتایا ہے کہ یہ آپ کا امام ہے ، اسے پکڑ لو ، اس کا رسہ اپنے گلے میں ڈال لو یہ آپ کو پار لگائے گا، یہی پکڑائے گا ، یہی چھڑائے گا۔ اللہ کا رسول ﷺ جس کو اللہ نے امام مقرر کیا ہے ، جس کا کلمہ پڑھوایا ہے، جس کی سنت کو اپنا قانون ٹھہرایا ہے اور قانون بھی ایسا کہ وہی پکڑائے گا وہی چھڑائے گا ، اس کی تو تقلید نہ ہو اور اپنے گھر کے بنائے ہوئے امام کی تقلید ہو جو قیامت کو نہ جانے نہ پہچانے کہ کون میرا ، کون غیر؟
حنفی۔
جب آپ کسی کی تقلید بالکل نہیں کرتے تو پھر آپ کو وہابی کیوں کہتے ہیں ؟
محمدی۔
یہی بات تو ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ حنفی لوگ ہمیں ایک طرف تو غیر مقلد کہتے ہیں اور ایک طرف وہابی ۔ حالانکہ اگر کوئی غیر مقلد ہو تو وہابی کیسا ؟ اگر وہابی ہو تو غیر مقلد کیسا ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ جتنے اہل بدعت ہیں وہ اہل حدیث سے بہت بغض اور حسد رکھتے ہیں۔ اسی حسد میں وہ ان کے طرح طرح کے نام رکھتے ہیں خواہ ان ناموں سے ان کی اپنے حماقت ہی ظاہر ہوتی ہو۔ یہی حال مخالفین کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا وہ بھی ان کے مختلف نام رکھتے تھے ،کبھی ساحر کہتے، کبھی شاعر، کبھی کاہن کہتے، کبھی مجنون ، کبھی کذاب و مفتری ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
اسی لئے اللہ نے فرمایا
’’ انظر کیف ضربوا لک الامثال فضلوا فلا یستطیعون سبیلا‘‘ ان حاسدین کو دیکھو یہ کیسے آپ کے الٹے سیدھے نام رکھتے ہیں ۔ بغض و حسد میں یہ ایسے کور باطن (دلوں کے اندھے) ہو رہے ہیں کہ ان کو صحیح بات سوجھتی ہی نہیں۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
اہل حدیث ۔ پیر عبدالقادر جیلانیؒ کی نظر میں

اب آپ شاہ عبدالقادر جیلانیؒ کا بیان حق نشان بھی سنیں ، جو ہمارے حق میں زبردست شہادت ہے۔ وہ اپنی کتاب غنیۃ الطالبین (صفحہ 294) پر فرماتے ہیں :
’’ اعلم ان لاھل البدعہ علامات یعرفون بھا فعلامۃ اھل البدعۃ الوقیعۃ فی اھل الاثر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔الخ‘‘ بدعتیوں کی بہت سی علامتیں ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں ۔ بڑی علامت ان کی یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کو برا بھلا اور سخت سست کہتے ہیں اور یہ سب عصبیت اور بغض کی وجہ سے ہے جو ان کو اصل اہل سنت سے ہوتا ہے ۔ اہل سنت کا صرف ایک ہی نام ہے اور وہ اہل حدیث ہے ۔
شاہ عبدالقادر صاحبؒ کے اس بیان سے واضح ہوگیا کہ جو اہل حدیث کو برا بھلا کہتے ہیں وہ بدعتی ہیں ۔ اور جو بدعتی ہوں وہ اہل سنت نہیں ہو سکتے۔ نتیجہ یہ نکلا؛
(1) اہل حدیث کو برا بھلا کہنے والے اہل سنت نہیں ہو سکتے ۔
(2)جو اہل حدیث کے الٹے سیدھے نام رکھتے ہیں ، کبھی وہابی کہتے ہیں ، کبھی غیر مقلد، وہ سب بدعتی ہیں اور بدعتی اہل سنت نہیں ہو سکتے۔
(3) اہل سنت صرف اہل حدیث ہیں ۔ باقی زبردستی کے دعویدار ہیں ۔
(4) جب شاہ جیلانیؒ ناجی جماعت صرف اہل سنت کو قرار دیتے ہیں اور وضاحت فرماتے ہیں کہ ا ہل سنت صرف اہل حدیث ہوتے ہیں تو ثابت ہوا کہ وہ خود بھی اہل حدیث تھے ۔
(5) جب شاہ جیلانیؒ اہل حدیث تھے اور تھے بھی پیر کامل ۔ مسلم عندالکل تو معلوم ہوا کہ ا ہل حدیثوں میں بڑے بڑے ولی گزرے ہیں ۔
