• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصول فقہ کی تدوین بعد میں اور فقہ کی پہلے۔ ایک اشکال کا جواب

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
جناب عبدہ بهائی اور جناب اشماریہ بهائی ، اگر میری طرح کم علم رکهنے والا کوئی چیز نا سمجهنے پر سوال کرسکتا هے یا کہ آپ دونوں کی باتیں مکمل هونے کے بعد دریافت کیا جائے !؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جناب عبدہ بهائی اور جناب اشماریہ بهائی ، اگر میری طرح کم علم رکهنے والا کوئی چیز نا سمجهنے پر سوال کرسکتا هے یا کہ آپ دونوں کی باتیں مکمل هونے کے بعد دریافت کیا جائے !؟
ضرور كیجیے، بنده حاضر ہے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
میرے علم کے مطابق اس طرح کسی فقہ کو پرکھا نہیں گیا۔
میں نے ایک شیخ سے سوال کیا تھا تو انھوں نے بھی یہی بتایا تھا کہ اصول پہلے بناۓ گۓ. اسکے بعد انھیں اصول کی روشنی میں احادیث سے مسائل کا استنتاج کیا.
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
جو کچھ آپ نے فرمایا اس کا جتنا حصہ مجھے سمجھ میں آیا وہ بجا! لیکن بات یہ ہے کہ چودہ سو سال میں میرے علم کے مطابق اس طرح کسی فقہ کو پرکھا نہیں گیا۔ کیوں کہ ہر علم کی چھان پھٹک کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔
محترم بھائی اوپر میں نے لکھا تھا کہ
اس سے ایک چیز کا علم ملتا ہے کہ کوئی اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ کو پرکھنا چاہے تو اسکو دو کام کرنے پڑیں گے
۱۔ انکے اصولوں کو پرکھنا پڑے گا کہ آیا وہ درست ہیں یا نہیں
۲۔قرآن و حدیث کی نصوص کو ان کے اصول فقہ کے مطابق تطبیق دیتے ہوئے یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا انکی فقہ نصوص کے مطابق ہے یا نہیں
اب آپ یہ کیسے کہ سکتے ہیں کہ چودہ سو سال میں اس طرح فقہ کو نہیں پرکھا گیا میرے علم میں تو یہ ہے اوپر پہلے نمبر یعنی اصولوں کو بھی پرکھا گیا جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے الرسالہ لکھا اور اس میں امام مالک ور امام ابو حنیفہ رحمھما اللہ کے مرسل کے حجت ہونے کے اصول کو پرکھا اسکی تصحیح کی خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اپنے شاگردوں کے اپنے امام کے اصولوں کو پرکھا اور ان سے اصولوں میں اختلاف کیا
اسی طرح دوسرے نمبر یعنی نصوص کو بھی پرکھا گیا اور خود امام رحمہ اللہ کے شاگردوں نے کہا کہ اگر آپ کو فلاں روایت کا علم ہوتا تو یہ فتوی نہ دیتے واللہ اعلم
آپ میری بات کی درستگی کر دیں میرا علم ناقص ہے اللہ آپکو جزائے خیر دے امین


کچھ ایسا ہی حال دیگر فقہاء کا بھی ہے۔ لیکن فقہ سب کی مدون حالت میں موجود ہے۔
یہی تو میں کہ رہا ہوں کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ فقہ تو مدون حالت میں ہے البتہ وہ اصل اصول کہ جن پہ امام رحمہ اللہ کی اس فقہ کی بنیاد ہے وہ اصول متعین نہیں بلکہ ہم انکو تخریج کرتے ہیں کہ چونکہ امام رحمہ اللہ کا فتوی یہ تھا اور نصوص ہمارے سامنے یہ ہیں تو پھر یہ گمان پڑتا ہے کہ امام رحمہ اللہ کے اصول یہ ہوں گے کیا یہ ایسے ہی ہے

