عبداللہ کشمیری
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 08، 2012
- پیغامات
- 576
- ری ایکشن اسکور
- 1,657
- پوائنٹ
- 186
اعادہ روح و عذاب قبر
الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين أما بعد ! فأعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه
وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ [الأنعام : 93]
وقال جل وعلا في مقام آخر: حَتَّى إِذَا جَاء أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ o لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحاً فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [المؤمنون :10099]
وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ [الأنعام : 93]
وقال جل وعلا في مقام آخر: حَتَّى إِذَا جَاء أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ o لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحاً فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [المؤمنون :10099]
عذاب قبر برحق ہے
سب سے پہلے تو اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ عذاب ِ قبر برحق ہے۔ قبر وبرزخ کے اندر سزاو جزاکا ہونادرست ہے، اللہ کے جو نیک ، صالح بندے ہوتے ہیں، مرنے کے بعد قیامت سے پہلےان کی روحیں ان کے بدنوں میں لوٹا دی جاتی ہیں، انہیں راحت وآرام پہنچتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے نافرمان ، گناہگار بندے ہوتے ہیں، قیامت سے پہلے ان کی روحیں، مرنے کے بعد ان کے بدنوں میں لوٹا دی جاتی ہیں اور ان کو سزا وعقاب ہوتا ہے۔ قبرو برزخ کے اس عذاب پر ، قیامت سے پہلے بلکہ مرنے کے فوراً بعد عذاب یا ثواب و جزا ہونے پر بہت سی آیات و احادیث ہیں جو دلالت کرتی ہیں۔ مثلاً اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرمار ہے ہیں: ” وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ “ کاش کہ آپ دیکھ لیں جب ظالم لوگ موت کے سکرات میں ہوتے ہیں ” وَالْمَلآئِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ “ اور فرشتے اپنے ہاتھوں کو پھیلانے والے ہوتے ہیں ” أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ “ کہتے ہیں کہ اب تم اپنی جانیں نکالو۔” الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ “آج ہی تمہیں رسوا کن عذاب دیا جائے گا۔یعنی جس دن بندے کی روح نکالی جارہی ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرمارہے ہیں کہ اسی دن ہی عذاب اس کو دیا جائے گا۔
عذاب قبر کہاں ہوتا ہے زمینی قبر میں یا کہیں اور....؟؟؟
یہاں پر ایک اعتراض اور اشکال کھڑا کرتے ہیں کہ دیکھئے! اشکال ، کہ بندہ ابھی فوت ہوا ہے، سامنے اس کی میت پڑی ہوئی ہے، اس کو کل اگلے دن دفنایا جائے گا، لیکن قرآن مجید فرقان حمید کی یہ آیت کہہ رہی ہے کہ جس دن روح نکلی، بندہ فوت ہوا ، اس کے فوراً بعد اسی دن عذاب شروع ہوجاتا ہے۔مرنے کے بعد اسی دن عذاب شروع ہوجاتا ہے، چاہے اس دن میت دفن کی جائے ، چاہے نہ کی جائے۔تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب ِ قبر تو ہوتا ہے لیکن اس دنیا والی قبر میں نہیں، یہ قبر کہیں آسمانوں میں ہے، برزخ کہیں آسمانوں میں ہے، جہاں پر عذاب ہوتا ہے اور لوگوں کو راحت بھی پہنچائی جاتی ہے۔ پھر اسی طرح یہ اعتراض بنا کر پیش کرنے کے بعد چند ایک دلائل ایسے بھی پیش کیے جاتے ہیں جن میں مرنے کے بعد جنت کی نعمتوں کا تذکرہ ملتا ہے۔مثلاً شہداء۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہا ہے، اللہ رب العالمین فرما رہے ہیں :” أَحْيَاء “زندہ ہیں” عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ [آل عمران : 169] “ اللہ کے پاس ان کو رزق دیا جاتا ہے۔اور پھر فرمار ہے ہیں: ” فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ “اللہ نے جو کچھ اپنے فضل سے دیا ہے یہ لوگ اس پر خوش بھی ہیں۔” وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ“ ان کو خوشخبریاں بھی دی جاتی ہیں۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ شہداء احدکی روحیں سبز رنگ کے پرندوں میں ہیں، وہ جنت کے جو مرضی پھل چاہیں، کھائیں، خوشہ چینی کریں۔لہٰذا ثابت ہوا کہ اس قبر کے اندر عذاب اور سزا نہیں بلکہ عذاب کےلیے آسمانوں سے اوپر کوئی برزخ ہے ، کوئی قبر ہے، جہاں پر اس کو عذاب دیا جاتا ہے۔اور روح اس جسم کے اندر نہیں لوٹتی، بلکہ اس روح کو ایک نیا جسم دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ساری کی ساری باتیں اور اعتراضات غلط ہیں، کیونکہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ” وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ “ اس مرنے والے کے درمیان اور دنیا والوں کے درمیان آڑ اور پردہ ہے۔پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ” أَحْيَاء “ یہ زندہ ہیں ”وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ [البقرة : 154] “ان کا زندگی کا تمہیں شعور نہیں ہے۔یہ عالم بالا کی ، غیب کی باتیں ہیں، جن کے بارے میں ہمارا علم صرف اس قدر ہے جس قدر اللہ تعالیٰ نے یا رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتادیا ہے، بس! ایک مؤمن بندے پر لازم ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے بتایا ہے، اس پر غیر مشروط ایمان لائے۔ اس کی سمجھ اور عقل میں کوئی بات آتی ہے ، پھر بھی مانے، اس کی عقل اور سمجھ میں کوئی بات نہیں آتی ، پھر بھی مانے۔ یہ ایمان لانے کا تقاضا ہے۔رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: شیطان انسان کے دماغ میں وسوسہ پیدا کرتا ہے، دل کے اندر خیال ڈالتا ہے ، فلاں کو کس نے پیدا کیا؟ فلاں کو کس نے پیدا کیا؟ فلاں کو کس نے پیداکیا؟ شیطان دماغ میں سوال کھڑا کرتا ہے ”من خلق الله“ تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یہاں انسان کی عقل بریک، ختم۔رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: جب تم ایسا وسوسہ پاؤ تو سمجھ جاؤ کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ تمہیں اس کے شر سے، اس کے وسوسہ سے محفوظ رکھے اور کہو آمنت باللہ [ صحيح مسلم كتاب الإيمان باب بيان الوسوسة من الإيمان (134)]۔تمہارا کام ہے ایمان لانا، عقل مانتی ہے ،مانے۔نہیں مانتی، نہ مانے۔یہ ایمان کا بنیادی اصول اور قاعدہ ہے کہ اللہ رب العالمین کے فرامین اور امام الانبیاء جناب محمد مصطفیٰ ﷺ کے فرامین کو من وعن ، بلا چوں چرا، تسلیم کیا جائے، ان کے آگے سر تسلیم کو خم کیا جائے۔ تو اللہ رب العالمین نے جیسی خبر قرآن مجید میں دی ہے، نبیﷺ نے جیسی خبر حدیث میں دی ہے، ہماری عقل اس کو سمجھنے سے اگر کوتاہ ہے تو ہوتی رہے۔ہمارا کام سمجھنا نہیں، ایمان لانا ہے۔کہا گیا ہے : یہ بات مان لو، ہم نے مان لی۔یہ کیسےہوسکتا ہے؟ اللہ کرنے والا ہے۔بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو انسان کی عقل سے بالاتر ہیں۔ انسان کی عقل چھوٹی سی ہے۔محدود سی۔ اور اللہ رب العالمین کا علم بڑا وسیع ہے، اللہ تعالیٰ کی کائنات بڑی وسیع ہے۔انسان کی عقل میں سما نہیں سکتی۔اس مختصر سی تمہید کے بعد، اب دیکھئے! یہ اعتراض کہ قبر میں تو اس کو دفنایا ہی نہیں گیا۔ اور منکرین ِ عذاب قبر ، جو کہتے ہیں کہ عذابِ قبر ہوتا ہی نہیں، وہ کہتے ہیں کہ کئی بندے ایسے ہیں جن کو قبرملتی ہی نہیں۔بم بلاسٹ ہوگیا، چیتھڑے بکھر گئے، قیمہ بھی نہیں ملا گوشت کا۔کسی کو جانورکھا گئے، کسی کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔سمندروں میں بہا دیا گیا، اس کو تو قبر ملی ہی نہیں۔
قبر کیا ہے؟؟؟
لیکن بے چاروں نے سمجھا ہی نہیں کہ قبر کہتے کسے ہیں؟قبر کیا ہے؟ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید فرقان حمید کے اندر وضاحت کی ہے۔ اللہ رب العالمین فرماتے ہیں: ” ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ [عبس : 21] “ اللہ رب العالمین نے انسان کو زندگی دی اور زندگی کے کچھ عرصہ بعد موت دی تو مرتے ہی اس کو کیا دیا؟ ”أَقْبَرَهُ “اس کو قبر دی۔موت کس کو آئی ہے؟ انسان کو، جو انسان روح وجسم کا مجموعہ تھا۔جو زمین پر چلتا تھاتو یہ روح وجسم کا مجموعہ تھا ناں؟” ثُمَّ أَمَاتَهُ “ اللہ نے جب تک چاہا اس کو زندگی بخشی، ” ثُمَّ أَمَاتَهُ “پھر کچھ عرصہ بعد اللہ نے اسے موت دی ” فَأَقْبَرَهُ [عبس : 21]“ پھر اسی روح وجسد کے مجموعے کو اللہ رب العالمین نےقبر عطا کردی۔عربی زبان کا اصول ہے”فا“ اور ”ثم“ان دونوں کا مطلب ہوتا ہے ”بعد، پھر“ ”ثم “ کا معنی بھی ”پھر “ اور ”فا“کا معنی بھی ”پھر“ لیکن تھوڑا سا فرق ہے۔ ”ثم“ کے اندر لفظ زیادہ ہیں، اس کا معنی ذرا وسیع ہے۔ ”تھوڑی سی مہلت“ ’ثم‘ کا معنى ہوتا ہے کہ ’ثم‘ سے پہلے جو لفظ استعمال ہوا ہےاور بعد میں جو لفظ استعمال ہوا ہے ان دونوں کے درمیان کچھ وقفہ ہے ۔اور ’فا‘ کا معنی ہوتا ہے کہ ’فا‘ سے پہلے جولفظ استعمال ہوا ہے اور جو بعد میں استعمال ہوا ہے ان دونوں کے درمیان وقفہ نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اس کو زندگی دی تھی ’ثُمَّ أَمَاتَهُ ‘ پھر تھوڑے سے وقفے کے بعد، چاہے وہ وقفہ ہزار سال کا ہی کیوں نہ ہو، اللہ کےلیے تو تھوڑا سا ہی ہے ناں! اللہ تعالیٰ تو قیامت کو کہہ رہے ہیں: ” إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيداً o وَنَرَاهُ قَرِيباً [المعارج : 7]“ یہ قیامت کو بڑا دور سمجھتے ہیں، ہم اسے قریب سمجھتے ہیں کہ نزدیک ہے۔کب کہا تھا؟ آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن نازل ہوا تھا ناں! اللہ تعالیٰ نے کہا: وہ تو قریب ہے۔ تو جتنی مرضی لمبی زندگی ہوجائے، ہے تھوڑا سا ہی وقفہ، آخرت کےمقابلے میں یقیناً تھوڑا سا ہی وقفہ ہے۔’ ثُمَّ‘تھوڑے سے وقفے کے بعد’ أَمَاتَهُ ‘ اس کو موت دی۔’ فَ ‘ موت دینے کے فوراً بعد ’ أَقْبَرَهُ‘ اس کو قبر دے دی۔تو نتیجہ کیا نکلا کہ مرنے کے بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر بھی ہو، چاہے وہ چارپائی پر پڑا ہو، چاہے زمین کے نیچے دبا دیا گیا ہو، چاہے ریزہ ریزہ ہوگیا ہو، جل کر راکھ ہوجائے، وہ اس کی قبر ہے۔مرنے کے بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر ہوگی ، وہ اس کےلیے قبر ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے: ’ ثُمَّ أَمَاتَهُ ‘ اللہ تعالیٰ نے اس بندے کو موت دی”فَأَقْبَرَهُ [عبس : 21]“ پھر ا س کو قبر بھی دی۔تو برزخی قبر جس کو وہ لوگ جو عذاب قبر کے منکر نہیں ہیں ، مانتے ہیں کہ قبر کے اندر عذاب ہوتا ہے ، لیکن کہتے ہیں کہ اس قبر میں نہیں بلکہ اوپر والی قبر میں، عثمانی گروہ کا جو نظریہ ہے۔ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ تونہیں کہا: ’فاقبر روحہ‘ اللہ نے اس کی روح کو قبر دی، ۔ جس کو اللہ نے موت دی ہے اسی کو اللہ نے قبر دی ہے۔روح وجسم کے مجموعے کو ، ایک انسان کو ، تو قبر بھی اکیلی روح کو نہیں، اکیلے جسم کو نہیں۔ ’فاقبرروحہ‘ ’فاقبر جسدہ‘ اللہ نے نہیں کہا کہ اللہ نے اس کی روح کو قبر دی، یا اللہ نے اس کے جسم کو قبر دی۔کیا کہا ہے: ” ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ[عبس : 21] “ اللہ نے اس روح وجسم کے مجموعے کو ، حضرت انسان کو موت دی اور پھر اسی روح وجسم کے مجموعے کو قبر بھی عطا کی ہے۔تو اسی ایک آیت سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ مرنے کے فوراً بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر ہوتی ہے وہ اس کےلیے قبر ہے۔ اور یہ بھی پتہ چل گیا کہ مرنے کے بعد بندے کے جسم میں اس کی روح لوٹتی ہے ، مرنے کے بعد روح لوٹی ہے تو روح وجسم کے مجموعے کو قبر ملی ہے ناں! اگر روح علیحدہ ہوتی، اور جسم علیحدہ ہوتا تو پھر ’فاقبر روحہ واقبر جسدہ‘ آنا چاہیے تھا، علیحدہ علیحدہ ہوتی بات۔لیکن نہیں ہے۔ اکٹھی بات کی ہے اللہ تعالیٰ نے ۔
