الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
ہمارے پاس جو کچھ ہے ہمارے رب کی عطا کردہ نعمتیں اور امانتیں ہیں۔ قلم بھی ان میں سے ایک بہت بڑی امانت ہے ... جس کی خود رَبِّ کائنات نے قسم کھائی ہے ... میں نے بچپن کی عمر سے لکھنا شروع کیا۔ بہت کچھ لکھا۔ بہت کچھ چھپا۔ انعامات بھی ملے، تعریفیں بھی ہوئیں۔ دعائیں بھی ملیں ... مگر وہ سب بے شعوری کی باتیں تھیں۔ شعور کا دعویٰ تو اب بھی نہیں ہے ... لیکن قلم کی امانت کا احساس میری ذات پر ذمہ داری کے ساتھ خوف و خشیت طاری کر دیتا ہے ... تقریباً چودہ پندرہ سال پہلے کی بات ہے ٹورانٹو سے نکلنے والے اخبار ''الہلال'' نے میرے اُردو ڈائجسٹ کے مضمون ''جائیں تو جائیں کہاں'' کو چھاپا ... اس کے بعد میرا ان سے رابطہ ہوا ... انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں ان کے اخبار میں آئینہ کے عنوان کے تحت اپنے ماحول، حالات اور خیالات کا اظہار کروں ... یہ تحریریں الہلال کے لئے لکھی گئی تھیں جنہیں لوگوں نے بہت پسند کیا ... چنانچہ میں نے سوچا کیوں نہ ان کو اور لوگ بھی پڑھیں۔ شاید کہ اتر جائے کسی کے دل میں میری بات۔ اس سلسلے میں میرے بھائی ڈاکٹر وقار مسعود کی حوصلہ افزائی اور خالد رحمان صاحب کی ہمت افزائی نے اس خیال کو تقویت عطا کی ... بہرحال دس سال کی اس کشمکش نے اب آخر کتاب کی شکل اختیار کرنے کا ارادہ کر ہی لیا ہے۔ یہ وہ حقیقتیں ہیں جو ہمارے اطراف میں بکھری ہوئی ہیں۔ یہ وہ سچائیاں ہیں جنہیں لوگ افسانہ اور کہانی کا نام دے لیتے ہیں ... اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان سچائیوں کے برے پہلو ہم سے دور کر دے اور خیر کو پھیلا دے۔
شہناز احمد (آٹووا)
انسانوں کے گرد کتنے المیے بکھرے ہوتے ہیں۔ لیکن انسانی المیہ یہ ہے کہ دنیا کی رنگینی اور چمک دمک اسے گردو پیش کے ان المیوں سے عموماً بے گانہ کر دیتی ہے ۔زندگی کی رنگینیوں میںکھویا ہوا انسان اپنی ذات میں گم دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے۔ اس کی صبح و شام اسی بھاگ دوڑ میں گذرتی ہے کہ وہ ہرچمکتی دمکتی چیز کو کس طرح حاصل کرے۔ اس کی توانائیاں اور قوتیں معیار زندگی کوبلند کرنے میں صرف ہوتی رہتی ہیں ۔معیارزندگی جوں جوں تبدیل ہوتا ہے رہن سہن، تعلقات، میل جول اور زندگی کے طور طریقے ہرچیز اس طرح تبدیل ہوتی ہے کہ انسان کو ا س تبدیلی کااحساس تک نہیں ہوتا۔یہاں تک کہ اچھائی اوربرائی کے معیارات بھی تبدیل ہوجاتے ہیں ۔
زندگی کاچکر اس طرح چل پڑے تو ہرمنزل سے آگے ایک نئی منزل انسان کو اس طرح مصروف رکھتی ہے کہ اسے وقت گذرنے کااحسا س تک نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ زندگی کی صبح، دوپہر اور پھر شام میں ڈھل جاتی ہے ۔اب دنیا کی چمک دمک ماند پڑنے لگتی ہے اور اس کی بے ثباتی اور بے وفائی کااحساس ہونے لگتا ہے ۔زندگی کے خوشگوار لمحات میں ساتھ دینے والے لوگ اس دوران میں نئے ساتھی ڈھونڈ لیتے ہیں ۔دولت اورمادی سہولتوں کی ریل پیل کے باوجود سکون حاصل نہیں ہوتا۔تنہائی کا جان لیوا احساس ہمہ وقت پریشان رکھتا ہے۔ اب گزری ہوئی زندگی اور واقعات یاد آتے ہیں تو انسان کو اپنی کھوئی ہوئی اقدار اور روایات کااحساس ہوتا ہے سادگی ، رواداری ، اخلاص ، خبرگیری، اور باہم محبت و احترام پرمبنی انسانی رویے یاد آتے ہیں جو مادی مشکلات کے باوجود زندگی کو خوشگوار ، آسان ، پرسکون بناتے ہیں ۔زیاں کااحساس تازہ ہوتو انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ جو کچھ اس نے کھویا ہے وہ آنے والوں کو اس سے خبردار کردے لیکن آنے والے بھی اسی دنیا کی رنگینیوں میں مصروف ہوتے ہیں ۔
انسانی زندگی کایہ چکر نیا نہیں ہے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اس کی تیز رفتاری میں اضافہ ہورہا ہے ۔ان تباہ کن چکروں کا شکار ہونے والے یوں توہر جگہ موجود ہیں لیکن فطری طور پر وہ لوگ اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں جو اپنا وطن چھوڑ کر امریکہ یا کینیڈا میں جابسے ہیں ۔جہاں جدید ترین طرز زندگی ، رہن سہن کے لئے زندگی کی سہولتیں، دولت و وسائل کی فراوانی اور نت نئی تفریحات انسان کو پوری طرح اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہیں۔ تاہم کچھ لو گ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں وقت کی یہ رنگینیاں اور حشر سامانیاں زندگی کی حقیقت بھلانے میں کامیاب نہیں ہوتیں۔وہ یادرکھتے ہیں کہ زندگی ناپائیدار اور دنیاعارضی قیام کی جگہ ہے ۔اس عارضی قیام کے دوران اللہ کی جو نعمت بھی حاصل ہے اس سے استفادہ کرناچاہیئے لیکن جہاں عارضی قیام کرنا ہووہاں ضروریات کو محدود رکھنا اور مستقل قیام کی تیاری کے لئے اپنی صلاحیت و توانائی اور استعداد کوآگے بڑھانا ہی درست طرز عمل ہے۔ طرز عمل کی یہی وہ بنیاد ہے جو ان اخلاقی اور انسانی اقدار کومعاشرے میں تازہ رکھتی ہے جو انسانوں کودائمی مسرت، خوشی، اور سکون فراہم کرتی ہیں ۔درحقیقت یہ احساس محض ان کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ انہیں مضطرب اور بے چین کردیتا ہے کہ وہ اس پیغام کو اپنے ارد گرد بھی پھیلائیں ۔
محترمہ شہناز احمد بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل ہیں ۔انہیں ۲۲ سال کینیڈا میں گزارنے کاموقع ملا جہاں انہوں نے زندگی کے بہت سے روپ دیکھے اور جو روپ دیکھا اسے قریب سے دیکھا۔عزیز و اقارب اور احباب کے ساتھ ساتھ اٹھتے بیٹھتے جو المناک واقعات اور کہانیاں ان کے سامنے آئیں اسے نہ صرف انہوں نے اپنے لئے نصیحت جانا بلکہ اپنے ہم وطنوں کو بھی اس نصیحت میں شریک کیا۔کینیڈا میں اپنے قیام کے دوران شہناز احمد نے اپنے اضطراب کااظہار ان تحریروں میں کیا جو وہ باقاعدگی سے پاکستانیوں کے لئے شائع ہونے والے پرچہ الہلال کے لئے لکھتی رہی ہیں ۔بلاشبہ ان کی تحریریں اس قابل تھیں کہ انہیں وسیع پیمانے پر شائع کیاجاتا۔افسانوی انداز لئے رواں اور بے ساختہ تحریریں ہماری معاشرتی زندگی کی بہت سی بھولی بسری روایات تازہ کرتی ہیں ۔ حقیقی واقعات کے پس منظر میں لکھی گئی تحریریں نہایت دلچسپ ہیں اور پڑھنے والوں کے لئے اچھی نصیحت کاسامان بھی فراہم کرتی ہیں ۔مجھے خوشی ہے کہ یہ ’’آؤ ہمیں پوجو‘‘ کی صورت میں شائع ہورہی ہیں۔
زندگی واقعات اور حوادث کامجموعہ ہے اور ہر واقعہ عبرت اور نصیحت کے بے شمار پہلو اپنے اندر لئے ہوئے ہوتا ہے ۔ تاہم یہ نصیحت صرف وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جو زندگی کو محض کسی بھی طرح گزار دینے کے بجائے اس کے حقیقی مقصد پر نگاہ رکھتے ہیں ۔ شہناز احمد کو اللہ نے ایسی ہی نگاہ دی ہے۔ مجھے توقع ہے کہ وہ آئندہ بھی تحریر کایہ سلسلہ جاری رکھیں گی ۔
خالد رحمن
ڈائرکٹر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد
اس دور میں پاکیزہ اور تعمیری ادب کی تخلیق کا کام صبر آزما جہاد سے کم نہیں ہے۔ حیاء سوز اور مخربِ اخلاق ادب کو نہ صرف میڈیا کی سرپرستی حاصل ہے بلکہ اسے ملکی و غیر ملکی، ہر دو سطح پر مؤثر طبقات اور حکومتوں کی عنایات بھی حاصل ہیں۔ جبکہ دوسری طرف اپنی تخلیقات کے ذریعے لوگوں کو ان کے بلند کردار سے روشناس کرانے والوں کو طرح طرح کی پابندیوں کا سامنا ہے۔ ان حالات میں وہ لوگ تحسین و ستائش کے مستحق ہیں جو اپنی تخلیقات کے ذریعے انسانیت کی بلند اقدار، حیاء و شرافت کو فروغ دے رہے ہیں۔
محترمہ شہناز احمد بھی ان قابل قدر لوگوں میں سے ہیں، جو اپنے قلم کو اپنے رب کی امانت سمجھ کر معاشرے کی اصلاح و فلاح کیلئے استعمال کر رہی ہیں۔ اس کتاب میں شامل کہانیاں سبق آموز بھی ہیں اور عبرتناک بھی۔ یہ کہانیاں ہمارے ارد گرد تلخ سچائیوں کی صورت میں بکھری ہوئی ہیں۔ لیکن انسان ان واقعات کو، جو اس کی آنکھوں کے سامنے آئے روز پیش آتے رہتے ہیں، لمحوں میں فراموش کر دیتا ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ کھلی آنکھوں سے معاشرتی اقدار کو بدلتے اور بگڑتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے، پسند اور ناپسند کے پیمانوں میں انقلاب آگیا ہے۔ آئیڈیلز بدل گئے ہیں، اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ ان ساری تبدیلیوں میں اللہ و رسول ﷺ سے رہنمائی کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ہماری زندگیاں بھی خوشی اور فلاح سے محروم ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ مایوسیوں کی دلدل میں اترتے چلے جارہے ہیں۔
ہم یہ کتاب اس یقین کے ساتھ پیش کر رہے ہیں کہ ان شاء اللہ اس کے ذریعے معاشرے کی تعمیر کا عمل آگے بڑھے گا، منفی اقدار کو روک لگے گی اور مثبت سوچ کو فروغ ملے گا۔
عباس اختر اعوان
