• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصول تفسیر-ابن تیمیہ رحمہ اللہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
اجماع اہل فن سے حدیث قطعی صحیح ہوجاتی ہے
اسی لئے تمام اسلامی فرقوں کے جمہور اہل علم کا اس بارے میں اتفاق ہوچکا ہے کہ خبر واحد پر بھی اگر امت قبول و تصدیق کے ساتھ عمل کرنے لگے تو اس حدیث کا حکم فرض قرار دیا جائے گا۔ امام ابو حنیفہ  امام مالک  امام شافعی  اور امام احمد کے جن متبعین نے اصول فقہ میں کتابیں تصنیف کی ہیں،انہوں نے اس بات کابھی صاف ذکر کر دیا ہے۔
ہاں متاخرین میں تھوڑے آدمیوں نے اس مسلک سے اختلاف کیاہے، اور متکلمین[1] کے مسلک پر چل پڑے ہیں، لیکن اکثر متکلمین اس بارے میں فقہاء سے اور اصحاب حدیث و سلف سے متفق ہیں۔ اکثر اشاعرہ بھی اسی کے قائل ہیں، جیسے ابواسحاق[2]، اور ابن فورک[3] البتہ ابن الباقلانی[4] کو اس سے انکار ہے۔ ابو المعالی[5]، ابو حامد[6]، ابن عقیل[7]، ابن جوزی[8] ابن خطیب[9] اور آمدی[10] وغیرہ نے ان الباقلانی کی پیروی کی ہے۔ پہلے مسلک کابیان ائمہ شافعیہ میں سے شیخ ابو حامد[11]، ابو الطیب[12] ابو اسحاق[13] وغیرہ نے کیاہے، مالکیوں میں سے قاضی عبدالوہاب[14] وغیرہ نے حنفیوں میں شمس الدین سرخسی[15] وغیرہ[16] نے اور حنبلیوں میں سے ابو الخطاب[17] اور ابو الحسن بن الزاغوانی[18] وغیرہ نے کیاہے۔



[1] یہاں متکلمین سے علماء کی وہ جماعت مراد ہے جو عقائد کے مسائل میں امام ابوالحسن علی بن اسماعیل الاشعری (وفات:۳۲۴ھ) اور علامہ ابو منصور محمد بن الماتریدی (وفات:۳۳۳ھ) کے مکاتیب فکر سے متعلق ہے۔ اکثر شوافع اور مالکی اول الذکر سے منسلک ہیں، اور ثانی الذکر سے حنفیہ کرام۔ چند مسائل میں دونوں کا اختلاف ہے اور اکثر میں متفق ہیں۔ اہل حدیث ان دونوں سے بہت سے اُمور میں الگ ہیں۔ ان کے عقائد ی مسلک کی وضاحت مصنف علام  اور ان کے شاگرد حافظ ابن قیم نے فرمائی ہے لیکن یہ تینوں گروہ اہل السنۃ والجماعۃ ہی ہیں۔
[2] فقہائے شافعیہ میں ابو اسحاق متعدد ہیں۔ ان میں سے ابراہیم بن محمد اسفرائنی اور ابراہیم بن علی شیرازی بھی ہیں اور یہ دونوں مسئلہ زیربحث میں مصنف رحمہ اللہ کے ہم مسلک ہیں۔ اول الذکر کا مسلک صراحۃً صواعق مرسلہ (ص:۳۷۳ جلد۲) میں مذکور ہے۔ اور ثانی الذکر نے اصول فقہ کی اپنی کتاب اللمع (ص:۴۷) میں اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ علامہ ابواسحاق اسفرائنی کی وفات ۴۱۸ھ میں ہوئی۔ اور علامہ ابو اسحاق شیرازی کا سن وفات ۴۷۶ھ ہے۔ رحمہما اللہ تعالیٰ۔ (دونوں کے حالات ابن خلکان ص:۴ جلد:۱ میں دیکھیے)
[3] محمد بن حسن بن فورک ابوبکر شافعی، اشعری مدرسہ فکر کے مشہور عالم، قریباً سو کتابوں کے مصنف، ان کی ایک کتاب ''مشکل الحدیث'' حیدرآباد دکن میں طبع ہوئی ہے جو کلامی طرز پر ہے۔ وفات ۴۰۶ھ (طبقات الشافعیہ للسبکی ص:۵۲ة۵۶ جلد۲)
