سلف صالحین کااحتیاط
اسی لئے سلف صالحین اسی تفسیر سے قطعی گریز کرتے تھے ، جس کاعلم نہیں ہوتا تھا۔ شعبہ کی روایت ہے کہ ابوبکر صدیق نے فرمایا
'' کون زمین مجھے اٹھائے گی اور کون آسمان مجھ پر سایہ کرے گا اگر کتاب اللہ میں ایسی بات کہوں ، جس کامجھے علم نہیں[1]''۔امام ابو عبید ابراہیم تمیمی سے روایت کرتے ہیں کہ ابوبکر صدیق سے
وفاکھۃ و ابا (عبس)کے بارے میں سوال کیاگیا، جواب میں کہنے لگے
'' کون زمین مجھے اٹھائے گی اور کون مجھ پر سایہ کرے گا، اگر کتاب اللہ میں ایسی بات نکالوں جس کامجھے علم نہیں ۔
نیز امام ابو عبید بن[2] سلام ہی حضرت انس سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق منبر پر تھے کہ پڑھا
''و فاکھۃ و ابا'' پھرکہنے لگے ''
فاکھۃ تو ہم جانتے ہیں ، مگر
اب، کیاہے؟پھر کچھ سوچ کرکہنے لگے
'' اے عمر ! خواہ مخواہ کی کرید اسی کوکہتے ہیں!'' امام عبد بن حمید سے انس سے روایت کیاہے کہ ہم حضرت عمر کے پاس موجود تھے۔ہم نے دیکھا ان کے کرتے کی پیٹھ پر چار پیوندلگے ہیں۔ پھر انہوں نے پڑھا
''و فاکھۃ و ابا '' اور کہنے لگے '' یہ
اب کیاہے''؟ پھر خود ہی کہا
'' اسی کوتکلف کہتے ہیں تو اگر نہیں جانتا توحرج بھی کیاہے[3]''۔
ان روایتوں کامطلب یہ ہے کہ حضرت صدیق اور حضرت فاروق کے سامنے
اب کی کیفیت سے بحث تھی ،ورنہ ظاہر ہے، جانتے تھے کہ
اب زمین کی ایک نبات ہے۔ اب کا نبات ہونا اس سے بھی ظاہر ہے کہ خدا فرماتا ہے :
فَاَنْۢبَتْنَا فِیہَا حَبًّا وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا وَّزَیتُوْنًا وَّنَخْلًاوَّحَدَاۗىِٕقَ غُلْبًا(عبس)
'' پھر اگایا ہم نے اس میں اناج اور انگور اور سبزیاںاورزیتون اور کھجوریں اورباغ گھنے''۔
ابن جریر کی روایت ہے کہ
'' ابن عباس سے ایک ایسی آیت کے بارے میں سوال کیاگیا کہ اگر تم میں سے کسی سے کہاجاتا ، توضرور جواب دیتا ، مگر ابن عباس نے کچھ کہنے سے صاف انکار کر دیا[4]۔ اس روایت کی اسناد صحیح ہے،امام ابوعبید نے ابن ابی ملیکہ سے روایت کیاہے کہ ایک شخص نے ابن عباس سے سوال کیا:
اس ارشاد قرآنی میں دن سے کیامراد ہے؟فی یوم کان مقدارہ الف سنۃ (الم سجدہ ) (
ایسا دن جس کااندازہ ہزار سال ہے) تو
ابن عباس نے اس شخص سے الٹے سوال کیا اور یہ دن کونسا ہے:
یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ (الحاقہ)؟ اس پر وہ شخص کہنے لگا ،میں پوچھ رہا ہوں تاکہ آپ مجھے بتائیں'' ابن عباس نے جواب دیا ''۔
یہ دو دن ہیں ، جن کاذکر خدا نے اپنی کتاب میں کیاہے، اور خدا ہی ان دنوں کی حقیقت بہتر جانتا ہے[5]''۔
ابن جریر کی روایت ہے کہ طلق بن حبیب حضرت جندب بن عبداللہ کے پاس آئے اور قرآن کی ایک آیت کے بارے میں سوال کیا۔ جندب نے جواب دیا ''
میں تمہیں قسم دیتاہوں کہ اگر مسلمان ہو،تومیرے پاس[6] سے اٹھ جاؤ!!'' (یاکہاکہ میرے پاس مت بیٹھو)
امام مالک[7] کہتے ہیں ،یحییٰ بن سعید نے سعید بن المسیب کے بارے میں بیان کیاکہ جب ان سے کسی قرآنی آیت کی تفسیر پوچھی جاتی ،توفرماتے
'' ہم قرآن کے معاملے میں کچھ نہیں کہتے[8]۔'' انہی یحییٰ بن سعید کاقول ہے کہ سعید بن المسیب قرآن کے معلوم حصوں پر ہی گفتگو کرتے تھے[9]۔عمرو بن مرہ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے سعید بن المسیب سے کسی آیت کی تفسیر دریافت کی، توکہنے لگے
'' قرآن کے بارے میں مجھ سے نہیں بلکہ اس شخص سے سوال کرو، جس کادعویٰ ہے کہ قرآن کی کوئی بات بھی اس سے پوشیدہ نہیں ''۔ یہ اشارہ عکرمہ کی طرف تھا[10] ۔یزید بن ابی یزید کہتے ہیں کہ ہم
سعید بن المسیب سے حلال و حرام کے بارے میں سوال کیاکرتے تھے، اس چیز کاانہیں سب سے زیادہ علم تھا، لیکن جب ہم کسی آیت کی تفسیر دریافت کرتے ،تو اس طرح چپ ہوجاتے ،گویا سنا ہی نہیں[11]۔
ابن جریر کی روایت ہے کہ عبید اللہ بن عمر کہاکرتے تھے ۔
میں نے فقہاء مدینہ کو دیکھا ہے کہ وہ قرآن کی تفسیر کے معاملے کو بہت بڑا سمجھتے تھے۔یہ فقہاء سالم بن[12] عبداللہ قاسم بن محمد سعید بن المسیب اور نافع دیلمی ہیں[13]۔
امام ابوعبید روایت کرتے ہیں کہ ہشام بن عروہ کہاکرتے تھے
'' میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ میرے والد ،کتاب اللہ کی کسی آیت کی تفسیرکرتے ہوں[14]۔''
محمد بن سیرین کابیان ہے کہ میں نے عبیدہ سلمانی سے ایک آیت قرآنی کے بارے میں دریافت کیا، توکہنے لگے
'' وہ لوگ چلے گئے ،جو جانتے تھے کہ قرآن کس بارے میں نازل ہوا ہے، تمہارے لئے یہ کافی ہے کہ خدا سے ڈرو، اور سیدھی راہ چلتے رہو!''