(6) جاہل عالموں کا یہ کہنا غلط ہے کہ اہل حدیث کوئی ولی نہیں ہوا۔
(7) جب ناجی فرقہ اہل سنت ہیں اور اہل سنت صرف اہل حدیث ہیں اور ولی کا ناجی ہونا ضروری ہے تو ثابت ہوا کہ ولی صرف اہل حدیث ہی ہو سکتا ہے
(8) جب ولی صرف اہل حدیث ہی ہو سکتا ہے تو ثابت ہوا کہ جتنے ولی گزرے ہیں وہ سب اہل حدیث تھے ۔
(9) جو اہل حدیث نہیں تھا وہ ولی بھی نہیں تھا ۔ خواہ جہلاء نے اسے ولی مشہور کر رکھا ہو۔
(10)نجات کے لیے بھی اور ولی بننے کے لیے بھی اہل حدیث ہونا ضروری ہے ۔ جو اہل حدیث نہ ہو ، ولی ہونا تو درکنار، اس کی نجات کا مسئلہ بھی خطرے میں ہے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
حنفی۔
آپ نے تو بہت ڈرا دیا۔
محمدی۔
آپ کی خوش قسمتی ، جو آپ کو سمجھ آگئی ۔ ورنہ کتنے لوگ ہیں جن کو اپنی نجات کی فکر نہیں ۔ صرف فرقہ پرستی میں بد مست ہیں ۔ اور اس کی حمایت کو ہی دین کی خدمت سمجھتے ہیں ۔ اصل سوچنے کی بات یہ ہے کہ پہلے حق کو پہچانے اور پھر اس پر پکا ہوجائے ۔
حنفی۔
حق کاپتہ کیسے لگے گا۔ ہر ایک ہی اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے۔
محمدی۔
حق تو نبیﷺ کی سنت کو کہتے ہیں اور اسی پر چلنا راہ نجات ہے۔
حنفی۔
کہتا تو ہر ایک یہی ہے کہ میں حق پر ہوں ۔ یہ پتہ کیسے لگے گا کہ کون حق پر ہے؟
محمدی۔
جو دین میں ملاوٹ نہ کرے وہ حق پر ہے۔ اس اصول سے آپ ہر ایک کو جانچ سکتے ہیں ۔ دنیا میں ہر فرقے نے نبی ﷺ کے بعد اپنے آپ کو کسی نہ کسی کی طرف منسوب کر رکھا ہے اور یہ اس کے ملاوٹی ہونے کی دلیل ہے ۔ اہل حدیث ہی ایک ایسی جماعت ہے جو کسی کی طرف منسوب نہیں ہوتے ، صرف نبیﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہیں جو حدیث سے ثابت ہو۔
حنفی۔
سنت کا کیا مطلب ہے؟
محمدی۔
’’ما سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ جو راستہ رسول کریم ﷺ نے امت کے لیے مقرر کیا ہو ، اسے سنت کہتے ہیں ۔ اور اس پر چلنے والے کو اہل سنت ۔
حنفی۔
سنت رسول ﷺ کا پتہ کیسے اور کہاں سے لگتا ہے ؟
محمدی۔
حدیث پڑھنے سے اور حدیث کے عالموں سے پوچھنے سے ۔
حنفی۔
حدیث کے تو سب ہی عالم ہوں گے۔ کیا حنفی کیا اہلحدیث ۔
محمدی۔
حدیث کے عالم تو اصل میں اہل حدیث ہی ہوتے ہیں ۔ اوروں کو اول تو حدیث آتی نہیں ، اگر آجائے تو ان کے پاس چلتی نہیں ۔ حدیث و سنت کے بارے میں کچھ دریافت کرنا ہو تو اہل حدیث عالموں سے دریافت کریں ۔ فقہ کی کوئی بات پوچھنا ہو تو حنفی عالموں سے پوچھیں ۔ ہر چیز ایجنسی سے ہی اچھی ملتی ہے۔
حنفی۔
حدیثیں کون کون سی معتبر ہیں ؟
محمدی۔
حدیث کی کتابوں کے کئی درجے ہیں ۔ بعض اعلیٰ درجے کی ۔ بعض درمیانے درجے کی۔ بعض گھٹیا درجے کی ۔ بعض بیکار سی۔ اعلیٰ درجے کی تین کتابیں ہیں’ بخاری ، مسلم ،موطا امام مالک ۔ درمیانے درجے میں ترمذی، ابو داؤد، نسائی اور مسنداحمد وغیرہ ہیں ۔ تیسرے درجے میں طحاوی ، طبرانی اور بیہقی وغیرہ کی کتابیں ہیں۔ تیسرے درجہ کی کتابوں میں چونکہ ہر طرح کی حدیثیں ہیں ، اس لئے اعتبار صرف پہلے اوردوسرے درجے کی کتابوں پر ہے۔ چوتھے اور پانچویں درجے کی کتابیں بہت حد تک ساقط الاعتبار ہیں ۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
حنفی۔
کتابوں کی یہ تقسیم کس نے کی ہے؟
محمدی۔
پہلے علماء نے ۔ شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کی حجۃ اللہ پڑھ کر دیکھیں آپ کو ان شاء اللہ سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔
حنفی۔
اس تقسیم کو سب فرقے مانتے ہیں ؟
محمدی۔
اہل سنت کہلانے والے سب فرقے مانتے ہیں۔
حنفی۔
کیا درجہ اول کی کتابوں کی تمام حدیثیں صحیح ہیں ؟
محمدی۔
ہاں قریباً سب صحیح ہیں۔
حنفی۔
ہم نے سنا ہے کہ آپ تقلید کو بھی شرک کہتے ہیں ۔ حالانکہ تقلید کا شرک سے کیا تعلق؟
محمدی۔
تعلق کیوں نہیں ۔ تقلید اور شرک کاتو چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شرک اگتا ہی تقلید کی سر زمین پر ہے۔ ہر مشرک پہلے مقلد ہوتا ہے پھر مشرک۔ اگر تقلید نہ ہو تو شرک کبھی پیدانہ ہو۔ شرک پیدا ہی تقلید سے ہوتا ہے۔ شرک کو اپنی پیدائش کے لئے جس زمین اور فضا کی ضرورت ہے وہ تقلید ہی مہیا کر سکتی ہے۔ تقلید ہمیشہ جاہل ، بے عقل کرتا ہے۔ اور شرک بھی وہیں پایا جاتا ہے جہاں جہالت اور بے عقلی ہو۔ ان دونوں کے لیے ایسی فضا کی ضرورت ہے کہاں عقل کا فقدان اور اندھی عقیدت کا زور ہو۔ ان دونوں کی بنیاد کسی کو حد سے بڑا اور اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو چھوٹے سے چھوٹا سمجھنے پر ہے اور یہی عبادت کا مفہوم ہے۔ عبادت کہتے ہیں دوسرے کو بڑے سے بڑا جان کر اپنے آپ کواس کے مقابلے میں چھوٹے سے چھوٹا سمجھنا ، یہی کچھ مقلد اپنے امام سے کرتا ہے۔ وہ اپنے امام کو اتنا بڑا سمجھتا ہے کہ خود کو اس کے مقابلے میں جانور سمجھتا ہے۔ اور جانوروں کی طرح اس کا قلادہ گلے میں ڈالنے کو اپنی سعادت خیال کرتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اسے اللہ کا شریک ٹھہرا لیتا ہے۔

حنفی۔
اللہ کا شریک کیسے؟
محمدی۔
اس طرح کہ اس کی بات کو خدائی حکم سمجھتا ہے۔
حنفی۔
یہ شرک اور شریک ٹھہرانا کیسے ہو گیا ؟
محمدی۔
اللہ کا حق اپنے امام کو جو دیا۔ قرآن مجید میں ہے
’’ ام لھم شرکاء شرعوا لھم من الدین مالم یاذن م بہ اللہ ‘‘ (الشوریٰ 21) کیا ان مشرکوں نے ایسے شریک بنا رکھے ہیں جو ان کے لیے دین میں ایسے مسئلے بناتے ہیں جن کی اللہ نے منظوری نہیں دی۔
اس آیت میں جس کے قول و قیاس کو دین سمجھا جائے اس کو اللہ نے اپنا شریک قرار دیا ہے۔ اللہ کے اذن کے بغیر نبی کی بات دین نہیں ہو سکتی، چہ جائیکہ عالموں کی آراء کو دین بنیا جائے۔ لیکن مقلد اپنے امام کی بات کو دین سمجھتا ہے۔ گویا جو حق تشریح اللہ کا تھا وہ اپنے امام کو دے دیتا ہے۔
سورۃ توبہ میں تو اللہ نے صاف فرما دیا
’’ اتخذو ا احبارھم و رھبانھم ارباباً من دون اللہ‘‘ (توبہ 31) یہود و نصاریٰ جب بگڑے جیسے کہ آج کل کے مسلمان بگڑے ہوئے ہیں تو انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو رب بنا لیا۔
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوئے تو انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ
ہم نے تو اپنے علماء و مشائخ کو رب نہیں بنایا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کیا تم ان کے حلال کردہ کو حلال اور حرام کردہ کو حرام نہیں سمجھتے تھے ۔ یعنی ان کی تجویزوں کو دین نہیں بنا لیتے تھے ؟ انہوں نے کہا یہ بات تو تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی تو رب بنانا ہے (ترمذی)۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
حنفی۔
ہم تو اپنے امام کو رب نہیں بناتے ۔ ہم تو صرف امام مانتے ہیں ۔