[4] قاضی ابوبکر محمد بن الطیب باقلانی اشعری علم کلام کے امام، بہترین مناظر، اپنے دور کے ملحدین کے رَد میں اچھی کتابوں کے مصنف، اعجاز القرآن ان کی مشہور کتاب علمی حلقوں میں پسندیدہ ہے۔ حال ہی میں ان کی ایک اور کتاب التمہید فی الرد علی الملاحدۃ و القرامطۃ و الرافضۃ مصر میں طبع ہوئی ہے۔ وفات ۴۰۳ھ (ابن خلکان ص:۴۸۱۔ جلد۱)
[5] علامہ عبدالملک بن عبداللہ جوینی امام الحرمین کے لقب سے شہرت ہے، اکابر اشاعرہ کے استاد۔ وفات:۴۷۸ھ (ابن خلکان ص:۲۲۷۔ جلد ۱۔ السبکی۔ ص:۲۴۹، ۲۸۲۔ جلد۳)
[6] علامہ ابو حامد محمد بن محمد غزالی۔ وفات:۵۰۵ھ۔
[7]'1 ابوالوفا علی بن عقیل البغدادی مشہور حنبلی فقیہ، ابویعلی کے شاگرد، وفات:۵۱۳ھ
[8] علامہ ابوالفرج جمال الدین عبدالرحمن بن علی البغدادی، الشہیر بابن الجوزی، نامور حافظ حدیث، متکل، فقیہ، مورخ، واعظ، کثیر التصانیف، وفات:۵۹۷ھ۔ (ابن خلکان۔ ص:۲۷۹۔ جلد۱)
[9] ابن الخطیب العلامہ فخر الدین م حمد بن عمر الرازی تفسیر کبیر کے مصنف، شافعی المسلک، اشعری العقیدہ، وفات:۶۰۶ھ۔
[10] ابوالحسن علی بن محمد السیف الآمدی عقائد میں اشعری، فروع میں شافعی، جدلیات میں ماہر، اصول فقہ اور علم کلام کے سرکردہ عالم، وفات ۶۳۱ھ۔ (ابن خلکان ص:۳۳۔ جلد۱)
[11] احمد بن محمد اسفرائنی، شافعی المسلک، سینکڑوں شاگرد حلقہ درس سے مستفید ہوتے۔ وفات ۴۰۶ھ۔ (ابن خلکان۔ ص:۱۹۔ ج:۱)
[12] علامہ ابوالطیب طاہر بن عبداللہ الطبری الشافعی، فقہ و اصول کے مستند فاضل، شیخ ابواسحاق شیرازی کے استاذ، وفات:۴۵۰ھ۔ (ابن خلکان ص:۲۳۳ جلد۱)
[13] فقہائے شافعیہ میں ابواسحاق متعدد ہیں ان میں سے ابراہیم بن محمد اسفرائنی اور ابراہیم بن علی شیرازی بھی ہیں اور یہ دونوں مسئلہ زیر بحث میں مصنف کے ہم مسلک ہیں، اول الذکر کا مسلک صراحۃ صواعق مرسلہ (ص۳۷۳ جلد۲) میں مذکور ہے۔ اور ثانی الذکر نے اصول فقہ کی اپنی کتاب اللمع (ص:۴۷) میں اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ علامہ ابواسحاق اسفرائنی کی وفات ۴۱۸ھ میں ہوئی، اور علامہ ابواسحاق شیرازی کا سن وفات ۴۷۶ ہے۔ رحمہما اللہ تعالی۔ (دونوں کے حالات ابن خلکان ص:۴، جلد۱ میں دیکھیے)۔
[14] قاضی ابومحمد عبدالوہاب بن علی البغدادی مالکی مکتب فکر کے فاضل مصنف، عراق کے بعض شہروں میں سالہاسال تک عہدہ قضا پر فائز رہے، آخری عمر میں مصر چلے گئے اور وہیں وفات ہوئی ۴۲۲ھ (ابن خلکان ص:۳۰۴ جلد۱)
[15] شمس الائمہ محمد بن احمد السرخی حنفی فقہ و اصول کے مستند امام عمدہ اور مفید کتابوں کے مصنف، مشہور کتاب مبسوط انہی کی ہے، وفات ۴۳۸ھ (الفوائد البہیہ فی تراجم الحنفیہ ص:۶۴)
[16] صواعق (ص۳۷۳ جلد۲) میں بحوالہ مصنف علام، ابوبکر حصاص وغیرہ کو انہی میں شمار کیا۔
[17] ابوالخطاب محفوظ بن احمد البغدادی حنابلہ کے جلیل القدر منصف، قاضی ابویعلی کے شاگرد، وفات ۵۱۰ھ۔
[18] ابوالحسن علی بن عبداللہ الزاغوانی، حنابلہ کے شیخ، متعدد علوم میں مہارت رکھتے، وفات ۵۲۷ھ (شذرات)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
محدثین کے اجماع کی حیثیت
مگر خیال رہے کہ تصدیق حدیث کے جس اجماع سے حدیث ، یقینی ہوجاتی ہے، وہ علمائے حدیث کا اجماع ہے۔(یعنی جب ان کااجماع ہوجائے ، تو دوسرے کسی شخص کی تنقید کااعتبار نہیں ہوگا)جس طرح احکام کے اجماع میں، امر و نہی و اباحت کے علماء کا اجماع معتبر ہوتا ہے۔
