السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
اقامت کب کہنی چاہیے
میرا سوال ہے کہ موذن کو اقامت کب کہنی چاہیے جب وہ امام کو دیکھے یا اسکے بغیر بھی بول سکتا ہے
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
(صحيح فقه السنة وأدلته ) میں اس مسئلہ کے ضمن میں درج ہے کہ :
متى يقيم الصلاة؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔اقامت کس وقت کہی جائے ؟
1 -
الأصل أن لا يقيم إلا إذا رأى الإمام، اصل تو یہی ہے کہ جب امام کو دیکھے اس وقت اقامت کہنا شروع کرے ، جیسا درج ذیل حدیث شریف سے واضح ہے :
فعن جابر بن سمرة رضي الله عنه، قال: عنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: كَانَ بِلَالٌ، " يُؤَذِّنُ إِذَا دَحَضَتْ، فَلَا يُقِيمُ حَتَّى يَخْرُجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا خَرَجَ، أَقَامَ الصَّلَاةَ حِينَ يَرَاهُ "
سيدنا جابر رضي اللہ عنہ نے کہا: بلال رضي اللہ عنہ جب زوال ہوتا اذان ديتے اور اقامت نہ کہتے يہاں تک کہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم تشريف لائيں ، جب آپ صلي اللہ عليہ وسلم تشريف لاتے اور بلال رضي اللہ عنہ ديکھ ليتے تب تکبير کہتے۔ (صحيح: أخرجه مسلم (606)
2 -
ويشرع أحيانًا أن يقيم قبل أن يخرج الإمام، إذا رآه من بعيد أو علم بقرب خروجه كما في حديث
ہاں کبھی ایسے بھی جائز ہے کہ امام کے نماز کے نکلنے سے کچھ پہلے ہی اقامت کہہ دی جائے جب علم ہو کہ امام صاحب آرہے ہیں ، یا دور سے امام کو آتا دیکھے ،جیسے کہ ذیل کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے ؛
عن أبي هريرة «أن الصلاة كانت تقام لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فيأخذ الناس مصافهَّم قبل أن يقوم النبي صلى الله عليه وسلم مقامه» (صحيح: أخرجه مسلم (605)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز کی تکبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے کہی جاتی تھی اور لوگ صفوں میں اپنی جگہ لے لیتے تھے قبل اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ کھڑے ہوں۔
---------------------------------------------------
اور علامہ محمد بن صالح بن عثیمین سے سوال ہوا کہ :
هل يجوز للمؤذن أن يقيم الصلاة بدون أن يأذن له الإمام؟
کیا مؤذن کیلئے یہ جائز ہے کہ امام کی اجازت کے بغیر اقامت کہہ دے ؟
محمد بن صالح العثيمين
السؤال: ما رأي فضيلتكم في مؤذن يقول: عند صلاة الصبح كلما أريد أن أقيم الصلاة لضيق الوقت يطلب مني المصلون أن أجلس حتى يأذن لي الإمام ويقولون أنه لا يجوز أن أقيم الصلاة حتى يأذن لي الإمام فهل هذا صحيح؟
سوال : صبح کی نماز میں وقت کی تنگی کے سبب مؤذن اگر اقامت کہنا چاہے تو دیگر نمازی اسے کہتے ہیں کہ ابھی ٹھہر جاؤ ، جب امام صاحب کہیں گے تو اس وقت اقامت کہنا ۔ان کا کہنا ہے کہ مؤذن کیلئے بلا اذن امام اقامت کہنا جائز نہیں ، کیا یہ صحیح ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب :
الإجابة: المؤذن أملك بالأذان فإليه يرجع الأذان، وأما الإقامة فإن الإمام أملك بها فلا يقيم المؤذن إلا بحضور الإمام وإذنه.
وأما قوله: لضيق الوقت فنعم إذا تأخر الإمام حتى كادت الشمس تطلع وضاق الوقت فحينئذ يصلون ولا ينتظرونه، أما ما دام الوقت باقياً فإنهم لا يصلون حتى يحضر الإمام، لكن ينبغي للإمام أن يحدد وقتاً معيناً للناس، فيقول مثلاً: إذا تأخرت عن هذا الوقت فصلوا ليكون في هذا الحال أيسر لهم وأصلح له هو أيضاً ولا يقع الناس في حرج أو ضيق.
واضح ہو کہ اذان دینے میں مؤذن کو اختیار ہے ، جبکہ اقامت کا زیادہ اختیار امام صاحب کے ہاتھ ہے ، تو اسلئے امام کی موجودگی اور اجازت سے ہی اقامت کہنا ہوگی ،
جہاں تک وقت کی قلت و تنگی کا مسئلہ ہے تو اگر امام اتنا لیٹ ہوجائے کہ طلوع شمس قریب ہوجائے تو ایسی صورت میں امام کی اجازت و موجودگی کی ضرورت نہیں ۔
اور نماز کا مقررہ وقت باقی رہنے تک امام کا انتظار کرنا چاہیئے ، لیکن امام کو بھی چاہیئے کہ وہ جماعت کا وقت مقرر کردے ،اور بتادے کہ اس وقت تک اگر میں نہ پہنچوں تو جماعت کروالی جائے ، میرا انتظار نہ کیا جائے ، تاکہ نمازیوں کیلئے آسانی رہے، اور کوئی مسئلہ نہ ہو ۔
مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين المجلد الثاني عشر - باب الأذان والإقامة.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