موت کسے کہتے ہیں (موت کی تعریف)
ایک یہ اشکال پیدا کرتے ہیں کہ اگر روح مرنے کے بعد بندے میں لوٹ آتی ہے ، پھر تو بندہ زندہ ہوگیا ، پھر تو مردہ تو نہ رہا۔ کیونکہ بندے کے جسم میں روح ہوتو بندہ زندہ ہے، روح نہ ہوتو بندہ فوت شدہ ہے۔ یہ انہوں نے اصول بنایا ہے ، زندگی اور موت کی تعریف کی ہے۔ زندگی کی تعریف کیا کرتے ہیں کہ جسم کے اندر روح کی موجودگی کا نام زندگی ہے اور جسم سے روح کے نکل جانے کا نام موت ہے۔ حقیقت میں موت اور زندگی کی یہ تعریف ہی ہے غلط۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے کہ بندے کے جسم میں روح نہیں ہوتی ، بندہ زندہ ہوتا ہے۔اور قرآن مجید میں ہی اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ بندے کے جسم میں روح ہوتی ہے اور بندہ مردہ ہوتا ہے۔لہٰذا یہ تعریف کرنا موت کی کہ روح کا جسم سے نکل جانا موت ہے ، یہ تعریف ہی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الزمر میں بیان فرمایا ہے: ” اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا “ اللہ روحوں کو نکال لیتا ہے ، موت کے وقت بھی نکال لیتا ہے اور نیند کے وقت بھی نکال لیتا ہے۔ نیند کے وقت اللہ روح کو کیا کرتا ہے ، نکال لیتا ہے۔ اچھا ! سوئے ہوئے کو مردہ کہتے ہو یا زندہ؟زندہ ہی مانتے ہیں ناں سارے؟اللہ تعالیٰ کہہ رہے ہیں کہ اس کے اندر روح کوئی نہیں۔ اللہ نے روح کو نکال لیا ہے ، پھر اللہ سوئے ہوئے کی روح کو نکال لیتا ہے اور حالت نیند میں جس کو موت دینی ہوتی ہے ، اس کی روح کو تھوڑی دیر کےلیے روک لیتا ہے۔ جس کو موت نہیں دینی ہوتی ، اس کی روح کو واپس جسم میں لوٹا دیتا ہے ، جس میں روح واپس آتی ہے تو بندہ جاگ جاتا ہے، بیدا رہوجاتا ہے۔ یعنی نیند کی حالت میں بندے کے اندر روح نہیں ہوتی، اللہ روح کو نکال لیتا ہے۔ لیکن کیا وہ مردہ ہے؟ نہیں۔ ساری کائنات اس کو زندہ مانتی ہے کہ یہ زندہ ہے، مردہ نہیں ہے۔ لہٰذا موت کی یہ تعریف کرنا کہ روح جسم سے نکل جائے تو موت ہوتی ہے ، غلط قرار پاتی ہے۔ موت کی یہ صحیح تعریف نہیں ہے۔ صحیح تعریف موت کی کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نےقرآن مجید میں دی ہے۔: ” أَمْواتٌ غَيْرُ أَحْيَاء [النحل : 21] “ مردہ ہیں، زندہ نہیں۔ یہ موت کی تعریف ہےکہ دنیوی زندگی کے ختم ہوجانے کا نام موت ہے۔ سادہ سی تعریف ہے۔ اب زندگی کیا چیز ہے؟ کیسے بنتی ہے؟ موت کیا چیز ہے؟ کیسے بنتی ہے؟ تمہارے علم میں نہیں، خوامخواہ جہالت میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی ضرورت نہیں ۔ تعریف موت کی وہ کرو جو اللہ نے کی ہے۔ ” أَمْواتٌ “مردہ ہیں ” غَيْرُ أَحْيَاء “زندہ نہیں ہیں۔ دنیوی زندگی کے ختم ہوجانے کا نام موت ہے۔ لہٰذا روح کا جسم میں لوٹ آنا یہ دنیاوی زندگی کو مستلزم نہیں۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ بندہ زندہ ہوگیا۔
قیامت سے قبل مرنے والے کے جسم میں روح کا لوٹنا قرآن سے ثابت ہے اور یہی رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا عقیدہ ہے !!!
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ” حَتَّى إِذَا جَاء أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ [المؤمنون : 99] “ تم میں سے کسی بندے کو موت آتی ہے، تو جس بندے کو موت آتی ہے تو وہ کیا کہتا ہے؟ اے اللہ!مجھے واپس لوٹا دیجئے۔ مرنے کے بعد کہہ رہا ہے۔ کون کہہ رہا ہے؟ وہی جس کو موت آئی ہے۔ موت روح کو آئی تھی یا جسم کو ؟ روح اور جسم کے مجموعے کو آئی تھی۔ جب زندہ زندہ تھا تو روح وجسم کا مجموعہ تھا ناں! اکیلا جسم نہیں تھا، اکیلی روح نہیں تھا۔ روح وجسم کا یہ مجموعہ تھا۔ اللہ نے فرمایا: ” حَتَّى إِذَا جَاء أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ “ حتی کہ جب ان میں سے کسی ایک کو موت آتی ہے،توموت آنے کے بعد ، جس کو موت آئی ہے ، وہ : ” قَالَ “کہتا ہے: ” رَبِّ ارْجِعُونِ [المؤمنون : 99] “اللہ مجھے لوٹا۔ ” لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحاً فِيمَا تَرَكْتُ “ میں جاکر نیک اعمال کرلوں۔ کون کہہ رہا ہے؟ جس کو موت آئی تھی۔ روح اور جسم کا مجموعہ ۔ روح اور جسم کا مجموعہ کہہ رہا ہے مرنے کے بعد۔ تو ثابت ہوگیا کہ مرنے کے بعد روح اور جسم اکھٹے ہوتے ہیں۔ تو روح کا لوٹنا بھی قرآن مجید سے ثابت ہوگیا۔ اس میں اشکال والی بات ہی کوئی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جی اس کی روح کہتی ہے: مجھے لوٹا دو واپس جسم میں۔ عجیب عجیب قرآن کی تاویل کرتے ہیں۔ سچ کہا تھا کسی نے :
احکام تیرے حق ہیں مگراپنے مفسر تاویل سے کردیتے ہیں قرآن کو پاژند
