• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اطاعت ِرسولﷺ اور پرویز

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
٭۔پرویزی ’مرکز ملت‘ کے فیصلوں کی حیثیت: اب اس فیصلہ کی حقیقت سنئے جس کا مرکز سے قطعی طور پر صادر ہونا اور جس کی اطاعت فرض ہونا بتایا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ
’’حضور فیصلے وحی کی رو سے نہیں کرتے تھے__ اپنی ذاتی بصیرت کے مطابق کیا کرتے تھے__ ان میں اس کا بھی امکان تھا کہ حق دار کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا جائے… یہ قرآن کی اس آیت کے مطابق ہے جس میں حضور سے کہا گیا ہے کہ … ’’ان سے کہہ دو کہ اگر میں کسی معاملے میں غلطی کرتا ہوں تو وہ غلطی میری اپنی وجہ سے ہوتی ہے، اس کا ذمہ دار میں خود ہوتا ہوں، لہٰذا اس کا وبال بھی مجھ پر ہوگا۔ اور اگر میں صحیح راستہ پر ہوتا ہوں تو وہ اس وحی کی بنا پر ہے جو میرے ربّ کی طرف سے میری طرف آئی ہے۔‘‘ (ص ۱۶، ملحضا ً)
واضح ہو کہ مسٹر پرویز نے ان خیالات کو قرآن اور حدیث کی رو سے ثابت کیا ہے۔ اگر چہ احادیث کو وہ ظنی اور ناقابل یقین تصور کرتے ہیں لیکن جہاں تک ان خیالات کا تعلق ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم اس کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ یہ بات کہ یہ خیالات کہاں تک قرآن و حدیث کے مطابق ہیں، ہم آگے بیان کریں گے؛ سردست حضورؐ کے فیصلوں کو کسی دیہات کی چوپال میں نمبردار چودھری کے فیصلہ کے برابر رکھ کردیکھئے تو آپ دونوں میں کوئی خط ِامتیاز قائم نہ کرسکیں گے۔ کیونکہ بہرحال اس کا فیصلہ صحیح ہوگا یا غلط۔ غلط ہو تو اس کا ذمہ دار چودھری خود ہے اور اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا لیکن اگر وہ صحیح ہے تو توفیق الٰہی سے ہوگا۔ دونوں میں فرق صرف الفاظ کا ہے۔ وہاں جس چیز کو وحی کہا گیا ہے یہاں توفیق ِالٰہی کہہ دیا گیا ہے۔
حضورؐ کے فیصلوں کو اس مقام پر لے آنے کی وجہ یہ ہے کہ آگے چل کر مسٹر پرویز کو خدا اور رسول کی اطاعت کی یہی صورت بیان کرنی ہے اور اسی کو وہ ’خلافت علی منہاجِ نبوت‘ کہتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک بار پھر مسٹر پرویز کی دینی بصیرت پر ہمیں افسوس کرنا چاہئے کہ ان کے خیال میں حضور کے فیصلے کبھی غلط ہوتے تھے اور وہ اپنے غلط فیصلوں کی ذمہ داری اپنے اوپر لیتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ ان کے غلط فیصلوں کا وبال ان پر ہوگا۔ حالانکہ نہ کوئی آیت اس پر شاہد ہے او رنہ کوئی حدیث اس کی تائید کرتی ہے اور نہ عقل ِسلیم کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ خدا کا رسول غلط فیصلے کرے اور وبال کا مستوجب ہو۔
مشکل یہ ہے کہ مسٹر پرویز شاید یہ جانتے ہی نہیں کہ غلط فیصلہ کرنا کس کو کہتے ہیں؟ حضور کی ذاتِ گرامی کا تو ذکر ہی کیا، کسی عدالت کا ایک قانون دان جج بھی غلط فیصلہ نہیں کرتا۔ ان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ فیصلہ حق دار کے خلاف ہو اور پھر بھی جج نے فیصلہ کرنے میں غلطی نہ کی ہو کیونکہ فیصلہ کے صحیح ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ فیصلہ کرنے میں قانونی مطالبات کو کہاں تک پورا کیا گیا ہے۔ چنانچہ ابن قیم نے اسی بنا پر یہ اصول اخذ کیا ہے
’’ الاحکام الظاہرہ تابعۃ للأدلۃ الظاہرۃ‘‘ یعنی ظاہری احکام ظاہری دلائل کی بنا پر دیئے جائیں گے(حقیقت خواہ کچھ ہو)۔ (اعلام الموقعین:ج۳)