مقصد یہ ہے، کہ جب کسی حدیث کی اتنی سندیں آجائیں کہ اس کے راویوں کو ایک دوسرے کے روایت کرنے کاپتہ نہ ہو، اور سب کا ارادۃً اتفاق بھی مشکل نظر آتا ہو، تو ایسی متعدد طرق سے مروی حدیث ، علم یقین بخشاکرتی ہے، لیکن اس قاعدے سے انہی لوگوں کو فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ جنہیں راویوں کے حالات کا علم بھی حاصل ہے۔ عام لوگ اس قاعدے سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
شواہد کی حیثیت
ایسے ہی موقعوں پر مجہول اور ضعیف الحفظ راویوں کی روایت سے مرسل احادیث سے بھی فائدہ اٹھایا جاتاہے، چنانچہ اہل علم اس قسم کی حدیثیں لکھ لیتے اور کہتے ہیں کہ یہ حدیثیں، شواہد کا کام دے سکتی ہیں۔ امام احمد  فرماتے ہیں میں کبھی کمزور راوی کی حدیث اس خیال سے لکھ لیتا ہوں کہ اس سے دوسری حدیثوں کو جانچ پڑتال میں کام لوں گا۔ قاضی مصر، عبداللہ بن[1] لہیعہ  اس قسم کے ایک راوی تھے، بے شمار حدیثوں کاسرمایہ رکھتے تھے اور خود بہترین آدمیوں میں شمار ہوتے تھے، لیکن جب کتابیں جل گئیں تو روایت میں ٹھوکریں کھانے لگے، پھر ان کی حدیثوں سے شواہد کاکام لیاجانے لگا، حالانکہ امام لیث بن[2] سعد  کے ہم رتبہ حافظ مانے جاتے ہیں، اور معلوم ہے لیث حدیث میں حجت و امام ہیں۔


[1] عبداللہ بن لہیعہ  کے حالات کے لئے دیکھیے تہذیب و تقریب ۱۲۔
[2] امام ابو الحارث لیث بن سعد بن عبدالرحمن المصری ، فقہ و حدیث کےامام ، آپ کے حالات میں حافظ ابن حجر عسقلانی  نے مستقل رسالہ لکھا ہے۔ جس کانام ''الرحمتہ الغیثیہ'' ہےمصر میں طبع ہوچکا ہے۔ وفات ۱۷۵ھ(ابن خلکان ص ۴۳۸جلد۱)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
علم ِعللِ الحدیث کامرتبہ
اور اہل ِعلم بالحدیث جس طرح ضعیف الحفظ راویوں کی حدیثوں سے شواہد کاکام لیتے ہیں، اسی طرح محتاط اور ثقہ راویوں کی حدیث کے بعض ٹکڑوں کو بھی ضعیف کہہ دیتے ہیں، جب ان کو دلائل سے معلوم ہوکہ یہ حصہ وہم یاغلط ہے۔ اس علم کانام، جس سے حدیث کے یہ سب پہلومعلوم کئے جاتے ہیں۔ '' علم علل الحدیث '' ہے، اور حدیث کے علوم میں اس علم کاپایہ بہت بلند ہے۔
یہ بات اس تشریح سےسمجھ میں آجائے گی کہ ایک محتاط و ثقہ راوی ایک حدیث روایت کرتاہے، مگر روایت میں کچھ غلطی بھی کرجاتا ہے۔'' علم علل الحدیث '' نہ ہوتا تو اس حدیث کو قبول کرلیاجاتا، کیونکہ راوی محتاط و ثقہ آدمی ہے، لیکن نہیں، یہ علم فوراً اس ثقہ راوی کی غلطی بتا دیتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
ثقہ راوی کی غلطی کے اسباب
ثقہ راوی سے غلطی کبھی ظاہری سبب سے ہوتی ہے اورکبھی غیر ظاہری سبب سے۔ مثلاً ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ نبی ﷺنے حضرت میمونہ ؄ سے نکاح، حالت احرام میں کیاتھا ، اور خانہ کعبہ میں دو رکعت نماز پڑھی تھی۔ اس کے بعد ابن عباس ؄ کی وہ روایت سامنے آجاتی ہے، جس میں کہاگیا ہے کہ میمونہ ؄ سے نکاح حالت احرام میں نہیں ہواتھا ، بلکہ احرام سے حلال ہوچکنے کی حالت میں[1] ہوا تھا،اور رسول اللہ ﷺنے کعبے میں دو رکعت نماز نہیں پڑھی تھی ۔ علل حدیث کاعالم فوراً جان جائے گا کہ اس روایت میں راوی سے غلطی ہوگئی ہے۔
