• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اقامت کب کہنی چاہیے ۔۔ اور مقتدی اقامت سن کر کب کھڑا ہو ؟؟؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

اقامت کب کہنی چاہیے

جی میرا سوال ہے کہ موذن کو اقامت کب کہنی چاہیے جب وہ امام کو دیکھے یا اسکے بغیر بھی بول سکتا ہے

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,592
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
اقامت کب کہنی چاہیے
میرا سوال ہے کہ موذن کو اقامت کب کہنی چاہیے جب وہ امام کو دیکھے یا اسکے بغیر بھی بول سکتا ہے
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
(صحيح فقه السنة وأدلته ) میں اس مسئلہ کے ضمن میں درج ہے کہ :
متى يقيم الصلاة؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔اقامت کس وقت کہی جائے ؟
1 - الأصل أن لا يقيم إلا إذا رأى الإمام، اصل تو یہی ہے کہ جب امام کو دیکھے اس وقت اقامت کہنا شروع کرے ، جیسا درج ذیل حدیث شریف سے واضح ہے :
فعن جابر بن سمرة رضي الله عنه، قال: عنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: كَانَ بِلَالٌ، " يُؤَذِّنُ إِذَا دَحَضَتْ، فَلَا يُقِيمُ حَتَّى يَخْرُجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا خَرَجَ، أَقَامَ الصَّلَاةَ حِينَ يَرَاهُ "
سيدنا جابر رضي اللہ عنہ نے کہا: بلال رضي اللہ عنہ جب زوال ہوتا اذان ديتے اور اقامت نہ کہتے يہاں تک کہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم تشريف لائيں ، جب آپ صلي اللہ عليہ وسلم تشريف لاتے اور بلال رضي اللہ عنہ ديکھ ليتے تب تکبير کہتے۔ (صحيح: أخرجه مسلم (606)

2 - ويشرع أحيانًا أن يقيم قبل أن يخرج الإمام، إذا رآه من بعيد أو علم بقرب خروجه كما في حديث
ہاں کبھی ایسے بھی جائز ہے کہ امام کے نماز کے نکلنے سے کچھ پہلے ہی اقامت کہہ دی جائے جب علم ہو کہ امام صاحب آرہے ہیں ، یا دور سے امام کو آتا دیکھے ،جیسے کہ ذیل کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے ؛
عن أبي هريرة «أن الصلاة كانت تقام لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فيأخذ الناس مصافهَّم قبل أن يقوم النبي صلى الله عليه وسلم مقامه» (صحيح: أخرجه مسلم (605)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز کی تکبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے کہی جاتی تھی اور لوگ صفوں میں اپنی جگہ لے لیتے تھے قبل اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ کھڑے ہوں۔
---------------------------------------------------
اور علامہ محمد بن صالح بن عثیمین سے سوال ہوا کہ :
هل يجوز للمؤذن أن يقيم الصلاة بدون أن يأذن له الإمام؟
کیا مؤذن کیلئے یہ جائز ہے کہ امام کی اجازت کے بغیر اقامت کہہ دے ؟
محمد بن صالح العثيمين

السؤال: ما رأي فضيلتكم في مؤذن يقول: عند صلاة الصبح كلما أريد أن أقيم الصلاة لضيق الوقت يطلب مني المصلون أن أجلس حتى يأذن لي الإمام ويقولون أنه لا يجوز أن أقيم الصلاة حتى يأذن لي الإمام فهل هذا صحيح؟
سوال : صبح کی نماز میں وقت کی تنگی کے سبب مؤذن اگر اقامت کہنا چاہے تو دیگر نمازی اسے کہتے ہیں کہ ابھی ٹھہر جاؤ ، جب امام صاحب کہیں گے تو اس وقت اقامت کہنا ۔ان کا کہنا ہے کہ مؤذن کیلئے بلا اذن امام اقامت کہنا جائز نہیں ، کیا یہ صحیح ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب :
الإجابة: المؤذن أملك بالأذان فإليه يرجع الأذان، وأما الإقامة فإن الإمام أملك بها فلا يقيم المؤذن إلا بحضور الإمام وإذنه.
وأما قوله: لضيق الوقت فنعم إذا تأخر الإمام حتى كادت الشمس تطلع وضاق الوقت فحينئذ يصلون ولا ينتظرونه، أما ما دام الوقت باقياً فإنهم لا يصلون حتى يحضر الإمام، لكن ينبغي للإمام أن يحدد وقتاً معيناً للناس، فيقول مثلاً: إذا تأخرت عن هذا الوقت فصلوا ليكون في هذا الحال أيسر لهم وأصلح له هو أيضاً ولا يقع الناس في حرج أو ضيق.

