• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصول تفسیر-ابن تیمیہ رحمہ اللہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
تفسیر میں تابعین  کے اقوال کی حیثیت

اور جب تفسیر نہ قرآن میں ملے، نہ سنت میں ،نہ اقوال صحابہ ؄ میں،توایسی صورت میں بہت سے ائمہ اقوال تابعین کی طرف رجوع کرتے ہیں، مثلاً مجاہدین جبر  کی طرف جو علم تفسیر میں خدا کی ایک نشانی تھے۔ محمد بن اسحاق  نے اپنی اسناد سے روایت کیاہےکہ مجاہد  کہتے تھے ''۔ میں نے مصحف قرآنی شروع سے آخر تک تین مرتبہ عبداللہ بن عباس؄ کے سامنے پیش کیا۔ ہر آیت پر انہیں ٹھہراتا اور تفسیر پوچھتا تھا[1]''۔ اور ترمذی نے اپنی اسناد سے مجاہد  کایہ قول نقل کیا ہے''۔ قرآن میں کوئی آیت نہیں، جس کی تفسیرمیں کچھ نہ کچھ میں نے سنا نہ ہو''۔ترمذی ہی کی روایت ہے کہ مجاہد  نے کہا،اگر میں نے عبداللہ بن مسعود ؄ کی قرات لی ہوتی ، توقرآن کے بارے میں ابن عباس؄ سے بہت کچھ پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آتی[2] ۔''
ابن جریر  نے ابن ابی ملیکہ[3] سے روایت کیاہے کہ میں نےمجاہد  کودیکھا کہ اپنے کاغذ لئے ابن عباس ؄ کے پاس پہنچے اور تفسیر قرآن کے بارے میں سوال کرنا شروع کیا۔ ابن عباس ؄ نے فرمایا، لکھتے جاؤ اسی طرح مجاہد نے پوری تفسیر پوچھ لی۔ اسی لئے سفیان ثوری  کہاکرتے تھے۔'' جب مجاہد ؄ سے تفسیر ملے ، تویہ تمہارے لئے کافی ہے[4]''۔
اسی طرح دوسرے تابعین و تبع تابعین ہیں، جن کاپایہ تفسیر میں بلند ہے، مثلاً سعید بن جبیر ؄ عکرمہ مولیٰ ابن عباس ؄ عطاء بن ابی رباح ، حسن[5] بصری ،مسروق بن[6] الاجدع، سعید بن المسیب ،ابو العالیہ[7]، ربیع[8] ،قتادہ ضحاک[9]، بن مزاحم وغیرہ اور ان کے بعد کے علماء صالحین۔''



[1] تفسیر ابن جریر ص ۴۰جلد۱۔
[2] شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ اس میں تشریح الفاظ بھی ساتھ ہوں گے ۔
[3] عبداللہ بن عبید اللہ بن ابی ملیکہ  تابعی (تہذیب)
[4] تفسیر ابن جریر ص ۴۰ج ۱۔
[5] امام حسن بن ابی الحسن البصری ابو سعید کنیت مشہور شخصیت ، وفات ۱۱۰ھ(تہذیب صفحہ ۲۶۳جلد۲۔)
[6] ابو عائشہ مسروق بن الاجدع الکوفی تابعی۔وفات ۶۳ھ۔
[7] ابو العالیہ رفیع بن مہران البصری کبار تابعین سے تھے۔وفات ۹۰ھ۔
[8] ربیع بن انس الکندی تابعی ہیں، وفات ۱۳۹ھ۔
[9] ابو القاسم ضحاک بن مزاحم الخراسانی ۔ یہ بزرگ بھی تابعی ہیں۔ تفسیر میں ان کی زیادہ شہرت تھی۔وفات ۱۰۵ھ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
مختلف اقوال میں تطبیق کی ضرورت

