بچوں کے مستقبل کی خاطر
بھئی اللہ جھوٹ نہ بلوائے۔ سناتھا جب شبیر ماموں نے پہلی مرتبہ بینک میں غبن کیاتھا تو وہ سلیم بھائی کو امریکہ بھیجنے کی خاطر کیاتھاکیونکہ سلیم بھائی کی بڑی خواہش تھی کہ وہ اعلی تعلیم کے لئے امریکہ جائیں گے۔ خاندان کا پہلا ہونہار سپوت جس کی قدوقامت سے پورا خاندان بننے والاتھا۔اور باپ کی حیثیت ایسی گئی گزری بھی نہ تھی کہ بیٹے کے سنہری سپنے یونہی بکھرجاتے......بینک کے مالک نہ سہی مینیجر تو تھے۔لہٰذا مار لیاایک ہاتھ...... ویسے بھی پاکستان بنتے ہی جہاں اخلاق وشرافت نے دم توڑنا شروع کردیاتھا وہاں لوگوں کے ہاتھ بھی لمبے ہوگئے تھے۔
پھر سنا کہ چھوٹی خالہ نے بھی دن رات یہی رٹ لگانی شروع کر دی کہ بچوں کامستقبل اچھا بنانا ہوتو ان کو خوب پڑھاؤ لکھاؤ۔ اچھے سے اچھے انگریزی اسکول میں بھیجو اور تعلیم کے نام پر کوئی کسر نہ چھوڑو۔چنانچہ انہوں نے خالو میاں سے تین تین نوکریاں کروائیں بیچاری نے خالو میاں کو ہی نہیں بلکہ خود کو بھی پاگل کرڈالاتھا ......ہائے !آج جب میں آصف بھائی ،عرفان اور نعمان کی اتنی بڑی پوزیشن اور ٹھاٹ باٹھ کودیکھتی ہوں تو چھوٹی خالہ کی لمبی لمبی دعائیں اور ہروقت بچوں کی کامیابی کے لئے وظیفہ نگاہوں میں گھوم جاتے ہیں۔ اللہ غریق رحمت کرے۔ بے چاری نے خود فصل کاکوئی پھل نہیں چکھا۔کبھی ان کے بچوں کے سامنے خالہ کاتذکرہ کروتو بڑی ناگواری سے کہتے ہیں کہ ''امی نے تو جینا عذاب کیاہوا تھا ...اس پڑھائی کے پیچھے...بات یہ ہے کہ ہمارے والدین کواولاد کی ٹریننگ کاسلیقہ نہیں تھا...پیچھے ہی پڑے رہتے تھے ...ہم تو اپنے بچوں سے کوئی کام زبردستی نہیں کراتے...''یہ تو اچھا ہوا کہ خالہ کی کوشش سے آ پ کامستقبل شاندار بن گیا۔میرادل جلنے لگتا۔کیاشاندار مستقبل ؟کبھی چین سے سانس بھی لینا نصیب نہ ہوا ان کی شکایتیں ختم نہ ہوئیں۔
اے ہائے ...چھری جان سے گئی میاں جی کوسواد ہی نہ آیا...اماں گہرا سانس لیتیں۔
میں تو اب ہر وقت قدسیہ کو چھوٹی کی مثالیں دیتی ہوں کہ بی بی اتنا بچوں کے پیچھے نہ پڑی رہو۔پڑھ ہی لیں گے۔ مگر وہ کہاں سننے والی ہیں؟۔ ان کا بس چلے تو بچوں کو سقراط بقراط گھول کر پلادیں...''۔
امی سقراط بقراط بنتے تو دیکھا تھا پیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ناہید ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئی۔ اے ہٹو تمہیںتو ہنسنے کے لئے کوئی بہانہ چاہیئے ہر وقت۔ اب دیکھئے امی قدسیہ آپا اپنے بچوں کامستقبل ہی تو بنانا چاہ رہی ہیں۔ یہ پڑھ لکھ کر تو اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں گے۔
ہاں جس طرح ان کے جیٹھ پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پر ایسے کھڑے ہوئے کہ سارے خاندان کوگرادیا۔بھائی جان قسم سے اتنا ترس آتا ہے قیصرہ خالہ پر مجھے کہ بیچاری نے دیکھا ہی کیا؟۔جوانی میں ہی بیوہ ہوگئیں۔اور پھر اپنی ساری خوشیاں اکبر اور ارشد پر قربان کردیں۔اور پھر اکبر نے کیاصلہ دیا...وہ ماں جس نے سلائی کرکے اس کے مستقبل کی تعمیر کی ،آج بڑھاپے میں وہ اسے یہاں چھوڑ کر خود ہزاروں میل دور جاکربس گیا...اگر اب ارشد بھائی باہر چلے جائیں تو قیصرہ خالہ کو کون دیکھے گا......۔
اے !خدا کانام لو...ارشد کے لئے توماں سے بڑھ کر دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ اس کااور اکبر کاکیامقابلہ...ویسے ماں نے جتنا اکبر کے لئے کیااتنا ارشد کے لئے کیابھی نہیں ...اماں اپنی سمدھن کوکیسے بخش سکتی تھیں۔