ہماری عدالتیں بھی نافذ الوقت قوانین ِشہادت کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں اور رسول بھی فیصلہ کے وقت خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون کی پیروی کرتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ حضور فیصلے وحی کی رو سے نہیں کرتے تھے، انتہائی بے خبری ہے۔ وحی کی رو سے فیصلے کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ان قاعدوں کو ملحوظ رکھا جائے جو فصل ِتنازعات کے باب میں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی خفی یا وحی جلی کے تحت رسول اللہ کوبتا دیئے۔ اس میں ذاتی بصیرت کا جہاں تک تعلق ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ فصل ِتنازعات کے باب میں کسی قاعدئہ دین ِبرحق کی مراعات میں غفلت نہ فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت اُمّ سلمہ کی روایت جو مسٹر پرویز نے منکر حدیث ہونے کے باوجود بدیں ثبوت پیش کی ہے کہ حضور فصل معاملات میں غلطی بھی کردیتے تھے، اس میں خود یہ وضاحت ہے کہ ’’اگر میں کسی شخص کو اس کے بیان کے مطابق اس کے بھائی کا حق دے دوں تو اسے سمجھنا چاہئے کہ میں اسے آگ کاٹکڑا دے رہا ہوں، اسے چاہئے کہ اسے نہ لے۔‘‘
اس میں فیصلے کی غلطی کا ذکر نہیں ہے بلکہ اپنی طرف سے فیصلہ صحیح کرنے کا اعلان ہے کیونکہ حضور مدعی کے بیان کے مطابق فیصلہ جبھی دیتے تھے کہ مدعا علیہ دعوے کی غلطی ثابت نہ کرسکے۔ ایسا فیصلہ تو غلط نہیں کہا جاسکتا البتہ دعویٰ ہی غلط رہا ہو تو اس کا وبال مدعی کو بھگتنا پڑے گا۔ جس کو حضور نے آگ کے ٹکڑے سے تعبیر فرمایا۔
حدیث میں ایسی صورت بھی مروی ہے کہ ارتکابِ جرم کا ذاتی علم ہونے کے باوجود شہادت کی شرعی حیثیت مکمل نہ ہونے کے باعث مجرم کو بری کردیا گیا۔ جس طرح عدالت ہائے عالیہ کے فاضل ججوں کے فرائض میں سے ہے کہ وہ ذاتی بصیرت کو ملک کے قوانین عدلیہ کی حدود سے متجاوز نہ ہونے دیں،اسی طرح شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی فرض تھا کہ وہ ذاتی بصیرت کوشرعی ضوابط کی حدود سے بڑھنے نہ دیں۔ ہائی کورٹ کے بعض فیصلوں میں آپ کو یہ بھی ملے گاکہ خود فاضل ججوں نے اظہارِ افسوس کیا ہے کہ وہ مجرم کو استغاثہ کے نقائص کی بنا پر سزا نہ دے سکے، حالانکہ ان کی ذاتی بصیرت اور ذاتی معلومات ارتکابِ جرم کا ثبوت بہم پہنچاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے فیصلوں کو غلط تسلیم نہیںکیا گیا۔ بلکہ وہی فیصلے دوسرے عدالتی فیصلوں کی نظیر قرار پائے۔ غرض یہ کہنا کہ حضور فیصلے وحی کی رو سے نہیں بلکہ ذاتی بصیرت سے کیا کرتے تھے، علومِ دینیہ بلکہ اُصول عدلیہ سے محض کورا ہونے کی دلیل ہے۔
مسٹر پرویز کی آشفتہ بیانی دیکھئے کہ اسی رسالے میں ایک جگہ آیت (فَاحْکُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰهُ) (۴۸؍۷) پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’رسول اللہ سے کہہ دیا گیا کہ اس نے لوگوں کے متنازعہ فیہ اُمور کے فیصلے کتاب اللہ کے مطابق کرنے ہیں۔‘‘ ( ص ۷)
یہ جملہ بھی اَدبِ اُردو میں شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے __ اور پھر یہ کہہ دیا کہ حضور مقدمات کے فیصلے وحی کی رو سے نہیں کرتے تھے۔اب یا تو اس کا یہ مطلب ہے کہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرنا وحی کی رو سے فیصلہ کرنا نہیں ہے اور یا پھر یہ کہ حضور خدا کے حکم کے خلاف کیا کرتے تھے۔ (نعوذ باللہ) مسٹر پرویز نے حضور کے بعض فیصلوںکو غلط ثابت کرنے کے لئے قرآنِ حکیم کی یہ آیت بھی پیش کر دی ہے کہ
(قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ فَاِنَّمَا اَضِلُّ عَلَی نَفْسِیْ وَاِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوْحِی اِلَیَّ رَبِّیْ) (۵۰:۳۴) ’’یعنی کہو کہ اگر میں غلط راستے پر ہوں تو یہ غلط راستہ اپنے ہی برے کو ہے اور اگر ٹھیک راستے پر ہوں تو جان رکھو کہ یہ میرے ربّ کی وحی ہے۔‘‘