اسی طرح معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چار عمرے کئے تھے، مگر عبداللہ بن عمر ؄ کی روایت میں آتا ہے کہ آپ نے رجب میں عمرہ کیاتھا۔ علل حدیث کا عالم سمجھ جائے گاکہ یہ راوی کی غلطی ہے۔
اسی طرح معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعے پر حالتِ امن میں تمتع[2]کیاتھا ، مگر ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عثمان ؄ نے حضرت علی ؄ سے کہاتھا کہ اس موقعہ پر ہم حالت خوف میں تھے۔ علم علل الحدیث کاعالم جانتا ہے کہ اس روایت میں بھی راوی کو ٹھوکر لگی ہے۔
اسی طرح بخاری کے بعض طرق روایت میں ہے کہ جہنم نہیں بھر گا، یہاں تک کہ خدا ایک نئی مخلوق[3]جہنم کے لئے بنادے گا، علم علل حدیث صاف بتا رہا ہے کہ اس روایت میں بھی راوی بہک گیا ہے۔


[1] شاید یہ بحث نفس نکاح میمونہ ؄ کے بارہ میں ہوکہ وہ بحالت احرام ہوا یااحرام سے حلال ہونے کے بعد جیسا کہ امام بخاری بھی روایت اپنی صحیح میں لائے ہیں رہا یہ مسئلہ کہ بحالت احرام نکاح کاحکم کیاہے؟سو اس کی تصریح اپنے رسالہ منسک حج میں مصنف علام  نے کی ہے کہ وہ ناجائز ہے ، آپ کے شاگرد حافظ ابن القیم  نے بھی زاد المعاد ص ۶ج۴ میں اس مسلک کو ترجیح دی اور حدیث زیر بحث وغیرہ دلائل پر مدلل لکھاہے۔ نیز دیکھیے فتح الباری ص ۵۸ج۵ واللہ اعلم (ع۔ ح)
[2] تمتع حج کاایک طریقہ ہے جس میں حج اور عمرے کا احرام الگ ہوتا ہے۔ یہ اصطلاحی معنی ہے، لغوی طور سے '' قران'' (ایک ہی احرام سے عمرہ اور حج کے ادا کرنے کی نیت کرنا)یہ بھی اس کااطلاق کیاگیا ہے۔ اس جگہ غالباً مراد بھی یہی ہے کیونکہ صحیح یہ ہے کہ نبی ﷺ کاحج '' قران'' تھا چنانچہ مصنف علام نے اپنے رسالہ منسک حج میں اس کی تصریح کی ہے نیز لکھا ہے کہ جن راویوں نے آپ ﷺ کا'' حج تمتع'' نقل کیاہے ان کامطلب بھی '' قران'' ہے (مرادھم بالتمتع القرآن کماثبت ذلک فی الصحاح(رسالہ منسک حج) (ع۔ح)
[3] جس حدیث کا یہ ٹکڑا مصنف علام قدس اللہ روحہ نے ذکر فرمایا ہے ، وہ کتاب التوحید کے باب ماجاء فی قول اللہ ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین میں ہے۔ اس بات کی غرض اللہ تعالی کے لئے رحمت کی صفت ثابت کرنا ہے۔ اس کے لئے امام بخاری  متعدد حدیثیں لائےہیں ۔ جن میں ایک یہ بھی ہے، اس میں یہ لفظ ہیں :قال للجنت انت رحمتی و قال للنار انت عذابی (حق تعالیٰ نے جنت کے لئے ارشاد فرمایا: تو میری رحمت ہے، اور آگ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: تو میرا عذاب ہے)۔ حدیث کے اتنے حصے سے حضرت امام کی غرض پوری ہو جاتی ہے۔ غرض کے پورے ہونے کے بعد کوئی ٹکڑا اگر ایسا بھی حدیث میں آجائے جو معلول ہو، تو اس طرح ہو جانے میں کوئی حرج نہیں اور نہ اس سے امام بخاری  کی قطعیت صحت پر اثر پڑتا ہے۔ کیونکہ یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ دوسرے مقام پر یعنی سورہ ق کی تفسیر میں لائے ہیں، اس میں یہ لفظ نہیں ہیں وہاں محمد بن سیرین عن ابی ہریرۃ اور ہمام عن ابی ہریرہ ہے اور یہاں الاعرج عن ابی ہریرۃ ہے۔ بلکہ ہمام کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ الاعرج کی روایت میں قلب ہو گیا ہے کیونکہ ہمام کے لفظ یہ ہیں:
فاما النار فلا تمتلی حتی یضع رجلہ فتقول قط قط فھنا لک تمتلی و یزوی بعضھا الی بعض و لا یظلم اللہ من خلقہ احد او امام الجنۃ فان اللہ ینشی لھا خلقا (دوزخ میں اللہ تعالیٰ (آخر میں) اپنا قدم رکھے گا، تو اس کے اثر سے وہ اپنے آپ کو بھرا ہوا محسوس کرے گی اور بس بس کر دے گی۔ لیکن جنت کے لئے اللہ تعالیٰ اور مخلوق پیدا فرما دے گا) اور الاعرج کے لفظ یہ ہیں: و اما الجنۃ فان اللہ لا یظلم من خلقہ احد و انہ ینشی للنار من یشاء فیلقون فیھا، الحدیث (لیکن جنت، تو اللہ کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ اور آگ کے لئے اور مخلوق پیدا کرے گا تو وہ اس میں ڈالے جائیں گے) دیکھئے: دونوں روایتوں کے مقابلے سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ الاعرج کی روایت میں کسی ایک راوی کے وہم کی وجہ ''قلب'' ہو گیا ہے۔ فتح الباری (ص:۷۵۰۔ جلد۶) میں ہے: قال جماعۃ من الائمۃ ان ھذ الموضع مقلوب و جزم ابن القیم فی حادی الارواح ص:۲۸۴) بانہ غلط۔ لیکن صحیح بخاری کی مرویات کی قطعیت صحت کے یہ امر اس لئے منافی نہیں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے خاص انداز سے خود ہی معاملہ صاف کر دیا ہے، مصنف علام منہاج السنۃ، (ص:۵۹۔ جلد:۴) میں لکھتے ہیں:
لا یکاد یروی لفظا فیہ انتقاد الاویروی اللفظ الاخر الذی یبین انہ منتقد فما فی کتابہ لفظ منتقد الاوفی کتابہ ما یبین انہ منتقد و قال فی تفسیر سورۃ الاخلاص اذا رفع فی بعض الروایات غلط ذکر الروایات المحفوظۃ التی تبین غلط الغالط و قال فی التوسل (۸۱) و البخاری من اعرف خلق اللہ بالحدیث و عللہ مع فقہ فیہ۔
''امام بخاری کی صحیح میں اگر کسی جگہ کوئی ایسا غلط لفظ آجاتا ہے (جو کسی راوی کا وہم ہو تو حضرت امام ایسی روایت کا بھی اپنی صحیح میں ذکر فرما دیتے ہیں جو محفوظ اور وہم سے پاک ہوتی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری حدیث کے علل و فقہ کے ماہر ترین شخص ہیں۔
پس مصنف کا دوسرے اساطین کے اتباع میں یہ فرمان صحیح ہے۔ (اہل الحدیث یعلمون صدق متون الصحیحین (منہاج ص:۱۱۳۔ جلد۴) و اللہ المستعان (ع۔ح)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
افراط وتفریط
اس قسم کی مثالیں بہت ہیں، لیکن لوگ اس بارے میں دو آخری حدوں تک پہنچ گئے ہیں، ایک طرف متکلمین وغیرہ ہیں، جو علم حدیث و اصحاب حدیث سے دور ہیں۔ صحیح و ضعیف روایتوں میں تمیز نہیں کر سکتے، اور ان احادیث کی صحت و قطعیت میں بھی شک کرنے لگ جاتے ہیں، جو علمائے حدیث کے یہاں یقینی ہوچکی ہیں۔دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اتباع و عمل حدیث کا دعویٰ کرتے ہیں، اور ثقہ راویوں کے ہر ہر لفظ کویابظاہر صحیح الاسناد حدیث کو ویسا ہی قطعی اور یقینی سمجھ بیٹھتے ہیں، جیسا ان حدیثوں کاحال ہے جن کی صحت و قطعیت ، علمائے حدیث کے نزدیک مسلم ہوچکی ہے۔ پھر ایسا ہوتاہے کہ ان کے سامنے جب کوئی معارض صحیح حدیث آجاتی ہے، تو بے معنی تاویلوں پراتر آتے ہیں، اور اپنی من مانی حدیث کومسائل علم میں حجت و دلیل قراد ے لیتے ہیں، حالانکہ علمائے حدیث جانتے ہیں کہ ان کومانی ہوئی حدیث ، غلط ہے۔