آیت کی تفسیر میں ان حضرات کے اقوال کرنا چاہیئے ، مگر ان اقوال کے مختلف لفظ دیکھ کر بے علم لوگ اس وہم میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ان کاآپس میں اختلاف ہے، اور اسی وہم کی بناپر ان اقوال کواختلافات کہہ کر پیش کرن لگتے ہیں، حالانکہ واقعہ یہ نہیں ہوتا ۔ کسی قول میں چیز کے لازم یانظیر کوبیان کیاہوتا ہے، اور کسی قول میں بعینہ اسی چیز کاتذکرہ ہوتاہے۔ الفاظ تومختلف ہوتے ہیں، مگر معناً ان میں اختلاف نہیں ہوتا، بلکہ ایک ہی چیز کاجدا جدا لفظوں میں بیان و اظہار ہوتاہے۔ سلف کی تفسیروں میں ایسا بہت نظر آتا ہے۔ لہذا اسے سمجھنا اور خیال میں رکھنا چاہیئے۔ واللہ الھادی !
شعبہ[1] بن الحجاج  وغیرہ کہتے ہیں، تابعین کے اقوال جب فروع احکام میں حجت نہیں، تو تفسیر قرآن میں کیونکر حجت ہوسکتے ہیں؟ مطلب یہ ہے کہ خلاف جانے والوں پر حجت نہیں ہوں گے،اور یہ صحیح ہے، لیکن جب تابعین کااجماع ہوجائے ، توبلاشبہ وہ حجت ہے ۔ ہاں جب ان میں اختلاف ہو، توایک تابعی کاقول نہ دوسرے تابعی پر حجت ہوگا، نہ بعد والوں پر بلکہ ایسی صورت میں تفسیر کرتے ہوئے قرآن و سنت کی زبان کو ،عام لغت عرب کو ، یا اقوال صحابہ ؄ کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔


[1] حافظ حدیث ابو بسطام شبعۃ بن الحجاج الواسطی البصری۔وفات ۱۶۰ھ تفصیلات کے لئے دیکھو (تہذیب ص ۳۳۸۔۳۴۶جلد۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
تفسیر بالرائے حرام ہے

لیکن محض رائے سے من گھڑت تفسیر کرنا، حرام ہے ابن عباس ؄ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' جو شخص بغیر علم کے قرآن میں گفتگو کرتاہے، اپنے لئے دوزخ میں ٹھکانا بنالے''۔یہی حدیث ایک اور طریقہ سے بھی ابن عباس ؄ سے روایت ہوئی ہے[1]۔ سنن ترمذی کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کوئی اپنی رائے سے قرآن میں کچھ کہے اور اس کا کہنا صحیح ہو، توبھی وہ غلطی کا مرتکب ہے''۔ ترمذی نے اس حدیث کو غریب''بتایا ہے[2]،اور بعض علماء حدیث نے اس کے ایک راوی سہیل  بن ابی حزم کے ثقہ ہونے میں کلام کیاہے[3]۔
ممانعت کی انہی حدیثوں کی بناپر بعض اہل علم نے روایت کیاہے کہ نبی ﷺ کے صحابہ اس بارے میں سخت تھے کہ کوئی شخص بغیر علم کے تفسیر قرآن کرنے بیٹھ جائے ، مجاہد اورقتادہ و غیر علماء نے بیشک تفسیریں کی ہیں، لیکن ان کے حق میں گمان نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے بغیر علم کے یامحض اپنی رائے سے تفسیر کردی ہے، اور کھلی بات ہے کہ جو شخص محض اپنی رائے و خیال سے تفسیر کرنے پر آمادہ ہوجاتاہے،ایک ایسی ذمہ داری اپنے سر لے لیتا ہے، جس کااسے کوئی علم نہیں ، اور ایسی راہ چلتا ہے جس کا اسے حکم نہیں دیاگیا ۔ اب اگر وہ کوئی تفسیر صحیح بھی کر جاتا ہے، تو بھی غلطی ہی میں پڑا رہتاہے،کیونکہ سرے سے ہی غلط راہ چلا ہے۔ اس کی مثال ایسے شخص کی ہے جوجہل کی حالت میں لوگوں کے فیصلے کرنے بیٹھ جاتا ہےاور دوزخ میں جاگرتا ہے، اگرچہ اتفاق سے ا س کافیصلہ فی نفسہ درست بھی ہو۔ یہ ضرور ہے کہ صحیح فیصلے کی صورت میں جرم اس سے ہلکارہے گا اگر فیصلہ بھی غلط ہو!