محمدی۔
رب تو وہ بھی نہیں کہتے تھے ، لیکن درجہ ان کو رب کا دیتے تھے اسی لئے اللہ نے اسے رب بنانا قرار دیا ہے۔ نا م بدل دینے سے حقیقت نہیں بدل جاتی ۔ حقیقت حقیقت ہی رہتی ہے، نام خواہ کچھ بھی رکھ دیا جائے۔ آخر آپ امام کیوں بناتے ہیں ؟
حنفی۔
دین کے مسئلے لینے کے لیے ۔
محمدی۔
یہی کام تو یہود و نصاریٰ کیا کرتے تھے ۔ جیسا کہ حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے مسلمان ہو کر تسلیم کیا ۔ کیا ایسی امامت کی اسلام میں گنجائش ہے ؟
حنفی۔
کیا قرآن مجید میں نہیں ہے ’’ وجعلنا ھم ائمۃ یھدون بامرنا‘‘ (الانبیاء 73)
محمدی۔
یہ تو انبیاء کے بارے میں ہے، نبی تو امام ہو سکتا ہے بلکہ اما م ہوتا ہے، کیونکہ اسے خدا امام بناتا ہے۔ نبی کے سو ا کوئی امام نہیں ہو سکتا۔
حنفی۔
آپ کہتے ہیں نبی کے سوا امام نہیں ہو سکتا حالانکہ اسلام میں بڑے بڑے ائمہ دین گزرے ہیں۔
محمدی۔
ائمہ دین سے مراد یہ ہے کہ وہ دینی علوم کے بڑے عالم تھے ، نہ کہ قابل اطاعت تھے ، جن کو دین کے مسئلے بنانے اور دینی پیروی کرانے کا حق ہو، کہ ان کے نام پر تقلیدی مذہب چلائے جائیں ۔ اس قسم کی امامت کا تصور اسلام میں بالکل نہیں ہے ۔ سب سے پہلے یہ عقیدہ شیعہ نے گھڑا ، اہل سنت نے یہ عقیدہ ان سے لیا ۔ شیعہ نے یہ عقیدہ ، عقیدہ رسالت کو کمزور کرنے کے لیے گھڑا تھا۔ ان کے ہاں پیغمبر اور امام میں کوئی فرق نہیں ، دونوں معصوم ، دونوں ایک ہی چشمے اور ایک ہی ڈول سے پانی لینے والے ، جیسا کہ نہج البلاغہ میں ہے
’’لان مستقاً ھما من قلیب و مفرعھما من ذ نوب ‘‘ مقلد خواہ سنی ہو یا شیعہ، امامت کا تصور قریباً ایک ہی ہے۔
حنفی۔
شیعہ تو امام کو معصوم کہتے ہیں ‘ ہم اپنے امام کو معصوم تونہیں کہتے۔
محمدی۔
زبان سے بے شک نہ کہیں لیکن سمجھتے معصوم ہی ہیں ، جبھی ان کے نام پر مذہب بنا کر حنفی کہلاتے ہیں ۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اسلام میں سوائے پیغمبر کے کوئی امام نہیں ہو سکتا ، چہ جائیکہ کسی کو امام اعظم بنایا جائے ۔
حنفی۔
امام تو ہم نے اس لئے بنایا ہے کہ قیامت کے روز بلایا ہی اماموں کے نام پر جائیگا۔ جیسا کہ آیت میں ہے ’’ یوم یدعوا کل اناس بامامھم ‘‘ (بنی اسرائیل 71) میں ہے۔
محمدی۔
اس آیت میں امام سے مراد نامۂ اعمال ہے، آپ کے بنائے ہوئے امام نہیں ۔ چنانچہ آگے وضاحت موجود ہے
’’ فمن اوتی کتابہ بیمینہ فاولٰئک یقرؤن کتابھم ‘‘ ہم تمام لوگوں کو ان کے نامہ اعمال کے ساتھ بلائیں گے پھر جس کے دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال دے دیا گیا وہ اپنے نامۂ اعمال کو پڑھے گا (اور خوش ہوگا) ظلم کسی پر نہ ہوگا۔
لیکن اگر امام سے مراد امام ہی لیا جائے تو وہ امام مراد نہیں جو آپ نے بنا رکھے ہیں بلکہ امام سے مراد وہ امام ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے امام بنایا ہے ، یعنی انبیاء علیہم السلام ۔ قیامت کے روز امتوں کو ان کے انبیاء کے نام پر بلایا جائے گا ۔ اے فلاں نبی کی امت آؤ ! اے فلاں نبی کی امت آؤ! ۔ جیسا کہ قبر میں (من نبیک) سے اپنے اپنے نبی کے بارے میں سوال ہوتا ہے۔ پھر خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جنہوں نے اپنے امام بنا کر ان کی تقلید نہیں کی ، بلکہ نبیوں کی پیروی کی وہ اپنے نبیوں کے ساتھ جنت میں چلے جائیں گے۔
