جو کچھ آپ نے فرمایا اس کا جتنا حصہ مجھے سمجھ میں آیا وہ بجا! لیکن بات یہ ہے کہ چودہ سو سال میں میرے علم کے مطابق اس طرح کسی فقہ کو پرکھا نہیں گیا۔ کیوں کہ ہر علم کی چھان پھٹک کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔
محترم بھائی اوپر میں نے لکھا تھا کہ
اس سے ایک چیز کا علم ملتا ہے کہ کوئی اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ کو پرکھنا چاہے تو اسکو دو کام کرنے پڑیں گے
۱۔ انکے اصولوں کو پرکھنا پڑے گا کہ آیا وہ درست ہیں یا نہیں
۲۔قرآن و حدیث کی نصوص کو ان کے اصول فقہ کے مطابق تطبیق دیتے ہوئے یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا انکی فقہ نصوص کے مطابق ہے یا نہیں
اب آپ یہ کیسے کہ سکتے ہیں کہ چودہ سو سال میں اس طرح فقہ کو نہیں پرکھا گیا میرے علم میں تو یہ ہے اوپر پہلے نمبر یعنی اصولوں کو بھی پرکھا گیا جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے الرسالہ لکھا اور اس میں امام مالک ور امام ابو حنیفہ رحمھما اللہ کے مرسل کے حجت ہونے کے اصول کو پرکھا اسکی تصحیح کی خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اپنے شاگردوں کے اپنے امام کے اصولوں کو پرکھا اور ان سے اصولوں میں اختلاف کیا
اسی طرح دوسرے نمبر یعنی نصوص کو بھی پرکھا گیا اور خود امام رحمہ اللہ کے شاگردوں نے کہا کہ اگر آپ کو فلاں روایت کا علم ہوتا تو یہ فتوی نہ دیتے واللہ اعلم
آپ میری بات کی درستگی کر دیں میرا علم ناقص ہے اللہ آپکو جزائے خیر دے امین
کچھ ایسا ہی حال دیگر فقہاء کا بھی ہے۔ لیکن فقہ سب کی مدون حالت میں موجود ہے۔
یہی تو میں کہ رہا ہوں کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ فقہ تو مدون حالت میں ہے البتہ وہ اصل اصول کہ جن پہ امام رحمہ اللہ کی اس فقہ کی بنیاد ہے وہ اصول متعین نہیں بلکہ ہم انکو تخریج کرتے ہیں کہ چونکہ امام رحمہ اللہ کا فتوی یہ تھا اور نصوص ہمارے سامنے یہ ہیں تو پھر یہ گمان پڑتا ہے کہ امام رحمہ اللہ کے اصول یہ ہوں گے کیا یہ ایسے ہی ہے
میری اس بات کا مقصد یہ ہے کہ اس علم کو دو جمع دو چار والے طریقے سے نہیں پرکھا جاتا۔ اس کے پرکھنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جو اصول طبقہ در طبقہ (امام محمد یا عیسی بن ابان یا شاشی رحمہم اللہ سے یا اور کسی عالم سے، یعنی جہاں تک ہمیں آخری روایت مل سکے) روایت ہوتے آتے ہیں انہیں اور مستنبط مسائل کو یکجا کیا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ کیا یہ اصول ان مسائل کی روشنی میں اور یہ مسائل ان اصول کی روشنی میں صحیح ہیں، مختلف روایات کو یکجا کیا جاتا ہے اور انہیں دیکھا جاتا ہے، روایات کے رواۃ کو دیکھا جاتا ہے، آخری کتاب کی حیثیت کو دیکھا جاتا ہے جہاں امام محمدؒ یا امام مالکؒ وغیرہما سے یہ نقل ہوئے وغیرہ۔ نہ صرف اصول اور مسائل کو اس طرح دیکھا جاتا ہے بلکہ "قواعد" کو بھی اسی طرح پرکھا جاتا ہے۔