میری اس بات کا مقصد یہ ہے کہ اس علم کو دو جمع دو چار والے طریقے سے نہیں پرکھا جاتا۔ اس کے پرکھنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جو اصول طبقہ در طبقہ (امام محمد یا عیسی بن ابان یا شاشی رحمہم اللہ سے یا اور کسی عالم سے، یعنی جہاں تک ہمیں آخری روایت مل سکے) روایت ہوتے آتے ہیں انہیں اور مستنبط مسائل کو یکجا کیا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ کیا یہ اصول ان مسائل کی روشنی میں اور یہ مسائل ان اصول کی روشنی میں صحیح ہیں، مختلف روایات کو یکجا کیا جاتا ہے اور انہیں دیکھا جاتا ہے، روایات کے رواۃ کو دیکھا جاتا ہے، آخری کتاب کی حیثیت کو دیکھا جاتا ہے جہاں امام محمدؒ یا امام مالکؒ وغیرہما سے یہ نقل ہوئے وغیرہ۔ نہ صرف اصول اور مسائل کو اس طرح دیکھا جاتا ہے بلکہ "قواعد" کو بھی اسی طرح پرکھا جاتا ہے۔
محترم بھائی میں بھی دو اور دو چار کی بات نہیں کر رہا وہ تو میں نے بیلسنگ فگر کے لئے ایک مثال دی تھی ورنہ میں نے تو اوپر دو اور دو چار سے پہلے اصل مساوات بتائی تھی کہ آپ کے ہاں بھی یہی ہے کہ پہلے اصول ہمارے پس ہوں پھر نصوص آئیں اور پھر ان اصولوں کی روشنی میں ان میسر نصوص سے مسئلہ نکالا جائے یعنی فقہ مدون کی جائے
یہی تو میں کہنا چاہ رہا ہوں کہ جیسا اوپر ایک فرضی مثال دی ہے کہ

اصول فقہ (قرآن پہ زیادتی خبر واحد سے نہیں ہو سکتی جب راوی غیر فقیہ ہو) + نصوص(فاستمعوا لہ، سورہ فاتحہ خلف الامام ابو ہریہ خبر واحد = امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی
اس اوپر میں نتیجہ یعنی فقہ ابو حنیفہ یہ ہے کہ سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی
لیکن یہ نتیجہ تو دوسرے اصول سے بھی حاصل ہو سکتا ہے یعنی اصول اسکے خلف ہو تو بھی یہی نتیجہ مل سکتا ہے مثلا
اصول فقہ (قرآن پہ زیادتی خبر واحد سے ہو سکتی ہے چاہے راوی غیر فقیہ ہو) + نص(فاستمعوا لہ) = امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی
اب اس صورت میں اصول تو یہ ہے کہ قرآن پہ خبر واحد سے زیادتی ہو سکتی ہے چاہے راوی غیر فقیہ ہو مگر فقیہ کو دوسری نص یعنی ابو ھریرہ کی حدیث کا علم نہیں تھا اس لئے اسنے فاستمعوا پہ ہی اعتبار کرتے ہوئے فاتحہ خلف الامام سے منع کر دیا پس فقہ تو ایک ہے رہا اصول مختلف ہو گئے

یعنی ہم جو نتیجہ یعنی فقہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (یعنی فائنل فتوی ) جو نکالنا چاہتے ہیں اسکے لئے ہمارے پاس (ریاضی کی اصطلاح میں) دو متغیر ہیں یعنی اصول فقہ اور میسر نصوص
پس اگر ہم یہ سمجھیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دور میں انکو ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث یعنی نص کا علم نہیں تھا اور انکا اصول یہ تھا کہ غیر فقیہ کی غبر واحد میں قبول کی جا سکتی ہے تو پھر بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھنی
لیکن ہم یہ سمجھیں کہ انکو ابو ھریرہ والی خبر واحد والی نص کا علم تھا تو پھر ہمیں اصول بدلنا ہو گا تاکہ جو جواب آئے وہ درست ہو جائے کہ سورۃ فاتحہ نہیں پڑھنی
پس میرا اشکال یہ ہے کہ ہم یہاں پہ یہ کیسے فرض کر لیتے ہیں کہ انکا اصول غیر فقیہ کی خبر واحد کو قبول نہ کرنا ہے اگر اسکے برعکس اگر ہم یہ سمجھیں کہ انکو اس حدیث کا علم نہیں تھا البتہ وہ بھی غبر واحد کو حجت مانتے تھے تو پھر ہم انکے اصول پہ طعن نہیں کریں گے بلکہ ہم بھی کہ سکتے ہیں کہ اب ہمیں چونکہ وہ حدیث مل گئی تو ہم انکے اصول کے مطابق ہی امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھ رہے ہیں (یہاں مثال صرف فرضی ہے)