واضح ہو کہ اذان دینے میں مؤذن کو اختیار ہے ، جبکہ اقامت کا زیادہ اختیار امام صاحب کے ہاتھ ہے ، تو اسلئے امام کی موجودگی اور اجازت سے ہی اقامت کہنا ہوگی ،
جہاں تک وقت کی قلت و تنگی کا مسئلہ ہے تو اگر امام اتنا لیٹ ہوجائے کہ طلوع شمس قریب ہوجائے تو ایسی صورت میں امام کی اجازت و موجودگی کی ضرورت نہیں ۔
اور نماز کا مقررہ وقت باقی رہنے تک امام کا انتظار کرنا چاہیئے ، لیکن امام کو بھی چاہیئے کہ وہ جماعت کا وقت مقرر کردے ،اور بتادے کہ اس وقت تک اگر میں نہ پہنچوں تو جماعت کروالی جائے ، میرا انتظار نہ کیا جائے ، تاکہ نمازیوں کیلئے آسانی رہے، اور کوئی مسئلہ نہ ہو ۔
مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين المجلد الثاني عشر - باب الأذان والإقامة.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Last edited:

abulwafa80

رکن
شمولیت
مئی 28، 2015
پیغامات
64
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
57
اگر امام پہلے سے موجود ہوں مسجد میں تو؟
اور امام آگے مصلی پر ہو پہر اقامت ہو تو کب کہڑا ہونا چاہئے۔۔۔۔۔۔

کچہ حنفی کہتے ہیں جب حی اعلی الصلوۃ ہو تب کہڑا ہونا سنت ہے کیا ایسی کوئی حدیث ہے۔۔؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
اقامت شروع ہو تو کھڑے ہوجانا چاہیے۔ اقامت کے دوران کوئی خاص وقت نہیں کھڑے ہونے کا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,592
پوائنٹ
791
اگر امام پہلے سے موجود ہوں مسجد میں تو؟
اور امام آگے مصلی پر ہو پہر اقامت ہو تو کب کہڑا ہونا چاہئے۔۔۔۔۔۔
کچہ حنفی کہتے ہیں جب حی اعلی الصلوۃ ہو تب کہڑا ہونا سنت ہے کیا ایسی کوئی حدیث ہے۔۔؟

مقتدی کب کھڑے ہوں؟
مقتدی کب کھڑے ہوں؟اس مسئلہ میں وسعت ہے، امام کے آنے کا یقین ہو تو پہلے بھی کھڑا ہوا جاسکتا ہے۔اسی طرح اقامت کے شروع میں، قد قامت الصلاۃ کے الفاظ سن کر اور اقامت مکمل ہونے کے بعد بھی کھڑا ہونا درست ہے،جیسا کہ :
٭سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’إِذَا أُقِیمَتِ الصَّلاَۃُ؛ فَلاَ تَقُومُوا حَتّٰی تَرَوْنِي‘ ۔
’’جب نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو جب تک مجھے نہ دیکھو،کھڑے نہ ہوجاؤ۔‘‘
(صحیح البخاري : 637، صحیح مسلم : 604)
٭ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
کَانَ بِلَالٌ یُّؤَذِّنُ إِذَا دَحَضَتْ، فَلَا یُقِیمُ حَتّٰی یَخْرُجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا خَرَجَ؛ أَقَامَ الصَّلَاۃَ حِینَ یَرَاہُ ۔
’’سیدنا بلال رضی اللہ عنہ (ظہر کی)اذان اس وقت کہتے جب سورج (سر سے)ڈھل جاتا۔جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لاتے،سیدنا بلال اقامت نہ کہتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلتے،تو آپ کو دیکھتے ہی بلال رضی اللہ عنہ اقامت کہہ دیتے۔‘‘
(صحیح مسلم : 606)
سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے انتظار میں رہتے تھے۔جوں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمودار ہوتے،آپ کو دیکھتے ہی اقامت کہہ دیتے۔جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیتے،وہ بھی کھڑے ہو جاتے،یوں دونوں حدیثوں میں جمع و تطبیق ہو جاتی ہے۔
٭ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّ الصَّلَاۃَ کَانَتْ تُّقَامُ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَیَأْخُذُ النَّاسُ مَصَافَّہُمْ، قَبْلَ أَنَّ یَّقُومَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَقَامَہٗ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز کی اقامت کہہ دی جاتی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی جگہ پر کھڑے ہونے سے پہلے ہی لوگ صفوں میں اپنی جگہوں پر کھڑے ہو جاتے۔‘‘
(صحیح البخاري : 639، صحیح مسلم : 605، واللّفظ لہٗ)
ایسا تو بیانِ جواز یا عذر کی بنا پر کبھی کبھار ہوجاتا ہو گا،جیسا کہ :
٭شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فَیُجْمَعُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ حَدِیث أَبِي قَتَادَۃَ بِأَنَّ ذٰلِکَ رُبَّمَا وَقَعَ لِبَیَانِ الْجَوَاز ۔
’’اس حدیث اور سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں تطبیق یہ ہے کہ ایسا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھار بیانِ جواز کے لیے کیا۔‘‘
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 120/2)
 
Top