امام ابو عبید نے اپنی سند سے مسلم بن یسار کایہ قول نقل کیا ہے۔
''جب تم اللہ کے کلام میں گفتگو کرنے لگو توٹھہر کر دیکھو کہ اس کے آگے کیاہے اور پیچھے کیاہے''۔
ابراہیم کہتے ہیں
'' ہمارے اساتذہ تفسیر کرنے سے بچتے اور ڈرتے تھے''۔
شعبی کہاکرتے تھے
'' بخدا کوئی آیت ایسی نہیں ، جس کے بارے میں دریافت نہ کرچکا ہوں، لیکن تفسیر تو یہ خدا کی طرف سے روایت ہے ''۔
یہ بات مسروق فرمایا کرتے تھے
'' تفسیر کرنے سے بچو اور ڈرو،کیونکہ اللہ کی طرف سے روایت ہے ''۔
یہ اور ایسے ہی آثار صحیحہ کامطلب یہ ہے کہ سلف صالحین بغیر علم کے تفسیر میں دخل نہیں دیتے تھے، لیکن جس شخص کو لغت و شرع کے اعتبار سے علم حاصل ہو، اس کے لئے تفسیر کرنے میں مضائقہ نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ انہی سلف سے تفسیریں بھی روایت ہوتی ہیں اور دونوں باتوں میں کوئی منافات نہیں۔ وہ بولتے تھے جب جانتے تھے، اور جس کا علم نہیں ہوتا تھا، اس پر سکوت اختیار کرلیتے تھے اور یہی سب پر واجب بھی ہے لیکن جس طرح بے علمی کی حالت میں سکوت واجب ہے، اسی طرح علم کی صورت میں سوال ہونے پر جواب دینا بھی واجب ہے، کیونکہ خدا فرماتا ہے :
لَتُبَینُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُوْنَہٗ (آل عمران ع :۱۹)
'' لوگوں کے لئے ضروری ہے، ظاہر کریں(قرآن کو )اور اسے چھپائیں نہیں''۔
کیونکہ متعدد طرق سے مروی حدیث میں ارشاد ہوا ہے
'' جس شخص سے علم کے بارے میں سوال کیاجاتا ہے ، اور وہ علم کو چھپا جاتا ہے، قیامت کے دن اس کے منہ میں آتشیں لگام دی جائیگی[15]۔ابن جریر نے اپنی اسناد سے روایت کیاہے کہ ابن عباس نے کہا
'' تفسیر چار طرح پر ہے، وہ تفسیر جسے عرب اپنی لغت کی راہ سے جانتے ہیں ۔ وہ تفسیر، جس سے جہل کسی کو معاف نہیں۔ وہ تفسیر جس کاعلم علماء کو ہے، اور وہ تفسیر جسے خدا کے سوا کوئی نہیں[16] جانتا ''۔
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم ۔
[1] تفسیر ابن جریر ص ۳۵ج۱۔
[2] اما م ابوعبید قاسم بن سلام ہروی ،تفسیر، حدیث ،لغت فقہ کے امام اسلامی اقتصادیات پر آپ کی کتاب '' الاموال'' ہے۔جو اپنے موضوع پر بہترین ہے۔مصر میں طبع ہوچکی ہے۔وفات ۲۲۳ھ۔(ابن خلکان ص ۴۱۹جلد۱)
[3] اس مضمون کی روایات تفسیر ابن جریر میں بھی ہیں۔ ص ۵۹۔۶۰ج ۳۰ طبع ثانی مصر۔
[4] تفسیر ابن جریر ص ۳۸جلداول۔
[5] نیز تفسیر ابن جریر ص ۷۲ج۲۹طبع ثانی مصر۔
[6] تفسیر ابن جریر ص ۳۸ج۱۔
[7] امام مالک بن انس مالکی مسلک کے مؤسس ۔ وفات ۱۷۹ھ۔
[8] تفسیر ابن جریر ص ۳۸ج۱۔
[9] ایضاً ص ۳۸ ج۱۔
[10] تفسیر ابن جریر ص ۳۸ج ۱۔
[11] ایضاً ص ۳۸۔
[12] سالم بن عبداللہ بن عمر بن الخطاب وفات ۱۰۶ھ(تہذیب ص ۴۳جلد۳)
[13] تفسیر ابن جریر ص ۳۷ج ۱۔
[14] تفسیر ابن جریر ص ۳۸ ج۱۔
[15] مشکوۃ کتاب العلم فصل دوسری بحوالہ جامع ترمذی وغیرہ ۔
[16] تفسیر ابن جریر ص ۳۴طبع ثانی مصطفیٰ البابی مصر ۱۳۷۳ھ۔۱۹۵۴ء۔
=======================================