مگر حقیقت یہ تھی کہ ارشد بھائی کہاں رکنے والے تھے۔ وہ تو قدسیہ آپا تھیں جنہیں وطن سے باہر نکلنے سے نفرت تھی۔دارالکفر کا نام آتے ہی لاحول پڑھنے لگتی تھیں ویسے بھی وہ ہمارے گھرانے میں ''مولون'' ہی کے نام سے مشہور تھیں۔پاکستان کی اس قدر شیدائی تھیں کہ پارٹیشن کے وقت بچّی تھیں، پاکستان آتے ہوئے ذرا سی خراش بھی لگ گئی تو فخریہ بیان کرتی تھیں کہ پاکستان کی بنیاد میں میراخون بھی ہے۔باہر جانے والے جیٹھ تو رہے ایک طرف ،بہن بھائیوں سے بھی ناراض تھیں جو اس طرح اپنے والدین، رشتہ دار، دوست احباب ،دینی ماحول اور وطن عزیز چھوڑ کر صرف چند آسائشوں کی خاطر دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ ہمارا تو اسلام اور ایمان بھی ان کی نظروں میں مشتبہ تھا ...ہرخط میں یہی نصیحت ہوتی تھی کہ خدارا اپنے بچوں کے حال پر رحم کرو...اپنی آخرت تو بگاڑ ہی رہے ہو، نسلوں کو کیوں دین سے دور کرنے کا عہد کرلیاہے۔بچے بڑے ہورہے ہیں ...اب واپس آنے کاسوچو......''۔
قدسیہ آپا کے خطوط تو میرے لئے ڈوبتے کوتنکے کاسہارا کے مصداق ہوتے...میں ہرخط میں ان کے آگے اپنادل کھول کررکھ دیتی کہ آپا کیابتاؤں میں خود واپس آنے کے لئے کتنی بے چین ہوں...خاص طور پر بچوں کی خاطر...مگر ملک کے حالات خراب ہوتے دیکھ کر افضال کسی طرح آمادہ نہیں ہورہے...بس میرے بچوں کے لئے دعا کریں۔ اور قدسیہ آپا کے نصیحت بھرے سبق آموز خطوط مجھے رلادیتے۔ میری اسلامی غیرت ،حمیت اور جوشِ ایمان اپنے میاں سے بھرپور لڑائی کے موقعہ پر نمایاں ہوتی۔
تمہاری بہن کی دین داری اور وطن پرستی نے الگ میرے گھر کاچین ختم کیاہوا ہے......''
افضال اکثر نہایت غصے میں کہہ جاتے اوریوں میں نظریاتی طور پر اپنے میاں سے دور اور قدسیہ آپا سے قریب تر ہوتی چلی گئی...اکثر سوچتی ہوں کیسے باپ ہیں جنہیں فکر ہی نہیں کہ ان کے بچے یہاں کے پراگندہ ماحول کے اثرات کاشکار ہورہے ہیں انہیں تو بس اپنی نوکری اور اخبار پڑھنے کے علاوہ کسی چیز سے مطلب ہی نہیں ...میں اپنی کمیونٹی کی ایک سے ایک بڑھ کر خوفناک اور ہو ش اڑا دینے والی خبر افضال کوسناتی اور وہ ''اللہ رحم کرے'' کہہ کر رہ جاتے۔پھر میں دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے قدسیہ آپا کوخط لکھتی کہ پیاری آپا مجھے مشورہ دیجئے کہ میں کس طرح اس ماحول میں یہاں کی برائیوں سے بچ کررہوں۔اور اس کے جواب میں قدسیہ آپا کے دل میں اتر جانے والے مشورے...دارالکفر اور مغربی تہذیب سے نفرت...یہاں کی مادی آسائشوں کاآخرت سے مقابلہ...ہرلمحہ اسلامی تعلیمات پر چلنے کی تلقین...بچوں کے دل میں قرآن کے ذریعے اسلام اور اسلامی مملکت کی محبت پیدا کرنے کی نصیحتیں ،میرے لئے راہیں کھلتی جاتیں اوردل کو بڑاسکون ملتا... میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ انشاء اللہ تعالی میں ضرور بہ ضرور پاکستان واپس چلی جاؤں گی... قدسیہ آپا کاساتھ ہوگا... ان کے بچوں کاماحول میرے بچوں کوملے گا اور میرے بچے نیک سیرت اورباکردار بن جائیں گے۔ بڑے ہوکر ملک و قوم کی خدمت اور پاکستان کانام روشن کریں گے...اسی خیال کے تحت آہستہ آہستہ میں بچوں کو ذہنی طور پر تیار کرتی رہی ... وقتاً فوقتاً کانوں میں بھی کچھ نہ کچھ ڈالتی رہتی۔ بالآخر آرزوئیں رنگ لائیں۔ دعائیں قبول ہوئیں اور حالات رخ بدلنے لگے ...جب ماحول کی آلودگیاں کمیونٹی کے اکثر گھروں کواپنی لپیٹ میں لینے لگیں تو افضال کی نظریں بھی تیزی سے بڑھتے ہوئے بچوں کی طرف اٹھنے لگیں ...اور وہ دن میری زندگی کا سب سے زیادہ پرمسرت دن تھا جب افضال نے کہا۔''آمنہ میں سوچتا ہوں کہ پانی سر سے اونچا ہونے سے پہلے ہی عقل مندی کافیصلہ کر لینا چاہیئے''۔ کیا مطلب آپکا؟میں سمجھی نہیں ...