رات دھیرے دھیرے گذرتی جارہی تھی ۔تاروں سے بھرا آسمان جگمگاتے ہوئے ستاروں کی آنکھ مچولی سے اب تھک چکاتھا ۔سپیدئہ سحرسے پھوٹتی ہوئی نور کی شعاعیں ستاروں کی ڈوبتی ہوئی نبضوں کی غماض تھیں ۔۔۔رابعہ نے اپنی آنکھوں سے گرتے ہوئے موتیوں کو تاروں کے ساتھ آگے روانہ کرتے ہوئے آسمان سے نظریں ہٹائیں ۔۔۔سچ کہامیرے رب نے ہر سختی کے بعد آسانی ہے ۔ہرتاریکی کے بعد اجالا ہے ۔ہر قربانی کے بعد صلہ ہے ۔یہ خونِ انجم ہی تو ہے جس سے سپیدئہ سحر پیدا ہوتی ہے۔۔۔اس کی نظریں فلسطین کی مقدس سرزمین پرمرکوز ہوگئیں ۔انبیاء کی زمین ، بیت المقدس کی امین، مسلمانوں کاقبلہ اول ، توحید کا قدیم مرکز اور منصب ِ امامت پر جمے ہوئے طاغوتوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے صیہونی ریاست کامقبوضہ علاقہ ۔۔۔اف! اس کے دل میں ٹیس اٹھی۔ روح بے چین ہوئی، اپنے وجود پر شرم آئی ۔۔۔مگر میں ایک کمزور عورت، بے بس اور مجبور عورت کیاکرسکتی ہوں ۔عقل نے مطمئن کرنے کی کوشش کی ۔
عورت، جس سے کائنات میں حسن ہے جمال ہے خوبصورتی ہے ، انسانوں میں جس سے وفا ہے، ایثار ہے، قربانی ہے۔ عورت جو انبیاء کی ماں ہے ، جس کے قدموں تلے جنت ہے ۔۔۔عورت اگر بدل جائے تو ساری قوم بدل جاتی ہے۔۔۔۔دشت و بیاباں میں اپنے ننھے سے معصوم بچے کو لئے ، اللہ کے حکم پر راضی وہ عورت ہی تو تھیں جو بچے کی پیاس سے بیقرار ہوکر پہاڑوں کے درمیان پانی ڈھونڈتی پھررہی تھی۔۔۔مسیح علیہ السلام کی والدہ سیدہ مریم عورت ہی تو تھیں جو اللہ کے پیغام کی خاطر اپنی ساری قوم سے ٹکراگئی تھیں۔۔۔اور وہ بھی عورت ہی تھیں جو محسن انسانیت رحمت اللعالمین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لائیں اور پھر زندگی کی آخری سانس تک اپنے شوہر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاہرطرح سے ساتھ نبھایا۔۔۔توعورت کو میں کیاسمجھتی ہوں؟۔شاید عورت کہہ کر میں اپنا پہلو بچانا چاہتی ہوں۔۔۔مگر کس سے اور کس لئے ؟دل نے پوچھا ۔۔۔اللہ سے اور دنیا کے لئے ۔اس اللہ سے جو دلوں میں چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے؟ کس قدر دھوکہ ہے جس میں ہم عورتیں مبتلا ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ آج بھی وہ عورتیں موجود ہیں جن کے دامن پر فرشتے نماز پڑھتے ہیں۔ آج بھی وہ عورتیں موجود ہیں جن کے عزائم اور ارادوں سے زلزلہ ہے ، آج بھی وہ عورتیں مصروف کار ہیں جن کے نہتے وار کفر کے لئے موت ہیں ۔۔۔ہاں ہاں، بالکل موجود ہیں انتقاضہ کی ''معصوم ابابیلوں '' کی مائیں ۔۔یہ ننھے منے معصوم شہزادے جو چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں کنکریاں لئے دشمن ہاتھیوں کابھُس بنارہے ہیں ۔۔۔اور یہ مائیں اپنے گھر کے چراغوں کو ،اپنے جوانوں کو ظالم وجابر دشمن کے منہ میں حق اورآزادی کی خاطر دھکیل رہی ہیں ۔اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا۔۔۔ماں کادل اس ننھی سی روح جو اس کے وجود کے ساتھ چمٹی اس خون ریز دنیا میں آنے کی منتظر تھی اس کے لئے سوالیہ نشان بن گئی۔۔۔مسلمان ماں ۔۔۔کتنا عظیم رتبہ ہے اور کتنی عظیم ذمہ داریاں ہیں اورکتنی شدید آزمائش ہے ۔۔۔وادئ کشمیر کی گلیوںمیں بہتا ہوا سرخ سرخ لہو،یہ جواں جواں شہید، یہ ماؤں کے پرعزم چہرے، یہ بہنوں کے اڑے اڑے رنگ، یہ بیویوں کے کمھلائے ہوئے
سہاگ ، مگر جدوجہد میں منزل کی طرف بڑھتے ہوئے قدم ، یہ افغانستان کی ان پڑھ ،گنوار عورت جس کی کوکھ نے وہ سپوت پیداکئے جنہوں نے کمیونزم کے پرخچے اڑا دیے۔ ان شاء اللہ فلسطین کے نوعمر مجاہدین بھی اپنے دشمنوں کو نیست و نابود کردیں گے ۔۔کیوں کہ اب تولوحِ زمین پر ایک نئی داستان لکھی جارہی ہے ۔ایک نئی کہانی کاآغاز ہو چکا ہے۔ ایک نیافرنٹ کھل چکا ہے اور ایک نئی جنگ شروع ہوگئی ہے ۔۔۔اسلام یاکفر ۔اس کے بیچ میں کچھ بھی نہیں ۔تب ہی تومجاہدوں ، غازیوں اور شہیدوں کاوہ روپ دنیادیکھ رہی ہے جس سے باطل کے ایوان کانپ رہے ہیں اور منافقوں کی عقلیں حیران ہیں ۔چیچن قوم کے رنگ میں اللہ نے اس قوم کو اس وقت ساری دنیا کے مظلوموں کے لئے ایک درخشندہ مثال بنادیاہے۔
آج مسلمان رمضان المبارک کامہینہ گزار کرعید کی خوشیاں منارہے ہیں ۔۔۔لیکن میری عید، صحیح معنوں میں میری عید ابھی بہت دور ہے ۔۔۔ابھی میں کیسے عید مناؤں ؟ابھی تو رزمِ حق و باطل چھڑی ہوئی ہے ۔ابھی تو میری بہنوں کے سہاگ اجڑ رہے ہیں ۔ابھی تو میری مائیں اپنے جگر گوشوں کوکفر کی دہکائی ہوئی آگ میں حق اور آزادی کی خاطر بڑے ایمان اور یقین کے ساتھ جھونک رہی ہیں۔ وہ صبحِ عید ابھی سپیدہ سحر کے پیچھے جھانک رہی ہے ، جسے میری آنکھیں بالکل اسی طرح دیکھ رہی ہیں جیسے روشن دن میں لوگ سورج کو دیکھتے ہیں ۔۔۔میری عید دور نہیں ہے ۔۔۔لیکن آج کامقدس دن جو نعمت ِقرآن اور نعمت ِ رمضان کے حاصل ہونے پر شکرانے کادن ہے ،یہ جھوٹی خوشیوں ، اللہ تعالی کی نافرمانیوں اور شیطان کو خوش کرنے والے کاموں میں گزارنے کادن نہیں ہے ۔کاش یہ بات ساری مسلم امت کی سمجھ میں آجاتی۔ رابعہ نے جائے نماز تہہ کرتے ہوئے سوچا۔
عید کی نماز رابعہ اور طارق نے شہر کے سب سے بڑے کمیونٹی سنٹر میں پڑھی جہاں بیشمار لوگ اکٹھا ہوگئے تھے۔زرق برق کپڑوں میں ملبوس خواتین ماحول کو رنگین اور معطر کئے ہوئے تھیں ۔خطبہ ہورہا تھا لیکن ہجوم اپنی آمدو رفت اور شوق و جوش میں عید کے خطبے سے بے نیاز ہال کے ماحول کو پررونق کرنے میں مصروف تھا ۔نماز سے بے نیاز کتنی ہی خواتین کرسیوں پربیٹھی اپنے ملبوسات کی نمائش کررہی تھیں۔۔۔رابعہ نماز سے فارغ ہوکر ایک کونے میں طارق کاانتظار کرتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ طرح طرح کے لباسوں میں بنے سجے یہ تمام لوگ مسلمان ہیں ۔کیاانھوں نے ایک مہینے کے روزے جیسی عظیم عبادت سے کوئی تقویٰ حاصل کیاہے؟کیاانھوں نے لیلۃ القدر میں جاگ جاگ کر اللہ سے اپنی بخشش کی دعا کی اور اپنے گناہوں کی معافی مانگی ہے ؟اگر یہ وہی ہیں تو پھر آج اس ساری محنت کو یوں اپنے حُلیوں اور حرکات و سکنات سے کیوں ضائع کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کیاانھیں اتنا بھی احساس نہیں کہ اللہ تعالی کے حضور کس طرح کھڑا ہواجاتا ہے؟
''رابی تمہیں بڑاانتظار کرنا پڑا ،معاف کرنا ۔بڑی مشکل سے راستہ نکال کر آیاہوں ۔۔۔'' طارق کی آواز پر وہ اپنے خیالات کے ہجوم سے نکل آئی۔اس کادل بہت پژمردہ ہورہا تھا۔لمحہ لمحہ چیچنیا کی خبروں پر کان لگے ہوئے تھے ۔غیرتِ اسلامی میں دھڑکتے ہوئے دل رکھنے والے چند مسلمان اپنے مجاہد بھائی بہنوں کے لئے امدادی کاموں میں مصروف تھے ۔طارق اور رابعہ بھی ریلیف کمیٹی کے ممبر تھے۔چنانچہ نماز سے فارغ ہوکر وہ بھی ریلیف سینٹر پہنچ گئے اور شام تک دوسرے بھائی بہنوں کے ساھ مل کرکام کرتے رہے ۔دنیا کے مجبور و بے بس کمزور اور مظلوم انسانوں کی مدد کے لئے کچھ کام کرلینے سے انکی روحوں کو تھوڑا سا قرارتھا ورنہ امت مسلمہ پر ٹوٹتا ہوا ظلم ان کے ذہنی توازن کوبگاڑے ڈال رہاتھا۔
شام کے سائے بڑھنے لگے ۔رابعہ اور طارق ریلیف سینٹر سے گھرجانے کے لئے باہر نکلے۔ ''رابی پھر سوچ لو ۔ہم پر والدین کے بھی بڑے حقوق ہیں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری طرف سے ان کے دل کو کوئی تکلیف پہنچے۔''طارق نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔''درست کہتے ہیں آپ طارق۔ ہمیں اپنے والدین کادل نہیں دکھاناہے۔ہم ممی ڈیڈی کے گھر چلیں گے ۔مگر اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں وہاں کے ماحول کوبرداشت کرنے کی ہمت دے''۔ رابعہ نے آہستگی سے کہا۔
رابعہ اور طارق کی شادی کے بعد یہ پہلی عید تھی ۔رابعہ کاسارا خاندان بقول اس کی امی کے پیدائشی ماڈرن تھا۔ اس کے دادا دادی پارٹیشن سے پہلے چائنیز کھاناکھانے ریسٹورنٹ جایاکرتے تھے۔اس کی نانی علی گڑھ یونیورسٹی کی گریجویٹ اور نانا لندن سے بیرسٹری کئے ہوئے تھے۔لیکن اسکے باوجود اس کی ممی بچپن سے کچھ مذہبی واقع ہوئی تھیں۔اسی لئے سال میں عید بقر عید کے ساتھ ساتھ قرآن خوانی اور محفل میلاد کااہتمام بھی بڑے شوق و ذوق سے کیاکرتی تھیں۔اور اب تو کچھ عرصے سے انھوں نے رمضان میں ایک افطار پارٹی کابھی اہتمام کرناشروع کردیاتھا ۔روزے تو انھوں نے کبھی رکھے ہی نہیں تھے کیونکہ کسی کو روزے رکھتے دیکھاہی نہیں تھا۔رابی بھی اپنی ممی پر گئی تھی ۔اپنی دونوں بہنوں کے مقابلے میں وہ اپنی ممی کی ساری رسومات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی مگر طارق سے ملنے کے بعد تو وہ اپنی ممی سے بھی آگے بڑھ گئی تھی یعنی ا س رمضان میں اس نے چند روزے رکھے اور نماز بھی باقاعدگی سے پڑھنے لگی تھی۔سارے خاندان میں وہ ملّانی مشہور ہوگئی تھی۔اور طارق سے شادی کے بعد اس کی زندگی میں اتنا زبردست انقلاب آیا کہ وہ خود کہنے لگی کہ میں تو اب مسلمان ہوئی ہوں۔ اسکے اس تغیر پر سارا خاندان حیران اور افسردہ تھا۔۔۔مگر وہ سب سے بے نیاز طارق کے ساتھ قدم سے قدم ملائے اپنی منزل کی طرف گامزن تھی۔