محترم بھائی میں بھی دو اور دو چار کی بات نہیں کر رہا وہ تو میں نے بیلسنگ فگر کے لئے ایک مثال دی تھی ورنہ میں نے تو اوپر دو اور دو چار سے پہلے اصل مساوات بتائی تھی کہ آپ کے ہاں بھی یہی ہے کہ پہلے اصول ہمارے پس ہوں پھر نصوص آئیں اور پھر ان اصولوں کی روشنی میں ان میسر نصوص سے مسئلہ نکالا جائے یعنی فقہ مدون کی جائے
یہی تو میں کہنا چاہ رہا ہوں کہ جیسا اوپر ایک فرضی مثال دی ہے کہ
اصول فقہ (قرآن پہ زیادتی خبر واحد سے نہیں ہو سکتی جب راوی غیر فقیہ ہو) + نصوص(فاستمعوا لہ، سورہ فاتحہ خلف الامام ابو ہریہ خبر واحد = امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی
اس اوپر میں نتیجہ یعنی فقہ ابو حنیفہ یہ ہے کہ سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی
لیکن یہ نتیجہ تو دوسرے اصول سے بھی حاصل ہو سکتا ہے یعنی اصول اسکے خلف ہو تو بھی یہی نتیجہ مل سکتا ہے مثلا
اصول فقہ (قرآن پہ زیادتی خبر واحد سے ہو سکتی ہے چاہے راوی غیر فقیہ ہو) + نص(فاستمعوا لہ) = امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی
اب اس صورت میں اصول تو یہ ہے کہ قرآن پہ خبر واحد سے زیادتی ہو سکتی ہے چاہے راوی غیر فقیہ ہو مگر فقیہ کو دوسری نص یعنی ابو ھریرہ کی حدیث کا علم نہیں تھا اس لئے اسنے فاستمعوا پہ ہی اعتبار کرتے ہوئے فاتحہ خلف الامام سے منع کر دیا پس فقہ تو ایک ہے رہا اصول مختلف ہو گئے
یعنی ہم جو نتیجہ یعنی فقہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (یعنی فائنل فتوی ) جو نکالنا چاہتے ہیں اسکے لئے ہمارے پاس (ریاضی کی اصطلاح میں) دو متغیر ہیں یعنی اصول فقہ اور میسر نصوص
پس اگر ہم یہ سمجھیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دور میں انکو ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث یعنی نص کا علم نہیں تھا اور انکا اصول یہ تھا کہ غیر فقیہ کی غبر واحد میں قبول کی جا سکتی ہے تو پھر بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھنی
لیکن ہم یہ سمجھیں کہ انکو ابو ھریرہ والی خبر واحد والی نص کا علم تھا تو پھر ہمیں اصول بدلنا ہو گا تاکہ جو جواب آئے وہ درست ہو جائے کہ سورۃ فاتحہ نہیں پڑھنی
پس میرا اشکال یہ ہے کہ ہم یہاں پہ یہ کیسے فرض کر لیتے ہیں کہ انکا اصول غیر فقیہ کی خبر واحد کو قبول نہ کرنا ہے اگر اسکے برعکس اگر ہم یہ سمجھیں کہ انکو اس حدیث کا علم نہیں تھا البتہ وہ بھی غبر واحد کو حجت مانتے تھے تو پھر ہم انکے اصول پہ طعن نہیں کریں گے بلکہ ہم بھی کہ سکتے ہیں کہ اب ہمیں چونکہ وہ حدیث مل گئی تو ہم انکے اصول کے مطابق ہی امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھ رہے ہیں (یہاں مثال صرف فرضی ہے)