چنانچہ ابن کثیر میں ہے
’’ ھذا اکبر شرف لاصحاب الحدیث لان امامھم النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ اہل حدیث کے لیے یہ بہت بڑا شرف ہے کہ ان کے امام صرف نبی ﷺ ہیں ۔
وہ ان کے ساتھ جنت میں چلے جائیں گے، اور اماموں کے مقلدین کھڑے رہ جائیں گے ، پھروہ اپنے بنائے ہوئے اماموں کے ساتھ دوزخ میں جائیں گے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
حنفی۔
کیا ہمارے امام دوزخ میں جائیں گے؟
محمدی۔
آپ کے امام ہیں کون ؟
حنفی۔
ہمارے امام ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں ۔
محمدی۔
وہ آپ کے امام کیسے ۔ کیا اللہ نے ان کو امام بنایا ہے ؟
حنفی۔
اللہ نے تو نہیں بنایا ۔
محمدی۔
پھر کیا خود انہوں نے کہا تھا کہ میں تمہارا امام ہوں میری تقلید کرنا۔
حنفی۔
انہوں نے تو نہیں کہا تھا ۔
محمدی۔
پھر وہ آپ لوگوں کے امام کیسے بن گئے ؟
حنفی۔
ہم جو اِن کو مانتے ہیں اور اپنا امام سمجھتے ہیں ۔
محمدی۔
آپ کے سمجھنے اور کہنے سے کیا ہوتا ہے ۔ جب تک امام اقتداء کی نیت نہ کرے وہ امام کیسے بن جائے گا۔ اگر ایسے امام بننے لگیں تو آپ کا کیا خیال ہے
امام ابو حنیفہ جن کو دیوبندی اور بریلوی دونوں امام مانتے ہیں ، دیوبندیوں اور بریلویوں میں سے کس کو لے کر جنت میں جائیں گے ۔ دیوبندی اور بریلوی دونوں تو جنت میں جا نہیں سکتے ، کیونکہ وہ ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں ۔ اگر بریلوی جنت میں گئے تو دیوبندی دوزخ میں جائیں گے اور اگر دیو بندی جنت میں گئے تو بریلوی دوزخ میں جائیں گے ۔ امام ابو حنیفہ کس کے ساتھ ہوں گے ، جبکہ وہ دونوں کے امام ہیں ۔
ایسے ہی اگر شیعہ اپنے اماموں کے ساتھ جنت میں چلے گئے تو پھر سنی اپنے اماموں کے ساتھ کہاں جائیں گے ۔ اگر سنی اپنے اماموں کے ساتھ جنت میں چلے گئے تو شیعہ کہاں جائیں گے ۔ جنت میں دونوں تو جا نہیں سکتے ، کیونکہ ان میں بعد المشرقین ہے۔ اب آپ ہی بتائیں آپ کے اصول پر شیعہ امام دوزخ میں جائیں گے یا سنی ۔ حالانکہ امام دونوں فرقوں کے نیک اور صالح تھے اور وہ انشاء اللہ ضرور جنت میں جائیں گے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
حنفی۔
بات تو آپ کی ٹھیک ہے ۔ یہ اماموں کا مسئلہ ہے تو یقیناً بہت بڑا چکر۔
محمدی۔
ایسا ہی چکر وہ ہے جس کو ہمارے مقلدین
’’ المرء مع من احب ‘‘ پڑھ کر دیا کرتے ہیں کہ ہم اپنے اماموں اور اولیاء کے ساتھ ہوں گے کیونکہ ہمیں ان سے محبت ہے۔ اور اہل حدیث چونکہ کسی کو مانتے نہیں اس لیے ان کو کسی کا بھی ساتھ نصیب نہیں ہوگا ۔
ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ اگر محبت کا معیار یہی ہے جو آپ نے سمجھا ہے تو کیا موجودہ عیسائی جو عیسیٰ علیہ السلا م کی محبت کے دعویدار ہیں عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جنت میں جائیں گے؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں ،کیونکہ ان کی محبت غلط ہے ، تو تبرائی شیعہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور گیارھویں دینے والے حضرت جیلانی کو وہاں کیسے مل لیں گے ۔ اس لیے کہ ان کی محبت غلط ہے اور پھر محبت بھی وہ فائدہ دیتی ہے جو دونوں طرف سے ہو ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کبھی کسی ایسے سے محبت نہیں رکھیں گے جو آنحضرتﷺ کے آجانے پر ان کی اتباع نہ کرے ۔ ایسے ہی حضرت حسین رضی اللہ عنہ ، شاہ جیلانی رحمہ اللہ اور دیگرائمہ و اولیاء کبھی کسی ایسے سے محبت نہیں رکھ سکتے جو حضور ﷺ کی پیروی نہ کرے بلکہ شرک و بدعت کرے اور اپنی طرف سے امام بنا کر ان کی تقلید کرے ۔
