کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
٭۔پرویزی ’مرکز ملت‘ کے فیصلوں کی حیثیت: اب اس فیصلہ کی حقیقت سنئے جس کا مرکز سے قطعی طور پر صادر ہونا اور جس کی اطاعت فرض ہونا بتایا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ
حضورؐ کے فیصلوں کو اس مقام پر لے آنے کی وجہ یہ ہے کہ آگے چل کر مسٹر پرویز کو خدا اور رسول کی اطاعت کی یہی صورت بیان کرنی ہے اور اسی کو وہ ’خلافت علی منہاجِ نبوت‘ کہتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک بار پھر مسٹر پرویز کی دینی بصیرت پر ہمیں افسوس کرنا چاہئے کہ ان کے خیال میں حضور کے فیصلے کبھی غلط ہوتے تھے اور وہ اپنے غلط فیصلوں کی ذمہ داری اپنے اوپر لیتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ ان کے غلط فیصلوں کا وبال ان پر ہوگا۔ حالانکہ نہ کوئی آیت اس پر شاہد ہے او رنہ کوئی حدیث اس کی تائید کرتی ہے اور نہ عقل ِسلیم کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ خدا کا رسول غلط فیصلے کرے اور وبال کا مستوجب ہو۔
مشکل یہ ہے کہ مسٹر پرویز شاید یہ جانتے ہی نہیں کہ غلط فیصلہ کرنا کس کو کہتے ہیں؟ حضور کی ذاتِ گرامی کا تو ذکر ہی کیا، کسی عدالت کا ایک قانون دان جج بھی غلط فیصلہ نہیں کرتا۔ ان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ فیصلہ حق دار کے خلاف ہو اور پھر بھی جج نے فیصلہ کرنے میں غلطی نہ کی ہو کیونکہ فیصلہ کے صحیح ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ فیصلہ کرنے میں قانونی مطالبات کو کہاں تک پورا کیا گیا ہے۔ چنانچہ ابن قیم نے اسی بنا پر یہ اصول اخذ کیا ہے
اس میں فیصلے کی غلطی کا ذکر نہیں ہے بلکہ اپنی طرف سے فیصلہ صحیح کرنے کا اعلان ہے کیونکہ حضور مدعی کے بیان کے مطابق فیصلہ جبھی دیتے تھے کہ مدعا علیہ دعوے کی غلطی ثابت نہ کرسکے۔ ایسا فیصلہ تو غلط نہیں کہا جاسکتا البتہ دعویٰ ہی غلط رہا ہو تو اس کا وبال مدعی کو بھگتنا پڑے گا۔ جس کو حضور نے آگ کے ٹکڑے سے تعبیر فرمایا۔
حدیث میں ایسی صورت بھی مروی ہے کہ ارتکابِ جرم کا ذاتی علم ہونے کے باوجود شہادت کی شرعی حیثیت مکمل نہ ہونے کے باعث مجرم کو بری کردیا گیا۔ جس طرح عدالت ہائے عالیہ کے فاضل ججوں کے فرائض میں سے ہے کہ وہ ذاتی بصیرت کو ملک کے قوانین عدلیہ کی حدود سے متجاوز نہ ہونے دیں،اسی طرح شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی فرض تھا کہ وہ ذاتی بصیرت کوشرعی ضوابط کی حدود سے بڑھنے نہ دیں۔ ہائی کورٹ کے بعض فیصلوں میں آپ کو یہ بھی ملے گاکہ خود فاضل ججوں نے اظہارِ افسوس کیا ہے کہ وہ مجرم کو استغاثہ کے نقائص کی بنا پر سزا نہ دے سکے، حالانکہ ان کی ذاتی بصیرت اور ذاتی معلومات ارتکابِ جرم کا ثبوت بہم پہنچاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے فیصلوں کو غلط تسلیم نہیںکیا گیا۔ بلکہ وہی فیصلے دوسرے عدالتی فیصلوں کی نظیر قرار پائے۔ غرض یہ کہنا کہ حضور فیصلے وحی کی رو سے نہیں بلکہ ذاتی بصیرت سے کیا کرتے تھے، علومِ دینیہ بلکہ اُصول عدلیہ سے محض کورا ہونے کی دلیل ہے۔