اور اگر گستاخی معاف ہو تو اصول فقہ، اصول حدیث سے بدرجہا مضبوط ہیں اور ان میں شواذ موخر الذکر کے مقابلے میں بہت کم ہوتے ہیں۔
میرے علم کے مطابق تو اصول حدیث ہو یا اصول تفسیر ہو سارے اصول فقہ کے تابع ہی ہوتے ہیں اسکے اندر ہی ہوتے ہیں پھر کسی کے مضبوط یا شاذ ہونے کا فرق کیسے ہو سکتا ہے جب دوسرا پہلے کا جز ہی ہے جب تک حدیث کے اصولوں پہ چل کر حدیث کو پرکھیں گے نہیں اس پہ عمل فقہ کے مطابق کیسے ہو گا ویسے اسکا ہماری بحث سے تعلق نہیں ہے
لیکن یہ سب کام تقریباً ہو چکا ہے۔ موجودہ دور میں علماء اصول فقہ میں اسی طرح ناقل ہوتے ہیں جس طرح اصول حدیث میں ہوتے ہیں۔
جی مجھے اس پہ کوئی اعتراض نہیں میرا اشکال تو یہ ہے کہ احناف کے اصول حدیث کو جب سے نقل کرنا شروع کیا گیا اس وقت انکو کہاں سے اخذ کیا گیا
اگر انکو اس وقت فقہ حنفی سے ہی تخریج کے طریقے سے اخذ کیا گیا تو پھر تو وہاں اوپر میرے اشکال کی طرح ایک سے زیادہ احتمال ہو سکتے ہیں کہ وہ اصول کچھ اور بھی ہو سکتے ہیں پس جہاں کسی دوسرے کا احناف کے ساتھ اصول پہ اختلاف آئے تو وہاں وہ حسن ظن رکھتے ہوئے وہ اصول کی تخریج کرے کہ جو دوسروں کے موافق ہو
موجودہ علماء کے اپنے اصول ہوتے ہیں (جیسے معاملات کے باب میں فقہ مقارن یا سہولت کو دیکھنا، یہ آج کل بہت عام ہے) لیکن بہت ہی نادر۔
جی یہی تو میں کہ رہا ہوں کہ اسی طرح اگر ایک ایک مسئلہ لے کر اس میں سب ائمہ کے اصول اور دلائل اور وجہ ترجیح وغیرہ کو لکھا جائے اور پھر اقرب الی الصواب کی نشاندہی کی جائے تو اس میں کیا رکاوٹ ہے اور پھر جہاں پہ کسی فقہ کے اصول پہ غلط ہونے کا الزام آ رہا ہو وہاں اوپر میرے بتائے گئے اشکال سے اس اصول کو درست بھی تخریج کیا جا سکتا ہے ( یہ مجھ کم علم کا ایک اشکال ہے آپ بہتر جنتے ہوں گے)
گزشتہ دنوں تعزیر مالی کے سلسلے میں فتوی رقم کر رہا تھا جب ابن تیمیہ و ابن قیم رحمہما اللہ کا یہ دعوی نظر سے گزرا کہ تعزیر مالی امام احمدؒ کے اصولوں کے مطابق ہے۔ حالانکہ امام احمدؒ کا مسلک عدم جواز کا ہے اور غالباً کوئی روایت بھی جواز کی نہیں ہے۔ ابن قدامہؒ، جن کی فقاہت فقہ حنبلی میں مسلم ہے، وہ امام احمدؒ کا یہی مسلک نقل فرماتے ہیں۔ لیکن شیخین رحمہما اللہ نے یہ دعوی فرمایا ہے۔ ظاہر ہے ان کے پاس دعوے کے ثبوت کا اپنا طریقہ ہوگا (مجھے نہ ملا اور نہ سمجھ میں آیا)۔
یہاں پہ بھی ہو سکتا ہے کہ شیخین رحمہما اللہ تعزیر مالی میں آنے والی ضعیف روایت کو اپنے تئیں درست سمجھتے ہوں کہ جسکو امام احمد درست نہ سمجھتے ہوں اور پھر اسی ضعیف حدیث کو درست سمجھتے ہوئے امام احمد کے اصولوں کے مطابق ہی تعزیر مالی کے جواز کا کہا ہو واللہ اعلم
اگر اس طرز سے ثبوت کا پوچھ رہے ہیں جو طرز علم اسناد میں ہے تو نہیں، اور اگر اوپر بیان کی گئی تفصیل کے مطابق ثبوت مطلوب ہے تو یقیناً ثابت ہیں۔
جزاکم اللہ خیرا