(اگر اس سے تم نے روگردانی کی تو گویا خدا سے پھر گئے)
مدعا یہ ہے کہ میں غلط راستے پر نہیں ہوں۔ میں خود اپنا برا کیوں چاہوں گا۔ تم کو تو یہ سوچنا چاہئے کہ اگر میں فی الواقع صحیح راستے پر ہوں تو یہ خدا کے حکم سے ہے۔ تمہارا کیا حشر ہوگا اگر تم نے یہ راہ اختیار نہ کی۔ یہاں پر نہ کسی متنازع فیہ امر کا ذکر ہے نہ مقدمات کی کارروائی کا۔ بلکہ اس سے پہلے کی آیت
(قُلْ جَائَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِیُٔ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ) ’’یعنی سچ عیاں ہوگیا اور جھوٹ ہیچ ہے، اوّل بھی اور آخر بھی ‘‘__
نے نہایت وضاحت سے بتا دیا کہ یہاں پر محض ہدایت اور گمراہی کا تقابل ہے۔ حضور کے اس کہنے سے کہ اگر میں گمراہ ہوا تو اس کا خمیازہ مجھ کو بھگتنا پڑے گا، یہ نتیجہ نکالنا کہ فی الواقع حضور گمراہی میں مبتلا تھے، ایک غبی انسان کے سوا اور کون نکال سکتا ہے۔ مسٹر پرویز نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ اگر میں کسی معاملے میں غلطی کرتا ہوں تو وہ غلطی میری اپنی وجہ سے ہوتی ہے یعنی میں خود ایک و جہ ہوں غلطی کرنے کی، اس کی بابت کیا کہا جائے سوا اس کے کہ ع
چہ بے خبرز مقامِ محمدؐ عربی است!​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
٭۔پرویزی مرکز ملت میں رسول اللہ کا مقام: رسول اللہﷺکے فرائض متعلقہ نظامِ اسلامی کی وہ تفصیل بھی قابل ِداد ہے جو اس رسالے میں بتائی گئی ہے :
’’رسول اللہ کے ذمے اس ضمن میں دو کام تھے: ایک تو متنازعہ فیہ اُمور میں کتاب اللہ کے متعلق فیصلے کرنا اور دوسرے کتاب اللہ نے جن قوانین کو محض اُصولی طور پر بیان کیا تھا او ران کی جزئیات کو دانستہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ تاکہ وہ بھی اصولوں کی طرح ہمیشہ کے لئے غیر متبدل نہ قرار پاجائیں؛ اپنے خیالات کے مطابق ان کی جزئیات متعین کرنا۔‘‘ ( ص۱۵)
متنازعہ اُمور کے فیصلے کی کیفیت اوپربیان ہوچکی او ریہ بھی ذکر ہوچکا کہ مسٹر پرویز کے نزدیک تمام متنازعہ امور کا فیصلہ مرکز کے باہر ماتحت افسران کیا کرتے تھے۔ اس طرح حضور کا کام صرف اپیل سننے تک تھا، وغیرہ… باقی قرآنی قوانین کے اُصول کی جزئیات کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ قرآن نے تو اسے دانستہ چھوڑ دیا کہ مبادا اُصول کی طرح جزئیات بھی غیر متبدل قرار نہ پاجائیں۔ یعنی اصول غیر متبدل ہیں لیکن ان کے تحت جزئیات متبدل ہی رہیں گی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
٭۔جزئیات سے کیا مراد ہے اور اس کے تعین کا کیا طریقہ ہے، اس کا جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ لکھتے ہیں :
اب رہا جزئیات کا متعین کرنا تو اس کے لئے قرآن نے حضور کو حکم دیا تھا کہ(وَشَاوِرْهُمْ فِیْ الاَمْرِ)(۵۵:۳) تم معاملات میں ان (جماعت ِمؤمنین) سے مشورہ کیا کرو۔‘‘ ( ص۱۷)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جزئیات کا تعین بھی حضور کے اکیلے کا کام نہیں تھا بلکہ مشورہ سے ہوتا تھا چنانچہ اس کے ثبوت میں انہوں نے مشکوٰۃ کی ایک حدیث کا ترجمہ اس طرح شروع کیا ہے :
’’عبداللہ بن زید بن عبد ربہ نے کہا کہ جب رسول اللہ نے ناقوس بجانے کا حکم دیا تاکہ اسے بجا کر لوگوں کو نماز کے لئے جمع کریں تو مجھ کو خواب میں ایک شخص دکھائی دیا جس کے ہاتھ میں ناقوس تھا۔‘‘ وغیرہ (ص ۱۷)