مسٹر پرویز کی آشفتہ بیانی دیکھئے کہ اسی رسالے میں ایک جگہ آیت (فَاحْکُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰهُ) (۴۸؍۷) پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
مدعا یہ ہے کہ میں غلط راستے پر نہیں ہوں۔ میں خود اپنا برا کیوں چاہوں گا۔ تم کو تو یہ سوچنا چاہئے کہ اگر میں فی الواقع صحیح راستے پر ہوں تو یہ خدا کے حکم سے ہے۔ تمہارا کیا حشر ہوگا اگر تم نے یہ راہ اختیار نہ کی۔ یہاں پر نہ کسی متنازع فیہ امر کا ذکر ہے نہ مقدمات کی کارروائی کا۔ بلکہ اس سے پہلے کی آیت
واضح ہو کہ مسٹر پرویز نے ان خیالات کو قرآن اور حدیث کی رو سے ثابت کیا ہے۔ اگر چہ احادیث کو وہ ظنی اور ناقابل یقین تصور کرتے ہیں لیکن جہاں تک ان خیالات کا تعلق ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم اس کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ یہ بات کہ یہ خیالات کہاں تک قرآن و حدیث کے مطابق ہیں، ہم آگے بیان کریں گے؛ سردست حضورؐ کے فیصلوں کو کسی دیہات کی چوپال میں نمبردار چودھری کے فیصلہ کے برابر رکھ کردیکھئے تو آپ دونوں میں کوئی خط ِامتیاز قائم نہ کرسکیں گے۔ کیونکہ بہرحال اس کا فیصلہ صحیح ہوگا یا غلط۔ غلط ہو تو اس کا ذمہ دار چودھری خود ہے اور اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا لیکن اگر وہ صحیح ہے تو توفیق الٰہی سے ہوگا۔ دونوں میں فرق صرف الفاظ کا ہے۔ وہاں جس چیز کو وحی کہا گیا ہے یہاں توفیق ِالٰہی کہہ دیا گیا ہے۔’’حضور فیصلے وحی کی رو سے نہیں کرتے تھے__ اپنی ذاتی بصیرت کے مطابق کیا کرتے تھے__ ان میں اس کا بھی امکان تھا کہ حق دار کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا جائے… یہ قرآن کی اس آیت کے مطابق ہے جس میں حضور سے کہا گیا ہے کہ … ’’ان سے کہہ دو کہ اگر میں کسی معاملے میں غلطی کرتا ہوں تو وہ غلطی میری اپنی وجہ سے ہوتی ہے، اس کا ذمہ دار میں خود ہوتا ہوں، لہٰذا اس کا وبال بھی مجھ پر ہوگا۔ اور اگر میں صحیح راستہ پر ہوتا ہوں تو وہ اس وحی کی بنا پر ہے جو میرے ربّ کی طرف سے میری طرف آئی ہے۔‘‘ (ص ۱۶، ملحضا ً)
حضورؐ کے فیصلوں کو اس مقام پر لے آنے کی وجہ یہ ہے کہ آگے چل کر مسٹر پرویز کو خدا اور رسول کی اطاعت کی یہی صورت بیان کرنی ہے اور اسی کو وہ ’خلافت علی منہاجِ نبوت‘ کہتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک بار پھر مسٹر پرویز کی دینی بصیرت پر ہمیں افسوس کرنا چاہئے کہ ان کے خیال میں حضور کے فیصلے کبھی غلط ہوتے تھے اور وہ اپنے غلط فیصلوں کی ذمہ داری اپنے اوپر لیتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ ان کے غلط فیصلوں کا وبال ان پر ہوگا۔ حالانکہ نہ کوئی آیت اس پر شاہد ہے او رنہ کوئی حدیث اس کی تائید کرتی ہے اور نہ عقل ِسلیم کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ خدا کا رسول غلط فیصلے کرے اور وبال کا مستوجب ہو۔