وہ سب جانتے ہیں کہ اطاعت صرف اللہ کے حکم کی ہے اس لیے وہ اپنی پیروی کیسے کر واسکتے ہیں ۔ قرآن مجید میں ہے
’’ اتبعوا ما انزل الیکم من ربکم ولا تتبعوا من دونہ اولیاء ‘‘ (اعراف 3)اس کے پیچھے چلو جو اللہ نے تمہاری طرف اتارا ہے اس کا حکم مانو، اس کے حکم کو چھوڑ کر اولیاء کے پیچھے نہ جاؤ ۔
اولیاء سے مراد یہاں وہ ہستیاں ہیں ، جن کو لوگ خود تجویز کرتے ہیں اور اپنے لیے ذریعہ نجات سمجھ کر سہارا بناتے ہیں‘ حالانکہ سوائے پیغمبر کی پیروی کے اور کوئی ذریعہ نجات نہیں ۔ دنیا میں جتنے شرک و بدعت کرنے والے ہیں ، حقیقت میں ان کا پیر ، ان کا امام اور ان کا ولی صرف شیطان ہے ، وہ نام اللہ والوں اور اماموں کا لیتے ہیں ، عبادت و پیروی شیطان کی کرتے ہیں ۔ اسی لیے قرآن شیطان کی عبادت و پیروی سے بار بار منع کرتا ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے
’’ لا تعبدو الشیطن‘‘ (یاسین 60) شیطان کی پیروی نہ کرو۔ ’’ ولاتتبعوا خطوت الشیطن ‘‘ (البقرہ 168) شیطان کی پیروی نہ کرو ۔ دنیا میں کون سا ایسا ہے جو شیطان کی پیروی کرتا ہو ۔
ظاہر ہے اس سے مراد ائمہ و اولیاء ہی ہیں جن کے نام کا دھوکا دے کر شیطان اپنا کام کرتا ہے ۔ قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ دوزخیوں کو دوزخ میں ڈالنے کے لیے علیحدہ کریں گے تو فرمائیں گے
’’ الم اعھد الیکم یبنی آدم ان لا تعبدو الشیطن انہ لکم عدو مبین وان اعبدونی ھذا صراط مستقیم ولقد اضل منکم جبلاً کثیرا افلم تکونوا تعقلون ‘‘ یعنی اے انسانو !کیا میں نے تمہیں نہیں بتایا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا بڑا دشمن ہے ۔ عبادت میری کرنا یہی سیدھا راستہ ہے لیکن تم نے پرواہ نہ کی اس نے تم میں سے کتنی بھاری تعداد کو گمراہ کرلیا ہے کیا تم بے عقل تھے جو تمہیں پتہ نہیں لگا ۔
اور یہ ہوتا یوں ہے کہ جب شیطان کسی کو نبی کی پیروی میں ذرا نرم دیکھتا ہے تو فوراً اس کے شکار کی کوشش کرتا ہے ۔ اپنے بڑے بڑے انسانی چیلوں کے ذریعہ نبی کی جگہ پیروی کے لیے ان بزرگوں کے نام تجویز کرتا ہے جن کی دنیا میں مقبولیت و شہرت ہوتی ہے ۔ ان کے نام پر شرک و بدعت کے بڑے بڑے سلسلے جاری کرتا ہے ۔ تصور ان بزرگوں کا پیش کرتا ہے اور پوجا پاٹ اپنی کراتا ہے ۔ جہلاء ان بزرگوں کے ناموں کی وجہ سے اس کے دھوکے میں آجاتے ہیں اور اس کی پیروی کرنے لگ جاتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ ہم کس الٹی راہ پر لگ گئے ہیں بلکہ اس الٹی راہ کو ہی راہ راست سمجھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا
’’ الذین ضل سعیہم فی الحیوۃ الدنیا و ھم یحسبون انھم یحسنون صنعا‘‘ یعنی شیطان کے گمراہ کردہ لوگ کام غلط کرتے ہیں لیکن جہالت کی وجہ سے سمجھتے یہ ہیں کہ ہم بہت اچھا کر رہے ہیں اور یہ کتنا بڑا دھوکہ ہے
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے شیطان کا نام ہی غرور یعنی دھوکہ دینے والا رکھا ہے اور لوگوں کو اس کے دھوکے سے بار بار خبردار کیا ہے ۔ چنانچہ فرمایا
