احادیث کی تحقیق وتخریج :غور وفکر کے چند پہلو
تحریر : رفیق احمد رئیس سلفی
( مکمل تحریر
یہاں ملاحظہ کریں )
اردو قارئین کے لیے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر فن حدیث سے واقف نہیں ہیں،رجال حدیث کی انھیں خبر نہیں ہے،اصول حدیث کی بھاری بھرکم اصطلاحات انھوں نے سنی بھی نہیں ہیں اور ائمہ جرح وتعدیل کے مناقشے اور تجزیے سے انھیں کوئی واسطہ نہیں ہے۔ البتہ اب ایک بڑی تعداد یہ ضرور چاہتی ہے کہ ہم صرف صحیح اور حسن احادیث پر عمل کریں کیوں کہ یہ موٹی بات ان کی سمجھ میں آگئی ہے کہ موضوع اور منکر حدیث نہ قابل عمل ہے اور نہ اس سے دین کا کوئی مسئلہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ان کی اس دینی بیداری کو اس وقت بڑی تقویت ملی جب ابوداؤد،ابن ماجہ اور نسائی کے اردو تراجم تحقیق وتخریج کے ساتھ شائع ہوئے۔اب وہ آسانی سے ان کتابوں میں موجود احادیث کی استنادی حیثیت معلوم کرسکتے ہیں۔ہر حدیث اعراب کے ساتھ موجود ہے،اس کا بہترین رواں ترجمہ بھی ہے ،فوائد ومسائل انتہائی اختصار اور جامعیت کے ساتھ لکھے گئے ہیں اور سب سے اہم کام یہ کہ ہر حدیث پر نیچے حاشیہ دے کر اس کی مکمل تخریج کی گئی ہے یعنی یہ بتادیا گیا ہے کہ یہ حدیث مزید کن کن کتابوں میں پائی جاتی ہے اور قوسین میں اس کا حکم بھی بیان کردیا گیا ہے۔البتہ اردو قارئین کی ایک بڑی الجھن بھی سامنے آرہی ہے ،اس کو سمجھنا اور پھر کوئی حل تلاش کرنا اس وقت کی ایک بڑی ضرورت ہے۔ایک واقعے سے اس الجھن کو سمجھا جاسکتا ہے اور اگر اسے دور نہ کیا گیا تو خود حاملین منہج سلف میں کس طرح کا فکری انتشار پیدا ہوسکتا ہے ،اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:
علی گڑھ میں میرے ایک دوست ہیں جو الحمد للہ حافظ قرآن ہیں ،نئے اہل حدیث ہیں اور دین کے احکام ومسائل کے تعلق سے وسیع معلومات رکھتے ہیں۔ایک دن انھوں نے مجھے مولانا عبدالسلام بستوی رحمہ اللہ کی کتاب’’اسلامی وظائف‘‘کا ایک ایسا ایڈیشن دکھایا جو محقق تھا اور جس کی تمام احادیث کی تخریج کرکے ان پر حکم لگایا گیا تھا۔یہ تمام علمی کام پاکستان کے مشہور محقق حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے ایک شاگرد کا ہے۔ ٹائٹل سے معلوم ہوتا ہے کہ نظر ثانی کا کام حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے کیا ہے۔ہمارے دوست نے اسی نسخے کا ایک صفحہ کھولا جس میں موجود ایک دعا پر مشتمل حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم لگا ہوا تھا اور پھر انھوں نے سنن ابی داؤد کا وہ اردو ترجمہ نکالا جو دارالدعوۃ دہلی سے شائع ہوا ہے۔اسلامی وظائف میں زیر گفتگو حدیث کے لیے حوالہ سنن ابی داؤد کا دیا ہوا تھا،اس لیے انھوں نے رقم حدیث کے ذریعے ابوداؤ سے وہ حدیث نکال لی۔اس میں اسی حدیث پر صحیح ہونے کا حکم لگا ہوا ہے۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟کس کو صحیح سمجھیں اور کس پر اعتماد کریں؟دارالدعوۃ دہلی سے شائع شدہ سنن ابی داؤد کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ اس کی احادیث کی تحقیق وتخریج کا کام ہمارے فاضل بزرگ دوست شیخ احمد مجتبیٰ سلفی مدنی حفظہ اللہ کا ہے اور وہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیقات پر اعتماد کرتے ہیں،اس لیے مجھے یہ اندازہ کرنے میں مشکل نہیں پیش آئی کہ سنن ابی داؤد کی مذکورہ حدیث پر حکم دراصل علامہ البانی کا ہے اور اسلامی وظائف پر حکم حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا ہے۔دونوں محققین کے یہاں اصول حدیث کے بعض مباحث میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔خاص طور پر تدلیس کے مسئلے میں علامہ البانی کا موقف کچھ ہے اور حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا کچھ ہے۔