اور اگر گستاخی معاف ہو تو اصول فقہ، اصول حدیث سے بدرجہا مضبوط ہیں اور ان میں شواذ موخر الذکر کے مقابلے میں بہت کم ہوتے ہیں۔
میرے علم کے مطابق تو اصول حدیث ہو یا اصول تفسیر ہو سارے اصول فقہ کے تابع ہی ہوتے ہیں اسکے اندر ہی ہوتے ہیں پھر کسی کے مضبوط یا شاذ ہونے کا فرق کیسے ہو سکتا ہے جب دوسرا پہلے کا جز ہی ہے جب تک حدیث کے اصولوں پہ چل کر حدیث کو پرکھیں گے نہیں اس پہ عمل فقہ کے مطابق کیسے ہو گا ویسے اسکا ہماری بحث سے تعلق نہیں ہے
لیکن یہ سب کام تقریباً ہو چکا ہے۔ موجودہ دور میں علماء اصول فقہ میں اسی طرح ناقل ہوتے ہیں جس طرح اصول حدیث میں ہوتے ہیں۔
جی مجھے اس پہ کوئی اعتراض نہیں میرا اشکال تو یہ ہے کہ احناف کے اصول حدیث کو جب سے نقل کرنا شروع کیا گیا اس وقت انکو کہاں سے اخذ کیا گیا
اگر انکو اس وقت فقہ حنفی سے ہی تخریج کے طریقے سے اخذ کیا گیا تو پھر تو وہاں اوپر میرے اشکال کی طرح ایک سے زیادہ احتمال ہو سکتے ہیں کہ وہ اصول کچھ اور بھی ہو سکتے ہیں پس جہاں کسی دوسرے کا احناف کے ساتھ اصول پہ اختلاف آئے تو وہاں وہ حسن ظن رکھتے ہوئے وہ اصول کی تخریج کرے کہ جو دوسروں کے موافق ہو

موجودہ علماء کے اپنے اصول ہوتے ہیں (جیسے معاملات کے باب میں فقہ مقارن یا سہولت کو دیکھنا، یہ آج کل بہت عام ہے) لیکن بہت ہی نادر۔
جی یہی تو میں کہ رہا ہوں کہ اسی طرح اگر ایک ایک مسئلہ لے کر اس میں سب ائمہ کے اصول اور دلائل اور وجہ ترجیح وغیرہ کو لکھا جائے اور پھر اقرب الی الصواب کی نشاندہی کی جائے تو اس میں کیا رکاوٹ ہے اور پھر جہاں پہ کسی فقہ کے اصول پہ غلط ہونے کا الزام آ رہا ہو وہاں اوپر میرے بتائے گئے اشکال سے اس اصول کو درست بھی تخریج کیا جا سکتا ہے ( یہ مجھ کم علم کا ایک اشکال ہے آپ بہتر جنتے ہوں گے)

گزشتہ دنوں تعزیر مالی کے سلسلے میں فتوی رقم کر رہا تھا جب ابن تیمیہ و ابن قیم رحمہما اللہ کا یہ دعوی نظر سے گزرا کہ تعزیر مالی امام احمدؒ کے اصولوں کے مطابق ہے۔ حالانکہ امام احمدؒ کا مسلک عدم جواز کا ہے اور غالباً کوئی روایت بھی جواز کی نہیں ہے۔ ابن قدامہؒ، جن کی فقاہت فقہ حنبلی میں مسلم ہے، وہ امام احمدؒ کا یہی مسلک نقل فرماتے ہیں۔ لیکن شیخین رحمہما اللہ نے یہ دعوی فرمایا ہے۔ ظاہر ہے ان کے پاس دعوے کے ثبوت کا اپنا طریقہ ہوگا (مجھے نہ ملا اور نہ سمجھ میں آیا)۔
یہاں پہ بھی ہو سکتا ہے کہ شیخین رحمہما اللہ تعزیر مالی میں آنے والی ضعیف روایت کو اپنے تئیں درست سمجھتے ہوں کہ جسکو امام احمد درست نہ سمجھتے ہوں اور پھر اسی ضعیف حدیث کو درست سمجھتے ہوئے امام احمد کے اصولوں کے مطابق ہی تعزیر مالی کے جواز کا کہا ہو واللہ اعلم

