کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
اصل ہفتم
سید المرسلین محمدﷺ کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے، آپﷺ کے اہل بیت سے محبت اور قلبی تعلق رکھنا بھی، اہل سنت والجماعت کے اُصولوں میں شامل ہے۔ ارشادِ نبویﷺ ہے:
رسولِ کریمﷺ کے اہل بیت میں ازواجِ مطہرات، اُمہات المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی شامل ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں’’ أُذَکِّرُکُمُ اﷲَ فِي أَھْلِ بَیْتِي ‘‘ [صحیح مسلم: ۲۴۰۸]
’’میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں احکامِ الٰہی کی پابندی کی نصیحت کرتا ہوں۔‘‘
اہل ِبیت میں اصل یہ ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کے قرابت دار ہیں، ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو نیکو کار تھے۔ جہاں تک نبی کریمﷺ کے اُن رشتہ داروں کا تعلق ہے جو برے عمل کرتے تھے تو انہیں کوئی حق حاصل نہیں، جیسے آپﷺ کا چچا اَبو لہب اور اُس جیسے دوسرے افراد۔ اُس کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ یَا نِسَآئَ النَّبِيِ ‘‘ کہہ کر مخاطب کرنے کے بعد نصیحتیں فرمائیں اور اَجر ِعظیم کا وعدہ کیا ، آخر میں فرمایا:
’’ اِنَّمَا یُرِیْدُ اﷲُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وُیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا ‘‘ [الأحزاب: ۳۳]
’’اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے اے نبی کی گھر والیو! کہ تم سے وہ ہر قسم کی لغو بات کو دور کردے اور تمہیں خوب صاف کر دے۔‘‘
لہٰذا دین میں اَچھے اعمال کے بجائے رسولِ اکرمﷺ سے محض شرفِ قرابت اور آپﷺ کی طرف خالی خولی نسبت اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ نبی کریمﷺ نے اپنے قبیلہ قریش اور دیگر قریبی رشتہ داروں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا تھا:’’ تَبَّتْ یَدَآ اَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ‘‘ [لہب: ۱]
’’اَبو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ خود بھی ہلاک ہوگیا۔‘‘
رسولِ اکرمﷺ کے صالح قرابت داروں کا ہم پر یہ حق ہے کہ ہم اُن سے محبت رکھیں، ان کی عزت و توقیر اور اَدب و احترام کریں۔ لیکن ہمارے لئے یہ جائز نہیں کہ ہم ان کے بارے میں غلو کریں اور کسی ایسے فعل کے ذریعے جو عبادت ہے، ان کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں یا ان کے بارے میں یہ اعتقاد رکھیں کہ اللہ کے علاوہ وہ بھی نفع ونقصان کا اختیار رکھتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب پیغمبرﷺ سے کہتے ہیں:’’ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! اشْتَرُوا أَنْفُسَکُمْ، لَا أُغْنِي عَنْکُمْ مِنَ اﷲِ شَیْئًا، یَا بَنِي عَبْدِ مَنَاف! لَا أُغْنِي عَنْکُمْ مِنَ اﷲِ شَیْئًا، یَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! لَا أُغْنِي عَنْکَ مِنَ اﷲِ شَیْئًا، یَا صَفِیَّۃُ عُمَّۃُ رَسُولِ اﷲِ! لَا أُغْنِي عَنْکِ مِنَ اﷲِ شَیْئًا، یَا فَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ! سَلِینِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي، لَا أُغْنِي عَنْکِ مِنَ اﷲِ شَیْئًا ‘‘ [صحیح البخاري: ۲۵۴]
’’اے قریش کی جماعت! اپنے نفسوں کا خیال کر لو، میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے چھڑا نہیں سکتا، ا ے بنو عبد مناف! میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے نہیں چھڑا سکتا، اے عباس بن عبد المطّلب، میں آپ کو اللہ تعالیٰ سے نہیں بچا سکتا، اے رسول کی پھوپھی صفیہ! میں آپ کو اللہ سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، اے محمد (ﷺ) کی بیٹی فاطمہ! میرے مال سے جو لینا ہے لے لو، میں تمہیں اللہ سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔‘‘
تو جب اِمام الانبیا، سیدالاولین والآخرینﷺ کا یہ معاملہ ہے تو کسی اور کے بارے میں یہ عقیدہ کیونکر رکھا جاسکتا ہے؟ لہٰذا جو لوگ رسولِ معظمﷺ کے رشتہ داروں کے سلسلے میں اس حوالے سے مختلف قسم کے افکار و نظریات رکھتے ہیں وہ قطعاً باطل ہیں۔’’ قُلْ اِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلَارَشَدًا ‘‘ [الجنّ: ۲۱]
’’فرما دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نقصان، نفع کا اختیار نہیں۔‘‘