پھر بتایا گیا ہے کہ اس شخص نے خواب میں اذان کے الفاظ سکھائے اور اسی طرح رسول اللہ نے اذان دینے کا حکم دے دیا۔ راوی کا بیان ہے کہ جب عمر بن خطاب نے اذان کی آواز سنی تو انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ میں نے بھی خواب میں ایسا ہی دیکھا ہے۔ تب حضورؐ نے فرمایا کہ خدا ہی کو تعریف ہے ۔
آپ اس حدیث کو پڑھ کربتائیے کہ کیا اسی کا نام مشورہ ہے۔ اس واقعہ کے بیان کرنے اور مشورہ کی اس عجیب و غریب صورت کے پیش کرنے کی غرض یہ ہے کہ سننے والے رسول ؐ کی حیثیت کو اس بلند مقام سے جو مسلمان اب تک سمجھ رہے تھے، نیچے لاکر رسول کی ضرورت کا احساس ہی ترک کردیں۔
پرویزی مرکز ملت میں حاکم وقت کا مقام
…چنانچہ لکھتے ہیں :
’’ظاہر ہے کہ رسول اللہ کے بعد دین کے باقی رہنے کی صورت یہی ہوسکتی تھی کہ رسول کا ایک جانشین ہوتا جو محسوس شخصیت کی حیثیت سے رسول کی جگہ لے لیتا۔ اسے خلیفۃ الرسول رسول کا جانشین کہا جاتا ہے۔ (ص۲۰) …
خلیفۃ الرسول اس فریضہ (یعنی فریضہ رسول) کو بدستور انجام دیتا تھا۔ اب (فَلاَوَرَبِّکَ لاَيُؤمِنُوْنَ حَتّٰی يُحَکِّمُوْکَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ) (تیرے ربّ کی قسم یہ لوگ کبھی مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے متنازعہ فیہ اُمور میں تجھے حَکم نہ بنائیں) میں کَ (تجھے) سے مراد خلیفۃ الرسول تھا۔‘‘ (ص۲۲)
دیکھا آپ نے رسول کے بعد خلیفہ رسول نے کس طرح رسول کی ضرورت کو ختم کردیا۔ آگے جاکر اس رسالہ میں خلیفہ کی ضرورت کو بھی ختم کردیا گیا ہے اور آنحضرتﷺکی بجائے کسی محسوس شخصیت کو پھر سے قائم کرنے کی تحریک شروع کی گئی ہے جس کانام ’طلوعِ اسلام‘ ہے …!!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
٭۔مسٹر پرویز کے آئندہ عزائم کیا ہیں، ان کے اپنے الفاظ میں ان کی کوشش یہ ہے کہ
’’جس محسوس شخصیت (مرکز ِملت) کے گم ہوجانے سے یہ سارا انتشار پیدا ہوا ہے، اسے پھر سے قائم کردیا جائے۔ جسے ہم تمام متنازعہ اُمور میں اپنا حکم بنائیں اور اس طرح خدا کے اس حکم کی اطاعت کرسکیں کہ(فَلاَوَرَبِّکَ لاَ يُؤمِنُوْنَ حَتّٰی يُحَکِّمُوْکَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ) (ص۲۸)
اس سے ان کا مطلب یہ ہے کہ وہی ک کی ضمیر جو پہلے آنحضرتﷺکے لئے تھی اور بعد میں خلیفہ کے لئے ہوئی، اب مرکز ِملت کے لئے ہو :
’’یہی وہ خلافت علی منہاجِ نبوت ہوگی: (۱) جو اُمت کے تمام متنازعہ امور کا فیصلہ کرے گی (۲) جو اس وقت ہمارے پاس شریعت کے نام سے موجود ہے، وہ کتاب اللہ کی روشنی میںاس کا جائزہ لے گی، جوکچھ اس میں غلط ہوگا اسے محو کردے گی۔ جس جس بات میں موجودہ حالات کے متعلق کسی تبدیلی کی ضرورت ہوگی، اس میں مناسب تبدیلی کردے گی باقی علیٰ حالہٖ رہنے دے گی۔‘‘ (ص ۲۹)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
٭۔غرض اس رسالہ میں جو اطاعت ِرسول کا عنوان ہے، اس سے مراد اس زمانہ میں مرکز ِملت کی اطاعت ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’میری کوشش یہ ہے کہ ہم میں پھر سے خلافت علیٰ منہاجِ نبوت کا سلسلہ قائم ہوجائے تاکہ ہم پھر اللہ اور رسول کی اطاعت کرسکیں۔‘‘ (ص۲۹)
یہ اطاعت کس طرح ہوگی :
’’اسی طرح جس طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں اللہ اور رسول کی اطاعت کی جاتی تھی۔‘‘
اور ان حضرات کے زمانے میں اطاعت کس طرح کی جاتی تھی، اس کی تفصیل یہ ہے:
(۱) جن اُمور کی جزئیات پہلے متعین نہیں ہوئی تھیں، ان کی جزئیات متعین کی جاتی تھیں۔
(۲) جو جزئیات پہلے متعین ہوچکی تھیں او ران میں کسی تغیر و تبدل کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی انہیں علیٰ حالہٖ قائم رکھا جاتا تھا (۳) جن جزئیات میں اقتضائے حالات کے مطابق کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی، اس میں تبدیلی کردی جاتی تھی۔‘‘ (ص۲۲،۲۳)