یہ بات کوئی اٹکل پچو نہیں ہے،بلکہ وہ ٹھوس علمی دلائل ہیں، جن سے معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں حدیث سچی ہے، اور کبھی دلائل اس حدیث کو یقینی بھی قراردے دیتے ہیں ۔ اسی طرح ان دلائل سے یہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ فلاں حدیث ، جھوٹی ہے، اورکبھی یہی دلائل قطعیت کے ساتھ ثابت کردیتے ہیں کہ یقیناً وہ حدیث جھوٹی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
احادیث فضائل
مثلاً وہ حدیثیں ، جو بدعتیوں اور غالیوں نے فضائل میں گھڑلی ہیں، تویہ حدیثیں قطعی طور پر جھوٹی ہیں، جیسے یوم عاشوراء کے بارے میں یہ کہ جوکوئی دو رکعت نماز پڑھ لے گا اسے اتنے نبیوں کاثواب ملے گا۔ تفسیروں میں اس قسم کی موضوعات کی بڑی کثرت ہے، مثلاً وہ حدیث ، جسے ثعلبی[1] واحدی[2]،اور زمخشری[3] نے قرآنی سورتوں کے فضائل میں روایت کیاہے اور ہر ہر سورہ کی فضیلت بتائی گئی ہے، توباتفاق اہل علم یہ حدیث موضوع ہے۔ ثعلبی اگرچہ نیک اور دیندار آدمی تھے، مگر کتب تفسیر میں صحیح ، ضعیف، موضوع، جو حدیث بھی دیکھ پاتے،نقل کر لیتے تھے۔ ان کے ساتھی ،واحدی اگرچہ عربیت میں ان سے زیادہ بصیرت رکھتے ہیں، مثلاً سلامتی اور اتباع سلف سے دور ہوگئے ہیں، لیکن بغوی کی تفسیر[4]اگرچہ ثعلبی کی تفسیر سے مختصر ہے، مگر ایسی موضوع روایات اور بدعتی آراء سے انہوں نے اسے محفوظ رکھاہے۔


[1] ابو اسحاق احمد بن محمد بن ابراہیم الثعلبی النیسا بوری تفسیر میں یکتائے روزگار وفات ۴۳۷ھ(ابن خلکان ص ۲۲جلد۱)
[2] علامہ ابو الحسن علی بن احمد الواحدی نحو وتفسیر میں استاد عصر، علامہ ثعلبی کے تلمیذ رشید، متعدد کتابوں کے مصنف،وفات ۴۶۸ھ(ابن خلکان ص ۲۳۳جلد۱)
[3] علامہ ابو القاسم جار اللہ محمود بن عمر الزمخشری المعتزلی ، چاردانگ عالم میں شہرت یافتہ ، تفسیر الکشاف کے مصنف ، نحو و بلاغت کے امام ، فرقہ معتزلہ کے سرکدہ عالم،وفات ۵۳۸ھ(ابن خلکان ص ۸۱۔۸۴جلد۲)۔
[4] اس کانام معالم التنزیل ہے، مصنفہ علامہ ابو محمد حسین مسعود بن الفراء البغوی الشافعی ، حدیث میں مصابیح السنہ و شرح السنہ ان کی تصانیف ہے، وفات ۵۱۶ھ اس تفسیر پر نواب محمد صدیق حسن کاتبصرہ یہ ہے کہ قصص ، بے اصل ایزاد کردہ ، الا ماشاء اللہ (اکسیر ۱۰۴)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
کتبِ تفسیر میں موضوعات