یہی حال دارالسلام ریاض سے شائع شدہ سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ کا ہے۔محترم عبدالمالک مجاہد صاحب نے تحقیق وتخریج حدیث کا کام حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے کرایا ہے اور پھر نظر ثانی مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب حفظہ اللہ سے کرائی ہے ۔ یہاں بھی وہی صورت حال ہے۔حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ایک حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم لگاتے ہیں اور حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ دوسرے محققین کا حوالہ دے کر اسے صحیح یاحسن قرار دیتے ہیں۔یہ دونوں حکم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔قارئین کے اطمینان کے لیے میں یہاں ایک اقتباس درج کرنا چاہوں گا ۔فن حدیث سے شغف رکھنے والے اہل علم حضرات سے بھی درخواست ہے کہ وہ بھی اس مسئلے پر ہمدردی سے غور کریں اور اردو قارئین کو کچھ مشورے دیں تاکہ وہ اپنے فکر وعمل میں توازن پیدا کرسکیں اور فکری انتشار سے محفوظ رہیں:
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر:۲۸۸،کو حافظ ابوطاہر زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے سلیمان اعمش کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے لیکن فوائد ومسائل کے ذیل میں مولا ناعطاء اللہ ساجد حفظہ اللہ لکھتے ہیں :ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے جب کہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔تفصیل کے لیے دیکھئے:(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد۳؍۳۷۲،حدیث:۱۸۸۲،وصحیح الترغیب للالبانی،حدیث:۲۰۸،وصحیح أبی داؤد للالبانی، حدیث:۵۲)لہٰذا مذکورہ حدیث دیگر شواہد کی بناپر قابل حجت ہے۔
محترم عبدالمالک مجاہد صاحب نے یہ ایڈیشن شائع کرکے جماعت اہل حدیث کو سخت آزمائش میں مبتلا کردیا ہے ۔برصغیر کے مناظرانہ ماحول کو وہ بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں ،انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ مسلکی تشدد اور تلخیوں نے اس کی دینی فضا کو مسموم کررکھا ہے۔اپنی تمام تر بے اعتدالیوں کے باوجود تقلید کے پرستار اپنی اکثریت کا راگ الاپتے اور عوام کو کتاب وسنت سے دور رکھنے میں بڑی حد تک کامیاب ہیں۔ایک بڑا طبقہ میلاد اور قوالی کو عین تقاضائے اسلام سمجھتا ہے اور دوسرا طبقہ چلہ کشی اور صوفیانہ کشف وکرامات کا اسیر ہے ۔اہل حق کی معمولی کمزوری اسے بیساکھی فراہم کردیتی ہے اور وہ انھیں ائمہ کا گستاخ اور صوفیائے کرام کی جناب میں بے ادب کہنے میں کوئی شرم نہیں محسوس کرتے۔ یہاں تو ابھی تک ہم نواب وحید الزماں حیدرآبادی اور نواب صدیق حسن خاں کے فقہی ونظریاتی تفردات سے جوجھ رہے تھے اور مخالفین جماعت نے ان کے حوالے سے کئی ایک کتابیں لکھ دی ہیں اور ان کو جگہ جگہ تقسیم کرتے اور پھیلاتے ہیں۔ابوبکر غازی پوری کی تمام دل آزار کتابیں آج بھی جگہ جگہ نظر آتی ہیں،اس اللہ کے بندے نے جو اب دنیا میں نہیں رہے،الٹے سیدھے اقتباسات جہاں تہاں سے نقل کرکے جماعت اہل حدیث،اس کی فکر اور اس کے علما کو جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا ہے ،اس کو پڑھتے ہوئے نہیں لگتا کہ یہ تحریر کسی ایسے عالم دین کی ہوسکتی ہے جس نے اسلامی شریعت کی تعلیم حاصل کی ہو اور جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو۔اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے لہٰذا ان کے بارے میں مزید کچھ کہنا مناسب نہیں ،اس لیے کہ شریعت وفات پائے ہوئے لوگوں کی اچھائیاں اور نیکیاں یاد کرنے کا حکم دیتی ہے اور لغزشوں اور تسامحات کے لیے دعائے مغفرت کرنے کی تاکید کرتی ہے۔ان حالات میں تضادات سے بھرپور کتابیں شائع کرنا کہاں تک مناسب ہوسکتا ہے۔اگر ہمیں علامہ البانی کے حکم پر اعتماد نہیں تھا اور ہم حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی تحقیقات پر اعتماد کرتے تھے تو پھر اسی تحقیق کو شائع کیا جاتا۔حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ خود ایک ذمہ دار عالم دین، مفسر،محدث اور فقیہ ہیں ،ان کی اپنی تحقیقات شائع کی جاتیں لیکن یہ کیا کہ تحقیق تو حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی ہے اور نظر ثانی حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کی جس میں جگہ جگہ وہ محقق سے اختلاف کرتے ہیں اور جس حدیث کو انھوں نے ضعیف قرار دیا ہے،اس کے بارے میں یہ لکھتے ہیں کہ بعض دوسرے محققین نے اسے صحیح یا حسن کیا ہے۔ اردو کا ایک عام قاری کیا کرے گا۔بلکہ بہت سے علماء اس تضاد بیانی سے الجھنوں کا شکار ہوجائیں گے۔
ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ بعض راویان حدیث کے سلسلے میں ائمہ جرح وتعدیل کی آراء مختلف ہیں ،اسی طرح اصول حدیث کی بعض بحثیں اپنے اندر خاصی وسعت رکھتی ہیں اور اپنے اپنے نقطہائے نظر کے مطابق ائمہ جرح وتعدیل بعض احادیث پر حکم لگاتے ہیں ۔اہل علم ان مباحث سے چوں کہ واقف ہیں،اس لیے ان کے لیے حدیث پر لگائے جانے والے حکم کے اختلاف کو سمجھنا اور اس کا تجزیہ کرنا آسان ہے لیکن عوام یا حدیث سے کماحقہ واقفیت نہ رکھنے والے اہل علم کیا کریں گے۔کاش محترم عبدالمالک مجاہد صاحب تک میری یہ بات پہنچ پاتی اور ہم ان سے یہ درخواست کرتے کہ آیندہ کے ایڈیشن میں اس تضاد بیانی اور متضاد احکام سے کتب احادیث کے اردو ترجموں کو پاک رکھیں۔ورنہ خود محبان کتاب وسنت میں اختلاف فکر ونظر پیدا ہوجائے گا اور مخالفین کے یہاں ہماری یہ روش مضحکہ خیز بن جائے گی۔
آخر میں ایک بات یہ بھی عرض کردوں کہ حکم احادیث کا اختلاف ہو یا فقہی احکام ومسائل کا اختلاف،عوام الناس اسے ہضم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ بعض بے عمل اور بدعمل لوگ علمائے کرام کے اندر پائے جانے والے ان اختلافات کو استہزاء کا موضوع بناتے ہیں۔ لہٰذا کوشش یہ ہونی چاہیے کہ عام اہل حدیث علماء کے متفقہ فیصلے سے اختلاف ہونے کی صورت میں خود انہی سے رجوع کیا جائے اور اپنے دلائل سے انھیں آگاہ کرکے مسئلے کی صحیح نوعیت سامنے لائی جائے ۔عجلت میں ایک نیا مسئلہ اور ایک نئی تحقیق شائع کرکے عوام کے ہاتھوں میں تھمادینا نہ دین داری ہے اور نہ صحیح طرز فکر وعمل۔اس سے صرف فکری انتشار پیدا ہوگا اور متضاد قسم کے گروہ وجود میں آئیں گے۔مجھے یاد ہے شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی رحمہ اللہ نے اپنے ایک مکتوب میں سختی سے اس بات سے منع کیا ہے کہ استفسارات کے جو جواب وہ تحریر کرتے ہیں ،انھیں جماعتی رسائل میں شائع کردیا جائے ۔حدیث کی صحت اور ضعف کا مسئلہ بہت نازک ہے۔بہتر ہوگا کہ اس سلسلے میں ڈاکٹرعبدالباری فتح اللہ،ڈاکٹر وصی اللہ محمد عباس، ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی اور شیخ محمد جعفر مدنی (جامعہ اسلامیہ دریاباد )حفظہم اللہ سے رجوع کیا جائے اور ان حضرات سے درخواست کی جائے کہ علامہ البانی اور حافظ زبیر علی زئی کے نقطہائے نظر میں جو اختلاف ہے ،اس کو واضح کردیں اور حق وصواب کا معاملہ کس طرف ہے ،اس کی بھی تعیین فرمادیں ،ورنہ آگے چل کر یہ اختلاف مزید وسعت اختیار کرے گا اور افراد جماعت انتشار کا شکار ہوں گے۔