’’اگر زمانے کے تقاضے اس کے خواہاں ہوں تو نبی اکرم کے زمانے کے فیصلوں میں مناسب ردّوبدل کیا جاسکتا ہے او رایک خلیفہ کے فیصلہ کو خلیفہ مابعد بھی بدل سکتا ہے۔‘‘ ( ص۲۴)
مسٹر پرویز اسی کو ’اطاعت ِرسول‘کہتے ہیں اور اسی اطاعت ِرسول کی ترغیب اس رسالہ میں دی گئی ہے۔ یعنی ایک محسوس شخصیت قائم کی جائے جو دین کیلئے نئی جزئیات متعین کرے اورحسب ِضرورت رسولﷺکی متعین کردہ جزئیات میں ردّوبدل کرے اور زمانہ یہی کہتا رہے کہ یہ اطاعت رسول ہو رہی ہے!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
٭۔اولیاتِ عمرؓ:اب مجھے صرف یہ بتانا رہ گیا ہے کہ مسٹر پرویز کا مطلب جزئیات سے کیا ہے اور زمانے کے تقاضے سے کیا مراد ہے؟ پرویز نے اگرچہ جزئیات کی تعریف نہیں بتائی، البتہ چند مثالیں ضرور دی ہیں۔ ایک مثال یہ ہے :
’’نبی اکرمﷺ کے زمانہ سے لے کر عہد ِصدیقی تک ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقوں کو ایک شمار کرکے طلاقِ رجعی قرا ردیا جاتا تھا۔ حضرت عمرنے اپنے زمانہ میں اسے تین شمار کرکے طلاقِ مغلظ قرار دے دیا۔‘‘ (ص۲۳)
اس مثال میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ قرآنِ حکیم کے کون سے اُصولی حکم کا جزئیہ ہے۔ پھر یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ حضرت عمرؓ نے اس کے لئے باہمی مشورہ کب کیا۔ حالانکہ ان کو مشورہ کرنا ضروری تھا۔ اس سلسلے میں یہ بیان کردینا ضروری ہے کہ مسٹر پرویز کو حضرت عمر کے اس فیصلے سے اختلاف ہے۔ چنانچہ یہاں پر انہوں نے صرف اتنا اشارہ کردیا ہے کہ
’’ہمیں اس وقت اس سے بحث نہیں کہ قرآن کی رو سے صحیح طلاق کی پوزیشن کیا ہے، ہم یہاں صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضور کے زمانے کے فیصلے حضور کے خلفا کے عہد میں بدلے جاسکتے ہیں‘‘
، اس سے مقصد یہ ہے کہ خلفا کو قرآن کی رو سے کسی حکم کی صحیح پوزیشن کے خلاف بھی حسب ِضرورت تبدیلی کا حق حاصل ہے۔چنانچہ اس کا ثبوت ایک اور واقعہ سے دیا گیا ہے کہ
’’حضرت عمر نے فیصلہ دیا کہ جنگ کے دوران کسی پر حد جاری نہ کی جائے اور قحط کے زمانے میں چور کا ہاتھ نہ کاٹاجائے۔‘‘ (ص۲۴)
مطلب یہ نکلا ہے کہ وقت کے تقاضوں میں یہ قوت ہے کہ حد ِقرآنی ساقط ہوسکتی ہے اور قرآنی حکم کو بدلا جاسکتا ہے۔حالانکہ خود مسٹر پرویز کا کہنا ہے کہ
’’وحی کی رو سے متعین شدہ جزئیہ میں کوئی بھی تبدیلی کرنے کامجاز نہیں۔‘‘ (ص ۲۵)
باوجود اس کے ان کی رائے ہے :
’’جن اُمور کی قرآن نے اجازت دی ہوئی ہے (اس فقرہ کے اَدبی محاسن کوبھی پیش نظر رکھئے گا) اگر حالات کا تقاضا ہو تو مرکز ِملت انہیں وقتی طور پر بند بھی کرسکتا ہے۔‘‘ (ص۲۵)
قرآن کے حکم میں تبدیلی کی ایک اور مثال یہ دی ہے کہ
’’حضور کے زمانے میں مؤلفۃ القلوب کو صدقات کی مد سے اِمداد دی جاتی تھی، حضرت عمر نے اپنے زمانے میں اسے ختم کردیا۔‘‘ (ص۲۴)
اسی سلسلہ میں انہوں نے لکھا ہے:
’’یہ جزئیات وحی کی رو سے متعین نہیں ہوتی تھیں۔ اس باب میں حضور کو صحابہ سے مشورہ لینے کا حکم تھا۔‘‘ (ص۲۵)