آج رابعہ کی ممی نے اس کی شادی کے بعد پہلی عید پر اپنے گھرمیںایک بہت بڑا ڈنر رکھاتھا۔اگرچہ رابی نے اپنی ممی کو ہرطرح سے سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر انھوں نے اس کی ایک نہیںمانی۔اب چونکہ رابی کو یہ احساس ہوچلاتھا کہ عید پر کیاہونااور کیانہیں ہونا چاہیئے۔ اس لئے وہ اپنے والدین کے گھر جانے سے کترا رہی تھی ۔مگر دین کی سمجھ کی بناء پر وہ اپنے والدین کادل بھی توڑنا نہیں چاہتی تھی۔
رابعہ کے والدین کے گھر کاڈرائیو وے اوراس کے آس پاس کاحصہ گاڑیوں سے بھراپڑاتھا۔لگتا ہے کہ کافی لوگ آچکے ہیں رابعہ نے گاڑی سے اترتے ہوئے طارق سے کہا۔گھر کادروازہ کھلا اور رنگوں کاسیلاب امڈ پڑا۔سب ہی رشتے دارموجود تھے ۔باتوں کی آوازیں ،کھنکتے ہوئے قہقہے اور اردوگانے سب مل کر کچھ ایسی فضا پیداکررہے تھے کہ اس وقت یہ گھر کینیڈا اور پاکستان کاحسین امتزاج معلوم ہورہاتھا۔ممی غرارے سوٹ میں ملبوس ، بہنیں ٹینا اور زوبی جینز میں ، دادی امی اور نانی اماں ساڑھیوں میں سجی ہوئی رابعہ کودیکھتے ہی اس کی طرف لپکیں ۔۔۔۔اب آرہی ہو تم ؟کہاں تھیں صبح سے ؟میںتوفون کرکرکے تھک گئی۔ ممی سخت غصے میں تھیں۔
''مما آپ بھول گئیں۔ میں نے توآپ کوبتادیاتھا کہ ہم لوگ دوپہر میںمصروف ہیں''۔ رابعہ نے ماں سے لپٹتے ہوئے نرمی سے کہا۔لیکن تمہاری دوپہر اب ختم ہوئی ہے ؟ممی نے شکایت کی ۔اوریہ تم کیاپہن کرآئی ہو۔نانی اماں کی نظر اس کے سراپے پر پڑی۔اللہ کے واسطے سرپر سے یہ چمڑا تو اتار دیاکرو۔انھوں نے ناگواری سے کہا۔ارے تم نے اپنا عید کاجوڑا نہیں پہنا۔پتہ نہیں کہاں سے آرہی ہو۔ اپنا جوڑا ساتھ تو لے کر آئی ہونا؟چلو پہلے جلدی سے تیار ہوجاؤ۔ممی کی چھٹی حس ابھری۔رابعہ کی تبدیلی نے انہیں بہت فکر مند کیا ہوا تھا۔
مماآپ نے مجھے بلایا تھا یامیرے جوڑے کو؟ رابعہ نے ماں کی گھبراہٹ بھانپتے ہوئے مسکرا کر ان سے پوچھا۔ بے کار کی پہیلیاں نہ بجھواؤ۔دادی امی کوغصہ جلدی آجاتا تھا۔وہ سب اسے لے کر کچن میں آگئیں۔مہمان آناشروع ہوگئے ہیں اورتم اس حلیے میں کھڑی ہو ۔کہاں ہے تمہارا عید کاجوڑا اور وہ سیٹ جو میں نے تمہیں خاص طور پر اس عید کے لئے دیا تھا؟ممی کی گھبراہٹ بڑھنے لگی تھی۔۔۔وہ میں نے چیچنیا فنڈ میں دے دیا ۔۔۔رابعہ کوسچ بولنے میں ہی عافیت نظرآئی۔
''وھاٹ ؟۔ٹینا چیخی That beautiful jewellery she gave away?زوبی جیبوں میںہاتھ ڈالے منہ پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ہاں زوبی وہی بیوٹی فل جیولری اور سوٹ میں نے ان کودیا ہے جن کومجھ سے زیادہ اس کی ضرورت تھی۔اس نے بڑے سکون کے ساتھ جواب دیا ۔ٹینا ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئی ۔۔۔۔پُوَّر(poor) ایکسٹریمسٹ رابی، تم ریبلس کی مدد کرتے کرتے اتنی lostہوگئی کہ اپنے عید کے کپڑے اورجیولری بھی انہیں دے ڈالی۔زوبی کی عقل حیران تھی ۔ تم چیریٹی میں اپنے پرانے فیشن کے کپڑے نہیں دے سکتی تھیں ؟۔نانی اماں سب سے زیادہ سراسیمہ تھیں ۔ ۔۔۔یہی تو مذہبی جنون ہے اس طرح تو سیدھے سادھے لوگوں کومذہب کے نام پر ایکسپلائیٹ کیاجاتا ہے ۔گل آنٹی بھی بول پڑیں۔۔۔سب اس کے ارد گرد اس طرح گھیرا ڈالے کھڑی تھیں جیسے اس نے کوئی ناقابل معافی گناہ کیاہو۔
اور رابعہ ان سب کے درمیان کھڑی حیران نظروں سے انھیں دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ کیا ان لوگوں کاان جاں بازوں سے کوئی تعلق نہیں جو میرے جسم و جان کے حصے ہیں؟ خون میں نہائے ہوئے شہیدوں ، کاندھوں پر بندوقیں اٹھائے ہوئے ان ننھے مجاہدوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں؟ کوئی رشتہ نہیں؟ ۔۔۔ یہ سب میری ماں ، نانی ، دادی، خالہ اور بہنیں ۔۔۔کیا یہ سب عورتیں نہیں ہیں ؟اوراگر یہ عورتیں ہیں تو یہ ان عورتوں سے اتنی مختلف کیوں ہیں جو عورتیں میری روح میں بس گئی ہیں ۔۔۔عورتیں جو دنیاکی تاریخ بدل رہی ہیں ۔۔۔عورتیں جو عظمت کی ان بلندیوں پرفائز ہورہی ہیں جہاں ملائکہ سجدے کرتے ہیں ۔۔۔تو ان عورتوں کے لئے سونے کاایک سیٹ اور ریشم کاایک جوڑا کیابڑی چیز ہے جو شاید کسی نوجوان کی بندوق کی گولی ہی بن سکے۔۔۔میرابس چلے تو ان کے قدموں میں دنیاکی ساری دولت ڈھیر کردوں۔۔۔
''تمہیں اتنا بھی احساس نہیں ہوا کہ آج عید کادن ہے اور تمہاری ماں نے کتنے ارمان سے اتنا قیمتی جوڑا اور اپنا پسندیدہ سونے کاسیٹ تمہیں خاص طور سے آج کے دن کے لئے دیاتھا اور تم اپنے مذہبی جنون میں اسے فسادیوں اور باغیوں کی نذر کر آئیں''؟ ڈیڈی کو بھی اسکاجرم معلوم ہوگیاتھا ۔انھوں نے اسے اپنے خیالوں میں غرق دیکھ کر تلخی سے کہا۔رابعہ تڑپ اٹھی۔
پلیز ڈیڈی انہیں فسادی اور باغی نہ کہیں اور آپ سب اچھی طرح سے سن لیں کہ میری کوئی عید نہیں ہے ۔محکومی کی زندگی، زندگی نہیں موت ہے ۔میری عید تو اس دن ہوگی جب کشمیر و فلسطین آزاد ہوجائیں گے ۔جس دن بوسنیا اور چیچنیا میں اسلامی ریاستیں قائم ہوجائیں گی ۔افغانستان میں مجاہدوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی ۔۔۔اور میری عید تو اس دن ہوگی جب زمین کے چپے چپے پر اسلام کاپرچم لہرارہاہوگاکیونکہ میں ایک مسلمان عورت ہوں اور مسلمان عورت آزاد ہوتی ہے محکوم نہیں ۔اس کی گود میں غازی، مجاہداور شہید پروان چڑھتے ہیں ۔نامرد اور دنیاکے حریص نہیں ۔۔۔اورمسلمان عورتیں اپنے سپوتوں کے ذریعے قوموں کی تقدیریں بدلتی ہیں ۔۔۔اپنے کپڑوں ، زیور، بناؤ سنگھار سے غیر مردوں کی بھوکی نظروں کو تسکین دیناتوغیر مسلم عورتوں کاوطیرہ ہے ، مسلمان عورتوں کانہیں ۔۔۔میں آپ کو یہ بھی بتادینا چاہتی ہوں کہ میں نے صرف آپ کادیا ہوا عید کاجوڑا اور سونے کاسیٹ ہی نہیں بلکہ اپنے سارے فضول نمائشی ملبوسات اور زیورات بھی اسلام کے مجاہدوں کے قدموں میں ڈال دیئے ہیں ۔۔۔کیوں کہ اس قربانی کے بغیر میری گود میں آنے والا ننھامجاہد پروان نہیں چڑھ سکتا تھا۔۔۔شدت جذبات سے رابعہ کانپ رہی تھی او ر سب سکتے کے عالم میں اسے دیکھ رہے تھے ۔۔۔غیرت اسلامی میں ڈوبی ہوئی اور جذبہ جہاد میں سرشار عورت اس سے پہلے انھوں نے نہیں دیکھی تھی۔
نجانے کیوں بعض باتیں تیر کی طرح دل میںکھُب کر انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں؟ گذرے حالات فلم کی طرح نگاہوں میں گھومنے لگتے ہیں ۔آوازیں کانوں میں گونجنے لگتی ہیں اور ہم کہیں اور پہنچ جاتے ہیں ۔۔۔بیگم اکرام اللہ خاں سخت غصے میں دھاڑ رہی تھیں اور ہماری دور پرے کی ممانی پر ان گنت عیب ڈال رہی تھیں۔۔۔کونسا عیب تھا جو انہوںنے انکی بیٹیوں پر چسپاںنہ کیاہو اور کون سی برائی تھی جو وہ ممانی میں ثابت کرنے سے قاصر تھیں ۔امی دم سادھے تھیں اور ہم سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ ان کے لال پیلے ہوتے چہرے کودیکھ رہے تھے۔۔۔امی بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے انہیں سمجھانے کے لئے جب بھی کچھ کہناچاہتیں ۔وہ یہ کہکر روک دیتیں ''بھابھی پہلے میری سن لیں '' اور ہم سب حیران تھے کہ بیٹھک میں موجود اکرام اللہ خان صاحب کے کان ہیں بھی یانہیں ۔کیونکہ امی کو جیسے ہی پتہ چلا کہ چچا میاں بھی اب گھر آگئے ہیں تووہ گھبرا کرکھڑی ہوگئیں۔۔
بھابی بڑے بھائی صاحب انڈیا سے آئے ہوئے ہیں، چھوٹے میاں کے گھر ملنے گئے ہوئے تھے اب وہ گھر آگئے ہیں آپ خدارا صبر کریں اور غصہ تھوک دیں ۔۔۔اور ان کو تو ایسا لگا کہ جیسے کسی نے جلتی پر تیل ڈال دیاہو۔بہت خوب میں کسی کی پرواہ کرتی ہوں کہ انڈیاجاکر بھائی صاحب کیاکہیں گے؟ سچی بات یہ ہے کہ جوجگہ جلتی ہے وہی تپتی ہے ۔میرا خیال تو یہ ہے کہ میں بھائی صاحب کو ہی ساری صورتحال بتاؤں۔ وہ خاندان کے بزرگ ہیں۔ کیاپتہ جاکر انہیں بھی آئینہ دکھائیں۔ اور یہ کہہ کر جھپاک سے ساڑھی کے پلو کوسر پر ڈالتی ہوئی وہ بیٹھک میں چلی گئیں۔۔۔ہم سب ششدر تھے۔ وہاں انہوں نے کیاکہایہ توپتہ نہیں چلا لیکن ان کے جانے کے بعد چچا میاں کی آواز کادردو غم اور سوزو تپش کااظہار اکبر الہ آبادی کایہ قطعہ کررہاتھا جووہ بار بار پڑھے جارہے تھے ۔
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر غیرتِ قومی سے زمیں میں گڑ گیا
پوچھا جو میں نے کہ بیبیو پردہ تمہارا کیا ہوا؟
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