مطلب یہ کہ اس سے پہلے کہ بچے یہاں کے ماحول میں اس قدر رنگ جائیں کہ اپنے ملک جانے سے انکار ہی کر بیٹھیں ...ہمیں اپنارختِ سفر باندھ لینا چاہیئے ...
''واقعی...یہ آپ کہہ رہے ہیں ؟''
ہاں بھئی ...اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر ہمیں یہ جگہ چھوڑنی ہی ہوگی...تاکہ مسلمان بن کر رہیں اور اپنا دین و ایمان قائم رکھ سکیں...میں خوشی سے پھولے نہ سمائی ...افضال آپ کافیصلہ بروقت اوردانش مندانہ ہے...دل کی خوشی کو چھپاتے ہوئے میں نے حامی بھرلی...اور ہاں قدسیہ آپا کوخط لکھ دو کہ ان کے خیالات نے ہمیں دانشمندانہ فیصلہ کرنے میں بڑی مدد دی ہے ...افضال نے مسکر کر کہااور میں خوشی سے جھوم اٹھی...صبح بچوں کو سکول بھیج کر سب سے پہلاکام میں نے یہ کیاکہ قدسیہ آپا کو ایک تفصیلی خط لکھا...حقیقت یہ تھی کہ ان کی رہنمائی، خلوص نیت اور اسلام سے بے پناہ لگاؤ کی وجہ ہی میرے دل میں ایک شمع روشن ہوئی تھیں...خط لکھنے کے بعد اتنا صبر نہ ہوسکا کہ اسے بعد میں افضال سے پوسٹ کرواتی۔ چنانچہ خط لے کر خود ہی باہر نکلنے لگی کہ پوسٹ مین آگیا...ڈاک میں قدسیہ آپا کا خط دیکھ کر میں رک گئی...بے تابی سے کھول کر پڑھنا شروع کیالکھا تھا ...''آمنہ جانی''ڈھیروں دعائیں...یہ خط تمہیں بڑی جلدی میں لکھ رہی ہوں کہ پچھلے دنوں بڑی مصروف رہی ...اب ایک خوشخبری سنو...سب سے پہلے میں تمہیں لکھ رہی ہوں کہ ہم لوگوں نے بھی کینیڈا آنے کافیصلہ کر لیاہے اور وہ بھی بڑے غور و خوض کے بعد...بچوں کے مستقبل کی خاطر یہ قدم اٹھایاہے دانشمندی اسی میں نظرآئی کہ بچوں کو وہاں اکیلا بھیجنے کے بجائے خود بھی ان کے ساتھ چلی چلوں۔ ویسے بھی ملک کے حالات بہت خراب ہیں ...اب پاکستان رہنے کی جگہ نہیں رہا۔ارشد کی امی کے پاس ان کی رشتے کی بھانجی آکر مکان کے اوپر والے حصے میں رہیں گی نیچے والا حصہ کرایہ پر دے دیاہے میراتوخیال ہے کہ یہ گھر بیچ کر وہاں کینیڈا میں کوئی چھوٹا سامکان خرید لیتے ہیں لیکن ارشد کی امی کی وجہ سے گھر نہیں بیچ سکتے...اب تم فوراً لکھو کہ وہاں آنے کے لئے مجھے کیاکیاتیاری کرنی چاہیئے؟۔
اس سے آگے مجھ سے کچھ نہ پڑھاگیا...دماغ ہچکولے کھانے لگا...اور خط ...میری مٹھی میں دباہوا مجھے ایک سانپ کی طرح ڈسنے لگا...''بچوں کے مستقبل کی خاطر!...بچوں کے مستقبل کی خاطر!''...میں ان الفاظ کے زہر میں ڈوب کررہ گئی...
شہناز احمد (آٹووا)