سوال یہ ہے کہ کیا مسٹر پرویز اور ان کے تمام جماعتی مل کربھی بتا سکتے ہیں کہ حضور نے یہ تمام جزئیات کس کے حکم سے متعین فرمائیں۔ کس نے مشورہ دیا کہ ایک مجلس میں تین طلاق ایک ہی طلاقِ رجعی ہوگی۔نبی اکرم نے ارتکابِ جنایات پرحد جاری کرنے اور چور کا ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کن کن صحابہ کے مشورہ سے کیا۔ مؤلفۃ القلوب کو زکوٰۃ دلائے جانے کے حق میں کن اصحاب نے رائے دی؟ اگر یہ تمام احکامات حضور نے مشورہ سے نہیں دیئے بلکہ یہ سب وحی کی رو سے متعین شدہ جزئیات تھیں تو اب یہی سوال میں کرتا ہوں کہ حضرت عمرؓ کو ان تمام جزئیات میں تبدیلی کرنے کا کیا حق تھا۔ صاف کیوں نہیں کہتے کہ دراصل حضرت عمر کا نام لے کر خود قرآنی احکامات میںردّوبدل کرنامقصود ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ قرآنی فیصلوں اور حضور کے احکامات میں کسی تبدیلی کا سوال کسی عہد میں پیدا ہی نہیںہوا اور نہ ہوسکتا ہے۔ حضرت عمر نے ہرگز کسی جزئیہ میں تبدیلی نہیں کی بلکہ خدا اور رسول کے احکامات کی وہی تعبیر ان کے خیال میں صحیح تھی جس کا انہوں نے حکم دیا۔ اگر کسی پچھلے فیصلہ کی مخالفت انہوں نے کی ہے تو صرف اس لئے کہ اس فیصلے کو انہوں نے منشا رسول کے خلاف سمجھا۔ ان کے یا صحابہ کرام بلکہ فقہائے اُمت اور علمائے برحق میں سے کسی کے حاشیہ خیال میں یہ تصور آہی نہیں سکتا تھا کہ وہ حضور کے مقرر کردہ کسی جزئیہ کوبدل دیں۔یہ سب عہد جدید کے مسلوب الحس اور بے رحم مدعیانِ اسلام کا ہی کام ہے کہ وہ علانیہ رسول کے فیصلہ میں تبدیلی کا پرچار کرتے ہیں اور کوئی ان سے باز پرس نہیں کرتا۔
حد کا روکنا اور قطع ید کا التوا اس قسم کے حالات کی بنا پر تھا جن میں حرام حلال ہوجاتا ہے اور وہ (لاَ يُکَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَهَا) کے تحت آجاتا ہے او ریہی قرآن کا حکم ہے اور رسول ؐ کی ہدایت ہے۔اور یہ کہنا کہ حضرت عمر نے فیصلہ دیا کہ جنگ کے دوران میںکسی پر حد جاری نہ کی جائے کذبِ صریح ہے۔ خود آنحضرتﷺ نے یہ حکم دیا کہ ایامِ جنگ میں چوروں کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ ایام جنگ میں ایک فوجی نے بشر بن ارطاۃ کی ڈھال چرالی ، پکڑا گیا۔ بشر فرماتے ہیں:
لولا أنی سمعت رسول الله يقول: لا تقطع الأيدی فی الغزو لقطعت يدک (ابوداود) یعنی ’’اگر آنحضرتﷺکو میں نے یہ کہتے نہ سنا ہوتا کہ دورانِ جنگ میں ہاتھ نہ کاٹے جائیں تو میں ضرور تیرا ہاتھ کاٹ دیتا۔ ‘‘
غرض یہ حکم نیانہیں ہے۔ اگر حضرت عمر نے سابقہ حکم بدل دیا ہوتا تو اس کے بعد یہ حدود کبھی نافذ نہیں ہوتیں۔ لیکن ان کے عہد ِحیات میں بھی یہی حدود بدستور نافذ رہیں۔ لیکن یہ فہم علم دین حاصل کرنے کے بعد ہی آتا ہے۔ اسی طرح مؤلفۃ القلوب کی امداد حضرت عمرؓ نے بند نہیں کی۔ آپ نے غلط سمجھا، حقیقت یہ ہے کہ مؤلفۃ القلوب کی مد سے زکوٰۃ لینے والے ہی نہ رہے۔ جیسے اِس وقت غلام اور عاملین زکوٰۃ موجود نہیں ہیں۔ تو زکوٰۃ کی مد سے ان کودیا جانا ممکن نہیں۔ حضرت عمر جیسے فدائی سنت پر یہ اِفترا کہ انہوں نے اللہ یا رسول کے حکم کو بدل دیا، انتہائی شرمناک جسارت ہے۔ مسٹر پرویز نے لکھا ہے کہ
’’یہ جزئیات وحی کی رو سے متعین نہیں ہوتی تھیں۔ اگر یہ وحی کی رو سے متعین ہوتیں تو حضور کے خلفائے راشدین میں سے کسی کو بھی اس کا حق نہیں پہنچ سکتا تھا کہ ان میں کسی قسم کی تبدیلی یا حک واضافہ کرسکتا۔‘‘ ( ص۲۵)
کاش مسٹر پرویز کو کوئی سمجھائے کہ کسی امر کا متعین کرنا تو بڑی بات ہے، حضور کاایک اشارئہ ابرو بھی کسی امر کے لئے ہو تو اس میںکسی قسم کی تبدیلی یا حک و اضافہ کا تصور ہی خلفائے راشدین کے لئے موت سے بدتر تھا۔ ع
کار پاکان را قیاس از خود م یگر​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
٭۔مسٹر پرویز نے حضور کے مقرر فرمودہ اُمورِ دین میںحالات کے مطابق تبدیلی کی چند اور مثالیں بھی دی ہیں مثلاً
(۱) ’’نبی اکرم ﷺنے قیدیوں کا فدیہ ایک دینار فی کس مقرر کیا تھا، لیکن حضرت عمر نے مختلف شرحیں مقرر فرمائیں۔‘‘ …
(۲) ’’ نبی اکرم ﷺنے مختلف اجناس کی شرحِ خراج بالتفصیل مقر ر نہیں فرمائی حضرت عمر نے متعین فرمائی۔‘‘ …