اگر اس طرز سے ثبوت کا پوچھ رہے ہیں جو طرز علم اسناد میں ہے تو نہیں، اور اگر اوپر بیان کی گئی تفصیل کے مطابق ثبوت مطلوب ہے تو یقیناً ثابت ہیں۔
جزاکم اللہ خیرا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم بھائی اوپر میں نے لکھا تھا کہ
اس سے ایک چیز کا علم ملتا ہے کہ کوئی اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ کو پرکھنا چاہے تو اسکو دو کام کرنے پڑیں گے
۱۔ انکے اصولوں کو پرکھنا پڑے گا کہ آیا وہ درست ہیں یا نہیں
۲۔قرآن و حدیث کی نصوص کو ان کے اصول فقہ کے مطابق تطبیق دیتے ہوئے یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا انکی فقہ نصوص کے مطابق ہے یا نہیں
اب آپ یہ کیسے کہ سکتے ہیں کہ چودہ سو سال میں اس طرح فقہ کو نہیں پرکھا گیا میرے علم میں تو یہ ہے اوپر پہلے نمبر یعنی اصولوں کو بھی پرکھا گیا جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے الرسالہ لکھا اور اس میں امام مالک ور امام ابو حنیفہ رحمھما اللہ کے مرسل کے حجت ہونے کے اصول کو پرکھا اسکی تصحیح کی خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اپنے شاگردوں کے اپنے امام کے اصولوں کو پرکھا اور ان سے اصولوں میں اختلاف کیا
اسی طرح دوسرے نمبر یعنی نصوص کو بھی پرکھا گیا اور خود امام رحمہ اللہ کے شاگردوں نے کہا کہ اگر آپ کو فلاں روایت کا علم ہوتا تو یہ فتوی نہ دیتے واللہ اعلم

آپ میری بات کی درستگی کر دیں میرا علم ناقص ہے اللہ آپکو جزائے خیر دے امین

ایک ہوتا ہے بعض اصولوں کا ذکر اور ان سے اختلاف، اور ایک ہوتا ہے ہر اصول کی سند، متن، دلائل، نظیریں اور متعلقہ تمام مباحث کو دیکھنا۔ امام شافعیؒ و غیرہ نے بعض اصولوں پر کام کیا ہے۔ اسی طرح بعض نصوص کے مطابق بھی کام ہوا ہے۔
میں نے یہ عرض کیا تھا:
جو کچھ آپ نے فرمایا اس کا جتنا حصہ مجھے سمجھ میں آیا وہ بجا! لیکن بات یہ ہے کہ چودہ سو سال میں میرے علم کے مطابق اس طرح کسی فقہ کو پرکھا نہیں گیا۔ کیوں کہ ہر علم کی چھان پھٹک کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔
میں یہ سمجھا تھا کہ آپ کا مقصود "علم الحدیث" کی طرز پر پرکھنا ہے۔ باقی فقہ کو پرکھا تو یقیناً گیا ہے اس کے اپنے طریقے سے۔

آپ یہ فرما رہے ہیں کہ:
1۔ اصولوں کو پرکھا جائے۔
2۔ یہ دیکھا جائے کہ ان کی فقہ نصوص کے مطابق ہے یا نہیں۔

اس میں ایک اور چیز کا اضافہ کیجیے تو بہتر ہوگا۔ "یہ دیکھا جائے کہ ان کی فقہ ان کے اپنے اصولوں کے مطابق ہے یا نہیں۔"

اصول فقہ (قرآن پہ زیادتی خبر واحد سے نہیں ہو سکتی جب راوی غیر فقیہ ہو) + نصوص(فاستمعوا لہ، سورہ فاتحہ خلف الامام ابو ہریہ خبر واحد = امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی
اس اوپر میں نتیجہ یعنی فقہ ابو حنیفہ یہ ہے کہ سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی
لیکن یہ نتیجہ تو دوسرے اصول سے بھی حاصل ہو سکتا ہے یعنی اصول اسکے خلف ہو تو بھی یہی نتیجہ مل سکتا ہے مثلا
اصول فقہ (قرآن پہ زیادتی خبر واحد سے ہو سکتی ہے چاہے راوی غیر فقیہ ہو) + نص(فاستمعوا لہ) = امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی

اب اس صورت میں اصول تو یہ ہے کہ قرآن پہ خبر واحد سے زیادتی ہو سکتی ہے چاہے راوی غیر فقیہ ہو مگر فقیہ کو دوسری نص یعنی ابو ھریرہ کی حدیث کا علم نہیں تھا اس لئے اسنے فاستمعوا پہ ہی اعتبار کرتے ہوئے فاتحہ خلف الامام سے منع کر دیا پس فقہ تو ایک ہے رہا اصول مختلف ہو گئے

یہ مثال نہ مجھے پہلے سمجھ میں آئی تھی اور نہ اب آئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے ناقص علم کے مطابق بیان کردہ دونوں اصول درست نہیں۔ احناف کا اصول زیادتی خبر واحد کا یہ ہے:
ذهب أصحابنا إلى أن المطلق من كتاب الله تعالى إذا أمكن العمل بإطلاقه فالزيادة عليه بخبر الواحد والقياس لا يجوز
(اصول الشاشی، ا۔29، دار الکتاب العربی)
اس میں فقیہ و غیر فقیہ کی کوئی قید نہیں ہے۔ اب اس پر آپ کو جو اشکال ہوا ہے:
پس میرا اشکال یہ ہے کہ ہم یہاں پہ یہ کیسے فرض کر لیتے ہیں کہ انکا اصول غیر فقیہ کی خبر واحد کو قبول نہ کرنا ہے اگر اسکے برعکس اگر ہم یہ سمجھیں کہ انکو اس حدیث کا علم نہیں تھا البتہ وہ بھی غبر واحد کو حجت مانتے تھے تو پھر ہم انکے اصول پہ طعن نہیں کریں گے بلکہ ہم بھی کہ سکتے ہیں کہ اب ہمیں چونکہ وہ حدیث مل گئی تو ہم انکے اصول کے مطابق ہی امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھ رہے ہیں (یہاں مثال صرف فرضی ہے)
یہ اشکال اصل اصول کے مطابق پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔ یہاں آپ کی دی ہوئی مثال اگرچہ فرضی ہے لیکن ظاہر ہے "فرضی اصول" پر اگر مثال کی بنیاد رکھی جائے گی تو وہ مثال سمجھنا ہی مشکل ہو جائے گی۔

میرے علم کے مطابق تو اصول حدیث ہو یا اصول تفسیر ہو سارے اصول فقہ کے تابع ہی ہوتے ہیں اسکے اندر ہی ہوتے ہیں پھر کسی کے مضبوط یا شاذ ہونے کا فرق کیسے ہو سکتا ہے جب دوسرا پہلے کا جز ہی ہے جب تک حدیث کے اصولوں پہ چل کر حدیث کو پرکھیں گے نہیں اس پہ عمل فقہ کے مطابق کیسے ہو گا ویسے اسکا ہماری بحث سے تعلق نہیں ہے
اس بات کو بعد میں ڈسکس کرتے ہیں۔

جی مجھے اس پہ کوئی اعتراض نہیں میرا اشکال تو یہ ہے کہ احناف کے اصول حدیث کو جب سے نقل کرنا شروع کیا گیا اس وقت انکو کہاں سے اخذ کیا گیا
اگر انکو اس وقت فقہ حنفی سے ہی تخریج کے طریقے سے اخذ کیا گیا تو پھر تو وہاں اوپر میرے اشکال کی طرح ایک سے زیادہ احتمال ہو سکتے ہیں کہ وہ اصول کچھ اور بھی ہو سکتے ہیں پس جہاں کسی دوسرے کا احناف کے ساتھ اصول پہ اختلاف آئے تو وہاں وہ حسن ظن رکھتے ہوئے وہ اصول کی تخریج کرے کہ جو دوسروں کے موافق ہو
یہ ناممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک اصول پر صرف ایک مسئلہ کی بنیاد نہیں ہوتی بلکہ بے شمار مسائل اس سے متعلق ہوتے ہیں۔ اب اگر ہم کسی اصول کو دوسروں کے موافق کر لیتے ہیں تو وہ تمام مسائل جن کی اس پر بنیاد ہے، تبدیل ہو جائیں گے۔ یعنی ہم یہ کہیں گے کہ امام ابو حنیفہؒ کا یہ اصول ہے اور اس کی بنیاد پر ان کے مسائل یہ ہیں حالانکہ ہمیں قطعی علم ہے کہ امام کے مسائل اس کے خلاف ہیں۔ لہذا اصول ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے۔ البتہ مسئلہ غیر منقولہ عن الامام کی تخریج کسی اور اصول پر کی جائے یا اس میں کسی وجہ سے دوسرے مسلک کے مطابق فتوی دیا جائے، یہ ممکن ہے۔
پھر ایک سوال یہ بھی ہے کہ ائمہ کے اصول مختلف ہیں۔ ان کی بنیاد پر بعض مسائل میں کم و بیش آٹھ مسالک بھی بنے ہیں (جیسے صلاۃ الخوف)۔ تو کس کے اصول کو کس کے مطابق کیا جائے گا اور کیوں؟