جب غالباً شعر کی تکرار نے ان کے جذبات کی شدت کو کم کیاتو وہ امی کے کمرے میں آئے ، دلہن یہ پاکستان اور کیاکیادکھائے گا۔۔۔ہمارے گھر کی تومراثنیں اور چمارنیاں بھی اتنی بے شرم اور بے باک نہیں ہوتی ہیں ۔یہ حکمت یار خان دادا کی پرپوتی ہیں۔ استغفراللہ ،غم ، دکھ اور تاسف نے چچا میاں کو انتہائی رنجیدہ کر دیاتھا۔اور امی سرجھکائے آہستہ آہستہ ان کے دکھ اور صدمہ کو کم کرنے کی خاطر ان کے طرز زندگی کے متعلق چند ایک جملے کہہ جاتیں ۔
بھائی صاحب وہ علی گڑھ کی پڑھی ہوئی ہیں۔ پاکستان آتے ہی برقعہ اتاردیاتھا۔ اب بچے بھی عیسائیوں کے اسکولوں میں جاتے ہیں۔ آزاد خیالی کی اس ہم آہنگی کی وجہ سے مہر النساء بھابھی سے بڑی پینگیں بڑھ رہی تھیں۔ ہر وقت کی دانت کاٹی تھی۔ اب خدا معلوم ان آزاد خیال لوگوں کی باتیں بھی ایسی ہوتی ہیں۔ نجانے کیامعاملہ ہوگاکہتی ہیں کہ مہرالنساء بھابھی نے ان کے میاں پر الزام لگایا ہے۔ لاحول ولاقوۃ چچامیاں سے سنانہ گیا۔مسلمان عورتوں کی بے شرمی، بے پردگی اور حیاسوز حرکتوں پر وہ نجانے کیاکیاکچھ کہتے رہے جو نہ ہمارے پلے پڑا اور نہ ہمیں یاد ہے ۔لیکن اکبر الہ آبادی کا مندرجہ بالا شعر اس زمانے کے hit گانوں کی طرح ہماری زبان پر چڑھ گیا ۔کیونکہ چچا میاں نے پڑھا ہی اتنی مرتبہ تھا اور اس کے بعد خدا معلوم کیابات تھی جب حیا، شرم ، غیرت کی کوئی بات کہی جاتی تو یہ شعر کانوں میں گونجنے لگتا اور مسز اکرام اللہ کابیباک شرم و حیاسے عاری سراپا آنکھوں میں گھوم جاتا تھا۔
ہم جو حیاء کے نام اور پیغام کے ایسے مخاطب تھے جیسے ریکارڈ کے لئے سوئی کیونکہ بقول ہماری بڑی خالہ کے یہ چلتی پھرتی لڑکیاں میراسانس روکے رکھتی ہیں۔ اللہ ان کی حفاظت کرے۔ اچھے نصیب کرے اور عزت کے ساتھ اپنے گھر بار کی ہوجائیں ۔۔۔
اور ثروت آپا چڑ کر رہ جاتیں۔بڑی پھپھو مجھے سخت زہر لگتی ہیں۔ ان کابس نہیں چلتا کہ ہمیں چولہے کی جڑ میں گھسادیں، سچ کہتی ہو ثروت دنیاکہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے اور ہمارے گھرانے پر صدیوں پرانی روحوں کاراج ہے ۔
اف مجھے تو ا س برقعے سے اتنی چڑ ہے، میراتو دل چاہتا ہے دنیاسے کالا رنگ ہی مٹادوں۔ نزہت سب سے زیادہ گستاخ تھی۔ امی اکثر کہاکرتی تھیں کہ نجانے کس کا منکا توڑے گی۔ اور نزہت جھنجھلاکر رہ جاتی۔ زنجیروں میں باندھ کرڈال دیجئے آپ ہمیں۔ وہ امی کو ترکی بہ ترکی جواب دیتی۔ ہم کیازنجیروں میں باندھیں گے؟ جب کہ تمہاری زبان کو ہی لگام نہیں دے سکتے۔امی جب بڑی عاجزی سے کہتیں تو میں پانی پانی ہوجاتی۔ اپنے دوپٹے کودوہرا کرکے سر پر لپیٹ لیتی۔مگر نزہت کی بچی بڑی ڈھیٹ تھی۔ صرف ابو، چھوٹے چچا اور بزرگوں کے سامنے سرکوڈھکتی تھی اور وہ بھی بقول تائی اماں کے یہ تکلف کیوں کررہی ہو، اتار پھینکو اس نگوڑ مارے کو، دن بھر ویسے ہی یہ گلے میں جھولتا رہتا ہے ۔اور نزہت جھلس کررہ جاتی۔ میں تو خدا قسم شادی کے بعد اسکرٹ پہناکروں گی۔ رات کو جب ہم بستروں میں گھس کر لیٹتے تو سب سے زیادہ بے شرم اور باغیانہ نزہت کارویہ ہوتا۔ آپیا بھی اس کے جارحانہ رویے سے گھبرا جاتیں۔ نہیں بی بی بس برقعہ نہ پہننا ،ساڑھیاں پہناکرنا لیکن خدارا اسکرٹ نہ پہننا۔انہیں سن کر ہی خوف آتا اور نزہت ہنس پڑتی۔ چلیں مان لیتی ہوں آپ کا کہنا۔ یہی اگر پھپھو یا تائی اماں کہتیں تو میں ضرور ضد کرتی۔ ثروت آپا آپ کیاکریں گی شادی کے بعد؟ میں بڑی معصومیت سے پوچھتی۔اور ثروت آپا مسکر ادیتیں۔ سب سے پہلے تو بال کٹواؤں گی۔ ہائے اللہ اتنے خوبصورت بال اوراتنی لمبی چوٹی کٹوادیں گی؟ ۔سب حیرت سے پوچھتے ۔نفر ت ہے مجھے اس لمبی چوٹی سے جوہروقت میری کمر پر کوڑے کی طرح پڑی رہتی ہے ۔اماں کابس نہیں چلتا کہ دس دس میری چوٹیاں بنادیں۔ ذرا سے بال کھولو فوراً گوندھنے کاآرڈر مل جاتا ہے۔ تمہیں پتہ ہے جاوید کو کھلے بال کس قدر پسند ہیں ۔ثروت آپا کے عشق کی تو ہمیں سن گن تھی لیکن تفصیلات کاعلم نہیں تھا۔ہائے اللہ جاوید بھائی نے آپ کے کھلے ہوئے بال دیکھے ہیں راشدہ نے گھبرا کر پوچھا ۔ وہ ہنس پڑیں میرے بال کھلیں تو وہ غریب دیکھے۔ اماں کھولنے ہی نہیں دیتی ہیں۔ اسی وجہ سے تو کہہ رہی ہوں ۔ اور ہم سب ہنس پڑتے۔معصوم باتیں خطرناک عزائم اور لامتناہی خواب آنکھوں میں بسائے شرم و حیاء عزت وشرافت کے خزانے سینے میں چھپائے جب ہم سب اپنے اپنے گھروں کے ہوئے تو دنیااتنی حسین اور آرزوئیں اتنی خوابناک تھیں کہ کسی چیز کاہو ش ہی نہیں تھا۔ سچ ہے انسان کو مدہوش اور غافل کرنے میں جتنا حصہ ، جوانی اور تن آسانی کاہے اتنا کسی اور چیز کانہیں۔ لیکن جب شباب روبہ زوال ہوتا ہے تواکثر لوگوں کی عقل ٹھکانے آنے لگتی ہے۔ وہ مسئلے گتھیاں اور فلسفے خودبخود سلجھنے اور حل ہونے لگتے ہیں جو کچھ عرصہ پہلے بزرگوں کے سر پھوڑنے سے بھی ہماری سمجھ میں نہیں آتے تھے ۔اور کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا کہ گھڑی بھرکی ہی ساری زندگی ہے ۔دوپہر ڈھل رہی ہے، شام سر کوآلگی ہے اور رات بہت تاریک ہے ۔اپنے چاروں طرف جب میں نظر دوڑاتی ہوں تو سانس رکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے رنگ برنگے کپڑے اور گورے کالے چہرے ذہن کو کھینچ کر کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں۔ تنگ پتلونوں، کھلے گلوں اونچے ٹاپس میں جب مجھے اپنی جیسی کالی میمیںنظر آتی ہیں تو میرا ذہن بے اختیار ہرایک کے حلئیے کا جائزہ لیتے ہوئے ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہونے لگتا ہے ۔ہر ایک کے پیچھے مجھے ایک داستان نظر آتی ہے ۔آج جس حلئے میں یہ محترمہ ہیں چند سال پہلے تک یقینا ان کے بزرگ اس کاتصور بھی نہیں کرسکتے ہوں گے۔ نہیں نہیں ۔بیس پچیس سال پہلے تک ہمارے بزرگ کسی حد تک دین کاشعور رکھتے تھے چالیس پچاس سال پہلے تو حالت بہت بہتر تھی ۔انہوں نے اپنی اولادوں کو مقدوربھر یااپنی اپنی سوچ و فکر کی حدتک دین سے قریب کرنے اور دین پر قائم رکھنے کی بھرپور کوششیں کیں۔مگر یہ آج کے والدین یہ کیاکررہے ہیں یایہ کیاکریں گے؟ ہماری نانیاں دادیاں خالائیں پھوپھیاں اور بزرگ خواتین جو صبح سے شام تک ہمیں شرم و حیا کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے کوشاں رہاکرتی تھیں تب ہم ایسے نکلے ۔تب ہم نے وہ سب کچھ کرڈالا جس کاوہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے ۔تو ہم ماؤں کے بچے جو خود شرم و حیاء سے عاری، اسلامی تعلیمات سے ناآشنا اور دینی سوچ و فکر سے بہت دور ہیں وہ کس رنگ کے ہوں گے؟ کبھی مستقبل کاسہانا منظر میں تصور میں لانے کی کوشش کرتی ہوں تو خوفزدہ ہوکر آنکھیں کھول دیتی ہوں۔ ہائے ہماری بداعمالیاں نجانے دنیامیں ہی ہمیں کیارنگ دکھائیں گی؟ اف میرے اللہ اب تو جب میں اپنے بزرگوں کے متعلق بھی سوچتی ہوں تولگتا ہے کہ وہ غریب بھی ریت کی دیواریں اٹھارہے تھے حالانکہ اپنی محنت اور کوشش میں وہ مخلص تھے۔
لیکن ریت کی دیواریں کیسے کھڑی رہ سکتی ہیں؟ چنانچہ ہوا کے ذرا سے جھونکے سے وہ ڈھے گئیں۔ مگر ان کاکیابنے گا جنہوں نے کبھی دیواریں ہی نہ دیکھی ہوں، جو کھلے آسمان تلے رہنے کے اتنے عادی ہوگئے ہوں کہ چھت اور دیواروں کے تصور سے ان کادم گھٹتا ہو۔وہ کہاں جاکر ٹھہریں گے ؟
اطراف پر گہری نظر ڈال کر اور حقائق پر غور و فکر کرکے کاش کوئی مجھے یہ بتادے ، وہ کہاں جاکے ٹھہریں گے۔وہ کہاں جاکے سمجھیں گے ؟۔
عطرو گلاب کی مہک ، اگربتیوں کی خو ش بو ، رنگوں کی دھنک اور آواز کاسحر۔ ۔۔خواتین کے آراستہ وپیراستہ سراپے تکلف سے ڈھکے ہوئے سر اور درود و نعت کاسرور۔ ۔۔محفل میلاد شریف اپنے شباب پر تھی۔۔۔
شازیہ صاحبہ کو یہاں بھی حسب عادت دیر سے پہنچناتھا ''اللہ کی بندی!کم ازکم اللہ اور رسول ﷺکی محفل کاخیال کرکے تو وقت پر آجاتیں! ''۔ہم نے شازیہ کو اپنے پاس جگہ دیتے ہوئے کہا۔ ''کتنی دیر ہوگئی ہے محفل میلاد شروع ہوئے؟لمبی روایتیں پڑھی جاچکی ہیں ؟'' اس نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ ۔۔تم اپنی بدتمیزی سے باز نہیں آؤگی۔ سال میں ایک مرتبہ بھی ڈھنگ سے بیٹھ کر میلاد نہیں سن سکتیں۔ کچھ تو خدا کاخوف کرو۔ دیکھو راشدہ مجھے اس وقت کوئی سرمن(sermon) نہ دینا۔خدا کی قسم بہت سارے clients چھوڑ کر آئی ہوں صرف برکت کی خاطر۔مجھے ایک طرف دھکیل کر اور خود پھیل کر بیٹھتے ہوئے اس نے کہا۔