(۳) ’’ نبی اکرمﷺ کے زمانہ میں بعض مفتوحہ زمینیں مجاہدین میں تقسیم کردی گئی تھیں، حضرت عمر نے یہ سسٹم ختم کردیا۔‘‘ …
(۴) ’’ رسول اللہ ﷺنے لوگوں کے وظائف مساوی مقرر فرمائے تھے حضر ت عمر نے انہیں خدمات کے تناسب سے بدل دیا۔‘‘ …
(۵) ’’نبی اکرمﷺ کے زمانے میں تجارتی گھوڑوں اور سمندروں سے برآمد شدہ اشیا پر زکوٰۃ نہیں لی جاتی تھی، حضرت عمر نے ان پر زکوٰۃ قائم کی۔‘‘
لیکن ان میں سے کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جسے حضور کی متعین فرمودہ باتوں میں سے کسی میں تبدیلی کہا جاسکے۔ ان میں یا تو کذب بیانی ہے یا غلط فہمی ہے اور یا پھر ابلہ فریبی سے کام لیا گیا ہے مثلاً حضور کا فدیہ کی مقدار ایک دینار مقرر کرنا جھوٹ ہے۔ حضور نے تو بعض اوقات فدیہ کے لئے کوئی رقم رکھی ہی نہیں۔ ایک بار دس آدمیوں کو لکھنا سکھا دینا ہی فدیہ قرار دیا تھا۔ لوگوں کے وظائف اگر کبھی مساوی مقرر ہوئے تو وہ لوگ مساوی وظائف ہی کے حقدار تھے۔ اس سے یہ مطلب سمجھ لینا کہ مساوی وظائف ہی کا حکم تھا، سخت غلط فہمی ہے۔اسی طرح اگر حضور کے زمانے میں کسی چیز پر زکوٰۃ نہ تھی اور بعد میں لگا دی گئی تو اس میں کسی حکم کی تبدیلی کیسے ہوئی؟ تبدیلی تو جب ہوتی کہ کسی چیز پر زکوٰۃ کی ممانعت ہوتی (جیسے نمک وغیرہ پر تھی) او رپھر اس پر زکوٰۃ لگتی۔ یہ بھی مسٹر پرویز کی غلط فہمی ہے۔ شرحِ خراج کا بالتفصیل مقرر نہ فرمایا جانا اور پھر بالتفصیل اس کا مقرر ہوجانا بھی کسی حکم میں تبدیلی نہیں ہے۔ بلاشبہ بعض زمینیں مجاہدین میں تقسیم کردی گئی تھیں لیکن بعض کی تقسیم سے کل کے لئے حکم ثابت کرنا ابلہ فریبی نہیں تو اورکیاہے؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
٭۔اگر مسٹر پرویز کو احادیث کا شعور ہوتا اور سیرتِ صحابہؓ سے واقف ہوتے تو نہ ایسی بے ڈھنگی باتیں کہتے اور نہ خلفائے راشدین پر احکامِ رسول کی تبدیلی کا الزام لگاتے۔ نبی اکرمﷺکے فیصلوں میں ردّوبدل او رحک و اضافہ کی نظیریں مسٹر پرویز کو ان کے سوا نہیں ملیں اور وہ صرف انہی باتوں کو مڑ مڑ کر اپنی تحریروں میںپیش کرتے رہتے ہیں لیکن ان کا دعویٰ یہ ہے :
’’یہ چند واقعات محض بطورِ مثال درج کردیئے گئے ہیں … ‘‘
مدعا یہ ہے کہ حضور کے حکم میں تبدیلی کی صرف یہی نظائر نہیں ہیں بلکہ اس سے بہت زیادہ ہیں اب یہ ہر شخص خود اندازہ لگا لے کہ حضور کی وفات سے بارہ چودہ سال کے اندر اندر جب کہ حالات اس قدر بدل گئے کہ نبی اکرمﷺ کی متعین کردہ پچاسوں جزئیات میں تبدیلی کردی گئی۔ توجبکہ چودہ نہیں، چودہ سو سال گزر چکے ہیں تو جزئیاتِ دین میں کس قدر تبدیلیاں درکار ہوں گی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
٭۔مسٹر پرویز کونہایت شدت سے اس امر کا احساس تھا کہ شریعت ِاسلامیہ کا تمام ڈھانچہ ہزاروں سال کا پرانا، کہنہ اور بوسیدہ ہو کر از سر نو ساخت و تعمیر کے قابل ہوگیا ہے لیکن ان کے لئے مشکل یہ ہے کہ وہ ابھی تک خلافت ِراشدہ کا سلسلہ از سر نو قائم نہیں کرسکے، تاہم وہ مایوس نہیں ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’ہم میں جو یہ خیال پیدا کردیا گیا ہے کہ اب خلافت ِراشدہ کا سلسلہ قائم ہی نہیں کیاجاسکتا تو یہ نااُمید ی کا نتیجہ ہے۔ اسلام نے قیامت تک زندہ رہنا ہے، اس لئے اس میں خلافت کا سلسلہ بدستور قائم کیا جاسکتا ہے۔‘‘ ( ۲۸)
یعنی چودہ سو سال سے جو اسلام مردہ پڑا ہوا ہے، اسے مسٹر پرویز پھر زندہ کریں گے۔ سردست تو ان کی ہدایات صرف یہ ہیں :
’’جب تک خلافت کا یہ سلسلہ قائم نہیں ہوجاتا، کسی فرد کو اس کا حق نہیں پہنچتا کہ اُمت کے اُمورِ شریعت: نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی جزئیات جس طریق پر چلی آرہی ہیں، اس میں کوئی تغیر و تبدل کرے۔ وہ صرف اتنا کرسکتا ہے کہ یہ بتا دے کہ فلاں معاملہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ قرآن کے مطابق نہیں۔‘‘ (ص ۲۹)
