السلام علیکم و ر حمتہ اللہ و برکاتہ،
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اعتکاف صرف دس دن کا ہوتا ہے اور یہ سنت ہے،اس کے علاوہ سات ،پانچ ، تین ، اور ایک یا کچھ گھنٹے کے لیے جو اعتکاف کیا جاتا ہے ، وہ نفلی عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
٭ سائل کا سوال رمضان اور غیر رمضان دونوں کو شامل ہے، کیونکہ سوال میں قید نہیں ہے۔ لہذا دونوں حوالے سے چند معروضات پیش ہیں، باقی تفصیلی جوابات سے علماء مستفید کریں گے۔ ان شاءاللہ
٭ اعتکاف کے لغوی معنیٰ ٹھہرنا اور رکنا کے ہیں۔ (لسان العرب 9/252، مصباح المنیر 2/424) یا کسی چیز کو اپنے لیے لازم کرلینا اور اپنے نفس کو اس پر مقید کردینا۔ ( فتح الباری4/318، بلوغ الامانی 10/238)
شرعی اصطلاح میں کوئی شخص اللہ کا تقرب حاصل کرنے، اس کی عبادت، ذکر واذکار اور تسبیح وتحمید کرنے کی نیت سے مسجد میں ایک خاص مدت کےلیے قیام کرے تو اسے اعتکاف کہتے ہیں۔ (المحلی لابن حزم 5/179، المفردات فی غریب القرآن259، السلسبیل فی معرفۃ الدلیل2/200)
٭ جو لوگ کہتے ہیں کہ اعتکاف صرف دس دن کا ہی ہوتا ہے۔ چاہے رمضان میں کیا جائے یا غیر مضان میں،
تو ان کو اپنے اس قول پر دلیل لانی چاہیے۔ لیکن ہاں جو یہ کہتے ہیں کہ رمضان میں اعتکاف صرف دس دن سنت ہے، تو ان کا یہ کہنا درست ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
" كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يعتكف في كل رمضان عشرة ايام فلما كان العام اللذي قبض فيه اعتكف عشرين يوماً" ( صحیح بخاری مع الفتح 4/334)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں دس دن کا اعتکاف فرماتے تھے۔ پس جس سال آپﷺ نے رحلت فرمائی اس سال آپﷺ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا !
باقی اس کے علاوہ دس دن سے زیادہ یا کم مثلاً سات دن، پانچ دن، تین دن، ایک دن یا کچھ گھنٹوں وغیر کےلیے جو اعتکاف کرتا ہے۔ تو یہ بھی جائز ودرست ہے۔
کیونکہ کتاب وسنت میں عام اعتکاف کی کوئی مدت مقرر نہیں بلکہ اس کا حکم عام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ۔ (البقرة:125)
’’ اور ہم نے ابراہیم واسماعیل کو تاکیدکی کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لئے صاف ستھرا رکھیں ‘‘۔
اور اسی طرح ایک اور آیت
" ولا تباشروهن وانتم عاكفون في المساجد" ( البقرۃ:187)
یعنی جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔
ان آیات میں اعتکاف کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی، لہذا اعتکاف چاہے ایک رات کا ہو، یا چند دن کا ہو یا دس دن یا بیس دن کا، جائز ہے۔ اس کی تائید میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل جس میں ہے کہ زمانہ جاہلیت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک رات اعتکاف بیٹھنے کی نذر مانی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس نذر کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" اوف بنذرك واعتكف ليلة " ( صحیح بخاری مع الفتح 4/333، صحیح مسلم 11/134)
یعنی اپنی نذر کو پورا کرو اور ایک رات کا اعتکاف کرو۔
اسی طرح اگر اعتکاف چند گھڑیوں کا بھی کیا جائے تو جائز ہے۔
1۔ اس لیے کہ اعتکاف کا معنیٰ ومفہوم ہی یہی ہے کہ ایک خاص وقت کےلیے عبادت وذکر الہی کی نیت سے مسجد میں قیام کرنا
اب چاہے وہ وقت کتنا ہی کیوں نہ ہو۔
2۔ سلف صالحین بھی اس جواز کے قائل نظر آتے ہیں مثلاً صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
" اني لامكث في المسجد وما امكث الا لاعتكاف " (المحلی لابن حزم5/180)
یعنی میں ایک گھڑی مسجد میں بیٹھتا ہوں مگر یہ کہ میری نیت اعتکاف کی ہوتی ہے۔
اسی طرح تابعی عظیم سیدنا سوید بن غفلہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ
" من جلس في المسجد وهو طاهر فهد عاكف فيه مالم يحدث " (المحلی5/179)
جو شخص مسجد میں بیٹھے اور وہ حالت طہارت میں ہو پس وہ اعتکاف میں ہے جب تک اس کا وضو ٹوٹ نہ جائے۔
البتہ ماہ رمضان (غیر رمضان نہیں) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آخری عشرہ یعنی دس دن کا اعتکاف ثابت ہے۔ چنانچہ رمضان میں آخری عشرہ کا اعتکاف سنت نبویﷺ ہے۔
کیوں اس کی مدت معلوم ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص رمضان میں کبھی بیس دن کا بھی اعتکاف کرلے تو یہ بھی جائز ہے۔ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سال رحلت فرمائی تھی، اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا تھا۔ جیسا کہ بخاری کے حوالے سے اوپر حدیث بیان کی جا چکی ہے۔
کیا نبی کریم ﷺ نے صرف دس دن کا اعتکاف ہی کیا ہے؟؟
جی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے آخری عشرہ (دس دن) میں اعتکاف کیا ہے۔ لیکن جس سال آپ اس دنیا فانے سے گئے، اس سال آپ نے 20 دن کا اعتکاف کیا تھا۔اب اگر کوئی رمضان میں دس دن کا اعتکاف کرے، تو یہ سنت کہلائے گا اور اگر 20 دن کا اعتکاف کرے تو یہ بھی جائز ہے۔ منع نہیں ہے۔ کیونکہ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل موجود ہے۔
نیت تو اعتکاف کی ہو مگر اجر و ثواب میں نفلی اور سنت کہنا درست ہے؟؟؟
پہلی بات اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔ جس بھی اعمال میں جیسی بھی نیت ہے، رب کریم اس کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ اور باقی سنت اور نفل بارے ہمارے بھائی
Nasrullah khalid نے تفصیل پیش کردی ہے۔ اگر آپ آخری عشرہ میں اعتکاف کی نیت سے بیٹھے ہوئے ہیں تو پھر سنت کہہ سکتے ہیں، اس کے علاوہ باقی اعتکاف کے دنوں کو نفل کا نام دیا جاسکتا ہے
واللہ اعلم