’’ ولا یغرنکم با للہ الغرور ان الشیطن لکم عدو فاتخذوہ عدو انما یدعو حذبہ لیکونوا من اصحب السعیر ‘‘ ہوشیار رہنا دھوکہ باز تم کو دھوکہ دے کر خدا سے دور نہ کردے ۔ یہ دھوکا باز شیطان تمہارا دشمن ہے اسے دشمن ہی سمجھنا وہ اپنی پارٹی کو اس لیے باطل کی دعوت دیتا ہے کہ ان کو دوزخی بنا کر دشمنی نکالے ۔
اور اس کی صورت یہی ہوتی ہے کہ ائمہ اور اولیاء کے نام لے لے کر ان کے ذہنوں میں ایسا تصور پیدا کرتا ہے کہ وہ ان کی عبادت شروع کر دیتے ہیں یہی ان کے امام اور اولیاء ہیں جن کا تصور ان کے ذہن میں ہوتا ہے خارج میں بجز شیطان کے ان کا وجود نہیں ہوتا ۔ رہ گئے اصلی بزرگ جن کے نام لے کر شیطان اپنی عبادت کرواتا ہے ان کو پتہ تک نہیں ہوتا کہ ان کے ماننے والے کون ہیں اور وہ کیا کرتے ہیں ۔ وہ ان کی طرف سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں چنانچہ قرآن مجید میں ہے
’’وھم من دعائھم غافلون (الاحقاف 5) ، ’’ ماکنتم ایانا تعبدون ‘‘ (یونس 28) ، ’’ یکونون علیھم ضدا ‘‘ (مریم 82) ، ’’ کانوا بعباد تھم کفرین ‘‘ (الاحقاف 6) ، ’’ ان کنا عن عبادتکم لغافلین ‘‘ (یونس 28) جن کو تم پکارتے ہو ، جن کی تم عبادتیں کرتے ہو وہ تمہاری ان حرکتوں سے بالکل بے خبر ہیں قیامت کے دن وہ تمہارے مخالف ہوں گے ۔
چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ پو چھیں گے
’’ ءانت قلت للناس اتخذونی و امی الھین من دون اللہ ‘‘ اے عیسیٰ ! عیسائی جو تیری اور تیری ماں کی عبادت کرتے رہے ہیں تو کیا تو نے ان سے کہا تھا کہ ایسا کرنا۔
وہ صاف انکار کردیں گے کہ ہم نے ان سے نہیں کہا تھا کہ ہماری تقلید کرنا ، یہ سب کچھ اپنی مرضی سے کرتے رہے ہیں ۔ لہٰذا گمراہ ہونے والوں کے امام و اولیاء یہ نہیں جن کا ذکر کتابوں میں ہے بلکہ وہ شیاطین ہیں جو ان کے ذہنوں میں ہیں ،جو اِن سے یہ کام کرواتے ہیں وہی ان کے ساتھ دوزخ میں جائیں گے ۔ اس لیے تقلید کا سلسلہ سراسر گمراہی ہے اس سے بالکل بچنا چاہیے ۔ اب آپ دیکھ لیں کہ آپ کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم چاہیے یا سنت امام ۔ اگر سنت رسول چاہیے تو وہ حدیثِ رسول سے ملے گی اور حدیثِ رسول اہل حدیث سے ملے گی ۔ اگر سنت امام چاہیے تو وہ فقہ حنفی سے ملے گی اور فقہ حنفی حنفیوں سے ملے گی۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
حنفی۔
سنت رسول کی ہوتی ہے نا کہ امام کی ۔
محمدی۔
اگر امام کی سنت نہ ہو تو آپ حنفی کیوں بنیں ، آخر حنفی کسے کہتے ہیں ؟
حنفی۔
حنفی وہ ہوتا ہے جو فقہ حنفی پر چلے ۔
محمدی۔
فقہ حنفی کسے کہتے ہیں ؟
حنفی۔
امام ابو حنیفہ کے مسلک کو ۔
محمدی۔
مسلک سے کیا مراد ہے ؟
حنفی۔
مسلک طریقے کو کہتے ہیں ۔
محمدی۔
سنت بھی تو طریقے کو ہی کہتے ہیں ۔ جب ہم کہتے ہیں یہ آنحضرت ﷺ کی سنت ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ان کا طریقہ ہے۔ اس طریقے سے انہوں نے یہ کام کیا تھا یا کرنے کو کہا تھا۔ لہٰذا جس کے طریقے پر آپ چلتے ہیں گویا اس کی سنت پر آپ عمل کرتے ہیں۔ کہیے یہ ٹھیک ہے یا نہیں ؟
حنفی۔
یہ بالکل ٹھیک ہے ، یہ بات میری سمجھ میں آگئی۔
محمدی۔
اسی لیے تو ہم کہتے ہیں حنفی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے طریقے پر چلتا ہے اوراصلی اہل سنت یعنی اہل حدیث رسول اللہﷺ کے طریقہ پر ۔
حنفی۔
لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا طریقہ کوئی علیحدہ تو نہیں ان کا طریقہ بھی تو وہی ہے جو رسول اللہﷺ کا ہے ۔
محمدی۔
طریقہ وہی ہو یا مختلف حنفی کے پیش نظر تو طریقہ حنفی ہی ہوتا ہے ۔ وہ تو حنفی طریقے پر ہی چلتا ہے سنت رسول کے موافق ہو یا مخالف ۔ اگر مخالف ہو تو اسے ڈر نہیں کہ سنت رسول کی مخالفت ہوتی ہے اگر موافق ہو تو اسے خوشی نہیں کہ میں نے سنت رسول پر عمل کیا ہے ۔ حنفی اگر شروع کی رفع الیدین کرتا ہے تو اس لیے نہیں کہ یہ سنت رسول ہے وہ اس لیے کرتا ہے کہ حنفی طریقہ نماز یہی ہے ۔ وہ رکوع کو جاتے اور اٹھتے وقت رفع الیدین نہیں کرتا اس لیے نہیں کہ یہ سنت رسول نہیں بلکہ اس لیے کہ حنفی نماز میں یہ رفع الیدین نہیں ۔ جو رفع الیدین حنفی مذہب میں نہیں خواہ وہ سنت رسول ہو وہ اسے گھوڑے کی دم مارنے سے تشبیہ دیتا ہے یا مکھیاں مارنے سے تعبیر کرتا ہے جو اس کے مذہب میں ہے خواہ وہ سنت رسول نہ ہو وہ اس پر جان دیتا ہے جیسے قنوت کی رفع الیدین ۔
حنفی۔
حقیقت حال یہی ہے ہمیں بالکل یہ خیال نہیں ہوتا کہ ہمارا یہ مسئلہ سنت رسولﷺ کے مطابق ہے یا مخالف ۔ ہمیں تو یہ یاد ہوتا ہے کہ ہم حنفی ہیں اور ہمیں اپنی فقہ پر چلنا ہے ہمیں کوئی صحیح سے صحیح حدیث بھی دکھائے اگرچہ ہم اس حدیث کا انکار نہیں کرتے لیکن ہم اس حدیث پر عمل بھی نہیں کرتے ۔ ہمارے دل میں یہ ہوتا ہے کہ یا یہ حدیث ٹھیک نہیں یا اس کا مطلب وہ نہیں جو ظاہر الفاظ سے نکلتا ہے یا یہ منسوخ ہے یا کوئی اور بات ہے۔ بہر کیف جب ہمارے امام نے اس حدیث پر عمل نہیں کیا تو ہم کیوں کریں ہم تو اپنے امام کے مذہب پر چلیں گے۔
محمدی۔
جبھی تو ہم کہتے ہیں حنفی کا محمد رسول اللہ پڑھنا اور اہل سنت کا دعویٰ کرنا ٹھیک نہیں ۔ جب وہ سنت رسول پر چلتا نہیں ، اپنے امام کی سنت پر چلتا ہے تو اسے زیب نہیں دیتا کہ وہ محمد رسول اللہ بھی ساتھ پڑھے اور اہل سنت ہونے کا دعویٰ کرے ۔ خدا کی قسم جس پابندی کے ساتھ آج ایک حنفی اپنے امام کی تقلید کرتا ہے اگر وہ اسی پابندی کے ساتھ اتباع رسولﷺ کرے تو اس کی نجات ہوجائے لیکن اس حال میں وہ نجات کی کیا توقع کر سکتا ہے ۔ آپ تو امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتے ہیں اگر آپ موسیٰ علیہ السلام کی تقلید بھی کریں تو نجات نہیں ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا
’’ لو بدا لکم موسی فاتبعتموہ وترکتمونی لضللتم عن سواء السبیل ‘‘ یعنی اگر آج موسیٰ علیہ السلام آجائیں اور تم ان کے پیچھے لگ جاؤ تو گمراہ ہو جاؤگے ۔
اب آپ سوچ لیں کہاں موسیٰ علیہ السلام اور کہاں امام ابو حنیفہ ۔ جب حضور ﷺ کی بعثت کے بعد موسیٰ علیہ السلام کی پیروی میں نجات نہیں تو امام ابو حنیفہ کی تقلید میں کیسے نجات ہوسکتی ہے؟ ہمیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے کوئی کد نہیں ۔ ہمیں ان سے کوئی حسد نہیں ۔ ہمارا کوئی امام نہیں کہ ہم آپ کو امام ابو حنیفہ سے توڑ کر کسی اور سے جوڑ رہے ہوں ۔ ہم تو آپ کو رسول اللہ ﷺ کی دعوت دے رہے ہیں جن کا آپ کلمہ پڑھتے ہیں جن کی پیروی میں نجات ہے اور اس سے باہر نجات نہیں ۔ سوچ لیں معاملہ نجات کا ہے اگر اسی حنفیت پر آپ کا خاتمہ ہوگیا تو معاملہ بڑا خطرناک ہے ۔
ھذا بلغ للناس ولينذرو بہ ولیعلموا انما ھو الہ واحد ولیذکر اولوالالباب​

 
Top