جی یہی تو میں کہ رہا ہوں کہ اسی طرح اگر ایک ایک مسئلہ لے کر اس میں سب ائمہ کے اصول اور دلائل اور وجہ ترجیح وغیرہ کو لکھا جائے اور پھر اقرب الی الصواب کی نشاندہی کی جائے تو اس میں کیا رکاوٹ ہے اور پھر جہاں پہ کسی فقہ کے اصول پہ غلط ہونے کا الزام آ رہا ہو وہاں اوپر میرے بتائے گئے اشکال سے اس اصول کو درست بھی تخریج کیا جا سکتا ہے ( یہ مجھ کم علم کا ایک اشکال ہے آپ بہتر جنتے ہوں گے)
اصول کی تو اس طرح تخریج نہیں کی جا سکتی البتہ اس طرح فقہ مشترک بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے الگ سے کچھ اصول بنائے جائیں گے جو یہ واضح کریں گے کہ کس موقع پر کس مذہب کو کیوں ترجیح دی جائے۔
میرے ذہن میں یہ بات کئی سال سے ہے۔ اصولوں کا کچھ خاکہ بھی ہے۔ لیکن کیا یہ عملاً ممکن بھی ہے؟؟؟ اور اس کی ضرورت کیا ہے؟؟؟ ان دو سوالوں کے جواب میرے پاس نہیں۔

یہاں پہ بھی ہو سکتا ہے کہ شیخین رحمہما اللہ تعزیر مالی میں آنے والی ضعیف روایت کو اپنے تئیں درست سمجھتے ہوں کہ جسکو امام احمد درست نہ سمجھتے ہوں اور پھر اسی ضعیف حدیث کو درست سمجھتے ہوئے امام احمد کے اصولوں کے مطابق ہی تعزیر مالی کے جواز کا کہا ہو واللہ اعلم
الطرق الحکمیۃ لابن القیم ااور الحسبہ لابن تیمیہ رحمہما اللہ دیکھ سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ معاملہ ایسا نہیں ہے۔
جزاکم اللہ خیرا
و ایاک۔
اگر یہ سوال حل ہو گیا ہو تو ہم آگے چل سکتے ہیں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
ﺍﺻﻮﻝ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺗﺨﺮﯾﺞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻓﻘﮧ ﻣﺸﺘﺮﮎ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ- ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻟﮓ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﺻﻮﻝ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﻮ ﯾﮧ ﻭﺍﺿﺢ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﮐﺲ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﮐﺲ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﻮ ﮐﯿﻮﮞ ﺗﺮﺟﯿﺢ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ-ﻣﯿﺮﮮ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﮨﮯ- ﺍﺻﻮﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﭽﮫ ﺧﺎﮐﮧ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ- ﻟﯿﮑﻦ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﻋﻤﻼ‌ً ﻣﻤﮑﻦ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ؟؟؟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟؟؟ ﺍﻥ ﺩﻭ ﺳﻮﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ-