[1] مشکوۃ کتاب العلم فصل دوسری ۔
[2] یعنی ایک سند والی روایت ۔
[3] مشکوۃ ایضاً بروایت حضرت جندب؄۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
قرآن حکیم سے استشہاد

یہ اصول قرآن مجید میں بھی ملتا ہے،دیکھیے بدکاری کاالزام لگانے والوں کو خدا نے جھوٹا قرار دیاہے۔
فرمایا :
فَاِذْ لَمْ یاْتُوْا بِالشُّہَدَاۗءِ فَاُولٰۗىِٕكَ عِنْدَ اللہِ ہُمُ الْكٰذِبُوْنَ (النور۔۲:۱۳)
' ' اگر (زنا کے الزام کے لئے )چار گواہ لاسکین توالزام لگانے والے جھوٹے ہیں ''۔
پس شاہد نہ لانے والابہتان تراش ، جھوٹا ہے ، اگرچہ فی نفسہ بدکاری کے مرتکب ہی پر الزام لگا رہا ہو، کیونکہ ایسی بات منہ سے نکالتا ہے جو اس کے لئے جائز نہیں اور ایسی بات کہتا ہے ، جس کااسے علم نہیں ، یا جسے ثابت نہیں کرسکتا ۔ واللہ اعلم ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
سلف صالحین کااحتیاط