مدینے کی گلیوں میں کھوجاؤں یامصطفیٰ کہتے کہتے۔ شیریں اسم بامسمی تھی۔شکل کے ساتھ ساتھ آواز بھی اللہ نے بڑی پیاری عطا کی تھی۔اس پر ذوقِ آرائش و زیبائش۔ بس کچھ نہ پوچھیئے۔پھر جب عشق رسول میں ڈوب کر نغمہ سرا ہوتی ہیں تو لوگوں کے دل بے قابو ہوجاتے ہیں۔ اس وقت یہی عالم تھا۔محفل شباب پرتھی۔ بڑی نفاست سے سروں پرسجے ہوئے دوپٹے ڈھلک جارہے تھے۔ اشک ِ بیقرار میک اپ کی بربادی کے خوف سے پلکوں کے اندر ہی اندر مچل رہے تھے۔ محفل کاسوز و گداز دشمنِ ہوش و حواس بناہواتھا۔مگر اس بے خودی میں بھی خواتین کی آنکھیں نظارہ حسن میں محوتھیں۔ہم بھی اپنی محفوظ جگہ سے سب کی حرکات وسکنات کو اپنے ذہن نشین کرہی رہے تھے کہ کسی نے پیچھے سے ٹھوکادیا۔راشدہ کیامصطفی (ﷺ) کے برتھ ڈے پر گانے کاپروگرام ہوتا ہے ؟آمنہ ہماری نومسلم دوست نے بڑی رازداری سے ہم سے پوچھا اور ہم سٹپٹاگئے۔ ۔۔ہاں !خوشی کے موقع پر ناچ گانا ہی تو ہوتا ہے۔ اورمسلمانوں کے لئے اپنے (p.b.u.h.)Prophetکے برتھ ڈے سے بڑھ کر اور کون سا خوشی کاموقع ہوسکتا ہے ویسے ہم ناچتے تو نہیں بس گالیتے ہیں۔ اب دیکھو کتنی خوبصورت پوئٹری پڑھی جارہی ہے ، تمہیں سمجھ میں تو نہیں آرہی ہوگی لیکن آوازکوسنو کس قدر پرتاثیر ہے اگر تھوڑا ساغور کروگی تو یقینا تم پر بھی اس کااثر ہوگا۔یہ سن کر آمنہ کے چہرے پر اداسی پھیل گئی۔
رابعہ آپا روایت پڑھ رہی تھیں کہ جب محمدصلی اللہ علیہ وسلم پیداہوئے توقیصر کاتخت الٹ گیا ، کسری کے کنگورے گرگئے ، اس سال جتنی حاملہ عورتیں تھیں سب کے ہاں لڑکے پیداہوئے۔ بی بی آمنہ نے زمین سے لیکر آسمان تک روشنی ہی روشنی دیکھی۔ہزاروں فرشتوں نے سلامی دی وغیرہ وغیرہ۔ہم پرتورعب اور رقت طاری ہونے لگی۔سوچا آمنہ غریب کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہوگا کیوں نہ اسے بھی تھوڑا سا بتادوں۔مگر کمال ہے صاحب!اتنے بڑے بڑے معجزوں کاذکر سن کر تو وہ اور بھی غمگین ہوگئی۔ سلام پڑھنے کاوقت آگیاتھا چنانچہ ہم تو کھڑے ہوگئے اور وہ ایک محفوظ کونے میں جاکربیٹھ گئی۔
ہم اپنے دل کاکیابتائیں؟ سارا مذہب اسلام ایک طرف اور میلاد شریف میں ''یانبی سلام علیک '' ایک طرف۔اگر یہ کہیں تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ ہم نے دنیامیں آنکھ کھولی تو یانبی سلام علیک سنا اور ہوش سنبھالا تو اسی آواز کوسارا دین سمجھا۔اسی لئے ساری زندگی بے شک نمازیں نہیں پڑھ سکے ، روزے بھی برابر نہیں رکھ سکے، اور حج پر جانے کی توابھی عمر ہی نہیں لیکن سال میں ایک مرتبہ اپنے گھر پر میلاد ضرور کرایا ہے اور میلاد کابلاوا خواہ کہیں سے آئے اس میں شریک ضرور ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم کیف و سرور میں مدہوش جھوم جھوم کر سلام پڑھ رہے تھے۔ چوں کہ درود سلام ہمیشہ کورس کے انداز میں پڑھا جاتا ہے اسی لئے میلاد کی تقریب کے صرف اسی حصہ میں ہماری شمولیت ہوجاتی تھی۔(ہماری آواز کے بھونڈے پن کو نعت برداشت ہی نہیں کرسکتی تھی جو کہ ہمیشہ سنگل یا ڈویٹ میں پڑھی جاتی ہے)۔ خیر جی سلام کے کیف کے بعد منظوم دعا کے سرور سے نکل کر جب ہم نے اپنے حلیئے کاجائزہ لینے کے آئینہ نکالاتو سبھی کو اپنی تقلید میں پایا۔کہیں لپ اسٹک تازہ کی جارہی تھی ، کہیں بالوں میں برش ہورہاتھا ،کہیں دوپٹے سمٹ رہے تھے اور کہیں آنکھوں کونکھارا جارہا تھا۔پھر گلے ملنے کے ساتھ ساتھ اتنی دیر تک خاموش بیٹھنے کی اذیت کاشکوہ بھی زبان پر تھا۔ہم ابھی روح کے حصار سے نکل کر پیٹ کے مقام تک پہنچنے نہ پائے تھے کہ مسز عثمان سے ٹکرا گئے۔ اوگاڈ !یہ کہاں سے ٹپک پڑیں !ہم نے زیر لب کہا۔ان کے اعلی اخلاق اور گرم جوشی سے ہمارا ایمان لرز اٹھتا ہے حسب عادت در س قرآن میں شرکت کی دعوت دینے لگیں گی۔ او رہم پر کٹی چڑیا کی طرح اڑنے کے لئے پھڑپھڑانے لگے کہ اللہ بھلا کرے آمنہ کا کہ آکر ان سے لپٹ گئیں۔ ایسے لگا جیسے کسی کو کھوئی ہوئی دولت مل گئی ہو۔وہ آمنہ جواتنی دیر سے افسردہ بلکہ سوگوار سی ہمارے پہلو میں منہ بنائے بیٹھی تھیں، مسز عثمان کو دیکھ کر کھل پڑیں۔۔۔یہ بات ہم سے برداشت نہ ہوسکی۔چنانچہ یہ دیکھنے کے لئے کہ آمنہ جیسی امیر اور نومسلم ہماری پڑوسن جو محض اپنے lunaticشوہر کی وجہ سے مسلمان ہوگئی ہے، وہ ان سیدھی سادی معمولی حیثیت کی خاتون سے کیوں اتنا متاثر ہے؟ میں نے ان سے کہاکہ آپ یہیں بیٹھیں ، میں ابھی چائے لے کر آپ کے پاس ہی آتی ہوں۔۔۔اور جب میں چائے لے کر راستے میں اپنی دوچار دوستوں سے نمٹ کر وہاں پہنچی تو یوں لگا جیسے وہ دونوں دنیاو مافیہا سے بے خبر اپنی باتوں میں کھوئی ہوئی ہیں۔ آمنہ کی آنکھیں بھری ہوئی تھیں۔اور مسز عثمان کے چہرے پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔مجھ سے ضبط نہ ہوسکا۔ ۔خیرتو ہے کیاہوا۔۔۔کچھ نہیں بس آمنہ ذرا اپ سیٹ ہیں مسز عثمان نے آہستگی سے کہا۔کس بات پر آمنہ؟میں نے آمنہ سے پوچھا۔آج کے پروگرام سے راشدہ!۔اس نے مجھے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔آج کے پروگرام سے؟کیوں ایسی کیابات تھی اس میں؟میں نے حیران ہوکر اس کی طرف دیکھا۔ تمہیں کوئی بات عجیب نہیں لگی۔ ؟نہیں تو میں نے حیرت سے جواب دیا۔۔۔راشدہ میں نے قرآن کئی بار پڑھا ہے، پرافٹ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حیات طیبہ کے بارے میں پڑھا ہے۔ اسلام کی تاریخ پڑھی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین کی سوانح پڑھی ہے ، لیکن اس طرح کی باتیں وہ لوگ تو نہیں کرتے تھے۔حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہی لوگ تھے۔۔۔اس نے بڑی نرمی سے مجھے سمجھایا۔۔۔ممکن ہے وہ کسی اور طرح سے محبت کرتے ہوں گے۔ ہم تو ہمیشہ اسی طرح کرتے آئے ہیں۔ ویسے میرے خیال میں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ہرایک کااپنا اپنا انداز ہوتا ہے۔ اپنی دانست میں ، میں نے بڑی فلسفیانہ بات کہی۔مگر مجھے بڑاغصہ آنے لگا کہ ایک تو وہابن مسز عثمان اور دوسری یہ نومسلم آمنہ ، جنہیں اسلام میں داخل ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے کہ اپنے آپ کو اسلام کااسکالر سمجھنے لگیں۔۔۔جب ہی تو ہم کہتے ہیں کہ آپ لوگ قرآن پڑھاکریں تاکہ آپ کو نبی اکرم سے محبت کرنے کاصحیح طریقہ معلوم ہو۔۔مسز عثمان بولیں۔ ایسی بات نہیں ہے کہ قرآن کیاکہتا ہے ہم نہیں جانتے۔ بہترے قرآن ہم نے بھی ختم کئے ہیں اور کرائے ہیں پھر ہم کوئی دودن کے مسلمان نہیں ہیں ، پُشتوں کے مسلمان ہیں۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی کچھ اپنے بزرگوں کوکرتے دیکھا ہے۔ ہمارے نزدیک تو یہی دین ہے اور یہی اسلام۔ مجھے سخت غصہ آگیاتھا لیکن میں نے بڑے ضبط سے کام لیتے ہوئے جواب دیا۔اور وہ دونوں ایک دوسرے کامنہ تکنے لگیں۔
حد ہوتی ہے ناسمجھی کی بھی۔ایک تو اپنے دین و مذہب کاانہیں کچھ شعور نہیں ہوتا دوسرے اسلام کے اندر سے نئی نئی باتیں نکال کر لے آتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مذہب پر عمل کرنے میں پیسہ خرچ ہوتا ہے جیسے نیاز، نذر، چڑھاوے، میلااد اور قرآن خوانی سب کے لئے پیسہ چاہیئے اور اسی سے بچنے کے لئے یہ وہابی ہرچیز کو حرام قرار دیتے ہیں۔ سوائے اس کے کہ نماز پڑھ لو، قرآن پڑھ لو،اور دوسروں پر ڈائپر باندھ لو۔۔۔غصے سے میرا خون کھول رہاتھا۔ جوباتیں ذہن سوچ رہاتھا زبان ان کو اگلنے کے لئے بے چین تھی۔مگر عقل کہتی تھی کیافائدہ لوگوں سے دشمنی مول کرو۔ویسے بھی آمنہ کامیاں میرے بچوں کاڈاکٹر ہے بڑے اچھے پڑوسی ہیں۔ اور یہ آمنہ تو بڑی اسمارٹ اور سمجھ دار ہوا کرتی تھی۔نہ جانے اس کی مَت کیوں ماری گئی ہے کہ مسلمان ہوئی سوہوئی ، وہابن بھی بن گئی۔ ۔۔سوچوں کاسلسلہ دراز ہوتا ہی جارہا تھا کہ غزالہ کی آواز کانوں سے ٹکرائی''ارے تم تو یہاں ایسے جم کر بیٹھ گئی ہو جیسے مسز عثمان سے سارا قرآن شریف سن کر ہی گھر جاؤگی۔ ۔۔ہاں بھئی اب گھر چلنا چاہیئے۔بڑی اچھی آپ لوگوں سے گفتگو رہی۔ اب اجازت دیں میں نے دونوں سے کہااوراٹھ کرکھڑی ہوگئی۔
اپنے دل ودماغ کے شعلوں کو بڑی مشکل سے قابو میں رکھتے ہوئے جب میں ہال سے گزر کر گاڑی میں بیٹھی تو ایکدم پھٹ پڑی۔غزالہ حیران تھی۔۔۔ارے تم کیوں اپنا دل جلاتی ہو۔مجھے تو خود ان بے چاریوں پر اتنا ترس آتا ہے کہ اپنی اتنی شاندار لائف چھوڑ کر یہ کس مشکل میں پھنس گئی ہے۔۔۔نہیں غزالہ افسوس اس بات کاہوتا ہے کہ مسلمان بھی توصحیح طریقے کی نہیں بنتی ہیں۔ بس دوچار اسلام کی باتیں قرآن میں پڑھ کرانہیں معلوم ہوجاتی ہیں۔ ورنہ ہمارے کلچر کاتو انہیں کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا۔ویسے سچ پوچھو تو مجھے ان نومسلم عورتوں سے چڑ سی ہوگئی ہے۔ کتنا عجیب اپنا حلیہ بنالیتی ہیں اور سر کے تو ایسے پیچھے پڑجاتی ہیں کہ جیسے سارا اسلام کھوپڑی میں ہی توانڈیل دیں گی۔ ۔۔اس پر غزالہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئی۔ ۔۔اے اللہ کی بندی اس میں اس غریب کاکیاقصور۔۔۔وہ تو وہی کرے گی جوقرآن پڑھ کر اور زمانے کی بھی کتابیں پڑھ کر اس کی سمجھ میں آتا ہے۔ ۔اب اس بیچاری کو ہماری طرح کااسلام ماحول اور کلچر تو ملاہی نہیں۔ ۔۔اچھا بھئی مٹی ڈالو اس پر۔ یہ بتاؤ اگلے ہفتے میوزک پارٹی پر آرہی ہونا؟انڈیا سے زبردست کلاکار آرہے ہیں۔ غزالہ نے پوچھا۔۔۔ہاں بھئی انشاء اللہ ضرور آئیں گے۔ تمہیں تو پتہ ہے کہ میرے میاں میوزک کے کتنے دیوانے ہیں۔ ۔۔لیکن تم بھولنا نہیں ، اس سے اگلے ہفتے سترہ تاریخ کومیرے گھرمیلاد ہے !۔