اللہ نے یہ تو نہیں کہا کہ جب ان میں سے کسی موت آتی ہے تو ’قال روحہ‘ اس کی روح کہتی ہے : مجھے لوٹاؤ۔ روح کا لفظ تو اللہ نے نہیں بولا، اپنی طرف سے لگا رہے ہیں۔ اللہ کہہ رہا ہے کہ جس کو موت آئی تھی وہی کہہ رہا ہے کہ مجھے لوٹاؤ تاکہ میں نیک اعمال کروں۔ اللہ فرمائے گا: ’ كَلَّا ‘ ہرگز ایسا نہیں ہوگا ’إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ‘ ہاں! یہ بول یہ ضرور بولے گا۔ ” وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [المؤمنون : 100] “ ان کے اور دنیا کے درمیان قیامت تک کےلیے اب ایک آڑ اور برزخ ہے۔ توقرآن مجید سے بھی ثابت ہے کہ بندے کے جسم میں روح لوٹتی ہے۔ اور رسول اللہﷺ نے واضح لفظوں میں فرمایا ہے، سنن ابی داؤد اور مسند احمد کے اندر حدیث موجود ہے۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں : ”فتعاد روحہ في جسدہ , “ بندہ نیک ہو بد ہو، دونوں کی روح مرنے کے بعد جسم میں لوٹا دی جاتی ہے، [سنن أبي داود كتاب السنة باب في المسألة في القبر وعذاب القبر (4753)] یہ عقیدہ کس کا ہے ؟ رسول اللہﷺ کا کہ مرنے کے بعد روح جسم میں لوٹ آتی ہے۔ اور حدیث صحیح ہے۔ مسند احمد میں ہے اور سنن ابی داؤد میں ہے۔ ایک چھوٹا سا اعتراض کرتے ہیں اس پر کہ اس کے اندر ایک راوی ہے ’ذازان‘ وہ شیعہ تھا۔ ذازان شیعہ تھااور شیعہ کی روایت قبول نہیں ہوتی۔ شیعہ ضعیف ہوتا ہے، حالانکہ بیچاروں کو اورمت کے ماروں کو اصل بات کا پتہ ہی نہیں ہے۔ اصل میں ہم جسے شیعہ کہتے ہیں آج کے زمانے میں یہ شیعہ نہیں ہے۔ یہ ہیں رافضی۔ رافضیوں اور شیعوں کے اندر فرق سمجھ لیں۔ احمد بن حجر جنہوں نے زازان پر شیعہ ہونے کی تہمت لگائی ہےاور یہ بھی نہیں کہا کہ وہ شیعہ ہے بلکہ یہ کہا ہے : ’فیہ تشیع قلیل‘ اس کے اندر تھوڑا سا تشیع ہے ، تھوڑی سی شیعیت ہے۔ اچھا! اگر پورا شیعہ بھی ہوتو اس کی روایت بھی قبول ہوتی ہے، اور اس بیچارے کے اندر تو تھوڑی سی شیعیت تھی۔شیعہ کیا ہوتا ہے؟ ابن حجر نے تہذیب کے اندر ،فتح الباری کے مقدمے کے اندر اور اسی طرح امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں اور محدثین کی یہ اصطلاح ہے تو خود انہوں نے اس کی وضاحت کی ہے۔ ’ھو تفضیل علي علی عثمان‘بس! یہ تشیع ہے۔ شیعہ کون ہوتا ہے جو یہ سمجھے کہ حضرت علی ، حضرت عثمان سے افضل ہیں۔ شیخین ابوبکروعمر سے افضل نہیں۔ شیعہ کا عقیدہ ہے کہ علی ابوبکر وعمر سے افضل نہیں۔ بلکہ حضرت عثمان tسے افضل ہیں۔ بس! اور معاویہ اور علی w کے درمیان جو جنگیں ہوئی ہیں ، ان میں حق پر حضرت علی tتھے۔ اس کا نام ہے تشیع ۔ اورجو بندہ حضرت علیtکو شیخین ، ابوبکر وعمرwسے بھی افضل سمجھے ، وہ غالی شیعہ ہے۔ وہ شیعہ نہیں بلکہ غالی شیعہ ہے۔ اور جو ہمارے ہاں چلتے پھرتے ہیں، صحابہ کے ساتھ بغض رکھنے والے جو رافضی ہیں۔ اور اگر کوئی بغض کا اظہار کرے تو وہ غالی رافضی ہے۔ اور اگر بغض کےاظہار کے ساتھ ساتھ سب وشتم کرے ’فقد اشد الغلو في الرفض‘ تو اس نے رافضیت کے اندر شدید ترین غلو کیا ہے۔ اور پھر لکھا ہے امام ذہبی نے سیر کے اندر ’کیف تقبل رواية من کانت التقية دثارہم والکذب شعارہم‘ بھلا اس بندے کی روایت کیسے قبول ہوسکتی ہے جس کا اوڑنا بچھونا ہی جھوٹ اور تقیہ ہے۔شیعہ سنی ہوتا ہے، اہل السنۃ والجماعۃ والا عقیدہ اپناتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ علی tکو بہتر سمجھتے ہیں حضرت عثمانtسے۔ خلیفہ بلا فصل کا عقیدہ نہیں ہے ان کا۔یہ ہے تشیع عند المتقدمین ۔ اور متاخرین کے ہاں رافضیوں کو لوگ شیعہ سمجھتے ہیں۔تو بہرحال یہ ثقہ راوی ہے ، اور اس کی روایت قبول ہوتی ہے۔تو نبیﷺ فرمارہے ہیں: ”فتعاد روحہ في جسدہ“ روح اس کی لوٹا دی جاتی ہے، روح اس کے جسم کے اندر داخل کردی جاتی ہے۔ مسند احمد اور سنن ابی داؤد دونوں جگہ یہ حدیث صحیح سند کے ساتھ موجود ہے۔اور یہی حدیث صحیح بخاری کے اند ر بھی آئی ہے۔لیکن وہاں مختصر ہے۔اپنے درس کے دوران نبیﷺ نے عذاب قبر کی جو پوری پوری منظر کشی کی ہے ، یہ لمبی اور مطول حدیث مسند احمد میں آتی ہے۔بڑی لمبی حدیث ہے۔ نبیﷺ فرماتے ہیں: نیک آدمی کی روح کا نکالا جاتا ہے ، اس کو خوشبودار کپڑے کے اندر لپیٹا جاتا ہے۔ اس کو پہلے دوسرے آسمان پر لے جایا جاتا ہے۔ اس کا نام علیین میں لکھ دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے کو واپس لوٹا دو۔ ”فتعاد روحہ في جسدہ“اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے۔
احکام تیرے حق ہیں مگراپنے مفسر تاویل سے کردیتے ہیں قرآن کو پاژند
اللہ نے یہ تو نہیں کہا کہ جب ان میں سے کسی موت آتی ہے تو ’قال روحہ‘ اس کی روح کہتی ہے : مجھے لوٹاؤ۔ روح کا لفظ تو اللہ نے نہیں بولا، اپنی طرف سے لگا رہے ہیں۔ اللہ کہہ رہا ہے کہ جس کو موت آئی تھی وہی کہہ رہا ہے کہ مجھے لوٹاؤ تاکہ میں نیک اعمال کروں۔ اللہ فرمائے گا: ’ كَلَّا ‘ ہرگز ایسا نہیں ہوگا ’إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ‘ ہاں! یہ بول یہ ضرور بولے گا۔ ” وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [المؤمنون : 100] “ ان کے اور دنیا کے درمیان قیامت تک کےلیے اب ایک آڑ اور برزخ ہے۔ توقرآن مجید سے بھی ثابت ہے کہ بندے کے جسم میں روح لوٹتی ہے۔ اور رسول اللہﷺ نے واضح لفظوں میں فرمایا ہے، سنن ابی داؤد اور مسند احمد کے اندر حدیث موجود ہے۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں : ”فتعاد روحہ في جسدہ , “ بندہ نیک ہو بد ہو، دونوں کی روح مرنے کے بعد جسم میں لوٹا دی جاتی ہے، [سنن أبي داود كتاب السنة باب في المسألة في القبر وعذاب القبر (4753)] یہ عقیدہ کس کا ہے ؟ رسول اللہﷺ کا کہ مرنے کے بعد روح جسم میں لوٹ آتی ہے۔ اور حدیث صحیح ہے۔ مسند احمد میں ہے اور سنن ابی داؤد میں ہے۔ ایک چھوٹا سا اعتراض کرتے ہیں اس پر کہ اس کے اندر ایک راوی ہے ’ذازان‘ وہ شیعہ تھا۔ ذازان شیعہ تھااور شیعہ کی روایت قبول نہیں ہوتی۔ شیعہ ضعیف ہوتا ہے، حالانکہ بیچاروں کو اورمت کے ماروں کو اصل بات کا پتہ ہی نہیں ہے۔ اصل میں ہم جسے شیعہ کہتے ہیں آج کے زمانے میں یہ شیعہ نہیں ہے۔ یہ ہیں رافضی۔ رافضیوں اور شیعوں کے اندر فرق سمجھ لیں۔ احمد بن حجر جنہوں نے زازان پر شیعہ ہونے کی تہمت لگائی ہےاور یہ بھی نہیں کہا کہ وہ شیعہ ہے بلکہ یہ کہا ہے : ’فیہ تشیع قلیل‘ اس کے اندر تھوڑا سا تشیع ہے ، تھوڑی سی شیعیت ہے۔ اچھا! اگر پورا شیعہ بھی ہوتو اس کی روایت بھی قبول ہوتی ہے، اور اس بیچارے کے اندر تو تھوڑی سی شیعیت تھی۔شیعہ کیا ہوتا ہے؟ ابن حجر نے تہذیب کے اندر ،فتح الباری کے مقدمے کے اندر اور اسی طرح امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں اور محدثین کی یہ اصطلاح ہے تو خود انہوں نے اس کی وضاحت کی ہے۔ ’ھو تفضیل علي علی عثمان‘بس! یہ تشیع ہے۔ شیعہ کون ہوتا ہے جو یہ سمجھے کہ حضرت علی ، حضرت عثمان سے افضل ہیں۔ شیخین ابوبکروعمر سے افضل نہیں۔ شیعہ کا عقیدہ ہے کہ علی ابوبکر وعمر سے افضل نہیں۔ بلکہ حضرت عثمان tسے افضل ہیں۔ بس! اور معاویہ اور علی w کے درمیان جو جنگیں ہوئی ہیں ، ان میں حق پر حضرت علی tتھے۔ اس کا نام ہے تشیع ۔ اورجو بندہ حضرت علیtکو شیخین ، ابوبکر وعمرwسے بھی افضل سمجھے ، وہ غالی شیعہ ہے۔ وہ شیعہ نہیں بلکہ غالی شیعہ ہے۔ اور جو ہمارے ہاں چلتے پھرتے ہیں، صحابہ کے ساتھ بغض رکھنے والے جو رافضی ہیں۔ اور اگر کوئی بغض کا اظہار کرے تو وہ غالی رافضی ہے۔ اور اگر بغض کےاظہار کے ساتھ ساتھ سب وشتم کرے ’فقد اشد الغلو في الرفض‘ تو اس نے رافضیت کے اندر شدید ترین غلو کیا ہے۔ اور پھر لکھا ہے امام ذہبی نے سیر کے اندر ’کیف تقبل رواية من کانت التقية دثارہم والکذب شعارہم‘ بھلا اس بندے کی روایت کیسے قبول ہوسکتی ہے جس کا اوڑنا بچھونا ہی جھوٹ اور تقیہ ہے۔شیعہ سنی ہوتا ہے، اہل السنۃ والجماعۃ والا عقیدہ اپناتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ علی tکو بہتر سمجھتے ہیں حضرت عثمانtسے۔ خلیفہ بلا فصل کا عقیدہ نہیں ہے ان کا۔یہ ہے تشیع عند المتقدمین ۔ اور متاخرین کے ہاں رافضیوں کو لوگ شیعہ سمجھتے ہیں۔تو بہرحال یہ ثقہ راوی ہے ، اور اس کی روایت قبول ہوتی ہے۔تو نبیﷺ فرمارہے ہیں: ”فتعاد روحہ في جسدہ“ روح اس کی لوٹا دی جاتی ہے، روح اس کے جسم کے اندر داخل کردی جاتی ہے۔ مسند احمد اور سنن ابی داؤد دونوں جگہ یہ حدیث صحیح سند کے ساتھ موجود ہے۔اور یہی حدیث صحیح بخاری کے اند ر بھی آئی ہے۔لیکن وہاں مختصر ہے۔اپنے درس کے دوران نبیﷺ نے عذاب قبر کی جو پوری پوری منظر کشی کی ہے ، یہ لمبی اور مطول حدیث مسند احمد میں آتی ہے۔بڑی لمبی حدیث ہے۔ نبیﷺ فرماتے ہیں: نیک آدمی کی روح کا نکالا جاتا ہے ، اس کو خوشبودار کپڑے کے اندر لپیٹا جاتا ہے۔ اس کو پہلے دوسرے آسمان پر لے جایا جاتا ہے۔ اس کا نام علیین میں لکھ دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے کو واپس لوٹا دو۔ ”فتعاد روحہ في جسدہ“اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے۔
آسمانی قبر میں جزاء و سزا ہونے کا عقیدہ قرآن و حدیث دونوں کے خلاف ہے !!!
اب بد آدمی جو ہوتا ہے ، یہ ذرا قابل غور بات ہے۔عثمانیوں کا کیا عقیدہ ہے کہ عذاب وثواب اس زمین والی قبر میں نہیں بلکہ آسمانوں والی قبر میں ہوتا ہے ، اس بات کا بڑا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، اب دیکھتے جائیے گا کہ ہوتا کیا ہے۔ اور جو بد آدمی ہے اس کی روح کو نکالا جاتا ہے، شدت کے ساتھ ، سختی کے ساتھ ، بدبودار ٹاٹ کے اندر اس کو لپیٹا جاتا ہے۔ اور اس کو آسمانوں پر لے جایا جاتا ہے، آسمانوں کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے ، لیکن دروازہ آسمان کا نہیں کھلتا۔ ساتھ ہی نبیﷺ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت کردی۔ کہ یہ ظالم لوگ ” لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء “ ان کےلیےآسمانوں کے دروازے نہیں کھولے جاتے۔ ”وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ “یہ جنت میں بھی نہ جائیں گے ” حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ [الأعراف : 40] “ حتی کہ اونٹ سوئی کے سوراخ میں سے داخل ہوجائے۔جب تک اونٹ سوئی کے سوراخ میں سے داخل نہیں ہوجاتا تب تک نہ توا ن کےلیے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی یہ جنت میں داخل ہوسکیں گے۔ اب اللہ تعالیٰ تو کہہ رہے ہیں کہ ظالموں کےلیے آسمان کے دروازے کھولے ہی نہیں جائیں گے ، قرآن ہے یہ۔ اور نبیﷺ نے بتایا ہے ، دلیل قرآن کی آیت پڑھ کر سنائی ہے۔ مسند احمد کے اندر یہ روایت تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ آسمان کے دروازے تو کھلے ہی نہیں تم کس آسمانی قبر میں اسے عذاب دے رہے ہو؟کہیں آسمانی قبر میں عذاب دے کر تم نے سوئی کے سوراخ میں سے اونٹ کو داخل تو نہیں کردیا؟ اللہ کے قرآن کی آیت کے منکر تو نہیں ہوگئے کہیں ؟ دوسروں پر کفر کے فتووں کی توپ چلانے والے ذرا خود ہوش کے ناخن لیں۔ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں: ” لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ “ دونوں کام نہیں ہوسکتے۔نہ آسمان کے دروازے کھلیں اور نہ یہ جنت میں جائیں۔ ” حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ “پھر نبیﷺ فرمارہے ہیں کہ اس کی روح کو وہیں سے پھینک دیا جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی آپ نے ایک اور آیت پڑھ دی۔ ” فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاء “ کافروں کی مثال اللہ نے قرآن میں بھی بیان کی ہے۔ کہ یہ ایسا ہے کہ گویا آسمان سے گرا ہے۔ ” فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ “ یا پرندوں نے اسے اچکا ہے ” أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ [الحج : 31] “ یا ویران دور کی جگہ پر اس کو ہوا لے کر پہنچ جاتی ہے۔ اپنے عقیدے کی دلیل کےلیے نبیﷺ نے آیت پڑھی ہے۔ ”فتعاد روحہ فی جسدہ“ اس کی روح اس کے جسم کے اندر لوٹا دی جاتی ہے۔ آگے نیک اور بد آدمی سے سوال وجواب ہوتے ہیں، وہ سارا کچھ آپ نے سنا ہوا ہے۔ ہمارا مستدل اتنا ہی تھا کہ روح کا جسم کے اندر لوٹائے جانے کا جو عقیدہ ہے یہ رسول اللہﷺ کا عقیدہ ہے۔ تو دونوں باتیں کہ عذاب قبر ہوتا ہے، یہ بھی ثابت ہوگیا ۔ دوسری بات یہ کہ روح جسم کے اندر لوٹائی جاتی ہے یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے۔ تیسری بات یہ کہ قبر کیا چیز ہے؟ اس کی بھی وضاحت ہوگئی کہ مرنے کے بعد بندے کاجسم اور روح جہاں بھی ہو، وہ اس کی قبر ہوتی ہے۔
برزخ کیا چیز ہے ؟؟؟
اچھا ایک سوال باقی درمیان میں رہ گیا کہ برزخ کیا چیز ہے؟ وہی آیت سورۃ المؤمنون والی: ” وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [المؤمنون : 100] “ ان کے یعنی جس کو موت آئی تھی۔ موت کس کو آئی تھی؟ روح وجسم کے مجموعے کو۔ روح وجسم کے اس مجموعے کے درمیان اور ” رَبِّ ارْجِعُونِ [المؤمنون : 99] “ ان کی اس بات کے جواب کے درمیان یعنی دنیا میں لوٹنے کے درمیان آڑ ہے ۔تو برزخ کیا ہے؟ مرنے کے بعد بندے کی روح اور جسم جہاں ہوتا ہے وہی اس کےلیے قبر ہے اور وہی اس کےلیے برزخ ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوچکی ہے۔
ایک اعتراض کہ دنیاوی قبر تو مرقد ہے
پھر عذاب قبر کے منکرین کہتے ہیں کہ اگر قبر میں عذاب ہوتا ہے تو قیامت کے دن یہ مشرکین کہیں گے ” يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا “ ہمیں ہماری ’مرقد‘ آرام گاہ سے کس نے بیدار کیا ہے؟ تو آرام گاہ تو کہا جاتا ہے آرا م کرنے کی جگہ کو۔ تو اگر عذاب ہوتا ہے تو اس کو عذاب گاہ کہنا چاہیے ۔ آرام گاہ نہیں کہنا چاہیے۔ اس کو بڑا اعتراض بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان بیوقوں سے کوئی پوچھے کہ مرقد کا معنی آرام گاہ قرآن کی کسی آیت سے ، کسی حدیث سے یا عربی کی کسی لغت سے ثابت کردو۔ مرقد کا معنی آرام گاہ نہیں ہوتا۔ یہ معنی ہی غلط کیا ہے۔ غلط معنی کرکے اس پر ایک غلط عقیدے کی بناء استوار کیا جارہی ہے۔ لہٰذا اعتراض ہی غلط ہے۔ اچھا چلو ! ایک منٹ کےلیے مانا کہ یہ قبر آرام گاہ ہے۔ اچھا آرام اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے یا نہیں؟ نعمت ہے ناں! تو پھر جزا مل گئی!! اگر مرقد کا معنی آرام گاہ کرتے ہو تو پھر قبر میں جزا تو مل گئی۔ چلو سزا کا تم کہتے ہو کہ نہیں ملتی ، جزاتو پھر بھی ماننی ہی پڑے گی۔ تو جب جزا قبر میں مل سکتی ہے تو سزا کیوں نہیں؟ تو اپنے معنی پر بھی یہ لوگ پھنستے ہیں۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
آپ جو معنی کرتے ہیں اس میں بھی بیچارے پھنستے ہیں۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
آپ جو معنی کرتے ہیں اس میں بھی بیچارے پھنستے ہیں۔
ایک بے جا اعتراض
پھر ، اسی طرح عثمانی گروپ کی طرف سےایک دلیل یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ نبیﷺ ایک یہودیہ کے پاس سے گزرے توآپ نے دیکھا کہ لوگ اس پر رو رہے تھے۔ تو آپ ﷺنے فرمایا: اس کو اس کی قبر میں عذاب ہورہا ہے اور اس کے گھروا لے اس پر رو رہے ہیں۔ آپﷺ نے یہ تبصرہ کیا۔ تو لہٰذا ثابت ہوا، یہ عورت ابھی اپنی زمینی قبر میں دفن ہی نہیں ہوئی تھی، اور اس کو عذاب شروع ہوگیا، تو اس سے مراد یہ زمینی قبر نہیں بلکہ آسمانی قبر ہے۔
پہلی بات تو ہم واضح کرچکے ہیں کہ مرنے کے بعد بندے کی روح جس جگہ پر بھی ہو وہی اس کی قبر ہوتی ہے، دوسری بات: حدیث میں یہ لفظ موجود ہی نہیں ہیں کہ اس کی میت ابھی باہر پڑی ہوئی تھی۔بلکہ وہ قبر کے اندر دفن کی جاچکی تھی۔ ہم سے اگر وہ پوچھیں کہ وہ قبر میں دفن کی جاچکی تھی، اس کی کیا دلیل ہے؟ تو اس کی وہی دلیل ہے جو اس کے میت ہونے کی دلیل ہے۔ وہ یہودیہ جس پر رویا جارہا تھا ، اس کے میت ہونے کی دلیل جہاں سے وہ نکالتےہیں ، وہیں سے اس کے قبر میں ہونے کی دلیل نکلتی ہے۔ وہ دلیل پیش کرو جس سے یہ ثابت ہوکہ وہ میت تھی۔ خود ہی پتہ چل جائے گا انہیں۔
بہرحال موٹی سی بات یہ ہے کہ مرنے کے بعد جہاں بھی روح وجسم ہو، وہی اس کی قبر ہوتی ہے۔
پہلی بات تو ہم واضح کرچکے ہیں کہ مرنے کے بعد بندے کی روح جس جگہ پر بھی ہو وہی اس کی قبر ہوتی ہے، دوسری بات: حدیث میں یہ لفظ موجود ہی نہیں ہیں کہ اس کی میت ابھی باہر پڑی ہوئی تھی۔بلکہ وہ قبر کے اندر دفن کی جاچکی تھی۔ ہم سے اگر وہ پوچھیں کہ وہ قبر میں دفن کی جاچکی تھی، اس کی کیا دلیل ہے؟ تو اس کی وہی دلیل ہے جو اس کے میت ہونے کی دلیل ہے۔ وہ یہودیہ جس پر رویا جارہا تھا ، اس کے میت ہونے کی دلیل جہاں سے وہ نکالتےہیں ، وہیں سے اس کے قبر میں ہونے کی دلیل نکلتی ہے۔ وہ دلیل پیش کرو جس سے یہ ثابت ہوکہ وہ میت تھی۔ خود ہی پتہ چل جائے گا انہیں۔
بہرحال موٹی سی بات یہ ہے کہ مرنے کے بعد جہاں بھی روح وجسم ہو، وہی اس کی قبر ہوتی ہے۔
ساری دنیا کے مجرموں برزخ میں اکٹھا عذاب ؟؟!!!