اسی لئے سلف صالحین اسی تفسیر سے قطعی گریز کرتے تھے ، جس کاعلم نہیں ہوتا تھا۔ شعبہ  کی روایت ہے کہ ابوبکر صدیق ؄ نے فرمایا '' کون زمین مجھے اٹھائے گی اور کون آسمان مجھ پر سایہ کرے گا اگر کتاب اللہ میں ایسی بات کہوں ، جس کامجھے علم نہیں[1]''۔امام ابو عبید ابراہیم تمیمی  سے روایت کرتے ہیں کہ ابوبکر صدیق ؄ سے وفاکھۃ و ابا (عبس)کے بارے میں سوال کیاگیا، جواب میں کہنے لگے '' کون زمین مجھے اٹھائے گی اور کون مجھ پر سایہ کرے گا، اگر کتاب اللہ میں ایسی بات نکالوں جس کامجھے علم نہیں ۔
نیز امام ابو عبید بن[2] سلام  ہی حضرت انس ؄ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق ؄ منبر پر تھے کہ پڑھا ''و فاکھۃ و ابا'' پھرکہنے لگے '' فاکھۃ تو ہم جانتے ہیں ، مگر اب، کیاہے؟پھر کچھ سوچ کرکہنے لگے'' اے عمر ! خواہ مخواہ کی کرید اسی کوکہتے ہیں!'' امام عبد بن حمید  سے انس ؄ سے روایت کیاہے کہ ہم حضرت عمر ؄ کے پاس موجود تھے۔ہم نے دیکھا ان کے کرتے کی پیٹھ پر چار پیوندلگے ہیں۔ پھر انہوں نے پڑھا ''و فاکھۃ و ابا '' اور کہنے لگے '' یہ اب کیاہے''؟ پھر خود ہی کہا'' اسی کوتکلف کہتے ہیں تو اگر نہیں جانتا توحرج بھی کیاہے[3]''۔
ان روایتوں کامطلب یہ ہے کہ حضرت صدیق ؄ اور حضرت فاروق ؄ کے سامنے اب کی کیفیت سے بحث تھی ،ورنہ ظاہر ہے، جانتے تھے کہ اب زمین کی ایک نبات ہے۔ اب کا نبات ہونا اس سے بھی ظاہر ہے کہ خدا فرماتا ہے :
فَاَنْۢبَتْنَا فِیہَا حَبًّا وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا وَّزَیتُوْنًا وَّنَخْلًاوَّحَدَاۗىِٕقَ غُلْبًا(عبس)
'' پھر اگایا ہم نے اس میں اناج اور انگور اور سبزیاںاورزیتون اور کھجوریں اورباغ گھنے''۔
ابن جریر  کی روایت ہے کہ '' ابن عباس ؄ سے ایک ایسی آیت کے بارے میں سوال کیاگیا کہ اگر تم میں سے کسی سے کہاجاتا ، توضرور جواب دیتا ، مگر ابن عباس ؄ نے کچھ کہنے سے صاف انکار کر دیا[4]۔ اس روایت کی اسناد صحیح ہے،امام ابوعبید نے ابن ابی ملیکہ  سے روایت کیاہے کہ ایک شخص نے ابن عباس ؄ سے سوال کیا: اس ارشاد قرآنی میں دن سے کیامراد ہے؟فی یوم کان مقدارہ الف سنۃ (الم سجدہ ) (ایسا دن جس کااندازہ ہزار سال ہے) توابن عباس ؄ نے اس شخص سے الٹے سوال کیا اور یہ دن کونسا ہے:یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ (الحاقہ)؟ اس پر وہ شخص کہنے لگا ،میں پوچھ رہا ہوں تاکہ آپ مجھے بتائیں'' ابن عباس ؄ نے جواب دیا ''۔ یہ دو دن ہیں ، جن کاذکر خدا نے اپنی کتاب میں کیاہے، اور خدا ہی ان دنوں کی حقیقت بہتر جانتا ہے[5]''۔
ابن جریر  کی روایت ہے کہ طلق بن حبیب ؄ حضرت جندب ؄ بن عبداللہ کے پاس آئے اور قرآن کی ایک آیت کے بارے میں سوال کیا۔ جندب؄ نے جواب دیا ''میں تمہیں قسم دیتاہوں کہ اگر مسلمان ہو،تومیرے پاس[6] سے اٹھ جاؤ!!'' (یاکہاکہ میرے پاس مت بیٹھو)
امام مالک[7]  کہتے ہیں ،یحییٰ بن سعید نے سعید بن المسیب کے بارے میں بیان کیاکہ جب ان سے کسی قرآنی آیت کی تفسیر پوچھی جاتی ،توفرماتے '' ہم قرآن کے معاملے میں کچھ نہیں کہتے[8]۔'' انہی یحییٰ بن سعید  کاقول ہے کہ سعید بن المسیب  قرآن کے معلوم حصوں پر ہی گفتگو کرتے تھے[9]۔عمرو بن مرہ  کی روایت ہے کہ ایک شخص نے سعید بن المسیب  سے کسی آیت کی تفسیر دریافت کی، توکہنے لگے '' قرآن کے بارے میں مجھ سے نہیں بلکہ اس شخص سے سوال کرو، جس کادعویٰ ہے کہ قرآن کی کوئی بات بھی اس سے پوشیدہ نہیں ''۔ یہ اشارہ عکرمہ  کی طرف تھا[10] ۔یزید بن ابی یزید کہتے ہیں کہ ہم سعید بن المسیب  سے حلال و حرام کے بارے میں سوال کیاکرتے تھے، اس چیز کاانہیں سب سے زیادہ علم تھا، لیکن جب ہم کسی آیت کی تفسیر دریافت کرتے ،تو اس طرح چپ ہوجاتے ،گویا سنا ہی نہیں[11]۔
ابن جریر  کی روایت ہے کہ عبید اللہ بن  عمر کہاکرتے تھے ۔ میں نے فقہاء مدینہ کو دیکھا ہے کہ وہ قرآن کی تفسیر کے معاملے کو بہت بڑا سمجھتے تھے۔یہ فقہاء سالم بن[12] عبداللہ قاسم بن محمد  سعید بن المسیب اور نافع دیلمی ہیں[13]۔
امام ابوعبید  روایت کرتے ہیں کہ ہشام بن عروہ کہاکرتے تھے'' میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ میرے والد ،کتاب اللہ کی کسی آیت کی تفسیرکرتے ہوں[14]۔''
محمد بن سیرین  کابیان ہے کہ میں نے عبیدہ  سلمانی سے ایک آیت قرآنی کے بارے میں دریافت کیا، توکہنے لگے'' وہ لوگ چلے گئے ،جو جانتے تھے کہ قرآن کس بارے میں نازل ہوا ہے، تمہارے لئے یہ کافی ہے کہ خدا سے ڈرو، اور سیدھی راہ چلتے رہو!''
امام ابو عبید  نے اپنی سند سے مسلم بن یسار کایہ قول نقل کیا ہے۔ ''جب تم اللہ کے کلام میں گفتگو کرنے لگو توٹھہر کر دیکھو کہ اس کے آگے کیاہے اور پیچھے کیاہے''۔
ابراہیم  کہتے ہیں '' ہمارے اساتذہ تفسیر کرنے سے بچتے اور ڈرتے تھے''۔
شعبی  کہاکرتے تھے '' بخدا کوئی آیت ایسی نہیں ، جس کے بارے میں دریافت نہ کرچکا ہوں، لیکن تفسیر تو یہ خدا کی طرف سے روایت ہے ''۔
یہ بات مسروق فرمایا کرتے تھے'' تفسیر کرنے سے بچو اور ڈرو،کیونکہ اللہ کی طرف سے روایت ہے ''۔
یہ اور ایسے ہی آثار صحیحہ کامطلب یہ ہے کہ سلف صالحین بغیر علم کے تفسیر میں دخل نہیں دیتے تھے، لیکن جس شخص کو لغت و شرع کے اعتبار سے علم حاصل ہو، اس کے لئے تفسیر کرنے میں مضائقہ نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ انہی سلف سے تفسیریں بھی روایت ہوتی ہیں اور دونوں باتوں میں کوئی منافات نہیں۔ وہ بولتے تھے جب جانتے تھے، اور جس کا علم نہیں ہوتا تھا، اس پر سکوت اختیار کرلیتے تھے اور یہی سب پر واجب بھی ہے لیکن جس طرح بے علمی کی حالت میں سکوت واجب ہے، اسی طرح علم کی صورت میں سوال ہونے پر جواب دینا بھی واجب ہے، کیونکہ خدا فرماتا ہے :
لَتُبَینُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُوْنَہٗ (آل عمران ع :۱۹)
'' لوگوں کے لئے ضروری ہے، ظاہر کریں(قرآن کو )اور اسے چھپائیں نہیں''۔
کیونکہ متعدد طرق سے مروی حدیث میں ارشاد ہوا ہے'' جس شخص سے علم کے بارے میں سوال کیاجاتا ہے ، اور وہ علم کو چھپا جاتا ہے، قیامت کے دن اس کے منہ میں آتشیں لگام دی جائیگی[15]۔ابن جریر  نے اپنی اسناد سے روایت کیاہے کہ ابن عباس ؄ نے کہا'' تفسیر چار طرح پر ہے، وہ تفسیر جسے عرب اپنی لغت کی راہ سے جانتے ہیں ۔ وہ تفسیر، جس سے جہل کسی کو معاف نہیں۔ وہ تفسیر جس کاعلم علماء کو ہے، اور وہ تفسیر جسے خدا کے سوا کوئی نہیں[16] جانتا ''۔ واللہ سبحانہ و تعالی اعلم ۔