بات پسند آئی
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
عملا ایک سے چار فقہ ممکن هو گئی تو ایک مشترک فقہ کے امکانات معدوم نہیں ۔ اگرچہ یہ خیالات آپ کے ذہن میں چند سالوں سےہیں تو دیگر اہل علم کے ذهن میں بهی ضرور هونگے ۔ اصول بنانا سب سے مشکل بات هوگی ۔ لیکن محترم ضرورت سے انکار نہیں واقعی اس پر اہل علم کو کوئی راستہ نکالنا چاہیئے۔
جزاک اللہ خیرا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
ایک ہوتا ہے بعض اصولوں کا ذکر اور ان سے اختلاف، اور ایک ہوتا ہے ہر اصول کی سند، متن، دلائل، نظیریں اور متعلقہ تمام مباحث کو دیکھنا۔ امام شافعیؒ و غیرہ نے بعض اصولوں پر کام کیا ہے۔ اسی طرح بعض نصوص کے مطابق بھی کام ہوا ہے۔
میں نے یہ عرض کیا تھا:
میں یہ سمجھا تھا کہ آپ کا مقصود "علم الحدیث" کی طرز پر پرکھنا ہے۔ باقی فقہ کو پرکھا تو یقیناً گیا ہے اس کے اپنے طریقے سے۔
دیکھیں میں یہ کہتا ہوں کہ جب حدیث کی طرز پہ کام نہ ہوا ہو تو پھر اس میں تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے اس سے اس اصول کو وضع کرنے والے امام پہ حرف نہیں آئے گا بس یہی میرا نقطہ نظر تھا پس اگر تخریج بعد میں خود سے گمان پہ کی گئی ہے تو ان میں ردو بدل کیا جا سکتا ہے
میرا اشکال صرف یہ ہے کہ کیا ہمیں جو کہا پڑھایا جاتا ہے کہ احناف کے زیادہ تر اصول کو تخریج سے بنائے گئے ہیں تو کیا درست ہے یا زیادہ تر اصول سینہ ب سینہ آگے منتقل ہوئے ہیں چاہے انکی سند کا اہتمام احادیث کی طرح نہ کیا گیا ہو

یہ مثال نہ مجھے پہلے سمجھ میں آئی تھی اور نہ اب آئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے ناقص علم کے مطابق بیان کردہ دونوں اصول درست نہیں۔ احناف کا اصول زیادتی خبر واحد کا یہ ہے:
ذهب أصحابنا إلى أن المطلق من كتاب الله تعالى إذا أمكن العمل بإطلاقه فالزيادة عليه بخبر الواحد والقياس لا يجوز
(اصول الشاشی، ا۔29، دار الکتاب العربی)
اس میں فقیہ و غیر فقیہ کی کوئی قید نہیں ہے۔ اب اس پر آپ کو جو اشکال ہوا ہے:
محترم بھائی قرآن کے عموم کے خلاف ہونے والا قاعدہ علیحدہ ہے جو آپ نے اوپر بتایا ہے اس میں بھی ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ فلاں جگہ پہ احناف خود اس اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں اس پہ بعد میں آپ سے پوچھوں گا (کیونکہ میں ایک طرف کے موقف کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا چاہتا)
یہاں میں نے احناف کے ایک اور اصول کا ذکر کیا تھا کہ صحابی غیر فقیہ ہو تو بھی اسکی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا اگر قیاس کے خلاف ہو تو میں نے اسکو ایک فرضی مثال کی صورت میں لکھا تھا ہو سکتا ہے یہ اصول آپ کے نزدیک درست نہ ہو اس کی تحقیق پہ علیحدہ سے بات کریں گے