مشکل یہ ہے کہ مسٹر پرویز شاید یہ جانتے ہی نہیں کہ غلط فیصلہ کرنا کس کو کہتے ہیں؟ حضور کی ذاتِ گرامی کا تو ذکر ہی کیا، کسی عدالت کا ایک قانون دان جج بھی غلط فیصلہ نہیں کرتا۔ ان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ فیصلہ حق دار کے خلاف ہو اور پھر بھی جج نے فیصلہ کرنے میں غلطی نہ کی ہو کیونکہ فیصلہ کے صحیح ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ فیصلہ کرنے میں قانونی مطالبات کو کہاں تک پورا کیا گیا ہے۔ چنانچہ ابن قیم نے اسی بنا پر یہ اصول اخذ کیا ہے
ہماری عدالتیں بھی نافذ الوقت قوانین ِشہادت کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں اور رسول بھی فیصلہ کے وقت خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون کی پیروی کرتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ حضور فیصلے وحی کی رو سے نہیں کرتے تھے، انتہائی بے خبری ہے۔ وحی کی رو سے فیصلے کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ان قاعدوں کو ملحوظ رکھا جائے جو فصل ِتنازعات کے باب میں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی خفی یا وحی جلی کے تحت رسول اللہ کوبتا دیئے۔ اس میں ذاتی بصیرت کا جہاں تک تعلق ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ فصل ِتنازعات کے باب میں کسی قاعدئہ دین ِبرحق کی مراعات میں غفلت نہ فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت اُمّ سلمہ کی روایت جو مسٹر پرویز نے منکر حدیث ہونے کے باوجود بدیں ثبوت پیش کی ہے کہ حضور فصل معاملات میں غلطی بھی کردیتے تھے، اس میں خود یہ وضاحت ہے کہ ’’اگر میں کسی شخص کو اس کے بیان کے مطابق اس کے بھائی کا حق دے دوں تو اسے سمجھنا چاہئے کہ میں اسے آگ کاٹکڑا دے رہا ہوں، اسے چاہئے کہ اسے نہ لے۔‘‘’’ الاحکام الظاہرہ تابعۃ للأدلۃ الظاہرۃ‘‘ یعنی ظاہری احکام ظاہری دلائل کی بنا پر دیئے جائیں گے(حقیقت خواہ کچھ ہو)۔ (اعلام الموقعین:ج۳)
اس میں فیصلے کی غلطی کا ذکر نہیں ہے بلکہ اپنی طرف سے فیصلہ صحیح کرنے کا اعلان ہے کیونکہ حضور مدعی کے بیان کے مطابق فیصلہ جبھی دیتے تھے کہ مدعا علیہ دعوے کی غلطی ثابت نہ کرسکے۔ ایسا فیصلہ تو غلط نہیں کہا جاسکتا البتہ دعویٰ ہی غلط رہا ہو تو اس کا وبال مدعی کو بھگتنا پڑے گا۔ جس کو حضور نے آگ کے ٹکڑے سے تعبیر فرمایا۔
حدیث میں ایسی صورت بھی مروی ہے کہ ارتکابِ جرم کا ذاتی علم ہونے کے باوجود شہادت کی شرعی حیثیت مکمل نہ ہونے کے باعث مجرم کو بری کردیا گیا۔ جس طرح عدالت ہائے عالیہ کے فاضل ججوں کے فرائض میں سے ہے کہ وہ ذاتی بصیرت کو ملک کے قوانین عدلیہ کی حدود سے متجاوز نہ ہونے دیں،اسی طرح شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی فرض تھا کہ وہ ذاتی بصیرت کوشرعی ضوابط کی حدود سے بڑھنے نہ دیں۔ ہائی کورٹ کے بعض فیصلوں میں آپ کو یہ بھی ملے گاکہ خود فاضل ججوں نے اظہارِ افسوس کیا ہے کہ وہ مجرم کو استغاثہ کے نقائص کی بنا پر سزا نہ دے سکے، حالانکہ ان کی ذاتی بصیرت اور ذاتی معلومات ارتکابِ جرم کا ثبوت بہم پہنچاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے فیصلوں کو غلط تسلیم نہیںکیا گیا۔ بلکہ وہی فیصلے دوسرے عدالتی فیصلوں کی نظیر قرار پائے۔ غرض یہ کہنا کہ حضور فیصلے وحی کی رو سے نہیں بلکہ ذاتی بصیرت سے کیا کرتے تھے، علومِ دینیہ بلکہ اُصول عدلیہ سے محض کورا ہونے کی دلیل ہے۔
مسٹر پرویز کی آشفتہ بیانی دیکھئے کہ اسی رسالے میں ایک جگہ آیت (فَاحْکُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰهُ) (۴۸؍۷) پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
یہ جملہ بھی اَدبِ اُردو میں شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے __ اور پھر یہ کہہ دیا کہ حضور مقدمات کے فیصلے وحی کی رو سے نہیں کرتے تھے۔اب یا تو اس کا یہ مطلب ہے کہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرنا وحی کی رو سے فیصلہ کرنا نہیں ہے اور یا پھر یہ کہ حضور خدا کے حکم کے خلاف کیا کرتے تھے۔ (نعوذ باللہ) مسٹر پرویز نے حضور کے بعض فیصلوںکو غلط ثابت کرنے کے لئے قرآنِ حکیم کی یہ آیت بھی پیش کر دی ہے کہ’’رسول اللہ سے کہہ دیا گیا کہ اس نے لوگوں کے متنازعہ فیہ اُمور کے فیصلے کتاب اللہ کے مطابق کرنے ہیں۔‘‘ ( ص ۷)
(اگر اس سے تم نے روگردانی کی تو گویا خدا سے پھر گئے)(قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ فَاِنَّمَا اَضِلُّ عَلَی نَفْسِیْ وَاِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوْحِی اِلَیَّ رَبِّیْ) (۵۰:۳۴) ’’یعنی کہو کہ اگر میں غلط راستے پر ہوں تو یہ غلط راستہ اپنے ہی برے کو ہے اور اگر ٹھیک راستے پر ہوں تو جان رکھو کہ یہ میرے ربّ کی وحی ہے۔‘‘
مدعا یہ ہے کہ میں غلط راستے پر نہیں ہوں۔ میں خود اپنا برا کیوں چاہوں گا۔ تم کو تو یہ سوچنا چاہئے کہ اگر میں فی الواقع صحیح راستے پر ہوں تو یہ خدا کے حکم سے ہے۔ تمہارا کیا حشر ہوگا اگر تم نے یہ راہ اختیار نہ کی۔ یہاں پر نہ کسی متنازع فیہ امر کا ذکر ہے نہ مقدمات کی کارروائی کا۔ بلکہ اس سے پہلے کی آیت
نے نہایت وضاحت سے بتا دیا کہ یہاں پر محض ہدایت اور گمراہی کا تقابل ہے۔ حضور کے اس کہنے سے کہ اگر میں گمراہ ہوا تو اس کا خمیازہ مجھ کو بھگتنا پڑے گا، یہ نتیجہ نکالنا کہ فی الواقع حضور گمراہی میں مبتلا تھے، ایک غبی انسان کے سوا اور کون نکال سکتا ہے۔ مسٹر پرویز نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ اگر میں کسی معاملے میں غلطی کرتا ہوں تو وہ غلطی میری اپنی وجہ سے ہوتی ہے یعنی میں خود ایک و جہ ہوں غلطی کرنے کی، اس کی بابت کیا کہا جائے سوا اس کے کہ ع(قُلْ جَائَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِیُٔ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ) ’’یعنی سچ عیاں ہوگیا اور جھوٹ ہیچ ہے، اوّل بھی اور آخر بھی ‘‘__
چہ بے خبرز مقامِ محمدؐ عربی است!