[1] تفسیر ابن جریر ص ۳۵ج۱۔
[2] اما م ابوعبید  قاسم بن سلام ہروی ،تفسیر، حدیث ،لغت فقہ کے امام اسلامی اقتصادیات پر آپ کی کتاب '' الاموال'' ہے۔جو اپنے موضوع پر بہترین ہے۔مصر میں طبع ہوچکی ہے۔وفات ۲۲۳ھ۔(ابن خلکان ص ۴۱۹جلد۱)
[3] اس مضمون کی روایات تفسیر ابن جریر میں بھی ہیں۔ ص ۵۹۔۶۰ج ۳۰ طبع ثانی مصر۔
[4] تفسیر ابن جریر ص ۳۸جلداول۔
[5] نیز تفسیر ابن جریر ص ۷۲ج۲۹طبع ثانی مصر۔
[6] تفسیر ابن جریر ص ۳۸ج۱۔
[7] امام مالک بن انس  مالکی مسلک کے مؤسس ۔ وفات ۱۷۹ھ۔
[8] تفسیر ابن جریر ص ۳۸ج۱۔
[9] ایضاً ص ۳۸ ج۱۔
[10] تفسیر ابن جریر ص ۳۸ج ۱۔
[11] ایضاً ص ۳۸۔
[12] سالم بن عبداللہ بن عمر بن الخطاب وفات ۱۰۶ھ(تہذیب ص ۴۳جلد۳)
[13] تفسیر ابن جریر ص ۳۷ج ۱۔
[14] تفسیر ابن جریر ص ۳۸ ج۱۔
[15] مشکوۃ کتاب العلم فصل دوسری بحوالہ جامع ترمذی وغیرہ ۔
[16] تفسیر ابن جریر ص ۳۴طبع ثانی مصطفیٰ البابی مصر ۱۳۷۳ھ۔۱۹۵۴ء۔

=======================================​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
اخی محمد آصف مغل کا شکریہ
اللہ تعالی ان کی دین سے محبت قبول کرے. آمین
 
Top