1۔ شکوہ تو یہ ہے کہ اگر ہم سے کوئی سہو یا خطا ہوئی بھی تھی توہمارے اہل الحدیث بھائی نے ہمیں ذاتی پیغام بھیجنے یا کسی اور ذریعہ سے توجہ دلانے کی بجائے اوپن فورم میں ایک بحث کاآغاز کر
دیا۔اس سے پہلے بھی ادارہ کو کئی ایک ساتھیوں کی طرف سے کچھ کتابوں کے تبصرہ کے حوالہ سے جب توجہ دلائی گئی تو ادارہ نے ان حضرات کے اس توجہ دلانے کا شکریہ بھی ادا کیا اور ان تبصرہ جات میں تبدیلیاں کر کے انہیں دوبارہ اپ لوڈ بھی کیا۔اگر آپ بھی ہمیں ذاتی پیغام بھیج دیتے تو ہم آپ کی توجہ دلانے پر اس تبصرہ میں کچھ تبدیلی کر کے اسے اپ لوڈ کردیتے۔ اس عمل کو دین اسلام کی نظر میں اصلاح کہتے ہیں۔
2۔ ہمارے اہل الحدیث ہونے کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے ہم صرف نماز میں احادیث پر عمل کرتے ہیں بلکہ اہل الحدیث ہونے کاہم سے تقاضا یہ ہے کہ ہم 24 گھنٹوں میں ہر معاملہ میں حدیث وسنت کی اتباع کریں۔
’ غلطیوں کی اصلاح کا نبوی طریق کار‘ شیخ صالح المنجد کی کتاب ہے، جس کا ہم میں سے ہر اس شخص کو مطالعہ کرنا چاہیے جو مصلح ہے یا مصلح بننا چاہتا ہے۔
3۔اہل الحدیث بھائی کی تمام باتیں سوائے ایک بات کے ان کی غلط فہمیاں ہیں اور یہ غلط فہمیاں لا حق ہو جاتی ہیں جیسا کہ صحابہ رضوان اللہ اجمعین میں بھی پیدا ہوگئی تھیں۔ہمارے خیال میں ہمارے بھائی کو ان معاملات میں کسی سوئے ظن کی بجائے کہ جس سے قرآن نے منع کیا ہے، ادارہ سے حسن ظن رکھنا چاہیے تھا کہ جس کا ہر مسلمان سے تقاضا ہے۔ادارہ نہ تو حافظ زبیر علی زئی صاحب کا مخالف ہے اور نہ ہی علامہ البانی رحمہ اللہ کا مقلد۔ دونوں حضرات کے اختلافات میں ادارہ کی اپنی ایک علمی رائے ہوتی ہے اور ادارہ اسکا اظہار گاہے بگاہے کرتا رہتا ہے۔حسن لغیرہ کے معاملہ میں ادارہ کی طرف سے فوری طور پر کوئی موقف پیش نہ کرنے میں یہی حکمت تھی کہ جذباتی نوجوان ادارہ کو ایک فریق بنا کر تنقید کرناشروع کر دیں گے۔ بہر حال علم کی دنیا جذبات کی دنیا نہیں ہے ۔ یہاں آپ کو کسی سے اختلاف ہوتا ہے اور کسی سے اتفاق، اور یہی حقیقت ہے۔
4۔ جس بات میں اہل الحدیث بھائی حق بجانب ہیں، وہ یہ ہے کہ ’تحقیق‘ میں حافظ زبیر علی زئی صاحب کا نام نہیں دیا ۔ اس سہو یا خطا کی ادارہ کی طرف سے جلد ہی تصحیح کر دی جائے گی اور تبصرہ دوبارہ اپ لوڈ ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ !
5۔ تبصرہ نگار نے اپنے تبصرہ میں صرف ایک عامی کی الجھن کو سامنے رکھ کر بات کی ہے اور کسی کی شخصیت پر عیب لگاناتبصرہ نگار کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں ہوگا۔ ویسے بھی یہ تبصرہ نثر میں ہوتا ہے نہ کہ غالب کی شاعری میں ، کہ جس میں ہم اشارۃ النص یا دلالت اولی یافصاحت و بلاغت کے نکتے تلاش کر کے اپنے ذہن میں بیٹھے ہوئے ایک مفہوم کو تبصرہ نگار کی طرف منسوب کریں۔
6۔ اگرچہ ہم اس کتاب کا تبصرہ اس کے ظاہری ٹائیٹل کے مطابق صحیح کر دیں گے
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی شخص اس محقق تفسیر ابن کثیر کا مطالعہ کرتا ہے اور اس شخص کا علم وتحقیق سے کچھ واسطہ رہا ہے یعنی وہ تحقیق کے میدان کا آدمی ہے تو یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس کتاب کی دو دفعہ تحقیق ہوئی ہے ۔ پہلی دفعہ کسی صاحب نے محنت کی ہے اور ایک منہج کے ساتھ روایات پر حکم لگایا ہے اور دوسری دفعہ کسی صاحب نے نظرثانی کرتے ہوئے اس تحقیق میں کچھ مقامات پراپنے منہج کے مطابق تبدیلیاں کی ہیں۔ یوں اس کتاب کی تحقیق میں دو مناہج کے تحت تحقیق ہونے کی وجہ سے بعض مقامات پر عبارتیں الجھن کا شکار ہیں۔ اسی لیے غالبا تبصرہ نگار نے یہ الفاظ استعمال کیے:
جناب کامران طاہر صاحب نے اس تفسیر کی مکمل تخریج وتحقیق کی ہے اور حافظ زبیر علی زئی صاحب نے اس تخریج وتحقیق پر نظر ثانی کی ہے۔تخریج و تحقیق عمدہ ہے لیکن اگر تفسیر کے شروع میں محققین حضرات اپنا منہج تحقیق بیان کر دیتے تو ایک عامی کو استفادہ میں نسبتاً زیادہ آسانی ہوتی
بہر حال تبصرہ نگار کے یہ الفاظ ٹائیٹل پیچ کے مطابق نہیں ہیں اگرچہ کتاب کا اسلوب بیان ان الفاظ کی تائید کرتا ہو۔ حکم تو ظاہر پر ہی لگایا جائے گا ۔ اس لیے ہم اس تبصرہ میں تبدیلی کر دیتے ہیں ۔ لیکن میری ذاتی طور پریہ شدید خواہش ہے کہ اگر کسی طرح حافظ زبیر علی زئی صاحب سے کوئی ہمارے دوست یہ معلوم کر سکیں کہ انہوں نے تحقیق پر تحقیق کی ہے یا یہ صرف انہی کی ابتداءاتحقیق ہے تا کہ معاملہ عوام الناس کے لیے کلیئر ہو سکے ۔
واللہ اعلم بالصواب