اسی طرح وہ ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ جی دنیا کے سارے زانی مرد اور عورتیں نبیﷺ نے ان کو ایک تنور میں دیکھا کہ ان کو عذاب ہورہا تھا معراج کی رات ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ حدیث میں یہ لفظ ہیں ہی نہیں کہ پوری دنیا کے زانی اور زانیات ایک ہی تنور میں موجود تھے۔یہ الفاظ حدیث میں کہیں پر بھی نہیں آتے۔ وہ اشکال بنا کر پیش کرتے ہیں، اشکال کے الفاظ پر غور کریں۔ اشکال یہ پیش کرتے ہیں کہ پوری دنیا کے زناۃ اور زانیات ایک ہی تنور کے اند ر تھے اور ان کو عذاب ہورہا تھا تو یہ الفاظ حدیث کے اندر موجود نہیں ہیں۔ یہ بہتان ہےاللہ کےر سولﷺ پر۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ حدیث میں یہ لفظ ہیں ہی نہیں کہ پوری دنیا کے زانی اور زانیات ایک ہی تنور میں موجود تھے۔یہ الفاظ حدیث میں کہیں پر بھی نہیں آتے۔ وہ اشکال بنا کر پیش کرتے ہیں، اشکال کے الفاظ پر غور کریں۔ اشکال یہ پیش کرتے ہیں کہ پوری دنیا کے زناۃ اور زانیات ایک ہی تنور کے اند ر تھے اور ان کو عذاب ہورہا تھا تو یہ الفاظ حدیث کے اندر موجود نہیں ہیں۔ یہ بہتان ہےاللہ کےر سولﷺ پر۔
ایک اور جاہلانہ اعتراض کہ رسول اللہ ﷺ وفات کے فورا بعد آسمانوں پر جنت والے گھر میں ہیں
پھر! اسی طرح ایک نبیﷺ کا خواب ذکر کرتے ہیں ، بڑا لمبا خواب ہے، آخر میں نبیﷺ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ میرے سر پر ایک کوئی بادل نما چیز ہے۔ میں نے سر اُٹھایا تو ایک مکان دیکھا، پوچھا : کس کا ہے؟ بتایاگیا کہ آپ کا ہے۔ صحیح بخاری کے اندر یہ حدیث موجود ہے۔ کہا کہ کیا میں اس کے اندر داخل ہوجاؤں؟ کہنے والے نے کہا: نہیں ۔ ”بقی لک في الحیاۃ شیئ“ ابھی آپ کی کچھ زندگی باقی ہے۔ جب آ پ زندگی کو پورا کرلیں گے تو اس میں داخل ہوجائیں گے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ مرنے کے بعد نبیﷺ کی روح اس دنیاوی قبر میں نہیں بلکہ اس جنت والے گھر میں ہے۔ حدیث بھی صحیح بخاری کی ہے۔ بڑا مضبوط اعتراض وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے کیا ہے۔ لیکن کاش کے وہ اس حدیث کو شروع سے پڑھ لیتے۔ یہ واقعہ خواب کا ہے اور کیا ہے کہ دو بندے آپ کے پاس آئے۔ ”فاخرجاني الی الارض المقدسة“ وہ مجھے لے کر ارض مقدسہ کی طرف گئے۔ اب کوئی پوچھے کہ ارض کا معنی آسمانوں والا گھر کرنا ، یہ دین کی خدمت ہے؟ یہ کون سی فقاہت ہے؟ نبیﷺ فرمارہے ہیں کہ وہ مجھے لے کر ارض مقدسہ کی طرف گئے۔ واقعہ بھی خواب کا ہے ، اور لے کر کہاں جارہے ہیں؟ ”الي الارض المقدسة“ ارض مقدسہ کی طرف۔ اور وہاں پر نبیﷺ نے اوپر اپنا گھر دیکھا اور کہا گیا کہ یہ آپ کا گھر ہے۔ اور یہ کہہ رہے ہیں کہ آسمانوں والے گھر میں ہیں۔ یا للعجب! بڑی عجیب اور حیرانی کی بات ہے۔یہ اعتراض بھی ان کا حدیث کے شروع والے الفاظ پڑھتے ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ اور ان کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔
جنت میں دودھ پلانے والی
پھر ! اسی طرح ایک حدیث صحیح بخاری کے حوالے سے پیش کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیم کے بارے میں فرمایا: اس کےلیے جنت میں ایک دودھ پلانے والی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سال کے تھے نبیﷺ کے بیٹے ابراہیم t۔نبیﷺ نے ان کا جنازہ نہیں پڑھایا، بغیر جنازہ پڑھائے ان کو دفن کردیا ، امت کو یہ بتانے کےلیے کہ اگر نابالغ کا جنازہ نہ بھی پڑھائے تو کوئی حرج نہیں۔ تو ناظرین دیکھیں کہ ابراہیم کےلیے جنت میں دودھ پلانے والی ہے۔ تو ہم نے کب کہا کہ جنت میں نہیں ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ جنت میں دودھ پلانے والی ہے۔لیکن کیا یہ کہا ہے کہ ابراہیم کی روح کو دودھ پلانے والی ہے؟ یہ تو نہیں نہ کہا! ابراہیم ابراہیم کی روح کا نام نہیں ہے ، روح اور جسم کے مجموعےکا نام ہے۔اور معلوم ہے کہ قبر روضۃ من ریاض الجنۃ ہوتی ہے ، مؤمن کےلیے جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ بن جاتی ہے اور کافر کےلیے ”حفرۃ من حفر النار“ جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا بن جاتی ہے۔ تو اشکال کس چیز کا ہے؟ مؤمن کی قبر کو تاحد نگاہ وسیع کردیا جاتا ہے۔ یہ بیچارے اس روایت کو پڑھتے ہی نہیں ہیں۔ اس روایت کے آدھے حصے پر ایمان لاتے ہیں۔ او! جس روایت میں روح کے لوٹنے کا ذکر ہے ، اس میں روح کے لوٹنے والی بات کو نہیں مانتے ، باقی اگلی باتوں کو مانتے ہیں۔ کہ قبر تاحدنگاہ وسیع کردی جاتی ہے۔اور دنیاوی قبر تو وسیع نہیں ہوتی۔ اسی حدیث کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں،
انسانی عقل محدود اور قاصر ہے
او اللہ کے بندو! تمہاری عقل ہے ہی نہیں دیکھنے والی۔ تم تو چیونٹی کی آواز نہیں سن سکتے۔ تمہاری قوت ہی نہیں ہے اتنی۔ اللہ نے انسان کو محدود طاقت دی ہے۔اور پھر ہمارا ایمان ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے اندر بھی ہیں اور ان کے جسموں کے اندر بھی ہیں۔ اب یہاں پر عقل کو لے کر بیٹھ جائیں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے ؟ کہ سبز پرندوں کے اند ربھی ہیں اور جسموں کے اندر بھی۔ او! جسموں کے اندر روح کے ہونے کی خبر ہمیں نبیﷺ نے دی ہے اور سبز پرندوں کے اندر ہونے کی خبر بھی ہمیں رسول اللہﷺ نے دی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ یہ کیسے کام کرسکتا ہے کہ نہیں؟ ”علی کل شیئ قدیر“ ہونے کا کیا معنی ہے؟اللہ کی قدرتوں کا کوئی موزازنہ کرسکتا ہے؟ ہمارا ایمان ہے کہ ان کی روحیں سبز پرندوں کے جوف کے اندر بھی ہیں اور ان کے جسموں کے اندر بھی ہیں۔ بات یہ ہے کہ دونوں باتیں نبیﷺ کے فرمان سے ثابت ہیں۔ ہمارا کام ایمان لانا ہے۔ اب جیسے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جس کا جسم مٹی ہوگیا ،گل سڑ گیا، جلا دیا گیا، راکھ بنا کر ادھر ادھر اڑا دیا گیا، اس میں روح کیسے جائے گی؟ یہ اعتراض پیش کرتے ہیں۔ بھئی! روح کو تم نے ڈالنا ہے؟ جس اللہ نے ڈالنا ہے وہ ڈال لے گا۔ پڑھی نہیں صحیح بخاری کے اندر حدیث کہ ایک آدمی کو جو بنی اسرائیل سے تھا، اللہ سے بڑا ڈر لگا ، مرتے وقت اپنے بیٹوں سے کہنے لگا: مجھے جلا کر میری راکھ کو بہا دینا۔ سخت ہوا والے دن۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بلا لیا ۔ ہاں بھئی! تم نے ایسا کیوں تھا؟ کہنے لگا : اللہ تیرے خوف کی وجہ سے ایسا کیا ہے۔ صحیح بخاری کے اندر حدیث آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس کو نوازا۔ کام اس نے کیا ہے کہ سمجھا جب میری خاک اُڑ جاے گی ہوا میں ، پھر اللہ تعالیٰ اس کو اکٹھا نہیں کرسکے گا۔ نہیں سمجھ آئی بیچارے کو ۔اللہ تعالیٰ اس کو زندہ کرکے اپنے سامنے کھڑا کرلیا کہ بتاؤ ! تم نے یہ کام کیوں کیا تھا؟ کہنے لگا: اللہ تیرے ڈر سے کیا تھا، تو نے پھر وہی کرلیا جس کا ڈر تھا۔ ”فاغمدہ اللہ برحمتہ“ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی رحمت میں سمو لیا۔ معاف کردیا۔ بہرحال اللہ رب العالمین جو چاہے کرسکتا ہے۔ پھر سمندر کے اندر بہت سارے انسانوں کی راکھ بہا دی گئی۔ اب سمندر کے پانی کے اندر مختلف انسانوں کے جسم کے ذرات ہیں۔ کچھ نیک بھی ہیں ، کچھ بد بھی ہیں۔ اب نیک کو اللہ نے جزا دینی ہے اور بد کو سزا دینی ہے، اب یہ کیسے ممکن ہے؟ اس سوال کا بھی وہی جواب ہے کہ سوال کرنے والے نے شاید یہ سمجھ لیا ہے کہ عذاب میں نے دینا ہے۔ اس کو سمجھ نہیں آرہی کہ کیسے دوں؟ بھئی جس اللہ نے عذاب دینا ہے وہ عذاب دینے پر قادر ہے، جس اللہ نے راحت پہنچانی ہے وہ راحت پہنچانے پر قادر ہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ایمان لایا جائے۔
ایک اعتراض کہ حیات برزخی پر ایمان دو زندگیوں اور دو موتوں کے اصول کے منافی ہے
اسی طرح ایک بہت بڑا اعتراض وہ یہ بنا کرپیش کرتے ہیں کہ اگر قبر والی زندگی کو مان لیا جائے توتین زندگیا ں اور تین موتیں ہوجاتی ہیں۔حالانکہ الہ نے قرآن میں کہا ہے کہ دو زندگیاں اور دوموتیں ہیں۔ بات صرف وہی ہے کہ سمجھ نہیں آئی۔ سمجھے کا قصور ہے۔ انسان پیدا ہوتا ہے ۔کہاں پر؟ ماں کے پیٹ میں۔ روح جب جسم کے اندر ڈالی جاتی ہے ، اس وقت بچہ کہاں ہوتا ہے؟ ماں کے پیٹ میں۔ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے کہ اس کے اندر روح ڈالی جاتی ہے، وہ مخصوص مدت پوری کرنے کے بعد پیٹ سے باہر آجاتا ہے۔ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے،زندہ ہوتا ہے ، حرکت کرتا ہے، لیکن پیٹ کے پردے کی وجہ سے باہر کی دنیا کو نہیں دیکھ سکتا۔ باہر کی دنیا اس کو نہیں دیکھ سکتی۔ وہ باہر کی آوازیں نہیں سن سکتا۔ اس کی کوئی باہر نہیں سن سکتا۔ جب پیٹ سے باہر آتا ہے تو سارے اس کو دیکھتے ہیں ، سنتے ہیں، یہ ان کو دیکھتا ہے۔ یہ دنیاوی زندگی ہے، ایک ہی زندگی ، شروع کہاں سے ہوئی ؟ ماں کے پیٹ سے ۔ا ختتام کہاں پر ہوا ہے؟ دنیاوی زندگی کے ختم ہونے پر۔ ایک زندگی کے دو مرحلے ہیں۔ ایک مرحلہ ماں کے پیٹ میں ، ایک مرحلہ ماں کے پیٹ کے باہر۔ اور یہ زندگی کے دونوں مرحلے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ایسے ہی اخروی زندگی کے دو مراحل ہیں، ایک قبر کے اندر ہے اور دوسرا قبر سے باہر قیامت کے دن۔ اور یہ دونوں مرحلے ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ جس طرح بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، باہر والوں کو دیکھتا نہیں ہے، سنتا نہیں ہے، جانتا نہیں ہے، اسی طرح جب قبر کے پیٹ میں ہوتا ہے تو نہ باہر والوں کو دیکھتا ہے، نہ سنتا ہے اور نہ جانتا ہے۔ نہ ان کو بول کر جواب دے سکتا ہے۔ جس طرح ماں کے پیٹ میں داخل کردی جاتی ہے، ایسے ہی قبر کے اندر بھی داخل کردی جاتی ہے۔ ” ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلاً “ اللہ تعالیٰ اس کو پورا بچہ کرکے ماں کے پیٹ سے نکالتا ہے، ایسے ہی قیامت کے دن ” فَإِذَا هُم مِّنَ الْأَجْدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنسِلُونَ [يس : 51] “قبروں سے نکل کر رب کی طرف جائیں گے، روح پہلے سے موجود ہوگی۔ اللہ نے کہیں بھی یہ نہیں کہاکہ روح قیامت کے دن ڈالی جاتی ہے، یا روح قیامت کے دن ڈالی جائے گی، اس سے پہلے نہیں۔ جو ان کا دعوی ہے کہ روح جسم کے اندر قیامت والے دن ڈالی جائے گی۔ قیامت سے پہلے نہیں ڈالی جائے گی، روح قیامت سے پہلے نہیں لوٹتی ، قرآن کی کسی آیت سے بھی ثابت نہیں ہے۔ یہ خوامخواہ احادیث سے قرآن کے خلاف کرکے ٹھکرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خلاف تو تب ہوتی ناں کہ قرآن میں آیا ہوتا کہ قیامت سے پہلے روح نہیں لوٹتی، اورحدیث میں آیاہوتا کہ روح قیامت سے پہلے جسم میں لوٹ آتی ہے۔ پھر تو تھا تضاد۔ قرآن نے تو کہا ہی نہیں ہے کہ روح نہیں لوٹتی، حدیث کے اندر آگیا ہے کہ روح لوٹتی ہے، خوامخواہ کا اشکال بنا کر بیٹھ گئے ہیں ، معاملہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ پھر اعادہ روح کے عقیدے کو کفریہ شرکیہ قرار دینے والے ذرا ہوش کریں اور غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اعادہ روح کو بیان کیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے اپنے فرامین میں اعادہ روح بیان کیا ہے۔ تو یہ کس پر فتوی لگا رہے ہیں کفر اور شرک کا۔ باقی روح کے جسم کے اندر لوٹ آنے سے دنیوی زندگی قائم نہیں ہوتی۔ دنیوی زندگی کیسے آتی ہے ، یہ اللہ ہی جانتا ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی اس حقیقت کو نہیں پا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہی نہیں ہے۔ ” قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي “ روح امر ربی ہے۔ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ کیا ہے؟ ” وَمَا أُوتِيتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً [الإسراء : 85] “ تمہیں تو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ ایک چیز کا علم ہی نہیں، پھر خوامخواہ کہنا کہ روح کیسے جائے گی، کیسے نکلے گی، وغیرہ وغیرہ ۔ تو بھائی! جہاں جہاں اللہ اور اس کے رسولﷺ نے بتا دیا ہے ، وہاں وہاں جو جو کچھ کہا ہے اس کو مانو۔بس! اپنی طرف سے اٹکل پچو لگانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ تو روح کے جسم کے اندر لوٹ آنے کا عقیدہ عین کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کے مطابق ہے ، ان کے خلاف نہیں۔ روح مرنے کے بعد انسانی جسم میں لوٹ آتی ہے قیامت سے پہلے ، قیامت بعد تو وہ بھی مانتے ہیں۔ دیکھیں ناں! شہداء کو اللہ کہہ رہے ہیں :”أحیاء“ زندہ ہیں ۔ کیا وہ دنیا کی طرح زندہ ہیں؟ ”لا تشعرون“ تمہیں پتہ نہیں کہ کیسے زندہ ہیں۔تو جو برزخی زندگی ہے ، وہ دنیاوی زندگی سے مختلف ہے۔ کیسی ہے؟ ہمیں کوئی شعور نہیں۔ جو چند حالات ہمیں بتا دیئے گئے ہیں، وہ ہمیں پتہ ہیں، اس سے زیادہ ہم نہیں جانتے۔ ہمیں اس کا شعور نہیں، ہمیں اس کا ادراک نہیں۔ اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔
وما علي الا البلاغ
شیخ أبو عبد الرحمن الطاهر حفظہ اللہ !