''ہائے اللہ یاسمین !کتنا اہتمام کرڈالا ہے تو نے !کوئی چیز ہے جو نہیں بنائی ہے۔ '' ہاں رخو!تمہیں تو پتہ ہے کہ میں دعوتوں پربڑااہتمام کرتی ہوں۔ پھر رمضان توسال کے بعد آتا ہے۔ مگر تم نے اتنے سارے لوگوں کوکیوں بلالیا؟رخسانہ حیران تھی کہ یاسمین کے قریبی دوست و احباب ہی نہیں معمولی جان پہچان کے لوگ بھی محفل میں موجود تھے۔بس یہ سوچا کہ آخر سب کے گھر جاکرکھاتی بھی توہوں۔ اب کیوں نہ ایک ساتھ ہی سب کونمٹادوں۔ واقعی بڑی ہمت والی ہو۔لیکن روزہ رکھ کر اتنا کام کیسے کرلیا؟راشد بھائی نے ضرور مدد کی ہوگی توبہ کروراشد کیامددکریں گے۔ انھیں اپنے ٹی وی اور نیوز سے فرصت نہیں اور روزہ تو میں رکھ نہیں سکتی۔اس کی وجہ سے سارا زور افطار پارٹی پر لگادیتی ہوں کہ روزے کانہ سہی ، افطار کرانے کاثواب تومل جائے۔
_____________________
فرخندہ تمہیں تومعلوم ہی ہے کہ میں نمودو نمائش کی قائل نہیں ہوں اور سادگی پسند کرتی ہوں اسلئے بغیر کوئی ہنگامہ کئے میں نے ڈمپل کو اور ککو کو آج پہلاروزہ رکھوادیا ہے۔ وہ روز ہی ضد کررہے تھے کہ سنڈے سکول میں آنے والے دوسرے بچے روزہ رکھ سکتے ہیں تووہ کیوں نہیں رکھ سکتے۔ راشد البتہ ناراض ہورہے تھے کہ گرمی بہت ہے۔ کہیں بچوں کو ڈی ہائی ڈریشن نہ ہوجائے۔ مگر میں نے کہا کوئی بات نہیں۔ اسی طرح تو عادت پڑتی ہے۔ ویسے بھی آج چھٹی ہے۔ میں نے کمرے میں ایئر کنڈیشنر چلاکر ان کے لئے ایک فلم لگادی ہے۔ اس طرح ان کادل بھی بہلارہے گا۔ پھر فلم دیکھتے دیکھتے سوبھی جائیں گے اور جب اٹھیں گے توروزہ کھولنے کاوقت آجائے گا۔
_____________________
شدو یقین کرومجھے اس عورت کی شکل سے چڑ ہے۔ بات کرتی ہے تویوں لگتا ہے جیسے اسلام صرف اسی کو معلوم ہے اور باقی سب جاہل ہیں۔ کل تک تو نذر ،نیاز ، پھول ، فاتحہ چڑھاوے، اور چہلم کی رسم کو ہی بدعت کہاکرتی تھی اور آج فرمارہی تھیں کہ رمضان کے مہینے کاایک ایک لمحہ قیمتی ہے اس میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرکے اللہ کاقرب حاصل کریں اور اگلے گیارہ مہینوں کے لئے نیکیوں کاذخیرہ جمع کرلیں۔ توبہ!کیسی مشکل باتیں کرتی ہیں مجھے تو اس کی اردو ہی سمجھ میں نہیں آتی۔شاہد نے بڑی بیزاری سے کہا۔''ابھی اور سنو۔کہہ رہی تھیں کہ افطار پارٹیوں میں وقت ضائع نہ کریں۔بیشک روزہ افطار کراناثواب ہے مگر اس طرح نہیں جیسے ہم نے طریقہ بنالیا ہے''۔ سیما نے استہزائیہ انداز میں کہا۔اف فوہ !توگویا اب ہم اپنے پروگرام بھی ان علامہ سے پوچھ کرکیاکریں۔ کیسے کیسے جاہل لوگ دل کوجلانے آجاتے ہیں۔ شاہد نے منہ بناکر کچھ اس طرح کہاکہ ساتھ بیٹھی ہوئی ساری عورتیں کھلکھلا کرہنس پڑیں۔
_____________________
ہاں بھئی نینوسناؤ کہ کیاپروگرام ہے اس مرتبہ اوپن ہاؤ س کا۔اس شہر میں تو ہرسال بے شمار نئے لوگ آجاتے ہیں۔ جمعہ کی نماز میں اتنے نئے نئے چہرے نظر آتے ہیں کہ میں تو اب لوگوں سے ملتے ہوئے بھی گھبراتاہوں۔ سچ کہتے ہو روفی!میرا بھی حال یہی ہے جدھر جاؤ رنگ برنگ کے چغد نظر آتے ہیں۔ ویسے بھی ہمارے پاس اتنا وقت کہاں ہے کہ ہرقسم کے لوگوں سے ملتے پھریں۔ وہ دن گئے جب ہم اپنا امیج بنانے کے لئے ہرقسم کے لوگوں سے ملنا جلنا گوارا کر لیتے تھے۔ توپھر کیاارادہ ہے۔ اس دفعہ پروگرام کینسل کردیں ؟۔نہیں روفی میں سوچ رہی ہوں کہ اس بار اوپن ہاؤس کی بجائے چاند رات کو ایک فارمل ڈنر رکھیں جس میں شہر کے خاص خاص لوگوں کو ہی بلائیں۔ اب ہمارے بچے بڑے ہورہے ہیں تو ہمارا اپنے مرتبے کے لوگوں سے میل ملاپ بڑھانا ضروری ہے۔ پھر چاند رات کوڈنر رکھنے سے افطار کابھی ثواب مل جائے گا اور عید کامزہ بھی آجائے گا۔کہوکیساخیال ہے ؟۔نینا نے مسکرا کررؤف سے داد طلب کی۔ واہ ڈارلنگ کیابات ہے !جواب نہیں تمہارا تم جتنی عقل مند دوچار اور بیدار ہوجائیں تو ہماری قوم بام عروج پر پہنچ جائے۔
_____________________
عطیہ!کل نماز پر کتنے بجے جاؤگی تم ؟۔نہیں بھئی عورتوں پر کب عید کی نماز فرض ہے۔ میں توصاف بات کہتی ہوں ان لوگوں کی نہیں جو عیدگاہ محض اپنی نمائش کے لئے جاتے ہیں اور بہانہ ہوتا ہے نماز کا۔ میں وہاں صرف لوگوں سے ملنے اور ان پر اپنے کپڑوں کارعب ڈالنے کے لئے جاتی ہوں اب دیکھو سال میں ایک دو موقعے ہی آتے ہیں جب ہم اپنے دشمنوں کوجلاسکتے ہیں۔ ہائے تم یقین نہیں کروگی کہ میں عید کے دن اسلامک سینٹر میں کتنا انجوائے کرتی ہوں۔ دشمنوں کے جلتے ہوئے اور سڑے ہوئے چہرے دیکھ کر تو بس میری ''عید'' ہوجاتی ہے۔
''سچ نجمہ!میں نے تم جیسی بدذوق عورت نہیں دیکھی۔لوگ پیسے خرچ کرکے میلے ، نمائشوں میں جاتے ہیں اور ایک تم ہوکہ مفت کاتماشہ دیکھنے سے بھی انکار کررہی ہو۔ذرا چل کر دیکھو تو سہی کہ عید کی بہار یہاں کیسی ہوتی ہے۔اب تو تمہاری بیٹیاں بڑی ہورہی ہیں۔ تمہیں چاہیئے کہ انہیں خوب بناسنوار کرایسی محفلوں میں لے جایاکرو۔میری کئی سہیلیوں نے اسی طرح عید کے اجتماعات پر اپنے بھائیوں اور بیٹوں کے لئے لڑکیاں پسند کی ہیں۔ مگر بھائی جان !یہ کتنا غلط طریقہ ہے جسے ہم بڑی دیدہ دلیری سے اپنا رہے ہیں۔ آپ بتائیے کہ مسجدیں اللہ کاگھر ہوتی ہیں یاتفریح گاہیں ؟اور ایک مہینے کے متواتر روزے کیاہماری یہی تربیت کرتے ہیں کہ عید کے دن ہم بن سنور کر نماز کے لئے جائیں اور غیر مردوں کو اپنی آرائش و زیبائش دکھائیں۔ یہ مقابلہ حسن یامقابلہ لباس کا اہتمام بھی کہاں۔اللہ کے گھر میں؟۔ جہاں عورتوں کوجانے کی اجازت صرف اس لئے دی گئی ہے کہ وہ اللہ کے گھر کی زیارت کریں اور وہاں انسان پرجو محبت ِ الٰہی اور خشیت ِ الٰہی کی کیفیت طاری ہوتی ہے اس لئے وہ اس سے محروم نہ رہ جائیں۔ ورنہ انکی نماز ان کے گھروں میں اور گھروں کے بھی اندرونی کمروں میں ان کے لئے زیادہ بہتر ہے۔ جذبات کی شدت سے نجمہ کی آواز بھراگئی۔ بس بس رہنے دو بھئی ہروقت یہ وعظ اور نصیحت اچھے نہیں لگتے۔انسان کو حقیقت پسند ہوناچاہیئے۔اب اسلام اتنا سخت بھی نہیں ہے جیسا کہ لوگوں نے اسے بنادیا ہے۔ ہمیں تو بھئی اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ کلثوم بہن اپنی دیورانی کی شخصیت پر حیران تھیں جو امریکہ سے عید کرنے کے لئے اس کے پاس چلی آئی تھیں۔
اُف خدایا!حد کردی ہے ان پاکستانیوں نے بھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک ایسی حرکت کرتے ہیں کہ بس انسان سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ ہماری قوم کو کیاہوگیاہے۔ نماز کے بعد گلے ملتے ہوئے ریحانہ نے رضیہ سے کہا۔ خیرتو ہے کیاہوا؟کیوں تمہیں پتہ نہیں؟تمہاری اسماء کو نہیں بلایاتھا سبرینا نے؟۔نہیں اسماء کو تو کسی نے نہیں بلایا تھا۔ اچھا ہی ہوا جو نہیں بلایا۔ویسے بھی لوگ تمہیں ذرا دقیانوسی خیال کرتے ہیں۔ اسی لئے تمہاری بیٹی کو بھی نہیں بلاتے ورنہ تمہیں تو پتہ ہے کہ ہماری کمیونٹی کی نوعمر لڑکیوں نے تفریح کے کیاکیاسامان نکالے ہیں۔ ہاں اللہ رحم کرے۔ اب کیانئی بات ہوئی۔کچھ بتاؤ تو سہی۔رضیہ کی تشویش بڑھی۔ رات مسز شیخ کے گھر بہت بڑی پارٹی تھی۔ مہندی پارٹی۔ مسز شیخ نے تو یہ کہاتھا کہ اس طرح ہماری لڑکیاں اپنے کلچر سے واقف ہوں گی۔ سب مل کر رات کومہندی لگائیں گی اور چوڑیاں پہنیں گی۔ چنانچہ میں نے عنبرین کوبھیج دیا۔ مگر توبہ استغفار۔ وہاں تو ایک ہڑبونگ اور بے ہودگی مچی تھی۔عنبرین بتاتی ہے کہ امی لگتا تھا جیسے میں کوئی انڈین مووی دیکھ رہی ہوں۔ لڑکیاں نہ صرف اپنی ماؤں بلکہ باپوں کے سامنے بھی ناچ رہی تھیں۔ اور والدین تالیاں بجابجاکر انہیں داد دے رہے تھے۔اور خوش ہورہے تھے کہ ہمارے بچوں میں انڈین فلموں کے ذریعے اپنی زبان ، روایات کلچر اور طور طریقوں سے واقفیت پیدا ہورہی ہے۔رات بھر یہی ہنگامہ جاری رہا۔اب پھر بقر عید پر مہندی پارٹی مسز خان کے گھرہوگی۔کیونکہ سب لوگوں کو یہ تقریب بہت پسند آئی ہے۔اور دیکھو یہ سب جو انڈین فلموں کی ہیروئنیں نظر آرہی ہیں رات وہیں سے مہندی لگا کرآئی ہیں۔ ریحانہ نے رنگوں اور خوشبوؤں میں بسی ہوئی چمکتی دمکتی خواتین کی طرف اشارہ کیا۔اور رضیہ ایک گہرا سانس لے کر رہ گئی۔ یااللہ یہ کیاماجرا ہے۔ مشرق اور مغرب کی بے ہودگیاں سمیٹنے کو ایک ہم ہی رہ گئے ہیں ؟ابھی تو برتھ ڈے پارٹی، کرسمس پارٹی، نیوایئر پارٹی ، پال پارٹی،بیچ پارٹی اور میوزک پارٹی کے ''اہتمام'' ہی پوری طرح ختم نہ کرپائے تھے کہ چاند رات مہندی پارٹی کاسلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ الٰہی خیرہو۔!