یہ ناممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک اصول پر صرف ایک مسئلہ کی بنیاد نہیں ہوتی بلکہ بے شمار مسائل اس سے متعلق ہوتے ہیں۔ اب اگر ہم کسی اصول کو دوسروں کے موافق کر لیتے ہیں تو وہ تمام مسائل جن کی اس پر بنیاد ہے، تبدیل ہو جائیں گے۔ یعنی ہم یہ کہیں گے کہ امام ابو حنیفہؒ کا یہ اصول ہے اور اس کی بنیاد پر ان کے مسائل یہ ہیں حالانکہ ہمیں قطعی علم ہے کہ امام کے مسائل اس کے خلاف ہیں۔ لہذا اصول ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے۔ البتہ مسئلہ غیر منقولہ عن الامام کی تخریج کسی اور اصول پر کی جائے یا اس میں کسی وجہ سے دوسرے مسلک کے مطابق فتوی دیا جائے، یہ ممکن ہے۔
پھر ایک سوال یہ بھی ہے کہ ائمہ کے اصول مختلف ہیں۔ ان کی بنیاد پر بعض مسائل میں کم و بیش آٹھ مسالک بھی بنے ہیں (جیسے صلاۃ الخوف)۔ تو کس کے اصول کو کس کے مطابق کیا جائے گا اور کیوں؟
جی اصول پہ کافی مسائل کی بنیاد ہوتی ہے مگر میں نے کہا تھا کہ جب اصول کو تخریج کیا گیا ہو خود ان مسائل سے تو اس تخریج میں ایک سے زیادہ احتمال کیا نہیں ہو سکتے
دوسرا وہی معاملہ پوچھنا تھا کہ جو اوپر بتایا ہے کہ کیا یہ جو کہا جاتا ہے کہ انکے اصول تخریج سے نکالے گئے ہیں تو کیا یہ درست ہے یا غلط ہے خیر اسکو اب چھوڑتے ہیں بعد میں اس پہ آپ سے راہنمائی لوں گا ان شاءاللہ
اگر یہ سوال حل ہو گیا ہو تو ہم آگے چل سکتے ہیں۔
جزاکم اللہ خیرا میں اگلی فرصت میں مزید دیکھتا ہوں
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
دیکھیں میں یہ کہتا ہوں کہ جب حدیث کی طرز پہ کام نہ ہوا ہو تو پھر اس میں تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے اس سے اس اصول کو وضع کرنے والے امام پہ حرف نہیں آئے گا بس یہی میرا نقطہ نظر تھا پس اگر تخریج بعد میں خود سے گمان پہ کی گئی ہے تو ان میں ردو بدل کیا جا سکتا ہے
اس بات پر كوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ تخریج گمان پر کی گئی ہے۔ کیوں کہ ہمارے پاس موجود قدیم ترین کتاب اصول الشاشی ہے اور اس میں صاحب اصول الشاشی (344 ھ) نے قطعی طور پر اصول بیان کیے ہیں۔ اگر تخریج کی جاتی تو اس کا ذکر ہمیں ملتا کہ کس مسئلہ سے کی گئی ہے۔ بعد میں آنے والوں نے بھی ان کے بیان کردہ کسی اصول پر کوئی رد نہیں کیا۔ لیکن ہم انہیں فی الحال تخریجی مان لیتے ہیں تاکہ آگے چل سکیں۔

یہاں میں نے احناف کے ایک اور اصول کا ذکر کیا تھا کہ صحابی غیر فقیہ ہو تو بھی اسکی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا اگر قیاس کے خلاف ہو
جی یہ اصول خود احناف میں مختلف فیہ ہے اور محققین احناف نے اس کا رد کیا ہے۔
لیکن اگر یہ اصول موجود بھی ہو تو آپ اپنی مثال دیکھیے۔ اس میں یہ کسی طرح فٹ نہیں ہوتا۔ دوسرا مثال میں آپ نے غلط اصول ذکر کر دیا ہے غالباً۔
اصول فقہ (قرآن پہ زیادتی خبر واحد سے نہیں ہو سکتی جب راوی غیر فقیہ ہو) + نصوص(فاستمعوا لہ، سورہ فاتحہ خلف الامام ابو ہریہ خبر واحد = امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی
اس اوپر میں نتیجہ یعنی فقہ ابو حنیفہ یہ ہے کہ سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی
لیکن یہ نتیجہ تو دوسرے اصول سے بھی حاصل ہو سکتا ہے یعنی اصول اسکے خلف ہو تو بھی یہی نتیجہ مل سکتا ہے مثلا
اصول فقہ (قرآن پہ زیادتی خبر واحد سے ہو سکتی ہے چاہے راوی غیر فقیہ ہو) + نص(فاستمعوا لہ) = امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی

اب اس صورت میں اصول تو یہ ہے کہ قرآن پہ خبر واحد سے زیادتی ہو سکتی ہے چاہے راوی غیر فقیہ ہو مگر فقیہ کو دوسری نص یعنی ابو ھریرہ کی حدیث کا علم نہیں تھا اس لئے اسنے فاستمعوا پہ ہی اعتبار کرتے ہوئے فاتحہ خلف الامام سے منع کر دیا پس فقہ تو ایک ہے رہا اصول مختلف ہو گئے

جزاکم اللہ خیرا میں اگلی فرصت میں مزید دیکھتا ہوں
منتظر۔۔۔
 
Top