کتبِ تفسیر میں جیسا کہ بیان ہوچکا ، موضوعات کی بھرمار ہے، مثلاً وہ بہت سی حدیثیں جو بسم اللہ کے جہراً پڑھنے میں روایت کی گئی ہیں، یاحضرت علی ؄ کے متعلق ایک لمبی حدیث جس میں کہاگیا ہے کہ آپ نے نماز میں اپنی انگوٹھی صدقہ کردی تھی۔ تو اہل علم کے نزدیک یہ حدیث موضوع[1] ہے ۔ اسی طرح آیت : وَّلِكُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ(الرعد:۷) کی تفسیر میں روایت ہوا ہے کہ ہادی ، سے مراد علی ؄ ہیں یا یہ آیت : وَّتَعِیہَآ اُذُنٌ وَّاعِیۃٌ(الحاقہ) کی تفسیر میں حدیث روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' اے علی ؄ ، تیرا کان '' تو یہ سب حدیثیں موضوع ہیں۔



[1] یہ ایک طویل حدیث ہے، جسے شیعہ ، حضرت علی ؄ کی فضیلت میں ذکر کیاکرتے ہیں۔ مصنف علام رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر منہاج السنہ (ص ۳۔۹جلد۴)میں مفصل کلام فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں چند اور حدیثیں اور آثار بھی ہیں، جنہیں حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ذکر فرمایا اور ان پر کلام بھی کیاہے۔ دیکھیے سورہ مائدہ آیہ۔والذین لایؤتون الزکوۃ وھم راکعون۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
استدلال کی غلطی اور اس کے مضر نتائج
اختلاف کے دونوں اسباب[1] کی دوسری قسم میں علم کاذریعہ ، استدلال ہوتاہے نہ کہ نقل و روایت ۔ اس قسم میں زیادہ تر غلطی دو جہتوں سے ہوئی ہے جو صحابہ تابعین اور تبع تابعین کے بعد کی تفسیروں کی پیداوار ہیں۔ ان تفسیروں میں نہیں، جو صرف انہی بزرگان سلف کے اقوال سے مرتبہ وئی ہیں، مثلاً وہ تفاسیر جو عبدالرزاق[2]، وکیع[3]،عبد بن حمید[4]،عبدالرحمن[5] بن ابراہیم دحیم نے تیار کی ہیں، اور مثلاً امام احمد  اسحاق[6] بن راہویہ  بقی بن[7]مخلد ابو بکر بن[8] المنذر  سفیان[9] بن عینیہ ، سعید[10] ،ابن جری[11]ر، ابن[12] ابی حاتم  ابو سعید[13] اشج ابو عبداللہ بن[14] ماجہ  اور ابن[15]مردویہ  کی تفسیریں ۔ ایک وہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلے سے اپنے کچھ عقیدے اور نظرے بنالیے پھر قرآنی الفاظ کو کھینچ تان کر ان پر منطبق کرنے لگے۔ اور دوسرے وہ لوگ ہیں ، جنہوں نے قرآن کی تفسیر، محض لغت عرب سے کی ہے، اور یہ لحاظ نہیں کیاکہ متکلم قرآن کی مراد کیاہے، اور اس نے جس پر قرآن نازل ہوا، کیامطلب بیان فرمایا ہے، اور وہ لوگ جو قرآن کے اولین مخاطب تھے، کیا سمجھتے تھے۔
پہلی قسم کے لوگوں کی نظر میں صرف اپنے ٹھہرائے ہوئے معنی رہے اور یہ خیال کیا کہ قرآن کے الفاظ کامطلب و مراد کیا ہے۔ دوسری قسم والوں کی نگاہ صرف الفاظ پر رہی اور بس یہی دیکھتے رہے کہ عرب ان الفاظ کے کیامعنی بتاتا ہے۔ مگر متکلم قرآن کے مقصد اور سیاق کلام سے غافل ہوگئے۔
نیز آخر الذکر یہ طے کرنے میں بھی اکثر غلطی کرجاتے ہیں کہ قرآنی لفظ ، لغوی معنی کامتحمل بھی ہے یانہیں، جیسا کہ یہی غلطی پہلاگروہ بھی کرتا تھا جن کو اپنے خاص نظریے کے اثبات کی وجہ سے اس سے غرض نہیں ہوتی تھی کہ جو معنی وہ لگارہے ہیں ، چسپاں بھی ہوتے ہیں یانہیں؟غرض کہ غلطی میں دونوں گروہ برابرہیں۔ فرق یہ ہے کہ پہلے کی نگاہ معنی پر زیادہ رہتی ہے اور دوسرے کی لفظ پر ۔