یعنی مسٹر پرویز ملت ِاسلامیہ پر ایک ایسا وقت لانا چاہتے ہیں کہ اُمت کے اُمورِ شریعت: نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ کی جزئیات جس طریقہ پر چلی آرہی ہیں، ان میںتغیر و تبدل کیا جائے۔ ان کے ان بلند عزائم کے باوجود ہم مسٹر پرویز کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے سردست کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی کہ ہمارے مذہبی اعمال میں مداخلت کرے۔ہمیںیقین ہے کہ عالم اسلام پر ایسی منحوس صبح کبھی طلوع نہ ہوگی جس میں کسی ایسے نظام سے دوچار ہونا پڑے جو مسلمانوں کے ہاتھ کو کتاب و سنت کے مرکزی دامن سے جدا کردے۔ اطاعت ِرسول کے معنی صرف یہ ہیں کہ ایک مسلمان قرآن و حدیث پر بیک وقت عامل ہو، اس کے علاوہ مرکز ِملت کا نہ کوئی مفہوم ہے اور نہ مسٹر پرویز خود یا ان کی نسل کبھی ایسے مرکز ملت سے دوچار ہوسکے گی جس میں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کا نام تو ہو لیکن اس کے ارکان موجود نہ ہوں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حقیقی مرکز ِملت کیا ہے؟
جسد ِشریعت ان ہی اجزائے ترکیبی سے وجود میں آیا ہے جس کی تزئین و تشکیل جناب رسول اللہﷺکے وحی آشنا ذہن اور معجز آفرین ہاتھوں نے کی۔ خلفائے راشدین کی حیاتِ طیبہ کا تمام سرمایۂ ناز و افتخار ان ہی جزئیات کی موبمو اور ہوبہو اتباع تھی اور افرادِ ملت کی خوش بختی محض اس میں ہے کہ ہم ان ہی اسلاف کے نقوشِ قدم کی تلاش میں لگے رہیں او رجہاں جہاں ان کا قدم پڑا ہے، اسی پر قدم رکھیں۔ مرکز ِملت وہ نہیں ہے جو اس وقت مسٹر پرویز کے مائوف ذہن میں ہے بلکہ وہ ہے جو آج سے چودہ سو سال قبل قائم ہوا او راب تک قائم ہے اور اسی کو چمٹے رہنے اور اسی سے وابستہ رہنے کا ارشاد اس حدیث میں ہے :
عليکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدی عضوا عليها بالنواجذ وتمسکوا بها وايا کم ومحدثات الامور
’’تم پر لازم ہے کہ میرے طریقے اور میرے بعد خلفائِ راشدین مہدیین کے طریقے کی پیروی کرو اور اس کو دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ رکھو اور اسی پر جمے رہو اور خبردار نئی باتوں سے بچتے رہنا‘‘
نئی بات جس سے بچنے کی حضور نے تاکید فرمائی ہے، یہی مرکز ملت کا ناشدنی تصور ہے جس کے نام سے بھی ملت ِاسلامیہ بلکہ ملل ِعالم ناواقف ہیں۔
آخر میں، اربابِ بصیرت کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ وہ بار بار غور کریں کہ مرکز ِملت کے اس لامرکزی تصورِ اطاعت ِرسول کی یہ منکرانہ توجیہ، دین اور مذہب کی یہ بے سبب تفریق، آیاتِ کلامِ الٰہی کی یہ معنوی تحریف اور احادیث ِرسولؐ و اخبارِ صحابہ ؓسے اس استغنا میں آخر ملت ِاسلامیہ کی کون سی خدمت مقصود ہے۔ مسلمانوں کو یا دنیا کو ان کوششوں سے کون سا سیاسی، اقتصادی یا اخلاقی فائدہ پہنچ رہا ہے۔ قومی ترقی کی کون سی راہیںکشادہ ہوئیں او ران کے اس مسلسل درس نے کتنے مسلمانوں کے اخلاق درست کئے اس جدوجہد کا مآل سوائے اس کے اور کیا ہے کہ مسلمانوں کی چودہ صد سالہ روایات کی عظمت، علماء و صلحائے ملت کے فضل و ہنر، ائمہ مفسرین و محدثین و فقہا کی مافوق العادت دینی بصیرت اور من حیث المجموع تمام شرعی ضوابط کی تنقیص و تضیعف اور اربوں افرادِ ملت کی عقل و دانش کی تضحیک اور نتیجۃً خود مذہب اسلام کا ابطال ہو۔ وما علينا الا البلاغ

رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِيْنَ​
 
Top