اچھی بھلی سبک رفتاری سے گزرتی ہوئی زندگی کی راہ میں جب کوئی پتھر آجاتا ہے تو جھنجھلا کررہ جاتے ہیں۔ پتھر کوراہ سے ہٹادیناچاہیئے یا اس پر سے کود جانا چاہیئے یاچلو یہیں ٹھہر جاتے ہیں ، فیصلہ کرنادشوار ہوجاتا ہے۔ اور وہیں سے خلفشار اور الجھنوں کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کبھی ہمت بندھتی ہے تولگتا ہے کہ راہ کے سارے پتھر سارے صاف ہوجائیں گے اورکبھی دل ٹوٹتا ہے تو کنکریاں بھی سنگ گراں نظر آنے لگتی ہیں۔ لیکن اب جن مسائل سے زندگی دوچار ہے تو لگتا ہے کہ مرکے بھی چین نہ پایاتو کدھر جائیں گے۔اور حقیقت یہ ہے کہ جن حالات و واقعات او راعمال کے ساتھ ہم زندگی گزار رہے ہیں ان کی بناء پر مرنے کے بعد چین پانا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے الّا یہ کہ پروردگار بہت غفور ورحیم ہے۔ آج کل میں آنے والے عظیم طوفان کی ہلکی ہلکی اٹھنے والی موجوں سے نبرد آزما ہوں۔ہربڑھتی ہوئی موج میرے خوف کو چمکادیتی ہے اور میرا ذہن خیالات کی زد میں آکر کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔
کل تقریباً بیس تیس سال کاعرصہ ہے لیکن زمین او رآسمان کے کنارے ملتے نظر آتے ہیں وقت کی رفتار اتنی تیز ہوگئی۔ دجال کے فتنے یوں آگ کی طرح پھیل جائیں گے، آفات یوں دنیا کوسمیٹ لیں گی اور انسان ایسا غافل اور مدہوش ہوجائے گا، یقین نہیں آتا۔ مگر جب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھتی ہوں تو یقین کرناپڑتا ہے۔ بالکل کل کی بات لگتی ہے جب چھوٹے چچا انجینرنگ کی اعلی تعلیم کے لئے جرمنی گئے تھے۔اس وقت ہمارے ننھے ننھے ذہن مرعوبیت فخر اور غرور سے کس کس کیفیت سے نہ گزرے تھے!ہم سب بہن بھائی اپنے دوستوں پر رعب ڈالتے تھے کہ ہمارے چچا اعلی تعلیم کے لئے جرمنی گئے ہیں۔ جرمنی کا تصور کسی طلسماتی تصور سے کم نہ تھا۔کیونکہ اس سے پہلے کشور آپا شادی شدہ ہوکر انگلینڈ گئی تھیںتو برسوں تک سارے خاندان میں ان کی خوش نصیبی کاچرچا رہاتھا۔پھر چھوٹے چچا کے خطوط۔لفظ لینڈ لیڈی پر توسر جھک جاتا تھا اوپر سے لینڈ لیڈی کی کرم فرمائیاں !ہم کالوں کوگورے منہ لگائیں! عزت و شرف سے نوازیں!۔ احساسِ تفاخر سے سینے پھول جاتے تھے۔خوبی قسمت، چچا نے لینڈ لیڈی کے ساتھ اپنی ایک تصویر بھی بھیج دی تھی۔ جس میں ان کی ادھیڑ عمر لینڈ لیڈی ان کے گلے میں شفقت سے بانہیں ڈالے کھڑی تھی۔آج بھی اگر میں سوچتی ہوں تو اس جذبے کی لذت محسوس کر لیتی ہوں جو اس تصویر کو دیکھ کر پیدا ہواتھاکیونکہ آج بھی وہی جذبہ تھوڑی بہت کمی اور زیادتی کے ساتھ ہمارے روحوں میں سمایا ہواہے۔اور پھر چچا کی واپسی، ان کی قابلیت اور عظمت کے ڈنکے دل پر نقش ہوگئے تھے۔ابھی ہم اس کیفیت وسرور میں مبتلا تھے کہ پتہ چلا کہ آقاؤں کے دروازے کشادگی سے غلاموں پرکھلنے لگے ہیں۔ اورپھر پلک جھپکتے ہی ایک کے بعد دوسرا رخصت ہونے لگا اور رخصت ہی نہیں ہونے لگا بلکہ جہاں گیاتھا وہیں کاہورہا۔
کچھ عرصہ بعد یوں ہوا کہ سکھیوں سہیلیوں کی شادیاں اگر لندن سے آئے ہوئے لڑکوں سے ہوتیں توزیادہ رعب نہیں پڑتاتھا کیونکہ امریکہ کاخمار ہی کچھ اور تھا۔کینیڈا ابھی تصور میں جگمگارہاتھا اور پھر ایسا ریلا اٹھا لگتا تھا کہ خلقِ خدا کانعوذ باللہ قبلہ و کعبہ ہی امریکہ اور کینیڈا بن گئے۔ ان خوش قسمتوں یااب میں سوچتی ہوں بدقسمتوں میں ہم بھی شامل تھے۔ ہمارے شوہران پرستار ان مغرب میں سے ہیں جنہوں نے تعلیم کے دوران اس زمین سے اتنی عقیدت پیداکرلی تھی کہ وطن بھول کر بھی کبھی یاد نہ آیاتھا۔اوربقول ان کے ہماراوطن ہے کون سا؟مسلم ہیں ہم وطن ہیں سارا جہاں ہمارا۔نوعمری کادور تھا راحت و آسائش ایسی کہ وہ ساری نعمتیں جن کا اپنے غریب ملک میں کہہ لیں یاسادہ زندگی میں، کبھی تصور بھی نہیں کیاتھا ، موجود تھیں۔ نہ بزرگوں کاخوف نہ رشتے داروں اور پڑوسیوں کاپاس۔ نہ کسی کاحق، نہ کسی کاخیال، نہ کسی کی خدمت، نہ ذمے داری۔ ایسی بے لگام اور حسین زندگی خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی۔دن اور رات کاپتہ ہی نہ چلا۔ سچ ہے کہ برائیوں کو اپنانا بہت آسان ہے اور چھوڑنا بہت مشکل ہے۔ اور جہاں برائیاں خوبیاں بن کر رجھائیں وہاں ان سے بچنامحال ہوجاتا ہے۔ یہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا۔ ہرلمحہ رنگینی ہرقدم پر بہار تھی۔ گھر والدین اور عزیزوں کی یاد تھی لیکن اس کو بھلانے والی شراب زیادہ نشہ آور تھی جس میں ہم ڈوبتے چلے گئے۔ مگر اس وقت کی ستم ظریفی کاگلہ کس سے کیاجائے جو کبھی کاٹے نہیں کٹتا تھا مگر اب لگتا ہے ہواؤں پہ اڑا جاتا ہے۔ کل کے وہ ننھے منے بچے جن کے نوبہ نو کھلونوں اور تصویروں کی کتابوں اور آئے دن کے چونچلوں سے ابھی ہم فارغ بھی نہیں ہوئے تھے، وہی آج مجسم سامانِ حشر بنے ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔ ہم بہت نظریں پھیرتے ہیں، آنکھیں چراتے ہیں، چشم پوشی، تاویلات اور درگزر سے کام لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے ہرماں کی کسی نہ کسی رات کی نیند حرام ہوجاتی ہے جب اس کانوعمر بیٹا رات گئے سگریٹ پیتا ہوا گھر میں داخل ہوتا ہے یاجب کسی کی بیٹی بن سنور کر سکول جارہی ہوتی ہے۔ اور ماں کے بننے سنورنے ٹوکنے پر اس کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اگر میں ایسا نہیں کروں گی تو کوئی مجھ سے بات نہیں کرے گا، لوگ میرامذاق اڑائیں گے۔ ویسے ہی وہ ہمیں پاکی کہہ کر فرینڈ نہیں بناتے۔ اورماں وہ ساری نصیحتیں بھول جاتی ہے جو بیٹی کو کرنے جارہی تھی۔میک اپ میں لتے پتے چہرے اور زرق برق لباس نجانے کیوں اس وقت بجھ جاتے ہیں جب ہم لوگ اپنے بچوں کونارتھ امریکن بچوں سے مختلف نہیں دیکھتے ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ یہ وہی بچے ہیں جن کی ابھی دس بارہ سال پہلے ٹوٹی پھوٹی انگلش میں poemsسن کر فخر سے ہماری گردن اکڑ جایاکرتی تھی۔کہ دیکھو بالکل امریکن لہجہ ہے میری بیٹی کا۔بالکل امریکن لگتا ہے میرا بیٹا۔آج یہ کیاہوگیاہے جب اس ماحول میں جس میں ہم نے انہیں پوری طرح دھکیلا ہے یہ پوری طرح رنگ گئے ہیں تو ہمارے رنگ اڑ رہے ہیں۔ میں گھنٹوں چلتے پھرتے کام کرتے یہ سوچتی ہوں اور اپنی دوستوں سے بھی باتیں کرتی ہوں۔ کم یازیادہ ان کی سوچیں بھی مجھ سے مختلف نہیں ہیں لیکن کچھ کاخیال ہے کہ میں کچھ زیادہ ہی حساس ہوگئی ہوں یایہ کہیئے تھوڑا سادین کاشعور آگیا ہے جسے وہ کہتی ہیں تم ملاّنی بن گئی ہو۔ ان کامشورہ ہوتا ہے کہ دیکھو fanatic نہ بنو۔ کیوں زندگی کو عذاب میں ڈالتی ہو اب اتنا سوچوگی تو کیسے کام بنے گا؟ یہ بتاؤ کون سی جگہ ہے جہاں جاکر رہیں؟۔ پاکستان کاحال بدترین ہے۔ وہاں کیاکچھ نہیں ہورہا؟۔ہمارے بچے تو بہت اچھے ہیں۔ صاف بات کہہ دیتے ہیں وہاں بچے ڈرگز لیتے ہیں۔ ڈاکے ڈالتے ہیں۔ دن دھاڑے قتل و غارت گری ہورہی ہے۔ بھائی بھائی کومار رہا ہے۔ ایک آگ برس رہی ہے۔ وحشت و بربریت کاطوفان اٹھ رہا ہے۔ اوریہ تقریر ہمارے مہربان اس قدر جامعیت ، خلوص دل اور دردو سوز کے ساتھ کرتے ہیں کہ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاجاتا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یاتو میں حساس ہوگئی ہوں یامسلمان اندھے ہوگئے ہیں۔
تقریباً روزانہ اسکول سے آکر میری تیرہ سالہ بیٹی جسے خدا کے فضل وکرم سے اپنی شناخت ہے، جب اسکول کی باتیں بتاتی ہے تو آنسو ضبط کرنے مشکل ہوجاتے ہیں۔ جس مشکل اور تکلیف زدہ دور سے ہمارے بچے یہاں کے اسکولوں میں گزر رہے ہیں اسکی ذرا جھلک روزانہ میں اپنی بیٹی کی زبانی سنتی ہوں۔ وسیع منظر سوسائٹی اور وسیع منظر لوگ جس طرح نیک اور شریف بچوں کوٹارچر کرتے ہیں اس کا مجھے خوب اندازہ ہوگیا ہے۔ جتنی حیاسوز اور اخلاق کش تعلیم یہاں کے اسکولوں میں بچوں کو ملتی ہے ، وہ اگر کسی کو دیکھنی ہوتو یہاں کے اسکول میں آکر دیکھے(ہماری ذہنی پستی کو کیا کہئے؟ ان کو زہر آب حیات نظر آتا ہے )یہاں پر دل تو اچھا رہنا ہی محال ہے اور اگر کوئی بضد کوشش اچھا رہنا بھی چاہے تو بچے اس کی زندگی اجیرن کردیتے ہیں اور یہ Teenageبچے اس سوسائٹی کی عریاں تصویریں ہیں۔ والدین سے لیکر ٹیچرز تک سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ یہ کتنی دور نکل گئے ہیں اور ان کی اصلاح کیسے ہو؟۔یہ اس سوسائٹی کاخاص مزاج ہے کہ پہلے برائی پیداکرو پھر اس کے علاج تجویز کرو اورپھر لاعلاج کہہ کر مطمئن ہوجاؤ۔آج کل نوخیز نسل کی حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی بے راہ روی اس نسل کے اخلاق وکردار کی تباہی کی سچی تصویریں ہیں کیونکہ بڑے ہوکر تو اپنے چہروں پریہ لو گ کئی کئی چہرے سجالیتے ہیں جن پر ہم مرمٹتے ہیں۔ مگر گندگی سے اٹھنے والے خمیر سے پارسائی کی توقع ایک عقل کااندھا ہی کرسکتا ہے۔ اور ان اسکولوں میں اس کردار و اخلاق بے حیائی اور اقدار کش ماحول کو اس تعلیم کی خاطر برداشت کررہے ہیں جو تعلیم کیاہے راک اینڈ رول اور سیکس ایجوکیشن پر پروجیکٹ، اور مغربی شاعروں کی زندگی پر ریسرچ، ہٹلر کے مظالم پر آنسو بہانے اور صلیبی جنگوں پر مسلمانوں کی وحشت اور بربریت کے قصوں سے عبارت ہے۔ یہ تو چند ایک مثالیں ہیں جو کچے ذہنوں پر پیوست ہورہی ہیں ورنہ آرٹ اور فن کے نام پر وہ کیا کیاحاصل کررہے ہیں اس کاہم احاطہ بھی نہیں کرسکتے۔ لفظ ایجوکیشن کی خوبصورتی نے ہربرائی کوانگیز کرلیاہے۔ہر مسائل کاتذکرہ کرتے ہیں اور ہماری عائد کردہ قیود و پابندی سے اپنی فرسٹریشن (مایوسی)کااظہارکرتے ہیں تو ہم ایسے ایسے الفاظ اور تقریروں اور مثالوں سے ان کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جن سے ان کے دل میں اپنے والدین اور تصوراتی مذہب کی محبت چاہے کم نہ ہو لیکن بیزاری بڑھ جاتی ہے۔ ایک بچی جس کو اس کے والدین بالکل مقامی ماحول کے انداز میں پرورش کررہے تھے۔ گریڈ میں آکر جب اپنی دوستوں کی طرح اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ڈیٹ پر جانے لگی تو مسلمان والدین کی اسلامی غیرت ابل پڑی اور وہ ساری عقیدت اور محنت جو پیدائش سے لے کر اس وقت تک اسلام اور اپنی اقدار کے لئے سینے میں چھپی ہوئی تھی ظاہر ہونے لگی تو بچی بڑے تحمل سے بولی،تو آپ لوگ اب تک یہاں کیاکررہے تھے؟میں سمجھتی ہوں مجھے آپ لوگوں سے زیادہ اپنی ویلیوز اور اپنے ملک سے محبت ہے اس لئے میں وہ ضرور کروں گی جس کی اجازت میراقانون مجھے دیتا ہے۔ والدین منہ تکتے رہ گئے۔ ایک اور صاحبزادی اپنے نیگرو بوائے فرینڈ کو لے کرآگئیں کہ میں شادی کروں گی تو اس سے ورنہ میں جارہی ہوںکوئی مجھے روک نہیں سکتا۔والدہ صاحب صدمے سے وفات پاگئیں۔ وہ صاحبزادی جب بھی مجھے اپنے نیگرو شوہر کے ساتھ نظر آتی ہے میرے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ اپنی ماں کی قاتل ہے یااس کے والدین اس کے؟ کیونکہ کل ہی گفتگو کے دوران میں میرے برادر عزیز جن کی بیوی ہسپانوی ہے مجھے نصیحت کررہے تھے کہ میں اپنے بچوں کو اس ماحول میں ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کروں نہیں تو وہ بالکل outcast ہو جائیں گے۔ پھر بڑی خوبصورت مثالوں اور دلائل کے ذریعے سمجھا رہے تھے کہ وہ کس طرح اپنی بیٹیوں کو ''ٹرین'' کررہے ہیں۔ حال ہی میں جب ان کی دس سالہ بیٹی نے آکریہ بتایا اس کی دوست اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ڈیٹ پر گئی ہے تو میں نے اسے سمجھایا کہ ہم ایسٹرن لوگ ہیں ، ہمارے ہاں یہ باتیں نہیں ہوتی ہیں۔ تم مجھے بتاؤ کیاتم پسند کروگی کہ تم ڈیٹ پر جاؤ۔
وہ بولی!نہیں ابھی نہیں میں تو اٹھارہ سال کی عمر کے بعد ڈیٹنگ شروع کروں گی۔ میں ششدر رہ گئی۔ وہ اندیشہ جو بھائی کی غیر مسلم عورت سے شادی کے بعد ہمارے والدین کوکھائے جارہا تھا ، حقیقت بن کر میرے سامنے آگیاتھا۔میری والدہ مرحومہ کہاکرتی تھیں کہ بیٹے اُس وطن کے ماحول میں رہ کر تم اسے کیامسلمان بناؤگے ، اپنی نسل کو بھی عیسائی بنادوگے۔اس وقت میر ی سمجھ میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی لیکن اب میں ان کاچہرہ تک رہی تھی۔ بھائی جان کیاآپ گوارا کریں گے کہ آپ کی بیٹیاں یہاں کے لڑکوں کے ساتھ ڈیٹنگ کریں۔انہوں نے قہقہہ لگایا بھئی You cant have both the ways۔اب تم یہاں کے فائدہ بھی اٹھانا چاہتی ہو اور یہاں کے اس ماحول سے بھی بچنا چاہتی ہو جو تمہاری نظر میں براہے۔ مجھے تو ان باتوں میں کوئی برائی نظر نہیں آتی ، میں گنگ ہوکررہ گئی۔ یہ عقل اور فلسفے پر مبنی خوبصورت دلائل چاندی کے ورق میں لپٹی ہوئی زہر کی گولی کی طرح میرے حلق سے نہیں اترتے۔ اس قوم کی ترقی اور اس سوسائٹی کی چمک دمک اور سامان عیش نے تو ہمیں ایسامبہوت کرکے رکھ دیا ہے کہ زبانیں گنگ ہو گئی ہیں۔ راحتوں کے حصول کے سحرمیں میں ایسے ڈوب گئے ہیں کہ نکلنا محال نظر آتا ہے۔ مغرب کی مرعوبیت رگ و پے میں ایسی سماگئی ہے کہ اب قدم آگے ہی بڑھ رہے ہیں پیچھے پلٹنا دشوار ہوگیا ہے۔ ایک صاحب کے گھر ان کے والد کی تعزیت کے لئے ہم گئے تو دیکھاکہ وہ محفلِ میکشی میں مصروف ہے۔بتایاگیا کہ مرحوم کو پینے سے بہت شغف تھا اس کی یاد میں دور جام چل رہا ہے۔ ایک صاحب جو اپنی یونیورسٹی میں پڑھنے والی بیٹی کے رشتے کے لئے بے حد پریشان ہیں ان کی بیٹی کیمپس میں ہندولڑکے کے گلے میں بانہیں ڈالے بے فکری سے ٹہلتی ہے۔ والدین کو اس رومانس کی اطلاع ہے۔ ماں نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ بھی تو ایسٹرن ہے کینیڈین نہیں ہے۔اور ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک معصوم سی پاکستانی بچی کو جب شاپنگ سینٹر کی ایک بینچ پر ایک گورے لڑکے کے سینے پر سر رکھے میں نے دیکھا تو زمین نے میرے پیر پکڑ لئے۔وہ لڑکی ہزار کینیڈین ہونے کے باوجود شائد پیدائشی شرافت کی وجہ سے مجھے دیکھ کر جھجھک کرکھڑی ہوگئی۔ مجھے چلنا دشوار ہوگیا تھا ساری مسلمان بچیاں مجھے بے آبرو نظر آنے لگی تھیں۔مگر پھر میں سوچتی ہوں کہ آجکل آبرو ہے کہاں؟ اسے ہم کہاں ڈھونڈیں؟۔ پاکستانی تہذیب و ثقافت کے نام پر اگر کوئی پروگرام کیا بھی جاتا ہے تو وہ لوک گیتوں ، علاقائی ڈانس اور ڈریس شو پر مشتمل ہوتا ہے جس میں ماؤں کے ساتھ نوخیز بچیاں بھی اسٹیج پر تھرک رہی ہوتی ہیں۔ کبھی تہذیب ، ثقافت کی ، اقدار کی یامذہب کی باتیں ہوتی بھی ہیں تو اپنا ترقی پسند معاشرہ بہت جلد اکتا جاتا ہے۔ ایک محترمہ سے نماز کے سلسلے میں گفتگو ہونے لگی۔ بولیں ، کیاکروں نمازپڑھنی تو چاہیئے لیکن میں جاب کرتی ہوں اور اتنی مصروف ہوتی ہوں کہ دن میں نماز نہیں پڑھ سکتی اور رات کو اتنی تھک چکی ہوتی ہوں کہ ہمت نہیں پڑتی۔ ویسے بھی میں سوچتی ہوں کہ اللہ کو میری نماز کی کیاضرورت ہوگی۔میرے نماز پڑھنے سے اسے کیامل جائے گا؟۔
اب سوچئے ان دینی اور فکری معلومات اور خیالات کے والدین کے بچے جب یہاں کے ماحول میں پروان چڑھیں گے تو کتنے عرصے تک اپنے اسلامی ناموں کی بھی حفاظت کرسکیں گے کیونکہ دینی سمجھ اور شعور رکھنے والے والدین کے بچے بھی اس ماحول میں کسی نہ کسی حد تک رنگے ہوئے ہیں۔ ہم چاہے کتنی ہی پرفریب تاویلات کے غلاف چڑھاتے رہیں گندگی اپنااثر دکھارہی ہے اورزہر تیزی سے سرایت کررہا ہے۔
یہ ہیں وہ چند حقیقتیں ، وارداتیں ، حادثات، اور حالات جن میں ہماری صبح اور شام گزر رہی ہے۔اگر بے ہوشی غالب رہتی ہے تو کسی چیز کا احساس نہیں ہوتا لیکن ذرا سی آنکھ کھلتی ہے تودرد کی شدت سے بلک جاتے ہیں۔خدارا کوئی بتائے کہ یہ کس چیز کی قیمت ہم ادا کررہے ہیں؟۔ حقیقتوں سے فرار کے اس سکون کی جو نشے کی سی کیفیت کی طرح ہمیں حاصل ہے کہ خمار اترنے کے بعد معلوم ہوگا کہ کہاں تک برباد ہوگئے ہیں۔ یااینٹ پتھر لکڑی اور شیشے کے بتوں کی جو گھر، فرنیچر، ڈیکوریشن پیس کی شکل میں ہمارے پاس ہیں یا اپنے ملک میں بے خوف ، ضمیر فروشی اقدار پر قابض لوگوں کی وجہ سے جوہمارے ملک کو نفرت ، عداوت، اور تباہی میں دھکیل رہے ہیں جہاں اب سکون عزت اور جائز طریقے سے رہنا ناممکن ہوگیا ہے۔ یاپھر سب سے بڑھ کر اپنے ضمیر کی موت اور ایمان کی کمی کی کہ آج ہم نے ہرچیز کی قیمت مقررکردی ہے سوائے آخرت اورجنت کے۔ اُف کتنا بھیانک سودا ہے جو ہم کررہے ہیں۔ اپنے ہاتھوں اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی چلارہے ہیں۔ بڑے چاؤ اور محنت سے اپنے گرنے کے لئے گڑھے کھودرہے ہیں۔ بڑے ارمان اور فخر سے اپنے بچوں کودارالکفر میں آباد کررہے ہیں۔ اللہ کے ،اسلام کے دشمنوں کے مددگار بن رہے ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے کلمہ پڑھنے والے اللہ کاخوف دلانے والے حکمران اور والدین کس خوبصورتی سے نسلوں کو اسلام سے دور کررہے ہیں؟ کس شفقت اور محبت سے اپنی اولاد کو یہاں بسا رہے ہیں اور پھر مسلمانوں کی ذلت اور بے بسی کارونا رو رہے ہیں۔ مرنے جینے کی چند رسومات کی خاطر مسجدیں بناکردین کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ صبح اور شام اسلام کی خدمت میں مرے جارہے ہیں۔ اس پر بھی ہمارے آقاؤں کوچین نہیں آتا۔ ذرا سا اسلام کے بارے میں کوئی جاندار نظر آتا ہے تو فوراً ہی اس پر بنیاد پرست کاٹھپہ لگادیتے ہیں۔ کاش کوئی بتائے کہ ہے کوئی راستہ اس تباہی اور بربادی سے بچ نکلنے کا؟
درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
بازمی گوکہ دامن ترمکن ہشیار باش