پہلے گروہ والے کبھی یہ کرتے ہیں کہ قرآن لفظ کے معنی و مراد کو سلب کرکے ایسے معنی لگاتے ہیں، جن پر لفظ کی نہ دلالت ہوتی ہے اور نہ وہ مراد ہی ہوسکتے ہیں۔ اور کبھی قرآنی الفاظ کے ایسے معنی لیتے ہیں، جن کے وہ متحمل نہیں ہوتے۔ اگر ان کالگایا ہوا حکم نفی کی صورت میں ہو یا اثبات کی باطل ہے ، تودلیل اور مدلول ،دونوں غلط ہوجاتے ہیں۔ اور اگر حکم صحیح ہے، تو بھی مدلول میں نہ سہی دلیل میں غلطی پر رہتے ہیں۔



[1] صفحہ ۴۱ سے یہاں تک پہلی قسم کابیان ہواہے۔
[2] ابوبکر عبدالرزاق بن ہمام صنعانی ، اور حافظ حدیث ، امام مالک  کے شاگرد اور امام احمد  بن حنبل  کے استاد ۔ وفات ۲۱۱ھ۔
[3] :ابو سفیان وکیع بن الجراح الکوفی ، فقہ و حدیث کے امام ، وفات ۱۹۶ھ۔
[4] امام ابو محمد عبد بن حمید ، حافظ حدیث ، متعدد کتابوں کے مصنف ، ایک تفسیر بھی لکھی تھی ۔ وفات ۲۴۹ھ
[5] عبدالرحمن بن ابراہیم بن عمرو القرشی ، دحیم کے لقب سے شہرت پائی۔اصحاب صحاح ستہ کے شیخ فقہیات میںامام اوزاعی کے مسلک کو پسند فرماتے تھے۔ وفات ۲۴۵ھ(تہذیب ۱۳۱جلد۶)
[6] امام ابو محمد اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ ۔ فقہ و حدیث کےمشہور امام ۔ وفات ۲۳۳ھ۔
[7] ابو عبدالرحمن بقی بن مخلد القرطبی ، اپنے وقت کے شیخ الاسلام اندلس میں حدیث کاچرچا آپ کی ہی بدولت ہوا، صاحب اجتہاد اہل حدیث ، وفات ۲۷۶(تذکرۃ الحفاظ ۱۸۴جلد۱)
[8] ابوبکر محمد بن ابراہیم بن المنذر النیشاپوری  صاحب اجتہاد اہل حدیث امام متعدد نفیس کتابوں کے مصنف،وسعت نظر میں اپنا نظریہ نہ رکھتے تھے ۔ وفات ۲۱۸ھ(ابن خلکان ص ۴۶۱جلد۱)
[9] ابو محمد سفیان بن عینیہ الکوفی مشہور حافظ حدیث ۔ وفات ۱۹۸ھ۔
[10] ابو علی سعید بن داؤد  امام عبداللہ بن مبارک کے شاگرد ، ایک تفسیر تصنیف فرمائی ۔ وفات ۲۲۰ھ۔
[11] امام ، ابو جعفر محمد بن جریر الطبری  تفسیر حدیث فقہ تاریخ کے مستندو مسلم امام ، مصنف علام اور دیگر ائمہ کے نزدیک ان کی تفسیر بہترین تفسیر تسلیم کی گئی ہے، مصر میں متعدد مرتبہ طبع ہوئی۔وفات ۳۱۰ھ۔(ابن خلکان ص ۴۵۶جلد۱)
[12] ابو محمد عبدالرحمن بن محمد بن ابی حاتم فن حدیث وتفسیر کے ماہر خصوصی ، حال ہی میںآپ کی کتاب الجرح والتعدیل حیدرآباد میں طبع ہوئی ہے، جو فن حدیث میں اعلی کتاب شمار ہوتی ہے۔ وفات ۳۲۷ھ۔
[13] ابو سعید عبداللہ بن سعید الکندی الکوفی الاشج ، حافظ حدیث اور امام وفات ۲۵۷۔
[14] امام ابوعبداللہ محمد بن یزید ابن ماجہ الربعی  مشہور حافظ حدیث سنن ابن ماجہ کے مصنف ایک تفسیر بھی تصنیف فرمائی ۔ وفات ۲۷۳ھ۔
[15] حافظ ابوبکر احمد بن موسیٰ الاصبہانی مرودیہ  تفسیر، حدیث، تاریخ کے ماہر وفات ۴۱۶ھ(تذکرۃ الحفاظ ص ۲۳۸جلد۳۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
مطالبِ حدیث میں بھی ٹھوکر
تفسیر کی طرح حدیث میں بھی یہی غلطیاں کی گئی ہیں۔ بدعتی فرقوں نے دلیل و مدلول دونوں میں ٹھوکر کھاکے ایسے ایسے مذہب بنالیے ہیں ، جو حق سے دور ہیں، وہ حق جس پر امت وسط کااجتماع ہوچکا ہے،اور امت وسط کااجتماع، گمراہی پر کبھی نہیں ہوسکتا،'' امت وسط'' سلف صالحین اور ان کے ائمہ ہیں ۔
 
Top